(مطبوعہ ’’اسباق‘‘ پونے، مہاراشٹرا)
نور پرکار کی نظم ’’کہا اُس نے۔۔۔‘‘
(یہ تجزیہ اُس وقت کا ہے جب نور پرکار کویت میں مقیم تھے۔ اب تو وہ ممبئی میں رہتے ہیں)
تعارف:
اسلوبیاتی مطالعہ کے لیے زمانۂ حال میں ایک اہم موضوع مقیم (Resident) اور غیر مقیم (Non-Resident) شعرا اور ادبا کی تخلیقات کا تقابلی موازنہ بھی ہو سکتا ہے۔ وطن اور دیار غیر میں بسنے والے فن کاروں کے تجربات، مسائل اور موضوعات میں واضح تفاوت ہے۔ شائع ہونے والی تخلیقات کا اگر بہ غور مطالعہ کیا جائے، ایک وقتی نقطہ پر دونوں ہی جانب دو جدا لب و لہجہ کے ادب و شعر فروغ پا رہے ہیں اور دونوں ہی اُردو کی بقا اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
میرا ایک سطحی اندازہ یہ ہے کہ غیر مقیم شعرا جغرافیائی، فضائی اور بصری عناصر کے مقابل داخلی احساسات اور لفظیاتی واسطہ کی جانب زیادہ مائل نظر آتے ہیں۔
غیر مقیم شاعر(اور ادیب) کی ایک مثال نور پرکار ہیں، جن کی زیر مطالعہ نظم اسی قسم کی داخلی کیفیت سے مملو ہے۔ نور پرکار برسوں سے کویت میں مقیم ہیں، یہاں کے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں اردو کے ایک اہم نمائندہ ہیں، ادبی تحریکات، مشاعروں، محفلوں اور مجلّوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات میں مراٹھی کے تراجم، افسانے، نثری مضامین، شاعری اور اہم ادبی رسائل کی ’’مہمان‘‘ ادارت سب شمار کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ان کی مصروفیات کو دیکھا جائے تو بے حد خارج پسند (Extrovert) شخص ملے گا لیکن ان کی نظموں کی طرف دیکھیں تو احساس ذات کی ایک داخلی سمت ان میں نظر آئے گی۔ ایسا شخص جو اظہار ذات کے لیے عوام کی پسند اور رائج لب و لہجہ کی پروا نہیں کرتا، عموماً غیر ممالک کی ادبی محفلوں میں نثری شاعری پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی۔ اکثر ذوقِ سخن سے بہرہ متشاعر اور نیم شاعر تو بدک جاتے ہیں۔ پھر محدود محفلوں میں گہرے ادب کا رواج نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے (’’زبانِ میر سمجھے۔۔۔‘‘ والی کیفیت ہے)۔ لیکن نور نے بڑی دلیری (بلکہ دیدہ دلیری) سے روایت سے انحراف کیا ہے۔ قصداً اور ارادتاً۔ نور پرکار کی نظم کا واحد متکلم بالکل منفرد ہے تنہائی پسند بلکہ فراریت کی طرف مائل، خارج کے مقابل داخل کی طرف راغب، اکھڑا اکھڑا سا ایک شخص بھیڑ سے الگ ہوتا ہوا۔۔۔ (یہ تو وہی نور پرکار نہیں۔۔۔) ایک جداگانہ سا احساسات سے بوجھل فرد نظموں کے مرکزی کردار میں ملتا ہے۔
نظم کا جائزہ:
نور پرکار بنیادی طور پر افسانہ گو، بلکہ افسانہ گر ہیں۔ ان کی بیش تر نظمیں نثری آہنگ میں ہیں بلکہ بڑی حد تک شعری نثر پارے نظموں کے ظروف میں احساسات کے لباب چھلکتے ہوئے پیمانوں کی طرح ہیں جن کی ہر جھلک میں ایک تصویر کی لہر اٹھتی ہے۔
نور کی زبان مکالمے کی زبان ہے وہ مکالمے بولتے ہیں۔ مکالمے سنتے ہیں اور مکالموں کے واسطے سے اظہار کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی زیر تجزیہ نظم بھی ایک مکالماتی فن پارہ ہے۔ بالکل کسی افسانوی کردار کی زبان سے مدھم آہنگ میں خود کلامی سے قریب تر نہج پر سادہ اور عام زبان میں اظہار دروں ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار ایک ایسا شخص ہے جو ایک ایسی تشکیک کا شکار ہے جو تجربات کی تلخیوں اور رشتوں کی ناکامیوں سے منتج ہوئی ہے۔ لیکن یہ تشکیل سراسر شکست خوردنی نہیں ہے، اس کے پس پردہ بھی ایک ہلکی سی امید ہے جو سبزۂ خود رو کی طرح حالات کی گرد کے تلے سے ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
نور نے اس نظم میں جو تراکیب استعمال کی ہیں وہ بیش تر نیم تشبیہی ہیں۔ مستعمل علامات محدود ہیں۔ لفظوں کو ان کے مروجہ مطالب سے قریب تر رکھا گیا ہے۔
ان کی نظموں میں ایک عمومی رجحان یہ ہے کہ رواں دواں مکالماتی رو میں کہیں کہیں اچانک ایک ایسا ان مل (بے جوڑ سا) جملہ یا نعرہ داخل کر دیا گیا ہے۔ جو نہ صرف یہ کہ روانی کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی فکری یکسانیت میں شکن پیدا کر کے معنویت کو نیا رخ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً ’’نہ جانے ان دنوں‘‘ سے ’’نہ راز داں میرا‘‘ تک ایک رواں جملہ ہے جو یکایک ’’نہ روایت نہ کوئی عجیب قصہ ہے‘‘ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن تسلسل کو نبھاتے ہوئے شاعر فوراً ’’پھر بھی اسی سے برقرار ہر رشتہ ہے‘‘ کے مصرعے سے پورے بیان کو نفسِ مضمون کی باز آمد کی کوشش کرتا ہے۔
اسی طرح دوسرے بند میں ’’یا نام کی یادہ گوئی میں‘‘ ایک ایسا ہی ان مل سا جملہ ہے۔ اس نظم کے پہلے دو بنود میں شاعر کا مقصود کردار ایک غائب سی شخصیت ہے۔ جس کی کوئی توصیف نہیں کی گئی ہے، کوئی رومانی نسبت نہیں بیان کی گئی ہے۔ ہاں ایسا ضرور لگتا ہے کہ وہ کوئی ایسی مونس شخصیت ہے جو شاعر کو اس کے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے، بے تعلق ہوتے ہوئے قریب تر اور راز دار بھی۔ یہ غائب مقصود اپنی حرکات سے شاعر کی رفاقت کا کردار ادا کرتا ہے:
’’اسے یقین ہے کہ
گنگناہٹ میں خاموشی بھی بولے گی۔۔۔
بالوں میں انگلیاں ہزار زبانیں کھولیں گی۔۔۔‘‘
یہ غیر ناطق طور پر ہم رازی نبھانے والا فرد سادہ بھی ہے کہ سنگلاخ حیات کا ادراک بھی نہیں رکھتا۔ بس بالکل بے سبب بے مطلب طور پر شاعر کے ساتھ ساتھ سفر میں مصروف ہے۔ وہ تو اس بات سے بھی واقف نہیں ’’کہ دوست اپنانے کی مٹی ہوا میں نہیں!‘‘
(یہاں پر ’’مٹی‘‘ کا لفظ استعمال کر کے، شاعر نے بہ ظاہر ایک بے ربط لفظ کے ذریعے گہری معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے)۔
اور یہ کہ ’’کوئی سویرا آنگنوں میں پلتا ہی نہیں۔‘‘
ایسے سماج میں جس میں آنگن ناپید بلکہ خیال سا جزو مکان ہو کر رہ گیا ہے۔ اس میں سویرا اتارنے یا پالنے کی امید شاعر میں چھپے ہوئے خواب آسا فن کار کی فکر سے نسبت رکھتی ہے۔ اپنے وطن سے دور ’’فلیٹوں کے (عمیق حنفی مرحوم کے بہ قول ’’بند کابک گھروں کے‘‘) مکین کچھ ایسے ہی کرب کا شکار ہیں جو وطن سے متعلق جغرافیائی، فکری اور اقداری رشتہ کی کمزوری اور بعد کے سبب ہے۔ نہ اس میں کوئی آنگن ہے نہ کوئی مانوس موسم۔ یہاں کی موقتی مسرتیں اور تسکین خانوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ کیوں کہ بہ قول شاعر:
’’جسم کے خوش حال ہونے کا کوئی موسم نہیں‘‘
نظم کے آخری بند میں پہنچتے ہی احساس ہوتا ہے کہ شاعر اپنے مقصود ہم راز کو گھر کے ابعاد سے نکلتے ہی اور باہر آتے ہی راستہ کی گرد میں فراموش کر چکا ہے۔‘‘ کیوں کہ اجنبی راستہ پر وہ بھی ان ہزارہا سفر کرنے والوں میں سے ایک ہے جو ایک سست رو خود کشی میں لگے ہوئے ہیں اور اس کا ان کو خود بھی علم ہے نہ اطلاع کیوں کہ:
’’کہ آتما سے پرماتما تک
کھلے راستوں پر
کوئی قاتل ہی نہیں
اور سبھی مقتول ہیں‘‘
انجام کار شاعر حقائق اور حقائق کے اظہار سے دامن کشاں ہونا چاہتا ہے۔ اپنی تخلیقی دنیا سے فرار چاہتا ہے۔ اپنے احساسات کے بھیانک در و بام سے گریزاں ہو رہا ہے:
’’سجے سجائے کمروں میں
جب کبھی اپنے لکھے شبدوں سے ڈرتا ہوں
تو تنہا شہر کے گلی کوچوں میں
پھرا کرتا ہوں۔۔۔‘‘
یہ شہر کے گلی کوچوں میں پھرنا، تھک جانے کے لیے ہے کہ اس کے سارے کریہہ کرب بھرے احساسات فراموش کاری کے پردے میں چھپ جائیں بلکہ کھو جائیں، تاکہ مفر نصیب ہو۔
اس طرح نور پرکار کی یہ نظم اُن کے اُسلوب کی ایک نمائندہ نظم ہے، ملاحظہ فرمائیں:
٭٭
کہا اُس نے۔۔۔
نہ جانے ان دنوں
یہ کیا ہو گیا ہے مجھے
کہ سوا اس کے کچھ نظر ہی نہیں آتا
نہ وہ کوئی غم گسار، نہ راز داں میرا
نہ روایت نہ کوئی عجیب قصہ ہے
پھر بھی اسی سے برقرار ہر رشتہ ہے
کل پچھلے پہر کہا اس نے
کہ میری بخشش کی ضمانت میں
میں پھر کوئی نظم کہوں
بے سبب چلوں
کسی اور آئینے میں نہ چہرہ دیکھوں
اسے یقین ہے کہ
گنگناہٹ میں خاموشی بھی بولے گی
بالوں میں انگلیاں ہزار زبانیں کھولیں گی
کون سمجھائے اسے
کہ دوست اپنانے کی مٹی ہوا میں نہیں
کوئی سویرا آنگنوں میں پلتا ہی نہیں
صرف ہجرتیں ہیں، جو اظہار میں نہیں آتیں
جسم کے خوش حال ہونے کا کوئی موسم ہی نہیں
میں یہ بھی چاہتا ہوں
کہ محبت تو بڑا جھوٹ ہے
جس کے اطراف میں
اینٹ پہ اینٹ جمی ہے
بڑی دیوار بنی ہے
یا نام کی یا وہ گوئی میں
غزل سرائی یا فلسفہ طرازی
ہر ترجمانی پرانی ہے۔۔۔!
یہ بھی عجیب بات ہے
کہ آتما سے پرماتما تک
کھلے راستوں پر
کوئی قاتل ہی نہیں
اور سبھی مقتول ہیں
حقیقت تو صرف علم ہے
اور علم کی کس کو پہچان ہے؟
سجے سجائے کمروں میں
جب کبھی اپنے لکھے شبدوں سے ڈرتا ہوں
تو تنہا شہر کے گلی کوچوں میں
پھرا کرتا ہوں۔۔۔!!
٭٭٭