کار اپنی منزل کی جانب روا تھی لاہور سے اسلام آباد کا سفر روڈ سے کرنا نور کی ضد تھی۔ ایک کار میں نائل مھین اور اس گھر کی برسوں پرانی بوا جی تھی جبکہ دوسری کار میں افنان, المیرہ ، نور اور ماہم تھی۔۔۔ بس کچھ ہی وقت میں اسلام آباد کی حدود شروع ہونے کو تھی۔۔
ابھی کتنا وقت ہے اور۔۔۔ پیچھے سے آواز نور کی آئی تھی۔
چلو جی۔۔۔ یہ سوال تم نے کوئی سو، دو سو بار پوچھ لیا ہے۔۔ یار نور بس کر دو اب تو۔۔۔ میره نے آخر کار تنگ آ کے جواب دیا۔۔۔
تو اور کیا کرو میں پہلی بار تو گھر سے اتنا دور جا رہی ہو تو اسے ہی پوچھو گی نہ۔۔
۔
اچھا میری عین سے کوئی بھی نہ جھگڑا کرے۔۔ میرے ہوتے ہونے کچھ بھی مت کہا کرو۔۔۔ آئی سمجھ بات۔۔۔ افنان نے روبدار آواز میں کہا۔۔
ہائے۔۔۔۔۔ بھائی آپ نہ سب سے اچھے ہو۔۔ نور چہکتی ہوئی بولی تھی۔۔۔
بس ہم ابھی انٹر ہو جائے گے اسلام آباد۔۔۔
تو پھر کچھ دیر پلزز روک جائے گے آپ۔۔۔
مجھے اسلام آباد کو محسوس کرنا ہے کہ ہم آ گے ہے اسلام۔ممممم۔ آباد۔۔۔
اففف۔۔۔ توبہ ہے۔۔۔ نور تمہارے عشق سے۔۔۔۔ماہم کہاخاموش رہنے والوں میں سے تھی بول ہی پڑی۔۔۔
اوکے پر بس پانچ منٹ۔۔۔ اس سے زیادہ نہیں شام ہو رہی ہے گھر بھی جاتے ہوئے ابھی ایک گھنٹہ لگے گا۔۔۔
جی۔۔۔ موبائل۔۔۔ کیمرا۔۔۔ سب ریڈی تھا۔۔۔ نور فل فوم میں اس پل کو قید کرنے کی تیاری میں تھی۔۔۔ یادگار لمحہ اپنوں کے ساتھ انجوئے کرنے کو بیتاب تھی۔۔۔
کار سائیڈ پر روکی گی۔۔۔ سب باہر نکلے۔۔
آج کا ڈوبتا سورج اپنی ایک نشانی یہاں زمین پر چھوڑے جا رہا تھا۔۔ کسی کی خوشی کے لئے۔۔۔ آسمان پورا نارنجی گولڈن۔۔۔ پرندوں کی پرواز میں تیزی تھی۔۔۔ اندھیرے سے پہلے گھر کو جانے کی خوشی۔۔۔ سب گھر والے اپنی اس چہکتی چڑیا کو دیکھ کے خوش ہو رہیں تھے۔۔۔
اور پھر ڈوبتے سورج کے ساتھ نور اور اس کی فیملی کی یادگار تصویر لی گئ۔۔۔۔
اب چلے بس بہت ہے۔۔۔ بہت تھک گے ہے۔۔ پلزز۔۔۔ میره اب نور کی منتوں پر اتر آئی تھی۔۔
ہممم۔۔۔۔ سب واپس کار میں بیٹھ رہیں تھے کہ اچانک ایک سایہ سا نور کی آنکھوں میں آیا۔۔۔
“کھلکھلاتی مسکراتی آواز۔۔۔ کوئی لڑکا تھا۔۔۔ بچی کو ہوا میں اچھال رہا تھا۔۔۔ کالا دھندلا منظر۔۔۔ اور پھر ایک دم سے منظر صاف ہو گیا۔۔۔”
افنان نے دیکھا کہ عین کے چہرے کا رنگ بدلہ۔۔۔ آنکھیں عجیب سی تناوں کا شکار تھی۔۔۔
عین۔۔۔ ٹھیک ہو آپ۔۔۔ کندھے پر ہاتھ رکھ کے پوچھا گیا۔۔۔
جی سب ٹھیک ہے بس سر میں بہت پین سٹارٹ ہو گی اچانک۔۔۔
اچھا چلو کار میں بیٹھو۔۔۔ آپ کو میڈیسن دوں۔۔۔
کار میں بیٹھ کے عین کو ٹیبلٹ دی۔۔۔افنان کو کچھ عجیب لگا تھا۔۔۔ اچانک ایک دم سے عین کے سر میں درد۔۔۔ اور آنکھوں میں عجیب سی حیرت۔۔۔ ابھی نہیں گھر جا کے پوچھو گا۔۔ کچھ تو عجیب ہے۔۔ افنان نے سوچتے ہوئے کار دوبارہ سٹارٹ کی۔۔۔
کچھ دیر میں نور گہری نیند میں تھی۔۔۔کار میں اب مکمل خاموشی تھی۔۔۔ اندھیرا مزید گھیرا۔۔۔ سب اپنی سوچو میں گھم تھے۔۔
۔
میرہ دور آنے۔۔۔ نئی جگہ پر آنے پر اداس۔۔۔ ماہم اپنے شہر کو چھوڑ۔۔۔ اور تلخ یادوں کو۔۔۔
نکل کے آنے والے وقت کے بارے میں سوچ رہی تھی ساتھ ہی ساتھ گود میں رکھے نور کے سر پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لان میں بیٹھے محمش اور معاذ باتیں کر رہے تھے۔۔ خوبصورت لان میں لگے پھول شام میں بھی ترتازہ تھے۔۔۔ معاذ اپنے کالج کی شرارتی سٹوری سننائے میں مصروف تھا۔۔ جبکہ محمش اس شیطان کی باتوں پر مسکرا رہا تھا۔۔۔
دیکھنے میں یہ منظر ایک خوبصورت مکمل رشتے کو ظاہر کرتا۔۔۔
ایک بھائی کے پیار کے رشتے کو۔۔۔
محمش معاذ سے سات سال بڑا تھا۔۔ سمجھایا گیا تھا کہ معاذ چھوٹا بھائی ہے اس کا خیال محمش کو رکھنا ہے نہ کہ معاذ کو اپنا بھائی نہیں کزن مان کے اس کی کیئر نہ کرے۔۔
وہی بات محمش کو اچھے سے یاد تھی جو کہ آج تک محمش کے انداز سے جھلکتی۔۔۔کبھی کبھی تو معاذ یہاں تک کہہ دیتا۔۔۔
آپ میرے بھائی نہیں ہو۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے آپ میرے پیرنٹس ہو اور میں آپ کا شرارتی بچہ ہوں۔۔۔ اس بات پر گھر والوں کا قہقہ سنائی دیتا۔۔۔
بات بھی سن رہے ہے کہ نہیں میں بولی جا رہا ہوں۔۔۔ اور آپ چپ ، گم سم بیٹھے ہے۔۔
ہاں سن رہا ہوں تمہاری ہی ساری باتیں۔۔۔
جب سن رہے ہے تو کچھ بول کیوں نہیں رہے پھر۔۔۔
جب تم بول رہے ہو تو میں کیسے بول سکتا ہوں۔۔۔ بولو۔۔۔ بہت زیادہ شرارتی ہو گے ہو باز آ جاؤں نہیں تو ایک دم سیدھا کر دو گا۔۔
ہائے۔۔۔۔ ہم تو انتظار میں ہے کوئی ہمیں بھی سیدھا کرے۔۔۔ وہ دن بھی آئے کبھی زندگی میں ۔۔۔معاذ نے شرارت سے آہ بھر کے کہا۔۔۔
۔
۔
معاذ کچھ شرم بھی ہوتی ہے۔۔۔ یہ عمر ہے ایسی باتوں کی تمہاری۔۔۔ محمش نے بات پر زور دیا تھا تاہم لہجہ سخت نہ تھا۔
۔
۔۔
میں اب اٹھارہ کا ہو چکا ہوں، بلکے آنے والوں دنوں میں انیس کا ہو جاؤں گا۔۔۔ آپ کو سادھ کے بوڑھے بزرگ بنے رهتے ہے۔۔۔ اففف۔۔۔ ابھی یہی تو دن ہے بعد میں آپ نے بس۔۔۔ ہہی۔۔۔ ہممم۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔ کر کے بولا کرنا ہے جب دانت نہیں ہو گے۔۔۔
ہاہاہا آپ بھائی کیسے لگے گے۔۔ معاذ کا قہقہ بلند ہوا۔۔۔
روکو ذرا بتاتا ہوں میں کیسا لگو گا۔۔ محمش اٹھ کے معاذ کی گردن دبوچنے کو تھا۔ پر معاذ جانتا تھا ایسی باتوں کے بات یہ ہو گا اس لئے فورا اندر کو بھگا تھا۔۔۔
بعد میں پوچھتا تھا تمہیں۔۔۔ ہاتھ لگو ذرا میرے۔۔۔ محمش جانتا تھا اب روم میں بند ہو جائے گا اور پھر رات کے کھانے پر ہی باہر آئے گا۔۔۔
محمش بیٹھا مسکرایا تھا۔۔۔ کاش۔۔۔۔ کاش۔۔۔ یہ خوشیاں ایسی ہی سادھ رہتی۔۔۔ یہ پیلس بھی مسکراتا۔۔۔ چہکتا رہتا۔۔۔ کاش وہ پاس ہوتی۔۔ ایک اداس اور رحم بھری نظر آسمان پر ڈالی گی۔۔۔۔
او ۔۔۔
اور۔۔۔۔
“محمش کی دھڑکن بےقابو ہوئی۔۔۔ دل ایسے دھڑکا کہ بس ابھی باہر کو آ جائے گا۔۔۔”
محمش کے ماتھے پر اسلام آباد کے اس موسم میں بھی پسینہ ٹپک رہا تھا۔۔۔ نیلی آنکھیں میں حیرت نمایا تھی۔۔۔۔
دائیں ہاتھ کو دل کے ٹھیک اوپر رکھا۔۔۔ اور۔۔۔۔
یا اللہ۔۔۔۔ منہ سے نکلا۔۔۔
الہیٰ خیر۔۔۔۔ اللہ خیر۔۔۔۔
خوش آمدید۔۔۔۔قدم مبارک ہو میری جان۔۔۔
لمبا انتظار ختم ہوا۔۔۔
الہام نازل ہوا تھا۔۔۔ آج عشق کا”ع” واجب ہوا تھا۔۔ آج استخارہ دل میں اترا گیا۔۔۔
” برسوں کا انتظار اب سمٹینے کو تھا۔۔ یہ مقدس گھڑی آگے جا کے اس انتظار کو ختم کرنے والی تھی۔۔ لمحہ خوبصورت تھا پر اب اس پر اس کی جھلک کا بھی سحر طاری ہو چکا تھا۔۔۔”
محمش کو ایسا لگ رہا تھا کہ ہر چیز میں مانو جیسے جان ڈال گی گی ہو۔۔۔ ہر طرف جیسے خوشیاں ہو ہر کوئی مسکرا رہا ہو۔۔۔
۔
۔
ملن واجب ہوا۔۔۔ دو دلوں کا۔۔۔ دلوں کے ملن کا۔۔۔۔ ایک دل بےچین ہوا تو دوسرے دل کو صدیوں بعد قرار آیا۔۔۔
محمش نے ایک نظر پھر سے آسمان پر ڈالی اور شکر ادا کیا۔۔۔ دل میں سکون اترا تھا آج برسوں بعد۔۔۔ آج محبّت سے آگے کا سفر۔۔۔آج اس کو حکم دیا گیا تھا محبّت کی حدود کو چھوڑ کے عشق کے “ع” میں سفر کرنے کا۔۔۔
۔
۔
الہام سے آگے سا سفر۔۔۔
استخارے کے شروع ہونے تک سا سفر۔۔۔
آج محمش کو ایک جھلک دکھائی گی تھی۔۔۔ اپنی محبّت سے آگے کی داستان کے لئے۔۔۔۔
نیلی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر تھا۔۔ جو پلکوں کی باڑ توڑنے کو تھا۔۔۔ اور پھر شکر کے ساتھ ہی یہ سمندر بہہ کر اس شہزادے کا چہرہ بگھو گیا۔۔۔۔
آسمان پر ایک نگاہ اٹھی تھی۔۔۔
تو آج پھر سے ایک نئی آزمائش شروع ہو گی ہم سب کی۔۔۔ یا پھر میری۔۔۔ وہ اس زمین پر اپنے قدم رکھ چکی ہے پر ابھی بھی میرے پاس نہیں۔۔۔
آپ میرے ساتھ رہنا۔۔۔ میرا مولا میرے لئے آسانی پیدا کرنا۔۔
(امین )
۔ . ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...