تمہیں ہزار دفعہ منع کیا ہے مجهے یہ دن نہیں وش کیا کرو۔۔تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کوئ بات۔۔ وہ گفٹ اس کے سینے پہ مارتے ہوے چیلائ تهی۔۔۔وہ ابهی روم میں انٹر تک نہیں ہوا تها۔اس نے اسے باہر دهکیلتے ہوے ڈور بند کیا تها۔۔وہ رو رہی تهی۔۔۔
نور نور بات تو سنو۔۔پلیز دروازہ کهولو۔۔۔
اس نے آج سے پہلے نور کو اتنے غصے میں نہیں دیکها تها۔۔ اس نے ایک نظر فرش پڑے گفٹس پہ ڈالی۔ اسے یاد آیا اس نے نور کو ایک بار برته ڈے وش کیا تها اور اس نے منع کر دیا تها اس کہ بعد اس نے سالوں بعد اسے آج وش کیا تها۔۔۔نور پلیز دروازہ کهولو۔۔۔کیا ہوا ہے پلیز دروازہ کهولو۔۔۔وہ رو رہی تهی میں نہیں چاہتی جس دن نے مجه سے میرا سب کچه چهین لیا وہ دن کوئی مجهےوش کرے۔۔خدا کہ لیے جاو یہاں سے مجهے اکیلا چهوڑدو۔۔وہ بے بس ہوتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔نور آج ناشتہ پہ بهی نہیں آی تهی۔۔۔
دادا جی اپنے کمرے میں بهی کافی دیر انتظار کرتے رہے لیکن وہ ان کے کمرے میں نہ آی تو وہ خود ہی اس کہ کمرے کی طرف چلے گئے۔۔اس کا کمرہ اندر سےلاک تها ۔۔نور نے دادا جی آواز سن کر دروازہ کھولا۔ ۔دادا جی آپ مجهے بولا لیا ہوتا میں خود آ جاتی۔۔
ہاں میں کافی دیر سےانتظار کر رہا تها تمہارہ تم نہیں آی تو سوچا خود ہی آ جاوں۔۔۔
انهوں نے بیهٹتے ہوے کہا۔۔ادهر آو میرے پاس بیٹھو۔۔۔وہ ان کہ پاس بیٹھ گئ۔۔
تم سے ضروری بات کرنی تهی۔۔
جی دادا جی بولیے۔۔۔
تمہیں تو پتہ ہے آج تمہارے ماموں آ رہے ہیں۔ ۔
جی داداجی۔۔۔۔۔۔۔وہ اداس تهی ۔۔۔۔۔
تمیں یہ بهی پتہ ہے کہ کیوں آ رہے ہیں۔۔تو میں انهیں کیا جواب دوں۔۔۔
وہ نظریں جھکائے گود میں رکهے اپنے ہاتهوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تهی۔۔۔
دادا جی میں کیا کہوں جو فیصلہ آپ کریں گے مجهے منظور ہو گا۔۔۔
پهر بهی تم اپنا فیصلہ بتاو۔۔۔
اگر میں ان لوگوں کو انکار کر دوں تو کیا۔۔۔
اس نے دادا جی کو خالی خالی اجڑی ویران آنکهوں سے دیکها دادا جی نے اس کے دل کی بات کی تهی لیکن کیوں وہ انکار کریں گے کیوں۔۔۔ اور ایک اور بات۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ دادا جی اپنی بات پوری کرتے ابو کمرے میں آگئے۔۔
بابا جی وہ۔۔۔نور کہ ماموں آگئے ہیں۔۔آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔۔نور بیٹا تم بھی تیار ہو کہ آ جاو۔۔۔وہ تیار ہو کہ آگئ ۔۔گهر کہ سبھی لوگ بیٹهے تهے۔۔نور آ کہ ماموں کہ ساته ملی۔۔ممانی سے پیار لیا۔۔شہیر کو سلام کیا۔۔۔اور ماموں کہ پاس بیٹھ گئ۔۔۔اس نے آتشی گلابی اور فیروزی کلر کہ لباس پہنا ہوا تها۔۔وہ صبح والی نور بلکل نہیں لگ رہی تهی
سنار کہ دل میں کچه عجیب سا خوف اٹها۔۔۔اگر نور نے انکار کر دیا تو۔۔۔
سنار کہ دل میں عجیب سا خوف اٹها۔۔۔۔اگر نور نے انکار کر دیا تو۔۔۔
اگلے ہی لمحے اسکے دل نے اس بات سے انکار کیا۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔میں اس سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ایسے کوئ کیسے مجھ سے چھین سکتا ہے اسے مجھ سے نہیں تم میری ہو نور صرف میری۔۔۔
اسکی نظر ماموں ممانی کے پاس بیٹھی نور پہ تهی۔۔وہ خوش تهی ۔۔۔جیسے کوئی کهوئ ہوئ چیز آج اسے ملی ہو۔۔۔ کهوئ ہوئ تو ملی تھی آج برسوں بعد ماموں اس سے ملنے آئے تھے۔ ۔۔پر کیوں۔۔یہ سوچتے ہی اداسی کی ایک لہر اس کہ چہرے پہ لہرائ تهی۔۔لیکن وہ سب کچھ فراموش کر کہ ماموں سے باتیں کیے جا رہی تهی۔۔۔وہ ماما کی باتیں کر رہے تهے تو نور کو ایسا لگا جیسے ماما اس کہ آس پاس ہیں۔۔۔وہ ان کی باتیں سن کر کبهی ہنستی تو کبهی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔۔۔
سنار کی نظر نور سے ہوتی ہوئ شہیر پہ گئ۔۔جس کی نظریں نور میں مصروف تھی۔۔۔۔ایسے جیسے وہ اسے لے کر ہی جائے گا۔ ۔۔۔
دیکھنے میں سمارٹ لگ رہا تها۔۔۔۔۔
آنکھیں تو جیسے اس نے نور سے چوری کر لی ہوں۔۔۔ آنکھیں نور کی آنکھوں سے کافی ملتی تهی۔۔۔
سنار کو اس سے وحشت ہونے لگی۔۔۔۔۔
وہ بار بار نور سے مخاطب ہو رہا تها۔۔۔۔
وہ اٹھ گیا۔۔۔
کدهر جا رہے ہو۔۔۔۔لیکن دادا جی نے روک لیا۔۔۔۔
دادا جی باہر جا رہا ہوں ایک کام ہے تو واپس آتا ہوں۔۔۔۔
نہیں ادهر ہی بیٹھو ۔۔۔۔کام بعد میں کر لینا جو بهی ہوا۔۔۔
یہ نہ نور کہ ماموں برا مان جائیں۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں آپ جاو بیٹا کیا پتہ کوئ ضروری کام ہو۔۔۔۔
وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔۔۔۔نہیں انکل ایسا ضروری کام تو کوئ نہیں ہے۔۔۔
تو بیٹا آپ کرتے کیا ہو ۔۔۔
جی انکل میں ہارٹ اسپیشلسٹ ہوں ابهی کل ہی آیا ہوں اپنا کورس مکمل کر کہ۔۔۔۔آگے انشاءاللہ ادهر ہی کام اسٹارٹ کرنے کا پروگرام ہے۔۔۔۔بس یہ کچه دن رسٹ کرنے کہ بعد۔۔۔۔۔
گڈ۔۔۔۔ انهوں نے امپرس ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
شہیر نے بھی نور سے نظریں ہٹا کر اسے دیکها تها۔۔۔۔
اسے ابھی احساس ہوا تها اس کہ اردگرد کوئ اور بھی ہے۔۔۔۔
ویسے آپ نے بتایا نہیں آپ کیا کرتے ہیں۔۔۔۔
سنار نے شہیر کو اپنی طرف متوجہ پا کر پوچها تها۔۔۔
‘جی میں سکول ٹیچر ہوں۔۔۔۔’
سکول ٹیچر۔۔۔۔۔۔ سنار نے اس کہ الفاظ دوہراے۔۔۔۔۔
جی سکول ٹیچر۔۔۔۔
اچها ہے۔۔۔ سنار نے بغیر کوئی تاثر دیے بولا تها۔۔۔۔نور کچن میں جا چکی تھی۔۔۔۔سہراب اور ہمایوں۔۔۔ بھی وہیں بیٹھے تهے۔۔۔۔
کهانا لگ چکا تھا۔۔۔سب نے کهانا کهایا۔۔۔ممانی اپنے ہاتهوں سےنور کو کهاناکهلا رہی تھی۔۔۔آج اسے ماما بہت یاد آئ تهی۔۔۔آج 26دسمبر تها آج ہی کہ دن اسے ماما پاپا چھوڑ کر چلے گئے تهے۔۔
سب نے کهانا کها لیا۔۔۔
تو ممانی جمال سے مخاطب ہوئ۔۔۔۔
بهائ صاحب آپ کو تو پتہ ہی ہے ہم آج یہاں کیوں آئے ہیں۔ ۔۔۔۔تو پهر ہمیں کوئی جواب دیں۔۔۔تک کہ ہم نور بیٹی کو دولہن بنا کہ اپنے گهر لے جائیں۔۔۔سب کی نظریں ممانی سے ہوتی ہوئی۔۔۔نور پر گئ۔۔وہ نظریں چهکائے ممانی کہ پہلو میں بیٹھی تهی۔۔نور کہ چہرے کا رنگ بدلہ تها۔۔۔اس نے تکلیف سے آنکھیں بند کی تھی۔۔۔
بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔
ویسے اقبال کی ساری جائداد نور کہ ہی نام ہے نہ۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔اس سے پہلے کہ جمال اپنی بات پوری کرتے۔۔۔۔ممانی بولی تهی۔۔
نور کو جھٹکا لگا تها۔۔۔اس نے پہلے ابو کو دیکها پهر دادا ابو کو۔۔ شیہر پر نظر گئ تو وہ گردان جهکائے بیٹها تها۔۔۔ممانی کو دیکها وہ جواب کہ انتظار میں ابو کی طرف متوجہ تهی۔۔۔۔
اسے ممانی کی بات سیدھی دل میں چبی تهی۔۔۔۔
ابو گہری سوچ میں ڈوبے تهے۔۔۔۔۔۔
کس سوچ میں پڑ گئے ہیں بهائ صاحب۔۔۔۔۔۔
جی ہمارا سب کچھ نور بیٹی کا ہی تو ہے۔۔۔ابو سے پہلے دادا جی نے جواب دیا تها۔۔۔
تو پهر ہم رشتہ پکا سمجھیں۔۔۔۔ویسے جائداد تو اچهی خاصی ہو گی نہ اقبال کی۔۔آخر اس کی ہےبھی ایک ہی بیٹی تو۔۔۔
لیکن بهابهی ہم آپ کو یہ رشتہ نہیں دے سکتے۔۔اس سے پہلے کہ ابو اپنی بات پوری کرتے۔۔۔
ممانی نےبات کاٹ دی۔۔آے ہاے کیوں نہیں دے سکتے رشتہ ہماری اپنی بیٹی ہے۔۔اچها بهلا میرا بیٹا ہے۔۔۔ ماموں انهیں چپ کرواتے رہ گئے۔۔۔دیکهیں میرے بیٹے میں کمی ہی کیا۔۔۔۔کہیں آپ کا اپنے بهائ کی ساری دولت ہڑپ کرنے کا پروگرام تو نہیں ہے۔۔۔
نورسے اور برداشت نہیں ہو رہا تها۔۔۔ بس کر دیں آنٹی اس سے آگے ایک لفظ مت بولیے گا۔۔۔۔وہ غصے سے اٹه کهڑی ہوئ تهی۔۔۔وہ ابو کہ خلاف کچه بهی نہیں برداشت کر سکتی تھی۔۔خدا کے لیے آنٹی بس کر دیں۔ ۔ممانی اسے گهور کہ رہ گئ۔۔۔۔
اسے معلوم تها ابو گهر آئے مہمان کو کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جو اس کے لیے تذلیل کا باعث بنے۔ ۔۔اور دوسرا وہ انهیں نور کی ممانی ہونے کہ ناتے ہر بات برداشت کر لیں۔۔۔
ماموں آپ لوگ یہاں میری جائداد حاصل کرنےکے لیے آئے ہیں۔۔۔۔میں بچپن سے ترستی رہی کہ کبهی ماموں مجه سے ملنے آئیں۔۔۔میں ہمشہ انتظار کرتی رہی کہ کبهی نہ کبهی انهیں میری یاد آے کبہی نہ کبھی مجھ سے ملنے آئیں گے۔۔۔کبھی مجهے کال کریں گے مجھ سے ڈهیروں باتیں کریں گے۔۔۔لیکن آپ نہیں آئے۔۔۔اور آج آخرآ ہی گئے آپ لیکن وہ بهی کس وجہ سے صرف میری جائداد کہ لیے۔۔۔
نہیں ایسی کوئ۔۔۔
لیکن نور اب کچه سننے کو تیار نہیں تهی۔۔۔ صرف اپنے دل میں لالچ لے کر۔۔تو سن لیں مرنے سے پہلے میرے ماماپاپا میرے لیے رشتوں کہ سوا کچه نہیں چهوڑ کر گئے تهے۔۔۔اس کہ آنسو اس کہ گالوں پہ روانی سے بہہ رہے تهے۔۔
آئے ہائے دیکهو تو اس کی تیور۔۔کتنی بدتمز منہ پهٹ لڑکی ہے۔۔کسی نے تمہیں تمیز نہیں سیکهای جب ہم بڑهے بات کر رہے ہیں تو تمہارہ کیا کام ہے درمیان میں بولنے کا۔۔۔وہ بھی اپنے ہونے والی ساس کہ آگے۔۔۔
بس کر دیں آنٹی۔۔۔پلیز۔۔۔میرا آپ لوگوں سے کوئ رشتہ نہیں ہے۔۔ اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔۔۔وہ انکار تو کرنا چاہتی تهی۔۔پر وہ خود کرے گی یہ سب اس نے سوچا نہیں تها۔۔۔وہاں موجود سب لوگ نور کو ہی دیکھے جا رہے تهے۔۔دادا جی نے اٹه کر نور کو گلے سے لگا لیا۔۔نور ٹهنڈے دماغ سے سوچو۔۔۔انهوں نے کچه۔۔۔دادا جی ان لوگوں سے کہہ دیں چلے جائیں یہاں سے مجهے کسی کی ضرورت نہیں۔۔۔وہ یہ کہتے ہوے اپنے روم میں چلی گئی۔ ۔ ۔
اتنا کچھ ہو جائے گا سنار نے سوچا نہیں تها۔۔۔
اس کہ پیچهے سنار ہمایوں اور سہراب بھی اٹه گئے وہاں سے۔۔۔
نور کہ روم میں پہنچے تو خنساء ،فلک اور علیزے پہلے سے وہاں پہ موجود تھی۔۔۔خنساء اسےگلےسے لگائے چپ کروانے میں مصروف تهی ۔۔سهراب بهائ ہوا کیا ہے۔۔انٹر ہوتے ہی پہلا سوال فلک نے پوچها تها۔۔۔سنار وہاں دروزہ پہ ہی کهڑا ہو گیا۔۔۔
سہراب کی ساری توجہ نور کی طرف ہی تهی۔۔۔نور تم کیاپاگلوں کی طرح رو رہی ہو ۔۔جب ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔۔تمہیں کس بات کی فکر ہے۔۔ سہراب نور کہ ایک طرف بیٹھ گیا۔۔۔
ہاں نور آپی ہم سب آپ کہ اپنے ہیں تو پهر کیوں آپ خود کو اکیلا سمجھتی ہیں آپ کو کیا لگا ہم کو کہیں جانے دیں گے۔ ۔کبھی نہیں۔۔اور میں تو آپ کہ ساته جاوں گا آپ کہیں بهی گئ تو۔۔۔ہمایوں اس کہ پاوں میں بیٹها کہہ رہا تها۔۔۔
سنار سے اس کہ آنسو دیکھے نہیں جا رہے تهے۔۔وہ وہیں سے واپس لوٹ گیا۔۔۔ہاں شاید یہ میری ہی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔۔میری دعاؤں کی ہی وجہ سے نور کو آنسو ملے۔۔ نور میرا تم سے وعدہ ہے اتنی خوشیاں دوں گا کہ تم سب بهول جاو گی۔۔۔دادا جی کے روم کہ سامنے سے گزر رہا تها کہ انهوں نے بولا لیا۔۔نور کہ ماموں کوگئے کافی دیر ہو چکی تهی۔۔۔
☆☆☆☆☆
آج ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں پهیلی ہوئ تهی گهر میں ہل چل سی مچی ہوئ تهی۔۔۔دوسرے دن خنساء اور سهراب کی مانگنی کی تقریب تهی۔۔۔اس سے اگلے دن سنار اور نور کی تقریب رکهی گئ تھی۔۔۔
آج پهر سنار اور نور اپنی سفید گاڑی کہ ساته اس بنگلے کہ گیٹ پہ کهڑے تهے۔۔۔آج پهر نور کو فرش وائٹ فلور چاہیے تهے۔۔لیکن آج انهوں نے سیدھا راستہ چنا تها۔۔۔
گیٹ۔۔ایک بوڑهے بابا نے کهلا تها۔۔لیکن یہ بوڑها بابا وہ نہیں تها جس سے ڈر کر وہ بهاگے تهے۔۔سنار کو اس دن کا ایک ایک لمحہ یاد تها۔۔شاید وہ یہاں سے چلا گیا ہو۔۔زندگی اور موت کا کوئ بھروسہ نہیں۔۔ہو سکتا ہے وہ مر گیا ہو
بوڑهے بابا نے انهیں اندر آنے کا کہا۔۔۔
چوکیدار نے انهیں ڈائنگ روم میں بیٹهنے کا کہا۔۔۔
ویسے تم مجهے یہ بتاو یہ تمہیں ہر چیز وائٹ ہی کیوں پسند آتی ہے۔۔۔
کل کے لیے تم سوٹ بهی سفید لے رہی تھی۔ ۔ وہ تو شکر ہے پنک کلر میں اچها سوٹ مل گیا۔۔ورنہ تمہارہ پروگرام تو سهراب کی منگنی پہ فرشتہ بننے کا تها۔۔۔ہاہاہا۔۔
اس کی ہنسی پہ نور کا منہ بنا تها۔۔۔
تو کیا کل میں اور فلک ہمایوں کو لے کہ آ جاوں گی۔۔ویسے بهی ابهی بہت سی چیزیں رہتی ہیں خریدنے کہ لیے۔۔
خدا کا خوف کرو نور ابهی بهی بہت سی چیزیں رہتی ہیں۔۔تم لڑکیاں نہ۔۔۔
اور وائٹ کلر تو میں نے لینا ہی لینا ہے نہ۔۔۔ اورفلک سے بولوں گی وہ بهی وائٹ ہی لے۔۔
پاگل وہ میری بہن ہے۔۔۔وہ تو لے گی نہیں اور میں تمہیں بهی جلا کہ دوں گا۔۔
اچها۔۔جلا کہ دو گے واہ میں تم سے چهپ کہ پہنوں لوں گی۔۔
سنار نے قہقہ لگایا۔۔چهپ کہ۔۔ہاہاہا۔۔۔چلو میں بهی دیکهتا ہوں تم کہاں چهپو گی۔۔
پہلے تو میرا کوئ ارادہ نہیں تها۔۔لیکن اب سوچتی ہوں لے ہی لوں۔۔
ویسے یہ بتاو تمہیں وائٹ کلر سے اتنی الرجی کیوں ہے۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اسے جواب دیتا۔۔۔
☆☆☆☆☆
مغرب کا وقت تها جب وہ دادا جی کہ کمرے سے باہر نکلا ۔ ۔ ہر طرف اداسی سی چهائ تهی اندھیرہ گہرا ہو رہا تها جب اسے گهر میں نور کی گمشدگی کا علم ہوا۔۔وہ پاگلوں کی طرح اسے گهر میں تلاش کرنے کہ بعد باہر نکلا تها۔۔۔دسمبر کی رات تهی۔۔گرج چمک کہ ساته بارش کا امکان ہو رہاتها۔۔۔وہ پاگلوں کی طرح نور کو سڑک کہ آس پاس ڈهونڈ رہا تها۔۔۔کسی خیال کہ تہت وہ قبرستان کی روڈ پہ نکل آیا ۔۔اس کا اندزہ ٹهیک نکلا۔۔بادلوں کی چمک کی وجہ سے وہ اسے دور سے ہی نظر آ گئ۔۔وہ گآڑی سے جلدی جلدی اترا پاس پہنچا تو وہ اقبال کی قبر سے لپیٹے رو رہی تهی۔۔۔سنار نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر اوپر کیا۔۔۔او پاگل لڑکی تمہیں کس نے بولا تمہارہ کوئ نہیں ہے۔۔لیکن اسے کیا پتہ تها اقبال نے اس کی ساری باتیں سن لی ہیں۔۔۔
میری بات سنو ادهر دیکھو۔۔چپ رونا نہیں ۔۔وہ اس کی آنکهوں میں دیکه کربول رہا تها۔۔وہ اس کی پاس بیٹه گیا
یہ ساری دنیا بهی تمہیں چهوڑ دے تب بهی میں تمہارے ساته رہوں گا۔۔سنار امدانی ہمیشہ سے تمہارہ ہے تم اکیلی نہیں ہو میں تمہارے ساته ہوں۔۔۔میں نے کل دادا جی سے تمیں اپنے لیے ہمشہ کے لیے مانگ لیا ہے۔۔وہ ایک ایک لفظ ٹھہر ٹهہر کر ادا کر رہا تها۔۔۔
اس نے بهیگی پلکیں اٹها کہ حیرت سے اسے دیکھا تها۔۔بادل زور سے گرجا تها۔۔روشنی کی ایک لہر دونوں کہ چہروں پہ ٹکرائ تهی۔۔پاس کی جهیل سے پانی کی آواز آئ تهی شاید کسی جانور نے غوطہ لگایا تها۔۔
تم ناراض تهی نہ کہ میں نے ایک ہفتہ۔ ۔۔
نور تم ناراض تهی نہ کہ میں نے ایک ہفتہ تم سے بات نہیں کی۔۔۔۔نور تم سوچ بهی نہیں سکتی میں نے یہ ایک ویک کیسے گزارہ ہے۔۔۔میں سکون کی نیند سو نہیں سکا۔۔۔ تمہاری باتوں سے میرے دل کو جهٹکا لگا تها۔۔۔۔میں واپس آنے کی تیاریوں میں مصروف تها۔میں نے سوچا ابهی نہیں تو پهرکبهی نہیں۔۔۔۔۔۔ نور مجهے لگا میں تمہیں کهو دوں گا۔۔۔۔نور میں تمہیں کهونا نہیں چاہتا تها۔۔۔۔ وہ اس کہ دونوں ہاته اپنے ہاتهوں میں لیے بول رہا تها۔۔۔ وہ ٹهٹکی باندهے اسے ہی دیکه رہی تهی۔۔۔ اس کا پورا بدن ٹھنڈا پڑ چکا تها۔۔۔۔
نور میں تم سے محبت کرتا ہوں نور۔۔۔۔
سنار اپنے ہاته سے اس کہ گال پہ بہتے آنسو صاف کرتے ہوے۔۔بول رہا تها۔۔۔
نور دنیا میں میرے سوا کوئ نہیں جان سکتا کہ اس وقت تم پر کیا بیت رہی ہے۔۔۔۔۔
سنار کی باتوں نے اسے گهائل کر دیا تھا۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں برسنا بهول گئ تهی۔۔۔۔
نور نے ایک نظر پاپا کی قبر پہ ڈالی اور اپنے ہاتھ اس کہ ہاتهوں نکاتے ہوے۔۔۔۔ اٹه گئ۔۔۔
مجهے نہیں چاہیئے تمہاری ہمدردی میں لپٹی محبت۔۔۔۔
مجهے نہیں ضرورت کسی کی محبت ۔۔۔۔۔۔
نور نے یہ کہتے ہوئے گهر کی راہ لی۔۔۔۔۔
سنار کی نظر کبهی اپنے خالی ہاتهوں ۔۔۔ توکبهی گهر کوجاتی نور پہ جارہی تهی۔۔۔۔
وہ اٹها تها۔۔۔ اس کہ پیچهے بهاگا۔۔۔۔
اسے کاندھے سے جهٹک کر اپنے سامنے کیا۔۔۔
نور کیا مطلب ہے تمہارہ ہمدردی میں لپٹی محبت۔۔۔۔
وہ ماتهے پہ بل ڈالے۔۔۔اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے پوچه رہا تها۔۔۔۔۔
تمہیں کیا لگا میں تم سے ہمدردی کر رہا ہوں۔۔۔۔۔
میری آنکھوں میں دیکھو تمہیں ہمدردی نظر آ رہی ہے۔۔۔وہ اسے کاندھوں سے جنجهوڑتے ہوے بول رہا تها۔۔۔۔۔
نور میں تمارے لیے تڑپا ہوں۔۔۔گڑگڑایا ہوں۔۔۔ رو رو کہ تمہیں مانگا ہے۔۔۔اور تم اسے ہمدردی کا نام دے رہی ہو۔۔۔ خدا کہ لیے مجهے کسی اور امتحان میں مت ڈالنا۔۔۔۔میں تم سے محبت۔۔۔۔۔۔
سنا۔۔۔۔۔۔ اس کہ آنسو سسکیوں کی صورت اختیار کر چکے تهے۔۔۔۔۔
سنار۔۔۔ اس نے خود پہ ضبط کرتے ہوے کہا۔۔۔۔۔
سنار تم میرے لیے اپنی لائف برباد نہ کرو۔۔۔۔۔میں بہت بد قسمت ہوں۔۔۔۔سنار۔۔۔۔۔تم بہت خاص ہو۔۔۔۔میں عام سی لڑکی ہوں۔۔۔بالکل خالی ہاتھ ہوں میرے پاس کچھ بھی۔۔۔
اور اور تم نے کیا کہا محبت کی ضرورت نہیں۔ ۔۔۔
“محبت صرف ضرورت پوری کرنے کے لیے کی جاتی ہے کیا۔۔۔۔؟ “۔۔۔ وہ اپنا کوٹ اتارتے ہوےاس سے پوچه رہا تها۔۔۔وہ اس کی کوئ بات سننے کو تیار نہیں تها۔۔۔۔۔
اس نے اپنا کوٹ اتارا اور اس کہ ٹهنڈے پڑتے بدن پر ڈالتے ہوے اسے اپنے قریب لے آیا۔۔۔وہ اس کہ سینے سے آ لگی۔۔۔ہلکی دهند ان کے چاروں طرف پهیل چکی تهی۔۔۔۔
قبرستان سنسان تها۔۔۔۔جهیل خاموش تهی بلکل خاموش ایسے جیسے ان کی باتیں سن رہی ہو۔۔۔ اندهیرا گہرا ہو چکا تها۔۔۔بادل کی چمک ان کہ چہروں کو روش کر رہی تھی
سنار نے ایک نظر قبرستان پہ ڈالی اور پهر اپنے سینے سے لگی نور پہ۔۔۔
اور یہ تم رات ہوتے ہی یہاں آ گئ وہ بهی اکیلے۔۔۔۔ تمہارہ دماغ تو ٹهیک ہے نہ۔ ویسے تمہیں ڈر نہیں لگا ہم میں سے کسی کو بتا دیتی
سنار۔۔۔۔۔”جب اپنا کوئی بہت پیارا قبرستان میں چلا جائےنہ تو پهر قبرستان سے ڈر نہیں لگتا”
ہونہہ۔۔۔۔۔۔
چلو اب گاڑی میں بیٹهو۔۔۔۔یا پهرادهر ہی رہنے کو پروگرام ہے۔۔۔۔۔
ویسے بهی میں نے تو سنا ہے مغرب کہ ٹائم جن بهی آوارہ ہو جاتے۔۔نور نے گاڑی کی طرف جاتے ہوے اایک نظر سنار پہ ڈالی۔۔۔
ایسے کیا دیکه رہی ہو۔۔ٹهیک ہی تو کہہ رہا ہوں۔۔۔۔اب دنیا سے تمہیں بچایا ہے۔۔۔۔۔ تو کوئی جن لے اڑا تو میں کیا کروں گا۔۔۔
گهر پہنچے تو سب انتظار میں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔نور کو دادا جی نے اپنے روم میں بولا لیا۔۔۔۔۔۔۔
☆☆☆☆☆
اس سے پہلے کہ سنار اسے کوئ جواب دیتا۔۔۔۔انکل آنٹی نے آ کر سلام دیا۔۔۔وہ دونوں احترام سے کهڑے ہو گئے۔۔۔۔لیکن یہ وہ نہیں تهے جو انهوں نے۔۔اس وقت دیکهے تهے جب وہ غلطی سے یہاں آ گئے تهے۔۔۔وقت سب کچه بدل دیتا ہے۔۔۔یہاں تک کہ چہرے بهی۔۔۔
جی بیٹا ہم نے آپ کو پہچانا نہیں کون ہو آپ لوگ کہاں سے آئے ہو۔۔
سنار نے اپنا تعارف کروایا۔۔۔۔
اچها تو آپ اسی شہر کہ ہو ۔۔۔۔۔
جی۔۔۔
تو یہ کون تمہاری وائف ہیں۔۔۔
جی۔۔۔۔
پانی نور کہ خلق میں اٹکا تها۔۔۔۔۔اس نےآنکھیں پهاڑ کر سنار کو دیکها۔۔۔۔۔۔
آنٹی یہ جهوٹ بول رہا ہے۔۔۔ ابهی تو منگنی بهی نہیں ہوئ۔۔۔
سنار۔۔۔۔۔مسکرایا۔ ۔۔۔ہاں تو وہ بهی ہو ہی جائے گی نہ فکر نہ کرو۔۔
تم چلو آجدادا جی پاس۔۔۔۔۔
فائزہ اور افتخار دونوں کی باتیں سن کر ہنس دییے۔۔۔
ماشاء اللہ۔ ۔۔۔۔۔اللہ تم دونوں کو ہمشہ خوش رکهے۔۔۔ہمشہ آباد رکهے۔۔۔
آمین آمین ویسے انکل یہ دیوار پہ تصویر۔۔۔؟ دیوار پہ لگی تصویر میں دو لڑکےمسکرا رہے تهے۔۔۔سنار سے ان کی مسکراہٹ دیکه کر رہا نہ گیا۔۔۔۔فورن پوچه بیٹها۔۔۔
یہ دونوں میرے بیٹے ہیں۔۔۔۔۔
یہ بتاتے ہوئے فائز ه کی آنکھیں نم ہو گئ۔۔۔۔ انکل کہ چہرے سے بہی تهوڑی دیر پہلے والی مسکراہٹ ان کہ چہرے سے غیب ہو چکی تھی۔ ۔
تو ابهی کہاں ہیں۔ ۔۔
بس ادهر ہی ہیں۔ ۔۔شادیاں کر کہ ہمیں چهوڑ دیا ۔۔۔
اب هم یہاں اکیلے ہی رہتے ہیں یہ گهر ہم نے کچھ سال پہلے ہی خرید تها۔۔۔اب سوچ رہے ہیں کہ کوئ چهوٹا گهر ملے تو لے لیں۔۔ہم دونوں نے اب جینا ہی کتنا ہے۔۔۔
نور کا دل دکه سے بهر گیا۔۔۔۔سنار کو بهی افسوس ہوا۔۔
ٹھیک ہے انکل ہمیں کافی دیر ہو گئ ہےاب ہم چلتے ہیں۔۔۔سنار نے گھڑی کی طرف دیکهتے ہوءے بولا
نہیں نہیں بیٹاایسے کیسے۔۔۔۔۔۔۔بس ابھی کهانا لگتی ہوں کها کہ جاو گے۔
نہیں آنٹی کوئ تکلف نہ کیجیے گاکهاناہم گهر جا کر ہی کھائیں گے۔تکلف کیسا بیٹا۔۔۔۔آج اس گهر میں بہت دنوں بعد رونق لگی ہے۔۔میں تو کہتی ہوں تم لوگ روز آ جایا کرو۔۔۔ویسے بهی ہم اکیلے ہی توہوتے ہیں۔۔۔۔
یہ کہتے ہوے وہ کچن میں گئ تو نور بهی ان کے پیچهے چلی گئ۔۔۔
واپس آئی تو سنار۔کو وہاں نہ پا کر باہر آئ تو تو وہ بالکونی میں کهڑا تها۔۔۔مین گیٹ سے انٹر ہوتے ہی داہیں طرف گیراج تها۔۔۔بائیں طرف راہداری تهی۔۔۔جہاں کیاریاں تهی۔۔اوروہیں سے رستہ باغ میں جاتا تها۔۔۔نور نےکهانے کہ بعد ہی باغ کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔۔سنار آو کهانا لگ گیا۔۔ہے کافی دیر ہو گئ ہے۔گهر میں سب انتظار کر رہے ہوں گے۔۔
ہاں پاپا کی کال آئ تو تهی میں نے انهیں بتا دیا تها۔۔۔
☆☆☆☆☆
حنساء کے ہاتهوں پہ مہندی لگ رہی تهی۔۔۔اور سب اس کہ ارد گرد بیٹهی ہوئ تھی۔۔۔
اللہ معاف کرے تم لڑکیوں سے منگنی پہ بھی اتنی مہندی۔۔۔
کیوں سنار بہائ آپ نے بهی لگانی ہے۔۔۔۔
نہیں بس میری جگہ نور کو لگوا دینا۔۔۔۔
لیکن وہ تو مہندی لگاتی ہی نہیں ہیں۔۔۔علیزے بولی تھی
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے میں نور سیڑھیوں سے اترتی نظر آی۔۔
مسٹر سنار لڑکیوں کہ درمیان سے اٹهیے زرا۔۔۔ ابو جی آپ کو کب سےبلا رہے ہیں۔۔۔
اس نے ابو کہ روم کی طرف آنکهوں سےاشارہ کرتے ہوے کہا
ہاے اللہ ابهی سے اتنی جھلسی۔۔۔
میں بهلا کیوں جهلس ہونے لگی۔۔۔
وہ نور کی طرف دیکهتےہوے ہی جا رہا تها کہ ہمایوں سے ٹکرا گیا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...