لاریب باتھ لے کر نکلی تو۔۔۔بے خیال ہی اُسے ہوش آیا کہ اُس کی رپورٹس آج آنی تھیں۔۔کئ دنوں سے اُس کو چکر آنا معمول ہ گۓ تھے۔۔۔دیکھتے دیکھتے اُس کی آنکھوں سے پانی اور سامنے دھندھلا پن آجاتا تھا۔۔۔اُس نے کُچھ دن پہلے ہی ٹیسٹ کرواۓ تھے۔۔لیکین رپورٹس نھی دیکھی تھی۔۔۔
اُس نے دراز سے وہ رپوٹس نکالی اور اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالی موبائل پکرا اور سیڑھیاں اُترنے لگی۔۔۔
وہ ملازمہ جو ہر وقت سر پر رہتی تھی اُس کی تیاری دیکھ کر خود ہی چادر لے آئی اور اُس کے ساتھ چل پڑی۔۔۔۔
گاڑی وہ خود چلاتی تھی۔۔۔تو ملازمہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔اور اُس نے گاڑی ہسپتال کی طرف بڑھا دی۔۔۔
************************
رحیم صاحب روٹی کھا لیں۔۔۔تین دن سے آپ نے کُچھ نھی کھایا سواۓ چاۓ کے ساتھ پاپوں کے۔۔۔
آریانہ جہاں کمرے میں کھانا لے کر آئ۔۔۔اور اپنے اُسی انداز میں بولی جیسے رحیم کے گھر والے بولتے تھے۔۔پنجابی لہجے میں۔۔۔۔
نہی آریانہ جہاں ۔۔۔دل نھی ہے۔۔۔
کیوں نھی ہے۔۔۔۔آریانہ نے پوچھا۔۔۔
بیگم سب جانتی ہو پھر سوال کیوں کرتی ہو۔۔۔؟
وہ اُٹھ کر باہر چلے گۓ۔۔۔
وہ اُنکے پیچھے لپکی۔۔۔
رحیم صاحب رُکیے۔۔۔نور جہاں کا واسطہ کھانا کھا لیں۔۔۔۔
چلتے قدم رُک گۓ۔۔۔۔
اور آریانہ جہاں نے خود پر ضبط کرتے ہوۓ۔۔۔اپنی بات منوا ہی لی۔۔۔۔
******
یار انس تو کم از کم گھر میں انکل کو ہی بتا دے۔۔
تیرے سے کون سا پہلی بار یہ غلطی ہوئ ہے۔۔
لڑکیوں کو تو پتا نھی کیا سمجھتا ہے۔۔۔پکرا۔۔قید کیا۔۔۔زیادتی کی۔۔۔اور زندہ بھی نھی چھوڑا۔۔۔
مار دیا۔۔۔۔۔۔
وہ پتا بھی ہے کون تھی۔۔۔؟
جہاں بنگلے۔۔۔کی رانی سمجھ لے تو۔۔۔
اُس قصبے کا سب سے مشہور اور آبائ گھرانا ہے وہ۔۔تُجھے کیا لگتا ہے تو بچ جاۓ گا۔۔۔؟
تیری غلط فہمی ہے۔۔۔
تین چار دوست انس پر اپنی اپنی دھونس جما رہے تھے۔۔۔
لیکین وہ عام سا کھڑا تھا۔۔۔اور گھونٹ گھونٹ۔۔۔اپنے آپ کو نشے میں ڈبو رہا تھا۔۔۔۔۔
اُن کچھ لڑکوں کا گروپ تھا لیکین سب سے زیادہ وہی بدکردار تھا اور بے حس۔۔۔بھی تھا۔۔۔
اُس کے نزدیک عورت کُچھ نھی تھی۔۔۔۔جب پرورش ہی اپنے ہاتھوں میں نہ ہو تو اولاد بھی اپنے والدین کو وہی سب دیتی ہے۔۔جو وہ اُن کو دیتے ہیں۔۔۔۔بات ساری ماحول کی اور تربیت کی ہے۔۔۔۔۔۔
*************^
وہ ہسپتال پہنچی تو اپنے موبائل سے ڈاکڑ کے نمبر پر میسیج کر دیا۔۔۔
وہ لاریب کو بہت دیر سے جانتی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ لاریب سے خاص لگاؤ بھی رکھتی تھی۔۔۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی ابھی اُسے باہر ویٹنگ ایریا میں انتظار کرتے ہوۓ۔۔نرس نے آکر اُس کا نام لیا اور ملازمہ کو وہیں ٹہرنے کا کہا۔۔۔
کبھی میری طرف سے دھیان ہٹا کر کہیں اور بھی نظریں گھُما لیا کرو۔۔۔۔لاریب کا ملازمہ کو بس اتنا سا کہنا تھا کہ یہ اُس نے پیکیج لگایا اور نسرین کو رو رو کر یہ بات بتا دی۔۔۔جس سے نسرین کو فرق نھی پرتا تھا وہ جانتی تھی لاریب اپنے مائگرین اور نروس کے لیے ڈاکٹر پر آتی ہے۔۔۔
سلام کے بعد وہ ڈاکڑ کے سامنے بیٹھ گئ اور رپورٹس اُن کے حوالے کر دی۔۔
اُس دوران بھی اُس کی آنکھوں کے أگے سیاہ منظر آیا تھا مگر وہ بلکل آرام سے بیٹھی رہی۔۔
رپورٹس ایک نھی دو نھی تین نھی بلکہ بہت بار۔۔۔
ڈاکڑ پڑھ چُکی تھی۔۔۔۔۔اور ہاں وہ لاریب کی ہی تھی اور جان لیوا بیماری بھی لاریب کی ہی تھی۔۔۔
********
انس پورے ایک ہفتے بعد گھر واپس آگیا تھا۔۔۔
اپنے کمرے میں وہی مزے اور عیاش کرتا انس خان ۔۔۔
آزادی کی یہ دنیا بس کُچھ ہی دیر کی ہے۔۔سزا تو قید بھی نھی ۔۔سزا تو وہ ہے جو خداتعالیٰ دے۔۔۔
آخر خلیل بھی کب تک حقہ پیتا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا۔۔
اُس نے حبیب خان کا چپہ چپہ اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔۔۔
وہ بدلہ لینا چاہتا تھا اور دو گُناہ لینا چاہتا تھا۔۔۔
وہ ذرا سے انتظار میں بھی تھا۔۔وہ خود اکیلا سب کُچھ کرنا چاہتا تھا۔۔اور باقیوں کو خوشخبری دینا چاہتا تھا کہ اُس نے دُگنا بدلہ لیا ہے۔۔۔
رحیم خان نے بھی اپنی جدو جہد کے بعد نام پتا سب نکلوا لیا تھا۔۔۔
خلیل چھت پر اُنہی کے پاس جا رہا تھا وہ بس رحیم کو سب بتانا چاہ رہا تھا۔۔۔
ساری بات بتانے کے بعد۔۔۔
ایسا کر سالے۔۔ایک بدلہ تو لے لے۔۔۔۔ایک بدلہ میں۔۔۔۔اُس خبیث کی ایک عدد بہن بھی ہے۔۔۔
رحیم خونی آنکھوں سے بولا۔۔لیکین خبردار جو تم نے کُچھ ایسا کیا جیسا نور کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔
آریانہ جہاں چھت کے دروازے پر کھڑی بولی۔۔۔
آپا جہاں۔۔تشریف رکھیے۔۔خلیل نے اُٹھ کر جگہ دی۔۔
بیٹھ جاؤ لالے۔۔میں کون سا اب تم سے روز ملتی۔۔۔یہ جو تمہاری نیلی آنکھیں ہیں نا۔۔۔نور جہاں۔۔کی بھی تو۔۔وہ آدھا جملہ چھوڑ کر بات کی طرف آئ۔۔
مُجھے کیوں نھی کُچھ بتایا۔۔وہ دونوں کو باری باری دیکھ کر بولی۔۔
ہم دونوں آپ کو خوشخبری دینا چاہتے تھے۔۔
چلو اچھا ہے نا لگ گیا پتا تمہے۔۔رحیم بولا۔۔
ہممممم۔،۔۔آریانہ بولی۔۔
اُس کی بھن کو خبردار جو تم نے ہاتھ بھی لگایا تم میرے بھائ ہو۔۔نور جہاں کے بھائ ہو۔۔۔
پاک رہنا ہے تمہے۔۔۔کسی عورت کی عزت لے لینے سے کیاتمہاری عزت میں اضافہ ہو گا۔۔۔
بلکل نھی ۔۔
آریانہ بولی تو وہ سر جھُکا گیا۔۔۔
رحیم صاحب بولے۔۔چل یہ چھوڑ ابھی ۔۔
اُس کا باپ آجاۓ ایک بار باہر کے ملک سے پھر دیکھنا کیسا حشر کرتے۔۔پورا قصبہ دیکھے گا۔۔
اُس کے باپ کاانتظار کیوں ہے۔۔؟آریانہ بولی۔۔
ارے باپ کو بھی تو کرتوت پتا لگے نا۔۔انجام اُس کا بھت بُڑا ہے۔۔۔ہمارے ہاتھو۔۔رحیم ایسے بولا جیسے اُسے دانتوں تلے چُبا رہے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
^***************
ڈاکړ میں زندہ ہوں خوش ہو جب تک اللہ نے چاہا بس تب تک۔۔میں ٹھیک ہو ۔۔۔ بس یہ دوائیاں لیتی رہو گی۔۔۔لیکین وہ سب نہی۔۔۔۔لاریب کھڑے ہوتے ہوۓ بولی۔۔۔ڈاکڑ بھی اُس کے ساتھ کھڑی ہوئ۔۔۔ساری باتیں سمجھا دی ہیں تمہے۔۔۔۔ اور گلے لگا کر اُسے رُخصت کیا۔۔۔۔۔۔
بی بی جی دیر لگا دی بڑی آپ نے۔۔۔خیر تو ہے نا…..لاریب اُس کی باتوں کو ان سُنا کرتی ہوئ آگے بھرتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔
دوائیاں لی اور گاڑی میں جا کر بیٹھی۔۔۔۔۔
اب اُس کا ارادہ مُویی دیکھنے کا تھا….اُس نے سینیما کی طرف رُکھ لے لیا۔۔۔دو ٹکٹس لیں اور زرا فاصلے پر لے کر ملازمہ کو بٹھا دیا۔۔۔خود کونے والی جگہ لے لی۔۔اور کب کے رُکے آنسو بہانا شروع کر دیے۔۔۔۔۔کوئ اتنا بڑا اور اچھا سینما نہی تھا…..وہی مویی تھی جو ہر مہینے ہی اِس سینیما میں لگتی۔۔۔۔۔
انٹَرول آیا تو سب باہر آندر ہوۓ۔۔۔
لاریب نے جلدی سے آنسو صاف کیے اور ملازمہ کو دیکھا۔۔۔وہ بھی شائد باہر گئ تھی۔۔۔وہ ہر مرتبہ آتی تھی اور ہر وقت ہی تو ساتھ ہوتی تھی اُس کو بھی سبگی جگہوں کا پتا تھا۔۔۔
کیا سوچ تھی اُس کے باپ کی بس لڑکی کو یونیورسٹی نھی بھیجنا کیوں کہ وہاں جا کر خراب ہوتی ہے۔۔۔لیکین یہاں وہاں جانے کی اجازت عام تھی
سامنے کھڑی ایک ٹین ایجر لڑکی کو دیکھ کر لاریب نے سوچا۔۔۔
وہ کسی لڑکے کے ساتھ عام ہنسی مزاق کر رہی تھی وہ دونوں اپنی اپنی سیٹوں کے پاس ہی کھڑے تھے۔۔ایک سیلفی لے کر وہ دونوں بیٹھ گۓ۔۔۔۔
لاریب نے زرا سا اپنے ساتھ دیکھا تو ملازمہ واپس أ چُکی تھی۔۔۔۔
اور وہی لڑکا جو کل بھی اُسے اپنے گھر کے باہر نظر آیا تھا وہ اُسی کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔۔لاریب نے آنکھیں مل کر دوبارہ دیکھا۔۔اور غور سے دیکھا۔۔۔ہاں یہ وہی تھا۔۔۔۔لاریب نے اگنور کرنا بہتر سمجھا اور مووی دوبارہ شروع ہو گئ۔۔۔۔۔۔
****************
موویی کے دوران کی لاریب ملازمہ کو واشروم کا کہہ کر باہر آئ۔۔۔۔اور اِدھر اُدھر ٹھلنے لگی۔۔۔اُسے پتا نھی کیوں وہم تھا کہ وہ باہر ضرور آۓ گا۔۔۔
اور وہی ہوا۔۔۔وہ باہر آیا اور اُسکے قریب آیا۔۔۔۔
مسلئہ کیا ہے آپکا مسٹر۔۔۔لاریب نے فوراً سوال کیا۔۔۔
مسز کہہ لو آپکو وہ بھی اُسی لہجے میں بولا۔۔
لاریب نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اُسے دکھائیں۔۔۔
ہیں کون آپ۔۔۔سوال کیاگیا
جی پچھلے کئ دنوں سے آپکا عاشق ورنہ مُعیز نام ہے میرا۔۔شاہ آگے لگاتے ہیں۔۔۔
لاتیب اُس کی اِس رویے سے حیران ہو گئ۔۔،
کیا ۔۔بئ۔۔مجھے آپ میرے اِرد گِرد نظر مت آئیے گا۔۔۔لاریب نے غصے سے کہا۔۔۔
مِس لاریب حبیب خان۔۔۔۔پچھلے اتنے دِنوں سے آپ کے گھر کے سامنے چوکی لگاۓ بیٹھا ہوں۔۔۔۔دِن رات آپکے پاس رہتا ہوں اور آپکو خبر ہی نھی۔۔واہ اور اب جب نظر آگیا تو آپ ایسے کہہ رہی،۔۔۔
وہ شوخے انداز کا مالک تھا تو وہ النی ہر بات روانگی میں ہی کہہ رہا تھا۔۔
فکر نہ کریں آپ وہ لاریب کو خاموش دیکھ کر بولا۔۔اُس وقت لاریب کی آنکھوں سے سیاہی گزر کر گئ تھی۔۔۔۔
میں اب رشتہ ہی بھیجو گا۔۔۔۔۔اور واپس چلا گیا۔۔۔لاریب وہیں کھڑی رہ گئ اُس کی حالت پہلے ہی خراب تھی اور اب یہ۔۔اُس نے ملازمہ کے نمبر پر مسڈ کال دی اور گاڑی میں چلی گئ۔۔۔ملازمہ سمجھ گئ اور باہر آگئ۔۔۔۔
*************************************