لاریب کے بال دیکھتا ہے۔۔۔گردن تک رہ چُکے ہوتے ہیں۔۔کمر تک آتے بال اب گردن تک۔۔۔چہرے پر وہی سکون تھا۔۔لیکین جب وہ آنکھیں دیکھتا تو اُسے خبر ہو جاتی کہ پیار کی عادی نھی ہے۔۔۔پیار کی ترسی ہوئ ہے۔۔۔
وہ نظریں چُڑا لیتا ہے۔۔۔اور باہر چلا جاتا ہے۔۔۔
ماں کا پیار اور دعائیں لیتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریانہ جہاں نے ایک آواز اُٹھائ تھی تو بھت لوگوں کو انصاف ملا تھا۔۔۔
انصاف میں کوئ رحم دلی کی پالیسی نھی ہوتی ۔۔
بس انصاف انصاف ہوتا ہے۔۔۔
آریانہ جہاں نےنور جہاں کا ایک اور خواب پورا کیا۔۔
اور ایک ایجینسی کھولی۔۔جہاں تمام غریب لوگ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم اور تربیت دے سکتے تھے بلکل مفت۔۔۔
آریانہ کا وہی طور طریقہ تھا۔۔۔دربار میں جانا اور حاضری دینا۔۔دعا مانگنا
لیکین اب دعا بدل گئ تھی۔۔۔
دعا ہے کہ ہر بہن خوش رہے۔۔سکون میں رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُعیز کی فلائیٹ کا ٹائم ہو گیا تھا۔۔۔
وہ تین دن کے لیے سعودیہ جا رہا تھا۔۔
مکہ مُکرمہ میں اپنی زندگی کے لیے دعا کرنے۔۔۔
بیوی تھی وہ اُسکی جائز مُحبت ۔۔جائز رشتہ بن مانگے بھی مل جایا کرتا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاریب ؛ دور چلے گۓ ہو مُجھے مانگنے۔۔۔
مُعیز ؛ کہیں بھی جاؤ گا۔۔۔بچانے کی کوشش کروں گا
لاریب ؛ کوئ فائدہ نھی۔۔۔۔
مُعیز ؛ کیوں میں اور تم خوشی سے ساری زندگی گزار دیں گیں۔۔۔
لاریب ؛ کیا مطلب گزار دیں گے۔۔جیے گے نھی نا۔۔
مُعیز؛ اب جی کیسے سکتے ہیں۔۔کوشش کر سکتے ہیں بس۔۔
لاریب ؛ کوئ فائدہ نھی جانے دو مُجھے۔۔نھی رہا مُجھے اب یہاں۔۔۔
مُعیز؛ چُپ کر جاؤ۔۔۔دو دن مل جائیں بھت ہیں۔۔۔
بس خواب پورے کرنا چاہتا ہوں کُچھ خواب۔۔۔
لاریب ؛ تمہارے کاندھے سر اور باتیں رواں رہیں گی
اور میری جان نکل جاۓ گی۔۔۔
مُعیز کی آنکھ ایک دم کھُلتی ہے۔۔وہ ائیرپورٹ پر بیٹھا اونگ رہا ہوتا ہے۔۔اناؤسمنٹ اُسی کی فلائٹ کی کو رہی ہوتی ہے۔۔۔وہ پہلی اُٹھتا ہے اور احرام باندھنے کی تیاری کرتا ہے ائیرپورٹ پر ہی وہ نیت کر لیتا ہے اور سفید پاک احرام میں مُعیز اپنے رب کے حضور ہونے کو تھا۔۔۔۔
لاریب کے لیے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاریب کی نظریں اُسی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں ۔۔۔
مُعیز کی امی مسلسل اُس کو بہلانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔۔لاریب کو ہسپتال کے پارک میں لے کر آتی ہیں تو لاریب معصوم بچوں کو دیکھ کر مسکرا دیتی ہے۔۔
گڑیا ۔۔۔لاریب زیرلب بولتی ہے۔۔
میری لاریب اور مُعیز کو بھی اللہ تعالی اتنی پیاری بیٹی دے گا۔۔۔
مُعیز کی امی لاریب کی نظریں دیکھ کر بولتی ہے۔۔
امی مجھے یہ بچی پکرا دیں..اُس کی امی کو کہیں۔۔
موم سی وہ پلاسٹک کی گُڑیا اپنے کھیل میں مصروف تھی۔۔۔۔لاریب کو تو بچے ویسے ہی بھت پسند تھے۔۔۔۔۔۔۔
اچھا بیٹا۔۔وہ اُٹھ کر اُس کی ماں کے پاس جاتی ہیں اور اُس کی ماں خود اپنی بیٹی کو لاریب کے پاس لے کر آتی ہے۔۔۔
لاریب مسکرا کر اُسے پکرتی ہے وہ بچی سال سوا سال کی تھی۔۔۔
لاریب اُسے چومتی ہے۔۔۔
اور پھر کھیلنے میں مگن ہو جاتی ہے۔۔۔
تھوڑی دیر ہی گزرتی ہے کہ اُس کی ماں کو گھر جانے کا خیال آجاتا ہے۔۔۔
اور وہ اپنی بچی پکرے گھر کی راہ لیتی ہیں۔۔۔
لاریب کی نبھی وحیل چئیڑ گُھمائ جاتی ہے۔۔اور نرس اُسے کمرے تک چھوڑ کر جاتی ہے۔۔۔
دوسرا دن تھا لاریب اُسے ڈھونڈ رہی تھی مگر پوچھ نھی رہی تھے۔۔۔مُعیز نے ڈاکڑ سے مسلسل رابطہ رکھا ہوا تھا۔۔۔
دعائیں بھی شدت کی تھی۔۔۔
اب بس باقی مہلت اللہ کی مرضی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
رُکن یمانی کو چھو کر ، ہجراسود۔۔کو چوم کر دعا مانگی تو مہلت کی۔۔۔
زندگی کیوں نھی مانگی ؟
دل سے سوال آیا
مانگ لیتا تو جی نہ پاتی میں اتنا ظُلم نھی کر سکتا اُس پر کے روز مرتے ہوۓ اُسے دیکھتا
جواب بھی خودی سے دیا گیا
چلو مُہلت میں زیادہ مزاہ ہے ۔۔دل نے کہا
مگر رو پڑا۔۔مُعیز کی آنکھیں بھیگ گئ۔۔چہرے پر آنسو کی ایک لہر تھی۔۔
تو کیا واقع وہ مر رہی تھی
وہ مر جاۓ گی
میں اُس کے ساتھ کو اُس کی آواز کو ترسو گا۔۔۔
مُعیز نے سر جھُکایا اور خانہ کعبہ کے غُلاف کے ساتھ اپنا چہرہ لگایا اور دعا مانگی۔۔رات کو اُس کی واپسی کی بھی فلائیٹ تھی۔۔
تو اُسے اب ائیرپورٹ کے لیے نکنلا تھا۔۔
اُس نے ایک بوتل آب زمزم کی بھڑی اور ہوٹل کی طرف چل دیا۔۔
اُس کو یقین تھا کہ اب وہ کُچھ بہتر ہو جاۓ گی اور اُس کو اپنی غلطی ٹھیک کرنے کا موقع مل جاۓ گا۔۔
اللہ پر یقین ہو تو آپ کو پوری دنیا بھی مل جاتی ہے۔۔تو یہ تو پھر مُہلت ہے۔۔۔
******************************
آجاۓ گا بیٹا وہ جس کا تمہے انتظار مُعیز کی امی لاریب کے بال بنا رہی تھی جو بہت چھوٹے اور کم رہ گۓ تھے۔۔
لاریب کی نظر بار بار دروازے پر جا رہی تھی۔۔
آج ڈاکڑ نے لاریب کو گھر لے جانا کہہ دیا تھا۔۔۔
اُن کے نزدیک اب سب اللہ کی حوالے تھا۔۔دوائیاں تو ایک سرسری مادہ ہیں۔۔اور ان پر زندہ رہنا بھی ایک بہانا ہے باقی تو اللہ کے کرم ہیں۔۔۔
صبح فجر کا وقت تھا۔۔لاریب اپنے اور مُعیز کے کمرے میں تھی۔۔وہ آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئ تھی۔۔۔
ساتھ مین ملازمہ تھی۔۔جو اُس کے پیروں کی مالش کر رہی تھی۔۔۔
بی بی جی اب میں چلتی ہوں صاحب آگۓ ہیں۔۔۔
وہ ابھی فجر کی نماز پڑھ کر لیٹی تھی۔۔وہ بیٹھ کر پڑتی تھی ۔۔
ملازمہ ویسے ہی اُس کے ساتھ رہتی تھی۔۔۔
مُعیز کی امی کو بھی اُس نے آرام کا کہہ کر کمرے میں بھیج دیا تھا۔۔
لاریب نے بند آنکھیں ملازمہ کی بات پڑ کھولی۔۔۔
مُعیز۔۔۔
سفید شلوار قمیض میں تھا۔۔
اور لاریب نے بھی سفید پہن رکھا تھا۔۔سادہ لمبا فراق۔۔
جی جانِ مُعیز۔۔
مُعیز اُس کے قریب آکر بولا تھا۔۔۔
کہاں تھے آپ اتنے دنوں سے اور یہ آپ کے بال کہاں گۓ۔۔۔لاریب نے مدھم مدھم کہا۔۔
بس کُچھ کام تھا اور یہ بال بھی بس ویسے ہی ۔۔اور ہنس دیا۔۔۔
لاریب نے اُس کے سر سے باریک نیٹ کی ٹاپی اُتاری اور ہاتھ پھیرا۔۔۔
ہمممم میں بھی گنجی ہو جاؤں گی لیکیب شائد آپ جیسی پیاری نہ لگو۔۔۔
لاریب بولی تو مُعیز نے غصے سے دیکھا پھر۔۔اُٹھا
اور وہ ڈبی لایا ۔۔جو اُس نے منہ دکھائ کے طور پر دی تھی لاریب کو لیکین اُس نے کھولی بھی نھی تھی۔۔
یہ چاہیے۔۔؟ مُعیز نے پوچھا۔۔
ہاں دیں نا۔۔لاریب نے کہا
اُٹھو پھر دلہن بنو۔۔
مُعیز اُس کا ہاتھ پکر کر اُسے کھڑا کرتے ہوۓ بولا۔۔
ملاریب حیران ہوئ۔ارے کیوں بئ۔۔اتنی ہمت نھی میرے میں پلیزمُعیز۔لاریب دوبارہ بیٹھنے لگی تو مُعیز اُسے زبردستی ڈریسنگ روم میں لے گیا۔۔
لاہنگا پہن کر آؤ۔۔مُعیز نے کہہ کر دروازہ باہر سے بند کر دیا ۔۔
لاریب مسکرائ اور آنکھوں میں نمی سمٹ آئ۔۔
کل صبح ڈاکڑ نے کہا تھا۔۔زیادہ سے زیادہ ایک رات ہے
آپ کے پاس ۔۔اور یہ بات ڈاکڑ نے مُعیز کی امی سے کہی تھی۔۔۔
اِسی لیے تو اُس کو گھر لے آۓ تھے۔۔
اُس نے لاہنگا پہنا تو اُس کا دل گھبرانے لگا۔۔۔
وہ دروازہ ناک کرنے لگی تو مُعیز نے فوراً دروازہ کھول دیا۔۔اُس نے صرف لاہنگا پہنا تھا۔۔
اور لال گلابی گال ۔۔۔
لال گلابی ہونٹ۔۔
کھُلے بال۔۔ اُس کے ڈمپل۔۔۔
مُعیز نے اُسے باہوں میں اُٹھا لیا۔۔اُس کی پلکیں شرم سے جھُک گئ
مُعیز مُسکرایا۔۔
آج صرف باتیں کریں گے ہم جانِ مُعیز۔۔
بھت خواب سجانے ہیں ہمے۔۔اور تمہے کُچھ نھی ہو گا۔۔
یہی سوچو بس۔۔۔
اُسنے لاریب کو پیار سے بیڈ پر بٹھایا۔۔
لاریب اب گھوگھنٹ نکال کر بیٹھو جلدی سے میں پھر منہ دکھائ دو گا نا۔۔
لاریب اُس کی بات پر ہنس دی۔۔
اور گھوگھنٹ نکال کر بیٹھ گئ۔۔۔
مُعیز کمرے سے باہر آیا اور دوبارہ اندر گیا۔۔ایک ڈرامہ چل رہا ہو جیسے۔۔۔
وہ اندر آیا اور اُس کے پاس بیٹھا۔۔۔
گھوگھنٹ اُٹھایا۔۔۔
جانِ مُعیز۔۔۔لاریب کے ماتھے پر لب مسلط کرتے ہوۓ بولا۔۔۔
لاریب زرا سا کسکمائ۔۔۔
اُس نے لاریب کو ڈبی سے اللہ واللا ڈائمنڈ لاکٹ نکال کر گلے میں پہنا دیا۔۔لاریب نے پیار سے مُعیز کے ہاتھ پکرے اور بولی۔۔۔
ہم ساتھ رہیں گے مُعیز نہ آپ کسی کے ہو گے نہ میں بس ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے ہیں۔۔اور تا قیامت رہیں گے۔۔پھر جنت میں ایک گھر بنائیں گے۔۔۔
لاریب کی معصومانہ باتوں پر مُعیز نے ساتھ بیٹھ کر اُس کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔
۔۔۔
کافی دیر خاموشی میں گزری ۔۔ایک دوسرے کا لمس کافی دیر محسوس کیا گیا۔۔۔
لاریب۔۔۔مُعیز نے پُکارا۔۔
لاریب ۔۔۔دوبارہ پُکارا۔۔
لاریب۔۔۔سو گئ ہو کیا۔۔۔
اُس نے اب کہ اُس کو سیدھا کر کے کہا
تو لاریب بلکل بے حرکت تھی۔۔آنکھیں کھُلی تھیں۔۔۔
لیکین سانسیں مدھم تھیں۔۔۔
لاریب۔۔۔۔
لاریب۔۔۔۔۔۔۔
مُعیز نے زور زور سے پُکارنا شروع کیا۔۔
اور دل جیسے کٹ گیا ہو۔۔۔
وہ جلدی سے اُس کو ہسپتال لے جانے کو نکلا۔۔۔
لیکین وہ تو مر چُکی تھی نا۔۔
سانسیں چیک کی تو مدھم مدھم سی تھی۔۔
دلہن بنی تھی وہ آج تو
آج تو محبت کی آزمائش ہوئ تھی۔۔
سچے عاشقوں کے دل کٹے تھے۔۔
لاریب کا عروسی جوڑا۔۔ایک شاپر میں ڈال کر نرس نے مُعیز کو پکرایا۔۔۔
لاریب چلی گئ تھی۔۔سب سے دور۔۔ہر محفل سے دور۔۔مُعیز کے کانوں میں وہی باتیں آرہی تھی۔۔
ہم ساتھ رہیں گے مُعیز نہ آپ کسی کے ہو گے نہ میں بس ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے ہیں۔۔اور تا قیامت رہیں گے۔۔پھر جنت میں ایک گھر بنائیں گے۔۔۔
گھر۔۔جنت۔۔ساتھ۔۔ہمیشہ۔۔۔
وہ بتانا چاہ رہی تھی۔۔وہ کہنا چاہ رہی تھی۔۔
کہ مجھے اپنی باہوں میں لے لو ۔۔
اِس قدر وہ خوش قسمت تھی کہ جان بھی گئ تو شوہر کی قربت میں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاریب کی آنکھیں تھوڑی سی کھولی تھی۔۔
مُعیز لاریب کو گھر لایا۔۔۔
اُس کا تابوت زمین پڑ رکھا گیا۔۔
سب آس پاس جمع تھے آریانہ جہاں بھی تھی۔۔مُعیز کی نہ آنکھوں سے آنسو نکل تھے نہ زُبان سے کوئ لفظ۔
حبیب خان اور نسرین پہنچ گۓ۔۔شام کا وقت تھا۔۔
حبیب خان نے قریب آکر
اُس کا ماتھا چوما۔۔آریانہ کو وہ وقت یاد آیا جب نور کا ماتھا رحیم نے چوما تھا
اور آنکھوں پڑ ہاتھ پھیرا تو وہ بند ہو گئیں۔۔۔
حبیب خان پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے ۔۔
نسرین چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی اُس کے تابوت پر پہنچی۔۔اور چیخ اُٹھی۔۔
لاریب مجھے معاف تو کر کے جاؤ۔۔۔مجھے یوں عذاب میں مت چھوڑ کر جاؤ۔۔۔
لاریب معاف کر دو۔۔۔
انسان کتنا عجیب ہے…مر جاۓ تب بھی سکون نھی۔۔۔زندہ رہے تب بھی سکون نھی۔۔
مر جاۓ تو معافیاں رہ جاتی لوگوں گی زندہ رہ جاۓ تو معافیوں کی وجہ بنتی رہتی۔۔۔
زندگی اِسی کا نام ہے۔۔۔
۔۔۔۔مُعیز نے پہلا کاندھا دیا اُسکے جنازے کو۔۔۔
اور باقی سب پیچھے۔۔۔
میری جان ہو تم لاریب،،۔۔میری دھڑکنیں کیوں نھی بند ہو جاتی۔۔۔
میں کیوں جی رہا ہوں۔۔۔میری سانسیں بند کیوں نھی ہو جاتی۔۔۔
میں تمہے کیسے مٹی میں اکیلا چھوڑ کر آؤ گا۔۔اندھیرے میں۔۔۔
میں اتنا مضبوط نھی۔۔۔۔
لاریب پہلی بار تمہے دیکھا تھا جب۔۔۔
اور جب اب آکھڑی بار تم میرے لیے اِس دنیا کی آخری خوبصورت لڑکی تھی اور رہو گی۔۔۔
میں تمہارا ہوں۔۔اور تا قیامت کسی کا نھئ۔۔کسی کا نھی۔۔۔
******************************************
برستی رات تھی۔۔۔
وہ بھیگ رہا تھا۔۔اُس کی قبر کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔
لو تمہاری پسندیدہ بارش آگئ۔۔مزے لو اب اِس سے۔۔میں یہیں ہوں لاریب۔۔ڈرنا نھی۔۔۔اُسنے سورۃ مزمل بند کی اور سورۃ یاسین کھول لی۔۔اب تو اُس کو تقریباً زُبانی یاد تھی۔۔
وہ صبح سب سے پہلے یہاں آتا رات کو گھر جانے سے پہلے یہاں آتا۔۔
اور بیٹھ کر سورتیں پڑھتا رہتا۔۔۔
۔۔۔بارش ہوتی تو سب کو وہ رات یاد آجاتی۔۔۔
جب نور جہاں گئ تھی۔۔جب لاریب گئ تھی۔۔
اور جب نسرین کی مغرور اولاد گئ تھی۔۔
زندگی کتنی چھوٹی سی ہے نا۔۔۔اِس میں سب ہو جاتا۔۔لیکین پھر بھی کُچھ نھی ہوتا..
۔۔۔۔۔۔۔۔لاریب چلی گئ۔۔۔۔۔۔نورجہاں کے بدلے کتنوں کو انصاف مل گیا۔۔۔۔مُعیز کو محبت مل کر جُدا ہوگئ۔۔۔۔بس بھیگی رات میں سب بہہ گیا۔۔۔۔۔
ختم شدہ۔۔۔۔۔۔۔