رحمت بی بی کی آنکھوں سے نہ ہی پانی بہا اور نہ ہی وہ سرخ ہوئیں۔ ان کی آنکھ میں جلن، سوزش، خارش کچھ بھی تو نہیں ہوئی۔ بس دکھائی دینا کم ہونے لگا۔ رحمت بی بی کی فرمائش پر سب سے پہلے مشہورومعروف سرمے آزمائے گئے۔ اس کے بعد آنکھوں میں ڈالنے کے لیے قطرے استعمال کیے گئے۔ اس کے بعد طبیبوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا۔ بالآخر معلوم ہو ا کہ ان کی بصری عصب (Optic Nerve) میں کوئی لاعلاج صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ کئی ایک مشہو رومعر وف سرجنوں سے رجوع کیا گیا، لیکن جواب نفی میں ملا۔ ان کا مرض سرجری سے بھی درست ہونے کے لا ئق نہیں نکلا۔ ان کی بینائی روز بہ روز کم ہوتی چلی گئی۔
بینائی جیسے جیسے کم ہوتی جاتی وہ مزا جاً بہتر سے بہتر ہوتی گئیں۔ بیگمی کے زمانے میں ان کا مزاج ساتویں آسمان پر ہوا کرتا تھا۔ نوکر ان کے سامنے آنے سے ڈرتے تھے۔ یوں بھی سب چھوٹے بڑے ان سے خائف رہتے تھے۔ بینائی کم ہونے سے تو انھیں اور زیادہ چڑچڑا اور تنک مزاج ہو جانا چاہیے تھا، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ وہ ہر کسی سے نرم اور شیریں گفتار ہوگئیں۔ وہ کم بولتیں لیکن جب بھی کچھ بولتیں تو ان کی بات سیدھی دل میں اترتی محسوس ہوتی۔ ان کی بینائی بالکل ختم ہوگئی۔ وہ اندھی ہوگئیں، لیکن ان کے آس پاس چھوٹے بڑے لوگوں کا مجمع لگا رہنے لگا۔ گویا ان کو دیکھنے کے لیے اوروں کی آنکھیں مل گئیں۔
میں ان کے گھر بہت کم جایا کرتی تھی۔ مجھے ان کے شان، بان، آن اور تصنع سے معمور رویے سے دلی بیزاری تھی۔ ان کے مزاج کی اس غیرمعمولی تبدیلی سے متأثر ہونا فطری امر تھا۔ میں ان کے قریب ہوتی چلی گئی۔ اگر کسی دن میں ان سے نہ ملتی اور ان کے ہاں نہ جاتی تو مجھے اپنی زندگی میں کمی محسوس ہوتی۔ وہ بھی میرے ساتھ بے حد محبت سے پیش آتیں اور مجھ سے بات کرتے سمے بہت مطمئن اور پرسکون لگتیں۔ اس پر میں بے حد حیران ہوتی۔ بینائی چلے جانے پر میں نے کبھی ان کی زبان سے شکایت کا ایک لفظ نہیں سنا۔ میرا جی چاہتا کہ میں ان سے اس موضوع پر بات کروں۔ میں اپنے ذہن میں ان سوالات کو مناسب الفاظ دیتی رہتی، لیکن کوئی بھی سوال کسی بھی ترتیب کے ساتھ میری زبان پر نہیں آیا۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کسی کی جاتی ہوئی بینائی پر بات کرنا اس کو شدید صدمے سے دوچار کرنا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ان سے قریب قریب ہر روزخاموش سوالات کرتی اور واپس اپنی زندگی میں لو ٹ جاتی۔
اس شام رحمت بی بی کے گھر معمول سے زیادہ تاخیر سے پہنچی۔ رحمت بی بی اپنے کمرے میں تنہا تھیں۔ مصلّے پر بیٹھیں کچھ ورد کر رہی تھیں۔ ان کے آس پاس کو ئی نہ تھا، میں ان سے کچھ فاصلے پر چپ چاپ بیٹھی ان کو دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد یا تو میری سماعت تیز ہو گئی یا ان کی اپنی آواز۔ وہ جو پڑھ رہی تھیں صاف سنائی دینے لگا۔
’’ اللہ نُورالسموٰتِ والارضِ‘‘ (اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔)ا ن کی دھیمی آواز میں عربی زبان کے یہ الفاظ ان کے کمرے کو روشن کر رہے تھے۔ اسی وقت پہلی مرتبہ مجھے یہ احساس ہوا کہ ان کے کمرے میں توروشنی نہیں تھی۔ سارے شہر کی بجلی غائب تھی۔ میں اسی طرح ان کے الفاظ کی روشنی میں کچھ دیر بیٹھی رہی۔ اور پھر چپ چاپ سے اپنے گھر لوٹ گئی۔ مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔ گھر جاکر میںنے دیکھا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ میں اندازے سے اپنے کمرے کی طرف گئی اور بیڈ کے برابر رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔ میری زبان سے وہی الفاظ جاری تھے ’’ اللہ نُورالسموٰتِ والارضِ‘‘ اور میری آنکھیں اشک بار تھیں؟