ایک ہفتے بعد۔۔۔
کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں ٹی وی پر لگے نیوز چینل پر لڑکیوں کی سمگلنگ کی خبر چل رہی تھی۔ جس میں گینگ کے بندوں کو پکڑے جانے کی خبر سنائی جا رہی تھی۔ (جو کے جھوٹی تھی)
کردم نے اس معاملے کو آغا حسن کے کہنے پر اپنے بندوں کے ذریعے دبا دیا تھا اور یہ خبر نیوز چینلوں پر چلوا دی تھی کہ گینگ کے بندوں کو پکڑا جا چکا ہے۔
جمشید کی تدفین کے دو دن بعد ہی سب واپس اپنے اپنے راستوں پر نکل پڑے تھے۔ آغا حسن بھی جمشید کے قاتل کو ڈھونڈنے اور سمگلنگ کے کیس کو حل کرنے کا کام کردم پر ڈال کر واپس چلا گیا تھا۔ کردم نے بھی اس معاملے کے لیے فوراً حامی بھر لی تھی تاکہ وہ سب جلد از جلد یہاں سے واپس لوٹ جائیں۔۔۔
” اففف !! ٹی وی پر بھی یہ ہی سب۔” اس نے جھنجلاتے ہوئے چینل بدل دیا۔ بیزاری سی بیزاری تھی۔ اس نے چہرہ موڑ کر گھڑی کی طرف دیکھا کہ تبھی خواب گاہ کا دروازہ کھلا اور کلون کی خوشبو کمرے میں چاروں سو پھیلتی چلی گئی۔
کردم نے آگے بڑھ کر ایک نظر صوفے پر بیٹھی آئینور پر ڈالی۔ جس کا غصّے سے بھرا چہرہ نیم اندھیرے میں ٹی وی کی روشنی پڑنے کے باعث دمک رہا تھا۔ ناک میں موجود ہیرے کی نازک سی لونگ اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔
وہ مسکراتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
” کیا ہوا منہ کیوں پھولا ہوا ہے؟ ”
آئینے میں نظر آتے آئینور کے عکس کو دیکھ کر پوچھا۔ جواباً اس نے سخت گھوری سے نوارا۔
” ایسے مت دیکھو، مجھے معلوم ہے میں بہت ہینڈسم ہوں۔”
وہ گھڑی اُتارتے ہوئے مسکرا کر بولا اور پلٹ کر اس کے پاس چلا آیا۔ جو مسلسل اسے گھورنے میں لگی تھی۔
” تم صبح کی بات کو لے کر اب تک ناراض ہو؟ ”
کردم اس کے سامنے جھکا اور اس کے گرد سے دونوں ہاتھ گزارتے ہوئے پیچھے صوفے پر جما کر اس کی راہِ فرار کو ترک کر دیا۔
” میں تمہیں اب اکیلے باہر نہیں بھیج سکتا۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ہو؟ ”
کردم کی اس بات پر بھی آئینور نے کوئی ردِ عمل نہ دیا بس آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھورتی رہی۔
کردم کی مسکراتی نظریں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں کہ تبھی اس کی نظر آئینور کی چمکتی لونگ پر جاٹکی۔ وہ تھوڑا اور جھکا اور اپنے ہونٹوں سے اس دمکتی لونگ کو چھونا چاہا مگر آئینور نے لمہے کی تاخیر کیے بغیر فوراً چہرہ بائیں جانب موڑ لیا۔ کردم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
” اچھا چلو ناراض مت ہو۔ ہم ابھی باہر چلتے ہیں۔”
” واقعی؟؟ ”
آئینور نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے پوچھا۔
” ہاں واقعی۔ میں بس کپڑے بدل لوں پھر چلتے ہیں۔”
” ٹھیک ہے تب تک میں عبایا پہن لیتی ہوں۔”
اس نے کہتے ہوئے کردم کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
” اس کی ضرورت نہیں۔ رات ہو رہی ہے بس دوپٹہ لیے لو۔”
کہتے ہوئے ایک بار پھر جھکا اور اس بار ناک کی لونگ کو چھو ہی لیا۔
” میں بس ابھی آیا۔”
وہ پیچھے ہٹتا ہوا بولا اور مڑ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
آئینور بھی اس کی پشت کو گھورتی اُٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
۔*******************۔
” کہاں تھے تم اتنی دیر سے؟ کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ سعدی کی حالت بگڑتی جارہی ہے۔” وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔
” نوکری کی تلاش میں ہی گیا تھا اور اس کا بخار ابھی تک نہیں اُترا ؟ ”
وہ فکر مند ہوتا کمرے کی جانب بڑھا، جہاں چار پائی پر گیارہ سالہ سعدی لیٹا بخار میں تپ رہا تھا۔
” اکبر کچھ کرو۔ کہیں سے پیسے کا انتظام کرو ہمیں اسے ہسپتال لے جانا ہوگا۔”
وہ سعدی کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتے ہوئے بولی۔
” تو فکر نہیں کر رانی۔ اسے دیکھ میں بس ابھی پیسو کا انتظام کر کے آیا۔”
وہ پریشان ہوتا، ایک بار پھر اس نچلے طبقے کے گھر سے باہر نکل گیا۔ رانی دوپٹے سے آنکھیں رگڑتی سعدی کی پٹی کرنے میں لگی رہی۔
۔********************۔
کالے بادلوں کی چھت تلے وہ اس سنسان سڑک پر قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے۔ لال دوپٹے سے چند شرارتی کالی لٹیں اس کے پُرکشش دمکتے چہرے پر اٹکلیاں کر رہی تھیں۔ جنہیں وہ بار بار کان کے پیچھے اڑس دیتی۔
” افففف !! لوگ اپنی محبوباؤں کو ڈنر پر لے کر جاتے ہیں اور یہ مجھے سنسان سڑک پر لے آیا ہے۔”
آئینور غصّے سے بڑبڑائی ساتھ ہی چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو بلیک شلوار قمیض میں بے حد حسین لگ رہا تھا۔ “ہیل” پہن کر بھی وہ اس قد آور شخص کے کندھے کو نہیں پہنچ پا رہی تھی مگر ہیل کے ساتھ اس کا قد مناسب لگ رہا تھا۔
خود پر آئینور کی نظروں کو محسوس کر کے کردم نے بھی اس کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
” ایسے مت دیکھو، مجھے معلوم۔۔۔”
” ہاں ہاں معلوم ہے بہت ہینڈسم ہیں۔” کردم کی بات کاٹتے ہوئے وہ جل کر بولی۔
” اب کیوں ناراض ہو؟ اب تو تمہیں باہر بھی لے آیا تاکہ تم کھلی فضا میں سانس لے سکو۔” وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔
” کھلی فضا کے لیے آپ کو یہ سڑک ہی ملی تھی؟ ”
“ہاں !! کیونکہ میں چاہتا تھا ہم دونوں کچھ وقت تنہا سکون سے گزاریں جہاں صرف “ہم” ہوں۔”
کردم نے ہم پر زور دیتے ہوئے کہا تو اب کے آئینور نے بھی غصّے کو ایک طرف رکھ کر اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔ ماحول میں چھایا سکون اور اس سنسان سڑک پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، قدم سے قدم ملا کر چلنا کافی اچھا لگ رہا تھا۔
خاموشی سے یونہی چلتے ایک بار پھر آئینور نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔
” اگر آپ جواب دیں تو ایک بات پوچھوں؟ ”
” ہاں پوچھو۔” کردم سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔
” وہ شخص کون تھا جسے آپ نے گولی ماری تھی؟ ”
” کونسا شخص؟ ” کردم کو یاد نہ آیا۔
” وہی جس کو گھر کی پچھلی سائڈ پر مارا تھا۔” آئینور نے یاد کرانا چاہا۔
” اچھا وہ۔۔۔” وہ یاد کرتے ہوئے مسکرایا۔ اسے یاد آیا تھا، آئینور کیسے ڈر کر کمبل میں چھپ گئی تھی۔
” دراصل اس نے ایک لڑکی کا ریپ کیا تھا۔ وہ پہلے بھی منع کرنے کے باوجود کئی مرتبہ یہ کر چکا تھا۔ اس لیے وہ مزید کسی لڑکی کی زندگی خراب کرتا اُس سے پہلے ہی اُسے موت کی گھاٹ اتار دیا۔”
کردم نے کہہ کر کندھے اچکا دیئے۔ آئینور اس کے انداز پر بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔
” لیکن کیوں؟ آپ لوگوں کے لیے یہ کوئی بری بات تو نہیں۔ میرا مطلب۔۔۔ ” اسے سمجھ نہ آیا کن الفاظ میں پوچھے۔
کردم نے گہرا سانس لے کر چہرہ اس کی طرف موڑا۔
” تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے دنیا میں ہر غلط کام کے پیچھے میرا ہاتھ ہے؟ ”
” میں۔۔۔ میں نہیں تو۔” وہ ایکدم گڑبڑا گئی۔
(حالانکہ یہ سچ ہی تھا۔ ٹی وی میں جو بھی بری خبر سنتی تو پہلا خیال اسے کردم کا ہی آتا تھا۔ لڑکیوں کی سمگلنگ کے پیچھے بھی اسے کردم کا ہی ہاتھ لگا تھا۔)
” نور میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں لڑکیوں کی عزت کرتا ہوں اور نہ ہی یہ کہ میں انہیں حقیر جانتا ہوں۔ میں بس لڑکیوں کو بھی اپنے جیسا انسان سمجھتا ہوں۔ جن کی اپنی مرضی اپنی خواہشات ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ زیادتی کرنا یا ان کی سمگلنگ مجھے یہ پسند نہیں۔”
ایک ہی بار میں اُس نے آئینور کی ساری غلط سوچوں کو جھٹلا دیا۔ آئینور شرمندہ سی سر جھکا کر چلنے لگی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں بھی تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ وہ چلتے چلتے یکدم رک گئی۔
” کیا ہوا ؟ ” کردم نے اسے رکتے دیکھ کر پوچھا۔
” مجھ سے اور نہیں چلا جا رہا میرے پاؤں پر سوجن چڑھ رہی ہے۔” وہ معصوم سی شکل بنا کر بولی تو کردم نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے بازوؤں میں اُٹھا لیا۔
” لو اتنی سی بات تھی۔ ہو گیا مسئلہ حل۔”
” نیچے اتاریں مجھے۔” وہ منہ بسور کر بولی۔ لیکن وہ اس کی بات کا اثر لیے بغیر چلتا رہا۔
آئینور اس کے گلے میں بانہیں ڈالے اس کے چہرے کو دیکھ دیکھنے لگی۔ ” کیا کردم سے ان کی ماں کا پوچھوں” اس نے سوچا۔
” کیا ہوا ؟ پھر کچھ پوچھنا ہے؟ ” کردم اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔ آئینور نے فوراً نظریں چرالیں۔
” آپ۔۔۔ آپ کے گھر والے وہ کہاں ہیں؟ ”
بالآخر آج اس نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔ آج وہ کردم کی ماں کا معمہ بھی حل کر دینا چاہتی تھی۔ مگر اس کا سوال کردم کے ماتھے پر بل لے آیا۔
۔*********************۔
” کیا ہوا کچھ انتظام ہوا پیسوں کا؟ ” اکبر واپس آیا تو رانی فوراً اس کے سر ہولی۔
” ہاں !! مگر اتنے پیسے نہیں ہو سکے کہ ہم گاڑی میں جاسکیں۔ اور نہ ہی آس پاس کوئی ہسپتال ہے۔ ہمیں پیدل ہی اسے لیے کر جانا ہوگا۔” وہ پریشانی سے بولا۔
” ٹھیک ہے پھر ہم ابھی نکلتے ہیں۔ ہسپتال تک پہنچنے میں بھی ایک ڈیڑھ گھنٹا لگ جائے گا۔”
” تو ٹھیک کہتی ہے میں سعدی کو اُٹھاتا ہوں تو بھی آجا۔” وہ کہتا ہوا سعدی کے پاس چلا گیا۔
رانی بھی کمرے میں جا کر اپنی چادر اوڑھنے لگی۔ واپس آئی تو اکبر سعدی کو گود میں اُٹھائے کھڑا تھا۔
” چل آجا۔” سعدی کو اُٹھائے وہ دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے۔ یہ جانے بغیر موسم کیا رنگ بدلنے والا ہے۔
۔***********************۔
” اگر آپ نہیں بتانا چاہتے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں نے تو بس یونہی پوچھ لیا۔”
کردم کے ماتھے پر بل دیکھ کر وہ فوراً بولی، آیا کہ وہ غصّے میں اسے ادھر ہی نہ پھینک دے۔
” تمہیں معلوم ہے، میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟ ” وہ ویسے ہی ماتھے پر بل ڈالے پوچھنے لگا۔
” کھلی فضا میں سانس لینے۔”
” اور؟ ”
” اور پتا نہیں۔”
کردم ایکدم چلتے چلتے رکا۔ آئینور کو یقین ہو چلا تھا کہ اگلے لمحے وہ زمین پر ہوگی۔ مگر توقع کے برعکس کردم مسکرا دیا۔ ماتھے کے بل اب غائب ہو چکے تھے۔
” میں تمہیں یہی بتانے یہاں لایا ہوں۔ اتنے دنوں سے سوچ رہا تھا پر ہمت نہیں ہو سکی۔”
وہ ایک بار پھر چلنا شروع کر چکا تھا۔
” کیوں ایسی کیا بات ہے جو آپ کو اتنا سوچنا پڑا ہے؟ ”
” میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب جانے کے بعد تمہارا کیا رد عمل ہوگا۔”
” مطلب ؟ میں سمجھی نہیں۔”
کردم کی باتوں پر آئینور الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
” میری ماں ایک طوائف تھی۔ اور میں اُن کی اور اپنے باپ کی ناجائز اولاد۔”
وہ بالکل عام سے انداز میں بولا تھا۔ جیسے کسی اور شخص کے بارے میں بتا رہا ہو۔ آئینور اسے دیکھتی رہ گئی۔
” میرا باپ شہر کا ایک مشہور بزنس مین تھا۔ جو دنیا کی نظر میں ایک عزت دار مرد بھی تھا۔ کوئی بھی امی سے ان کے تعلقات کو نہیں جانتا تھا۔ میری پیدائش کے بعد اُس نے امی کو ایک الگ گھر لے کر دیا اور گھر کے کاموں کے لیے سیما خالہ کو رکھ لیا تھا۔ کافی عرصے تک سب ٹھیک چلتا رہا۔ میں بڑا ہو رہا تھا اور امی چاہتی تھیں۔ وہ شخص ان سے شادی کر لے تاکہ مجھے بھی باپ کا نام مل جائے۔ کوئی مجھے ناجائز نہ کہے۔”
کردم بتاتا ہوا آئینور کو سڑک کے کنارے لے آیا جہاں بڑے بڑے پتھر پڑے تھے۔ اس نے آئینور کو نیچے اُتارا اور ان میں سے ایک پتھر پر بیٹھا دیا پھر خود بھی اس کے ساتھ والے پتھر پر بیٹھ گیا۔
” پھر؟ ”
آئینور نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھا۔
” پھر یہ کہ۔۔۔ ہر بار اس شخص کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ ہوتا تھا۔ جس سے وہ امی کو ٹال دیتا تھا۔ اس ہی طرح سال گزرتے گئے۔ میں نے اسکول جانا بھی شروع کر دیا تھا۔ وقت گزرتا جارہا تھا۔ میں آٹھویں جماعت میں تھا تب ایک دن خبر ملی اس شخص نے شادی کر لی۔ امی کو پتا چلا تو انہوں نے بہت ہنگامہ مچایا۔ لیکن تب بھی اس شخص نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ شادی صرف بزنس کے فائدے کیلئے کی ہے۔ وہ جلدی اس عورت سے جان چھڑا کر ان سے شادی کر لے گا۔”
یہ سب کہتے کردم کا چہرہ بالکل سنجیدہ ہو گیا تھا۔ وہ رکا تو آئینور پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
” پھر شادی کی انہوں نے؟ ”
” نہیں وہ ہمارا سارا خرچہ اُٹھاتا تھا۔ ہم سے ملنے آتا مگر شادی نہ کرنے کا کوئی نیا بہانہ بھی امی کو دے جاتا تھا۔ اسی طرح دو سال مزید گزر گئے۔ امی بیمار رہنے لگی تھیں اور وہ جلد از جلد مجھے میرے اُس نام نہاد باپ کے حوالے کر دینا چاہتی تھی۔ تاکہ ان کے بعد مجھے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ لیکن ایک دن ٹی وی پر خبر چلی اُس شخص کے یہاں بیٹا ہوا ہے اور یہ ہی امی برداشت نہ کر سکیں۔ وہ اس شخص کے گھر پہنچ گئیں۔ وہاں جا کر بہت واویلا کیا لیکن کسی نے ان کی بات کا یقین نہیں کیا کیونکہ وہ ایک طوائف تھیں۔”
اب کہ کردم کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی۔ وہ اب تھوڑی دیر پہلے والا کردم نہیں لگ رہا تھا۔
“میرے میڑک کے امتحان کا آخری پرچہ تھا نور ۔ جس دن میں نے اپنی ماں کو کھو دیا۔ اُس شخص کے گھر سے آنے کے ایک ہفتے بعد ہی اُس آدمی نے میری ماں کو گھر سمیت زندہ جلا دیا تاکہ وہ ان پر یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ میں اس شخص کی اولاد ہوں۔”
آئینور نے دکھ سے کردم کو دیکھتے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
“بس کریں مجھے اور کچھ نہیں سنا۔”
آئینور نے اسے روکنا چاہا پر وہ اس کی سنے بغیر مزید بتاتا گیا۔
” میں اُس وقت کمرأ امتحان میں تھا۔ سیما خالہ بھی اپنے گاؤں گئی ہوئی تھیں۔ کوئی نہیں تھا ان کے پاس، کوئی نہیں تھا جب وہ جل رہی تھیں۔ میں جب گھر واپس لوٹا تب تک سب ختم ہو چکا تھا کچھ نہیں بچا تھا۔ میں وہاں سے چلا گیا۔ مگر اُس دن میں نے قسم کھالی تھی۔ جب تک اُس شخص کو اُس کے انجام تک نہیں پہنچا دوں گا سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔”
سامنے ہلتے درخت کے پتوں پر نظریں جمائے وہ اپنے ماضی کو سوچ رہا تھا۔ اس سمے آئینور کی نظر ایک لمحے کے لیے بھی اس کے چہرے سے ہٹنے کو انکاری تھیں۔
” پہلے میں ایسا نہیں تھا نور، قسم سے ایسا نہیں تھا۔ میں تو سب کا خیال رکھنے والا تھا لوگوں کی تکلیفوں میں ان کا احساس کرنے والا تھا۔ لیکن امی کی موت کے بعد میں دربدر سڑکوں پر پھرتا رہا۔ سب مجھے حقارت آمیز نظروں سے دیکھا کرتے تھے کیونکہ میں طوائف کا بیٹا تھا۔ یونہی سڑکوں پر پھرتے ایک دن میری ملاقات آغا حسن سے ہوئی۔ وہ مجھے دادا کے پاس لے گیا اور تب سے ہی میں ایک غنڈہ بن گیا۔ لوگوں کی نظروں میں میرے لیے حقارت کی جگہ خوف آ گیا۔ وہ مجھ سے ڈرنے لگے تھے۔ لیکن مجھے اس سب کی پروہ نہیں تھی۔ مجھے بس اُس شخص سے انتقام لینا تھا جو میری ماں کا قاتل تھا۔
کئی عرصہ تربیت حاصل کرنے کے بعد جب میں اس قابل ہوگیا کہ اپنا بدلہ لے سکوں تو تب جا کر میں اس شخص کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور آج اُس سمیت اُس کا سارا خاندان موت کی نیند سو رہا ہے۔”
” جب آپ نے اپنا بدلہ لے لیا تھا تو پھر یہ سب چھوڑا کیوں نہیں؟ ”
آئینور افسوس سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے یہ اچھا نہیں لگا تھا ایک شخص کی وجہ سے پورے خاندان کو مار دیا جائے۔
” تب نہیں چھوڑ سکتا تھا نور۔ پر اب چھوڑ دوں گا، تمہارے لیے، ہمارے لیے اور ہمارے آنے والے بچے کے لیے۔”
کردم اس کا تھام کر محبت بھرے لہجے میں بولا۔ ماحول میں چھایا تناؤ یکدم کم ہوا تھا۔ آئینور مسکرا دی۔
” اب چلیں۔”
آئینور کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کردم بھی اس کے ساتھ ہی اُٹھ گیا۔ اب وہ دونوں واپس اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے۔
” پتا ہے نور لڑکیاں میری طرف خود بڑھتی تھیں۔ میں نے کبھی ان کے ساتھ زبردستی یا ان کی سمگلنگ نہیں کی اور نہ ہی اس قسم کا تعلق بنایا کے میری کوئی ناجائز اولاد ہو۔ صرف اپنی ماں کی وجہ سے۔ میں نہیں چاہتا تھا جو اُن کے ساتھ ہوا وہ کسی اور کے ساتھ بھی ہو یا یہ کہ میری طرح کسی کو ناجائز ہونے کا طعنہ ملے۔”
کردم نے کہہ کر چہرہ اس کی جانب موڑا جو سنجیدہ سی سامنے دیکھتے ہوئے چل رہی تھی۔ دوسری لڑکیوں سے تعلق کا سن کر اسے بالکل اچھا نہیں لگا تھا مگر بولی کچھ نہیں۔
” کچھ بولو گی نہیں؟ ”
کردم کی مسکراتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اسے لگا تھا وہ لڑکیوں کے زکر پر ضرور کچھ اُلٹا بولے گی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اس کی سوچ کے برعکس تھی۔
” یہ سب پہلے کیوں نہیں بتایا۔ اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات تھی؟ ”
آئینور کی بات پر وہ گہرا سانس لیتا واپس سامنے کی طرف دیکھنے لگا۔
” وہ اس لیے کہ میرے ناجائز ہونے کا سن کر تم کیا ردعمل ظاہر کرو گی۔”
” اس میں آپ کی تو کوئی غلطی نہیں پھر میں کیوں کچھ آپ کو بولوں گی۔”
اب کی بار چلتے ہوئے آئینور نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
” جانتا ہوں۔ عادی سے تمہاری محبت دیکھنے کے بعد بس تھوڑا ڈر گیا تھا۔”
کردم کے لہجے سے شرارت صاف ظاہر تھی۔ اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا۔ جب آئینور نے عدیل کو ناجائز اور سوتیلا ہونے کا طعنہ دیا تھا۔
” اس وقت میں بہت پریشان تھی۔ ایک تو عادی لاہور آ گیا تھا اوپر سے پاپا کا قتل اور پھر عادی کا مجھ سے جھگڑنا۔ ایسے میں منہ سے نکل جاتا ہے کچھ بھی۔”
آئینور اس کا اشارہ سمجھتے ہی بُرا مان گئی۔
” اور ہاں !! کیا بول رہے تھے۔ میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا۔ تو یہ کیا ہے؟ ”
آئینور نے بھی جواباً حملہ کیا۔ اپنے سینے پر انگلی رکھے اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا۔ جب کردم نے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اسے اپنی زندگی میں شامل کیا تھا۔
کردم رکا اور اس کا وہی ہاتھ تھام کر اپنے قریب کر لیا۔
” تم سے میرے معاملات کچھ اور ہیں نور !! تمہیں یاد ہے جب پہلی بار ہم کراچی کے اس مال میں ملے تھے۔ ایک سرسری سی نظر تم پر ڈالی تھی مگر یہ نظر بہت گہرا اثر چھوڑ گئی تھی۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد بھی میں ان آنکھوں کو بھول نہیں سکا تھا۔
وہ ایک لمحہ تھا جب یہ آنکھیں میری آنکھوں میں رہ گئیں، یوں کہ اک بس یہ ہی میری منظورِ نظر بن گئیں۔”
تیز ہواؤں کے جھونکوں نے آئینور کا دوپٹہ سر سے گرا دیا تھا۔ آوارہ لٹیں اُڑ اُڑ کر ان دونوں کے چہروں کو چھو رہی تھی لیکن ارد گرد سے بےخبر وہ آئینور کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا۔
” مجھے کچھ دینا تھا تمہیں۔”
کردم پیچھے ہوا اور اپنی قمیض کی جیب سے ایک سفید مخمل کی ڈبیا نکالی۔
” یہ انگوٹھی میری ماں کی تھی۔ جب میں واپس گھر گیا تھا تو ان کی لاش کے پاس سے ملی تھی۔ تب سے ہی یہ آخری نشانی کے طور پر میرے پاس ہے۔ لیکن اب میں چاہتا ہوں یہ تم پہن لو۔”
کردم کہتے ہوئے نیچے جھکا اور ایک گھٹنا زمین پر ٹکاتے ہوئے اپنا ہاتھ آئینور کے سامنے کر دیا۔
” اجازت ہے؟ ”
آئینور نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور اپنا ہاتھ کردم کے ہاتھ پر رکھا۔ انگوٹھی میں جڑا نیلا نگینہ اب آئینور کے ہاتھ زینت بن چکا تھا۔ آئینور نے ہاتھ اُٹھا کر اپنے سامنے کیا تو بےاختیار منہ سے نکلا۔
” بہت خوبصورت !! ”
” تم سے زیادہ نہیں۔”
مسکرا کر کہتا وہ کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا کہ تبھی ایک گرج دار آواز کے ساتھ بجلی چمکی اور دیکھتے ہی دیکھتے بادلوں نے گرج چمک کے ساتھ برسنا شروع کردیا۔
” اففف !! اسے بھی ابھی ہونا تھا۔”
کردم جھنجھلایا اور ایک بار پھر آئینور کو بازوؤں میں اُٹھا کر تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔
اس کی گردن میں بانہیں ڈالے وہ بھیگتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ یہ نہیں تھا اسے کردم سے محبت ہوگئی تھی۔ بس سیما خالہ کے سمجھانے کے بعد اس نے اپنے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ ( بقول آئینور کے )
کردم گاڑی کے پاس پہنچا اور اسے اُتار کر گاڑی کی چابی نکالنے لگا۔ آئینور اپنی بھیگی ہوئی لٹیں سمیٹتی سر پر دوپٹہ اوڑھنے لگی۔ کردم نے اس کی طرف کا دروازہ کھول کر اس بٹھایا اور پھر دروازہ بند کرتا خود بھی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔
۔*******************۔
” اب ہم کیا کریں اکبر یہ اچانک بارش کیسے شروع ہو گئی۔ ایسے تو سعدی اور بیمار پڑ جائے گا۔”
وہ لوگ اس وقت روڈ پر چل رہے تھے جب وہ چادر میں سعدی کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پریشانی سے بولی۔
” اتنی آگے نکل آئے ہیں۔ اب واپس بھی نہیں جاسکتے۔ دیکھنا ضرور کوئی اللّٰه کا بندہ مل جائے گا جو ہماری مدد کرے۔ تم فکر نہیں کرو۔”
وہ اسے دلاسہ دیتا آگے بڑھنے لگا۔ گرج چمک کے ساتھ بارش اور بھی تیز ہوتی جا رہی تھی کہ تبھی دور اندھیرے میں روشنی سی چمکتی نظر آئی۔
” وہ دیکھو لگتا ہے کوئی گاڑی آ رہی ہے۔ چلو جلدی چلو اس سے مدد مانگتے ہیں۔”
وہ تیزی آگے بڑھا اور سڑک کے بیچ و بیچ کھڑے ہو کر ہاتھ ہلانے لگا۔ گاڑی بھی تیزی سے قریب آ رہی تھی۔
” وہ دیکھیں کردم۔ لگتا ہے انہیں مدد کی ضرورت ہے۔”
آئینور گاڑی کے شیشے کے پار دیکھتے ہوئے بولی۔
” رات بہت ہو رہی ہے نور، اوپر سے بادش یوں گاڑی روکنا ٹھیک نہیں ہوگا۔”
” لیکن دیکھیں اس کے ساتھ عورت اور بچا بھی ہے۔ ہم کسی کو یوں نہیں چھوڑ سکتے۔ آج ہم کسی کی مدد کرینگے تو کل کوئی ہمارے کام آئے گا۔”
آئینور کی بات پر کردم نے گہرا سانس لیتے ہوئے گاڑی ان کے پاس لے جا کر روکی اور گاڑی کا شیشہ نیچے کر دیا۔
“صاحب میرا بیٹا بہت بیمار ہے۔ ہمیں اسے ہسپتال لے کر جانا ہے صاحب ہماری مدد کرو۔”
آئینور نے دھیرے سے اپنا ہاتھ سٹیرنگ ویل پکڑے کردم کے ہاتھ پر رکھا۔ گویا چاہتی ہو کہ کردم ان کی مدد کرے۔
کردم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر دوسری نظر اپنے ہاتھ پر دھرے اس کے ہاتھ کو۔ پھر چہرہ موڑ کر اکبر سے بولا۔
” ٹھیک ہے بیٹھ جاؤ۔”
” بہت بہت شکریہ صاحب۔”
اکبر تشکر آمیز لہجے میں کہتا واپس مڑا اور بیوی بچے کو لیے گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی گاڑی ایک ہسپتال کے سامنے جا رکی تھی۔
کردم منہ پر رومال باندھے گاڑی سے باہر نکلا۔ آئینور نے بھی دوپٹے کو نماز کی طرح لپیٹ کر منہ پر نقاب کر لیا تھا۔
اکبر بھی اپنے بیوی بچے کو لیے گاڑی سے نکلا اور سب نے قدم اندر کی جانب بڑھا دیئے۔
سعدی کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے ایک دن ہسپتال میں رکنے کا بول دیا تھا۔ اس لیے کردم بل کی ادائیگی کرکے ان کے پاس چلا آیا۔
” آپ کی انگوٹھی بہت خوبصورت ہے۔”
آئینور رانی کے ساتھ کھڑی اس سے بات کر رہی تھی جب رانی اس کی انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے بولی۔
” شکریہ میرے شوہر نے دی ہے۔”
آئینور مسکرا کر بولی اور ایک نظر کردم کو دیکھا جو اکبر سے مصافحہ کر رہا تھا۔
” اب ہم چلتے ہیں۔ اگر کبھی ضرورت پڑے تو یہ میرا نمبر ہے بلا جھجھک کال کر لیے گا۔”
کردم اپنا نمبر اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔
” بہت بہت شکریہ صاحب۔ آپ کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔” اکبر نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اسے تھام لیا۔
” چلیں نور؟ ”
” جی۔”
آئینور رانی سے گلے مل کر آ گے بڑھ گئی۔ کردم اور وہ ساتھ ہی ہسپتال سے باہر نکلے اور گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔
” اب تو خوش ہونا تم؟ ان کا بل بھی ادا کر دیا۔”
کردم نے چہرے سے رومال ہٹا کر جیب میں رکھا۔
” جی !! کیونکہ آج ہم کسی کی مدد کا سبب بنتے ہیں تو کل اللّٰه بھی ہمارے لیے کسی نا کسی کو مدد گار بنا کر ضرور بھیجے گا۔”
آئینور کی بات پر کردم نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا اور گاڑی کو گھر کے راستے پر ڈال دیا۔
۔********************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...