قتیبہ کا ایلچی
بصرہ کے ایک کونے میں دریا کے کنارے ایک سرسبز نخلستان کے درمیان والی بصرہ کا قلعہ نما مکان تھا۔ اس مکان کے وسیع کمرے میں ایک عمر رسیدہ لیکن قوی ہیکل شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ چلتے چلتے رکتا اور دیواروں پر آویزاں نقشے دیکھنے میں منہمک ہوجاتا۔اس کے چہرے سےغیر معمولی عزم و استقلال ٹپکتا تھا۔ آنکھوں میں ذکاوت اور ذکاوت سے زیادہ ہیبت تھی۔
یہ حجاج بن یوسف تھا۔ جس کے آہنی پنجوں سے دشمن اور دوست یکساں طور پر پناہ مانگتے تھے۔جس کی تلوار عرب و عجم پر صاعقہ بن کر کوندی اور بسا اوقات اپنی حدود سے تجاوز کرکے عالمِ اسلام کے ان درخشندہ ستاروں کو بھی خاک و خون میں لٹا گئی، جن کے سینے نور ایمان سے منور تھے۔
حجاج بن یوسف کی طوفانی زندگی کا پہلا دور وہ تھا جب وہ عبدالمالک کے عہدِ حکومت میں سرکشوں کو مغلوب کرنے کے لیے اٹھا اور عراق اور عرب پر آندھی بن کر چھا گیا۔لیکن اس دور میں اس کی تلوار ایک اندھے کی لاٹھی تھی جو حق اور ناحق میں تمیز نا کرسکی۔دوسرا دور جس سے ہماری داستان کا تعلق ہے، وہ تھا جب عبدالملک کی جگہ اس کا بیٹا ولید مسندِ خلافت پر بیٹھ چکا تھا۔عراق اور عرب کی خانہ جنگیاں ختم ہوچکی تھیں اور مسلمان ایک نئے جذبے ماتحت منظم اور مستحکم ہوکر ترکستان اور افریقہ کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ اپنے باپ کی طرح ولید نے بھی حجاج بن یوسف کو اندرونی اور خارجی معاملات میں سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا تھا۔ لیکن ایک مسلمان مورخ کی نگاہ میں حجاج نے ولید کی جو خدمات انجام دیں، وہ عبدالملک کی خدمات سے بہت مختلف تھیں۔
عبدالملک کے عہدِ حکومت میں حجاج بن یوسف کی تمام جدوجہد عرب و عراق تک محدود رہی اور اس کی خون آشام تلوار نے جہاں عبدالملک کی حکومت کو مضبوط و مستحکم کیا وہاں اس کے دامن کو بےشمار بے گناہوں کے خون سے داغدار بھی کیا لیکن ولید کا عہد مسلمانوں کے لیے نسبتاً امن کا زمانہ تھا اور حجاج بن یوسف اپنی زندگی کے باقی چند سال مشرق و مغرب میں مسلمانوں کی فتوحات کی راہیں صاف کرنے میں صرف کررہا تھا۔
جب ہم حجاج بن یوسف کی کتابِ زندگی کے آخری اوراق پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ قدرت سندھ ، ترکستان اور سپین میں مسلمانوں کی سطوت کے جھنڈے لہرانے کے لیے اس شخص کو منتخب کرتی ہے جو آج سے چند سال قبل مکہ کا محاصرہ کررہا تھا۔ وہ آنکھیں جنھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کر ترس نا کھایا، سندھ میں ایک مسلمان لڑکی کی مصیبت کا حال سن کر پرنم ہوجاتی ہیں۔
تاریخ ہمارے سامنے ایک اور اہم سوال پیش کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ عرب اور عراق کے مسلمان حجاج بن یوسف کے عہد کے آخری ایام میں بھی اس سے نالاں تھے اور ولید کو بھی اچھی نظروں سے نا دیکھتے تھے۔ پھر کیا وجہ تھی کہ جب سندھ اور ترکستان کی طرف پیش قدمی ہوئی تو ہر محاز پر شامی مسلمانوں کے مقابلے میں عربوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
اس کا جواب فقط یہ ہے کہ قیادت کی خامیوں کے باوجود جمہور مسلمانوں کا انفرادی کردار اسی طرح بلند تھا۔حجاج بن یوسف سے نفرت ان کی قومی حمیت کو کچل نا سکی۔۔۔۔۔۔انھوں نے جب یہ سنا کہ ان کے بھائی افریقہ اور ترکستان کی غیر اسلامی طاقتوں سے نبردآزما ہیں تو وہ پرانی رنجشیں بھول کر ان کے ساتھ جا شامل ہوئے۔
اس لیے ولید کے عہد کی شاندار فتوحات کا سہرا حجاج بن یوسف اور ولید کے سر نہیں بلکہ ان عوام کے سر ہے جن کے ایثار اور خلوص میں ہر قوم کی ترقی اور عروج کا راز پنہاں ہے۔
حجاج بن یوسف دیر تک دیواروں پر لٹکے ہوئے نقشے دیکھتا رہا۔بالآخر اس نے ایک نقشہ اتارا اور اپنے سامنے رکھ کر ایرانی قالین پر بیٹھ گیا۔ دیر تک سوچنے کے بعد اس نے قلم اٹھا کر نقشے پر چند نشانات لگائے اور اسے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔
ایک سپاہی نے ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوکر کہا۔”ترکستان سے ایک ایلچی آیا ہے۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”میں صبح سے انتظار کررہا ہوں۔اسے یہاں لے آو!“
سپاہی چلاگیا اور حجاج بن یوسف دوبارا نقشہ کھول کر دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد ایک زرہ پوش کمرے میں داخل ہوا۔وہ قدوقامت کے لحاظ سے ایک نوجوان اور چہرے مہرے سے پندرہ سولہ سالا ایک لڑکا معلوم ہوتا تھا۔اس کے سر پر تانبے کا ایک خود چمک رہا تھا۔تیکھے نقوش، چمکتی ہوئی آنکھیں، پتلے اور بھنچے ہوئے ہونٹ، ایک غیر معمولی عزم و استقلال کے آئینہ دار تھے۔اس کے قدوقامت میں تناسب اور چہرے میں کچھ ایسی جاذبیت تھی کہ حجاج بن یوسف حیرت زدہ ہوکر اس کی طرف دیکھتا رہا۔بالآخر اس نے کرخت آواز میں پوچھا۔”تم کون ہو؟“
لڑکے نے جواب دیا۔”میں نے ہی اطلاع بھجوائی تھی۔میں ترکستان سے آیا ہوں۔“
”خوب! ترکستان سے تم آئے ہو۔میں قتیبہ کی زندہ دلی کی داد دیتا ہوں۔میں نے قتیبہ کو لکھا تھا کہ وہ خود آئے یا کسی تجربہ کار جرنیل کو میرے پاس بھیجے اور اس نے ایک آٹھ سال کا بچہ میرے پاس بھیج دیا ہے۔“
لڑکے نے اطمینان سے جواب دیا۔”میری عمر سولہ سال اور آٹھ مہینے ہے!“
حجاج بن یوسف نے گرج کرکہا۔”لیکن تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟ قتیبہ کو کیا ہوگیا ہے؟“
لڑکے نے جواب دیے بغیر آگے بڑھ کر ایک خط پیش کیا۔حجاج بن یوسف نے جلدی سے خط کھول کر پڑھا اور قدرے مطمئین ہوکر پوچھا۔”وہ خود سیدھا میرے پاس کیوں نہیں آیا۔ تمہیں کیوں میرے پاس بھیجا ہے؟“
لڑکے نے کہا۔”آپ کس کے متعلق پوچھ رہے ہیں؟“
حجاج بن یوسف کی قوتِ برداشت جواب دے رہی تھی۔اس نے چلا کرکہا۔”وہ بےوقوف جس کے متعلق قتیبہ نے لکھا ہے کہ میں اپنا بہترین سالار بھیج رہا ہوں۔“
لڑکے نے پھر اطمینان سے جواب دیا۔”قتیبہ کے مکتوب میں جس کا ذکر ہے وہ تو میں ہی ہوں۔اگر آپ کسی اور بےوقوف سے ملنا چاہتے ہیں تو مجھے اجازت دیجیے۔“
”تم؟ اور قتیبہ کے بہترین سالار! خدا ترکستان میں لڑنے والے بدنصیب مسلمانوں کو دشمنوں سے بچائے۔ قتیبہ کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟“
”ہم دونوں مسلمان ہیں۔“
”فوج میں تمہارا عہدہ کیا ہے؟“
”میں ہراول کا سالار ہوں۔“
”ہراول کے سالار! تم؟ اور بلخ سے کترا کر بخارا اور سمرقند کی طرف رخ کرنے کے ارادے میں بھی غالباً کسی تمہارے جیسے ہونہار مجاہد کے مشورے کا دخل ہے۔“
”ہاں یہ میرا مشورہ ہے اور میرے یہاں آنے کی وجہ بھی یہی ہے۔آپ اگر تھوڑی دیر ضبط سے کام لیں تو میں تمام صورتِ حال آپ کو سمجھا سکتا ہوں۔“
حجاج بن یوسف کی تلخی اب پریشانی میں تبدیل ہورہی تھی۔اس نے کہا۔”اگر آج تم مجھے کوئی بات سمجھا سکے تو میں یہ کہوں گا کہ عرب کی ماووں کے دودھ کی تاثیر زائل نہیں ہوئی۔بیٹھ جاو! میں صبح سے نقشہ دیکھ رہا ہوں۔مجھے یہ بتاو جو فوج ہرات جیسے معمولی شہر کو فتح نہیں کرسکتی۔وہ بخارا جیسے مضبوط اور مستحکم شہر پر فتح کے جھنڈے لہرانے کے متعلق اس قدر پر امید کیوں ہے۔ہاں! پہلے یہ بتاو تمہیں نقشہ پڑھنا آتا ہے؟“
لڑکے نے کوئی جواب دیے بغیر حجاج بن یوسف کے سامنے بیٹھ کر نقشہ کھولا اور مختلف مقامات پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔”یہ بلخ ہے اور یہ بخارا۔غالباً آپ بخارا کے قلعے کی مضبوطی کے متعلق بہت کچھ سن چکے ہوں گے۔لیکن بلخ کا قلعہ اگر اس قدر مضبوط نا بھی ہو، تو بھی یہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث کہیں زیادہ محفوظ ہے۔بخارا کے چاروں طرف کھلے میدان ہیں اور ہم آسانی سے اس کا محاصرہ کرکے شہر کے باشندوں کو ترکستان کے باقی شہر کی افواج کی مدد سے محروم کرسکتے ہیں۔رہا قلعہ، تو اس کے متعلق میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ منجنیق کے سامنے پتھر کی دیواریں نہیں ٹھہرتیں اور یہ بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں کہ قلعہ بند افواج زیادہ دیر فقط اس صورت میں مقابلہ کرتی ہیں جب انھیں کسی مدد کی امید ہو۔ورنہ وہ مایوس ہوکر دروازہ کھول دیتی ہیں۔اس کے برعکس بلخ میں ہیں بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔شہر پر حملہ کرنے کے لیے ہمیں جس قدر افواج کی ضرورت ہوگی۔ اس سے کہیں زیادہ سپاہی پہاڑی علاقے میں رسد و کمک کے راستے محفوظ رکھنے کے لیے درکار ہوں گے اور اس کے علاوہ شہر کا محاصرہ کرنے کے لیے ہمیں اردگرد کی تمام پہاڑیوں پر قبضہ کرنا ہوگا۔ان جنگوں میں پہاڑی قبائل کے پتھر ہمارے تیروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔بلخ کے جنوب اور مشرق کے پہاڑ کافی اونچے ہیں۔اگر جنوب مشرقی ترکستان کی تمام ریاستوں نے بلخ کو مدد دینے کی کوشش کی تو ایک بہت بڑی فوج ان انچے پہاڑوں کی آڑ لے کر ہماری طرف سے کسی مذاحمت کا مقابلہ کیے بغیر بلخ کے قریب پہنچ کر مشرق جنوب اور مغرب سے ہمارے لیے خطرہ پیدا کرسکتی ہیں اور اگر شمال سے ان کی مدد کے لیے بخارا اور سمرقند کی افواج بھی آجائیں تو مرو سے ہماری رسد و کمک کا راستہ بھی منقطع ہوجائے گا اور ہمیں چاروں طرف سے بیرونی حملہ آوروں نے محصور کر رکھا ہوگا۔تاہم گرمیوں میں ڈٹ کر ہم ان کا مقابلہ کرسکیں گے لیکن یہ محاصرہ یقیناً طول کھینچے گا اور سردیوں میں پہاڑی لوگ ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوں گے اور پسپائی کی صورت میں ہم میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو وآپس مرو پہنچ سکیں۔“
حجاج بن یوسف اب نقشے سے زیادہ اس کمسن اور نوجوان سالار کو دیکھ رہا تھا۔اس نے کہا۔”عربوں کی فوجی اصلاحات میں ابھی تک ”پسپائی“ کے لفظ کو کوئی جگہ نہیں ملی۔“
لڑکے نے جواب دیا۔”مجھے عربوں کے عزم و استقلال پر شبہ نہیں لیکن میں فوجی زاویہ نگاہ سے اس حملے کو خودکشی کے مترادف سمجھتا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”تو تمہارا کیا خیال ہے کہ مشرق کی طرف پیش قدمی کا ارادہ ترک کردیا جائے!“
”نہیں! ترکستان پر تسلط رکھنے کے لیے مشرق میں ہماری آخری چوکی بلخ نہیں ہوگی بلکہ ہمیں کاشغر اور چترال کے درمیان تمام پہاڑی علاقے پر قبضہ کرنا پڑے گا لیکن میں اس سے پہلے بخارا کو فتح کرنا زیادہ ضروری خیال کرتا ہوں۔اس میں ہمیں دو فائدے ہوں گے۔ایک یہ کہ یہ ترکستان کا اہم ترین شہر ہے اور اہلِ ترکستان پر اس کی فتح کا وہی اثر ہوگا جو مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں اور دمشق کے بعد رومیوں پر ہوا تھا۔دوسرا یہ کہ بخارا کا محاصرہ کرتے وقت ہمیں باہر سے ان خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔جو میں بلخ کے متعلق بیان کر چکا ہوں۔وہاں سے سمرقند اور سمرقند سے قوقند اور فرغانہ کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ان فتوحات کے بعد مجھے امید نہیں کہ ترکستان کی قوتِ مدافعت باقی رہے۔اس کے بعد میری تجویز یہ ہے کہ بخارا اور سمرقند سے ہماری افواج کاشغر کا رخ کریں اور قوقند کی افواج کاشغر کا رخ کریں۔مجھے یقین ہے کہ جتنی دیر میں قوقند کی افواج دشوارگزار پہاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے کاشغر پہنچیں گی۔اس سے پہلے جنوب میں بلخ اور اس کے آس پاس کے شہر فتح ہو چکے ہوں گے۔“
حجاج بن یوسف حیرت و استعجاب کے عالم میں اس نوعمر سپاہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس نے نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا۔”تم کس قبیلے سے ہو؟“
لڑکے نے جواب دیا۔”میں ثقفی ہوں۔“
”ثقفی!۔۔۔۔۔تمہارا نام کیا ہے؟“
”محمد بن قاسم“
حجاج بن یوسف نے چونک کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”قاسم کے بیٹے سے مجھے یہی توقع تھی۔۔۔۔۔مجھے پہچانتے ہو؟“
محمدبن قاسم نے کہا۔”آپ بصرہ کے حاکم ہیں۔“
حجاج بن یوسف نے مایوس ہوکرکہا۔”بس میرے متعلق یہی جانتے ہو تم۔۔۔۔۔۔؟“
”میں اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ جانتا ہوں۔اس سے پہلے آپ خلیفہ عبدالملک کے دست راست تھے اور اب خلیفہ ولید کے دست راست ہیں۔“
”تمہیں تمہاری ماں نے یہ نہیں بتایا کہ قاسم میرا بھائی تھا اور تم میرے بھتیجے ہو؟“
”انھوں نے مجھے بتایا تھا۔“
”کب؟“
”جب آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے مدینہ وآپس آئے تھے۔“
کم سن بھتیجے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر حجاج بن یوسف کی پیشانی کی رگیں تھوڑی دیر کے لیے پھول گئیں۔وہ غضب ناک ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھنے لگا لیکن اس کی نگاہوں میں خوف و ہراس کی بجائے غایت درجے کا سکون دیکھ کر اس کا غصہ آہستہ آہستہ ندامت میں تبدیل ہونے لگا۔محمد بن قاسم کی بےباک نگاہیں پوچھ رہیں تھیں کہ” میں نے جو کچھ کہا ہے۔کیا وہ غلط ہے۔کیا تم عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل نہیں ہو؟“
حجاج بن یوسف اپنے دل پر ایک ناقابلِ بیان بوجھ محسوس کرتے ہوئے اٹھا اور دریا کی طرف کھلنے والے دریچے کے پاس کھڑا ہوکر جھانکنے لگا۔”عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل۔۔۔۔۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل!“ اس نے چند بار اپنے دل میں یہ الفاظ دہرائے۔تصور کی نگاہیں ماضی کا نقاب الٹنے لگیں۔وہ مکہ کے اس عمر رسیدہ مجاہد کو دیکھ رہا تھا جس کے ہونٹوں پر قتل ہوتے وقت بھی ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔اسے پھر ایک بار مکہ کی گلیوں میں بیواوں اور یتیموں کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔اس نے جٌھر جٌھری لیتے ہوئے مڑ کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا، وہ اس کی توقع کے خلاف اس کی طرف دیکھنے کی بجائے نقشہ دیکھنے میں منہمک تھا۔۔عہدِ ماضی کی چند اور تصویریں اس کے سامنے آگئیں۔وہ پھر ایک بار مدینہ کے ایک چھوٹے سے مکان میں اپنے نوجوان بھائی کو بسترِ مرگ پر دیکھ رہا تھا۔وہ بھائی جس نے مکہ میں اس کی کارگزاری کا حال سننے کے بعد اسے دیکھ کر غصے اور جوش میں آنکھیں بند کر لیں تھیں۔قاسم کے یہ الفاظ پھر اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔”حجاج جاو! میں مرتے وقت عبداللہ بن زبیر کے قاتل کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔تمہارے دامن پر جس خون کے چھینٹے ہیں، اسے میرے آنسو نہیں دھو سکتے۔“ پھر وہ اپنے بھائی کے جنازے کے ساتھ ایک کم سن بچے کو دیکھ رہا تھا۔یہ اس کا بھتیجا تھا، جسے اس نے اٹھا کر گلے لگانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ تڑپ کر ایک طرف کھڑا ہوکر چلایا تھا۔”نہیں! نہیں! مجھے ہاتھ نا لگاو! ابا کو تم سے نفرت تھی۔“
حجاج نے انتہائی تکلیف دہ احساس کے تحت محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”محمد! ادھر آو۔“
محمد بن قاسم نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے اٹھا اور حجاج بن یوسف کے قریب جا کھڑا ہوا۔اس کے چہرے پر غیر معمولی اطمینان کی جھلک حجاج بن یوسف کے لیے صبر آزما تھی لیکن اس نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔”تو میں تمہاری نظروں میں عبداللہ بن زبیر کے قاتل کے سوا کچھ نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”یہ خلقِ خدا کا فتوی ہےاور میں آپ کو دھوکے میں رکھنے کے لیے قاتل کی جگہ کوئی اور لفظ تلاش نہیں کرسکتا۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”تمہاری رگوں میں حجاج بن یوسف کا خون ہے۔میں تمہاری ہر بات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔اگرچہ برداشت کرنا میری عادت نہیں۔“
”میں آپ کو اپنی عادت بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے نہیں آیاقتیبہ بن مسلم باہلی نے جو فرض میرے سپرد کیا تھا، وہ میں پورا کرچکا ہوں۔اب مجھے اجازت دیجیے۔اگر آپ کو قتیبہ کے لیے کوئی پیغام بھیجنا ہو تو میں کل حاضر ہوجاوں گا۔“
ایک لمحہ کے تذبذب کے بعد حجاج بن یوسف نے کہا۔”تم کہاں جانا چاہتے ہو؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”شہر میں والدہ کے پاس۔میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔ابھی تک گھر نہیں گیا۔“
”تمہاری والدہ بصرہ میں ہے؟ مجھے یہ بھی معلوم نا تھا۔ وہ یہاں کب آئیں؟“
”انھیں مدینہ سے یہاں آئے ہوئے تین چار ماہ ہوئے ہیں۔مجھے مرو میں ان کا خط ملا تھا۔“
”وہ کس کے پاس ٹھہری ہیں۔وہ یہاں کیوں نا آئیں؟“
”وہ ماموں کے مکان میں ٹھہری ہیں اور یہاں نا آنے کی وجہ آپ مجھ سے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔“
”اور تم ترکستان جانے سے پہلے کہاں تھے؟“
”میں دس برس کی عمر تک مدینہ میں ماہ کے پاس تھا اور اس کے بعد ماموں کے پاس بصرہ میں چلا آیا۔“
”اور مجھ سے اتنی نفرت تھی کہ اپنی صورت تک نا دیکھائی؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”سچ پوچھیے تو میں مکتب اور اس کے بعد سپاہیانہ زندگی میں اس قدر مصروف رہا ہوں کہ اپنے دل میں کسی کی محبت یا نفرت کے جزبات کو جگہ نہیں دے سکا۔“
حجاج بن یوسف نے کچھ سوچ کر کہا۔”مکتب میں شاید میں نے تمہیں دیکھا تھا لیکن پہچان نا سکا۔تم بہت جلد جوان ہوگئے ہو۔اب بتاو، اپنی چچی سے نہیں ملو گے؟“
محمد بن قاسم مزبزب ساہو کر حجاج بن یوسف کی طرف دیکھنے لگا۔حجاج بن یوسف نے اس کا بازو پکڑ لیا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔باغ کے دوسرے کونے میں رہائشی مکان کے دروازے پر پہنچ کر محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔”مجھے چھوڑ دیجیے! میں آپ کے ساتھ ہوں۔“
حجاج بن یوسف کی آواز سن کر اس کی بیوی ایک کمرے سے باہر نکلی اور محمد بن قاسم کو دیکھتے ہی چلائی۔”محمد! تم کب آئے؟“
حجاج بن یوسف نے حیران ہوکر پوچھا۔”تم نے اسے کیسے پہچان لیا؟“
وہ خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔”میں اسے کیونکر بھول سکتی تھی؟“
حجاج بن یوسف نے پھر سوال کیا۔”تم نے اسے کب دیکھا تھا؟“
”جب میں اور زبیدہ اس کے ماموں کے ساتھ حج پر گئ تھیں۔ہم واپسی پر مدینے میں ان کے ہاں ٹھہرے تھے۔محمد بھی ترکستان سے رخصت پر آیا تھا۔“
”اور مجھ سے ذکر تک نا کیا؟“
”مجھے اس کی والدہ نے تاکید کی تھی اور مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ آپ کہیں برا نا مانیں۔“
”تو انھوں نے ابھی تک میری خطا معاف نہیں کی۔“
”وہ آپ سے ناراض نہیں لیکن قاسم کی موت کا ان کے دل پر گہرا اثر ہے۔“
حجاج بن یوسف نے کچھ سوچ کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”محمد! چلو!میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“
حجاج کی بیوی نے کہا۔”نہیں! نہیں! آپ ابھی وہاں نا جائیں۔“
”لیکن کیوں؟“
”وہ بیمار ہیں۔“
”تو اس صورت میں مجھے ضرور جانا چاہیے۔“
محمد بن قاسم نے بےچین سا ہوکر کہا۔”امی جان بیمار ہیں؟ مجھے اجازت دیجیے!“
محمد بن قاسم بھاگ کر مکان سے باہر نکل گیا۔حجاج بن یوسف اس کا ساتھ دینے کے لیے مڑا لیکن اس کی بیوی نے آگے بڑھ کر راستہ روک لیا۔”نہیں! نہیں!! آپ نا جائیں۔“
”میں ضرور جاوں گا۔تمہیں یہی ڈر ہے نا کہ وہ مجھے برا بھلا کہیں گی اور میں طیش میں آجاوں گا۔“
”نہیں۔ان کا حوصلہ اس قدر پست نہیں۔“
”تو پھر مجھے اس کی تیماداری سے کیوں منع کرتی ہو اور یہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں؟“
”مجھے ڈر ہے کہ آپ خفا ہوجائیں گے۔میں آپ سے ایک بات چھپاتی رہی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”جب سے وہ یہاں آئی ہیں۔میں ہر تیسرے چوتھے دن ان کے گھر جایا کرتی ہوں۔کل میں نے خادمہ کو بھیجا اور اس نے بتایا کہ اس کی طبعیت بہت خراب ہے۔ میں ابھی وہاں سے ہوکر آئی ہوں۔اگر آپ کا ڈر نا ہوتا تو میں کچھ دیر اور وہاں ٹھہرتی۔آج زبیدہ میرے ساتھ تھی اور ان کی حالت دیکھ کر میں۔۔۔۔۔“
حجاج بن یوسف نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”تم ڈرتی کیوں ہو؟ صاف صاف کہو۔اگر تم زبیدہ کو وہاں چھوڑ آئی ہو تو برا نہیں کیا۔“
”وہ ابھی آجائے گی۔میں نے خادمہ کو بھیج دیا ہے۔“
”لیکن تم نے یہ سب کچھ مجھ سے کیوں چھپایا۔کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ مجھ میں انسانیت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی؟“
”مجھے معاف کیجیے!“
”اچھا! اب تم بھی میرے ساتھ چلو!“
زبیدہ محمد بن قاسم کی ماں کے سرہانے بیٹھی اس کا سر دبا رہی تھی، ایک شامی لونڈی ان کے پاس کھڑی تھی۔محمد بن قاسم کی والدہ نے کراہتے ہوئے زبیدہ کا ہاتھ اپنے نحیف ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا۔”بیٹی! تمہارے ہاتھوں سے میری جلتی ہوئی آنکھوں کو ڈھنڈک پہنچتی ہے۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ تمہارے باپ کو پتہ لگ گیا تو وہ بہت خفا ہوگا اور پھر شایدتم کبھی بھی یہاں نا آسکو۔بیٹی جاو!“
زبیدہ نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے جواب دیا۔”میرا جی نہیں چاہتا کہ آپ کواس حالت میں چھوڑ کر جاوں۔“
صحن میں کسی کی آہٹ پاکر زبیدہ نے آٹھ کر باہر جھانکا۔محمد بن قاسم اپنے گھوڑے کی لگام حبشی غلام کے ہاتھ میں تھما کر بھاگتا ہوا آگے بڑھا۔دروازے پر زبیدہ کو دیکھ کر جھجکا اور پہچان کر بولا۔”تم یہاں؟ امی کیسی ہیں؟“
زبیدہ جواب دینے کی بجائے اس کی سپاہیانہ ہیبت سے مرعوب سی ہوکر ایک طرف ہٹ گئی اور محمد بن قاسم اندر داخل ہوا۔
بیٹے پر نگاہ پڑتے ہی ماں کے زرد چہرے پر رونق آگئی۔اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔”بیٹا! تم آگئے؟“
محمد بن قاسم نے اس کے قریب بیٹھ کر سر سے خود اتارتے ہوئے پوچھا۔”امی! آپ کب سے علیل ہیں؟“
”بیٹا! بصرہ پہنچتے ہی میری طبعیت خراب ہوگئی تھی۔“
”لیکن مجھے کیوں نا لکھا؟“
”بیٹا! تم گھر سے کوسوں دور تھے اور میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اور یہ خود تمہارے سر پر مجھے بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔اسے پھر پہن کر دکھاو۔میں اپنے نوجوان مجاہد کو سپاہیانہ لباس میں اچھی طرح دیکھنا چاہتی ہوں.“
محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے خود اپنے سر پر رکھ لیا۔ماں کچھ دیر ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھتی رہی۔اس کے منہ سے بےاختیار دعا نکلی۔”میرے اللہ! یہ سر ہمیشہ اونچا رہے۔“
محمد بن قاسم سے نظر ہٹا کر اس نے زبیدہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”بیٹی تم کیوں کھڑی ہو۔بیٹھ جاو۔“
زبیدہ جو ابھی تک دروازے کے قریب تھی، جھجکتی اور شرماتی ہوئی آگے بڑھی اور بستر کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
ماں نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا۔”محمد! تم نے اسے پہچانا؟“
اس نے جواب دیا۔”میں نے اسے دیکھتے پی پہچان لیا تھا۔لیکن زبیدہ تم کیسے آئیں؟ چچا کو تو یہ بھی معلوم نا تھا کہ امی جان یہاں ہیں؟“
ماں نے پریشان ہوکر پوچھا۔”تم اپنے چچا سے مل آئے ہو؟“
”ہاں امی! قتیبہ کا پیغام تھا۔اس لیے میں سیدھا ان کے پاس پہنچا اور وہ مجھے پکڑ کر گھر لے گئے۔وہ خود بھی آپ کے پاس آنا چاہتے تھے۔لیکن میں آپ کی علالت کی خبر سن کر بھاگ آیا اور انھیں ساتھ نہ لاسکا۔“
ماں نے مغموم صورت بنا کر کہا۔”خدا کرے یہاں آنے میں اس کی نیت ٹھیک ہو۔“
زبیدہ کا سرخ و سپید چہرہ سرخ ہورہا تھا۔اس نے کرسی سے اٹھ کر کہا۔”چچی جان! میں جاتی ہوں۔“ شامی کنیز بھی اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
لیکن اتنے میں باہر کسی کے پاوں کی چاپ سنائی دی اور شامی کنیز نے آگے بڑھ کر صحن کی طرف جھانکا اور اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
محمد بن قاسم پریشان ہوکر اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا۔زبیدہ کی ماں اندر داخل ہوئی اور حجاج بن یوسف نے دروازے پر رک کر محمد بن قاسم سے کہا۔”محمد! اپنی ماں سے پوچھو۔مجھے اندر آنے کی اجازت ہے؟“
محمد بن قاسم نے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیوں امی! چچا اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟“
ماں نے سر اور چہرہ ڈھانپتے ہوئے جواب دیا۔”گھر میں آنے والے مہمان کے لیے دروازہ بند نہیں کیا جاسکتا۔انھیں بلالو۔“
حجاج بن یوسف اندر داخل ہوا۔زبیدہ کے چہرے پر کئی رنگ آچکے تھے۔اس کی ماں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”بیٹی ڈرتی کیوں ہو؟ تمہارے ابا خود تمہاری چچی کی مزاج پرسی کے لیے آئے ہیں۔“
حجاج بن یوسف کو وہاں بیٹھے چند ساعتیں نا گزری تھیں کہ گلی میں لوگوں کا شور سن کر محمد بن قاسم باہر نکلا اور تھوڑی دیر بعد مسکراتا ہوا وآپس آکر کہنے لگا۔”آپ کو دیکھ کر محلے کے تمام لوگ ہمارے دروازے پر جمع ہو گئے تھے۔وہ سمجھے تھے کہ آپ ہمیں قتل کرنے کے لیے آئے ہیں۔“
حجاج بن یوسف کے چہرے پر ایک دردناک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے سر جھکا لیا۔
تیسرے دن محمد بن قاسم پھر حجاج بن یوسف کے پاس پہنچا اور ترکستان جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔حجاج بن یوسف نے پوچھا۔”تمہاری ماں کی طبعیت اب کیسی ہے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ان کی حالت اب پہلے سے کچھ اچھی ہے اور انھوں نے مجھے وآپس جانے کی اجازت دے دی ہے۔میرا ارادہ ہے کہ میں آج ہی روانہ ہوجاوں۔“
حجاج بن یوسف نے جواب دیا۔”میں نے آج صبح قتیبہ کے پاس اپنا قاصد روانہ کردیا ہے اور اسے لکھ بھیجا ہے کہ مجھے تمہاری تجاویز سے اتفاق ہے۔اب تم کچھ عرصہ یہیں رہو گے۔“
”لیکن میرا وہاں جانا ضروری ہے۔قتیبہ نے مجھے جلد وآپس آنے کے لیے بہت تاکید کی تھی۔“
حجاج نے جواب دیا۔”لیکن مجھے اس جگہ تمہاری زیادہ ضرورت ہے۔مجھ پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے اور تم میرا ہاتھ بٹا سکتے ہو۔میں یہاں سے اکیلا ہر محاز کی نگرانی نہیں کرسکتا۔اس کے علاوہ تمہارے متعلق میں نے دربارِ خلافت میں لکھا ہے۔ممکن ہے کہ تمہیں وہاں ایک فوجی مشیر کا عہدہ سنبھالنا پڑے۔“
”لیکن دمشق میں مجھ سے کہیں زیادہ تجربہ کار لوگ موجود ہیں۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ دربارِ خلافت میں آپ کے اثرورسوخ کا ناجائز فائدہ اٹھاوں۔ابھی مجھے بہت کچھ سیکھنا ہے۔آپ مجھے ترکستان جانے کی اجازت دیں۔“
”محمد! تمہارا یہ قیاس غلط ہے۔تم اگر بھتیجے ہونے کی بجائے میرے بیٹے بھی ہوتے تو بھی میں تمہاری بےجا حمایت نا کرتا۔مجھے یقین ہے کہ تم بڑی سے بڑی ذمہ داری سنبھال سکتے ہو۔یہ محض اتفاق ہے کہ تم میرے بھتیجے ہو۔پرسوں کی ملاقات میں جو اثر تم نے مجھ پر ڈالا ہے۔اس کے بعد خواہ تم کوئی ہوتے، میں یقیناً تمہارے لیے یہی کرتا۔قتیبہ بذاتِ خود غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔وہ تمہارے بغیر کام چلاسکے گا۔تم میدانِ جنگ کی بجائے دمشق یا بصرہ میں رہ کر اس کی زیادہ مدد کرسکتے ہو۔تم نوجوان ہو۔وہ نوجوان جو بوڑھوں کی آواز سے ٹس سے مس ہونے کے عادی نہیں، یقیناً تمہاری آواز پر لبیک کہیں گے۔قتیبہ کی سب سے بڑی مدد یہ ہوگی کہ تم یہاں یا دمشق میں بیٹھ کر اس کے لیے مزید فوجی بھرتی کرتے رہو۔دوسرے محاز پر ہماری افواج مغربی افریقہ تک پہنچ چکی ہیں۔ممکن ہے کہ موسی بن نصیر کسی دن سمندر عبور کرکے سپین پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔اس صورت میں ہمارے لیے مغربی محاز ترکستان کے محاز سے بھی زیادہ اہم ہوجائے گا۔اس لیے جب تک دربارِ خلافت سے میرے مکتوب کا جواب نہیں آتا تم یہیں رہو اور تمہارے ماموں جان ابھی تک کوفہ سے آئے کہ نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”وہ شاید آج آجائیں۔“
”انھیں آتے ہی میرے پاس بھیجنا اور کہنا کہ یہ والی بصرہ کا حکم نہیں، حجاج بن یوسف کی درخواست ہے۔“
محمد بن قاسم باہر نکلا تو ایک کنیز نے کہا آپ کی چچی آپ کو بلاتی ہیں۔محمد بن قاسم حرم سرا میں داخل ہوا۔زبیدہ اپنی ماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔محمدبن قاسم کو دیکھ کر اس کے چہرے پر حیا کی سرخی چھا گئی اور وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
چچی نے محمد بن قاسم کو اپنے سامنے کرسی پر بیٹھا لیا اور پوچھا۔”بیٹا! تمہارے ماموں جان آئے یا نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”وہ آج آجائیں گے۔لیکن ان کی کیا ضرورت پڑ گئی۔چچا بھی مجھ سے ان کے متعلق پوچھتے تھے۔“
”کچھ نہیں بیٹا! ایک کام ہے۔“
محمد بن قاسم چچی سے رخصت ہوکر گھر پہنچا تو حجاج بن یوسف کی بوڑھی خادمہ باہر نکل رہی تھی۔وہ اندر داخل ہوا تو ماں بستر پر تکیے کا سہارا لیے بیٹھی تھی۔وہ اسے دیکھتے ہی مسکرا کر بولی۔”بیٹا اب تو شاید تمہیں کچھ دن اور یہیں رہنا پڑے گا۔“
”ہاں امی! چچا نے دربارِ خلافت میں فوجی مشیر کے عہدے کے لیے میری سفارش کی ہے اور مجھے جواب آنے تک یہیں ٹھہرنا پڑے گا!“
”بیٹا! حجاج کبھی کسی پر مہربان نہیں ہوا لیکن تم بہت خوش نصیب ہو۔“
”امی!میں اپنے پاوں پر اٹھنا چاہتا ہوں۔اگر دمشق جا کر مجھے معلوم ہوا کہ میں اپنے نئے عہدے کا اہل نہیں تو میں وآپس چلا جاوں گا۔مجھے ڈر ہے کہ وہاں بڑی بڑی عمر کے لوگ مجھ پر ہنسیں گے اور سب یہ کہیں گے کہ میرے ساتھ خاص رعائیت کی گئی ہے۔“
”بیٹا حجاج میں لاکھ برائیاں ہیں لیکن اس میں ایک خوبی ضرور ہے کہ وہ عہدیداروں کا انتخاب کرتے وقت غلطی نہیں کرتا۔میں خود یہ نہیں چاہتا کہ وہ میرے بیٹے کے ساتھ رعائیت کرے۔لیکن اگر اس نے تمہاری کوئی بےجا رعائیت بھی کی ہے تو میں چاہتی ہوں کہ تم ناصرف خود کو اپنے منصب کا اہل ثابت کردکھاو بلکہ یہ ثابت کردو کہ تم اس سے زیادہ اہم ذمہ داری سنبھال سکتے ہو۔میں تمہیں ایک اور خوشخبری سنانا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”پہلے وعدہ کرو کہ میں جو کچھ کہوں گی، تم اس پر عمل کرو گے؟“
”امی! آج تک آپ کا کوئی حکم ایسا ہے جس سے میں نے سرتابی کی ہو؟“
”جیتے رہو بیٹا! میری دعا ہے کہ جب تک دن کو سورج اور رات کو چاند اور ستارے میسر ہیں، تمہارا نام دنیا میں روشن رہے اور قیامت کے دن مجاہدینِ اسلام کی ماوں کی صف میں کی صف میں میری گردن کسی سے نیچی نا ہو۔“
”ہاں امی! وہ خوشخبری کیا تھی؟“
ماں نے مسکراتے ہوئے تکیے کے نیچے سے ایک خط نکالا اور کہا۔”لو پڑھ لو، تمہاری چچی کا خط ہے۔“
محمد بن قاسم نے خط کھولا اور چند سطور پڑھنے کے بعد اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔اس نے خط ختم کیے بغیر ماں کے آگے رکھ دیا اور دیر تک سرجھکائے بیٹھا رہا۔
”کیوں بیٹا! کیا سوچ رہے ہو؟“
”کچھ نہیں امی۔“
”بیٹا! یہ میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو تھی اور حجاج سے نفرت کے باوجود میں یہ دعا کرتی تھی کہ زبیدہ میری بہو بنے۔پچھلے دنوں وہ باپ سے چھپ چھپ کر میری تیمارداری کرتی رہی۔سچ کہتی ہوں کہ اگر میری کوئی اپنی لڑکی بھی ہوتی تو شاید میرا اسی قدر خیال کرتی۔۔۔۔مجھے یہ ڈر تک کہ حجاج بن یوسف کبھی یہ گوارا نا کرے گا اور میں خدا سے تیری عزت، ترقی اور شہرت کی دعائیں کیاکرتی تھی۔ میں جب بھی زبیدہ کو دیکھتی، میرے منہ سے یہ دعا نکلتی کہ یااللہ! میرے بیٹے کو ایسا بنادے کہ حجاج اسے اپنا داماد بنانے پر فخر محسوس کرے۔آج میرے آرزوئیں پوری ہوئیں۔لیکن یہ خیال نا کرنا کہ میں صرف اس لیے خوش ہوں کہ تم والی بصرہ کے داماد بنو گے۔ بلکہ میں اس لیے خوش ہوں کہ مدینہ، دمشق اور بصرہ میں میں نے زبیدہ جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔میں یہ چاہتی ہوں کہ دمشق میں یا کہیں اور جانے سے پہلے تمہاری شادی کردی جائے۔تمہیں کوئی اعتراض تو نا ہوگا؟“
”امی! آپ کو خوش رکھنا میں دنیا کی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہوں لیکن ماموں جان حجاج سے بہت نفرت کرتے ہیں۔“
”اس کے باوجود زبیدہ کو انہی نگاہوں سے دیکھتے ہیں جن سے میں دیکھتی ہوں۔تم ان کی فکر نا کرو۔“
تین ہفتوں کے بعد بصرہ، کوفہ اور عراق کے دوسرے شہروں میں یہ خبر حیرت و استعجاب سے سنی گئی کہ حجاج بن یوسف نے جو عالمِ اسلام کی کسی بڑی شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔اپنے بھائی قاسم کے یتیم اور غریب لڑکے کے ساتھ اپنی اکلوتی لڑکی کی شادی کردی۔دعوتِ ولیمہ میں شہر کے معززین کے علاوہ محمد بن قاسم کے بہت سے دوست اور ہم مکتب شریک تھے۔
اگلے دن حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو بلا کر یہ خوشخبری سنائی کہ دمشق سے خلیفتہ المسلمین کا ایلچی آگیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ تمہیں فوراً دمشق بھیج دیا جائے۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”میں جانے کے لیے تیار ہوں لیکن دربارِ خلافت کے بڑے بڑے عہدہ دار مجھے دیکھ کر یہی سمجھیں گے کہ آپ کی وجہ سے میرے ساتھ بےجا رعایت کی گئی ہے۔“
حجاج نے جواب دیا۔”قیمتی پتھر اپنی ضمانت سے نہیں بلکہ چمک سے پہچانے جاتے ہیں۔میں نے فقط تمہاری فطری صلاحیتوں کی نشونما کے لیے ایک موزوں ماحول تلاش کیا ہے، دربارِ خلافت میں تم صیغہِ امورِ حرب کی مجلسِ شوری کے ایک رکن کی حیثیت سے کام کرو گے اور اگر تم اپنے رفقائے کار اور خلیفہ کو میری طرح متاثر کرسکے تو یقین رکھو کہ کسی کو تمہاری کم عمری کی شکایت نہیں ہوگی۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”لیکن میں حیران ہوں کہ صیغہ امورِ حرب کی مجلسِ شوری دمشق میں کیا کرتی ہے! خلیفہ نے امورِ حرب کی تمام ذمہ داری تو آپ کو سونپ رکھی ہے۔سپہ سالار کے ایلچی براہِ راست آپ کے پاس آتے ہیں، نقل و حرکت کے تمام احکام آپ کی طرف سے جاتے ہیں۔“
”یہ اس لیے کے مجلسِ شوری میں تمہارے جیسے سرگرم اور بیدار مغز ارکان کی کمی ہے اور ان کا بہت سا بوجھ مجھ پرڈال دیا گیا ہے۔ اب تم وہاں جاو گے تو کم از کم میرے سر سے افریقہ کے محاز کی نگرانی کا بوجھ ختم ہوجائے گا۔افریقہ کے حالات میں زرا سے تبدیلی پر امیرالمومنین مجھے ہر دوسرے تیسرے مہینے مشورے لینے کے لیے بلاتے ہیں۔ممکن ہے تمہاری صلاحیتیں دیکھ کر مجھے وہ بار بار بلانے کی ضرورت محسوس نا کریں اور میں ترکستان کی محاز کی طرف زیادہ توجہ دے سکوں۔“
محمد بن قاسم نے پوچھا۔”مجھے کب جانا چاہیے؟“
”میرے خیال میں تم کل ہی روانہ ہوجاو۔میں چند دنوں تک تمہاری والدہ اور زبیدہ کو دمشق بھیجنے کا انتظام کردوں گا۔“
محمد بن قاسم رخصت ہونے کو تھا کہ حبشی غلام نے اندر آکر حجاج بن یوسف کو اطلاع دی کہ ایک نوجوان اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں سراندیپ سے انتہائی اہم خبر لے کر آیا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”بلاو اسے۔اور محمد! تم ابھی ٹھہرو! میرا دل گواہی دیتا ہے کہ سراندیپ سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔“
غلام کے جانے کے تھوڑی دیر بعد زبیر اندر داخل ہوا۔اس کے کپڑے گردو غبار سے آٹے ہوئے تھے اور خوبصورت چہرے پر حزن و ملال اور تھکاوٹ کے آثار تھے۔حجاج بن یوسف نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور کہا۔”زبیر! تم آگئے۔اور تمہارا جہاز۔۔۔۔۔۔!“
زبیر نے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے پاس کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا۔سندھ کے ساحل پر دیبل کے گورنر نے ہمارا جہاز لوٹ لیا ہے۔دوسرا جہاز جس پر سراندیپ کے راجہ نے آپ کے اور خلیفہ کے لیے تحائف بھیجے تھے، وہ بھی لوٹ لیا ہے اور مسلمانوں کے یتیم بچے جنہیں میں لینے کے لیے گیا تھا، قید کرلیے ہیں۔“
حجاج نے کہا۔”تم یہاں کیسے پہنچے۔مجھے تمام واقعات بتاو۔“
زبیر نے شروع سے لے کر آخر تک اپنی سرگزشت سنائی۔حجاج بن یوسف کی آنکھوں میں غم و غصہ کے شعلے بھڑکنے لگے۔اس کے چہرے پر پرانی ہیبت چھا گئی اور وہ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ چباتا ہوا کمرے میں چکر لگانے لگا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک دیوار کے قریب کھڑا ہوکر ہندوستان کے نقشے کو دیکھنے لگا اور اس کے منہ سے ایک زخمی شیر کی گرج سے ملتی جلتی آواز نکلی۔”سندھ کے راجہ کی یہ جرات؟ بکریاں بھی شیروں کو سینگ دیکھانے لگیں۔شاید اسے بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ہماری افواج شمال اور مغرب میں پھنسی ہوئی ہے۔“
یہ کہہ کر حجاج زبیر کی طرف متوجہ ہوا۔”تم نے ابھی تک بصرہ میں تو یہ خبر کسی کو نہیں سنائی۔“
زبیر نے کہا۔”نہیں! میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”سندھ کی طرف سے اس سے زیادہ صریح الفاظ میں ہمارے خلاف اعلان جنگ نہیں ہوسکتا۔لیکن تم جانتے ہو کہ اس وقت ہماری مجبوریاں ہمیں ایک نئے محاز کی طرف پیش قدمی کی اجازت نہیں دیتیں۔میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ الم ناک خبر ابھی عوام تک نا پہنچے، وہ خود جہاد پر جانے کے لیے تیار ہوں یا نا ہوں لیکن مجھے کوسنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔“
زبیر نے کہا۔”آپ کا مطلب ہے آپ یہ سب کجھ خاموشی سے برداشت کرلیں گے۔“
حجاج نے جواب دیا۔”سردشت خاموشی کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں۔میں مکران کے گورنر کو لکھتا ہوں کہ وہ خود سندھ کے راجہ کے پاس جائے۔ممکن ہے وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے آمادہ ہوجائے اور مسلمان بچوں کو اس کے حوالے کردے۔“
زبیر نے کہا۔”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ اپنی غلطی کے اعتراف کے لیے آمادہ نہیں ہوگا۔ابوالحسن کا جہاز لاپتہ ہونے پر بھی آپ نے مکران کے گورنر کو وہاں بھیجا تھا لیکن انھوں نے اپنی لاعِلمی کا کا اظہار کیا اور مجھے یقین ہے کہ ابوالحسن کا جہاز بھی لوٹا گیا تھا اور وہ اور اس کے چند ساتھی راجہ کی قید میں ہیں۔میں خود بھی مکران کے عامل سے مل کر آیا ہوں۔وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ راجہ اور اس کے اہلکار گزشتہ ملاقات میں نہایت ذلت آمیز سلوک کرچکے ہیں۔اس لیے وہ بذات خود دوبارہ اس کے پاس جانا پسند نہیں کرتے تاہم انھوں نے آپ کا مشورہ لیے بغیر مکران کے سالارِ اعلی عبیداللہ کی قیادت میں دیبل کے حاکم کے پاس ایک وفد بھیج دیا ہے۔جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں اس سے میرا انداہ ہے کہ دیبل کا راجہ انتہا درجہ کا ہٹ دہرھرم اور بےرحم ہے اور عبیداللہ بھی کافی جوشیلا ہے، ممکن ہے وہاں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ہمارے ساتھ ہوچکا ہے اور وہ راجہ سے ملاقات کرنے سے پہلے ہی کسی خطرے کا شکار ہوجائیں۔“
حجاج نے کہا۔”تاہم میں عبیداللہ کی واپسی کا انتظار کروں گا۔“
”اور اگر وہ بھی اچھی خبر نا لایا تو؟“
”میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔سندھ ایک وسیع ملک ہے اور ہمیں وہاں لشکر کشی سے پہلے ایک لمبی تیاری کی ضرورت ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ امیرالمومنین، ترکستان، افریقہ اور اس کے بعد شاید اندلس کی فتح سے پہلے ہمیں سندھ پر لشکر کشی کی اجازت نا دیں۔“
محمد بن قاسم ابھی تک خاموشی سے یہ باتیں سن رہا تھا۔اس نے زبیر کی مایوس نگاہوں سے متاثر ہوکر کہا۔”خلیفہ کو راضی کرنے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔اگر آپ اجازت دیں تو میں کل کی بجائے آج ہی دمشق کے لیے راوانہ ہوجاوں۔“
حجاج نے جواب دیا۔”برخودار! جاتے ہی خلیفہ کو ایسا مشورہ دےکر تم اپنی سپاہیانہ صلاحیتوں کا اچھا مظاہرہ نہیں کرو گے۔تمہاری غیرت اور شجاعت میں کلام نہیں لیکن دشمنوں کے قلعے خالی تدبیروں سےفتح نہیں ہوتے۔اس مہم کے لیے بہت سے سپاہیوں کی ضرورت ہوگی اور عراق، عرب اور شام کے کسی مستقر میں ہمارے پاس زائد افواج نہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”میں مسلمانوں کی غیرت سے مایوس نہیں۔ایسی خبر ان لوگوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے، جنھیں آرام کی زندگی جذبہ جہاد سے محروم کرچکی ہے۔ممکن ہے کہ آپ اپنی عمر کے لوگوں سے مایوس ہوں لیکن میں نوجوانوں سے مایوس نہیں۔ وہ نوجوان جو آپ اور خلیفہ سے اختلاف کے باعث ترکستان اور افریقہ جاکر لڑنا پسند نہیں کرتے۔مسلمان بچوں پرسندھ کے راجہ کی مظالم کی داستان سن کر یقیناً متاثر ہوں گے۔ہزارں نوجوان ایسے ہیں جن کی حمیت ابھی تک فنا نہیں ہوئی۔وہ مسلمان جن سے آپ مایوس ہیں، مرے نہیں، سورہے ہیں اور قوم کے یتیم بچوں کی فریاد یقیناً ان کے لیے صورِ اسرافیل ثابت ہوگی۔“
حجاج بن یوسف گہری سوچ میں پڑ گیا۔زبیر نے موقع دیکھ کر ایک سفید رومال جس پر ناہید کی تحریر تھی اپنی جیب سے نکال کر اسے پیش کیا اور کہا۔”آپ کے نام یہ مکتوب ابوالحسن کی لڑکی نے اپنے خون سے لکھا تھا کہ اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکا ہوتو میرا یہ خط پیش کردینا ورنہ اس کی ضرورت نہیں۔“
حجاج بن یوسف رومال پر خون سے لکھی ہوئی تحریر کی چند سطور پڑھ کر کپکپا اٹھا اور اس کی آنکھوں کے شعلے پانی میں تبدیل ہونے لگے۔اس نے رومال محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دے دیا اور خود دیوار کے پاس جاکر ہندوستان کا نقشہ دیکھنے لگا۔ محمد بن قاسم نے شروع سے لے کر آخر تک یہ مکتوب پڑھا۔مکتوب کے الفاظ یہ تھے:-
”مجھے یقین ہے کہ والی بصرہ قاصد کی زبانی مسلمان بچوں اور عورتوں کا حال سن کر اپنی فوج کے غیور سپاہیوں کو گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کا حکم دےچکا ہوگا اور قاصد کو میرا یہ خط دیکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکا ہے تو شاید میری تحریر بھی بےسود ثابت ہو۔میں ابوالحسن کی بیٹی ہوں۔میں اور میرا بھائی ابھی تک دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں لیکن ہمارے ساتھی ایک ایسے دشمن کی قید میں ہیں جس کے دل میں رحم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔قید خانے کی اس تاریک کوٹھری کا تصور کیجیے۔جس کے اندر اسیروں کے کان مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سننے کے لیے بیقرار ہیں۔یہ ایک معجزہ تھا کہ میں اور میرا بھائی دشمن کی قید سے بچ گئے تھے۔لیکن ہماری تلاش جاری ہے اور ممکن ہے کہ ہمیں بھی کسی تاریک کوٹھری میں پھینک دیا جائے۔ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی میرا زخم مجھے موت کی نیند سلا دے اور میں عبرتناک انجام سے بچ جاوں۔لیکن مرتے وقت مجھے یہ افسوس ہوگا کہ وہ صبا رفتار گھورے جن کے سوار ترکستان اور افریقہ کے درواے کھٹکھٹا رہے ہیں. اپنی قوم کے غریب اور بےبس بچوں کی مدد کو نا پہنچ سکے. کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تلوار جو روم اور ایران کے مغرور تاجداروں کے سر پر صاعقہ بن کر کوندی سندھ کے مغرور راجہ کے سامنے کند ہوگئی۔میں موت سے نہیں ڈرتی لیکن اےحجاج! اگر تم زندہ ہوتو اپنی غیور قوم کے یتیموں اور بیواوں کی مدد کو پہنچو۔۔۔۔۔۔۔!!“
ناہید!
ایک غیور قوم کی بےبس بیٹی
محمد بن قاسم نے رومال لپیٹ کر زبیر کے حوالے کیا اور حجاج بن یوسف کی طرف دیکھنے لگا۔وہ گردوبیش سے بےخبر ہوکر نقشے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے پوچھا۔”آپ نے کیا فیصلہ کیا؟“
حجاج بن یوسف نے خنجر نکالا اور اس کی نوک سندھ کے نقشے میں پیوست کرتے ہوئے کہا۔”میں سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا ہوں۔محمد! تم آج ہی دمشق روانہ ہوجاو۔زبیر کو بھی ساتھ لےجاو۔یہ مکتوب بھی امیرالمومنین کو دیکھا دینا۔جتنی فوج دمشق سے فراہم ہو، لےکر یہاں پہنچ جاو۔میرا خط بھی امیرالمومنین کے پاس لےجاو۔واپس آنے میں دیر نا کرنا۔ہاں! اگر امیرالمومنین متاثر نا ہوں تو دمشق کی رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنا اور مجھے یقین ہے کہ امیرالمومنین عوام میں زندگی کے آثار دیکھ کر سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد میں پش و پیش نہیں کریں گے۔میں تمہیں ایک بڑی ذمہ داری سونپ رہا ہوں اور دمشق سے وآپس آنے پر شاید تمہیں اس سے ہیں زیادہ بڑی ذمہ داری سونپ دی جائے. میرا خط دیکھانے پر تمہیں راستے کی ہر چوکی سے تازہ دم گھوڑے مل جائیں گے۔اب جاکر تیار ہوآو۔اتنی دیر میں میں خط لکھتا ہوں اور زبیر تم بھی تیار ہوجاو۔“
حجاج بن یوسف نے تالی بجائی اور ایک حبشی غلام بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔
حجاج نے کہا۔”انھیں مہمان خانے میں لےجاو۔کھانا کھلانے کے بعد ان کے کپڑے تبدیل کراو اور ان کے سفر کے لیے دو بہترین گھوڑے تیار کرو۔“
چند دنوں کی یلغار کے بعد محمد بن قاسم اور زبیر ایک صبح دمشق سے چند کوس کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی سے باہر فوجی چوکی پر اترے۔ محمد بن قاسم نے چوکی کے افسر کو حجاج بن یوسف کا خط دیکھایا اور تازہ دم گھوڑے تیار کرنے اور کھانا لانے کا حکم دیا۔
افسر نے کہا۔”کھانا حاضر ہے لیکن آج گھوڑے شاید آپ کو نا مل سکیں۔ہمارے پاس اس وقت صرف پانچ گھوڑے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”لیکن ہمیں تو صرف دو چاہیے۔“
”لیکن ان گھوڑوں پر امیرالمومنین کے بھائی سلیمان بن عبدالملک اور ان کے ساتھی دمشق روانہ ہونے والے ہیں۔کل چونکہ دمشق میں فنونِ حرب کی نمائش ہوگی، اس لیے ان کا آج شام تک وہاں پہنچنا ضروری ہے۔میں نہ والی بصرہ کے حکم سے سرتابی کرسکتا ہوں اور نہ امیرالمومنین کے بھائی کو ناراض کرنے کی جرات کرسکتا ہوں۔آپ جانتے ہیں کہ وہ بہت سخت طبعیت کے آدمی ہیں۔“
”وہ کہاں ہیں؟“
”وہ اندر آرام فرما رہے ہیں۔غالباً دوپہر کے بعد یہاں سے روانہ ہوں گے۔اگر آپ کا کام بہت ضروری ہے تو ان سے اجازت لے لیجیے۔دوپہر تک ان کے گھوڑے تازہ دم ہوجائیں گے۔ویسے بھی کوئی بڑی منزل طے کرکے نہیں آئے۔آپ کھانہ کھا کر ان سے پوچھ لیں۔بذاتِ خود میں آپ کو منع نہیں کرتا۔آپ لے جائیں تو آپ کی مرضی لیکن ہماری شامت آجائے گی۔“
زبیر اور محمد بن قاسم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا اور محمد بن قاسم اندر جانے کے ارادے سے اٹھا۔لیکن زبیر نے کہا۔”کیا یہ ضروری ہے کہ ہم سلیمان کی اجازت حاصل کریں۔ یہ گھوڑے صرف فوجی ضروریات کے لیے یہاں رکھے گئے ہیں اور سلیمان سیروتفریح کے لیے دمشق جارہا ہے۔اسے فوجی معملات میں رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔گھوڑے اصطبل میں تیار کھڑے ہیں۔شہزادہ سلیمان دوپہر تک آرام فرمائے گا۔ اس کے بعد کچھ دیر آئینہ سامنے رکھ کر اپنے خادموں سے اپنی خوبصورتی کی تعریف سنے گا۔اس کے بعد اشعار کی داد لےگا۔ پھر اپنی نیزہ بازی اور شہسواری کی تعریف سنے گا۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ شام کے وقت سپاہیوں کو حکم دےکہ گھوڑوں کی زینیں اتاردو، ہم صبح جائیں گے۔“
محمد بن قاسم نے ہنستے ہوئے کہا۔”معلوم ہوتا ہے۔آپ سلیمان بن عبدالملک کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔“
”ہاں! میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔عالمِ اسلام شاید اس سے زیادہ مغرور اور خود پسند آدمی کوئی نہ ہو۔اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے اس سے کسی اچھے جواب کی امید نہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”مجھے صرف یہ خیال ہے کہ ہمارے چلے جانے کے بعد چوکی کے سپاہیوں کی شامت آجائے گی۔اس لیے اس سے پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔“
”آپ کی مرضی، لیکن آپ پوچھنے جائیں اور میں اتنی دیر میں اصطبل سے دو گھوڑے کھول لاتا ہوں۔“
محمد بن قاسم نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔سلیمان اپنے ساتھیوں کے درمیان دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔دوخادم اس کے پاوں دبا رہے تھے۔
محمد بن قاسم السلام علیکم کہہ کر اندر داخل ہوا۔سلیمان نے بےپروائی سے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔”تم کون ہو؟ اور کیا چاہتے ہو؟“
محمد بن قاسم نے اس کی ترش کلامی سے لاپرواہی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔”معاف کیجیے! میں آپ کے آرام میں مخل ہوا۔میں آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ میں دمشق میں ایک ضروری پیغام لے کر جارہا ہوں۔“
”جاو! ہم نے کب روکا تمہیں؟“ سلیمان کے ساتھیوں نے اس پرایک قہقہہ لگایا لیکن محمد بن قاسم نے اپنی سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے کہا۔”ہمارے گھوڑے بہت تھکے ہوئے ہیں اور میں اس چوکی سے دو تازہ گھوڑے لےجارہا ہوں۔اس کے لیے مجھے آپ کی اجازت کی ضرورت تو نا تھی لیکن میں نے اس خیال سے آپ کی ملاقات ضروری سمجھی کہ آپ خوامخواہ چوکی کے سپاہیوں کو برا بھلا نا کہیں۔“
سلیمان نے زرا اکڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔”اگر تمہارے گھوڑے تھکے ہوئے ہیں تو تم پیدل جاسکتے ہو۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ایک سپاہی کے لیے پیدل چلنا باعثِ عار تو نہیں لیکن میں بہت جلد دمشق پہنچنا چاہتا ہوں۔“
”تو تم سپاہی ہو۔تمہاری نیام میں لکڑی کی تلوار ہے یا لوہے کی؟“ سلیمان کے ساتھیوں نے پھر ایک قہقہہ لگایا۔
محمد بن قاسم نے پھر اطمینان سے جواب دیا۔”اگر بازووں میں طاقت نا ہو تو لکڑی سے بھی لوہے کا کام لیا جاسکتا ہے۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری تلوار بھی لوہے کی ہے اور مجھے اپنے بازووں پر بھی بھروسہ ہے۔“
سلیمان نے اپنے ایک ساتھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”صالح! یہ لڑکا باتوں میں کافی ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔ذرا اٹھو، میں اس کے سپاہیانہ جوہر دیکھنا چاہتا ہوں۔“
ایک گندمی رنگ کا قوی ہیکل شخص فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور نیام سے تلوار نکال کر اگے بڑھا۔
محمدبن قاسم نے کہا۔”میں راہ چلتوں کے سامنے اپنی سپاہیانہ صلاحیتوں کی نمائش کرنے کا عادی نہیں اور نہ میرے پاس اتنا وقت ہی ہے اور اگر وقت ہوتا بھی میں کرائے پر قہقہے لگانے والوں سے دل لگی کرنا ایک سپاہی کے لیے باعثِ عار سمجھتا ہوں۔“
محمد بن قاسم یہ کہہ کر باہر نکل آیا لیکن صالح نے آگے بڑھ کر تلوار کی نوک سامنے کرتے ہوئے اس کا راستہ روک لیا اور کہا۔”بےوقوف! اگر تمہاری عمر دو چار سال اور زیادہ ہوتی، تو میں تمہیں بتاتا کہ کرائے پر قہقہہ لگانے والا کسے کہتے ہیں۔“
سامنے زبیر ایک گھوڑے پر سوار ہوکر دوسرے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھا۔سلیمان نے باہر نکل کر کہا۔”اسے جانے دو۔بےچارہ ناجانے کہاں سے تلوار اٹھا لایا ہے۔لیکن وہ کون ہے؟“
اس نے زبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”اسے روکو!“
صالح زبیر کی طرف متوجہ ہوا لیکن آنکھ جھپکنے میں محمد بن قاسم کی تلوار باہر آچکی تھی۔اس نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ ایامِ جاہلیت کے عرب اب بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔لیکن تم ہمیں نہیں روک سکتے۔“
صالح تلوار کی نوک اس کے سینے کی طرف بڑھاتے ہوئے چلایا۔”اگر تمہاری زبان سے ایک لفظ اور نکلا تو میری تلوار خون میں نہائے بغیر تلوار میں۔۔۔۔۔۔۔“
لیکن اس کا فقرہ پورا ہونے سے پہلے محمد بن قاسم کی تلوار جنبش سے ہوا میں ایک سنسناہٹ اور پھر دو تلواروں کے ٹکڑانے سے جھنکار پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی صالح کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دس قدم دور جا پڑی اور وہ حیرت، ندامت اور پریشانی کی حالت میں اپنے ساتھیوں اور اس کے ساتھی دم بخود ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
سلیمان نے اپنے ساتھی کی بےبسی کو دیکھ کر قہقہہ لگایا لیکن محمد بن قاسم کو گھوڑے پرسوار ہوتا دیکھ کر قہقہے کی آواز اس کے گلے میں اٹک گئی اور اس نے چلا کر کہا۔”ٹھہرو!“
محمد بن قاسم نے گھوڑے کی لگام موڑتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔”آپ کا ساتھی بہادر ہے لیکن تلوار پکڑنا نہیں جانتا. میرا مشورہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو دمشق کی نمائش میں لے جانے سے پہلے کسی سپاہی کے سرد کریں۔“ یہ کہہ کر محمد بن قاسم نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور دونوں آن کی آن میں درختوں کے پیچھے غائب ہوگئے۔
صالح غصے سے اپنے ہونٹ کاٹتا ہوا اصطبل کی طرف بھاگا۔سلیمان نے کہا۔”بس اب رہنے دو۔تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ایک نوجوان لڑکا ہم سب کا منہ چڑا کر نکل گیا۔“
راستے میں زبیر نے محمد بن قاسم سے کہا۔”دیکھ لیا شہزادہ سلیمان۔میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ وہ خلافت کا امیدوار بھی ہے۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”خدا مسلمانوں کوشر سے بچائے۔“
زبیر نے کہا۔”محمد! میں نے آج پہلی دفعہ تمہارے چہرے پر جلال دیکھا ہے۔تلوار نکالتے وقت تم اپنی عمر سے کئی سال بڑے معلوم ہوتے تھے اور جانتے ہو وہ شخص جسے تم نے مغلوب کیا ہے کون ہے؟ وہ صالح تھا۔قریباً ڈیڑھ سال ہوا میں نے اسے کوفہ میں دیکھا تھا۔اسے تیغ زنی میں اپنے کمال پر ناز ہے۔لیکن آج اس کا غرور اسے لے ڈوبا۔“
دمشق کی جامع مسجد میں نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد محمدبن قاسم اور زبیر قصرِ خلافت میں داخل ہوئے۔خلیفہ ولید کے دربان نے ان کی آمد کی اطلاع پاتے ہی انھیں اندر بلالیا۔ولید بن عبدالملک نے یکے بعد دیگرے ان دونوں کو سر سے پاوں تک دیکھا اور پوچھا۔”تم میں سے محمد بن قاسم کون ہے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔” میں ہوں۔“
حاضرینِ دربار جن کی نگاہیں زبیر پر مرکوز ہوچکی تھیں، حیرت زدہ ہوکر محمد بن قاسم کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی خاموش نگاہیں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔حجاج بن یوسف کے گزشتہ مکتوب سے ولید کو معلوم ہوچکا تھا کہ محمد بن قاسم بالکل نوجوان ہے لیکن اس کے باوجود وہ بھی درباریوں کی طرح زبیر ہی کو حجاج بن یوسف کا ہونہار بھتیجا سمجھ رہا تھا۔ اور سولہ سترہ سالہ نوجوان کو قتیبہ کے لشکر کے ہراول کا سالار اعلی تسلیم کرنے کے لیے تیار نا تھا۔
آنکھوں کو اشاروں کے ساتھ اہلِ دربار کی زبانیں بھی ہلنے لگیں اور ولید نے اچانک یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس کے خاندان کے سب سے بڑے محسن حجاج بن یوسف کے متعلق کچھ کہا جارہا ہے، مسند سے اٹھ کر محمد اور زبیر سے مصافحہ کیا اور انھیں اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔” وہ مجاہد جس کے متعلق حجاج بن یوسف جیسا مردم شناس اور قتیبہ بن مسلم جیسا سپہ سالار اس قدر بلند رائے رکھتے ہوں، میرے لیے یقیناً قابلِ احترام ہے۔“ پھر اس نے محمد بن قاسم سے مخاطب ہوکر پوچھا۔”اور یہ تمہارا بڑا بھائی ہے؟“
”نہیں امیرالمومنین، یہ زبیر ہے۔“
ولید نے زبیر کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔”میں نے شاید پہلے بھی تمہیں کہیں دیکھا ہے۔شاید تم سراندیپ کے ایلچی کے ساتھ گئے تھے۔تم کب آئے اور وہ بچے کہاں ہیں؟“
خلیفہ کی طرح حاضرینِ دربار کی توجہ بھی زبیر پر مرکوز ہوگئی اور بعض نے اسے پہچان لیا۔زبیر کا تذبذب دیکھ کر محمد بن قاسم نے جلدی سے حجاج بن یوسف کا خط پیش کرتے ہوئے کہا۔”امیرالمومنین! ہم ایک نہایت ضروری پیغام لےکر آئے ہیں۔آپ ملاحظہ فرمالیں۔۔۔۔۔۔۔۔“ ولید نے خط کھول کر پڑھا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد حاضرینِ دربار سے مخاطب ہوکر کہا۔”سندھ کے راجہ نے ہمارا جہاز لوٹ لیا ہے۔سراندیپ سے آنے والی بیواوں اور یتیم بچوں کو قید کرلیا ہے۔زبیر تم اپنی تمام سرگزشت خود سناو!“
زبیر نے شروع سے لے کر آخر تک تمام واقعات بیان کیے لیکن دربار میں جوش و خروش کی بجائے مایوسی کے آثار پاکر اختتام پر اس کی آواز بیٹھ گئی اور اس نے جیب سے رومال نکال کر خلیفہ کو پیش کرتے ہوئے کہا۔”ابوالحسن کی بیٹی نے یہ خط والی بصرہ کے نام لکھا تھا۔“
حجاج بن یوسف کی طرح ولید بھی یہ خط پڑھ کر بےحد متاثر ہوا۔اس نے اہلِ دربار کو سنانے کے لیے خط کو دوسری بار بلند آواز میں پڑھنے کی کوشش کی لیکن چند فقرے پڑھنے کے بعد اس کی آواز رک گئی۔اس نے مکتوب محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”تم پڑھ کر سنادو!“
محمد بن قاسم نے سارا خط پڑھ کر سنادیا۔مجلس کا رنگ بدل چکا تھا۔حاضرین میں سے اکثر کے چہرے ظاہر کررہے تھے کہ جذبات کا طوفان عقل کی مصلحتوں کو مغلوب کرچکا ہے لیکن ولید کو خاموش دیکھ کر سب کی زبانیں گنگ تھیں۔شہر کا عمر رسید قاضی دیر تک اس خاموشی کو برداشت ناکرسکا۔ اس نے کہا۔”امیرالمومنین! اب آپ کو کس بات کا انتظار ہے۔یہ سوچنے کا موقع نہیں۔پانی سر سے گزرچکا ہے۔“
ولید نے پوچھا۔”آپ کی کیا رائے ہے؟“
قاضی نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! فرض کے معاملے میں رائے سے کام نہیں لیا جاتا۔رائے صرف اس وقت کام دے سکتی ہے جب سامنے دو راستے ہوں لیکن ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔“
ولید نے کہا۔”میں آپ سب کی رائے پوچھتا ہوں۔“
ایک عہدیدار نے کہا۔”ہم میں سے کوئی بھی اولٹے پاوں چلنا نہیں جانتا۔“
ولید نے کہا۔”لیکن ہمارے پاس افواج کہاں ہیں؟ موسی کا پیغام آچکا ہے کہ وہ اندلس پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔دوسری طرف ترکستان میں عراق کی تمام افواج کو قتیبہ اپنے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ ہمیں نیا محاذ کھولنے کے لیے یا تو ان میں سے ایک محاز کمزور کرنا پڑے گا یا اور کچھ مدت انتظار کرنا پڑے گا۔“
قاضی نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! یہ خط سننے کے بعد ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو انتظار کا مشورہ دے گا۔اگر آپ یہ معاملہ عوام کے سامنے پیش کریں، تو مجھے یقین ہے کہ سندھ کی مہم کے لیے ترکستان یا افریقہ سے افواج منگوانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔“
ولید نے کہا۔”اگر آپ عوام کو جہاد کے لیے آمادہ کرنے کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں تو میں بھی اعلانِ جہاد کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
قاضی تذبذب سا ہوکر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
ولید نے کہا۔”میں عوام سے مایوس نہیں۔مجھے صرف یہ شکایت ہے کہ ہمارا اہلِ الرائے طبقہ خودغرض اور خودپسند ہوچکا ہے۔آپ جانتے ہیں جب موسی بن نصیر نے افریقہ میں پیش قدمی کی تھی تو اونچے طبقے کے کئی آدمیوں نے ہماری مخالفت کی تھی۔جب قتیبہ نے مرو پر حملہ کیا تھا تو میرے اپنے ہی بھائی سلیمان نے مخالفت کی تھی۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بااثر طبقے میں جو لوگ کچھ مخلص ہیں، وہ اہل اور تن آسان ہیں اور گھروں میں بیٹھے روئے زمین پر غلبہ اسلام کے لیے اپنی نیک دعاوں کو کافی سمجھتے ہیں۔اگر آپ سب عوام تک پہنچنے کی کوشش کریں تو چند دنوں میں ایک ایسی فوج تیار ہوسکتی ہے جو نہ صرف سندھ بلکہ تمام دنیا کی تسخیر کے لیے کافی ہو لیکن برا نا مانیں، آپ تھوڑی دیر کے لیے متاثر ہوئے ہیں اور ایک یا دودن عوام کو بلکہ اپنے جیسے اونچے طبقوں کے بےعمل لوگوں کو یہ خبر سنانے میں ایک لزت محسوس کریں گے۔سندھ کے ظالم راجہ کو برا بھلا کہیں گے اور اس کے بعد بنی اسرائیل کی طرح دنیا اور عاقبت کا بوجھ خدا کے سر تھوپ کر آرام سے بیٹھ جائیں گے لیکن اگر آپ ہمت کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عامتہ المسلمین ابھی تک زندہ ہیں۔اگر آپ اونچے طبقے کی تفریحی مجالس کی بجائے دمشق کے ہر گھر میں جانا، عوام میں بیٹھنا اور ان سے باتیں کرنا گوارا کریں تو سندھ کے اسیر جو قیدخانے کی دیواروں سے کان لگائے کھڑے ہیں۔ بہت جلد جلد ہمارے گھوڑوں کی ٹاپ سن سکیں گے اور خدا اس لڑکی کو صحت اور زندگی دے، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گی کہ ہماری تلواریں کند نہیں ہوئیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”اگر امیر المومنین مجھے اجازت دیں تو میں یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوں۔“
ولید نے کہا۔”تمہیں میری اجازت کی ضرورت نہیں۔“
محمد بن قاسم کے بعد دربار کے ہر عہدے دار نے ولید کو نئی فوج بھرتے کرنے کا یقین دلایا اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم اور زبیر آپس میں باتیں کررہے تھے۔ایک ایلچی نے آکر یہ پیغام دیا کہ امیرالمومنین محمد بن قاسم کو بلاتے ہیں۔ محمد بن قاسم سپاہی کے ساتھ چلا گیا اور زبیر اپنے بستر پر لیٹ کر کچھ دیر اس کا انتظار کرنے کے بعد اونگھتے اونگھتے سپنوں کی حسین وادی میں کھوگیا۔دمشق سے کوسوں دور وہ ناہید کی تلاش میں سندھ کے شہروں میں بھٹک رہا تھا۔قلعوں کی فصیلوں اور قیدخانوں کے دروازے توڑ رہا تھا۔قیدیوں کی آہنی بیڑیاں کھول رہا تھا۔ناہید کی سیاہ اور چمک دار آنکھوں کے آنسو پونچھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔”ناہید! میں آگیا ہوں۔تم آزاد ہو۔ تمہارا زخم کیسا ہے؟ دیکھو برہمن آباد کے قلعے پر ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا۔“
اور وہ کہہ رہی تھی۔”زبیر! میں اچھی ہوں۔ لیکن تم دیر سے آئے، میں مایوس ہوچکی تھی۔“
میٹھے اور سہانے سپنے کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ انتہائی بےکسی کی حالت میں پابہ زنجیر کھڑا ہوں۔ راجہ کے چند سپاہی ننگی تلواریں اٹھائے اس کے چاروں طرف کھڑے اور باقی ناہید کو پکڑ کر قید خانے کی طرف لے جارہے ہیں اور وہ مڑمڑ کر ملتجی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی ہے۔ناہید کے پاوں اندر رکھتے ہی قید خانے کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور وہ سخت جدوجہد کے بعد اپنے ہاتھوں اور پاوں کی زنجیریں توڑ کر سپاہیوں کو دھکیلتا، مارتا اور گراتا ہوا قید خانے دروازے تک پہنچتا ہے اور اسے کھولنے کی جدوجہد کرتا ہے۔
زبیر نے”ناہید! ناہید!“ کہتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور سامنے محمد بن قاسم کو کھڑا دیکھ کر پھر بند کرلیں۔
محمد بن قاسم اسے خواب کی حالت میں ہاتھ پاوں مارتے اور ناہید کا نام لیتے ہوئے سن چکا تھا۔تاہم اس نے اسے گفتگو کا موضوع بنانا مناسب نا سمجھا اور چپکے سے اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد زبیر نے دوبارا آنکھیں کھولیں اور کہا۔”آپ آگئے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ہاں! میں آگیا ہوں۔“ اور پھر کچھ سوچ کر پوچھا۔”آپ نیزہ بازی اور تیغ زنی میں کیسے ہیں؟“
زبیر نے جواب دیا۔”میں نے بچپن میں جو کھلونا پسند کیا تھا، وہ کمان تھی اور جب گھوڑے کی رکاب میں پاوں رکھنے کے قابل ہوا۔میں نے نیزے سے زیادہ کسی اور چیز کو پسند نہیں کیا۔رہی تلوار، اس کے متعلق کسی عرب سے یہ سوال کرنا کہ تم اس کا استعمال جانتے ہو یا نہیں؟ اس کے عرب ہونے میں شک کرنے کے مترادف ہے۔آپ یقین رکھیے! میری تربیت آپ کے ماحول سے مختلف ماحول میں نہیں ہوئی۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”کل میرا اور آپ کا امتحان ہے۔امیرالمومنین نے مجھے اسی لیے بلایا تھا۔ان کی خواہش ہے کہ ہم دونوں فنونِ حرب کی نمائش میں حصہ لیں، اگر ہم مقابلے میں دوسروں سے سبقت لے گئے تو دمشق کے لوگوں پر بہت اچھا اثر پڑے گا اور ہمیں جہاد کے لیے تبلیغ کا موقع مل جائے گا۔
زبیر نے کہا۔”امیرالمومنین کا خیال درست ہے۔خدا نے ہمارے لیے یہ اچھا موقع پیدا کیا ہے لیکن میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ صالح اور سلیمان کے متعلق غلط اندازا نا لگائیں۔راستے میں آپ کے ہاتھ اس کا مات کھا جانا ایک اتفاق کی بات تھی۔وہ دونوں نیزہ بازی میں اپنی کمال نہیں رکھتے۔تاہم میں تیار ہوں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”ہمیں اپنی بڑائی مقصود نہیں۔ہم ایک اچھے مقصد کے لیے نمائش میں حصہ لیں گے۔خدا ہماری مدد ضرور کرے گا۔امیرالمومنین نے کہا ہے کہ وہ ہمیں اپنے بہترین گھوڑے دیں گے۔“
سلیمان بن عبدالملک نے ایک قدآدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر زرہ پہنی اور خود سرپر رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”کیوں صالح! میں عام لباس میں اچھا معلوم ہوتا ہوں یا سپاہیانہ لباس میں؟“
صالح نے جواب دیا۔”خدا نے آپ کو ایک ایسی صورت دی ہے جو ہر لباس میں اچھی لگتی ہے۔“
سلیمان آئینے کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر کچھ سوچ کر بولا۔”مجھے اس لڑکے کی صورت پر رشک آگیا تھا۔وہ نمائش دیکھنے ضرور آئے گا۔اگر تم میں سے کسی کو مل جائے تو اسے میرے پاس لے آو۔وہ ایک ہونہار سپاہی ہے اور میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔“
صالح نے ایسا محسوس کیا کہ سلیمان اس کی دکھتی رگ پر نشتر چبھو رہا ہے۔وہ بولا۔”آپ مجھے زیادہ شرمندہ نا کریں۔اس وقت تلوار پر میرے ہاتھ کی گرفت مضبوط نا تھی اور یہ بات میرے وہم میں بھی نا تھی کہ وہ میری لاپرواہی کا فائدہ اٹھائے گا۔“
سلیمان نے کہا۔”اپنے مدِمقابل کو کمزور سمجھنے والا سپاہی ہمیشہ مات کھاتا ہے۔خیر یہ تمہارے لیے اچھا سبق ہے۔اچھا یہ بتاو! آج ہمارے مقابلے میں کوئی آئے گا یا نہیں؟“
صالح نے جواب دیا۔”مجھے یہ توقع نہیں کہ کوئی آپ کے مقابلے کی جرات کرے گا۔گزشتہ سال نیزہ بازی میں تمام نامور سپاہی آپ کے کمال کا اعتراف کرچکے تھے۔“
”لیکن امیرالمومنین مجھ سے خوش نا تھے۔“
”اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ان کے بھائی ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ آپ کی ناموری اور شہرت ان کی بیٹے کی ولی عہدی کے راستے میں رکاوٹ ہوگی۔لیکن لوگوں کے دلوں میں جو جگہ آپ پیدا کرچکے ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتی۔“
سلیمان نے کہا۔”لیکن میری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حجاج بن یوسف ہے۔وہ عراق پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اس بات کی کوشش میں ہے کہ میرے بھائی کے بعد میرا بھتیجا مسندِ خلافت پر بیٹھے۔“
صالح نے کہا۔”خدا میرے بھائی کے قاتل کو غارت کرے۔مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی۔لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے کے لیے جو خوبیاں آپ میں ہیں، وہ نا آپ کے بھائی میں ہیں نہ کسی اور میں۔آپ گزشتہ سال فنونِ حرب کی نمائش میں نام پیدا کرکے اپنا راستہ صاف کرچکے ہیں۔رائے عامہ خلافت کے معاملے میں آپ کی حق تلفی گوارا نا کرے گی۔“
ایک غلام نے آکر اطلاع دی کہ گھوڑے تیار ہیں اور صالح نے کہا۔”ہمیں چلنا چاہیے۔نمائش شروع ہونے والی ہے۔“