سونیا نے شعبان کو اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے اس سے دور دور رہنا شروع کر دیا تاکہ وہ بے چین ہو کے اس سے کوئی شکوہ شکایت کرے تو وہ اسے شادی پہ مجبور کر سکے
آفس میں بھی بات نہ کرتی
فون کالز پہ اگنور کرتی
آخر اس کے رویے سے تنگ آکر شعبان ایک دن پھٹ پڑا کہ
یہ سب کیا ڈرامہ شروع کر رکھا ہے تم نے اس کی وجہ پوچھ سکتا ہوں کیا ہے؟
شعبان اب میں تم سے صرف اس وقت ملوں گی جب تم مجھ سے شادی کرو گے اس کے علاوہ میں تم سے ملنے نہیں آؤں گی
سونیا نے دو ٹوک الفاظ میں کہا
شادی یہ آج کیا جاہل گنوار بیک وورڈ لڑکیوں جیسا سوچنا شروع کر دیا ہے تم نے
سونیا میری جان وہ کرتی رہتی ہیں ہر وقت شادی شادی تم جیسی پڑھی لکھی اور ماڈرن لڑکی کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی
شعبان نے سونیا کی بات سن کے جواب دیا
شعبان میں کوئی امریکہ کی ریاست میں رہنے والی لڑکی نہیں ہوں جسے ایسی باتوں سے فرق نہیں پڑتا میں یہاں اس معاشرے میں رہتی ہوں جہاں ایسی باتوں سے بہت فرق پڑتا ہے
جہاں ایک عورت کے نام کے ساتھ مرد کا نام جڑا ہوتا ہے کبھی باپ کی صورت میں
اور کبھی شوہر کی صورت میں اسے کسی نہ کسی صورت مرد کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے
بہت ہو گیا بس
مجھے اب تم سے شادی کرنی ہے یہ میرا آخری فیصلہ ہے سونیا نے شعبان کو قائل کرنا چاہا
اور اگر میں نہ کروں تو؟
شعبان نے سونیا کے دماغ میں دھماکہ کیا
تو پھر ہم دونوں کے راستے ابھی اور اسی وقت سے الگ ہو جائیں گے تم اپنے راستے پہ میں اپنے راستے
سونیا نے فیصلہ سنایا
میم سونیا پہلی بات تو یہ ہے کہ تم میرے ساتھ مفت میں نہیں رہ رہی میرا بہت خرچہ ہوا ہے تم پہ
ابھی تو میرے پیسے بھی پورے نہیں ہوئے اس لیے تم مجھ سے دور جانے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں
اور دوسری بات رہی شادی کی
تو وہ بھی تم جیسی لوز اور گھٹیا کریکٹر کی لڑکی سے ؟
ہاہاہا___________________
شعبان نے معنی خیز قہقہہ لگایا
جو پیسے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتی ہو
کل کوئی مجھ سے بھی زیادہ پیسے والا مل گیا تو تم مجھے چھوڑنے میں ایک منٹ نہیں لگاؤ گی
اس لیے مجھے ایسی لڑکیاں صرف تھوڑی دیر کے لیے اٹریکٹ کرتی ہیں میں ان کو مستقل اپنے گلے کا ہار نہیں بناتا
اور ان کے جادوئی حسن کا تو میں دل سے قدردان ہوں
بلکہ تم جیسی حسینائیں تو میری بہت بڑی کمزوری ہیں اس لیے تو میں تم پہ دل و جان سے فدا ہو گیا ہوں
مگر شادی وادی بچے یہ تمھارے بس کا روگ نہیں اس کام کے لیے تو کسی پاکیزہ نیک اور صابر شاکر عورت چاہیے
اور میرے نزدیک تم بس دل بہلانے کی شے ہو جو دکان کے شو کیس میں سجی ہی اچھی لگتی ہیں گھر کی چار دیواری میں رہو گی تو چند دنوں میں ہی تمھارا حسن مانند پڑ جائے گا
شعبان نے صاف لفظوں میں سونیا سے شادی کے لیے انکار کر دیا
مگر شعبان تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تم مجھ سے شادی کرو گے اور تم اپنے وعدے سے کیسے مکر سکتے ہو
سونیا نے شعبان کو یاد دلایا
اصل میں سونیا تم جیسی لڑکیوں کو قابو میں رکھنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے
کہ جب بھی پٹڑی سے اترنے لگیں تو شادی نام کی گاڑی میں بیٹھنے کا خواب دکھا دو ورنہ تم کبھی لائن پہ نہ آتی
اور پھر شادی کے بغیر بھی ہم ایک اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں
میں نے تمھیں وہ سب کچھ دیا ہے جس کا ایک لڑکی خواب دیکھتی ہے
بینک بیلنس گھر گاڑی
اور تم جو کچھ کہتی ہو تمھارے سامنے موجود ہوتا ہے کیا یہ سب کافی نہیں
شعبان تم نہیں سمجھ سکتے تم کبھی نہیں سمجھ سکتے مجھے کیا چاہیے
سونیا ہسٹریائی کیفیت میں چلاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی
اس کا دل ڈوب رہا تھا شعبان نے شادی سے صاف انکار کردیا تھا
اور اب اس میں دوسری بار اپنا بچہ کھونے کی ہمت نہیں تھی
میں ہمت نہیں ہاروں گی میں شعبان کو شادی کے لیے رضامند کر کے رہوں گی سونیا نے ایک بار پھر تہیہ کیا
لیکن اس دن کے بعد شعبان کے رویے میں بھی مسلسل تبدیلی آ رہی تھی وہ بھی سونیا سے اب کھچا کھچا رہتا چند دنوں کے اندر اندر اسے پرسنل سیکرٹری کی جاب سے کسی دوسری جگہ لگا دیا گیا
جو بھی کرنا ہے کرو شعبان میں بھی اب تمھاری منتیں نہیں کروں گی دیکھنا چار دن میں نے تمھیں منہ نہ لگایا تو کیسے میرے آگے پیچھے لٹو کی طرح گھومتے پھرتے میری منتیں کرو گے
سونیا منہ میں بڑ بڑائی
جو کرنا ہے کرو میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں
لیکن سونیا کا اندازہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب سر شعبان نے سونیا کی جگہ نئی سیکرٹری رکھ لی
اور سونیا کو مسلسل نظر انداز کرنا شروع کر دیا
اس چھوٹی سی جاب کی تنخواہ سے سونیا کا گزارہ کہاں ہوتا تھا
مگر اب شعبان نے اپنی ساری عنایتوں کا رخ اپنی نئی سیکرٹری بیا کی طرف موڑ لیا تھا سونیا کی طرف تو وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا
سونیا کبھی کال کرتی تو وہ کاٹ دیتا آفس میں بات نہ کرتا
شعبان کو راضی کرنا اب بہت ضروری تھا
ہر گزرتا دن سونیا کو مسلسل خوفزدہ کر رہا تھا
شعبان کی بے رخی سے تنگ آکر اس نے شعبان کے گھر جا کے اس سے بات کرنے کا پلان بنایا
______________
وہ کافی دیر تک اس پیلس نما گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی انتظار کرتی رہی پھر ایک نوجوان خوبصورت لڑکی سر کو سکارف سے ڈھانپے اندر داخل ہوئی
جی وہ مجھے سر شعبان سے ملنا تھا
سونیا نے اس سے کہا
بیٹھیں آپ مس سونیا میں مسز شعبان ہوں
کہیے کیا کام ہے ؟
اس لڑکی نے سونیا سے پوچھا
وہ مجھے ان سے ہی کام تھا اگر وہ گھر پہ نہیں ہیں تو میں پھر کبھی آ جاؤں گی
سونیا نے اٹھتے ہوئے کہا
مس سونیا شعبان گھر پہ موجود ہے لیکن وہ تم سے ملنا نہیں چاہ رہے
مسز شعبان نے دھماکہ کیا
سونیا کے قدم جم گئے
وہ واپس مڑی اور سوالیہ نظروں سے مسز شعبان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی
مگر کیوں ؟
کیا آپ کو نہیں پتا مس سونیا کہ وہ آپ سے کیوں ملنا نہیں چاہتے
چلیں میں بتاتی ہوں
شعبان جیسے رئیس انسان کے لیے تم جیسی لڑکیوں کو پھنسانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے
اور وہ پھر ان سے جی بھر کا کھیلتا ہے اور جب اکتا جاتا ہے تو
استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح اسے ڈسٹ بن میں پھینک دیتا ہے
اور اس وقت مس سونیا تمھاری حیثیت شعبان کے نزدیک اسی بیکار اور گندگی سے بھرے ٹشو پیپر سے زیادہ کی نہیں جسے وہ ڈسٹ بن میں پھینک چکا ہے اور اب تمھاری طرف مڑ کے بھی نہیں دیکھے گا
از ڈیٹ کلیر
یا کسی اور طریقے سے سمجھاؤ ں تمھیں میں
مسز شعبان سونیا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جو خفت کے مارے زمین میں گڑھے جا رہی تھی
جی سمجھ گئی سونیا نے آہستہ سے جواب دیا
اس لیے میرا تمھیں دوستانہ مشورہ ہے کہ شعبان کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے کوئی اور ڈھنگ کا کام کرو
یا کوئی اور شکار تلاش کر لو
ابھی تو تمھارا حسن جوانی سب قائم ہے ایک کے بھی دس پھنسا سکتی ہو
جتنے زیادہ گاہک اتنی ہی زیادہ آمدنی ہو گی
مسز شعبان نے طنزیہ مسکراہٹ سے سونیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا_______
سارے راستے سونیا کے کانوں میں مسز شعبان کے جملے ایٹم بم کی طرح پھٹتے رہے
گھر پہنچ کر اس نے پانچ چھ نیند کی گولیاں کھائیں اور بستر پہ گر کر سسک سسک کے رونے لگی پھر پتا نہیں کب روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی
اور جب دوبارہ آنکھ کھلی تو اس کی کوکھ دوسری بار اجڑ چکی تھی
اور شگفتہ بیگم اسے کان میں کہہ رہی تھی شکر کرو وقت پہ اس منحوس مارے کا پتہ چل گیا ورنہ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے
اوہ تو اس بار بیٹا تھا سونیا نے دکھ سے گہری سانس لی اور اپریشن سے دکھتے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کے آنکھیں موند لیں
______________________
یاسر میری مانیں تو آپی کو کسی سائکاٹرسٹ کو چیک کرواتے ہیں پانچ سال ہوگئے ہیں ان کی حالت میں ذرا بھر فرق نہیں آیا
ان کو ویسے ہی پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں میری ایک دوست ہے اس نے مجھ سے کہا ہے کہ کسی گہرے صدمے سے ان کی یہ حالت ہو گئی ہے یہ دم درود اور پیروں فقیروں کی بجائے
اور اگر ہم اچھے طریقے سے ان کا علاج کروائیں
تو یہ ٹھیک ہو سکتی ہیں
یاسر کی بیوی نے اپنی نند سونیا کے شدید پاگل پن کے دورے کے بعد اپنے شوہر سے بات کرتے ہوئے کہا
چپ کرو بیوقوف عورت
کیا تمھیں نہیں پتہ یہ گھر گاڑی بینک بیلنس سب سونیا کا ہے اگر یہ ٹھیک ہو گئی تو ہمیں یہاں سے نکال باہر کریں گی
یاسر نے ہلکی سی سرگوشی سے اس کے کان میں کہا
تو پھر اس کا کوئی حل تلاش کریں مجھ سے نہیں یہ پاگل اب سنبھالی جاتی وہ پاؤں پٹختی غصے سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی
_____________
حل تو یاسر نے شگفتہ بیگم کے مرنے کے بعد ہی سوچ لیا تھا مگر اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تھوڑا وقت چاہیے تھا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ ما ں کے مرتے ہی بہن کو پاگل خانے داخل کروا دیا
اور اب جب سارے خاندان میں یہ اچھی طرح مشہور ہو گیا تھا کہ سونیا کو پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں جس کے دوران وہ اگلے بندے کی جان لینے کی کوشش کرتی ہے تو سونیا کو پاگل خانے جمع کرواتے ہوئے یاسر کے دل اور دماغ پر کوئی بوجھ نہیں تھا
کیونکہ یہاں چھوڑ کے جانے والے لوگوں سے نہ تو کوئی ملنے آتا ہے
اور نہ لا وارثوں کا کوئی ۔علاج کرواتا ہے
بعض اوقات سونیا جیسے لوگ زندگی کے سفر میں منزل تک پہنچنے کے لیے جن راہوں کا انتخاب کرتے ہیں وہ سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ بھی نہیں ہوتا اور جب ہماری آنکھ کھلتی ہے تو ان سراب راہوں کے اختتام پر یا تو کوئی جیل کی کال کوٹھڑی ہوتی ہے یا قبر کا گھپ اندھیرا یا ایسا ہی کوئی پاگل خانے کا گوشہ ____________
یہ ہمارا مقدر تو نہیں ہوتا
صرف ہماری زندگی کے غلط راستے پر چلنے کا انجام ہوتا ہے جن پہ چلتے چلتے ہم یہاں تک آ جاتے ہیں
کبھی کبھی ہم اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ پھر واپسی کا راستہ سراب ہی لگتا ہے
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...