کافی دنوں سے وہ نوٹ کر رہی تھی کہ ساحل بہت دیر سے گھر آنے لگا تھا ۔۔ آفس میں بھی زیادہ وقت گزار رہا تھا ۔۔ جب سے پاپا کا انتقال ہوا تھا ۔۔ ماما بھی اپنے کمرے ہی کی ہوکر رہ گئ تھیں ۔۔ ایسے میں اس پورے گھر پر نیشا کی حکمرانی تھی ۔۔مگر ساحل کی آج کل کی اس روٹین نے اسے ڈسٹرب کر کے رکھ دیا تھا ۔۔ وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ ساحل گھر آیا تھا۔۔ اسے آج جلدی آتا دیکھ کر نیشا کھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ خیریت ہے ؟ آج جلدی آگئے ؟ ’’ اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں خیریت ہے ۔۔ ماما کے کمرے میں آؤ بات کرنی ہے ’’ وہ کہہ کر ماما کے کمرے کی طرف گیا تھا ۔۔ نیشا بھی اس کے پیچھے آئی تھی ۔۔ کمرے میں داخل ہوکر ساحل ماما کے سامنے بیٹھا تھا ۔۔
’’ کیسی ہیں آپ ؟ ’’ اس نے ماما کی جانب دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔جو ان دنوں بیمار اور کمزور ہوچکی تھیں ۔۔
’’ تم اچھی طرح جانتے ہوکہ میں کیسی ہوں ؟ ’’ ماما نے اسکی جانب ایک نظر بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔ نیشا کو یہ بات بری لگی تھی۔۔
’’ میں نے اپنا سارا سیٹ اپ کراچی میں شفٹ کردیا ہے ۔۔ اور گھر بھی خرید لیا ہے ہم کل کراچی شفٹ ہورہے ہیں ‘’ اس نے ماما کے سوال کو اگنور کر کے کہا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ہے تمہارا ؟ میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی ’’ ماما فوراً سے غصے میں آئی تھیں ۔۔جبکہ نیشا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ اور میں اب یہاں رہنا نہیں چاہتا ۔۔ باہر نکلو تو سب ارسا کے بارے میں پوچھتے ہیں تھک گیا ہوں میں جواب دے دے کر ’’ ساحل اونچی آواز میں بولتے ہوئے کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ مگر یہ گھر تمہارے پاپا نے بنایا تھا ۔۔ میں اس گھر کو چھوڑ کر نہیں جاؤنگی ۔۔ تم دونوں نے جانا ہے تو جاؤ ’’ ماما اب رونے لگی تھیں ۔۔ ساحل ماما کے آنسو دیکھ کر فوراً انکے پاس آیا تھا ۔۔
’’ ماما بات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔ ہمارا یہاں رہنا اب مشکل ہوگیا ہے۔ آپ تو کمرے میں ہوتی ہیں۔۔ گھر کوئی بھی مہمان آتا ہے تو ارسا کے بارے میں عجیب و غریب سوالات کرتا ہے ۔۔ باہر جاتا ہوں تو لوگ روک روک کر پوچھتے ہیں ۔۔ آخر اس طرح ہم کیسے یہاں رہ سکتے ہیں ؟ ’’ ساحل اب نرم لہجے میں انہیں سمجھانا چاہ رہا تھا ۔۔
’’ میری بیٹی ایسی نہیں تھی ساحل ۔۔ تم مجھے اس سے ایک بار ملنے تو دو ،۔، مجھے یقین ہے کہ بات ضرور کوئی اور ہوگی’’ وہ اب بھی ارسا کی طرفداری کر رہیں تھیں ۔۔ ساحل فوراً غصے سے کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ میں اسکا نام بھی نہیں سننا چاہتا ۔۔ کہیں منہ دکھانے کےقابل نہیں چھوڑا اس نے ہمیں ۔۔ میں آپ سے کہہ رہا ہوں کل صبح ہم یہاں سے جارہے ہیں اور پھر ہم دوبارہ کبھی یہاں واپس نہیں آئینگے ’’ وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا جبکہ نیشا اب ماما کی طرف آئی تھی ۔۔
’’ ماما پلیز آپ ساحل کی بات مان لیں ویسے بھی وہ کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کرینگے نہ ؟ ’’ نیشا کا انداز عجیب تھا۔۔ ماما نے اسے نم آنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔
’’ یہ تم نے اچھا نہیں کیا نیشا۔۔ایک بھائی کو اسکی بہن کے خلاف کردیا ۔۔جس دن اسے سچائی معلوم ہوگی تم کہیں کی نہیں رہوگی ’’ ماما کی بات پر نیشا انکی طرف جھکی تھی ۔۔
’’ اسے کبھی کچھ پتہ نہیں چلے گا ’’ وہ کہہ کر فوراً کھڑی ہوئی تھی اور ایک مسکراتی نگاہ ان پر ڈال کر کمرے سے نکل گئ تھی ۔۔ ماما اب رونے میں مشغول ہوچکی تھیں ۔۔
محد اس وقت کچن میں تھا جب وہ اسکے پیچھے آکر کھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ ایک کپ میرے لئے بھی ’’ اس نے ہاتھ باندھ کر اس سے کہا تھا ۔۔ اسکی آواز پر محد چونک کر پلٹا اور اسے سامنے دیکھ کر مسکراتا ہوا وہ دوبارہ چولہے کی طرف پلٹا تھا ۔
’’ زہے نصیب ۔۔ آج تو بڑے بڑے لوگوں نے ہمارے گھر کر رونق بخشی تھی ’’ اسے ارسا کو اپنے گھر میں دیکھ کر واقعی بہت خوشی ہوئی تھی ۔۔ ارسا اب چلتے ہوئے اسکے پاس آئی اور سلپ کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئ۔۔
’’ بس میں نے سوچا کہ تمہیں یہ شرف بخش ہی دوں ’’ کاندھے اچکاتے ہوئے اس نے احسان کرنے والے انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ شکریہ آپکا بہت بہت ۔۔ مگر اب بتا بھی دیں کہ وہ کونسی بات ہے جو تمہیں یہاں تک لے آئی ’’ اس نے چائے ایک کپ میں ڈالتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اب مجھے حیرانی بلکل بھی نہیں ہوتی ؟ ’’ ارسا اسے چائے ڈالتے دیکھ کرکہہ رہی تھی ۔
’’ کس پر ؟ ’’ چائے ڈال کر کپ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے پوچھا تھا ۔
’’ اس بات پر کہ تم ہمیشہ جان جاتے ہوکہ میں کیا سوچ رہی ہوں ’’ چائے کا کپ لیتے ہوئے اس نے جواب دیا تھا ۔۔
’’ یعنی اب تمہیں عادت ہوگئ ہے میری؟ ’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی کچن کی سلپ پر چڑھ کر بیٹھ گیا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ اس لئے تو تمہارے پاس آجاتی ہو ہمیشہ ’’ اس نے چائے کا ایک گھونٹ لیا تھا ۔۔
’’ اور آج کونسی بات تمہیں یہاں تک لائی ہے ؟ ’’ وہ اب اصل بات جاننا چاہتا تھا ۔۔ اگر ارسا آج خود اسکے پاس آئی ہے تو بات کوئی خطرناک ہی تھی ۔۔
’’ وہ ۔۔۔ میں کل باس کے گھر جارہی ہو تین دن کے لئے ’’ اس نے ایک دھماکہ کیا تھا ۔۔ چائے محد کے گلے میں اٹکی اور اب اسے کھانسی شروع ہوگئ تھی ۔۔ ارسا جانتی تھی کہ اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا اس لئے مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
’’ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟’’ وہ حیران تھا ۔۔
’’ انکی دادو کی طبیعت بہت خراب ہے اور انہیں آؤٹ آف کنڑی جانا پڑگیا ہے ۔۔ گھر میں کوئی اور نہیں ہے اس لئے انہوں نے مجھ سے ریکویسٹ کی کہ میں انکی غیر موجودگی میں انکی دادو کے پاس رہوں ۔۔ اور میں منع نہیں کر سکی ’’ ارسا جانتی تھی اسے یہ بات بری لگ سکتی تھی ۔۔
’’ جیسے تمہاری مرضی ’’ اس نے کہا اور خاموشی سے چائے کےگھونٹ لینےلگا۔۔
’’ جانتے ہو محد ۔۔ انکی دادو کو دیکھ کر مجھے ماما یاد آئیں تھی ’’ ارسا اپنے چائے کے کپ کو دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔محد اب اسے دیکھ رہا تھا ۔ وہ اس سے ناراض ہونا چاہتا تھا مگر وہ ایسا اسے کرنے نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔
’’ ناجانے وہ کیسی ہونگی؟ پاپا کے انتقال کے بعد وہ کس طرح رہ رہی ہونگی ؟ میں جانتی ہوں انہیں میری بہت یاد آتی ہوگی ۔۔ مجھے بھی آتی ہے۔۔ مگر میں کیا کروں محد ؟ میں انکے پاس نہیں جاسکتی ’’ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے ۔۔ محد فوراً ہی بے چین ہوکر نیچے اترا تھا ۔۔
’’ ارسا پلیز روؤ مت ’’ اس نے ارسا کا ہاتھ تھام کر کہا تھا ۔۔
’’ مجھے ماما بہت یاد آتی ہیں محد ۔۔ آخر کب ملے گا وہ انسان ؟ جس دن مجھے وہ انسان مل گیا محد ’’ اس نے لال آنکھوں سے محد کی جانب دیکھا تھا ۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ محد نے اسکی آنکھوں میں اتنی نفرت دیکھی تھی ۔۔۔
’’ تم پلیز اپنے آپ کو ریلیکس کرو ۔۔۔ انشااللہ سب ٹھیک ہو جائیگا ’’ اس نے پانی کا گلاس اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔ جسے اس نے تھاما نہیں تھا ۔۔
’’ کیسے ریلیکس کروں میں محد ؟ میری زندگی تباہ ہوگئ ۔۔ سب نے مجھے چھوڑ دیا اور وہ شخص۔۔۔ وہ اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے؟ ’’ ارسا کے آج سارے زخم جیسے ہرے ہوگئے تھے ۔۔
’’ ارسا پلیز ۔۔ تم اپنے آپ کو سنبھالو۔۔ وہ جو بھی ہے جہاں بھی ہے ایک نا ایک دن سامنے ضرور آجائیگا اور اس دن تمہیں تمہارا کھویا ہوا مان اور اعتبار واپس ملے گا ۔۔ بس اس وقت کا اتنظار کرو ’’’ محد نے اسے حوصلہ دیا تھا ۔۔
’’ مجھے اسی وقت کا انتظار ہے۔۔۔ جب وہ میرے سامنے آئیگا اور میں اسکا سکون تباہ کردونگی ’’ اس نے کہہ کر اپنے آنسو صاف کئے تھے ۔۔
’’ اچھا اب تم گھر جاؤ ۔۔ صبح تم نے جانا بھی ہے اور میں خود تمہیں لے کر جاؤنگا ’’ اس نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا تھا ۔
’’ تم ناراض نہیں ہو ؟ ’’ ارسا نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ تم بہت چالاک ہو ۔۔ اپنے ان آنسوؤں سے مجھے بلیک میل کرتی ہو ’’ اس کی بات پر ارسا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ تم بلیک میل ہو بھی تو جاتے ہو ’’ اس نے کاندھے اچکا کر کہا تھا ۔۔
اچھا اب چلو تمہیں چھوڑ کر آتا ہوں ’’ وہ کہہ کر باہر کی طرف بڑھا تھا اور ارسا اس کے پیچھےآئی تھی۔۔
’’ ویسے تو مجھے حاشر لینے آئیگا ۔۔مگر میں اسےکہہ دونگی کہ میں تمہارے ساتھ جاؤنگی ’’ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ تمہیں کہنا بھی چاہئے ویسے بھی تم ابھی اتنی آزاد نہیں ہوئی ہو ’’ محد نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ہاں جانتی ہوں ۔۔ میرے نصیب میں قید ہی تو لکھی ہے ’’ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ جواب میں محد خاموش رہا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا کہ یہ زخم اتنی جلدی نہیں بھرنے والے تھے ۔۔
وہ آج آفس دیر سے جانے والا تھا ۔۔ ارساکو آج اس گھر میں آنا تھا ۔۔ سب بلکل ویسا ہی ہورہا تھا جیسا اس نے سوچا تھا ۔۔ کمرے سے باہر نکل کر وہ دادو کے روم میں گیا تھا ۔۔ جہاں حاشر کو پہلے سے دیکھ کر وہ تھوڑا حیران ہوا تھا ۔۔
’’ سلام دادو ۔۔ اب کیسی طبیعت ہے آپکی ؟ ’’ دادو کے پاس بیٹھتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔
’’ تمہیں دیکھ لیا نا ۔۔ اب اچھی ہوگئ ہوں ’’ دادو نے مسکرا کر اسکے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ یعنی یہ سب مجھے دیکھنے کی پلیننگ تھی ہاں ’’ اس نے دادو کو چھیڑا تھا ۔۔
’’ ہاں اور لگتا ہے تمہاری شادی کروانے کے لئے مرنے کی پلیننگ کرنی ہوگی ’’ دادو نے ہنس کر کہا تھا مگر عفان گھبرا گیا تھا ۔۔
’’ کتنی بار کہا ہے آپسے۔۔ اس طرح کی باتیں مت کیا کریں ۔۔ کیا چاہتی ہیں آپ ؟ اس پوری دنیا میں اکیلا ہوجاؤں میں ؟ ‘’ اسے دادو کی بات بری لگی تھی ۔۔
’’ ارے نہیں میرے بچے ۔۔ میں تو چاہتی ہوں کہ کوئی ہوجو تمہارا اکیلا پن ختم کردے ’’ دادو نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ آپ ہیں نا۔۔ مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے ’’ اس نے کہہ کر اب حاشر کی طرف دیکھا تھا جو ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ْ۔۔
’’ تم اسے لینے نہیں گئے؟ ’’ اس نے حاشر سے پوچھا تھا ۔ْ۔
’’ نہیں سر ۔۔ انکی کال آئی تھی ۔۔ وہ محد کے ساتھ آئینگی ’’ محد کا نام سن کر عفان کے چہرے کے تعصورات بگڑے تھے اور حاشر نے انہیں صاف محسوس کیا تھا ۔۔۔
’’ کون آرہا ہے ؟ ’’ دادو نے ان دونوں کی جانب دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔
’’ میری سیکریٹری ہے ۔۔ میں کل دبئی جارہا ہوں تو میری غیر موجودگی میں وہ آپکے ساتھ رہے گی ۔۔۔ اچھا میں ذرا ایک منٹ میں آیا ‘‘ وہ کہہ کر فوراً روم سے باہر نکلا تھا ۔۔ انداز میں غصہ تھا ۔۔ دادو نے اسکے جاتے ہی حاشر کی جانب دیکھا تھا
’’ عفان نے آج تک اس گھر میں کسی کو رہنے نہیں دیا ۔۔ یہاں تک کہ تمہیں بھی ۔۔ پھر یہ کون سی لڑکی ہے حاشر جسے اس نے یہاں رہنے کی اجازت دے دی ؟ ’’ دادو کو اب شک ہوگیا تھا ۔۔ اور حاشر ان سے جھوٹ نہیں بول سکتاتھا ۔۔ آخر وہ دادو کا فرمانبردار تھا ۔۔
’’ اجازت نہیں دادو ۔۔ انہوں نے خود ان سے ریکویسٹ کی یہاں آنے کی ’’ حاشر نے دادو کے پاس بیٹھتے ہوئے حیرانگی سے کہا اور اب ایسی ہی حیرانگی دادو کے چہرے پر تھی ۔۔
’’ کیا ؟ عفان نے خود اسے کہا ؟ ’’
’’ ہاں جی ۔۔ میں بھی بہت حیران ہوا تھا آپکی طرح ’’ حاشر نےان سے کہا مگر دادو کے چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ آپ مسکرا کیوں رہی ہیں ؟ ’’ اس نے دادو کی مسکراہٹ گہری ہوتے دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔۔
’’ تم اب بھی نہیں سمجھے پاگل ؟ ’’ دادو نے حاشر کے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا ۔۔
’’ کیا نہیں سمجھا میں ؟ ’’ حاشر نے ناسمجھی سے پوچھا تھا ۔۔
’’ یہی کہ عفان اس سے محبت کرنے لگا ہے ’’ دادو نے ایک دھماکہ کیا تھا ۔۔ ایسا دھماکہ جس نے تھوڑی دیر کے لئے ْحاشر کو سن کر دیا تھا ۔۔
وہ اپنے کمرے میں آیا تھا ۔۔ اسے جانے کیوں محد کا نام سن کر ہمیشہ غصہ چھڑنے لگتا تھا ۔۔ وہ اب کمرے میں دائیں بائیں چکر لگا رہا تھا ۔۔ تھوڑی دیر بعد اسے شاید کچھ سوجا تھا ۔۔ وہ فوراً سٹڈی روم کی جانب بڑھا تھا ۔۔ سامنے میز پر اسکا لیپ ٹاپ رکھا تھا ۔۔ اب وہ لیپ ٹاپ کھول رہا تھا ۔۔ اسکی انگلیاں تیزی سے لیپ ٹاپ پر چل رہیں تھیں ۔۔ وہ گوگل سے کسی کے نمبر پر ایک مسیج کر رہا تھا ۔۔
حاشر چونک گیا تھا ۔۔ مگر کچھ لمحے میں ہی وہ دوبارہ سنبھل بھی گیا تھا ۔۔
’’ ایسا نہیں ہے دادو ۔۔۔ ایسا ناممکن ہے ’’ حاشر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا ۔۔ دادو نے جو بات کی تھی ۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔
’’ ایسا ہی ہے ۔۔ اس نے آج تک کسی سے ریکوسٹ نہیں کی مگر ایک معمولی لڑکی سے اس نے اتنی بڑی مدد مانگ لی ’’ دادو نے اسے سمجھانےکے لئے کہا تھا ۔۔
’’ وہ آپکی صحت کی وجہ سے پریشان تھے دادو ۔۔اس لئے آپکو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے ’’ حاشر نے ایک اور جواز پیش کیا تھا ۔۔
’’ میں پہلی مرتبہ بیمار نہیں ہوئی ہوں ۔۔ اور نا ہی وہ پہلی مرتبہ جارہا تھا ۔ وہ اس گھر میں اس لڑکی کو اس بہانے سے لارہا ہے۔۔ تم اتنا تو جانتے ہو حاشر ’’ دادو اسے بہت اچھے سے جانتی تھیں ،۔ اور وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ حاشر ہر بات سے واقف ہوگا ۔۔ مگر وہ انکی بات سے انکار کیوں کر رہا ہے یہ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔
’’ جی دادو آپ صحیح کہہ رہی ہیں ۔۔ مگر باس ان سےمحبت نہیں کرتے ۔۔یہ ناممکن ہے ’’ حاشر نے جیسے حتمی انداز میں کہا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا عفان خالد اس سے محبت نہیں کرتا ۔۔ وہ کبھی کر ہی نہیں سکتا ۔۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔۔
ارسا اس وقت اپنا بیگ پیک کر کے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔ جہاں محد کھڑا سکا انتظار کر رہا تھا ۔۔ اس کے آتے ہی اس نے اسکے ہاتھ سے بیگ لیا تھا ۔۔
’’ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں تمہیں رخصت کر رہا ہوں ’’ جانے کیوں محد کا دل عجیب ہورہا تھا ۔۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ تھا جو ٹھیک نہیں تھا ۔۔ مگر وہ ارسا سے شئیر کر کے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔
’’ ایسا کیوں لگ رہا ہے تمہیں ۔۔ میں صرف تین چار دن کے لئے جارہی ہوں ’’ ارسا اسکے ساتھ چلتی ہوئی بولی تھی ۔۔ وہ دونوں فلیٹ سے باہر نکل رہے تھے ۔۔
’’ ہاں مگر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے تم بہت دور جارہی ہو۔۔ اتنا کہ میں چاہ کر بھی تم تک نہیں پہنچ سکونگا ’’ محد ناچاپتے ہوئے بھی دل کی بات زبان تک لے آیا تھا ۔۔
’’ میں کہیں نہیں جارہی محد ۔۔ اور تم روز آجانا مجھ سے ملنے تاکہ تمہارے اس دل کو تسلی ہوتی رہے ’’ ارسا نے مسکرا کر کہتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا ۔۔ محد نے پچھلی سیٹ پر بیگ رکھا اور خود اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ،، ارسا بھی اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی ۔۔
’’ میں ضرور آؤنگا ’’ اس نے کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی تھی ۔۔ ارسا اب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔۔
عفان نے لیپ ٹاپ بند کیا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر وہ وہی بیٹھا سوچتا رہا اور پھر دوبارہ باہر نکل کر نیچے آیا تھا ۔۔
’’ نازو ۔۔۔۔ نازو ’’ اس نے گھر کی ملازمہ کو آواز دی تھی ۔۔ جو کہ فوراً ہی ایک کونے سے بھاگتئ ہوئی اسکے سامنے آکھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ جی صاحب بولیں ’’ اس نے گھبرا کر کہا تھا ۔۔ عفان کا غصہ تھا ہی ایساتھا کہ گھر کے ملازم بھی کانپ جاتے تھے ۔۔
’’ میرے کمرے کے ساتھ والا کمرہ جاکر ریڈی کرو ’’ اس نے جیسے حکم دیا تھا ۔۔
’’ جی صاحب ۔۔ کوئی آرہا ہے ؟ ’’ نازو نے پوچھ تو لیا تھا مگر اب خود ہی پچھتا رہی تھی ۔۔ وہ جانتی تھی عفان کو زیادہ سوال کرنے والے لوگ پسند نہیں تھے ۔۔
’’ ہاں ۔۔ اب جاؤ اور کمرہ ریڈی کرو ’’ خلاف معمول اسے آنکھیں دکھا نے کے بجائے عفان نے جواب دیا تھا ۔۔ نازو پہلے تو حیران ہوئی ۔۔ پھر فوراً بھاگتی ہوئی اس کمرے کی جانب بڑھی ۔۔ اب عفان بھی اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا ۔۔
کمرے میں آکر اس نے کھڑکی کے آگے کا پردہ ہٹایا تھا ۔۔ اب وہ اس کھڑکی پر کھڑا سامنے سڑک کو دیکھ رہا تھا ۔۔ اسے کسی کا انتظار تھا ۔۔
گاڑی باس کے گھر کے آگے رکی تھی ۔۔ محد نے دیکھا وہ ایک شاندار بنگلہ تھا ۔۔
’’ ایک بات سمجھ نہیں آئی ’’ محد نے اس سے کہاتھا جو گاڑی سے اترنے کا سوچ رہی تھی ۔۔
وہ کیا ؟ ’’ اس نے محد کی طرف دیکھا تھا ۔۔
’’ اتنا امیر بندہ ہے تمہارا باس ۔۔ پھر اس نے دادو کے لئے کوئی نرس کیوں نہیں رکھی ؟ ‘’ محد اب بھی کنفیوز تھا ۔۔
’’ انہوں نے ڈاکٹر کو کہا تھا ۔۔مگر انہوں نے کہا کہ دادو کو نرس کی نہیں کسی ایسے کی ضرورت ہے جو انکی تنہائی دور کرسکے’’ ارسا نے اسے ڈاکٹر کی بات بتائی تھی ۔۔
’’ تنہائی توپوری عمر رہے گی ارسا ۔۔ تو کیا تم پوری عمر یہاں رکنے والی ہو ؟ ’’ محد کی بات پر وہ چونکی تھی ۔۔
’’ تم کیا کہنا چاہتے ہو محد ؟ ’’ وہ محد کے اس انداز کو سمجھ نہیں پارہی تھی ۔۔
’’ کچھ نہیں ۔۔ بس تم اپنا خیال رکھنا ۔۔ اور جلدی سے واپس آجانا پلیز ’’ اس نے ارسا کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئےکہاتھا۔
’’ میں واپس آؤنگی محد ۔۔ تم پریشان مت ہو ’’ اس نے محد کو تسلی دی تھی ۔۔
’’ اچھا اب جاؤ ’’ محد نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔ وہ اب گاڑی سے اتری تھی ۔۔ محد نے پچھلی سیٹ سے اسکا بیگ نکال کر اسے دیا تھا ۔۔
’’ تم جاؤ پھر میں اندر جاؤنگی ‘‘ اس نے محد سے کہا تھا۔۔ وہ مسکرا کر دوبارہ گاڑی میں بیٹھا تھا ۔۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھائی تھی ۔۔
یہی وقت تھا ۔۔جب ارسا ساجد کا موبائیل بجا تھا ۔۔ اس نے اپنا موبائیل نکال کر دیکھا ۔۔ ایک پرائیویٹ نمبر سے میسیج آیا تھا۔۔ ارسا نے میسیج آن کیا ۔۔ اور وہ چونک گئ تھی ۔۔ اسکے چہرے کے تعصورات بدلے تھے ۔۔ اس نے فوراً گھبرا کر اس سڑک کی جانب دیکھا تھا ۔ جہاں سے محد گزرا تھا ۔۔
اس نے ایک اور نظر اپنے موبائیل پر ڈالی تھی ۔۔ جہاں میسیج اب بھی موجود تھا ۔۔
’’ اپنے اس محد سے دور رہو۔۔۔ورنہ اسے کچھ ہوا ؟ تو ذمہ دار تم ہوگی ’’
اسکے قدم جیسے جم گئے تھے ۔۔ اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا ۔۔ وہ آگے نہیں بڑھ پارہی تھی ۔۔
اور اپنے کمرے کی کھڑکی پر کھڑا عفان خالد اسکے وجود کی کپکپاہٹ صاف دیکھ رہا تھا ۔۔ ایک مسکراہٹ تھی جو اسکے ہونٹوں پر آئی تھی ۔۔ اس نے فوراً کھڑکی کے پردے گرا دیئے تھے ۔۔
’’ کیوں ناممکن ہے اس سے محبت کرنا ؟ ’’ دادو نے حاشر سے پوچھا تھا ۔۔ جواب ایک کشمکش میں تھا ۔۔ وہ بتاد ے یا نہیں ۔۔
’’ حاشر ۔۔ مجھے سچ سچ بتا دو ۔۔مجھ سے کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے ’’ دادو اسے کشمکش میں گھرا دیکھ کر بولی تھیں ’’ کیونکہ وہ ارسا ساجد ہے دادو ۔۔۔ عفان خالد کسی سے بھی محبت پر سکتا ہے مگر ارسا ساجد سے نہیں ’’ حاشر نے دادو کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ اس کے الفاظ اتنے مضبوط تھے کہ دادو کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔۔ انہیں محسوس ہوا تھا کہ کہیں کچھ غلط تھا ۔۔ کچھ تھا جو بہت برا تھا ۔۔
’’ کون ہے یہ ارسا ساجد ؟ ’’ دادو نے حاشر سے پوچھا تھا ۔۔۔
’’ عفان خالد کا انتقام ’’ حاشر کے جواب نے دادو کو سکتے میں ڈال دیا تھا ۔۔