ایک نوجوان اپنے سے دوگنی عمر کی خاتون کے ساتھ میرے کیبن میں داخل ہوا۔ عمر اٹھائیس، تیس کے آس پاس ہو گی۔ درمیانہ قد، گندمی رنگ، گٹھیلا بدن، اور زردی مائل دانت، جو اس بات کے گواہی دے رہے تھے کہ ان کا یہ حال گٹکے نے کیا ہے۔ گٹکے کی بدبو کو چھپانے کے لیے اس نے کوئی تیز پرفیوم کا استعمال کیا تھا۔ گٹکا اور پرفیوم کی ملی جلی بو جیسے ہی میرے نتھنوں میں داخل ہوئی، مجھے ابکائی سی آنے لگی۔ میں نے جلدی سے ٹیبل پر رکھا ماسک لگایا اور سکون کی سانس لی۔ ساتھ والی خاتون نے برقعہ تو پہنا ہی تھا، ساتھ میں نقاب بھی لگا رکھا تھا، اور جذبات سے عاری دو آنکھیں مجھے تک رہی تھیں۔
’’بیٹھیے! میرا نام رفیعہ نوشین ہے۔ بتائیے میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ میں نے تعارف کے ساتھ اپنی خدمات کی پیش کشی کیں۔
’’میرا نام زبیدہ ہے، اور یہ میرا بیٹا ہے دستگیر۔‘‘ برقعہ پوش خاتون نے اپنا اور اپنے بیٹے کا تعارف پیش کیا۔
’’آپ مردوں کی بات بھی سنتے ہیں ناں؟ یا صرف عورتوں کی؟‘‘ دستگیر نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
’’دونوں کی، جو کوئی ہمیں بتانا چاہے یا پھر جس کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہو۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’ویسے بھی مسئلہ میرا نہیں، میری بیوی کا ہے۔‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا۔
یہ مرد بھی بڑے خود غرض ہوتے ہیں۔ جب اپنے مطلب کی بات ہو تو ایک جان دو قالب کا ڈائیلاگ یاد آتا ہے، اور جب مسائل کی بات آتی ہے یا مشکلات کا سامنا ہو تو فوراً اس مسئلہ کی ذمہ دار بیوی کو قرار دے کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ جیسے اس مسئلہ سے انہیں کوئی سروکار ہی نہیں۔
’’میری دو بیویاں ہیں۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
’’ماشاء اللہ! بہت مبارک!‘‘
’’دونوں میں کافی جھگڑا چل رہا ہے۔‘‘ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’دو بیویاں ہوں گی تو جھگڑا ہونا لازمی ہے۔ ہمارے سماج کی خواتین اتنی وسیع القلب نہیں کہ اپنے شوہر کی زندگی میں دوسری عورت کو برداشت کر سکیں۔‘‘ میں نے عام نظریہ پیش کیا۔
’’لیکن دوسری شادی کی اجازت تو خود میری پہلی بیوی نے ہی دی تھی۔‘‘ اس کے لہجے میں اکڑ تھی۔ ’’اچھا، یقین نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے غیر یقینی انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’یہ پڑھیے!‘‘ اس نے ایک بانڈ پیپر شاپر سے نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
اس میں لکھا تھا ’’میں تسلیم بیگم اپنی مرضی سے میرے شوہر کو اس بات کی اجازت دیتی ہوں کہ وہ میری چھوٹی بہن فہیم سے دوسرا نکاح کر لے۔ مجھے اس کے دوسرے نکاح سے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس تحریر کو بار بار پڑھ رہی تھی۔ میرے ہوش اڑ گئے تھے۔ جذبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا، لیکن ایسے ہی واقعات ایک کونسلر کے لئے امتحان کی گھڑی ثابت ہوتے ہیں۔ اپنے اندرونی حالات سے لڑتے ہوئے خود کو پر سکون ظاہر کروانا اور مسلسل ذہنی تھکن کا شکار رہ کر بھی خوش اخلاق رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
’’اچھا تو تمہاری دوسری بیوی تمہاری نسبتی بہن یعنی کہ سالی ہے؟‘‘ میں نے اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لئے پوچھا۔
’’جی! وہ میری بیوی کی چھوٹی بہن ہے۔‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’کیا میں تمہاری دوسری شادی کی وجہ جان سکتی ہوں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہماری شادی کے ایک سال بعد ہی مجھے ایک بیٹا تولد ہوا، لیکن وہ Mentally Retarded ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں۔ خیر، اللہ کی مرضی تھی۔ ہم نے دوسری اولاد کے لیے بہت کوشش کی لیکن اولاد نہیں ہوئی۔ میری بہت خواہش تھی کہ مجھے ایک صحت مند اولاد پیدا ہو، تب میری بیوی نے خود مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دی۔‘‘ اس نے تفصیلات سے واقف کروایا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن سالی سے ہی کیوں؟ کسی اور لڑکی سے بھی تو نکاح کیا جا سکتا تھا؟‘‘ میں نے جرح کی۔
’’یہ بھی اسی کی مرضی تھی، آپ نے کاغذ پڑھا ناں؟ اس پر تسلیم کے دستخط بھی تو ہیں۔‘‘ اس کا لہجہ پر اعتماد تھا۔
کون جانے دستخط اصلی ہیں کہ نقلی؟ کون جانے کہ دستخط رضا مندی سے لئے گئے تھے یا جبراً؟ کون جانے کہ تسلیم ان کاغذات پر لکھے گئے متن کا مطلب بھی سمجھ پائی تھی یا نہیں؟ اکثر کلائنٹس اپنی گفتگو کے دوران جھوٹ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں سچ فقط بچے ہی بولتے ہیں۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے موقع اور حالات کے مطابق لوگ سچ کو بھی کانٹ چھانٹ کر اس کی حاشیہ آرائی کر دیتے ہیں۔
’’تعجب ہے تمہاری سالی فہیم کنواری ہونے کے باوجود تم جیسے شادی شدہ مرد سے نکاح کے لیے راضی ہو گئی، جب کہ اس سے تو کوئی بھی کنوارہ لڑکا شادی کے لئے تیار ہو جاتا؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’در اصل وہ مجھے بہت پسند کرتی تھی۔‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے بتایا۔
اس کے اس ایک جملے نے اس کے نا جائز نکاح کی ساری پول کھول کر رکھ دی تھی۔
’’اور تم؟ کیا تم بھی اس کو چاہتے تھے؟‘‘ میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہمم‘‘ اس نے نظریں جھکا لی تھیں۔
’’کیا آپ کو اس شادی کا علم تھا؟‘‘ میں نے دستگیر کی ماں سے سوال کیا، جو چپ چاپ بیٹھی ہم دونوں کی گفتگو سن رہی تھی، اور کبھی سر کو اثبات میں ہلاتی تو کبھی میں۔
’’ہاں! اس نے مجھے بتایا تھا، اور میں نے منع بھی کیا تھا، لیکن اس نے میری بات نہیں مانی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’آپ نے کیا سوچ کر منع کیا؟‘‘ وجہ جاننا میرے لئے اہم تھا۔
’’بزرگوں سے سنا تھا کہ ایک گھر کی دو بیٹیوں کی شادی ایک ہی مرد سے نہیں کرتے۔‘‘
’’اوہ اچھا! لیکن کیوں؟ کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی؟‘‘ میں نے مزید کریدا۔
’’پہلے زمانے میں بزرگوں سے سوال کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، اس لیے سوال نہیں کیے جاتے تھے۔ صرف ان کا حکم مانا جاتا تھا۔‘‘ انہوں نے اپنے زمانے کے حالات پر روشنی ڈالی۔
’’دستگیر! کیا تم جانتے ہو کہ بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے یعنی سالی سے نکاح شرعاً جائز نہیں، قرآن نے دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا تو وہ ہکا بکا سا مجھے ایک ٹک دیکھنے لگا۔ اور پھر بولا ’’نہیں میڈم، مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔‘‘ اس کا لہجہ اور چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے واقعی اس بات کا علم نہیں تھا۔
’’آپ سچ کہہ رہی ہیں میڈم؟‘‘ اس نے غیر یقینی انداز میں مجھ سے پوچھا۔
’’ہاں دستگیر! یہ میں نہیں کہہ رہی ہوں، یہ تو قرآن پاک میں لکھا ہے:
وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ، یعنی دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں۔‘‘ میں نے قرآن کا حوالہ دیا۔
’’کیا آپ بھی اس بات سے لا علم تھیں؟‘‘ میں نے زبیدہ سے دوبارہ پوچھا۔
’’جی ہاں، مجھے بھی اس بات کا علم نہیں تھا۔ ابھی آپ ہی کی زبانی سن رہی ہوں۔‘‘ انہوں نے اعتراف کیا۔ دستگیر نے اپنا چہرہ نیچے جھکا لیا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی اور افسوس کے آثار نمایاں تھے۔
’’اب کیا کریں میڈم؟ جو ہوا وہ تو لاعلمی میں ہوا۔‘‘ اس نے اپنے ماتھے سے پسینہ خشک کرتے ہوئے پوچھا۔
’’غلطی کا ازالہ۔ سالی سے جو نکاح کیا وہ صحیح نہ ہوا۔ سالی سے علیحدگی اختیار کرو۔ اس سے ازدواجی تعلق قائم رکھنا غلط ہے۔ اس کا شمار حرام کاری اور زنا کاری میں ہو گا۔ اس سے بچنا لازمی ہے۔‘‘ میں نے اسے مشورہ دیا۔ وہ بالکل خاموش ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی کہنے کو بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوتا، سوائے ایک گہری چپ کے۔ اسے بہت بڑا صدمہ لگا تھا، اور وہ اسی میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’دستگیر ایک بات بتاؤ! خوشبو اس پرفیوم کی بوتل سے آتی ہے یا اس کے اندر رکھے مواد سے؟‘‘ میں نے ٹیبل پر رکھی پرفیوم کی بوتل کو اپنے ہاتھ میں لے کر دستگیر کو دکھاتے ہوئے اس سے سوال کیا۔ ’’شیشی کے اندر کے مواد سے۔‘‘ اس نے شیشی کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’بالکل سچ کہا تم نے۔ اسی طرح ہمارے لیے صرف مسلمان ہونا کافی نہیں بلکہ ہمارا طریقۂ زندگی، چال چلن، گفتگو، اعمال اور کردار بھی ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے پتہ چلے کہ ہم مسلمان ہیں۔ امت محمدیہ میں سے ہیں۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔ وہ خاموشی سے میری بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی دوران ملازمہ نے آ کر اطلاع دی کہ لنچ ٹائم ہو گیا ہے، اور کھانا بھی لگ چکا ہے۔
’’ہمارا لنچ ٹائم ہو گیا ہے۔ اب آپ لوگ بھی گھر جائیں۔ اطمینان سے اس بارے میں سوچیں۔ صدر قاضی سے رجوع کریں، اور اپنی زندگی کو حرام کاری سے بچانے کے لئے شریعت کی روشنی میں صحیح فیصلہ کریں۔‘‘ میں نے آج کی بات کو یہیں پر ختم کرنا مناسب سمجھا۔
’’ٹھیک ہے میڈم، خدا حافظ!‘‘ کہتے ہوئے ماں بیٹے نے اپنے گھر کی راہ لی۔
سوالات
(1) ہمارے معاشرے کی اس بے راہ روی کا کون ذمہ دار ہے؟
(2) بچوں کو کس عمر سے محرم اور نامحرم رشتوں کے فرق سے واقف کروانا چاہیے اور کون اس سے واقف کروائے؟
(3) اس قسم کے ناجائز نکاح کو روکنے کے لیے کس قسم کی تدابیر اختیار کرنا چاہیے؟
(4) کیا قاضی صاحبان اس سلسلہ میں کوئی مثبت رول ادا کر سکتے ہیں؟
(5) کیا نکاح نامہ میں اس سے متعلق سوال کو شامل کیا جانا چاہیے؟
٭٭٭