مسز صوفیہ یوسف
انچارچ چیئر پرسن
شعبہ اردو جامعہ شاہ عبد اللطیف خیر پور سندھ
سولھویں صدی سے انیسویں صدی کے نصف اول تک برصغیر پاک و ہند کی سماجی اور ادبی تاریخ کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین، ناخواندگی ،پردے کا نظام اور فرسودہ معاشرتی رسوم کی بدولت اجتماعی طورپر زندگی کے تمام شعبوں میں کوئی خاص بھرپور کردار نہیں ادا کر سکیں۔
کسی بھی معاشرے کی بہتری اور ترقی کے لیے عورتوں کی تعلیم ہمیشہ ایک اہم بنیادی اور حساس معاملہ رہا ہے ۔ معاشرتی ترقی کے لیے یہ ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی کے عورتوں کو معاشرے کا فعال اور متحرک حصہ بنایا جائے تاکہ معاشی اور معاشرتی ترقی کے تمام عوامل اپنی قوت کے ساتھ تعمیر و تہذیب میں شامل کیے جاسکیں ۔ آج جو ممالک ترقی یا فتہ اورمہذب سمجھے جاتے ہیں ان کے عروج کی اہم وجہ تعلیم نسواں ہے۔ اس اہم ضرورت کو انیسویں صدی تک برصغیر پاک و ہند میں نظرانداز کیا گیا ، فرسودہ رسومات کے عروج کی بدولت اس معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا رہا جس کی وجہ سے خواتیں جہاں دیگرشعبہ ز ندگی میں پیچھے تھیں وہاں اردوزبان کی ترقی میں بھی اجتماعی طور پر کوئی خاص کردار ادا نہیں کر سکیں ۔
۱۱؍اپریل ۱۸۵۰سے بر طا نوی حکو مت نے عورتوں کے تعلیمی اداروں کی سر پرستی شروع کی (۱) لیکن ۱۸۵۷کی جنگ آزادی کی ناکامی نے نفسیاتی طور پر یہاں کے مسلمانوں پر بہت بْرااثر ڈالا اور وہ بر طانوی حکومت کی طرف سے کی جا نے والی معاشرتی اصلاحات سے بالکل الگ تھلگ ہو گئے، جس کا انھیں من حیث القوم شدد نقصان اْٹھانا پڑا۔
تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مسلمانوں کے باشعور اور مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے، ا ہل درد حلقوں نے کوششوں کا آغاز کیا۔ لاہور ۱۸۸۶ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس(محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس)(۲)کے اجلاس میں عورتوں کی تعلیم کے لیے قرارداد پیش کی گئی لیکن مذہبی حلقو ں کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ یہ قرارداد نامنظور ضرور ہوئی لیکن مخالفت کے منظر عام پر آنے سے اندرون خانہ ایک زبردست عملی منصوبہ بندی شروع ہوئی جس کے نتائج کی واضح جھلک ہمیں ۱۹۰۳ء میں کانفرنس کے اجلاس کے دستاویزات میں ملتی ہے۔ یہ اجلاس اس لیے بھی تاریخی طور پر اہم ہے کے اس میں عورتوں نے پہلی بار حصہ لیا اور مدراس کی خاتون ’چاند بیگم‘ نے مضمون بھی پڑھا۔اس مضمون میں انھوں نے ’ریفارمر گروپ‘ کی حمایت کی جو مذہبی حلقوں کی مخالفت کے باوجود تعلیم نسواں کے لیے کوشاں تھا۔ شیخ عبداللہ اور اْن کی اہلیہ کی سربراہی میں کانفرنس کا شعبہ خواتیں قائم کیا گیا جس نے اپنی پوری توجہ تعلیم نسواں پر مر کو ز رکھی اور ان کی سربراہی میں یہ قافلہ اپنی منزل کی حصول کے خاطر باقاعدہ پیش قدمی میں مصروف عمل ہو ا۔
۱۹۰۵ء میں کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں مولا نا حالی نے اپنی مشہور نظم ’چپ کی داد‘پڑھی جو کے عورتوں پرلگائی جا نے والی بے جا پابندیوں کے خلاف احتجاج تھا(۳)۔ مولانا کی یہ نظم ایک واضح اعلان اور نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کے لیے پیغام بھی تھا کہ صحیح اور سچا مسلمان عالم و دانشور عورتوں کی تعلیم کے خلاف کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ ۱۹۱۴ء کا سال خواتین کے لیے مبارک سال ثابت ہوا اسی سال کانفرنس کی کو ششوں سے آل انڈیا مسلم خواتین کانفرنس کا قیام عمل میں آیا جسے برصغیر پا ک و ہند میں عورتوں کی پہلی تنظیم ہو نے کا اعزاز حاصل ہے(۴)۔آہستہ آہستہ یہ تحریک جو کے کا نفرنس کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئی تھی اس کا اثر پورے ملک میں محسو س کیا جانے لگا۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے رضاکارانہ طو ر کیے جانے والے کاموں نے مسلمان عورتوں کے اندر بیداری پیداکی۔ ایک اندازے کے مطابق ۱۹۱۱ء میں پڑھی لکھی عورتوں کی تعدادفی ہزار صرف دو تھی اور ۱۹۲۱میں یہ تعداد دو گنی ہو گئی اور ایک اندازے کے مطابق۱۹۴۲میں ۱۳۷۸۰۰مسلم خواندہ تھیں جن میں سے ۳۹۴۰نے جدید تعلیم حا صل کی تھی(۵)۔
اْردو نے ایک ثقا فتی زبان ہونے کے ناطے عورتوں کو اپنے خیالات کا اظہارکر نے کے لئے ایک فورم مہیا کیا۔خواتین کے لیے متعدد رسالوں کا اجرا ہوا ،بہت جلد یہ رسائل مسلم گھرانوں میں پہنچنے لگے ان کی وجہ سے معمولی تعلیم یافتہ پردہ نشین خواتین میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار باصلاحیت تخلیق کار خواتین سامنے آئیں ۔ان کے مضامین ،افسا نے ا ور شاعری ان رسائل میں شائع ہو نے لگے اور ا سی طرح ان رسائل کی وجہ سے خواتین کی ادبی سر گر میوں میں اضافہ ہوا ۔
ادب انسان کی روحانی قوت اور انفرادی ذہانت کا تخلیقی اظہارہے،جس سے وہ زندگی کے سرچشموں کو توانائی بخشتا ہے لیکن کسی قوم کی تہذیبی اور ادبی تاریخ اْس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک ا س قوم کی لسانی،ادبی اور معاشرتی سر گر میوں میں خواتین کی شمو لیت اور کارکردگی کو شامل نہ کیا جائے۔متحدہ ہندوستان کی خواتین نے ادب کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا ئے جو ہمارے ادب کا سر ما یہ ہیں ،ابتدائی قابل ذکر کوششوں میں ۱۸۹۶میں عورتوں کا ہفتہ روزہ ’تہذیب نسواں ہے جو‘لاہور سے شائع ہونا شروع ہوا(۶)۔اس کے پہلے شمارے سے ہی عورتوں کے بڑے حلقے نے اس میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی یہ تحریریں صرف خانہ پوری نہیں تھیں بلکہ اس وقت کے اہم معاشرتی مسائل پرعورتوں کی واضح خیالات و نظریات ہیں جو ہمارے سامنے آجاتے ہیں انہوں نے جن معاشرتی مسائل کو اپنا مو ضوع بنایااْن میں توہمات، جہیز، فضول خرچی اور عورتوں کی تعلیمی و معاشی حا لت وغیرہ اہم ہیں۔ یہ تخلیقات اپنی فنی اور فکری خوبیو ں کے سا تھ ساتھ اجتماعی زندگی کے شعور سے عبارت ہیں۔ کہنے کو تو یہ آغاز تھا لیکن خو اتیں لکھاریوں کی تخلیقات میں پختگی اور روح عصر بدرجہ اتم موجود تھی، انہوں نے صرف اپنی تخلیقات کی معرفت اپنے مشاہدات تجربات اور احساسات کا کھل کرا ظہار کیا بلکہ ان کی تحریروں کی معرفت جو اردو زبان و ادب تقویت ملی وہ اردو کی ادبی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہے ۔
ذیل میں چند اہم شاعرات اور نثر نگار خواتین کا مختصر تعار ف پیش ہے جو مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی سرپرستی اور ہمت افزائی کی بدولت اردو زبان و ادب کی خدمت میں پیش پیش تھیں۔ یوں تو یہ ایک طویل فہرست ہے لیکن مقالے کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے چند نمایاں نام اور ان کے کام جھلک پیش کی جاتی ہے۔
نواب شاہ جہاں بیگم(۱۸۳۸۔۱۹۰۰) تخلص شیریں، شعروشاعری کاذوق فطری تھا فارسی اور اْردو میں شعر کہتی تھیں۔اْردو غزلوں کا دیوان ’دیوانِ شیریں‘کے نا م سے ۱۸۸۸میں مطبع نظامی کا نپور سے شائع ہوا۔ آپ کا کلام سلیس اور رواں ہے ایک جھلک ملاحظہ ہو:
در دِ فراق ہی میں سدا مبتلا رہی
دنیا میں اس طر ح بھی رہے تو کیا رہے
لطف کیا پاؤ گے تنہا دِل شیدا لے کر
د یکھیے سیر بھی کچھ یا س و تمنا لے کر(۷)
رضیہ خاتون جمیلہ(۱۸۶۹۔۱۹۲۱) کی قادر الکلامی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے سات دیوان مرتب کیے ان کا کلام سادگی اور شائستگی کا نمو نہ ہے:
فدا جس پر ساری خدائی ہوئی ہی
وہ تصویر کس کی بنائی ہوئی ہے(۸)
زاہد خا تو ن نزہت(۱۸۹۴۔۱۹۲۲) اْرود شاعری کا اہم نام ہیں۔یہ پہلی شاعرہ ہیں جنہیں ان کی توانا فکر اور طرز کلا م کی وجہ سے نظر انداز کر نا ممکن نہیں رہا اگر چہ انھوں نے اپنی شناخت کو پو شید ہ رکھنے کی پوری کو شش کی مگر ان کی نظموں نے قارئیں کو اپنی طرف متوجہ رکھا۔ ا ن کے دو شعری مجموعے ’آیئنہ حر م‘ اور ’فردوسِ تخیل‘منظر عام پر آئے ا ن کی ایک نظم جو مسلم یونی ورسٹی کے لئے چندے کی اپیل کے سلسلے میں رسالہ ’عصمت‘کے اکتوبرکے شمارے میں شائع ہوئی تھی بہت مقبول ہوئی:
اے فخرِ قوم بہنو عصمت شعار بہنو
مردوں کی ہو ازل سے تم غم گسار بہنو(۹)
رابعہ پنہاں کی غزلیں ان کے ہم عصر مرد شعراء کے طرز اظہار سے مختلف ہیں۔ تاہم ان کی کیفیات اور تجر بات ایک عورت کے جذبات کے آیئنہ دار ہیں:
میر ی تو ہر ادا ہے وقف عبودیت
وہ ہر ادا میں حْسن کلیسا لئے ہوئے(۱۰)
بلقیس جمال ،رابعہ پنہاں کی بہن تھیں۔ ان کی شاعری میں نسائی اظہار اور نسائی شعور نمایاں ہے۔ انھوں نے ۱۳سال کی عمر سے شاعری کا آغاز کیا:
اسے پا تی بھلا عقلِ رسا کیا
ہماری فہم و ادراک و ذکا کیا
گریباں چاک اور پلکوں پہ آنسو
سحر ہو تے ہی پھولوں کو ہوا کیا (۱۱)
اس دور کی خواتین کے کلام میں ز بان و بیان کی صفائی و چستی نمایاں ہے۔نا ز ک جذبوں کا اظہار موجود ہے اس کے علاوہ خواتین نے تصوف ، مذہب ،زندگی کی بے ثباتی،حالات کی بے اطمینانی اور سماجی و معاشرتی مسائل کو بھی اپنا مو ضوع بنایا۔
جہاں تک نثر کا تعلق ہے تودوراول کی نثر نگار خواتین ڈپٹی نذیر احمد سے متاثر نظرآتی ہیں۔ ر شید النساء (پہلی خاتون ناول نگار)جنہوں نے ۱۸۸۱میں ناول ’اصلاح النساء ‘ لکھا(۱۲)۔اس ناول میں اصلاحی پہلو نمایاں ہے۔ صغرا ہمایوں مر زاکی کئی تصانیف ہیں وہ ایک مخصو ص طبقے کی عکاسی کر تی ہیں ان کا بنیادی مقصدخواتین کی آزادی اور معاشرے کی ا صلاح ہے ۔سیدۃ النساء کے مضامین اور افسانے کئی سالوں تک تہذیب نسواں میں شائع ہوتے رہے۔ عباسی بیگم کاتعلق ایک روشن خیال گھرانے سے تھا۔انھوں نے افسانوں اور ناول کے علاوہ فلسفیانہ مضامیں بھی تحریر کیے۔ امت الوحی نے بھی اس دور کی خواتین کی طرح افسانہ نگاری کا آغاز خواتین کے رسا ئل سے کیا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’شاہد وفا‘ کے نام سے شائع ہوا۔ موضوعات کے تنوع کے باوجود اصلاحی رجحان حاوی ہے۔آ صف جہاں کا پہلا افسانہ ’ شش وپنج‘ ۱۹۱۵میں شائع ہوا۔ جس میں عورت کی مظلومیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ افسانوں کے علاوہ وہ مضامین بھی لکھتی رہیں۔ نذر سجاد حیدر کے مضامین دس سال کی عمر سے رسائل میں شائع ہونے لگے۔ ان کی کو شش تھی کے مشرقی اور مغربی دونوں تہذیبوں کی اچھی اقدار کو اپنایا جائے ۔ان کے افسانوں میں مسلم گھرانوں میں سماجی زندگی کی فرسودہ روایات کو ترک کرنے کا رجحان بھی ملتا ہے۔ خاتون اکرم کا پہلا افسانوی مجموعہ’گلستان خانوں‘کے نام سے شائع ہوا۔ا نھوں نے سماجی رسم رواج کی برائیوں اور نئی تہذیب کے پھیلتے سایوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ حمیدہ سلطان کے افسانوں میں کردار نگاری کو بہت اہمیت حاصل ہے ان کا ایک طویل افسانہ ’مشرق و مغرب‘ رسالہ نسواں میں مسلسل چھپتا رہا۔طا ہرہ دیوی شیزرای کا تعلق بنگال سے تھا ۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’سحر بنگال‘ کے عنوان سے ۱۹۳۵میں شائع ہوا۔ان کے افسانے نسوانی زندگی کے عکاس ہیں۔ سحاب قزلباش کا افسانوی مجموعہ ’بدلیاں‘ کے نا م سے منظرِ عام پر آ یا۔ مسز عبد القادر کے افسانوں میں پرْاسراریت کی فضا پائی جاتی ہے اور کرداروں میں ارواح کو بہت اہمیت حاصل ہے(۱۳)۔
دوسرے دور کی لکھاری خواتین کے انداز اور معیار وقت، حالات اور تعلیمی عروج کی بنا پر بدلے ہوئے ضرور ملتے ہیں لیکن یہ اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ ان کی تخلیقات میں حقیقت پسندی کا بھرپوررحجان ملتا ہے ان خواتین لکھاریوں نے اپنے تجربے، ماحول اور گہرے مشاہدات ان کہانیو ں میں رقم کیے اورفنی اعتبار سے بھی اس دور کی تخلیقات کو بلند مقام حاصل ہے۔ڈاکٹر رشید جہاں نے اقتصادی مسائل کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور خواتین کی ذہنی پسماندگی ،شکست خوردگی اور بے بسی کو اپنے افسانوں میں اْجاگر کیا۔ انھوں نے با غی دل و دماغ رکھنے والی عورت کا تصورپیش کیا(۱۴)۔صالحہ عابد حسین نے معاشرے کے مسائل پر افسانے لکھے ان کے افسانوی مجموعے ’نقشِ اول ‘ ،’ساز ہستی‘ کے عنوان سے اور ایک ناول ’عذرا‘ کے نا م سے شائع ہوا۔ شکیلہ اختر بھی ترقی پسندنظریات کی حامی تھیں وہ کسان،مزارع اور زمیندار کو ا پنا موضوع بناتی ہیں۔صدیقہ بیگم سیو ہاروی اشتراکی تحریک سے منسلک تھیں۔ان کے افسانوں میں تنگ و تاریک گلیوں،محلوں اور قحط زدہ ویران علاقوں کی عکاسی کے سا تھ اعلیٰ طبقے کے ایوانوں کی سجاوٹ بھی ملتی ہے تسنیم سلیم چھتاری کے افسانوں کے موضوعات مسلم معاشرے کے متوسط اور اعلیٰ طبقے کی زندگی کے سماجی اور نفسیاتی مسائل ہیں۔ رضیہ خاتون ظہیر نے مضامین لکھنے کی ابتدا رسائل سے کی اور پھر افسانہ نگاری کی طرف آگئیں ان کے افسانوں میں سیاسی مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے (۱۵)۔ عصمت چغتائی اْردو افسانہ نگاری کا ایک اہم نام ہیں۔ ان کے افسانے اپنے عہد کے عکاس ہیں انھوں نے اپنے افسانوں میں متنوع موضوعات کو فنی مہارت سے پیش کیا ہے۔ عصمت چغتائی کے اسلوب ،فن اور تکنیک میں کیثر الجہتی پائی جاتی ہے(۱۶)۔ممتاز شیرین نہ صرف افسانہ نگار ہیں بلکہ ایک نقاد بھی اور تنقید ہی ان کی وجہ شہرت بھی ہے(۱۷)۔ہاجرہ مسرور کے افسانوں اور ناولوں میں نسوانی کردار زیادہ ہیں جن کو وہ سماجی ، جنسی ا ور معاشی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ خدیجہ مستور کے افسانوں میں تقسیم سے قبل فنی اعتبار سے دو واضح دور نظر آتے ہیں پہلا دور رومانی تصورات تک محدود ہے، دوسرے دور میں ترقی پسند تحر یک کا رنگ حاوی ہے(۱۸)۔
ڈرامہ نگاری میں امیر جان ادا کا ڈرامہ ۱۹۰۸میں آگرہ سے شائع ہوا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر رشید جہاں،عصمت چغتائی،صالحہ عابد اورقدسیہ زیدی نے بھی ڈرامے لکھے(۱۹)۔ اسی طرح بیسویں صدی کے ربع میں خواتیں کے سفر نامے بھی منظر عام پر آئے۔ ۱۹۱۰میں بیگم نواب سر بلند جنگ کا سفر نامہ ’دنیا عورت کی نظر میں‘ شائع ہوا۔’سفر نامہ عراق‘ بیگم حسرت موہانی کی تصنیف ہے۔فاطمہ بیگم کا ’سفرِحجاز‘ ،محمودہ عثمان حیدر کا’مشاہداتِ بلاد اسلامیہ‘، نواب سلطان جہان بیگم کا ’ سیاست سلطانی‘اور رفعیہ سلطان کا’سیر یورپ‘ اہم ہیں (۲۰)۔ نثر اور نظم کی تقریباً سب ہی اصناف پر خواتین نے طبع آزمائی کی۔
عورتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی جن کوششوں کا آغاز ’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘ نے کیا تھا اور ان کو ششوں کی بدولت عورتوں میں جو بیداری پیدا ہوئی اس نے اصلاحات کا حامی ایک گرو ہ پیدا کر دیا تھاجس نے بر صغیر پاک و ہند کی مسلم خواتین میں ایک طبقے کے طور پر ایسا شعور بیدار کیا جیسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قومی بیداری کی اس لہر نے اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ خواتین کی سماجی حیثیت میں بھی تبدیلی پیدا کی،جس کی وجہ سے مسلم خواتین نے تعلیمی و ادبی ترقی اور سماجی و سیاسی حقوق کی بحالی کے لیے جو تحریکیں چلائیں انھوں نے پورے معاشرے کو متاثر کیا اور اصلاحات کا راستہ کھول دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ حنا جیلانی ’سماجی اور سیاسی تحریکیں اور خواتیں‘مشمولہ عورت زبانِ خلق سے زبان حال تک سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور۲۰۰۰ص۔۲۷۱ــــــــــــــــــــ
۲۔ آغا حسین ہمدانی’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس صدارتی خطبات ۱۸۸۶۔۱۹۰۶(حصہ اول)قومی ادرہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت اسلام آباد۱۹۸۶ ص۔۱۶۔۱۷
۳۔ شیخ عبد اللہ ’خاتون ‘شمارہ ۲۔۱۲دسمبر ۱۹۰۲علی گڑھ ص۔۶۸
۴۔ شیخ عبد اللہ ’ سا لا نہ رپوٹ آل ا نڈیا مسلم خواتین کانفرنس‘ مارچ ۱۹۱۴ص۔۲۰۔۲۲
۵۔ محمد امین زبیری مولو ی ’مسلم خواتین کی تعلیم ‘ ادارہ تصینف و تالیف (اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ) آل پاکستان ایجو کیشنل کانفر نس کراچی ۱۹۵۶ص۔ ۶۶
۶۔ عبد السلام خورشید ڈاکٹر ’صحافت پاکستان و ہند میں‘ مجلسِ ترقی ادب ۲کلب روڈ لاہور ۱۹۶۳ص۔۱۹۰
۷۔ سلطا نہ بخش ڈاکٹر ’ پاکستانی اہل قلم خواتین ‘ اکادمی ادبیات پاکستان ۲۰۰۳ص۔ ۲۲
۸۔ ایضاً ص۔۲۳
۹۔ فاطمہ حسن ’گزشتہ صدی سے عہدِ حاضر تک ارود ادب میں نسائی شعور ایک مطا لعہ‘مشمولہ فیمنزم اور ہم وعدہ کتاب گھر شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۵ص ۔۸۵
۱۰۔ ایضاً ص۔۸۷ ۱۱۔ ایضاً ص۔۸۸ ۱۲۔ ایضاً ص۔۱۰۱
۱۳۔ سلطا نہ بخش ڈاکٹر ’ پاکستانی اہل قلم خواتین ‘ اکادمی ادبیات پاکستان ۲۰۰۳ص۔۴۸۔۵۰
۱۴۔ شاہد نقوی ’ڈاکٹر رشید جہاں‘ ‘مشمولہ فیمنزم اور ہم وعدہ کتاب گھر شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۵ص ۔۱۰۸
۱۵۔ فاطمہ حسن ’گزشتہ صدی سے عہدِ حاضر تک ارود ادب میں نسائی شعور ایک مطا لعہ‘مشمولہ فیمنزم اور ہم وعدہ کتاب گھر شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۵ص ۔۱۰۲
۱۶۔ تنویر انجم’عصمت چغتائی کا نسائی شعور‘ مشمولہ فیمنزم اور ہم وعدہ کتاب گھر شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۵ص ۱۱۱۷۱۷۔ آصف فرخی ڈاکٹر ’حکایتِ شیر ین‘ مشمولہ فیمنزم اور ہم وعدہ کتاب گھر شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۵ص ۔۱۳۵
۱۸۔ فاطمہ حسن ’گزشتہ صدی سے عہدِ حاضر تک ارود ادب میں نسائی شعور ایک مطا لعہ‘مشمولہ فیمنزم اور ہم وعدہ کتاب گھر شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۵ص ۔۱۰۲
۱۹۔ سلطا نہ بخش ڈاکٹر ’ پاکستانی اہل قلم خواتین ‘ اکادمی ادبیات پاکستان ۲۰۰۳ص۔۷۰
۲۰۔ ایضاً ص۔۷۳