اس حقیقت سے میں انکار نہیں کرتا کہ خدا کو سمجھنے کے لئے میرے پاس کبھی مناسب وقت نہیں رہا۔ بس واقعات یکے بعد دیگرے پیش آتے گئے۔ جنگیں چھڑیں، لوگوں کا قتلِ عام ہوا، سرحدیں پھر سے بنیں۔ جیل خانے بھرے گئے۔ لوگ سلاخوں کے آر پار ایک دوسرے کو دیکھنے کے عادی ہوتے گئے۔ آزادی کی تقریبات شروع ہوئیں، لیکن کسی کو
پتہ نہ تھا وہ کس بات کی خوشی منا رہے تھے۔ لوگوں نے فینسی ڈریس کی رسم اپنائی۔ عجیب و غریب نقابوں کی روایت پڑی۔ کچھ لوگوں نے کہا، یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے۔ تمہیں اصلی دنیا کے لئے کچھ کرنا چاہئے، وہاں جہاں زمین کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جہاں کے پھل دائمی ہیں اور سایہ لا زوال ہے۔ وہاں تمہاری ہر طرح کی خواہشات کی تکمیل ہو گی جن پر دنیا میں روک لگا دی گئی ہے مگر اس سے پہلے تمہیں اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی پڑے گی۔ کچھ لوگوں نے کہا، تمہیں بائیں سمت چلنی چاہئے۔ سچائی صرف بائیں طرف ہے۔ مجھے معلوم نہیں وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ میں نے کچھ عرصہ تک ان کا ساتھ بھی دیا یہ جانے بغیر کہ اس سے آسمان کے نیچے کیا تبدیلی آنے والی تھی۔ شروع کی طرف میں نے کام کی تلاش میں لوکل ٹرین میں دور دور تک سفر کیا مگر ہر بار یہ سفر کسی نہ کسی دریا کے کنارے ختم ہو جاتا، وہاں جہاں کشتیاں ندی پر اینٹ، ریت اور جانور ڈھویا کرتیں یا پھر دور آسمان کے نیچے فیکٹری کی چمنیاں آگ اور دھواں اگلا کرتیں یا پھر ایک آدھ بازار ایسا نکل آتا جس کے آس پاس کوئی نہ کوئی ریلوے پل ضرور ہوتا جس پر زیادہ تر مال بردار ٹرینیں دوڑا کرتیں اور پل کے نیچے طوائفیں کھڑی گاہکوں کا انتظار کرتیں۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران میں نے اپنے ساتھی مسافروں سے کہا، کیا برا ہے اگر میں نے اپنے سارے دروازے کھول رکھے ہیں۔ مگر سب کی یہی رائے تھی کہ تم بیک وقت ہر کسی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ تمہیں چننا پڑتا ہے، تمہیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے، کہیں نہ کہیں اپنا لنگر ڈالنا پڑتا ہے۔ دوسرے وقتوں میں کسی نے مجھے رائے دی، تمہیں نئے شناختی کاغذات کی ضرورت ہے، ایسے کاغذات جن کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر نہ ہونے سے کافی فرق پڑ جاتا ہے۔ لیکن میری کشتی کو رکنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ تھی۔ میرے سارے کنارے کٹ چکے تھے۔ اور اپنے باپ کی طرح میں کسی فرضی نام کے ساتھ مرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ کیا آپ نے یہ کہانی بار بار نہیں سنی ہے؟
اس عورت نے دھیرے دھیرے میری ساری کمزوریاں پڑھ لی ہیں۔ اس نے اپنی دانشمند آنکھوں کا بھرپور استعمال کیا تھا جس کے بدولت وہ طوطوں کے کاروبار میں کافی کامیاب رہی تھی۔ میں اس کی آنکھوں میں جانے کیوں ہمیشہ ایک سرنارتھیوں سے بھرے جہاز کو دیکھا کرتا جس کے عرشے پر میرا باپ ہمیشہ اپنے سوٹ کیس اور کوٹ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے اور مجھے اس پر حیرت ہوتی کہ کتنا عرصہ گذر گیا ہے مگر آج بھی وہ اسی جگہ اسی حالت میں کھڑے ہیں۔ شاید نئے ملک میں انھوں نے اپنے لئے ایک نیا نام تجویز کر لیا ہو۔ کاش ایسے کسی جہاز سے اترے ہوئے کسی مسافر کا مجھے علم ہوتا۔ میں اس سے اس جہاز کے اندر پیش آنے والے واقعات کی جانکاری حاصل کرتا۔ مگر میرے لئے شاید کہیں پر کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
اس رات سب کچھ کسی طئے شدہ پروگرام کے تحت نہیں ہوا تھا۔ میں آئس کریم کی ٹرالی جمع کر کے واپس لوٹا تھا۔ واپسی پر ہر رات میں جس ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا اس کے باہر راکھ پر لوٹتے کتے ہمیشہ خود کو پرچھائیوں کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کیا کرتے۔ اس رات میں ہوٹل سے کھانا کھا کر باہر نکلا تو میں نے دیکھا کتے کسی وجہ سے بالکل چپ تھے بلکہ جو جہاں پر تھے اپنی جگہ بے حرکت کھڑے تھے۔ ان کتوں کی طرف تاکتے ہوئے جانے کیوں مجھے شدید اکیلے پن کا احساس ہوا اور واپسی پر میں نے اپنے گھر کی بجائے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بہت دیر تک دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب اس نے دروازہ نہیں کھولا تو میں مایوس ہو کر واپس لوٹنے کا ارادہ کر رہا تھا جب اس کی کھڑکی کھل گئی۔ وہ سلاخوں کو تھامے کھڑی تھی، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ متوحش آنکھوں سے میری طرف تاک رہی تھی۔ مجھ سے نظریں ملتے ہی اس نے پھر سے کھڑکی بند کر لی۔ دوسری صبح اس نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں کافی گہری نیند سے جاگا تھا۔ آج اس نے کافی صاف ستھرے لباس پہنے ہوئے تھے اور چہرے پر ہلکا سا میک اپ بھی چڑھا رکھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کسی مرد کا سامنا کئے ہوئے اسے ایک لمبا عرصہ بیت گیا ہے۔ در اصل میں اتنا اچانک وارد ہو گیا تھا کہ وہ خوفزدہ ہو گئی تھی۔ تم جہنم جا سکتی ہو، میں نے کہا۔ میں یہ جملہ کئی بار سن چکی ہوں، وہ ہنسی، مگر پہلی بار مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے اس کا ایک مطلب بھی ہے۔ وہ چارپائی پر میرے پہلو میں بیٹھ گئی اور اس نے اپنا سر میرے ننگے سینے سے پر رکھ دیا۔ آج اس نے سرمہ لگا رکھا تھا جس کے سبب اس کی آنکھیں کافی بڑی نظر آ رہی تھیں اور اس کے بالوں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی جس نے میرے اندر نفسانی خواہش کو جاگنے پر مجبور کر دیا۔ میں اس کی ننگی گردن کو چوم رہا تھا، اس کی پشت کو سہلا رہا تھا جب۔۔۔ تمہیں یہ خوشبو پسند ہے؟ اس نے سر اٹھا کر کہا۔ ’’یہ تیل میں نے کیوڑے کے پھولوں سے خود بنایا ہے۔‘‘ اور اس نے خود کو مجھ سے الگ کر لیا۔ میں دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ آج رات ہم سارے معاملات سلجھا لیں گے، اس نے کہا اور چلی گئی۔ اس رات اس نے پوری تیاری کر لی تھی۔ ہم دیر تک اس کے اندرونی برامدے میں کھڑے طوطوں سے باتیں کرتے رہے۔ رات گہری ہو چکی تھی اور چھپروں کے اوپر گرم ہوا چل رہی تھی جب وہ میرے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ آج اس کا کمرا کافی سجا ہوا تھا۔ اس نے کھڑکیوں پر نئے پردے ٹانگ رکھے تھے۔ ہم نے بستر پر بیٹھ کر دیر تک گفتگو کی جس کا کوئی سر پیر نہ تھا جیسے ہمارا مقصد صرف وقت کو پیچھے کی طرف ڈھکیلنا ہو۔ مگر پھر ہماری گفتگو کے اندر کچھ بھی نہیں رہ گیا۔ اس دن میں نے کسی عورت کو پہلی بار اس کے اصلی روپ میں دیکھا۔ وہ ننگی ہوئی تو اس کا پیٹ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ اس کا پیٹ تو اتنا بڑا نہیں تھا جتنا کپڑا پہننے پر دکھائی دیتا۔ اس نے ایک نئی عورت کی طرح میرا سامنا کیا۔ اسے کراہنے کا فن معلوم تھا۔ مگر میری طرف سے سب کچھ اتنی جلد ہو گیا کہ اسے تھوڑی سی مایوسی بھی ہوئی۔ اس نے کہا، تم نے میری نئی چادر خراب کر دی۔ مجھے نہیں معلوم تھا اس معاملے میں تم بالکل اناڑی ہو۔ تمہیں پتہ ہے تم نے اپنی زندگی کے کتنے قیمتی سال کھو دئے ہیں؟ میں تمہیں ایسے لڑکوں کے بارے میں بتا سکتی ہوں جو تم سے آدھی عمر کے تھے، جن کی مسیں ابھی بھیگی بھی نہ تھیں، جو میرے پاس آیا کرتے۔ مجھے حیرت ہوئی۔ واقعی وہ ٹھیک کہہ رہی تھی، عورت، ہم اسے بستر پر جانے بغیر اس دنیا یا آخرت کے بارے میں کچھ بھی تو یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ بعد میں جب ہم ننگے لیٹے ہوئے چھپر کی طرف تاک رہے تھے تو اس نے مجھے بتایا، جس طرح تجربہ کے بغیر آدمی اناڑی ثابت ہوتا ہے، اسی طرح حد سے زیادہ تجربہ انسان کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ ہم اپنی سوچ کے غلام بن جاتے ہیں۔ شاید ہم نے جلد بازی کی تھی۔ اتنے سالوں تک ایک فرضی نام کے ساتھ (اس نے اپنی بدنامی کے دنوں میں کئی بار نام بدلے تھے) بھانت بھانت کے مردوں کا سامنا کرنے کے بعد اسے کچھ اور وقت چاہئے تھا۔ میں خوفزدہ تھی، پہلے کی طرح تمہارے لئے صرف ایک گوشت پوست کا لوتھڑا نہ بن کر رہ جاؤں۔ اس لئے میں اب تمہیں اپنا اصلی نام بتانا چاہتی ہوں۔ کیا تم اسے جاننا چاہو گے؟ اور تم میرے کراہنے پر نہ جاؤ۔ یہ میری پرانی عادت ہے جس سے میں گاہکوں کو فریب دیا کرتی تھی۔ اس سے وہ جلد بازی سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے۔ میں ایسا کرنے پر مجبور تھی۔ مجھے کمرے کا کرایہ دینا پڑتا، دوسرے اور بھی اخراجات تھے، اور پھر میری طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ مجھے اس پر قابو پانا ہو گا۔ میں چاہتی ہوں، جب بھی میں تمہارے پاس آؤں میں وہ بن جاؤں جو اس بدنامی کی زندگی سے پہلے تھی۔ اور اس نے مجھے اپنا اصلی نام بتایا۔ مگر اس سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے کہا، تم کہنا کیا چاہتی ہو، ہمارے تجربات دھاگوں کی طرح ہوتے ہیں جو آپس میں الجھ جاتے ہیں؟ ایسا صرف اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ہم جیسوں کے پاس کبھی کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ ہم بس جیتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے، ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے ساری زندگی انسانیت کی خدمت کی۔ انھوں نے بھوکوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا، اپاہجوں کو بیساکھیاں بانٹیں، خدا کی طرف سے پیغامات نشر کئے جنھیں قبول نہ کرنے والوں کے لئے کوڑے مخصوص تھے، مگر آخر میں انھیں بھی اس بات کا پتہ چل گیا تھا کہ انھوں نے ایسے جہاز بنائے تھے جو بے وطنوں کو ان کے وطن پہچانے والے تھے مگر یہ جہاز کبھی کنارے پہنچنے والے نہ تھے۔ اس نے حامی بھرتے ہوئے کہا، میں جانتی ہوں، میں نے ایسے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل سے ثواب کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک بار ایک سینی ٹوریم میں داخلہ لیا تھا۔ میرے پھیپھڑوں پر داغ آ گئے تھے۔ میں مرتے مرتے بچی۔ مگر وہاں مجھے اپنے پھیپھڑوں کے بارے میں اتنا کچھ بتایا گیا کہ ان پر عمل کرنا مشکل تھا۔ وہاں میرا بہت سارا پیسہ برباد ہو گیا۔ تو میں نے صرف یہ کیا کہ پرانا دھندا چھوڑ دیا۔ اب پاک پنجتن کی عنایت سے میں روز نہیں مرتی۔ یہ تو اچھی بات ہے، میں نے کہا۔ اس سے سب کچھ وہی رہتے ہوئے بھی تمہاری دنیا آسان ہو گئی ہو گی۔ مگر تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہی ہو؟ مسعودہ، یہی نام بتایا ہے نا تم نے اپنا؟ میں نہیں جانتا، میں تمہارے اس نام کا کیا کروں گا۔
میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم میری اصلیت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ دنیا بہت بڑی ہے۔ یہاں ہزاروں لاکھوں طاقتیں ہیں، جنھیں تم جانتے بھی نہیں، جو تمہارے خلاف کام کرتی رہتی ہیں اور تمہارے پاس اپنی شکست تسلیم کرنے کے علاوہ انھیں روکنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اپنی شکست تسلیم کر لو، کسی جگہ ٹھہر جاؤ۔ کسی کے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ تم میرے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ ہم دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے نکاح کر لیں گے۔
تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ میں نے کہا۔ کیا تم مجھے کسی خطرے سے بچانا چاہتی ہو؟ کیا تم نے ہمیشہ اس طرح کا کام کیا ہے؟ کیا تمہارے پاس بھی کوئی جہاز ہے؟
اس نے جواب دیا، اسے شک ہے وہ ایسے کسی کام کی اہل بھی ہے۔ کیا ایک ایسی دنیا میں جہاں ایک چھدام کے لئے لوگ شور مچاتے ہوں، یہ ممکن ہے کہ آدمی اتنی آسانی سے کسی کی دنیا بدل ڈالے، یا اپنے ماحول سے الگ ہو کر اپنے لئے ایک نئی دنیا بنا لے۔ ہمیں بس ڈھنگ سے کچھ سال جی لینا ہے۔ اور تم جس جہاز کی بات کر رہے ہو، وہ کبھی واپس نہیں لوٹتا۔ یہ دنیا بس اسی طرح ہے۔ تمہیں پانی پر بس ایک کوڑے کے ڈھیر کی طرح تیرتے رہنا ہے۔ ہو سکتا ہے اس پر مٹی جمتے جمتے کوئی پودا نکل آئے اور ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لے جیسا کہ میں نے اپنے گاؤں میں دیکھا ہے۔
اس گلی میں ناریل کے کئی پیڑ تھے جو دھول سے اٹے ہوئے تھے اور چھپروں کے بیچ سے اس طرح نکلے ہوئے تھے جیسے خبیث اپنے بال بکھرائے کھڑے ہوں۔ ان کے پتوں میں پرندے کبھی کبھار رات کے وقت بلا وجہ واویلا مچایا کرتے جیسے ان کا کوئی خاندانی تنازع سامنے آ گیا ہو۔ مسجد کی طرف برگد کا ایک لحیم شحیم پیڑ تھا جس میں گرمی کے آتے ہی کوئلیں کوکنے لگتیں۔ وہ دن بھر بلا تکان کوکتیں۔ انھیں بس مسجد کے میناروں سے بندھے ہوئے لاؤڈ اسپیکروں سے آتی اذان کی کرخت آواز ہی چپ کرا پاتی۔ مگر یہ دیر پا ثابت نہ ہوتا۔ کچھ ہی دیر کے بعد کوئلیں شد و مد کے ساتھ کوکنا شروع کر دیتیں۔ ہر رات مجھ سے لپٹ کر وہ چین کی نیند سو جاتی اور میں اس کے پھیپھڑوں کی آواز سنتا رہتا جیسے کوئی اس کے اندر کاغذ مروڑ رہا ہو۔ کبھی کبھار وہ اچانک غیر متوقع طور پر خراٹا لینا شروع کر دیتی اور میں دیر تک جاگے رہنے پر مجبور ہو جاتا۔ مگر کسی کسی رات وہ چونک کر جاگ اٹھتی۔ اس وقت اسے اپنے کپڑوں کا بھی ہوش نہ رہتا۔ وہ اٹھ کر اندر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھول کر ننگی کھڑی ہو جاتی اور آنگن کی آوازوں کو سننے کی کوشش کرتی۔ کمرے کے اندھیرے میں ایسا لگتا جیسے وہ کل ملا کر ایک بڑا سا پیٹ ہو جس میں اس کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ غلط سمت میں گتھے ہوئے ہوں۔ تم سن رہے ہو، وہ سرگوشی کرتی، رات کی اپنی ایک بہت ہی پراسرار دنیا ہوتی ہے۔ میں اس دنیا کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ میں پہاڑوں سے گھرے ہوئے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی۔
ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جانور بن گیا ہوں جب کہ وہ ابھی بھی ایک عورت ہے اور میں کسی وحشی درندے کی طرح اپنی شہوانی خواہش پوری کر رہا ہوں۔ جانے یہ کتنی دیر تک چلتا ہے جب ہیجانِ شہوت سے میری نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں، وہ مجھ سے لپٹی ہوئی ہے اور خود بھی شہوانیت کے جذبے سے سرشار ہے۔ اس نے سرگوشی میں کہا، تم ایک حیرت انگیز انسان ہو۔ اگر میں تم سے نہ ملی ہوتی تو کبھی شہوت کے اس ہیجان کو جان نہ پاتی۔ مجھے لگ رہا ہے میں اپنے کنوارے دنوں میں واپس لوٹ رہی ہوں جب میں گاؤں میں بڑی ہو رہی تھی اور ہم سہیلیاں ایک دوسرے کو اپنی ماہواری کے قصے سنایا کرتیں۔ اگر تم چاہو تو ہم ایک ساتھ اپنا گاؤں لوٹ سکتے ہیں۔ وہاں ہمارا پشتینی مکان ہے جس میں میرا ایک ذاتی کمرا ہے۔ میرے رشتے دار میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اس کمرے پر قبضہ جما سکیں۔ تمہیں دیکھ کر انھیں مایوسی ہو گی۔
گاؤں! گرم تکیہ کے اندر اپنے دونوں کانوں تک دھنسا ہوا میں روئی کے اندر کے سنّاٹوں کو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیوں نہیں، اور اس کے لئے ذاتی طور پر میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ اس واقعہ کے دو مہینے بعد اس نے مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں مزید جانکاری دی۔ اس نے کہا، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، اس کے پاس ایک بہت ہی کمزور پھیپھڑا ہے اور شہر کی آلودگی دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے، وہ اگر گاؤں لوٹ جائے تو شاید کچھ اور برس جی لے۔ میں نے کہا، کیا یہ ضرورت سے زیادہ چاہنے کی طرح نہیں ہے؟ نہیں، اس نے کہا، یہ زندہ رہنے کی ایک عام خواہش ہے جو ہر انسان کے اندر ہوتی ہے۔ میں نے اس گاؤں کو اپنے آخری وقت کے لئے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ ٹھیک ہے، میں نے کہا۔ پھر تو میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا، مگر شرط یہ ہے کہ جب تم اپنا گاؤں پہنچو تو میں اپنا منہ بند رکھوں گا۔ ساری بات تم کرو گی۔ تم اپنے لوگوں کو زیادہ اچھی طرح سے جانتی ہو۔ کیا ان کو تمہارے ماضی کے بارے میں پتہ ہے؟ تمہیں یہ سوچ کر ڈر نہیں لگتا کہ جانے وہ تمہارے ساتھ کس طرح سے پیش آئیں گے۔
تمہیں خوامخواہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، وہ بولی۔ میں وہاں جاتی رہتی ہوں۔ وہاں سارے لوگ میرے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن وہ خود اس کا یقین کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن اب دنیا بدل چکی ہے۔ اور پھر تمہیں میرے ساتھ دیکھ کر وہ اپنی زبان بند کر لیں گے۔ مجھے اس کا یقین ہے۔ میرا وہاں جانا ضروری ہے۔ ان دنوں میں موت کے فرشتے کو بار بار دیکھنے لگی ہوں۔ اس کے پروں میں تلواروں کی سی دھار ہے جن سے خون ٹپکتے رہتے ہیں۔ میں کبھی کبھار بری طرح نروس ہو جاتی ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے، کہیں نیند کی حالت میں ہی میری موت نہ ہو جائے۔ کیا واقعی تم میرے ساتھ آ رہے ہو؟