کردم اور اس کے آدمی عام سے حلیے میں بلیوٹوتھ کانوں میں لگائے چاروں طرف پھیل چکے تھے۔
” ایک ایک کے اوپر نظر رکھو پاشا اُسے ایسے نہیں آنے دے گا ضرور اُس کی حفاظت کیلئے اپنے ماتحت بھیجے ہونگے۔”
“پر دادا یہاں تو سب عام سے لوگ ہیں وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔” غفار کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
تبھی کردم کی نظر برقعہ پہنے کھڑی لڑکی پر پڑی تو فوراً اپنے ماتحتوں سے بولا۔
“جتنی نقاب پوش خواتین ہیں سب کو دیکھو۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ہی ایک ہو۔” کردم کہتا ہوا اس لڑکی کی طرف بڑھا جو دنیا جہاں سے بےنیاز سر جھکا کر کھڑی تھی۔
کردم نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی جانب موڑا۔ آنکھوں میں حیرت لیے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی اور یہ ہی حال سامنے کھڑے کردم کا تھا۔ وہ حیرت سے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا وہ ہی شناسا آنکھیں جن کی کشش میں وہ جکڑ رہا تھا۔ فوراً سر جھٹکتا اپنا ہاتھ اس کے نقاب کی طرف بڑھادیا۔ اس کا ارادہ چہرہ دیکھنے کا تھا۔ نقاب ہٹانے کیلئے اس نے ہاتھ نقاب پر رکھا ہی تھا جب غفار کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
” دادا لڑکی مل گئی ہے۔ ہم نے اسے گاڑی میں ڈال دیا ہے۔”
” ٹھیک ہے۔” وہ کہتا ہوا فوراً اس کا بازو چھوڑتا مڑ کر چلا گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ رہی تھی۔ خوف کی ایک شدید لہر اس کے جسم میں دوڑگئ۔ مال کا منظر ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے لہرایا وہ جھرجھری لیتی جب ایک بار پھر اپنے شانے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا تو فوراً ڈرکر مڑی۔
” چلو ٹیکسی مل گئی۔” رخسار بیگم کو سامنے دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ آئینور اثبات میں سر ہلاتی ان کے ساتھ چل دی۔
۔***********۔
وہ گھر میں داخل ہوئیں تو گھر میں چند چیزوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ گھر خالی تھا کوئی ذی روح موجود نہ تھی۔ آئینور استہزائیہ مسکراہٹ سے رخسار بیگم کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی۔
” دیکھ لیا نا آپ نے؟ اُنہیں پتا تھا ہم آرہے ہیں۔ لینے آنا تو دور گھر میں ہی موجود نہیں ہیں۔ اوپر سے آپ جانتی ہیں نا گھر کا سامان کہاں گیا ہوگا ؟ ”
رخسار بیگم اس کی بات کو نظر انداز کرتی اندر کی طرف بڑھ گئیں۔ وہ بھی منہ بسورتی ان کے پیچھے چل دی۔
” تم ایک کام کرو یہ سامان کمرے میں رکھو جب تک میں کچن میں کچھ کھانے کو دیکھتی ہوں۔”
” کوئی فائدہ نہیں ماما “۔۔۔ کچھ نہیں ملے گا کچن میں۔”
” لڑکی !! یہ بدتمیزی اپنے باپ کے سامنے مت کرنا سمجھی۔” وہ اسے ڈانٹتی کچن کی جانب بڑھ گئیں۔ وہ بھی منہ بسورتی سامان کمرے میں رکھنے چلی گئی۔
کچن میں پہنچ کر رخسار بیگم نے کیبنٹس کھولے مگر کچھ بھی ایسا سامان موجود نہ تھا جس سے وہ کھانا بنا سکتیں یا کوئی ایسی چیز جو وہ کھا کر اپنی بھوک مٹاتیں۔ وہ ایک گہرا سانس لیتی کچن سے باہر نکل آئیں۔
” کیا ہوا کچھ ملا کھانے کو؟ ” رخسار بیگم کو کچن سے باہر آتے دیکھ آئینور نے فوراً پوچھا۔
وہ نفی میں سر ہلاتی بولیں۔ ” لگتا ہے باہر سے ہی کچھ لانا پڑے گا۔”
” ویری گڈ !! غلطی ہماری ہی ہے آتے وقت کھانا ساتھ لانا چاہیئے تھا۔” آئینور کا غصّہ سے بُرا حال ہو رہا تھا۔
” اب کیا کریں؟ ” رخسار بیگم نے پوچھا بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ لمبے سفر کے بعد تھکن بھی محسوس ہورہی تھی ساتھ ہی بھوک سے بُرا حال بھی ہو رہا تھا۔
” آپ یہاں رکیں میں بازار سے کچھ لے کر آتی ہوں۔” آئینور کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
” نہیں اکیلے نہیں جاؤ ساتھ چلتے ہیں۔ باہر سے ہی کچھ کھا کر تھوڑا سامان بھی خرید لینگے۔” رخسار بیگم نے مشورہ دیا۔
” ٹھیک ہے۔” آئینور اثبات میں سر ہلاتی برقعہ پہننے چلی گئی۔
۔***********۔
قریب ہی ریسٹورینٹ سے کھانا کھانے کے بعد وہ بازار چلی گئیں۔ رات کے کھانے کے لیے سبزی اور کچھ پھل خرید کر وہ گھر کی جانب روانہ ہوگئی تھیں۔ گھر کے قریب پہنچی ہی تھیں جب گھر کے باہر بھیڑ جمع دیکھی۔
چند آدمی کالے کپڑے زیب تن کیے کسی آدمی کو گھسیٹتے ہوئے زبردستی جیپ میں ڈال رہے تھے۔
” یہ تو پاپا ہیں۔” آئینور نے خوفزدہ چہرے سے رخسار بیگم کی طرف دیکھا۔
” یااللّٰه یہ لوگ کون ہیں؟ اور اسلم کو کہاں لے جا رہے ہیں؟؟ ” رخسار بیگم کے چہرے پر بھی خوف کے سائے لہرانے لگے تھے۔ وہ بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگ جا چکے تھے۔ جو لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے وہ بھی آہستہ آہستہ جانے لگے۔
” ماما آپ یہ سامان لے کر اندر جائیں اور تالا لگا لے گا کوئی بھی آئے دروازہ نہیں کھولے گا۔ میں ابھی آئی۔”
” تم پاگل ہو نور !! کہاں جارہی ہو؟ ” وہ اسے روکتی ہوئی بولیں۔
” تو کیا کروں۔۔۔ اُن کی لاش کا انتظار کروں؟ ” وہ کرب سے بولی۔
” اللّٰه نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہو۔” انہوں نے دہل کر دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
” تو بس پھر مجھے جانے دیں ورنہ وہ لوگ نکل جائینگے۔” آئینور نے گاڑی کو دور جاتا دیکھ کر کہا مگر ابھی بھی وہ گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی تھی۔
” ٹھیک ہے پھر میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔”
” نہیں آپ یہیں پر ہماری واپسی کا انتظار کریں۔ انشاءاللّٰه !! میں پاپا کو ساتھ لے کر ہی آؤں گی۔” آئینور کا انداز دوٹوک تھا۔ رخسار بیگم کو نہ چاہتے ہوئے ماننا ہی پڑا۔
” ٹھیک ہے۔ اللّٰه تمہیں اپنی امان میں رکھے۔”
” آمین ” آئینور کہتی آگے بڑھ گئی قریب ہی اسے ایک ٹیکسی نظر آگئ تھی۔
” بھائی صاحب اس گاڑی کے پیچھے جانا ہے۔” آئینور نے دور جاتی گاڑی کی طرف اشارہ کیا جو بہت دور جانے کی وجہ سے اب دھندلی دھندلی دکھائی دے رہی تھی۔
” ٹھیک ہے بیٹھیں۔” ٹیکسی ڈرائیور کے کہتے آئینور بیٹھ گئی۔
” بھائی زرا جلدی۔۔ گاڑی نکلنی نہیں چاہیئے۔” اس کے کہتے ہی ڈرائیور نے ٹیکسی کی رفتار تیز کر دی۔
جیپ مختلف مقامات سے گزرتی جارہی تھی۔ وہ بھی انہی کی تقلید کرتے جارہے تھے۔ جیپ آگے جاکے ایک محل نما بنگلے کے سامنے رکی۔ گاڑی کے رکتے ہی دروازے پر کھڑے گارڈ نے دروازہ کھول دیا۔ گاڑی اندر کی جانب بڑھی اور دروازہ ایک بار پھر بند ہوگیا۔
آئینور ٹیکسی میں بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ ٹیکسی کو بنگلے سے تھوڑا فاصلے پر رکوا کر ٹیکسی سے نیچے اُتری۔ ٹیکسی ڈرائیور کو پیسے دے کر وہ پیدل ہی بنگلے کی سمت چلنے لگی۔
آس پاس ایسے ہی بنگلے بنے تھے۔ وہ چاروں طرف نظریں گھماتی اس بنگلے کے سامنے آ رکی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ بیل پر ہاتھ رکھا۔ اس دوران اسے بہت سے خدشات نے ان گہرا تھا۔ دل ہی دل میں آیت لکرسی پڑھتی اللّٰه سے دل میں ڈھیروں دُعائیں مانگتی بالآخر اس نے بیل بجا دی۔
دروازے پر کھڑے گارڈ نے دروازے میں بنی چھوٹی سی کھڑکی سے باہر دیکھا اس کھڑکی سے بس اس گارڈ کی آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں مگر وہ باہر کھڑی آئینور کو صاف دیکھ سکتا تھا۔
” اے لڑکی !! چلی جا یہاں سے کہیں اور جا کہ بھیک مانگ۔” گارڈ نے گھورتے ہوئے کہا۔
گارڈ کی بات پر آئینور حیرت سے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر ایک نظر خود کو دیکھا۔ اس وقت اسے شدید غصّہ چڑھا تھا مگر پھر گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ وہ اسے برقعے میں دیکھ کر کوئی بھکارن سمجھ رہا تھا۔
” یہ بڑے گھر کے لوگ اتنے پیسے تو ہوتے نہیں اپنے لیے مکمل لباس خرید سکیں۔ کہیں سے آستین غائب ہے تو کبھی گھٹنوں سے نیچے کا کپڑا کم پڑ جاتا ہے۔ آیا بڑا مجھے بھکارن بولنے والا۔” آئینور نے جل کر سوچا بولی کچھ نہیں۔ ابھی زیادہ ضروری کام باپ تک پہنچنا تھا۔
” میں کوئی بھکارن نہیں سمجھے اور دروازہ کھولو مجھے میرے پاپا کے پاس جانا ہے جسے تم لوگ ابھی پکڑ کر لائے ہو۔” آئینور نے اس بار رعب سے کہا۔
” کیوں اپنے باپ کے ساتھ تجھے بھی مرنے کا شوق چڑھا ہے؟ ” گارڈ نے طنزیہ کہا۔
” مجھے تم سے بات نہیں کرنی اپنے مالک کو جا کر بولو اسلم کی بیٹی آئی ہے۔”
” چلی جا یہاں سے۔ کیوں اپنی جان کی دشمن بنی ہے؟؟ ” گارڈ نے ایک بار پھر سے چلے جانے کا کہا۔
” مجھے بس میرے پاپا کے پاس جانا ہے۔ جاکر اپنے مالک کو بتاؤ میری آمد کا۔” وہ بھی آئینور تھی ڈر کے پیچھے ہٹنا نہیں سیکھا تھا۔
گارڈ تاسف سے اسے دیکھتا دروازے سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر دروازے کی کھڑکی پر نظر آیا اب کی بار اس نے خاموشی سے دروازہ کھول دیا۔
” لگتا ہے اپنے مالک سے بات کرکے آیا ہے اور اس نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔۔ یہاں تک آ تو گئی ہوں نہ جانے آگے کیا ہو اللّٰه جی بس حفاظت کرنا۔” آئینور دل میں دعا کرتی اندر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
اندر قدم رکھتے ہی اسے پورچ دکھائی دیا تھا۔ جہاں جیپ کے علاوہ تین نئے ماڈل کی کار بھی کھڑی تھیں۔ گارڈ کی تقلید کرتی بنگلے کے اندرونی دروازے کی طرف بڑھی وہاں ایک اور آدمی کھڑا تھا۔ سب اپنے اپنے کام کی نوعیت کے حساب سے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ گارڈ اس آدمی کے ساتھ آگے جانے کا کہہ کر واپس دروازے کی طرف چلا گیا۔ وہ سیڑھیاں چڑھتی اس آدمی کے سامنے آئی۔ اس آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے چلنے کا کہا وہ اس کی تقلید کرتی ڈرائینگ روم میں آگئی۔ وہ اس کو صوفے پر بیٹھنے کا کہہ کر باہر چلا گیا۔اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
” پاپا کہاں ہیں؟ نظر کیوں نہیں آرہے؟ کہیں ان لوگوں نے کچھ۔۔۔ نہیں نہیں۔” وہ سوچ ہی رہی تھی جب ڈرائینگ روم میں پھیلی کلون کی خوشبو نے اسے اپنی طرف متوجہ کرا۔ اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو آنکھوں میں حیرت در آئی ایسی ہی حیرانی سامنے والے کی آنکھوں میں بھی تھی۔ وہ اسے دیکھتی اپنی جگہ بیٹھی ساکت رہ گئی تھی مگر اگلے ہی لمحے سنبھل کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ شخص بھی اب بےتاثر چہرے لیے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ چکا تھا لیکن آئینور کو بیٹھنے کا نہیں کہا تھا۔
وہ بھی بیٹھنے نہیں آئی تھی جلد از جلد اپنے باپ کو لے کر جانا چاہتی تھی اس لیے کھڑے کھڑے ہی بنا کوئی تمہید باندھنے گویا ہوئی۔
” میرے پاپا کہاں ہیں؟ ” بغیر کسی خوف کے سوال کیا گیا۔
سامنے بیٹھا شخص ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے کافی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اپنی طرف یوں تکتا پا کر وہ زچ ہوئی تو اس بار نام لے کر با آواز بلند اُسے مخاطب کیا۔
” مسٹر کردم !! میں آپ سے پوچھ رہی ہوں پاپا کہاں ہیں میرے اور انہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ ” کردم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔
” جب میرا نام معلوم ہے، یہ بھی معلوم ہے تمہارے پاپا کو یہاں لایا گیا ہے، تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کیوں لایا گیا ہے۔”
اب کی بار آئینور خاموش رہی۔ کیونکہ اس کے دماغ میں ایک نہیں کئیں وجہ موجود تھیں جن میں سے ایک کا چناؤ مشکل تھا۔
” کیا ہوا۔۔ خاموش کیوں ہوگئی؟ ” وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
” نہیں مجھے نہیں معلوم اُنہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے اور آپ لوگ اُن سے کیا چاہتے ہیں۔” وہ اعتماد سے بولی۔
کردم نے غور سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ خود کو برقعے میں چھپائے بس نقاب سے جھانکتی دو پُرکشش آنکھیں۔ جو فِل وقت اسے غصّے سے دیکھ رہی تھیں۔
” لگتا نہیں ہے تم جیسی لڑکی اس جیسے آدمی کی بھی بیٹی ہوسکتی ہے۔ خیر !! کام کی بات پر آتے ہیں۔
تمہارے باپ جوئے میں پچاس لاکھ ہارا ہے جس کو ادا کرنے کی تین ماہ کی مہلت طلب کی تھی اُس نے۔ ان تین ماہ میں میرے آدمیوں نے کئیں بار جا کر اسے یاد دہانی کروائی اور آج پورے تین ماہ ہوچکے ہیں مگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو اُٹھا لیا اس کے گھر سے۔ اب تک تو میرے آدمی اُس کا قصہ ہی ختم کر دیتے مگر تم آگئیں۔ اپنے شرابی جواری باپ کی فرمانبردار بیٹی بن کر۔” کردم کی بات پر اس کی آنکھوں میں نمی اُتر نے لگی تھی جسے اس نے فوراً پیچھے دھکیلا تھا۔
” آپ کو آپ کے پیسے مل جائینگے لیکن میرے پاپا کو چھوڑ دیں۔” آئینور ہنوز کھڑی تھی۔ کردم نے بھی اُسے بیٹھنے کا کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
” مجھے جتنا وقت دینا تھا دے چکا ہوں۔ ویسے بھی کافی وقت برباد کر چکی ہو میرا اب جاسکتی ہو۔ چند منٹ کی زندگی بھی تمہارے باپ کو تمہاری ان بکواس باتوں کی وجہ سے مل گئی اب جاؤ یہاں سے تمہارے باپ کی لاش تمہارے گھر پہنچا دی جائے گی۔” کردم کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
” نہیں دیکھیں کچھ وقت اور دے دیں بس ایک ہفتہ میں آپ کے سارے پیسے لوٹا دونگی۔” وہ بے بسی سے بولی جبکہ وہ خود بھی جانتی تھی اتنی بڑی رقم وہ ایک ہفتے میں کہیں سے نہیں لاسکتی۔
آئینور کی بات پر وہ کچھ دیر خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا۔
” چلو تم اتنا کہہ رہی ہو تو ایک ڈیل کرتے ہیں۔” مسکراہٹ ہنوز قائم تھی۔
” کیسی ڈیل؟ ” آئینور الجھی۔
” تمہارے باپ کی جان کے بدلے میں تم۔” یہ کہتے ہوئے چہرہ بالکل سنجیدہ تھا پہلے والی مسکراہٹ اب غائب تھی۔
” مطلب میری جان؟ ٹھیک ہے آپ مجھے مار کر اپنا حساب برابر کرلیں۔” وہ بغیر کسی خوف کے بولی۔
کردم حیرت سے اسے دیکھنے لگا جو بڑے آرام سے اپنی جان لینے کی بات کر رہی تھی۔
” میں تمہاری جان کی نہیں۔۔ تمہاری بات کر رہا ہوں۔ اپنے باپ کو بچانا ہے تو خود کو مجھے سونپ دو ورنہ گھر جاکر اپنے باپ کی لاش کا انتظار کرو۔”
کردم کی بات نے اسے سن کردیا۔ آئینور کو لگا کسی نے اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو۔ وہ سفید پڑنے لگی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
” میں کوئی داشتہ نہیں ہوں۔” وہ بہت ضبط سے بولی۔ غصّے کو ضبط کرتی سرخ آنکھیں وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔
” میرے پاس مزید تمہاری کوئی بکواس سنے کا وقت نہیں جو فیصلہ کرنا ہے جلدی کرو۔” کردم نے بیزاری سے کہا۔
آئینور خاموش کھڑی اپنے پیروں کو دیکھتی رہی ایک طرف باپ کی جان تھی دوسری طرف عزت۔
عزت کو چُنا تو باپ کی جان جائے گی۔ باپ کو چُنا تو اللّٰه کو ناراض کر بیٹھے گی فیصلہ مشکل تھا مگر کسی ایک کا چُناؤ لازم تھا۔ وہ گہرا سانس لیتی گویا ہوئی۔
” ٹھیک ہے۔ آپ میرے پاپا کو چھوڑ دیں۔” آئینور کہہ کر رکی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔
کردم دلچسپی سے اس کے جھکے سر کو دیکھنے لگا تبھی وہ چہرہ اُٹھا کر پھر گویا ہوئی۔
“مگر آپ کو مجھ سے نکاح کرنا ہوگا۔”
” کیااا !! دماغ ٹھیک ہے تمہارا ؟ تم خود چل کر یہاں آئی ہو۔۔ سوچو میں اگر چاہوں تو تم اور تمہارا باپ کبھی یہاں سے واپس نہ جاسکیں۔۔ ایک موت کے منہ میں ہوگا تو دوسرا میری خواب گاہ میں۔ کیا کر لو گی تم؟؟۔۔ کچھ نہیں۔” کردم نے اسے باور کرایا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔
“دیکھیں میں اپنی بیوی بنانے کا نہیں بول رہی بس نکاح کر لیں کیونکہ یہ سب میرے لیے گناہ ہے اور اپنے باپ کو مرتے میں دیکھ نہیں سکتی۔ میں ویسے بھی آپ کے کسی مہمان یا آپ سے جڑے کسی شخص کے سامنے نہیں آؤں گی تو اس نکاح کے بارے میں بھی کسی کو پتا نہیں چلے گا پھر جب آپ مجھے آزاد کرنا چاہیں تو طلاق دے دے گا بس۔” وہ بے بسی سے بولی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر آنے کے لیے تیار تھے۔
کردم خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ آئینور کی آنکھوں میں آئی نمی وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوا۔
” ٹھیک ہے لیکن اس نکاح کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگا کے تم میری بیوی ہو۔ سمجھی؟ ”
” بالکل۔” آئینور نے ہامی بھری۔
” ٹھیک ہے اب جاؤ۔” کردم کہہ کر مڑنے لگا تو آئینور فوراً بولی۔
” اور پاپا اُن کو تو چھوڑ دیں۔”
” جب نکاح ہوگا تو وہ بھی آزاد ہو جائے گا۔”
” دیکھیں اُن کو چھوڑ دیں آج رات آٹھ بجے آپ گھر آجائے گا ہم قاضی صاحب کے ساتھ ہی آپ کا انتظار کریں گے۔۔ فرار ہونے کا سوال ہی نہیں۔۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں آپ کیا کیا کرسکتے ہیں۔”
” کافی سمجھدار ہو۔” کردم اس کی بات سے محظوظ ہوا تھا۔
” ٹھیک ہے باہر جاؤ تمہیں تمہارا باپ باہر کھڑا ہی مل جائے گا۔”
” ٹھیک ہے۔” آئینور اثبات میں سر ہلاتی جانے لگی تھی جب کردم کی آواز پر رکی۔
” سنو !! نام کیا ہے تمہارا ؟ ”
” آئینور۔”
” ہممم !! تو محترمہ آئینور صاحبہ زرا بھی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو صرف تمہارا باپ نہیں تم بھی جان سے جاؤ گی۔ سمجھی؟؟ ”
” جی۔” آئینور نے بے تاثر چہرے سے کہا۔
” ہمم !! جاؤ اب۔” کردم کے کہتے ہی آئینور باہر چلی گئی۔ کردم اس کی پُشت کو دیکھتا بڑبڑایا۔ “آئینور” پھر موبائل اُٹھا کر غفار کو کال کی اور اسلم کو چھوڑنے کا بول کر اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
۔***********۔
گھر پہنچ کر وہ غصّے سے باپ کو دیکھنے لگی جسے یہ تک نہیں معلوم تھا وہ بچ کیسے گیا۔ بس اپنی زندگی کی خوشی میں ہاتھ میں شراب لیے گنگناتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
” کیا ہوا ہے نور۔۔ جب سے آئی ہو کچھ بول ہی نہیں رہی بتاؤ گی بھی بات کیا ہے ؟ ” رخسار بیگم کو اس کی خاموشی سے چڑ ہو رہی تھی کیونکہ وہ جب سے آئی تھی بس باپ کو غصّے سے گھورنے کے علاوہ ایک لفظ اپنے منہ سے نہیں نکالا تھا۔
” رات آٹھ بجے میرا نکاح ہے۔ تیاری کر لے گا قاضی صاحب کو بُلا کر نکاح پڑھانے کی۔” آئینور نے ایسے بتایا جیسے موسم کا حال بتا رہی ہو مگر رخسار بیگم کے لیے یہ بات گویا کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔
” کیا !! یہ کیا بول رہی ہو ؟ کس سے نکاح ہے؟ مجھے بتاؤ آخر ہوا کیا ہے؟؟ بولو اس طرح تم مجھے پریشان کر رہی ہو۔” اسے کچھ نہ بولتے دیکھ وہ پریشانی سے بولیں۔
” اپنے باپ کی جان کے بدلے خود کو بیچ آئی ہوں۔۔ سن لیا آپ نے؟ ” آئینور نے چلا کر کہا۔ رخسار بیگم اپنی جگہ ششدر رہ گئیں۔
” جوئے بازی میں پچاس لاکھ ہارے ہیں جس کو ادا کرنے کا وقت بھی انہوں نے گنوا دیا۔ وہ لوگ تو انہیں مار کر اپنا پیسہ وصول کر لینا چاہتے تھے۔ مگر پھر اس کردم دادا نے یہ شرط رکھی کہ اگر میں خود کو اُسے سونپ دوں تو وہ پاپا کو چھوڑ دے گا۔” آئینور نے تھکے تھکے سے انداز میں بتایا۔
” کیا !! ” رخسار بیگم کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ایک ہی دن میں اور ابھی کیا کیا دیکھنا باقی تھا۔
” ہاں پاپا کی جان کی قیمت کے بدلے وہ میرا وجود حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میں یہ سب نہیں کر سکتی تھی اس لیے اُس نے مجھے اتنی مہلت دے دی کہ وہ مجھ سے نکاح کرلے گا اور جب اُس کا دل بھر جائے گا تو مجھے چھوڑ دے گا۔”
” پر اگر انہوں نے اس سب کے بعد بھی اسلم کو مار دیا تو؟ ” رخسار بیگم نے خدشہ ظاہر کیا۔
” یہ کام تو وہ اب بھی کر سکتے تھے پاپا کو وہ پکڑ کر لے گئے تھے اور میں خود چل کے اُن لوگوں کے پاس گئی تھی۔
اگر ایسا ہوتا تو پاپا اپنے پیروں پر نہ آتے اور نہ ابھی تک میری عزت محفوظ رہتی۔” آئینور کافی غصّے میں تھی اس لیے لہجہ تلخ ہوتا جارہا تھا۔
” پر وہ تم سے نکاح کیوں کر رہا ہے؟ ” رخسار بیگم خاصی الجھ گئی تھیں۔ سب کچھ سمجھ سے باہر تھا۔
” آپ کو کیا لگتا ہے۔۔ یہاں کوئی فلم چل رہی ہے کہ اُس نے مجھے کہیں کسی بازار میں دیکھ میری محبت میں شدید گرفتار ہوگیا اور اب میرے باپ کو مارنے کے بہانے سے مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔” آئینور نے جل کر کہا۔
” وہ مرد ہے مرد۔۔ یہ نہیں دیکھتا سامنے کھڑی عورت کیسی ہے؟؟ کیا ہے؟؟ اُسے بس اپنی ہوس پوری کرنی ہوتی ہے۔ وہ اچھے سے جانتا ہے اتنی بڑی رقم ہم ادا نہیں کرسکتے۔ پاپا کو بھی جان سے مار کر کونسا اُن کو پیسے مل جانے ہیں اس لیے انہوں نے مجھے بَلی کا بکرا بنا لیا۔” وہ استہزائیہ ہنسی۔
رخسار بیگم افسوس سے اس کو دیکھنے لگیں۔
” آخر ماں باپ کی غلطیوں کی سزا اولاد ہی تو بھگتتی ہے۔ مجھے بھی اب اپنے باپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہے۔” ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھ سے بہہ گیا۔ رخسار بیگم بھی آنسو بہاتی اسے دیکھتی رہیں۔
۔***********۔
” دادا پاشا کا فون ہے۔” کردم اپنے کمرے میں تھا جب غفار نے آکر اطلاع دی۔
” آووو !! تو اسے خیال آ ہی گیا۔” کردم نے محظوظ ہوتے ہوئے موبائل کان سے لگایا۔ ” ہیلو۔”
” ہیلو !! کردم دادا میری بھانجی کو چھوڑ دو اس سب میں اُسے بیچ میں مت گھسیٹو تمہاری دشمنی مجھ سے ہے اُس سے نہیں۔” کردم کے ہیلو بولتے ہی پاشا بےبسی سے بولا۔
” اُسے بیچ میں لانے والے تم ہی ہو۔ تم میرا جہاز آذاد کر دو تمہاری بھانجی بھی صحیح سلامت تمہارے پاس پہنچ جائے گی۔” کردم نے کہتے ہی فون کاٹ دیا۔
پاشا بس ہیلو ہیلو ۔۔۔کرتا رہ گیا۔
” صحیح اس کی دُکھتی رگ پر پاؤ رکھا ہے۔ دیکھو کیسے مچھلی کی طرح پھڑپھڑا رہا ہے۔ اب معلوم ہوگا کس سے دشمنی مول لی ہے۔” کردم نے حقارت سے کہا۔
” دادا ایک بات پوچھوں؟ ” غفار ہچکچاتے ہوئے گویا ہوا۔
” پوچھو۔” کردم نے مصروف سے انداز میں کہا۔
” آپ نے اسلم کو جانے کیوں دیا؟ مطلب آپ کے کہنے پر ہی تو اُٹھا کر لائے تھے۔” غفار کی بات پر ایک دلکش مسکراہٹ کردم کے ہونٹوں کو چھو گئ۔
” کردم دادا کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ رات کو گاڑی تیار رکھنا آٹھ بجے اسلم کے گھر جانا ہے۔”
” جی دادا۔” غفار مودبانہ انداز میں کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
کردم لائٹ بند کرتا بیڈ پر لیٹ گیا اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے ایسا کیوں کیا۔ کتنی ہی پری پیکر اس کے ایک اشارے کی منتظر رہتی تھیں اور وہ ایک ایسی لڑکی سے نکاح کرنے جا رہا تھا جس کی آنکھوں کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں تھا پھر کیا تھا جو اسے اپنی طرف کھینچتا تھا۔
” ہنہہ !! صرف وقتی کشش ہے جو مجھے اُس کی طرف کھینچ رہی ہے بس ایک دفعہ اُسے حاصل کر لوں پھر ایک دو دن میں ہی فارغ کر دونگا۔” وہ سر جھٹکتا بڑبڑاتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
۔**********۔
” نور بیٹا سوچ لو کوئی اور حل بھی تو نکل سکتا ہے۔” آئینور آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لے رہی تھی جب رخسار بیگم اس کے کمرے میں آکر گویا ہوئیں۔
وہ رخسار بیگم کی بات پر بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئی بس خاموشی سے خود کو آئینے میں دیکھتی رہی۔
آج اس نے کالے کپڑے زیب تن کیے تھے۔ میک اپ کے نام پر آنکھوں میں کاجل لگائے ہلکی سی پینک لپ اسٹک لگائے کہیں سے بھی وہ دلہن نہیں لگ رہی تھی جس کا کچھ دیر بعد نکاح ہونے جا رہا تھا۔
” آئینور میں تم سے بات کر رہی ہوں۔” اس کے جواب نہ دینے پر اب کی بار وہ زور دے کر بولیں۔
” آپ کے پاس کوئی حل ہے؟ ” آئینور نے پلٹ کر سوال کیا۔
” ہم بھاگ بھی جائیں تو وہ ہمیں ڈھونڈ نکالے گا ابھی وہ صرف پاپا کی جان لیتا لیکن ہماری اس حرکت کے بعد وہ ہم میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑے گا۔” آئینور نے بے بسی سے کہا۔
” تو کوئی تو حل ہوگا؟ ہم پولیس کو بول دیتے ہیں۔” رخسار بیگم نے ایک امید لیے کہا۔
” ایسے لوگوں کا پولیس بھی کچھ نہیں کرسکتی ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے اور آپ فکر نہ کریں کچھ دن کی بات ہے پھر میں آزاد اور اس کے بعد ہم کراچی چلے جائینگے۔” آئینور نے انہیں پُرسکون کرنا چاہا۔
” مگر “۔۔۔
” اگر مگر اب کچھ نہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے آپ ہی تو چاہتی تھیں میں شادی کر لوں تو دیکھیں آج میری شادی ہے۔” رخسار بیگم کچھ بولنا چاہ رہی تھیں مگر آئینور نے ان کی بات کاٹ دی۔
” میں نے کبھی نہیں چاہا تھا تمہاری شادی یوں ہو کتنے ارمان تھے تمہاری شادی کے پر سب ادھورے رہ گئے۔” وہ غمگین لہجے میں بولیں۔
” آپ تو یوں پریشان ہو رہی ہیں جیسے میں سچ میں رخصت ہو رہی ہوں کہا نہ صرف کچھ دن پھر وہ مجھے طلاق دے دے گا۔”
” اور اس کے بعد۔۔۔ اس کے بعد کون ایک طلاق یافتہ سے شادی کرے گا؟ ” آئینور کی بات پر اب کی بار رخسار بیگم کو غصّہ آ گیا۔
” تو آپ سے کس نے کہا میں شادی کروں گی؟ نہ تو مجھے پہلے شادی میں کوئی دلچسپی تھی نہ اب۔” آئینور نے اطمینان سے کہا۔ رخسار بیگم بس اسے تاسف سے دیکھتی رہ گئیں۔
۔***********۔
گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔ وہ بار بار گھڑی میں وقت دیکھتا آٹھ بجنے میں بس اب دس منٹ ہی باقی تھے جب گاڑی ایک درمیانے طبقے کے گھر کے سامنے جا رکی۔ غفار نے فوراً گاڑی سے باہر نکل کر کردم دادا کے لیے دروازہ کھولا۔ بلیک تھری پیس سوٹ میں وہ ماحول پر چھا رہا تھا۔
وہیں اندر کمرے میں بیٹھی آئینور تک گاڑی کے روکنے کی آواز با آسانی پہنچ گئی تھی اور وہیں اس کی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں ایک انجانے خوف کے تحت۔
رخسار بیگم نے بھی گاڑی کی آواز سن کر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ دروازہ کھلا اور ایک خوش شکل مرد اندر داخل ہوا۔ غفار نے بھی اس کی تقلید کی۔
رخسار بیگم حیران سی اُسے دیکھ رہی تھیں کچھ اور حالات ہوتے تو شاید ایسا داماد ملنے پر وہ خوش ہوتیں جو بالکل کسی ریاست کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا مگر وہ کیسے بھول سکتی تھیں سامنے کھڑا مرد کوئی شہزادہ نہیں ایک گینگسٹر ہے جو ان کی بیٹی کو اُس کے باپ کی جان کے بدلے صرف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ان دونوں کو لیے اندر آگئیں۔ قاصی صاحب بھی پہلے سے موجود تھے اور اپنے ہمراہ کچھ گواہوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔
اسلم اب بھی سب سے بےنیاز بیٹھا تھا۔ جسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ اس کی بیٹی کی زندگی میں کیا ہونے جا رہا ہے۔
رخسار بیگم آئینور کے چہرے پر لال دوپٹے کا گھونگھٹ ڈالے باہر لے آئی تھیں۔
حق مہر میں بھی رخسار بیگم نے اسلم کی جوئے میں ہاری رقم لکھوائی تھی۔ جس کی ادائیگی ہونی ہی نہیں تھی۔ ساری کاروائی کے بعد قاصی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا اور آئینور دیکھتے ہی دیکھتے “آئینور اسلم” سے “آئینور کردم عباس” بن گئی۔
نکاح کے پیپرز پر سائن کرتے ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھ سے بہہ گیا۔
اس دوران کردم بالکل خاموش تماشائی بنا تھا۔ اکثر کردم کی نظر اُٹھتی اور آئینور کے لال دوپٹے سے جھلکتے آنکھ مچولی کرتے چہرے پر پڑتی دوپٹے کے پیچھے سے اس کا چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا لیکن جتنا بھی نظر آ رہا تھا کردم کی دل کی دنیا میں ہلچل سی مچا رہا تھا۔
نکاح ہوتے ہی کردم اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔ غفار نے بھی اس کی تقلید کی۔
” اب ہمیں چلنا چاہیئے۔” کردم نے آئینور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” بس ایک منٹ۔” رخسار بیگم کہہ کر آئینور کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئیں۔ اس کے سر سے لال دوپٹہ ہٹا کر سفید چادر اوڑھا دی۔
” اپنا خیال رکھنا۔” رخسار بیگم نے بہتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ بھی آنسو بہاتی ان کے گلے سے لگ گئی۔
” آپ فکر نہیں کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔” آئینور نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
” انشاءاللّٰه !! ” رخسار بیگم آنسو صاف کرتیں اسے باہر لے آئیں۔
کردم نے اس کی طرف دیکھا چہرہ اب بھی چادر سے چھپا ہوا تھا۔
آئینور چلتی ہوئی اپنے باپ کے سامنے آگئی۔ جو اب بھی بےحس بنا تھا۔ جسے یہ تک پرواہ نہیں تھی کہ اس کی جان کی خاطر اس کی بیٹی اس دلدل میں پھنسی ہے۔ ایک نظر باپ کے چہرے پر ڈالی کہ شاید پھر دیکھنا نصیب ہو نہ ہو۔ وہ نہیں جانتی تھی آگے اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ رخسار بیگم کو تو تسلی دے دی تھی پر خود کو سمجھانا مشکل تھا۔ خود کو اللّٰه کے حوالے کرتی اسلم کے گلے لگ گئی۔
“پاپا۔” ۔۔۔آنسو بہاتی وہ سسکی۔
یہ پہلی دفعہ تھا جب اسلم کو یوں پاپا کہہ کر پکار رہی تھی اور یہ بھی پہلی دفعہ تھا کہ اسلم نے بھی باپ کی شفقت سے بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا۔
یہ سب دیکھ کر کردم کو کوفت ہونے لگی تھی۔ اس نے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے۔ غفار نے بھی اس کی تقلید کی اور نہ چاہتے ہوئے بھی آئینور ان کے پیچھے چل دی۔ گاڑی میں بیٹھ کر ایک نظر آئینور نے اپنے گھر پر ڈالی رخسار بیگم بھی دروازے پر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ غفار نے زن سے گاڑی وہاں سے نکالی اور دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی رخسار بیگم کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ بےبسی سے اس راستے کو دیکھتی رہیں پھر گہرا سانس لیتی دروازہ بند کر کے اندر چلی گئیں۔
۔***********۔
گھر پہنچتے ہی غفار نے کردم کے لیے دروازہ کھولا۔ گاڑی سے باہر نکل کر اس نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھا دیے گو آئینور کو اپنے ہمراہ لے جانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ وہ خود ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کے پیچھے چلتی گھر کے اندر چلی گئی۔
” دیکھا !! میں نے کہا تھا نا آج ضرور کچھ خاص ہے تبھی دادا اتنا تیار ہو کر گھر سے نکلے تھے اور ہم لوگوں کو بھی ساتھ لے کر نہیں گئے۔”
پورچ میں گاڑی لگاتے گارڈ نے اپنے ساتھی سے کہا۔
” رحمت تو اپنے دماغ کو اتنی ہی زحمت دیا کر جتنی ضرورت ہو۔” رحیم نے اس بات کو ہوا میں اڑایا۔ جس پر فاروق نے بھی قہقہہ لگایا۔
” اچھا اگر میں غلط ہوں تو پھر وہ لڑکی کون ہے جو دادا کے ساتھ اندر گئی ہے؟ ” رحمت نے ان کی توجہ آئینور کی طرف کروائی۔
” یار چھوڑو نا !! یہ تو ہر دوسرے دن کی کہانی ہے دادا کی خواب گاہ میں ہر دوسرے تیسرے دن نئی لڑکی ہوتی ہے۔” فاروق نے بیزاری سے کہا۔
“ہاں لیکن وہ لڑکی کچھ عجیب نہیں تھی؟ مطلب آج تک جتنی بھی لڑکیاں آئی ہیں وہ کبھی ایسے پردے میں تو نہ آئیں۔” رحمت کا اشارہ آئینور کی چادر کی طرف تھا۔
” ااےےے !! کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں؟ ” رحیم نے حیران ہوتے ان دونوں کی طرف دیکھا۔
” کون؟ ” دونوں ہم آواز بولے۔
” ابے وہ ہی جو آج اسلم کو لینے آئی تھی۔ اس کی بیٹی وہ بھی تو برقعے میں تھی۔” رحیم نے اندازہ لگایا۔
“مجھے لگتا ہے تم دونوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔” فاروق نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” ابے تو جانتا نہیں ہے ان مشرقی گھریلو لڑکیوں کو۔۔۔ باپ، بھائی، شوہر یہاں تک کہ اولاد کی جان بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔”
” لیکن اگر یہ وہ ہی ہے تو دادا اتنا تیار ہوکر خود اسے لینے کیوں گئے؟ کسی اور کو بھی بھیج سکتے تھے اور اگر کوئی اور کام بھی تھا تو ہمیں ساتھ لے کر کیوں نہیں گئے؟ ” رحمت کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی۔ اس کی باتوں نے سب میں تجسس پیدا کردیا تھا۔
” میں یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ وہ ہی ہے اور اپنے باپ کی جان کے بدلے کردم دادا کے ساتھ رات گزارنے کا وعدہ کیا ہوگا۔ دیکھنا کل صبح ہی چلی جائے گی۔” رحیم نے یقین سے کہا۔
” پر دادا اسے خود لینے کیوں گئے؟ خود بھی آسکتی تھی یا دادا کسی کے کو کہہ کر اسے لینے بھیج دیتے۔” رحمت ابھی بھی الجھا ہوا تھا۔
” اس سب کے بارے ميں اب غفار ہی بتا سکتا ہے۔” فاروق نے کہا۔
” ابے چھوڑ ایک نمبر کا چمچہ ہے کردم دادا کا کبھی منہ سے نہیں اگلے گا۔” رحیم نے منہ بسور کر کہا۔ اس کے اس طرح شکل بنانے پر دونوں کا قہقہہ اُبلا۔
۔**********۔
کردم لاؤنج میں داخل ہو کر آئینور کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا جو اس کے عقب میں ہی چل رہی تھی۔
” سیڑھیاں چڑھ کر پہلے سے دوسرا کمرہ میرا ہے جا کر آرام کرو۔ مجھے ابھی کچھ کام ہے تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” آئینور نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس طرح سر ہلانے سے آئینور کے چہرے پر آیا چادر کا گھونگھٹ بھی ہلنے لگا تھا۔ کردم نے ناگواری سے اس کو دیکھا۔ آئینور کی چادر سے اسے الجھن ہو رہی تھی۔
وہ چادر کو سنبھالتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ آئینور کے جاتے ہی کردم غفار کی طرف متوجہ ہوا۔ جو ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا تھا۔
” آج جو کچھ بھی ہوا کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیئے خاص کر نکاح کی۔۔ سمجھ گئے؟ ”
” جی دادا۔” غفار سر جھکائے بولا۔
” ٹھیک ہے اب تم بھی جاکر آرام کرو۔” کردم کہتا ہوا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
غفار بھی سر ہلاتا باہر نکل گیا۔
۔**********۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...