ارحم بیٹا میں تمہاری امی اور نانی سے که رہی تھی کے آج ینہی رک جایئں پر وہ تمہاری وجہ سے انکار کر رہی ہیں کے تم نے صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے اور افس بھی “
جی خالہ جانا ہے تو ہے پر اگر اپکا دل ہے تو امی اور نانی یانہی رک جاتی ہیں میں ایڈجسٹ کر لوں گا”
پر بیٹا ناشتہ کا کیا کرو گے ؟
امی اپ فکر نہ کریں باہر سے لے آؤں گا اپ لوگ رک جایئں بیشک”
جیتو رہو بیٹا خالہ نے اسکا ماتھا چوم لیا
ارحم ذرا بات سننا صابر نے اسے باہر سے ہی بولایا وہ خاموشی سے اٹھ آیا
کیا آفت آ گئی ہے حمنہ چاۓ تو لانے دیتی” حمنہ اسے کھنچتی ہوئی ٹی وی لونج میں لے آی یار چاۓ میں لے جاؤں گی
تم بس یہاں کھڑی رہو آنکھیں بند کر کے تمہارے لئے اک سرپرائز ہے “
کیا بچپنا ہے حمنہ یہ”
میں کچھ نہیں سنوں گی بس آنکھیں بند کر کے کھڑی رہو جب تک میں نہ کہوں میں بس ابھی اتی ہوں ٹھیک ہے نا ؟
اچھا بابا ٹھیک ہے پر پلز جلدی آنا
کیا ہے باہر کیوں بولایا ہے تو نے ؟
صابر نے مختصر اسے ساری بات بتا دی پر یار اگر اس نے اظہار نہ کیا تو…”
تواسکے بھائی سے مار کھانے کے لئے تیار رہنا اب چل جا وہ ٹی وی لونج میں ہے میں تجھ پر پیچھے سے آیت الکرسی پڑھ کر بھیجتا رہوں گا
وہ ٹی وی لونج میں آیا تو زویا اسکی طرف پشت کیے کھڑی تھی
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسکے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا
زویا !
زویا نے حیرانی سے آنکھیں کھولیں “
تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟
تمھیں نہیں پتا میں یہاں کیا کر رہا ہوں تمہارے نکاح کے فنکشنز اتٹنڈ کر رہا ہوں میں یہاں “
زویا چپ سی ہوگئی
کچھ دیر کے لئے دونوں میں خاموشی چھا گئی زویا نظریں جھکاۓ کھڑی رہی اور ارحم اسے دیکھتا رہا
زویا تم کیوں کر رہی ہو یہ سب پلیز مجھے بتا دو اگر تم اپنے بھائی کی وجہ سے بھی ایسا کر رہی ہو تو کمزکمز بتاؤ تو سہی ہم مل کر کوئی حل نکال لیں گے “
زویا کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی مسٹر ارحم تم اور میں تو کبھی ہم تھے ہی نہیں تم نے پہلے میرے رشتے کے لئے انکار کیا تھا کیوں کے تم مجھ میں انٹرسٹڈ نہیں تھے اب میں نے تمہارے رشتے کے لئے انکار کر دیا کے اب میں تم میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں بات ختم”
یہ دونوں تو لگتا ہے ساری رات ہی لڑیں گے حمنہ نے خود کلامی کی
صبر کریں محترمہ اک دفع بھڑاس نکال لیں نے دیں دونوں کو پھر دیکھئے گا مطلع صاف ہو جائے گا”
وہ اور حمنہ دونوں چھپ کر ان دونوں کی باتیں سن رہے تھے
زویا تم بدلہ لینے کے چکر میں ہم دونوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہی ہو”
میں کوئی بدلہ نہیں لے رہی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا آپکو اب کیا مسلہ ہو رہا ہے اپ نے کون سا مجھ سے محبت کی ہے اور نہ ہی کوئی وعدے کئے ہیں جن کی بنا پر میں اپکا انتظار کرتی”
میں نے تم سے اس دن کہا تو تھا کے تم طلال کے رشتے کے لئے ہان نہیں کرو گی میں رشتہ بھیجوں گا”
تو اس میں کیا بڑی بات ہے یہ بات تو اپ نے اس لڑکی سے بھی کہی ہو گی مسٹر ارحم جو اپ سے اس دن کلاس کے باہر رشتہ لانے کو که رہی تھی
ارحم خاموش ہوگیا اسے سمجھ ہی نہیں ای کے وہ کیسے وضاحت دے
اب چپ کیوں ہیں اپ ارحم صاحب بتایں نہ اور کتنی ہی لڑکیوں سے وعدے وعید کر چکے ہیں اپ ؟
بکواس بند کرو زویا وہ آنکھوں میں سرخی لئےغرایا
اپکا تعلق کہیں محکمے موسمیات سے تو نہیں ہے ؟
صابر نے بھونئیں سوکیئر کر وضاحت چاہی
ارے آپکی پیشنگوئی کی وجہ سے که رہی ہوں اپ نے ہی کہا تھا نہ مطلع صاف ہو جائے گا حمنہ نے اسی کے انداز میں کہا
مگر دیکھیں مسٹر یہاں تو بجلیاں گر رہی ہیں”
اف تھوڑا صبر سے کام لے لیں محترمہ میری پیشنگوئی غلط نہیں ہوتی”
دیکھتے ہیں” حمنہ نے چلینج دیتے لہجے میں کہا
صابر کو اسکی ہر ہر ادا بھا رہی تھی وہ دھیرے سے مسکرا دیا
ٹھیک ہے میری باتیں تو بکواس ہی ہیں نہ تو کیوں سن رہے ہیں جایئں یہاں سے ویسے بھی میرے ہونے والے شوہر کو یہ بات پسند نہیں آے گی کے میں اپ سے یوں اکیلے میں باتیں کروں
زویا نے اسے اک دفع پھر اسے جلا کر رکھ دیا
زویا میں نے کہا نہ بکواس بند رکھو! اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہ کی
زویا کا دل اسکی سرخ آنکھیں اور لہجے کی سختی سے بند ہونے کو تھا
ارحم نے اسکی حالت سمجھ کر بمشکل خود پر کنٹرول کیا
زویا پلیز مجھے اتنا مت ستاو مانا کے مجھ سے غلطی ہوئی تھی مجھے تمھیں اعتبار میں لے کر انکار کرنا چاہیے تھا مگر میرے لئے یہ شرمندگی کی بات تھی کے میں تمہارے سامنے اپنے فائنینشل کرائسس کا رونا روتا میں نے سوچا کے تمھیں اپنے ساتھ پابند نہ کروں اور محنت کر کے تمہارے قابل بن جاؤں پھر میں خود سب کو منا کر تمہارا رشتہ مانگ لوں گا”
اور اگر تب تک میرا رشتہ کہیں اور تے ہو جاتا تو ؟
زویا کا دماغ یہ سب جان کر تھوڑا ٹھنڈا ہوگیا
ارحم مسکرا دیا مجھے لگا تھا کے زویا حسن میرے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرے گی کیوں کے وہ مجھ سے محبت کرتی تھی ، کرتی تھی نہ ؟
صابر نے جتاتی نظروں سے حمنہ کو دیکھا حمنہ تلملا گئی
میرا مونھ کیا دیکھ رہے ہیں اپ جلدی سے افہام بھائی کو بولا کر لائیں نہ ورنہ سارے پلان کا بیڑا غرق ہو جانا ہے
صابر جلدی سے افہام کو حال سے بولانے چلا گیا
زویا چپ کیوں ہو بتاؤ نہ کرتی تھی نہ مجھے پسند ؟
اسفند جو کہ اپنی مما کو پاپا کا پیغام دینے نیچے آ رہا تھا زویا اور ارحم کی بات سن کر وہیں رک گیا
زویا اور ارحم کی نظر تو اس پر نہیں پڑی مگر حمنہ نے اسے سیڑھیوں پر ہی رکتے دیکھ لیا
ادھر سے صابر بھی افہام کو لے کر آ گیا
ارے بتا تو یار ایسی بھی کیا بات کرنی ہے ؟ وہ دونوں ٹی وی لونج کے باہر کھڑے تھے
پلان کے مطابق صابر کے فون کی گھنٹی بجی
اہ بہت ضروری کال ہے میں سن کے ابھی اتا ہوں تو ینھی رکنا وہ که کر فون کان سے لگاے باہر کی طرف نکل آیا
زویا مجھے میرے سوال کا جواب چاہیے بتاؤ کرتی تھی نہ مجھے پسند ؟
افہام کی توجہ اندر سے اتی آواز نے سمیٹ لی
اف بری پھسی زویا تو تو اب تیرا کیا ہوگا ،افہام بھائی کے سامنے تو تیری ہاں کام بنا دے گی مگر اسفند بھائی کے سامنے اففف یہ کیا ہوگیا
حمنہ سر پکڑ کر رہ گئی
بتاؤ زویا ”
ہان ہان کرتی ہوں پسند کرتی ہوں تم سے محبت اسکے لہجے میں تھکن واضح تھی تو کیوں کر رہی ہوں تم اسفند سے نکاح آخر کیوں اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی اذیت میں ڈال رہی ہو زویا”
میں تم سے محبت کرتی ہوں ارحم پر یہ محبت اس محبت کے سامنے کچھ بھی نہیں جو میں اپنے بھائی سے کرتی ہوں میرے لئے انکی عزت ہماری اس محبت سے بڑھ کر ہے “
” تم کیا رہ لو گی میرے بغیر ؟ کیا رہ سکتی ہو تم کسی اور کے ساتھ خوش ؟
ہان رہ لوں گی تمہارے بغیر بھی ارحم، تمھیں پتا ہے انسان کو سب سے زیادہ محبت اسکی ماں سے ملتی ہے پر انسان اس ماں کے مر جانے کے بعد بھی تو جیتا ہے نا خوشی اس سے روٹھ تو نہیں جاتی نا پھر ہماری محبت کیا چیز ہے”
زویا تم مجھے بھول نہیں پاؤ گی اس نے جیسے تھک کر کہا تھا
میں بھول جاؤں گی زویا نے آنسو اندر ہی اتار لئے
میں تمھیں بھول نہیں پاؤں گا ”
یہ میرا مسلہ نہیں ہے ارحم چاہے تو مجھے یاد رکھو چاہے تو بھلا دو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا تکلیف تمھیں ہو ہوگی”
تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی زویا حسن ارحم غصے میں آ گیا
ارحم پلیز بات نہ بڑھاؤ بہتر یہی ہوگا کے بھول جاؤ تم مجھے اور چلے جاؤ یہاں سے
اسے لگ رہا تھا کے اگر وہ کچھ پل بھی اور اسکے سامنے ٹھہرا تو وہ ضبط کھو دے گی
جا رہا ہوں پر یاد رکھنا اگر تمہارے بغیر میں اذیت میں رہوں گا تو میرے بغیر تم بھی خوش نہیں رہو گی “
بد دعا دے رہے ہو آنسو اسکی آنکھوں کی حد پار کرنے کو تھے”
نہیں ! حقیقت بتا رہا ہوں”
مجھے نہیں جاننی بس تم جاؤ یہاں سے”
جا رہا ہوں میں پر زویا میں اور میری محبت اتنے بھی سستے نہیں تھے کے تم یوں ٹھکرا دیتی “
وہ غصے سے کہتا باہر نکل گیا افہام اسے باہر اتا دیکھ جلدی سے اک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا یوں کے ارحم اسے دیکھ نہ سکا
زویا کے ضبط کا خول اسکے جاتے ہی ٹوٹ گیا وہ وہیں بیٹھ کر پوٹھ پوٹھ کر رو دی حمنہ جلدی سے اسکے پاس آ گئی اسفند سب کچھ سن کر سیڑھیوں سے ہی الٹے پاؤں مڑ گیا
ارے ارحم تو کہاں جا رہا ہے ؟ صابر اسے گاڑی کی طرف جاتا دیکھ کر اسکے پیچھے لپکا
“گھر جا رہا ہوں”
ارے رک تو سہی یہ تو بتا دے کے زویا سے بات ہوئی ؟
میں اس وقت کوئی بات نہ ہی کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی بتانا چاہتا ہوں پلیز تو برا نہ منانا “
اچھا ٹھیک ہے کوئی بات نہیں جب تیرا دل کرے گا تب بات کر لیں گے” شکریہ یار وہ آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور اک نظر صابر پر ڈال جو اسے ہی پریشانی سے دیکھ رہا تھا گاڑی اڑا لے گیا
زویا پلیز اب بس کر دو رونا کوئی آ جائے گا تو کیا کہیں گے”
“اب کیا اپنی مرضی سے رو بھی نہیں سکتی”
غلطی تمہاری ہے زویا تمھیں افہام بھائی کو اپنی مرضی بتانی چاہیے تھی تم نے ارحم پر وہ فضول سا شک کر کے بہت غلط کیا “
ہان میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے پر تم نے سنا نہیں اس دن مناہل نے کیا بتایا تھا کے بھائی اس سے شادی نہیں کریں گے اگر میرا اور اسفند کا نکاح نہ ہوا تو، تم ہی بتاؤ میں کیا کرتی” اسکا چہرہ آنسوں سے بھیگ گیا حمنہ بس دکھ سے اسے دیکھتی رہ گئی
افہام جو تب سے وہیں کھڑا تھا خاموشی سے ہٹ آیا
——————————-
صابر رکو ذرا مجھے بات کرنی ہے تم سے وہ جو سب سے مل کر ابھی حال کمرے سے نکلا ہی تھا افہام کی آواز پر حیرانی سے پلٹا
ہان کھو نہ، یہاں نہیں میرے کمرے میں چلو” صابر حیرانی سے اسکے پیچھے چل دیا ہان بتاؤ اب کیا بات کرنی ہے”
تمہاری ارحم سے دوستی کتنی گہری ہے” صابر کو اندازہ ہوگیا تھا کے افہام شائد اس سے زویا اور ارحم کے بارے میں پوچھے گا اسی لئے وہ ذرا محتاط ہوگیا
اتنی گہری کے میں اسکے سارے معملات اور جذبات سے اگاہ ہوں تمھیں کیا پوچھنا ہے
افہام کچھ دیر خاموش کھڑا مناسب الفاظ ڈھونڈتا رہا صابر اسکی الجھن سمجھ کر خود ہی بول پڑا
کیا تم ارحم کے زویا سے متعلق جذبات جاننا چاہتے ہو ؟ افہام نے خاموشی سے سر ہلا دیا
ارحم تمہاری بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا”
اگر شادی کرنا چاہتا تھا تو پہلے رشتے سے انکار کیوں کیا ؟
اسکی مجبوری تھی اس وقت وہ فائنانشلی سٹبل نہیں تھا اسی لئے اس نے سوچا کے پہلے خود کو تمہاری بہن کے قابل بنا لے پھر رشتہ بیجھے گا
تو یہ بات بتائی بھی جا سکتی تھی نہ”
یار اب وہ کیا ہر کسی کے سامنے اپنے حالت کا رونا روتا اسی لئے اس نے خاموشی اختیار کر لی
افہام اسکی بتا سن کر کسی سوچ میں ڈوب گیا
آخر صابر کو ہی پوچھنا پڑا
” یار اب تو کیا کرے گا ای مین ارحم کے لئے تو کچھ کر سکتا ہے کیا ؟
“دیکھ ارحم کی گارنٹی میں دیتا ہوں وہ ہماری بہن کو ضرور خوش رکھے گا صابر کے اس اپنایت بھرے لہجے نے افہام کو مسکرانے پر مجبور کر دیا
———————————————-
خیر تو ہے افہام بیٹا صبح ہی صبح ہم سب کو یوں اکھٹا کیوں کیا ہے تم نے”
سب بڑے دادی کے کمرے میں جمع تھے
دادی مجھے اپ لوگوں سے بہت ضروری بات کرنی ہے پر پلیز میری بات پر غصہ ہونے کی بجاۓ ٹھنڈے دماغ سے اک دفع غور ضرور کیجئے گا”
ایسی بھی کیا بات ہے بیٹا تائی جی نے فکرمندی سے پوچھا
سب پریشان ہو گئے
دادی ! وہ دادی کے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا میں چاہتا ہوں کے زویا کا نکاح ہم ارحم کے ساتھ کرا دیں”
دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا یہ کیا بک رہے ہو تم کل اسکا نکاح ہے اسفند کے ساتھ ڈانٹنے کی شروات سب سے پہلے ابو نے ہی کی
وہ سر جھکاۓ بیٹھا رہا” افہام بیٹا اب تم ایسا کیوں که رہے ہو پہلے جب تمہارے سامنے ہم نے ارحم کے رشتے کی بات کی تھی تو تم نے ہی تو مخالفت کی تھی دادی نے کہا
دادی مجھے ارحم پر غصہ تھا پر اب مجھے پتا چل گیا ہے کے ارحم ہی زویا کے لئے بہتر ہے”
پر بیٹا اب ایسا نہیں ہو سکتا وقت گزر چکا ہے ” پلیز دادی میری بات سمجھنے کی کوشش کریں
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیسے سب کو بتاے
بس افہام اب مزید تمہاری کوئی بات نہیں سنی جاۓ گی کبھی تم کہتے ہو کے اسفند زویا کے لئے بہتر ہے تو کبھی تمھیں ارحم بہتر لگتا ہے بہت ہوگیا یہ تماشا جب باقی کسی کو اعترض نہیں ہے تو تمھیں بھی نہیں ہونا چاہیے”
پر ابو زویا خوش نہیں ہے”
نہیں بیٹا زویا تو راضی ہے میں خود بھی اس سے پوچھ چکی ہوں”
نہیں امی وہ صرف میری وجہ سے چپ ہے اپ سب پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کریں “
پر بیٹا یوں تو ہماری جگ ہنسائی ہوگی، ہم اسفند کو کیا جواب دیں گے تائی اور تایا جو تب سے چپ کھڑے تھے آخر بول پڑے
——————————-
نانی خالہ اپ لوگ کل کونسے کپڑے پہنیں گی حمنہ مناہل اور ردا اس وقت نانی اور خالہ کے پاس لونج میں بیٹھیں تھیں حمنہ نے سب کے کپڑے پریس کرنے کی ذمےداری لی تھی اسی لئے ان سے بھی پوچ لیا
ارے بیٹا کپڑے کہاں لاۓ ہیں ہم ساتھ، گھر سے تو یہ سوچ کر نکلے تھے کے رات میں ہی واپس آ جایئں گے پر تم لوگوں نے روک لیا تو رکنا پڑا”
ارے پیاری نانی اپ فکر ہی نہ کریں ارحم بھائی شام میں لے آئیں گے ورنہ اسد کو بھیج کر منگوا لیں گے مناہل نے مشورا دیا جو سب کو ہی پسند آیا
وہ سب یونہی ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف تھے کے ردا کے فون پر اسفند کی کال انے لگی
وہ حیران ہوتی اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی
خیریت اپ کیوں کال کر رہے ہیں مجھے” تم سے بات کرنی ہے اوپر آؤ اس نے کہ کر کال کاٹ دی
ردا حیران تھی کے کیا بات ہو سکتی ہے یہی پتا لگانے وہ اپر چلی گی
اسفند ٹی وی لونج میں ہی بیٹھا مل گیا کیا بات کرنی ہے آپکو اس نے ذرا بیزار لہجہ اپنایا جسے محسوس کر کے اسفند کے لبوں پر اک دکھی مسکراہٹ آ کر غائب ہوگئی “تم جانتی تھی کے تمہاری بہن کسی اور میں انٹرسٹڈ ہے ؟
ردا کا رنگ پھیکا پڑ گیا
کیا ہوا بتاؤ نہ پتا تھا نہ تمھیں کے زویا ارحم کو پسند کرتی ہے” ردا پریشانی سے لب کچلتی رہی
اب چپ کیوں کھڑی ہو بتاؤ وہ غرایا
ردا کانپ سی گئی
” نہیں وہ …وہ صرف زویا کا بچپنا تھا اب تو وہ خود راضی ہوئی تھی اپ سے شادی کے لئے “
وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی وہ ارحم کو ہی پسند کرتی ہے”
نہی یہ غلط ہے اپ کو کسی نے غلط بتایا ہے”
میں نے خود دیکھا بھی ہے اور سنا بھی زویا صرف افہام کی وجہ سے مجھ سے شادی کر رہی ہے وہ راضی نہیں ہے اگر مجھ پر یقین نہیں ہے تو جا کر پوچھو ذرا اپنی بہن سے اور پھر آ کر مجھے بتاؤ کے میں اس شادی کروں کے نہیں اس کا لہجہ طنزیہ ہوگیا ردا خاموشی سے وہاں سے لوٹ آی
تایا ابو میں اپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے لئے تیار ہوں اپ چاہے مجھے جو سزا دیں پر پلیز میری بات مان لیں وہ اٹھ کر انکے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا
وہ بھلا اپنے ہونے والے داماد سے معافی کیسے منگوا سکتے تھے اسی لئے خاموش ہو گئے
چھوٹی دلہن جا کر زویا کو بولا لاؤ کچھ ہی دیر میں حیران سی زویا انکے ساتھ آ گئی یہاں آؤ میرے پاس انہوں نے اسے اپنے پاس بیڈ پر بیٹھا لیا
” زویا کیا تمھیں اسفند سے نکاح پر کوئی اعترض ہے ؟ انہوں یں بہت پیار سے پوچھا زویا اک پل کے لئے تو حیران سے انہیں دیکھتی رہی
مگر پھر نفی میں سر ہلا دیا
“زویا پلیز اب بس کرو مجھے پتا ہے تم ارحم سے شادی کرنا چاہتی ہو میری وجہ سے خود پر ظلم نہ کرو مجھے کوئی اعترض نہیں تمہاری اور ارحم کی شادی پر” افہام اسکے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا
زویا حیرانی سے اسے دیکھتی رہی کیا وہ صحیح سن رہی تھی اسے شک تھا
” اب سچ سچ بتاؤ تم ارحم سے شادی کرنا چاہتی ہو نہ ؟
اسے لگا جیسے کوئی اس سے پوچ رہا ہے کے تم جینا چاہتی ہو نہ زندگی اسے اک اور موقع دے رہی تھی اس نے اک بھی لمحہ گواۓ بغیر جی که کر سر جھکا لیا افہام نے اک نظر سب بڑوں پر ڈالی جو زویا کے جواب سے حیران تھے
اب بھی کیا اپ لوگ اسکی شادی اسفند سے کرادے گے اس نے دادی اور ابو سے پوچھا
” ٹھیک ہے ہم زبردستی کے رشتوں کے قائل کبھی بھی نہیں رہے میری تو پہلے بھی یہی خواھش تھی مجھے کوئی اعترض نہیں ہے دادی نے سب سے پہلے ہاں کی ابو بھی خاموش ہو گئے یعنی انہیں بھی کوئی اعترض نہیں تھا
تایا ابو تائی امی پلیز ہمیں معاف کر دیجئے گا افہام نے انکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے” اک شرط پر تائی کی بات سن کر دادی سمیت سب حیران ہووے
آپکے ہی آنگن کی دوسری کلی ہمیں دے دیں میرے بیٹے اسفند کے لئے میں اپ سے ردا کا ہاتھ مانگتی ہوں انہوں نے اپنی دیورانی سے پوچھا سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے
ہمیں کوئی اعترض نہیں ہے بھابی اپ جب چاہے اسے بہو بنا کر لے جایئں
” ٹھیک ہے پھر کل دو نہیں تین نکاح ہونگے ردا اور اسفند کا زویا اور ارحم اور افہام اور مناہل کا دادی نے فیصلہ سنا دیا جس سے سب ہی متفق تھے
زویا بیٹا تم جاؤ اور باہر سے اپنی خالہ اور نانی کو اندر بھیجو آخر انہیں بھی تو کوئی بتاۓ کے ہم اندر کیا کچھڑی پکا رہے تھے مجھے یقین ہے انہیں کوئی اعترض نہیں ہوگا
نانی اور خالہ آپ لوگوں کو دادی اندر اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں
خیر تو ہے کیا ہوگیا ہے”
کچھ نہیں نانی انہیں بات کرنی ہے اپ سے”
نانی اور خالہ اٹھ کر چلیں گیں زویا کیا بات ہے ہمیں بھی تو بتاؤ مناہل اور حمنہ بھی جاننے کی لئے متجسس تھیں
ردا بھی وہیں آگئی کچھ ہی دیر میں پتا چل جائے گا حوصلہ رکھو بےفکری سے کہتی اپنے کمرے میں چلی ای ردا بھی اس کے پیچھے پیچھے آ گئی اور آ کر اندر سے دروازہ بند کر دیا خیر تو ہے دروازہ کیوں بند کیا ہے”
مجھے کچھ پوچھنا ہے تم سے”
ہان ضرور پوچھنا لیکن پہلے میں تمھیں کچھ بتاؤں گی”
کیا بتانا ہے”
تمھیں پتا ہے کل میرا نکاح ارحم سے ہے میں تمھیں بتا نہیں سکتی ردا کے میں کتنی خوش ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے اور اسفند اسکا کیا ؟ اسکے لئے تم ہو نہ یہ کیا کہ رہی ہو تم دماغ تو ٹھیک ہے جی ہان میری جان میں سہی کہ رہی ہوں کل تمہارا اور اسفند کا بھی نکاح ہے
پر ایسا کیسے ہو سکتا ہے افہام بھائی وہ کیسے مان گئے ارے انہوں نے ہی تو سب کو منایا ہے مجھے لگتا ہے کل رات انہوں نے میری اور ارحم کی باتیں سن لی تھیں اسی لئے یہ سب ہوا ردا فوراً سمجھ گئی کے اسفند کس بات کا حوالہ دے رہا تھا اچانک سے اسے اپنا دل کا بوجھ سرکتا ہوا محسوس ہوا
وہ بھی زویا کی طرح جھوم جھوم کر بتانا چاہتی تھی کے وہ اس پل کتنی خوش ہے اسی لئے وہ جلدی سے دروازہ کھول کر اسفند کے پورشن کی طرف لپکی
زویا اسے یوں اچانک کمرے سے نکلتا دیکھ کر حیران رہ گئی
وہ اوپر ای تو اسفند ابھی بھی اسی جگہ اسی پوزیشن میں بیٹھا تھا
اسے دیکھ کر سیدھا ہوگیا جلدی آ گئی تم “کیا جواب دیا اس نے اور کیا حکم ہے اب میرے لئے
ردا نے اسکے جلے بھنے لہجے پر بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کی
نکاح تو تمھیں کل کرنا ہی پڑے گا اسفند اس نے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا
سب جانتے ہووے بھی تم یہ که رہی ہو”
جی سب جان کر ہی یہ که رہی ہوں”
امید ہے اپ بھی جان کر اعترض نہیں کریں گے وہ کہ کر نیچے چلی گئی اسفند حیرانی سے اسکی باتوں کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرنے لگا
مگر کچھ سمجھ نہ آیا تھوڑی ہی دیر بعد جب اوپر آ کر اسکی امی نے ردا سے رشتہ طے کرنے اور نکاح کے بارے میں بتایا تو اسے ردا کی باتوں کا مفہوم خوب اچھی طرح سمجھ آگیا
اچھا جی تو اپنے ہونے والے شوہر سے شرارت کر رہی تھی تمھیں تو میں کل بتاؤں گا ردا اسفند وہ دل میں سوچ کر مسکرا دیا
خالہ پلیز مان جایئں نہ حمنہ پچھلے آدھے گھنٹے سے انکا سر کھا رہی تھی نہیں بیٹا یہ غلط بات ہے کل اسکا نکاح ہے اتنی اہم بات اس سے چھپانا مناسب نہیں”
خالہ انہیں کونسا اس رشتے پر انکار ہے جو وہ منع کریں گے ہم تو بس چھوٹا سا مذاق کریں گے نا پلیز مان جایئں نہ ،نانی اپ ہی کہیں نہ خالہ کو وہ سب لڑکیاں نانی دادی ، خالہ اور زرینہ بیگم کو ٹی وی لونج میں لئے بیٹھی تھیں ردا تائی کے ساتھ شوپنگ کرنے گئی تھی لڑکے سب انتظامات سنھبھال رہے تھے
ہان نانی ماں جایئں نہ زویا کے کہنے پر حمنہ اور مناہل نے شور مچا دیا لیجئے نانی اب تو دلہن بھی بول پڑی اب تو مان جایئں اگر ارحم بھائی ناراض ہو بھی گئے تو بعد میں یہ اپنے دولہے کو خود ہی مناتی پھرے گی
ٹھیک ہے جو کرنا ہے کرو مگر اگر وہ ناراض ہوگیا نہ تو پھر مت کہنا “
ہراہ نانی زندہ باد حمنہ نے خوشی سے نعرہ لگایا باقی سب اسکا بچپنا دیکھ کر مسکرا دیے
—————————————
وہ زویا سے لڑ کر انے کے بعد سے ہی اپنے کمرے میں بند تھا یہ سوچ سوچ کر اسکا دماغ پٹھا جا رہا تھا کے آج زویا حسن کسی اور کی ہو جائے گی امی نے فون پر اس سے بےحد اسرار کیا تھا جب ہی وہ نکاح میں شرکت پر راضی ہوا تھا مگر یہ وہ ہی جانتا تھا کے اس وقت ہو کتنی تکلیف میں تھا صابر اس سے بہت لڑ جگڑ کر تیار کر کے یہاں لایا تھا یہاں پہنچتے ہی اسکی نظروں نے سب سے پہلے اس بیوفا کا چہرہ تلاش کیا تھا مگر وہ اسے یہاں کیوں نظر اتی وہ تو اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی اسفند کے لئے سج رہی ہوگی اس نے دل کو ڈانٹ کر خاموش کرا دیا
ارے ارحم بھائی اپ اتنے چپ چپ کیوں بیٹھے ہیں آپکو خوشی نہیں ہے کیا نکاح کی ؟ اسے لگا جیسے حمنہ نے اسکا بھید پا لیا ہے وہ گھبرا کر تھوڑا سا مسکرا دیا
حمنہ ہنستی ہوئی باہر چلی گئی
اس نے اک نظر سارے حال کمرے پر دوڑائی سب کتنے خوش لگ رہے تھے اک اسکا ہی دل اداس تھا اسکی نظریں اسفند کے چہرے پر ٹک گیں جو افہام سے بات کر رہا تھا خوشی اسکے ہر ہر انداز سے جھلک رہی تھی خوش تو افہام بھی لگ رہا تھا مگر ارحم کو اسفند سے نفرت محسوس ہوئی جلن کی آگ نے اسکے دل کو بھڑکا دیا مگر وہ اپنے ضبط کو مسلسل آزماتا ہوا وہیں بیٹھا رہا
کچھ ہی دیر میں نکاح خواں آ گیے
ارحم کو یہ لمحات ضبط کا پیالہ جھپکاتے ہووے محسوس ہووے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے زویا کو کسی اور کا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا اسی لئے خاموشی سے وہاں سے اٹھنے لگا مگر صابر نے ہاتھ پکڑ کر وہیں بیٹھا لیا ارحم کو اس وقت ساری دنیا کے ساتھ ساتھ صابر جیسا اچھا دوست بھی اپنا دشمن محسوس ہو رہا تھا
ارحم بیٹا تم بھی یہاں اسفند اور افہام کے ساتھ آ کر بیٹھ جاؤ نانی کے کہنے پر وہ بغیر اس بات پر غور کیے خاموشی سے انکے پاس آ کر بیٹھ گیا جی مولوی صاھب نکاح پڑھوانا شروع کریں سب سے پھل افہام کا نکاح پڑھوایا گیا
اسکے بعد مولوی صاحب اسکی طرف مڑے اور زویا سے نکاح کی رضا مندی مانگی اس نے حیران نظروں سے پہلے مولوی صاحب کو اور پھر باقی گھر والوں کو دیکھا بتاؤ بیٹا نکاح قبول ہے مولوی صاحب نے اک دفع پھر پوچھا
وہ جو پہلی بار میں اپنی غلط فہمی سمجھا تھا دوسری بار میں ہوش میں آیا بیٹا بولا نا زویا سے نکاح قبول ہے نا ؟ اب کی بار خالو نے پوچھا اس نے بے اختیار سر ہلایا دوسری اور تیسری بار میں بھی وہ حیرانی سے قبول ہے کہتا گیا اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آ رہا تھا
یہاں تک کے نکاح کے مراحل طے کر کے زویا کو اسکے ساتھ بیٹھا دیا گیا وہ تینوں جوڑے ساتھ بیٹھے تھے اور تینوں ہی آسمان سے اڑتے کوئی شہکار لگ رہے تھے
” کیا ہوا مسٹر ارحم آپکو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کیا “
زویا نے کچھ شرارت سے ارحم کی حیرانی پر طنز کیا
مجھے واقعی یقین نہیں آ رہا زویا کے تم میری ہو چکی ہو” اس نے زویا کے قیامت خیز حسن پر نظر ڈال کر کہا” تو یقین کر لیں شوہر صاحب کے اپ اک عدد خوبصورت بیوی کے مجازی خدا بن چکے ہیں زویا کی شرارتیں عروج پر تھیں ارحم کو اسکی دلفریب ادائیں اپنے دل پر بجلیاں گراتی محسوس ہو رہی تھیں
وہ بس اک ٹک اسے دیکھے گیا” زویا ارحم” اس نے سرگوشی کے انداز میں کھا
زویا نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
آج جان ارحم بہت خوبصورت لگ رہی ہے
زویا جو کب سے چلبلی سی دلہن لگ رہی تھی اک دم سے شرمیلی سے بن گئی ارحم کو اسکا یہ روپ پہلے سے بھی بڑھ کر لگا اب تو نہیں ڈانٹو گی نہ کلاس میں ارحم نے اچانک خیال انے پر پوچھا
زویا ہنس دی اگر اپ کسی لڑکی سے باتیں کرتے پاۓ گیے تو گھر میں تو آپکی ویسے بھی خیر نہیں ہوگی کلاس میں بھی آپکو چین سے نہیں رہنے دوں گی اب کی بار ارحم کا قہقہ گونجا حمنہ نے جلدی سے ہنستے ہووے ارحم اور اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتی زویا کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا
آپکو تھوڑا عجیب نہیں لگ رہا ؟ صابر بھی اسکے پاس آ کر کھڑا ہو گیا کیا مطلب ؟ ارے دیکھیں نہ آپکی بہن اور کزنز وہاں بیٹھی کتنی پیاری لگ رہی ہیں ذرا سوچیں تو ہم بھی اگر وہاں ہوتے تو کتنے اچھے لگ رہے ہوتے حمنہ اسکی بات پر اک پل کے لئے شرمائی مگر جلد ہی خود کو سنبھال کر وہاں سے ہٹ گئی صابر کے پاس کمیرہ تو نہیں تھا مگر اسکی آنکھوں نے ہی حمنہ کا وہ اک پل کا شرمانا قید کر لیا تھا
جی تو کیا که کر گئیں تھی کل اپ اسفند نے ردا کو پیار بھری نظروں سے دیکھ کر شرارت سے پوچھا
جی کچھ نہیں اس نے شرما کر سر جھکا لیا
اف ہاۓ یہ آپکی ادا اسفند نے سینے پر ہاتھ رکھ لیا ردا سر مزید جھکا کر ہنس دی
ہر کوئی اپنی زندگی کی اس شروات پر خوش تھا کیوں کے جو رشتے دل کے جڑے تھے اب انہیں نکاح کی سند مل گئی تھی
#ختم_شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...