ہفتہ کی رات رانا صاحب واپس آچکے تھے اور شادی کے مناسبت سے اگلے دو ہفتوں تک آفس کے کارکنوں کو کام سمجھا کر خود چھٹی لے لی تھی۔ مایوں مہندی ڈھولکی سارے تقریب اپنے زور و شور سے کئے گئے۔ روحان اور اس کے احباب نے سب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ رانا صاحب نے صرف بارات کے دن جانا مناسب سمجھا۔
وہ اس وقت سرخ رنگ کا شرارہ پہنے سجی سنوری سٹیج پر بیٹھی تھی۔ نور بھی مہرون کلر کے لہنگے میں ملبوس دلہن بنی تھی۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر حسین لگ رہی تھی۔ کرن نے آج بھی اپنا پوشاک اور میک اپ ہلکا ہی رکھا تھا اس کے باوجود بھی اس کا منور چہرہ سب کو اپنے جانب راغب کر رہا تھا۔
حادی قاضی صاحب کے ہمراہ سٹیج تک آیا اور نکاح کی رسم کروائی جانے لگی۔ نور نے خوشی خوشی قاضی صاحب کو رضامندی سنائی اور پیپر سائن کرنے لگی۔
کرن کا دل بھر آنے لگا اسے اپنے والدین اور انس چاچو کی بے حد کمی محسوس ہورہی تھی۔ گیلی سانس اندر کھینچ کر اس نے آنسو جھپکائے اور لرزتے ہاتھوں سے تیزی سے سائن کئے۔ نکاح ہوگیا تو سب نے ایک دوسرے کے گلے مل کر مبارک باد دی۔
رانا صاحب اور روحان گولڈن کلر کے شیروانی پہنے مہنگی گھڑی اور جوتے زیب تن کئے ہوئے سٹیج پر آئے اور اپنی اپنی دلہن کے ساتھ بیٹھ گئے۔
ہال میں موجود مہمان ان دونوں جوڑوں کو دیکھ کر مسرور ہورہے تھے لیکن سب سے زیادہ نظریں کرن اور رانا مبشر کے جوڑے پر مرکوز رہی۔ کچھ چیئں مگوئیاں بھی ہوتی رہی۔
شادی اچھے سے نپٹ جانے کے بعد نور اور روحان کو ہال سے ہی ایر پورٹ کے لیے نکلنا تھا انہیں ہنی مون کے لیے ورلڈ ٹور پر جانا تھا۔ ان کے جانے تک رانا صاحب اور کرن وہی رہے پھر ان کو رخصت کر کے رانا صاحب اپنی دلہن لیئے گھر کی جانب روانہ ہوئے۔
جب گھر پہنچے تو کرن کے سوچ کے بر عکس گھر خالی ملا۔ جو ان کے دو تین برائے نام کزن آئے تھے انہیں رانا صاحب نے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا تھا۔
آج باڈی مین کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہوچکا تھا وہ اپنے گھر جا چکا تھا اور ڈرائیور نے صرف ڈرائیو کیا۔ دروازہ خود کھول کر پہلے رانا صاحب اترے اور پھر کرن کی طرف کا دروازہ کھول کر ہاتھ آگے بڑھایا۔
کرن نے اس بلند و بالا بنگلے کو دیکھتے ہوئے ان کا ہاتھ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے شرارہ سنبھالتی کار سے اتری۔
اسی طرح ہاتھ تھامے وہ ان کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ چاروں سمت گھر کو دیکھتی وہ حیرت میں آگئی تھی۔ گھر بلکل صاف تھا اور ہر چیز نفاست سے اپنی جگہ پر رکھی ہوئی تھی جیسے اس گھر میں کوئی رہتا ہی نہیں ہو۔
لاؤنج میں سے گزرتے ہوئے وہ رانا صاحب کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگی فضا کی خاموشی میں صرف اس کے ہیل کی ٹک ٹک آواز سے خلل پڑ رہا تھا۔ اوپر ایریا میں پہلا کمرا رانا صاحب کا تھا۔ رانا صاحب آگے آئے اور کمرے کی لائٹس روشن کی۔ کمرا کرن کی سوچ سے کافی بڑا تھا اور جگہ جگہ تازا پھولوں کے گلدستے رکھ کر سجایا گیا تھا۔ کمرے کے ماحول کو تازا پھولوں کی خوشبو معتر کر رہی تھی۔
“ویلکم مائی لیڈی” رانا صاحب نے ہاتھ پھیلا کر کمرے کے اندر اشارہ کیا اور اسے اندر آنے کی دعوت دی ۔
کرن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی وہ پہلوؤں سے شرارہ اٹھائے قدم قدم چلتی اندر آئی۔ رانا صاحب نے دروازہ بند کیا اور پیچھے سے کرن کے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔
“کیسا لگا اپنا گھر۔۔۔۔۔۔اور اپنا کمرہ۔” رانا صاحب نے جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔
“بہت اچھا” کرن نے بنا مڑے ہلکے آواز میں کہا۔ اسے رانا صاحب کے اپنے اتنے قریب ہونے پر بیچینی ہو رہی تھی اس کا ہارٹ ایک بیٹ مس کر گیا۔ اس کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔
اپنا گھر۔۔۔۔ اپنا کمرہ۔۔۔ سن کر کرن کو بہت اچھا لگا۔ انہیں رانا صاحب کے اس انداز پر بہت پیار آیا۔ کچھ دن پہلے کا ان کا رویہ اس کے ذہن سے پوری طرح مہو ہو گیا تھا۔
رانا صاحب اس کے آگے آئے اور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا۔ جیسے جیسے وہ نزدیکی بڑھا رہے تھے کرن کنفیوز ہورہی تھی۔ رانا صاحب نے سایئڈ ٹیبل کے دراز سے ایک نیکلیس نکالا اور کرن کو پیش کیا۔ نیکلیس دیکھ کر کرن کی آنکھیں چمک گئی اس نے جھکی نظروں سے جیولری کا ڈبہ لیا اور سایئڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
” تھینکیو” اس نے بلش کرتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب اس کے قریب کھسکے لیکن کرن کا شرارہ اتنا بھاری اور بڑا تھا کہ خود رانا صاحب کو اس سے الجھن ہونے لگی۔
“تم ایک کام کرو پہلے جا کر چینج کر لو۔۔۔۔۔ comfortable (آرام دہ) ہوجاؤ” رانا صاحب اس کے سامنے سے اٹھے اور ڈریسنگ روم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
کرن نے ڈریسنگ روم میں جھانک کر دیکھا وہاں پہلے سے اس کا بیگ موجود تھا تو شرارہ پہلوؤں سے اٹھاتے ہوئے وہ بیڈ سے اتری اور چینج کرنے چلی گئی۔
اس نے کپڑے تبدیل کر کے سادہ کرتا پاجاما پہنا اور دوپٹہ گلے میں ڈالا۔ میک اپ اور جیولری اتار کر ہچکچاتی ہوئی باہر آئی۔ جب وہ ڈریسنگ روم سے باہر آئی تب تک رانا صاحب بھی چینج کر چکے تھے۔ شب خوابی کی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے وہ آئینہ کے سامنے کھڑے ہاتھوں پر کریم لگا رہے تھے جب شیشے میں کرن کا عکس دیکھائی دیا۔ وہ پیچے مڑے اور دلکش نظریں کرن پر جمائے سر تا پیر اسے دیکھتے ہوئے قریب آئے۔ وہ سر جکھائے اپنی جگہ منجمد کھڑی ہوگئی تھی۔
رانا صاحب نے دل فریبی سے اس کی کمر پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا اور اپنی بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے اس کی گردن پر جھک گئے۔ کرن نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور مٹھیاں سختی سے مینچ لی دھڑکن برق رفتاری سے بھی تیز چل رہی تھی۔ وہ انہیں خود سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن اس کا رانا صاحب سے نکاح ہوچکا تھا وہ اب پورے شرعی حکم سے اس کا شوہر تھا اپنے ہر فرض کی طرح وہ بیوی ہونے کا فرض بھی اچھے سے نبھانا چاہتی تھی۔
***************&&&&***************
اگلی صبح آفتاب اپنے پورے تاب سے چمک رہا تھا۔ کرن کی نیند 11 بجے کے قریب کھلی۔ اس نے جمائی روکتے ہوئے آنکھیں جھپکائی اور عنودگی ختم کرنے کی کوشش کی۔ نظریں گھما کر آس پاس دیکھا کمرا اب بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا کھڑکیوں کے آگے پردے برابر کئے ہوئے تھے۔
اسے اپنی نئی زندگی کی پہلی صبح کا احساس ہوا تو دل ہی دل خوشی سے مسکرانے لگی۔
سستی سے کروٹ بدلا تو بیڈ کے دوسری طرف رانا صاحب کو سوتے ہوئے پایا۔ ان کے چہرے کے نقش و نگار کو دیکھتی اسے رات کے لمحات یاد آئے۔ ان کے چہرے پر سے ہوتے ہوئے اس کی نظریں رانا صاحب کے برہنہ کندھے پر جا ٹھہری اسے اچانک شرم محسوس ہوئی اور رخ موڑ کر بلش کرنے لگی۔ اپنے آپ پر تعجب کرتے ہوئے اس نے پیشانی مسلی اور رانا صاحب کے لیے اپنے جذبات جھٹک کر فریش ہونے چلی گئی۔
وہ فریش ہو کر تولیہ میں بال سکھاتے ہوئے واشروم سے باہر آئی تو بیڈ خالی تھا پردے ہٹے ہوئے تھے کمرا روشنی سے منور ہورہا تھا۔ بیڈ شیٹ سے لیکر کمبل تک ہر چیز بہت ترتیب اور نفاست سے رکھی گئی تھی۔ اس نے بالوں کو تولیہ میں رگڑتے ہوئے حیرانگی سے دیکھا رانا صاحب کہی نہیں دکھے۔ وہ اسی حیرت انگیزی کا شکار تھی کہ ٹھٹک گئی۔ رانا صاحب اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کے گیلے بالوں میں لمبی سانس لیتے ہوئے تازہ مہک سے محظوظ ہورہے تھے۔
“رانا صاحب۔۔۔۔ ڈرا دیا مجھے۔” اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب نے اسے بازووں سے تھام لیا
“اس گھر میں میرے اور تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور میں تمہارا شوہر ہوں۔۔۔۔۔ اس لیے مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” انہوں نے فخریہ انداز میں آبرو اچکا کر مسکراتے ہوئے کہا۔
کرن صرف مسکرا دی اور نظریں جھکا لی۔ رانا صاحب اس کی گیلی لٹوں میں ہاتھ پھیرتے اس کے لبوں پر جھکنے لگے تھے جب کرن نے انہیں روک لیا۔
“رر رانا صاحب۔۔۔۔۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔۔۔ کچھ کھا لیتے ہیں۔” اس نے معصومانہ انداز میں التجا کی۔
“بھوک لگی ہے ” رانا صاحب نے اس کی بات دہرائی۔
“جی۔۔۔۔ بہت۔۔۔ کل بھی شادی کے ٹینشن سے ٹھیک سے کھا نہیں پائی۔” اس نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب اس کی مرضی کا احترام کرتے ہوئے سایئڈ ٹیبل پر پڑے وائر لیس کے پاس آئے اور بٹن پر کلک کر کے ملازمہ کو مخاطب کیا۔
“شمائلہ۔۔۔۔۔۔ ناشتہ لگاو۔۔۔۔۔۔ ہم نیچے آرہے ہیں۔ ” انہوں نے ملازمہ کو اطلاع دی اور کرن کے پاس آئے۔
“ناشتے کے لیے بول دیا ہے۔۔۔۔۔ تم تیار ہوجاو میں فریش ہو کر آتا ہوں۔” انہوں نے اپنایئت سے کہا اور واشروم کے جانب بڑھ گئے۔
کرن ان کی بات پر سر ہلاتی ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔ آدھ گھنٹے بعد وہ تیار ہوئی۔ اس نے سبز ہلالی رنگ کا فراک پہنا اور لمبے بال کمر پر کھلے رکھے۔ ہلکا سا میک اپ کیا اور جیولری کے نام پر جھمکے پہن کر کمرے سے باہر آگئی۔
ریلنگ پر ہاتھ پیھرتی وہ قدم قدم سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔ آج تک وہ جس پیار جس اپنایئت کے کمی کا شکار رہی تھی وہ رانا صاحب سے شادی کر کے پوری ہورہی تھی۔
اب اس کا بھی گھر ہے اپنا شوہر ہے آگے جاکر فیملی ہوگی بچے ہونگے یہ سب سوچ کر ہی وہ مسرور ہو رہی تھی اس نے رانا صاحب کو تسلیم کر لیا تھا اور ان کے ساتھ اپنے مستقبل کے تصورات میں مشغول وہ ڈائننگ ایریا میں آئی۔
اور ڈائننگ ٹیبل کو دیکھا جو فائف سٹار ہوٹل کے ٹیبل کی طرح سجایا گیا تھا۔
“گڈ مارننگ میڈم” ملازمہ ہاتھ باندھے آگے آئی اور سر کو خم دے کر احترام پیش کیا۔
کرن خوش دلی سے اس کی بات پر مڑی۔
“گڈ مارننگ۔۔۔۔ اتنا سارا ناشتہ۔۔۔۔ پر ہم تو صرف دو ہے۔۔۔۔ روحان اور نور تو ہنی مون کے لیے گئے ہیں۔ ” اس نے حیرانگی سے کہا۔ اسے لگا ملازمہ کو پتا نہیں تھا اور انجانے میں ضرورت سے زیادہ ناشتہ بنا دیا ہے۔
ملازمہ پہلے تو حیران ہوئی پھر ٹیبل پر کئے اہتمام سے مطمئن ہوئی۔
“میڈم۔۔۔۔ روز اتنا ہی ناشتہ بنتا ہے۔” اس نے کنکارتے ہوئے کرن کی اصلاح کی۔
کرن نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے ایک کپ اٹھا کر اس میں چائے انڈیلی۔ ملازمہ کچن میں جانے لگی کہ کرن نے اسے مخاطب کیا۔
“سنو۔۔۔۔ رانا صاحب چینی کتنی لیتے ہے۔” اس نے چینی دان اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
“جی۔۔۔۔ ایک چمچ۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ پہلے چائے نہیں پیتے۔۔۔۔۔ جوس سے شروعات کرتے ہے۔” ملازمہ نے پھر کرن کی اصلاح کی۔ کرن متذبذب سی ہوگئی۔
ملازمہ نے قدموں کی چاپ سنی تو گڑبڑا گئی اور کرن کے آگے سے چائے والا گلاس اٹھا کر کچن جانے لگی۔
“ارے۔۔۔۔ کہاں لے جا رہی ہو” کرن نے حیرانگی سے پوچھا
“جی۔۔۔۔ پھینکنے۔۔۔۔” ملازمہ نے ہڑبڑی میں جواب دیا۔
“لیکن پھینک کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔۔ میں پی لوں گی رزق ہے۔۔۔۔ ضائع نہیں کرنا چاہیے” کرن نے نرمی سے مخاطب کیا لیکن بھاری قدموں کی چاپ قریب ہوئی تو ملازمہ کرن کی بات کو نظر انداز کرتے تیزی سے کچن میں بھاگ گئی۔
کرن کو بہت حیرت ہوئی۔ اسے ملازمہ بہت اسراف کرنے والی لگی اس نے اسے سمجھانا چاہا جب رانا صاحب نے اسے مخاطب کیا۔
“کرن۔۔۔۔ تمہیں کچھ اور کھانا ہو تو شمائلہ کو بتاو وہ بنا دیں گی۔” رانا صاحب نے سربراہی کرسی پر تشریف رکھتے ہوئے کہا۔وہ آج بھی پینٹ اور چیک شرٹ پہنے بال بنائے تہذیب سے تیار ہوئے تھے۔
“نہیں۔۔۔ یہی سب ٹھیک ہے۔” اس نے ٹیبل پر پڑے لوازمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس میں انڈا جیم ڈبل روٹی چائے کارن فلیکس جوس پنیر خشک میوہ کے ساتھ ساتھ سلاد اور تازہ پھل بھی رکھے ہوئے تھے۔
رانا صاحب نے نیپکن گھٹنوں پر پھیلایا اور جوس کا گلاس اٹھایا۔ گھونٹ گھونٹ کر کے جوس پیتے ہوئے وہ اخبار دیکھنے لگے۔ کرن سے مارے بھوک کے اب صبر نہیں ہورہا تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھی اور پلیٹ میں ہر ڈش سے تھوڑا تھوڑا نکال کر رکھا پھر کانٹا چھری کے بجائے ڈبل روٹی میں نوالہ بنا کر ہاتھ سے کھانے لگی۔
اس کا یہ طریقہ دیکھ کر رانا صاحب اپنے تاثرات ضبط کر گئے جبکہ ان کے پیچے ہاتھ باندھے کھڑی ملازمہ کو پریشانی سے پسینہ آنے لگا۔
جوس ختم کر کے رانا صاحب نے پہلے تازہ پھل پلیٹ میں ڈالے اور کانٹے سے ایک ایک ٹکڑا منہ میں ڈالتے وہ بزنس مین کے مینر سے ناشتہ کرتے رہے۔ ناشتہ کر لینے تک مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ وہ نیپکن سے منہ صاف کر رہے تھے جب کرن برتن اٹھاتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔ رانا صاحب نے تیزی سے ساتھ کھڑے ہوکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
“یہ کیا کر رہی ہو” انہوں نے کرن کے ہاتھ پر دباؤ دیتے ہوئے کہا۔
“برتن اٹھا رہی ہوں” اس نے متذبذب سی ہوکر کہا۔
رانا صاحب کے تاثرات سنجیدہ ہوگئے آواز ڈٹ گئی۔
“ملازمہ ہے نا کرنے کے لیے۔۔۔۔۔ مت بھولو تم اب رانا مبشر کی بیوی ہو۔۔۔۔۔ یہ میرا گھر ہے تمہارے نگار چچی کا نہیں۔۔۔۔۔ رانی بنا کر لایا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔ اپنی یہ نوکرانی والی عادتیں چھوڑ دو۔” رانا صاحب نے دبے آواز میں دانت پیستے ہوئے اسے جھڑک دیا۔
کرن لب کاٹتی سر جھکائے ان کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن ان کی پکڑ بہت مظبوط تھی وہ ناکام رہی۔
“اور ایک اور بات۔۔۔۔۔ میرے کچھ قائدہ قانون ہے۔۔۔۔ جتنی جلدی تم سیکھ لو گی۔۔۔۔ اتنا ہی میرے ساتھ اڈجسٹ ہونے میں آسانی ہوگی۔۔۔۔۔ سمجھ آئی۔ ” انہوں نے سرد مہری سے ماتھے پر بل بنائے ہوئے کہا۔
کرن نے اثابت میں سر ہلایا اضطراب ضبط کرنے سے اس کی آنکھیں سرخ پڑنے لگی۔
اس کا ہاتھ چھوڑ کر رانا صاحب سرد سانس خارج کر کے خود کو کمپوز کیا اور ملازمہ کو بلایا۔ ملازمہ پھرتی سے آئی اور تہذیب سے ہاتھ باندھے کھڑی ہوگئی۔
“شمائلہ۔۔۔۔ میڈم کو میرے طریقہ کار سے ٹیبل مینر بتا دینا۔” اسے حکم صادر کر کے وہ واپس کرن کی طرف متوجہ ہوئے۔
“چلو۔۔۔۔ تمہیں کچھ دکھانا ہے۔” رانا صاحب نے نرمی سے اس کا بازو تھپتھپایا اور آگے بڑھ گئے۔
کرن پہلے ہی دن مزید ڈانٹ نہیں کھانا چاہتی تھی اس لئے ان کے پیچے چل دی۔
اوپر پورشن کا آخری کمرا رانا صاحب نے کرن کے لیے مخصوص کیا تھا۔ کمرے کے دونوں دیواریں الماری سے ڈھکی تھی۔ رانا صاحب ان میں سے ایک الماری کے پاس آئے اور پلا کھول دیا۔ اندر ایک سے بڑھ کر ایک دل دھلا دینے والے مہنگے ترین اعلی پوشاک ہینگ کئے ہوتے تھے۔ دوسری الماری کھولی تو مہنگے جوتوں اور بیگز کی بھر مار لگی تھی اور ایک حصہ میں سونا چاندی ڈائمنڈ کی جیولری سجائی گئی تھی۔ کرن شاکی نظروں سے سب چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔
“ان میں سے کچھ پہن لو۔” رانا صاحب نے الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“لیکن ابھی تو کہیں جانا نہیں۔۔۔۔ ” کرن نے حیرت سے کہا پر رانا صاحب کے آبرو تن گئے تو اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔
“میرا مطلب۔۔۔۔ گھر میں اتنا سب پہننے کی عادت نہیں ہے تو۔” اس نے رخ موڑ کر وضاحت دی۔
“میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی میرے سامنے ہر وقت سجی سنوری رہے۔۔۔۔ رانا مبشر کی بیوی کی پرسنیٹلی بھی اتنی ہی شاندار ہو۔۔۔۔ تمہیں ہر وقت باوقار لگنا چاہیے ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے عادت بنا لو ان سب کی۔” انہوں نے سنجیدگی سے پر نرم لہجے میں سمجھایا۔ کرن اب بھی غیر آرام دہ سی الماری کو دیکھ رہی تھی جب رانا صاحب کا موبائل بجنے لگا۔
“ہاں میرا بچہ۔۔۔۔۔ کیسا ہے۔۔۔۔۔” رانا صاحب نے فون سپیکر پر کر کے بات کی پہل کی۔
“ایک دم فٹ رانا بھائی۔۔۔۔۔ آپ کیسے ہے اور کرن کیسی ہے۔۔۔۔۔۔۔ انجوائنگ۔” روحان نے پھرتیلے انداز میں جواب دیا۔
“بھابھی۔۔۔۔۔ بھابھی بلاو اسے۔۔۔۔۔ تمہارا اب اس سے تعلق بدل گیا ہے۔۔۔۔۔ show some respect۔۔۔۔۔ اور میرا فون سپیکر پر ہے کرن میرے ساتھ ہی ہے۔” رانا صاحب نے اس کی اصلاح کی۔ کرن کا شرم سے چہرہ سرخ پڑنے لگا۔
“اوو۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ کرن۔۔۔۔ میرا مطلب بھابھی۔۔۔۔ میں تو بھائی سے مین ٹو مین مذاق کر رہا تھا پلیز مائند مت کرنا۔ ” روحان کو اپنے بے وقت مذاق پر شرمندگی ہوئی اس نے کرن سے معذرت چاہی۔
“کوئی بات نہیں روحان۔۔۔۔ آپ کیسے ہو اور۔۔۔۔ نور کیسی ہے” کرن نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ رانا صاحب فون اس کے آگے پکڑے خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
“نور تو بہت مزے میں ہے۔۔۔۔ جہاں دیکھو سیلفی لینے کھڑی ہوجاتی ہے۔۔۔۔ اتنا نہیں خیال کہ میرے کھانے پینے کا پوچھ لے۔” روحان نے جعلی خفگی ظاہر کرتے ہوئے کہا اور پیچھے موڑ کر نور کو دیکھا وہ ابھی بھی کسی مجسمے کے ساتھ کھڑی ہو کر سیلفیاں لی رہی تھی۔
“کوئی بات نہیں۔۔۔۔ سمجھ جائے گی۔” کرن نے پھیکا مسکرا کر جواب دیا۔
“اچھا بچہ۔۔۔۔ پھر بعد میں بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور تم اپنا ٹور بڑھا دو۔۔۔۔ 6 مہینے کر لو۔۔۔۔ زندگی کے مزے لو۔” رانا صاحب نے شفقت سے اس سے کہا۔ روحان نے شکریہ ادا کیا اور الوداع کرتے ہوئے فون کاٹ دیا۔ رانا صاحب فون جیب میں ڈال کر واپس کرن کی جانب مڑے تو کرن ہڑبڑا کر الماری کی طرف متوجہ ہوئی۔
ایک جامنی کلر کا ڈیزائنر سوٹ نکالا فلیٹ چپل اور ساتھ میں موتیوں کی لڑی والا ڈائمنڈ نیکلیس۔
رانا صاحب کو کرن کے ان کی فوراً سے بات ماننے والے انداز نے محظوظ کیا۔
“تھینکیو۔” انہوں نے پیار سے کرن کے گال پر بوسہ دیا اور کمرے سے باہر نکل گئے۔
ان کے کمرے سے نکل جانے کے بعد بھی کرن اضطراب میں رہی۔ وہ سست روی سے چکر کاٹنے لگی۔ اس کے دل میں رانا صاحب کو لے کر پھر سے خدشات بن رہے تھے۔
“کتنے تیزی سے مزاج بدلتے ہے ان کے۔۔۔۔۔ کبھی شولہ کبھی شبنم۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ایسا لگتا ہے جنون کی حد تک مجھ سے محبت کرتے ہے۔۔۔۔ اور کبھی لگتا ہے۔۔۔۔ میں صرف ان کے ہاتھ کی کٹپتلی ہوں۔۔۔۔۔ صرف شو پیس ہوں جو ان کے اشاروں پر ناچتی رہوں گی۔” اس نے سوچتے ہوئے سر پکڑ لیا۔
زندگی نے اسے پھر سے ایک امتحان میں ڈال دیا تھا۔
وہ خود کو کوسنے لگی۔
“کتنی بڑی غلطی کر دی میں نے یہ شادی کر کے” اس نے افسردگی سے کہا۔
“یا اللہ۔۔۔۔۔ مجھے حوصلہ دے۔۔۔۔ ہمت دے کہ میں اپنی شادی آپ کے حکام اور فرائض کے مطابق نبھا سکوں” اس نے آہ بھرتے ہوئے دعا کی اور سر جھٹک کر چینج کرنے چلی گئی۔
************&&&&&***********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...