(Last Updated On: )
صبح سے ہی وہ گھر میں ہلچل محسوس کر رہی تھی لیکن ناراضگی کی وجہ سے کسی سے پوچھا نہ تھا۔۔ وہ سمجھی شاید ماہا کے سسرال والوں کا آنا متوقع ہے کیونکہ اڑتی اڑتی خبر تو اسے مل چکی تھی کہ آہان کہ فیملی نہیں۔۔
اس لیے وہ کان بند کیے کمرے میں بیٹھی مووی دیکھ رہی تھی کہ اسے ان سب سے کوئی سروکار نہین تھا۔۔
جب انہیں میری پرواہ نہیں تو میں کیوں کروں۔۔ منہ مین بڑبڑاتی وہ مسلسل لاپرواہ ببی ہوئی تھی جب اماں کمرے میں جوڑا لے کر داخل ہوئی۔۔
یہ پہن لو۔۔ بیڈ پہ رکھتے انہوں نے خلاف معمول اسے پیار سے دیکھا۔۔
کیا موقع ہے۔۔ وہ چونکی۔۔
آج نکاح ہے تمہارا آہان کے ساتھ۔۔ اماں کے الفاظ کم اسے بامب ذیادہ لگے تھے جو اسکی سماعتوں پہ گرے تھے۔۔
نکاح۔۔ سرگوشی نما آواز میں وہ بولتی حیران ہوتی اماں کو دیکھ رہی تھی۔۔
کیسا نکاح۔۔ کونسا نکاح۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہے آپ۔۔ حور کو تو کچھ سنجھ نہیں آ رہا تھا یہ ہو کیا رہا ہے۔۔
تمہارا نکاح میری جان اور آہان کھ ساتھ۔۔ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔۔ انہوں نے اسے پیار سے بہلایا۔۔
ہر گز نہیں۔۔
تو ٹھیک ہے پھر میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی۔۔ وہ بھی اسی کی ماں تھی۔۔
آپ مجھے ایموشنل بلیک میل نہیں کر سکتی۔۔ پہلے ہی آپ کا کہا مان کر میں منگنی کر چکی ہوں۔۔ اور اب آپ جو بھی کر لیں میں نکاح نہیں کروں گی۔۔ وہ فیصلہ کر چکی تھی۔۔ غصے سے کہتی وہ واشروم میں گھسی اور دروازہ دھڑام کی آواز سے بند کر دیا۔۔
جبکہ اماں باہر کھڑی تاسف سے سر ہلا گئی۔۔
@@@
کیا ہوا اماں۔۔ مہمان آنا شروع ہو چکے تھے اور حور نے تو بلکل ہی ہاتھ اٹھا لیے تھے۔۔ وہ پریشان سی اپنے کمرے میں داخل ہوئی جہاں ماہا گفٹس کی پیکنگ کر رہی تھی۔۔
وہ نہیں مان رہی۔۔ اپنا سر ہاتھوں پہ گراتے ان کی آنکھ سے ایک آنسو گرا۔۔
کون نہیں مان رہی۔۔ وہ جو روم میں داخل ہوا تھا یہ جاننے کے لیے کہ کوئی کام ہے تو بتائیں لیکن اماں کو روتے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا۔۔
حور بھائی۔۔ حور نہیں مان رہی۔۔ اماں کے ہاتھ کے اشارے کے باوجود ماہا بول پڑی تھی کیونکہ اماں نے تو اسے کچھ کہنا نہین تھا۔۔ اپنی بھرم کی حفاظت بھی تو کرنی تھی۔۔
میں دیکھتا ہوں۔۔ جن قدموں سے آیا تھا وہ انہی قدموں سے واپس حور کے کمرے کی دروازے کی جانب بڑھا۔۔ بغیر کسی مروت و لحاظ کے دروازہ زور سے کھولا۔۔ وہ جو ابھی واشروم سے منہ دھو کر نکلی تھی۔۔ آہان کو سامنے دیکھ کر حیران ہوئی۔۔
یہ کیا طریقہ ہے۔۔ آپ کو کسی نے تمیز نہیں سکھائی۔۔ وہ غصے سے چلائی۔۔
تمہیں نہین لگتا تن مجھ سے کچھ ذیادہ بد تمیزی سے بات کرنے لگی ہو۔۔ نظریں اس پہ ٹکاتا وہ ایک ایک قدم اسکی جانب بڑھا رہا تھا۔۔
کک۔۔ کیا مطلب۔۔ جیسے جیسے وہ قدم آگے بڑھا رہا تھا ویسے ویسے وہ پیچھے لے کر جاتی دیوار کے ساتھ جا لگی۔۔
مطلب مطالب سب سمجھاؤں گا لیکن نکاح کے بعد۔۔ اس کے اطراف میں دیوار پہ ہاتھ جمائے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔
اوہ مسٹر فوجی بھول جاؤ کہ ہمارا نکاح ہو گا۔۔ میں تمہاری چوکی نہیں جسے تم آسانے سے فتح کر لو گے۔۔ اسکی قربت کی پرواہ کیے بغیر وہ دیدہ دلیری سے بولی۔۔
واقعی۔۔ اسکے اور خود کے درمیان فاصلہ ختم کرتا وہ اسکی بولتی بند کروا گیا تھا۔۔
یہ۔۔ یہ کیا برتمیزی ہے۔۔ حور کا اشارہ اسکی قربت کی طرف تھا۔۔
بدتمیزی۔۔ ہاں۔۔ اور جو تم تب سے کر رہی ہو اسکو کس میں شمار کرو گی۔۔ ایک تو اسکی قربت دوسرا اسکا لہجہ حور تو سچ میں ڈگمگا گیی تھی۔۔
تم کیا سمجھ رہے ہو۔۔ اس طرح کہ حرکتیں کر کے تم مجھے نکاح کے لیے راضی کر لو گے تو یہ تمہاری بھول ہے میں ابھی سب کو چیخ چیخ کر اکٹھا کر لوں۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ بولتی آہان نے بڑے پیار سے اپنے لب اسکے گال پہ رکھ دیے تھے وہ جو اور کچھ کہنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔
حیرت سے اسکی زبان کنگ ہو گئی تھی۔۔
تم ایک نہایت ہی گھٹیا انسان ہو۔۔ میں ابھی جا کر اماں کو بتاتی ہوں۔۔ اس کو دھکا دے کر وہ باہر دروازے کی جانب گئی ہی تھی کہ آہان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے کوئی تمہاری بات کا یقین کرے گا۔۔ وہ اسکی طرف دیکھ تو نہیں رہی تھی پر اسکے لہجے میں موجود بنز اچھے سے سنجھ رہی تھی۔۔
جاؤ جس کو بتانا ہے بتاؤ جا کر۔۔ کوئی یقین نہیں کرے گا۔۔ ہاتھ سے اسے اپنی جانب دکھیلتا وہ جیسے اس پہ اپنی اہمیت جتا رہا تھا۔۔
تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ نکاح نامے پہ سائن کر دو۔۔ اور پوری دلی رضامندی کے ساتھ۔۔ ورنہ اس سے ذیادہ گھٹیا پن تمہیں میں دکھا سکتا ہوں۔۔ اور پھر سب کق دلاتی رہنا یقین۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں تھا فورا کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔ جبکہ پیچھے حور نے بے بسی سے اپنے سو کالڈ نکاح کے جوڑے کی طرف دیکھا تھا۔۔
@@@
کیا بنا۔۔ وہ جونہی کمرے میں داخل ہوا اماں اسکی طرف لپکی۔۔
کچھ نہیں اماں۔۔ وہ نکاح کے لیے تیار ہے۔۔ آپ بھی تیار ہو جائین۔۔ مہمان آنا شروع ہو گئے ہیں۔۔ انکے کندھے پکڑتا وہ انہیں مسکرا کر اطلاع دے رہا تھا۔۔
لیکن بیٹا کیسے مان گئی وہ تو میری قسم پہ بھی نہ مانی تھی۔۔ اماں ابھی تک حیران تھی۔۔
اماں آپ اس سب کی فکر نہ کریں۔۔ بس تیاری کرے اب۔۔ اور مجھے بتائیں اب میرے یا فائق کے لائق کوئی کام ہے۔۔ تابعداری سے کہتا وہ جھکا۔۔
نہیں میرا بیٹا۔۔ سارے کام تو تم کر چکے ہو بلکہ جو کام میرے کرنے کا تھا وہ بھی کر دیا۔۔ اللہ تمہیں دنیا اور آخرت کی خوشیاں اور کامیابیاں دے۔۔ اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتی وہ اسے مسلسل دعائیں دے رہی تھی۔۔
جس پہ ماہا اور آہان دونوں نے آمین کہا تھا۔۔
اماں اب آپ شرمندہ کر رہیں ہیں۔۔ چلیں آپ حور کو تیار کریں۔۔ میں بھی گھر جا کر تیار ہو جاؤں۔۔ ان سے اجازت لیتا وہ باہر کی طرف چلا گیا تھا جبکہ ااماں پیچھے تک اسے پیار سے دیکھتی رہی تھی۔۔
@@@
وہ اس وقت مسز حور آہان بنے اسکے کمرے میں موجود تھی۔۔
تو کیپٹن آہان تم نے اپنی ضد پوری کر ہی لی۔۔ جب اس سے نکاح کی قبولیت کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا تب اس نے شدت سے اسکے مرنے کی دعا کی تھی کہ خود کو تو حور کسی طور نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔۔
ہاں میں خود کو نہیں پراسے تو نقصان پہنچا سکتی ہوں نا۔۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھبے ہی لگی تھی جب دروازہ ناک ہوا۔۔
کون۔۔ اس کے پوچھنے پہ ایک کم سن لڑکی اندر داخل ہوئی تھی جو دکھنے میں کوئی کام والی لگ رہی تھی۔۔
باجی وہ صاحب کہہ رہے ہیں۔۔ آپ نے کچھ کھانا ہے تو لاؤں۔۔ دفوازے سے سر نکالے ہی اس نے پوچھا تھا یوں لگتا تھا جیسے اسے اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔۔
ہاں ایسا کرو کھانا لے آؤ۔۔ کچھ سپائسی کھانے کو دل کر رہا تھا۔۔ بلکہ ساتھ میں لال مرچ کالی مرچ اور نمک بھی لے آؤ۔۔ میں اپنے حساب سے اندر ڈال لوں گی۔۔ جاؤ جلدی جاؤ۔۔ کام والی اسکا حکمسن کر نکل تو آئی تھی پر ابھی تک پرہشان تھی کہ بغیر پکنے کے یہ مرچیں سالن میں رچیں گی کیسے۔۔ لیکن پھر خود کی کندھے اچکاتی کھانا لینے چلدی۔۔
وہ ہنستے ہوئے بیڈ سے اٹھی تھی۔۔ اور اپنی سوچ پہ ہنس رہی تھی۔۔
ہائے حور کیا مست آئیڈیا آیا ہے تمہارے دماغ میں۔۔ ابھی وہ اپنی سرشاری پہ خوش ہو ہی رہی تھی کہ دروازہ پھر سے ناک ہوا اور ملازمہ کھانا اور اور اسکی “مرچیں” لے آئی تھی۔۔ اور انہی قدموں واپس چلی گئی تھی۔۔
کچھ سوچ کر اس نے سب سے پہلے اپنے کپڑے چینج کیے اپنی جیولری رکھی۔۔ اور اب بڑے احتیاط سے لال مرچ کا ڈبہ اٹھایا اور وہاں سے پاؤڈر کا۔۔ دونوں چیزوں کا آپس میں مکس کیا۔۔ اور آہان والی سائڈ پہ لگا کر اوپر کمبل دے دیا۔۔ پھر لیمپ آف کر کے دیکھا لیکن خوش قسمتی سے چادر بھی سرخ اور سفید امتزاج کی تھی اس لیے پتہ نہیں چل رہا تھا۔۔
پھر اس نے نمک کا ڈبہ اٹھایا اور آدھے سے ذیادہ پانی میں ڈال کر تینوں ڈبے چھپا دیے۔۔
اب وہ سکون سے اپنی سائڈ پہ لیٹ کر سو گئی تھی کہ جو وہ کام کرنا چاہتی تھی وہ ہو گیا۔۔