(Last Updated On: )
ان کے گھر سے نکلنے کے بعد ارسلان سیدھا حسین صاحب کے پاس گیا تھا جو اسے دیکھ کے حیران ہوئے تھے کہ کہاں کل ان کے بلانے پہ بھی نہیں رکا تھا اور اب اگلے ہی دن آ گیا ہے
“ہو گئے قابل خود سے نظریں ملانے کے؟” حسین صاحب نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا
“ہاں پہلے آپ کی بیٹی سے معافی مانگی ہے اس لیے اپنی نظروں میں تھوڑا سرخرو ہوا ہوں اور اس کے بعد یہاں آپ کے پاس آیا ہوں” اس نے ہولے سے جواب دیا تھا حسین صاحب نے بیٹی کے نام پہ چونک کے اسے دیکھا تھا
“ہاں میں زیادہ مجرم نویرہ کا تھا کیونکہ میرا نام لے کر اس پہ کیچڑ اچھالا گیا تھا میں آپ کے سامنے ہی معافی مانگنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں ہوئی اس لیے آپ کی غیر موجودگی میں گیا اور اب آپ کو بتا بھی اس لیے رہا ہوں یہ نہ ہو آپ کسی اور کے منہ سے یہ بات سنیں اور میرے یا نویرہ کے لیے آپ کے دل میں کوئی شک پیدا نہ ہو” ان کا چونکنا محسوس کر کے ارسلان نے وضاحت کی تھی جس پہ حسین صاحب مسکرائے تھے
وہ جانتے تھے وہ پہلے بھی کئی دفعہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر جا چکا ہے مگر پہلی دفعہ کسی اور ارادے سے گیا تھا اور اس نے یہ بات چھپائی نہیں تھی اس کی اس بات نے حسین صاحب کو مزید اس کا گرویدہ بنایا تھا
“اچھا تو اب صاحب بہادر کی شرمندگی دور ہو گئی ہے؟” حسین صاحب نے ہنکارا بھرتے پوچھا تھا
“ہاں تھوڑی تھوڑی” ارسلان نے کہتے ہوئے اپنے انگوٹھے اور انگلی کی بیچ میں زرا سا فاصلہ رکھتے مقدار بتائی تھی جس پہ حسین صاحب ہنس دیے تھے
“تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے جو محافظ ہوتے ہیں وہ ہمیشہ محافظ ہی رہتے ہیں جو میری اک بیٹی کی طرف اٹھنے والی بری نظروں کو جھکانے کے لیے کسی کا سر پھاڑ سکتا ہے وہ میری دوسری بیٹی کی عزت کیسے اچھال سکتا ہے” حسین صاحب نے اس کے کندھوں پہ اپنے ہاتھ جماتے کہا تو ان کا اپنے لیے اتنا یقین دیکھ کر ارسلان کی آنکھیں جھلملائی تھیں اور وہ فرطِ جذبات سے ان کے گلے لگا تھا
“تم ہمیشہ سے مجھے اپنے بیٹے کی طرح عزیز ہو اور اب تمہیں داماد کے روپ میں دیکھنا اس سے بڑی بھلا خوشی میرے لیے کیا ہو سکتی ہے” انہوں نے اس کی کمر پہ تھپکی دیتے کہا تھا
“اب بس بھی کرو میرے دوسرے دامادوں کے لیے بھی تھوڑا پیار رہنے دو” جب کافی دیر بعد بھی ارسلان ان سے الگ نہ ہوا تو وہ شرارت سے بولے تھے جس پہ ارسلان ہنستا ہوا ان سے الگ ہوا تھا
“لاڈلہ داماد تو میں ہی ہوں گا نہ اسی لیے تھوڑا زیادہ پیار جتا رہا تھا” ارسلان نے بھی شرارت سے کہا تھا
“نہیں بھئی روش میری سب سے لاڈلی بیٹی ہے اور اس کا شوہر ہی میرا لاڈلہ داماد ہو گا اور وہ ابھی نجانے کہا یے” حسین صاحب نے پل بھر میں اس کی خوش فہمی کو خاک میں ملایا تھا ارسلان نے منہ بسور کر انہیں دیکھا تھا اور پھر دونوں ہی ہنس دیے تھے پھر ارسلان تھوڑی دیر اور بیٹھنے کے بعد وہاں سے چلا گیا تھا حسین صاحب بھی اس کی پشت پہ اک پیار بھری نظر ڈالتے اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئے تھے
________________________
اسی شام ارسل کے گھر والے بھی نگہت بیگم کے ساتھ آ گئے تھے حسین صاحب کو وہ لوگ پسند آئے تھے لوگوں کے چال چلن اور بول چال سے ہی پتہ لگ جاتا وہ کس نیچر کے ہیں
مگر وہی حسین صاحب نے رسمی طور پہ سوچنے کا وقت مانگ لیا تھا اور پھر سب کے صلاح اور مشورے کے بعد انہیں ہاں کہہ دی گئی تھی اور ساتھ ارسلان لوگوں کو بھی
نویرہ نے اسی دن ہاں کر دی تھی جس دن ارسلان اس سے سب کچھ کلئیر کر کے گیا تھا حسین صاحب نے بھی اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا بس اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے اسے خوش رہنے کی دعا دی تھی
چونکہ نویرہ،ارسلان اور منیہا، تابش چاروں پڑھ رہے تھے اس لیے ان کی منگنیاں اور باقی سب کی شادیاں فکس کی گئی تھیں مائرہ کے پیپر کی ڈیٹ شیٹ آتے ہی
چونکہ حسین صاحب کی بیٹیوں کی شادی تھی اور حسین صاحب کی پھپھی نہ آئیں ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا تھا جس دن سب کی شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی حسین صاحب نے خاندان کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلایا تھا تا کہ بعد میں کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو اور دادو پھپھی بھی انہی میں شامل تھیں وہ گاؤں سے آئی تھیں روز روز آنا جانا ممکن نہیں اس لیے وہ شادی تک یہیں تھیں
شادی کی ڈیٹ فکس ہوتے ہی تیاریاں زوروشور سے شروع ہو گئی تھیں حسین صاحب کے گھر اکھٹی چار شادیاں تھیں اس لیے ہر طرف ہڑبڑی مچی ہوئی تھی اور ساتھ ہی فاتینا کی دہائیاں بھی جاری تھیں کہ ارسل اس سے شادی بدلہ لینے کے لیے کر رہا ہے جسے سن سن کے وہ سب پک چکی تھیں
“یار تم سب کو شاپنگ کی پڑی ہے اور یہاں میری زندگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے” مریم اور زینیہ کو شاپنگ کے بارے میں ڈسکس کرتے دیکھ کر فاتینا نے دہائی تھی سنڈے تھا اس لیے وہ سبھی گھر تھیں اور سب کاموں کے بعد فری ہو کے بیٹھی تھیں
“فاتینا اب اگر تم نے اپنا راگ الاپنا بند نہ کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا دادو بھی یہی ہیں اگر یہ بات ان کے کانوں تک پہنچ گئی تو تمہیں پتہ ہے وہ خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا دیں گی” مریم نے سختی سے اسے وارننگ دی تھی فاتینا کسی کو بھی اپنی بات کے لیے سیریس نہ دیکھ کے پیر زمین پہ پٹختے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی اس کے جاتے باقی سب دوبارہ باتوں میں مصروف ہو گئی تھیں سوائے منیہا کے جو کانوں میں ہینڈ فری لگائے ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھی
انہیں تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی بیٹھے کہ گیٹ کی بیل بجی تھی سب سنی ان سنی کر کے بیٹھی رہی تھیں مریم نے اک تاسف بھری نگاہ سب پہ ڈالی اور اٹھ کے باہر چلی گئی تھی تا کہ گیٹ کھول سکے اس کے جاتے وہ سب بھی وہاں سے کھسک گئی تھیں کہ اگر کوئی مہمان ہوا تو ملنا نہ پڑے جبکہ منیہا سب سے بےنیاز ڈرامے میں مگن تھی
تھوڑی ہی دیر میں مریم تابش کے ساتھ واپس آئی تھی مگر ان سب کو وہاں سے غائب دیکھ کر اس نے اک گہرا سانس بھرا تھا اور ساتھ ہی اسے گھورا تھا جو موبائل میں کھوئی ہوئی تھی وہ تابش کو بیٹھنے کا کہہ کے خود روم میں چلی گئی تھی
تابش کو چچی نے زینیہ کا ناپ کا جوڑا لینے بھیجا تھا تا کہ کپڑے سلائی کے لیے دیے جا سکیں آنا تو وک خود چاہتی تھیں مگر تابش نے کہا تھا وہ لے آئے گا کیونکہ اسے منیہا نے سے کچھ باتیں بھی کلئیر کرنی تھی
مریم کے روم میں جاتے ہی اس نے ادھر اُدھر دیکھا تھا وہاں کسی کو نا پا کر اس نے اپنے قدم منیہا کی طرف بڑھائے تھے جو ہنوز موبائل میں مگن تھی تابش نے اک گہری سانس بھر کے اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا تھا
منیہا جو کرسی پہ بیٹھی پاؤں ٹیبل پہ پھیلائے ریلیکس انداز میں ڈرامہ دیکھ رہی تھی اپنے سامنے مردانہ ہاتھ کو لہراتے دیکھ کر اس نے آنکھیں اوپر اٹھائی تو تابش کو دیکھ کے ہڑبڑاتے ہوئے سیدھی ہوئی تھی اور ساتھ ہی کانوں سے ہینڈ فری بھی کھینچی تھی
“تمہیں تمیز نہیں ہے کسی کے گھر ایسے ہی منہ اٹھا کے نہیں آ جاتے” منیہا اپنی تازہ تازہ ہوئی دوستی کو بھولے ہمیشہ کی طرح اپنی غلطی کے باوجود اسے بلیم کرنے لگی تھی
“الحمدللّٰہ بہت تمیز ہے اور باقاعدہ بیل دینے کے بعد مریم آپی کے ساتھ اندر آیا ہوں مگر تم سب کچھ بھولے موبائل میں مگن تھی اور تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کچھ تو کرنا تھا ویسے تو تم سننے سے رہی” تابش نے کندھے اچکاتے اطمینان سے اسے وضاحت دی تھی
“تو مجھے کیوں متوجہ کرنا تھا اپنی طرف؟” منیہا نے دانت پیستے پوچھا تھا
“بات کرنی تھی” تابش نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا
“کہیں یہ رشتے سے انکار کرنے تو نہیں آیا؟ چلو میں بھی کونسا اس کے لیے مری جا رہی ہوں، اگر میرے کندھے پہ بندوق رکھ کے چلانا چاہتا ہے تو میں صاف سیدھا کہہ دوں گی خود ہی سب کے سامنے انکار کرے” اس کے یکدم سنجیدہ ہونے پہ منیہا ٹھٹھکی تھی اور ساتھ ہی مختلف منفی سوچیں بھی دماغ میں ابھری تھیں
“وہ مجھے پوچھنا تھا تم خوش ہو اس رشتے سے؟” تابش نے جھجھکتے ہوئے پوچھا تھا جس پہ منیہا نے اک دفعہ پھر چونک کے اسے دیکھا تھا
“بڑی جلدی نہیں خیال آ گیا پوچھنے کا مطلب حد ہے ہر چیز فائنل ہو گئی کچھ دنوں تک منگنی ہے اور صاحب بہادر کو اب یاد آ رہا ہے کہ پوچھنا بھی ہے میں خوش ہوں یا نہیں” منیہا نے طنز کیا تھا اس کے طنز پہ تابش نے اپنے اندر اٹھتے ابال کو آنکھیں بند کر کے کنٹرول کیا تھا
“دیکھو منیہا میں بہت سنجیدہ ہوں میں نہیں چاہتا کہ ہم سمجھوتے کی بنا پہ اس رشتے کو لے کر چلیں میرے اور تمہارے درمیان تعلق جتنے کشیدہ رہ چکے ہیں اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ تم نے ہنسی خوشی ہاں کی ہو گی شاید انکل کے کہنے کی وجہ سے ہاں کی ہے اس لیے اگر تم اس رشتے سے نہیں خوش تو تم بتا دو میں تمہارا نام لائے بنا یہ رشتہ ختم کر دوں گا” اس کی باتوں پہ منیہا نے آنکھیں پھاڑ کے اسے دیکھا تھا اور ساتھ ہی اپنے کمرے سے نکلتی مریم ان دونوں کو دیکھتے دروازے میں ہی رکی تھی اک تیور بلکل سنجیدہ تھے تو دوسرہ آنکھیں پھاڑے کھڑا تھا اسے لگا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ان بن چل رہی ہے اس لیے اس نے وہاں جانا مناسب نہیں سمجھا تھا
“مانا کہ تم اک نہایت ہی عجیب و غریب انسان ہو لیکن تمہیں میرے لیے میرے ابا نے چنا ہے اور مجھے اس بات پہ پورا یقین ہے کہ میرے ابا ہمارے لیے کوئی غلط فیصلہ لے ہی نہیں سکتے اس لیے میں اس رشتے سے مطمئن ہوں اور اگر انسان مطمئن ہے تو مطلب خوش بھی ہے بس یا مزید کوئی وضاحت چاہیے” منیہا نے جس انداز میں اپنا جواب اس تک پہنچایا تھا تابش بس اسے گھور ہی سکا تھا اور ساتھ ہی دل پہ پڑا بوجھ بھی ختم ہو گیا تھا اور وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا بےشک اس نے اپنے ابا کے فیصلے پہ سر جھکایا تھا مگر وہ اس رشتے سے مطمئن تھی اور تابش کے لیے یہی بہت تھا
“لڑکے کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟” اس سے پہلے کے تابش کچھ کہتا دادو کی کڑک آواز پہ دونوں چونک کے ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے جو ابھی اپنے روم سے باہر آئی تھیں
“دادو یہ تابش ہے شکیل چچا کا چھوٹا بیٹا اور منیہا کی بات اسی سے پکی ہوئی ہے” ان دونوں کی بجائے جواب مریم کی طرف سے آیا تھا جو دادو کی آواز سن کے اپنے روم سے باہر آئی تھی اور اس کے پیچھے باقی سب بھی دادو کو یہ پتہ تھا کہ کس کی بات کس سے پکی ہوئی ہے مگر سوائے ارسلان اور روحان کے انہوں نے دیکھا کسی کو نہیں تھا
“بھئی آج کل کے بچوں میں تو شرم و حیا کا نام باقی نہیں ہے پتہ بھی ہے ہماری بات پکی ہوئی ہے یہ نہیں کہ اک دوسرے سے پردہ کریں یہاں کھڑے گپیں ہانک رہے ہیں” دادو نے دونوں کو گھورتے کہا تھا تابش اور منیہا صدمے کی کیفیت میں دادو کو دیکھ رہے تھے جو نان سٹاپ پولے جا رہی تھیں
“لڑکے کرنے کیا آیا ہے تُو یہاں؟” انہوں نے سخت لہجے میں اس سے سوال کیا تھا
“وہ امی نے کپڑوں کا ناپ لینے بھیجا تھا زینیہ بھابھی کے کپڑے سلنے کے لیے دینے ہیں بس اس لیے آیا تھا” تابش نے بوکھلاتے ہوئے جلدی سے جواب دیا تھا
“ہوں کرتا کیا ہے کوئی کام دھندا بھی ہے یا اماں باوا ویسے ہی کسی کے متھے مارنے لگے ہیں تجھے؟” انہوں نے اپنا پسندیدہ سوال پوچھا تھا
“نہیں ابھی پڑھتا ہوں اور آپی آپ مجھے کپڑے دیں مجھے اور بھی بہت کام ہیں” تابش انہیں جواب دیتا مریم کے ہاتھ سے شاپر لیتا وہاں سے لمحوں میں نو دو گیارہ ہوا تھا اس کی تیزی پہ ان سب نے مسکراہٹ دبائی تھی اور دادو بھی ہکا بکا رہ گئی تھیں مگر پھر سر جھٹکتے صحن میں بچھی چارپائی پہ جا کر بیٹھ گئی تھیں
____________________
آج ان تینوں (مریم،زینیہ،فاتینا) کی ساسوں نے انہیں اپنے ساتھ شاپنگ پہ لے کر جانا تھا ان کے سپوت بھی ساتھ ہی تھے تا کہ ان کے کپڑوں کی میچنگ ہو سکے
انہوں نے حسین صاحب سے اجازت بھی لے لی تھی چچی ہی نے ہی رامش کے ساتھ ان تینوں کو پک کرنے آنا تھا باقی سب نے مال میں ہی انہیں جوائن کرنا تھا
“آپ کے وہ بھی وہی ہوں گے اس لیے سب کچھ کلئیر کر لینا کیونکہ شادی تک ہم تمہاری اک ہی رٹ نہیں سن سکتے” گاڑی کا ہارن سن کے چادر لیتے مریم نے فاتینا کو وارننگ دی تھی جس نے الٹے سیدھے منہ بناتے اس کی بات سنی تھی پھر وہ تینوں دادو پھپھی کو خدا حافظ کہتے چلی گئی تھیں نویرہ، منیہا اور مائرہ بھی گھر ہی تھیں اور حسین صاحب میرج ہال بک کروانے کے سلسلے میں نکلے ہوئے تھے
وہ باہر آئیں تو چچی اور رامش انہی کے انتظار میں تھے ان کے بیٹھتے ہی رامش نے گاڑی آگے بڑھا لی تھی پورے رستے چچی اور وہ تینوں باتیں کرتی رہی تھیں رامش اک دفعہ بھی نہیں بولا تھا بس گاہے بگاہے اک نظر زینیہ پہ ڈال لیتا تھا
وہ مال پہنچے تو نگہت بیگم، روحان، ارسل اور اس کی والدہ سب انہیں پارکنگ میں ہی مل گئے تھے فاتینا تو ارسل کو دیکھ کے خوامخواہ ہی نظریں چرانے لگ گئی تھی جبکہ ارسل اس کی سوچوں سے بےنیاز پرشوق نظروں اسے دیکھنے میں مصروف تھا
روحان کی نظریں بھی مریم کا ہی طواف کر رہی تھیں جو ہمیشہ کی طرح اسے نظرانداز کرنے میں مصروف تھی سلام دعا کے بعد وہ سب اندر کی طرف بڑھے تھے مال کے اندر داخل ہوتے وہ تینوں اپنی اپنی ہونے والی نصف بہتر کو لے کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے تھے ان کی مائیں کھڑی منہ ہی دیکھتی رہ گئی تھیں اور وہ تینوں ہکا بکا ان کے ساتھ کھینچی جا رہی تھیں
“جب اپنی مرضی کی ہی شاپنگ کرنی تھی تو ہم بڈھیوں کو لانے کی کیا ضرورت تھی” نگہت بیگم نے ان کی پشتوں کو گھورتے کہا تھا
“چلیں ہم اپنی اپنی شاپنگ کر لیتے ہیں ہم نے بھی کونسا ابھی کی ہے” چچی نے کہتے ہوئے باقی دونوں کی تائید چاہی تو انہوں نے سر ہلایا اور تینوں ہی اک شاپ میں گھس گئی تھیں
“یہ کیا کر رہے ہیں ہاتھ چھوڑیں میرا” مریم لوگوں کے متوجہ ہونے کے ڈر سے دبا دبا چلائی تھی
“ایسے کیسے ہاتھ چھوڑ دوں آپ پھر کھسک جائیں اور میں بس دیکھتا رہ جاؤں” روحان نے مریم کے ہمیشہ اپنی موجودگی میں غائب ہونے پہ چوٹ کی تھی
“لوگ دیکھ رہے ہیں آپ ہاتھ چھوڑیں نہیں بھاگوں گی” مریم نے دانت پیستے کہا تھا روحان نے اسے مال کے اک سنسان کونے پہ لا کر ہاتھ چھوڑا تھا کہ لوگوں کے بیچ کھڑے ہو کے بات کرنا اکورڈ لگنا تھا
“آپ آج مجھے بتا ہی دیں میں اتنا خوفناک ہوں جو آپ مجھے دیکھتے ہی بھاگنے کی کرتی ہیں” روحان نے سینے پہ دونوں ہاتھ باندھتے پوچھا تھا اس کے سوال پہ مریم نے چونک کے اس کی شکل دیکھی جہاں خفگی اور ناراضگی کے موجود تاثرات نے اسے مسکرانے پہ مجبور کیا تھا
“میں نے مسکرانے کا نہیں کہا وجہ پوچھی ہے” اس کے مسکرانے پہ روحان کو تپ چڑھی تھی
“مسٹر روحان احمد نا تو آپ میرے چاچے کے پتر تھے نا مامے کے نہ اور کوئی قریبی رشتہ تھا جس کی بنا پہ آپ کے ساتھ گپے ہانکتی اور دوسری بات میں کسی کو اپنے کردار پہ انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دے سکتی تھی اس لیے جتنا ہو سکا آپ کو اوئڈ کیا” مریم کی وضاحت پہ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا تھا
“اگر مطمئن ہو گئے ہیں تو اب چلیں؟” روحان کو خاموش دیکھ کر مریم نے کہا تھا
“مریم میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن جتنا پیار کرتا ہوں اس سے کہیں زیادہ آپ کی عزت کرتا ہوں اور آپ کی یہ باتیں میرے دل میں آپ کے لیے موجود عزت کو اور بڑھا دیتی ہیں” اس کی غیر متوقع بات پہ مریم کے چہرے پہ سرخیاں پھیلی تھیں روحان اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اس کو پسند کرتی ہے یا نہیں مگر اپنی بات پہ اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں نے اسے جواب دے دیا تھا
“فضول باتیں بند کریں اور چلیں ہمیں یوں کھڑے دیکھ کر لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے” مریم نے دانستہ ادھر اُدھر دیکھتے کہا تھا روحان اس کے گریز پہ مسکرایا تھا
اور اک ہاتھ سینے پہ رکھتے دوسرا آگے کی طرف پھیلاتے ہلکا سا جھک کے اسے آگے جانے کا اشارہ دیا تھا جس پہ مریم مسکراتی ہوئی آگے بڑھی تھی اور روحان بھی مسکراتا ہوا اس کے پیچھے ہو لیا تھا
“رکیں ارسل مجھے آپ سے بات کرنی ہے” ارسل جو اسے لیے کسی بوتیک کی تلاش میں نظریں دوڑا رہا تھا فاتینا کی سنجیدہ آواز پہ اس کے قدم تھمے تھے اور اس نے گردن گھما کے اک نظر فاتینا کو دیکھا تھا
“یہاں بات کرنا مناسب نہیں وہ سامنے کیفے ہیں وہاں چلتے ہیں” اس کے سنجیدہ تاثرات نے اسے کسی انہونی کا سگنل دیا اس لیے اس نے کہی بیٹھ کے بات کرنا مناسب سمجھا تھا فاتینا سر ہلاتی اس کی معیت میں آگے بڑھی تھی
“جی بولیں کیا بات کرنی ہے آپ نے” کیفے پہنچ کے اک کارنر ٹیبل پہ بیٹھ کے ارسل نے سنجیدگی سے کہا تھا ہر وقت پٹر پٹر بولنے والی فاتینا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے بات کرے
“فاتینا بولیں بھی” اسے مسلسل ہاتھ مسلتے دیکھ کر ارسل نرمی سے بولا تھا
“دیکھیں مجھے پتہ ہے آپ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے شادی کر رہے ہیں میں نے دو دفعہ آپ سے بہت بدتمیزی کی تھی نگہت آنٹی کو تو آپ بس یوز کر رہے ہیں” فاتینا نے گہری سانس بھرتے تیزی سے بولتے اپنی بات اس کے گوش گزاری تھی جبکہ ارسل کی آنکھیں اس کی بات پہ کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں کچھ دیر وہ آنکھیں پھاڑ کے اسے دیکھتے رہا تھا
“ہاہاہاہاہاہا” پھر جو اس نے ہنسنا شروع کیا بس پاگلوں کی طرح ہنسی گیا یہاں تک کہ اردگرد کے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے تھے
“کیا کر رہے ہیں، پاگل تو نہیں ہو گئے؟ اپنے اس جناتی قہقہے پہ قابو پائیں سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں” فاتینا نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا اس کے سرزنش پہ ارسل نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی
“ڈونٹ ٹیل می کہ جسے میں نے دو ملاقاتوں میں شیرنی کا خطاب دیا ہے وہ مجھ سے ڈر رہی ہے” اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے ارسل مسکاتی آواز میں بولا تھا
“میں ڈرتی ورتی کسی سے نہیں بس میں اپنی زندگی کسی بدلے کی نظر نہیں کرنا چاہتی اس لیے شادی سے پہلے سب کلئیر کرنا چاہتی ہوں” فاتینا نے اس کی بات کی نفی کی تھی
“تو اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو اب آپ کیا کر سکتی ہیں ڈیٹ فکس ہو گئی ہے سب رشتے داروں میں کارڈ بٹ چکے ہیں میرے اقرار کے بعد بھی آپ کیا کر لیں گی؟” اس کی بات پہ فاتینا کو چپ لگ گئی تھی اس بارے میں تو اس نے کچھ سوچا ہی نہیں تھا اس کی سب باتیں سچ تھیں اگر اس کا ایسا کوئی ارادہ ہوا بھی تو وہ اب کیا کر سکے گی اپنی وجہ سے اپنے ابا کی عزت پہ حرف تو آنے نہیں دے گی
“مزاق کر رہا ہوں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے آپ ریلیکس رہیں” اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کے ارسل فوراً سنجیدہ ہوا تھا فاتینا نے بس خالی نظروں سے اسے دیکھا تھا
“فاتینا ریلیکس کریں میں سچ میں مزاق کر رہا تھا میرے نزدیک عورت کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ بغیر کسی سے ڈرے اپنی حفاظت کر سکے اور جس طرح آپ نے مجھے جھاڑا تھا میں آپ سے امپریس ہوا تھا پھر اگلی ملاقات میں تو آپ نے مجھے چاروں شانے چت گرا دیا تھا تبھی میں نے سوچ لیا تھا اس نڈر لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہے میں خود رشتہ لے کر آنا چاہتا تھا مگر نگہت آنٹی نے کہا وہ نہیں چاہتی کہ کسی طرح بھی آپ کی ذات پہ کوئی حرف آئے اس لیے پہلے وہ بات کریں گی مجھے بھی ان کی بات پسند آئی تھی اس لیے پہلے وہ آئی تھیں اور پھر ہم” ارسل نے اسے خاموش دیکھ کر اک لمبی وضاحت دی تھی تا کہ وہ مطمئن ہو سکے
“آئی ہوپ کے اب آپ کے شک و شبہات دور ہو گئے ہوں گے؟” اپنی بات اس کے کانوں تک پہنچاتے ارسل نے پوچھا تھا جس پہ فاتینا نے سر ہلایا تھا اس کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی اور اس کا پختہ لہجہ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ جو بول رہا ہے سچ ہے کیونکہ جھوٹ بولتے وقت انسان جتنا بھی مضبوط بننے کی کوشش کرے مگر اس کی آواز کہیں نہ کہیں لڑکھڑا ضرور جاتی ہے ارسل کا مضبوط لہجہ اس کی سچائی کا گواہ تھا
“چلیں؟” ارسل نے اٹھتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا تھا فاتینا نے اک نظر اس کے چہرے کو دیکھا تھا اور پھر اس کے پھیلے ہاتھ کو اور خاموشی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا تھا اور وہ اسے لیے مال کی طرف بڑھ گیا تھا
رامش نے تھوڑا سا آگے بڑھتے زینیہ کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا دونوں دھیمے دھیمے چلتے بوتیک کی طرف بڑھ گئے تھے زینیہ اپنے اس دن کے رویے کی وجہ سے اس سے معافی مانگنا چاہتی تھی مگر اسے بلانے میں ہچکچا رہی تھی
“سنیں” وہ بوتیک کے نزدیک پہنچ گئے تھے جب زینیہ نے دھیمے سے اسے آواز دی تھی اس کے طرزِ تخاطب پہ رامش کے چہرے پہ مسکان پھیلی تھی
“جی سنائیں” رامش نے اپنے قدموں کو بریک لگاتے اس کی طرف مڑتے شوخی سے کہا تھا
“وہ مجھے آپ سے معافی مانگنی تھی” زینیہ نظریں جھکائے بولی تھی
“کس بات کی معافی؟” رامش نے تعجب سے پوچھا تھا
“وہ اس دن میں نے آپ سے بدتمیزی کی تھی نا اس لیے کب سے معافی مانگنے کا سوچ رہی تھی مگر موقع نہیں مل رہا تھا” زینیہ نے انگلیاں چٹخاتے معافی مانگنے کی وجہ بتائی تھی جس پہ رامش کو حیرت ہوئی تھی
“مسز ٹو بی آپ ابھی تک اسی بات کو دل سے لگا کے بیٹھی ہوئی ہیں” رامش دھیما سا ہنستے ہوئے کہا تو زینیہ نے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا تھا اور اسے خود کو دیکھتے پا کے فوراً ہی جھکا بھی لی تھیں
“آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے جتنی عزیز آپ مجھے ہیں آپ کو تو میرا قتل بھی معاف ہے یہ تو بس بدتمیزی تھی معمولی سی بات تھی بھول جائیں اسے” رامش کی بات پہ زینیہ نے اک جھٹکے سے اسے دیکھا تھا آنکھیں حیرت اور صدمے سے پوری کی پوری کھل گئی تھیں رامش نے مسکراتے ہوئے ہلکا سا جھک کے اس کی کھلی آنکھوں پہ پھونک ماری تھی زینیہ نے سٹپٹا کے ادھر اُدھر دیکھا تھا کوئی دیکھ تو نہیں رہا
“کسی نے نہیں دیکھا چلیں اب” رامش نے اس کی گردن کو ادھر اُدھر گھومتے دیکھ کر کہا اور اس کا ہاتھ پکڑتے بوتیک کے اندر داخل ہو گیا تھا زینیہ بھی اس پہ اک محبت بھری نگاہ ڈالتے اس کے ہم قدم ہو گئی تھی
پھر ان کا پورا دن شاپنگ میں گزر گیا تھا شام کو جب وہ گھر واپس آئیں تو تینوں خوش اور مطمئن تھیں جس کا ثبوت ان کے کھلتے چہرے تھے
______________________
ارسلان کا دل کر رہا تھا نویرہ کو دیکھنے کا مگر کوئی کام نظر نہیں آ رہا تھا جس کے بہانے وہ جاتا کافی سوچنے کے بعد اس کے دماغ میں آئیڈیا تھا ابھی تک انہوں نے نویرہ کے لیے انگوٹھی بننے نہیں دی تھی کل اماں سارہ سے کہہ رہی تھی اس کا ناپ لے کر آنا اور وہ ابھی تک گئی نہیں تھی ارسلان موقع سے فائدہ اٹھاتے حسین صاحب کے گھر پہنچ گیا تھا
ان کے گھر کے سامنے آ کر اس نے دستک دینے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو دروازہ خود بخود کھل گیا تھا کیونکہ ان تینوں کے جانے کے بعد کسی کو دروازے کو کنڈی لگانے کی توفیق نہیں ہوئی تھی وہ کندھے اچکاتے وہ دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا تھا مگر صحن میں درخت کی چھاؤں کے نیچے بیٹھی دادو پھپھی کو دیکھ کے اس کا رنگ اڑا تھا
“یہ پھر آ گئی ہیں اس سے پہلے کہ ان کی نظر تم پہ پڑے ارسلان میاں یہاں سے بھاگ لو” ارسلان خود سے بڑبڑاتا واپسی کے لیے مڑا تھا مگر بری قسمت دادو پھپھی کی نظر اس پہ پڑ چکی تھی
“اوئے لڑکے رک ادھر آ” ان کے بلانے پہ ارسلان مرے مرے قدم اٹھاتا ان کی طرف بڑھا تھا اپنے کمرے میں بیٹھی نویرہ بھی دروازہ کھلنے کی آواز سن کے کمرے سے باہر آئی تھی اور ارسلان کو دادو کی طرف بڑھتے دیکھ کر اسے ہنسی آئی تھی اس کی پچھلی درگت وہ ابھی تک بھولی نہیں تھی
“جی” ان کے پاس پہنچتے ارسلان کے حلق سے پھنسا پھنسا جی نکلا تھا
“تم بھی حسین کے ہونے والے داماد ہو نا؟” انہوں نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے پوچھا تھا اور ارسلان نے بس سر ہلانے پہ اکتفا کیا تھا
“نام کیا ہے تمہارا؟ اور کچھ کرتے بھی ہو یا ابھی تک پڑھ ہی رہے ہو؟” دادو کے اگلے سوال پہ ارسلان کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے ابھی ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی تو اس نے بتایا تھا کہ وہ ابھی پڑھ ہے اور ڈیڑھ مہینے بعد وہ پھر وہی سوال کر رہی تھیں
“جی ارسلان نام ہے میرا اور ابھی تک پڑھائی مکمل نہیں ہوئی” ارسلان نے تحمل سے جواب دیا تھا
“لو بھلا مجھے تو ان شہریوں کی سمجھ نہیں آتی گھوڑے گھوڑے جتنے ہو گئے ہیں اور ابھی تک ان کی پڑھائیاں ہی ختم نہیں ہو رہیں وہ دوسرا بھی کہہ رہا تھا ابھی پڑھ رہا ہوں چلو خیر ہمیں کیا” تھوڑی پہ ہاتھ جماتے وہ بڑبڑائی تھیں اور آخر میں ہمیں کیا کہہ کے کندھے اچکائے تھے
“لڑکے تجھے یہ نہیں پتہ جس گھر میں منگنی ہو شادی تک وہاں نہیں آتے ہمارے گاؤں میں تو منگنی سے شادی تک کے دورانیے میں لڑکا لڑکی اک دوسرے کو دیکھتے تک نہیں ہیں بات کرنا تو دور کی بات ہے” دادو نے اتراتے ہوئے اپنے گاؤں کا ذکر کیا تھا
“آپ کا گاؤں بھی آپ کی طرح عجوبہ ہی ہے” ارسلان دھیمے سے بڑبڑایا تھا
“کیا منہ ہی منہ میں بولے جا رہا ہے اونچا بول” اس کے ہلتے ہونٹ دیکھ کر دادو نے اسے گھرکا تھا
“کچھ نہیں میں تو کہہ رہا تھا میں تو نویرہ کی انگلی کا سائز پوچھنے آیا تھا اماں نے بھیجا تھا آپ پلیز اسے کہہ دیں” ارسلان نے ہڑبڑاتے ہوئے بات بنائی تھی دادو کے آواز دینے سے پہلے ہی نویرہ ہنستے ہوئے اندر گئی تھی اور اک سادہ سا چھلا لیے باہر آئی تھی تا کہ ارسلان کو دے سکے
“یہ تم نے کدھر منہ اٹھایا ہوا یہ مجھے دو میں دے دیتی ہوں تم اندر جاؤ دوبارہ میں تمہیں اس کے سامنے نہ دیکھوں” دادو نے نویرہ کے ہاتھ سے چھلا جھپٹتے ہوئے اسے جھاڑ بھی پلائی تھی اور اس دفعہ ہنسنے کی باری ارسلان کی تھی
“لڑکے کون سا لطیفہ سنایا ہے کسی نے یہاں جو دانت نکال رہا ہے یہ پکڑ اور اپنی شادی تک دوبارہ یہاں شکل مت دیکھانا” دادو نے چھلا ارسلان کے ہاتھ پہ پٹختے ہوئے کہا تھا ارسلان کا چہرہ اترا تھا اور نویرہ نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی
“میں تو آؤں گا بلکہ روز آؤں گا میری بہنوں کی شادی ہے اور میں نہ آؤ امپوسبل” ڈھٹائی سے انہیں جواب دیتے ان کی کسی جوابی کارروائی سے پہلے وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا اس کے جاتے نویرہ بھی اندر کی طرف بڑھ گئی تھی مبادا کہی توپوں کا رخ اس کی طرف نہ ہو جائے پیچھے دادو بس بڑبڑا کے رہ گئی تھیں
____________________
آج مائرہ لوگوں کے بیج کا آخری پیپر تھا ایگزمینشن ہال سے جو جو نکل رہا تھا اطمینان بھری سانس خارج کر رہا تھا کیونکہ فائنلی وہ اک معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے اور سب کے لبوں پہ بس اک ہی دعا تھی کہ یہ پیپر کلئیر ہو جائے
مائرہ بھی پیپر کرنے کے بعد سکون کی سانس لی تھی اک پیپر تھا اور دوسرا گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں ان سب میں وہ گھن چکر بن چکی تھی وہ سب چڑاتے ہوئے شاپنگ پہ جاتی تھیں اور وہ بےبس سی بس کتابیں لے کر بیٹھی رہتی تھی حتیٰ کہ ان کے برائیڈل ڈریسز تک فائنل ہو چکے تھے اور اک وہ تھی کہ کتابیں جان ہی نہیں چھوڑ رہی تھیں
“مس مائرہ رکیں بات سنیں پلیز” ابھی ایگزمینشن ہال سے نکل کے اس نے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ پیچھے سے آتی عادل کی آواز پہ اس کے قدم رکے تھے
“اب تو منگنی ہو گئی ابھی بھی مس مائرہ؟” عادل کے پیچھے آتے اس کے اک بیج میٹ نے شرارت سے کہا تھا ان کے پورے بیج کو معلوم تھا کہ ان دونوں کی منگنی ہو چکی ہے
“وہ بس عادت ہو گئی ہے اس لیے” عادل نے کان کھجاتے خجالت سے جواب دیا تو وہ قہقہہ لگاتا آگے بڑھ گیا تھا عادل بھی مسکراتا ہوا مائرہ کی طرف بڑھا تھا جو اس کی پکار پہ رکی ہوئی تھی
“فائنلی عذاب سر سے اتر گیا اب بس آپ جلدی سے ہمارے گھر آنے کی تیاری کریں” عادل نے مائرہ کو دیکھتے گھمبیر لہجے میں کہا تو وہ شرماتے ہوئے سر جھکا گئی تھی
“اچھا چلیں کینٹین میں بیٹھ کے کچھ کھاتے ہوئے بات کرتے ہیں” اسے چپ دیکھ کر عادل نے اک نگاہ اردگرد چلتے پھرتے سٹوڈنٹس پہ نظر ڈال کے اسے کہا تھا
“مگر،،،” وہ تھوڑا ہچکچائی تھی
“یقین کریں مس مائرہ آپ کو کھا نہیں جاؤں گا میں بےشک تھوڑی دیر بیٹھ کے دیکھ لیں” عادل کے جل کے بولنے پہ مائرہ ہنس پڑی تھی
“اچھا چلیں کیا یاد کریں گے کس سخی سے پالا پڑا ہے” مائرہ نے شرارت سے کہا تھا
“آپ کی بہت نوازاش ہو گی یہ غلام تاعمر آپ کا احسان مند رہے گا” عادل سینے پہ ہاتھ رکھتے ہلکا سا جھکا تھا اس کی حرکت پہ مائرہ نے نفی میں سر ہلاتے اپنے قدم آگے بڑھائے تھے عادل بھی جلدی سے اس کے ساتھ ہو لیا تھا
“ویسے اگر میری دادو کو پتہ چل جائے نا میں شادی سے پہلے آپ کے ساتھ گپیں لڑا رہی ہوں انہوں نے تو اک ہنگامہ مچا دینا ہے” مائرہ نے تصور میں دادو پھپھی کا لال بھبھوکا چہرہ لاتے شرارت سے کہا تھا اور ساتھ ہی تابش کی درگت بھی یاد آئی تھی
“ہیں ہماری تو شادی ہونے والی ہے وہ کیوں ہنگامہ مچائیں گی” عادل نے اس کی طرف دیکھتے حیرت سے سوال کیا تھا
“یہی تو بات ہے شادی ہونے والی ہے بقول ان کے منگنی کے بعد منگیتر سے ملنا اچھی بات نہیں ہوتی اک دفعہ شادی پہ دلہا دلہن اک دوسرے کو دیکھتے ہیں” مائرہ نے اسے وضاحت دی جس پہ ارسلان کو حیرت ہوئی تھی
“تھینکس ٹو اللّٰہ کہ آپ کی دادو کو یہ نہیں پتہ کے ہم دونوں اک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ورنہ وہ آپ کے ساتھ ہی آ جاتیں اور میری آپ سے بات کرنے کی خواہش خواہش ہی رہ جاتی” اس کی بات پہ مائرہ نے بہت مشکل سے ہنسی کنٹرول کی تھی کیونکہ وہ کینٹین میں اینٹر ہو گئے تھے اور وہ ہنس کے کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرنی چاہتی تھی
بلکل کونے والے ٹیبل پہ اسے بیٹھا کے عادل کچھ آرڈر کرنے گیا تھا اور تھوڑی دیر بعد ہی واپس آیا اور اس کے سامنے والی کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا تھا
“ویسے ماما تو کہہ رہی تھیں آپ کو لے کر برائیڈل ڈریس دلوانے جاؤں مگر جیسا آپ نے اپنی دادو کا کھینچا ہے لگتا نہیں وہ آپ کو جانے دیں گی” عادل نے اس کے سامنے اپنا خدشہ ظاہر تھا
“نہیں اس کے لیے ابا کی پرمیشن درکار ہے اور وہ کچھ نہیں کہیں گے ڈونٹ وری” مائرہ نے مسکراتے ہوئے اس کی ٹینشن دور کی تھی
“ویسے آپ کے ابا بہت ڈیسنٹ ہیں میں تو ان سے بہت امپریس ہوا ہوں” عادل کے لہجے میں ستائش تھی اور وہ اسے کوئی مسکا نہیں لگا رہا تھا اسے واقعی ہی حسین صاحب بہت اچھے لگے تھے
“ہاں میرے ابا تو دنیا کے بیسٹ ابا ہیں” مائرہ نے محبت سے چور لہجے میں کہا تھا اور پھر کیا تھا مائرہ تو شروع ہو گئی تھی سب بہنوں اور اپنے ابا کے قصے سنانے جنہیں عادل دھیمی مسکراہٹ لیے سن رہا تھا
____________________
دن پر لگا کے گزر گئے اور مہندی کا دن بھی آن پہنا تھا اس دوران حسین صاحب کی اجازت لے کے عادل بھی مائرہ کو شاپنگ کروا چکا تھا انہوں نے کوئی لمبا چوڑا فنکشن نہیں کیا تھا بس نزدیکی رشتے دار مدعو تھے
نویرہ، منیہا اور روش نے ضد کر کے ڈھولکی بھی منگوا لی تھی کیونکہ انہیں پتہ تھا رسم بس کچھ دیر میں ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد وہ ڈھولکی بجا کے اپنا شوق پورا کر لیں گی
انہوں نے دو جھولے منگوا کے گھر کو مہندی کے حساب سے ڈیکوریٹ کیا تھا صحن میں اک طرف دونوں جھولوں کو سیٹ کیا گیا تھا اک جھولے پہ مریم اور مائرہ کو بیٹھایا گیا تھا اور دوسرے جھولے پہ زینیہ اور فاتینا کو
چاروں کے سوٹ ان کے سسرال سے آئے تھے مریم گرین کرتی جس پہ کہی کہی سلور ستارے لگے ہوئے شوکنگ پنک غرارا جس پہ گرین اور سلور کلر میں کام ہوا تھا زیب تن کیے ہوئے تھی اور گرین ہی دوپٹہ سر پہ سیٹ تھا بالوں کو آگے سے رول کر کے باقی بالوں کی چٹیا بنا کے اس آگے کیا ہوا تھا جس پہ موتیے کے پھول لگائے گئے تھے
مائرہ کا غرارا ڈارک بلو کلر کا تھا جس پہ گرین کرتی تھی کرتی کا گلا اور دامن پنک کلر کے کام سے مزین تھا دوپٹہ بھی پنک کلر کا تھا بالوں کو کھلا چھوڑ کے دونوں اطراف سے اگے گرا کے دوپٹہ سیٹ کیا گیا تھا
زینیہ کا ییلو غرارا فیروزی کرتی تھی اور ساتھ بےبی پنک دوپٹہ اس نے بھی بالوں کی چٹیا بنائی تھی جس پہ موتیے کے پھول لگائے گئے تھے جبکہ فاتینا کی ییلو کرتی اور گرین غرارا تھا جس میں کہی کہی بلو کلر سے کام ہوا تھا اور ساتھ بلو دوپٹہ تھا اس کا بھی بالوں کا سٹائل بنا کے بال کھلے چھوڑ کے سارے اک کندھے پہ آگے کی طرف گرائے ہوئے تھے
نویرہ، منیہا اور روش تیوں کے اک جیسے غرارے تھے ییلو کرتی اور اورنج غرارا جس کے ساتھ اور اورینج اور ییلو کلر کا دوپٹہ تھا ان تینوں کے تو آج پیر زمین پہ ہی نہیں ٹک رہے تھے اور وہ تینوں اپنے رشتے داروں سے گن گن کے بدلے لے رہی تھیں
ان کی ماں تو تھیں نہیں دادو سے جتنے بھی اختلاف سہی لیکن وہ بڑی تھیں اس لیے رسم کا آغاز انہیں کرنے کو کہا تھا انہوں نے پہلے مریم اور مائرہ کے اک ہاتھ پہ مہندی لگاتے اور دوسرے پہ پیسے رکھتے رسم کا آغاز کیا تھا اور پھر زینیہ اور فاتینا کے لگائی تھی
اس کے بعد حسین صاحب نے ان چاروں کو مہندی لگائی تھی اور نم آنکھوں سے چاروں کے ماتھے چومے تھے وہ چاروں ان کے گھر بس آج رات کی مہمان تھیں یہی سوچ کے ان کی آنکھیں بار بار بھری جا رہی تھیں مگر خود کو سنبھالتے مسکرا کے پیچھے ہو گئے تھے
بڑوں کے بعد چھوٹوں کی باری آئی تھی اور تینوں کو بدلے لینے کا موقع ملا تھا جان بوجھ کے وہ دو اک جھولے پہ بیٹھتیں اور اک دوسرے جھولے پہ اور مختلف پوزز میں تصویریں بنا رہی تھیں یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا تھا جب تک مریم نے انہیں آنکھیں دیکھا کے شرافت کے جامے میں آنے کا نہیں کہا تھا
سب کے رسم کرنے کے بعد ان ساتوں نے کچھ دیر اپنا فوٹو سیشن کروایا تھا ساتھ حسین صاحب کو بھی گھسیٹ لیا تھا ان سب کے بعد انہوں نے ڈھولک سنبھال لی تھی مہندی کی تو انہیں ٹینشن ہی نہیں تھی عصر ٹائم جا کر وہ سب پارلر سے لگوا آئی تھیں اور رسم انہوں نے عشا کے بعد شروع کی تھی
ڈھولک بھی ان تینوں نے اپنے قبضے میں رکھی تھی بجانی آتی نہیں تھی مگر اسے دبا کے بجائی جا رہی تھیں کزنز میں کسی کو دینے کا نام نہیں لے رہی تھیں کیونکہ بدلہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے آخر
“اگر تم لوگوں نے ہمارے ساتھ یہی کرنا تھا تو بلایا ہی کیوں تھا؟” ان کی اک کزن نے تنگ آ کے پوچھ ہی لیا تھا
“اُسی لیے جس لیے تم لوگ ہمیں بلاتی تھیں” نویرہ نے ڈھولک کے ساتھ گلا پھاڑتے ہوئے جواب دیا تھا
پھر یہ سلسلہ رات اک دو بجے تک چلا تھا ان سب نے خوب جلایا تھا اپنے رشتے داروں کو جو انہیں لفٹ نہیں کراتے تھے ان بہنوں نے آج انہیں لفٹ نہیں کرائی تھی
جب سب تھک گئے تو سونے کے لیے اٹھ گئے تھے دوسری طرف ان سب کی تو آج نیندیں اُڑی ہوئی تھیں روم میں آ کر بھی اپنی کزنز کے ایکسپریشنز کے بارے میں سوچ سوچ کے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں تبھی دروازہ ناک کر کے حسین صاحب اندر آئے تھے
“ارے ابا آپ ابھی تک سوئے نہیں” مریم نے آگے بڑھتے فکرمندی سے پوچھا تھا اس کے انداز پہ حسین صاحب مسکرائے تھے
“کل تم لوگوں نے چلے جانا ہے بس یہی سوچ کے نیند نہیں آ رہی تھی” وہ مریم کو حصار میں لیے بیڈ پہ بیٹھے تھے ان کی بات سن کے مائرہ، زینیہ اور فاتینا بھی ان کے پاس آ کر بیٹھی تھیں اب حسین صاحب کے اک بازو کے حلقے میں مریم اور مائرہ تھیں تو دوسرے بازو حلقے میں فاتینا اور زینیہ تھیں
“ایسا لگتا ہے کل کی ہی بات ہے جب مریم نے میرے آنگن میں آنکھ کھولی تھی اور اس کے بعد تم سب آئیں اور کل تم لوگ اپنے اپنے گھر کی ہو جاؤ گی اک طرف دل مطمئن بھی ہے کہ میں اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی ہے دوسری طرف دل اداس بھی ہے اپنے جگر کے ٹکڑے جنہیں اکیلے پالنے میں، میں نے کتنے پاپڑ بیلے ہیں کل انہیں کوئی اور لے جائے گا” بولتے بولتے ان کی آواز بھرا گئی تھی اور ان کی آنکھ میں آنسو آنے کی دیر تھی وہ سب بھی جذباتی ہو گئی تھیں ابھی تک تو سب موج مستی میں تھیں اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا تھا اور اب جب گیا تھا تو کسی کا دل نہیں کر رہا تھا اپنے ابا کو چھوڑ کے جانے کا
“ابا میں آپ کو چھوڑ کے نہیں جاؤں گی ہم روحان کو گھر داماد بنا لیتے ہیں آنٹی کو کہتے ہیں وہ اوپر والے پورشن میں شفٹ ہو جائیں ” مریم نے روتے ہوئے کہا تھا
“نہیں میرا بچہ وہ بھی تو اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا ہے ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں اس کی والدہ کا حق ہے ہم اسے کیسے گھر داماد بنا لیں پہلے یہاں شفٹ ہونا ان کی مجبوری تھی اور ان کا اپنا گھر ہے وہ کس کے گھر کیوں شفٹ ہوں گی” حسین صاحب نے اس کے آنسو صاف کرتے نرمی سے اسے سمجھایا تھا
“تو پھر عادل کو گھر داماد بنا لیتے ہیں وہ تو دو بھائی ہیں نا اور آپ نے سب سے زیادہ خرچہ میری پڑھائی پہ کیا ہے اس لیے اب میرا،،،، “
“شششش چپ میں نے کوئی احسان نہیں کیا وہ میرا فرض تھا میں نے اس لیے ہرگز نہیں کیا کہ میں بعد میں احسان جتا کے تم میں سے کسی کو گھر رکھ سکوں” انہوں نے مائرہ کی بات کاٹی تھی
“تو پھر ابا آپ اکیلے کیسے رہیں گے؟” زینیہ نے بھرائی آواز میں پوچھا تھا
“میں اکیلا کہاں ہو ابھی تو میرے آنگن کے تین پھول میرے ساتھ ہی ہیں اور تم لوگ بھی کون سا کہیں دور جا رہی ہو اسی شہر میں ہو جب دل کیا آ جایا کرنا یہ گھر تم لوگوں کا تھا اور تم لوگوں کا ہی رہے گا جیسے پہلے رہتی تھیں ویسے ہی آ کے رہا کرنا اور ارسلان بھی تو یہ ساتھ والے گھر میں رہتا ہے اک آواز دینے کی دیر ہے جھٹ وہ یہاں ہوا کرے گا اور اب تو زیادہ تر یہاں ہی پایا جائے کرے گا” انہوں نے بولتے بولتے آخر میں نویرہ کو دیکھتے شرارتی انداز میں کہا تھا تا کہ ماحول تھوڑا خوشگوار ہو
“ابا” نویرہ نے احتجاجاً کہا تو سب ہنس دی تھی
“ہمیشہ ایسے ہی ہنستی رہو یہ ہنسی ہی تو میرے جینے کی وجہ ہے اللّٰہ تم سب کے نصیب اچھے کرے” انہوں نے محبت سے دعا دی تھی والدین سب کچھ خرید سکتے ہیں سوائے بیٹیوں کے نصیب کے مگر دعاؤں سے ان کا دامن بھر سکتے ہیں اور دعا تو ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے اور جب دعا والدین کی ہو تو انسان کے ساتھ کھبی کچھ برا ہو ہی نہیں سکتا اگر کوئی مشکل درپیش آئے بھی تو وہ اللّٰہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے جو وہ اپنے بندے کا خود پہ یقین دیکھنے کے لیے لیتا ہے
“وی لو یو سو مچ ابا” نویرہ منیہا بیڈ پہ چڑھ کے پیچھے سے ان کے کندھوں پہ جھولی تھیں اور روش نے نیچے بیٹھتے ان کی گود میں سر رکھا تھا اور اپنا مخصوص جملہ دہرایا تھا اور حسین صاحب نم آنکھوں سے مسکرا دیے تھے کہ اب سے یہ جملہ انہیں بہت کم سننے جو ملا کرے گا
____________________
اگلا دن افراتفری سے بھرپور تھا شادی والا گھر تھا اس لیے کام ناچاہتے ہوئے بھی نکل رہے تھے فنکشن رات کا تھا مگر وہ عصر سے پہلے ہی تیار ہونے چلی گئی تھیں ساتھ سارہ بھی ہو لی تھیں چونکہ چار دلہنیں تھیں اور ساتھ وہ چاروں اس لیے تیار کرنے میں ٹائم لگنا تھا
جانے سے پہلے وہ حسین صاحب کے کپڑے وغیرہ سب کچھ سیٹ کر کے گئی تھیں مغرب کے بعد تیار ہو کے حسین صاحب گھر میں موجود مہمانوں کے ساتھ میرج ہال روانہ ہونے لگے تھے باقی سب مہمانوں نے میرج ہال ہی آنا تھا
سب کے نکلنے کے بعد جب حسین صاحب گھر لاک کرنے لگے تو ان کی نظر اپنے سونے آنگن پہ پڑی تھی یہ وہ گھر تھا جہاں ہر وقت مریم کی ڈانٹ پھٹکار اور باقی سب کی منتیں ترلے اور قہقہے گونجا کرتے تھے
ان کے گھر کی چہکار تو ان کی بیٹیوں سے تھی اور اب ان کے بغیر ان کا گھر کیسا ویران ویران لگ رہا تھا ان کی آنکھوں کے سامنے مختلف منظر چل رہے تھے کہیں وہ سب اکھٹی ان سے چمٹی ہوئی تھیں کہیں وہ سب مل کے روش کو چڑا رہی تھیں تو کہیں مریم ان سب کو ڈانٹ رہی تھی
“حسین کیا سوچ رہے ہو اب آ بھی جاؤ” دادو پھپھی کی آواز سن کے حسین صاحب ہوش میں آئے اور اپنی آنکھیں صاف کر کے دروازہ لاک کر کے آ کے گاڑی میں بیٹھ گئے تھے
عشا کے بعد باراتیں آئی تھیں روحان، رامش اور ارسل لوگ تقریباً اکٹھے ہی آئے تھے کیونکہ وہ اک ہی کالونی میں رہتے تھے روحان اور رامش کے گھر ساتھ ساتھ ہی تھے ارسل کا بس تھورا ہی دور تھا ان کے آنے کے کچھ دیر بعد ہی عادل بھی بارات لے کر آ گیا تھا سب کا استقبال پھولوں کی بارش میں کیا گیا تھا
وہ سب بہنیں بھی پارلر سے آ چکی تھیں دلہنیں برائیڈل روم میں تھیں اور باقی تینوں باہر بارات کے استقبال کے لیے آئی ہوں تھیں میرج ہال میں چار باراتوں کے حساب سے سیٹ اپ لگایا گیا تھا سٹیج بھی چار بنائے گئے تھے
چونکہ آج منیہا، تابش اور نویرہ، ارسلان کی منگنی تھی ان کے لیے کوئی الگ سے کچھ نہیں بنوایا گیا تھا کیونکہ وہ اپنی بہنوں کی شادی کو فل انجوائے کرنا چاہتی تھیں اور پورا ٹائم سٹیج پہ بیٹھنا نہیں چاہتی تھیں اس لیے پہلے ان کی منگنی کی رسم ادا کرنی تھی اور پھر ان چاروں کا نکاح ہونا تھا
سب مہمانوں کے آنے کے بعد انہوں نے منگنی کا اناؤنس کر کے ان چاروں کو اک سٹیج پہ بلایا تھا پہلے ارسلان اور نویرہ نے اک دوسرے کو رنگ پہنائی تھی پھر منیہا اور تابش نے حسین صاحب نے چاروں کو گلے لگا کر خوش رہنے کی دعا دی تھی
منگنی کی رسم کے فوراً بعد حسین صاحب مولوی صاحب کو لیے برائیڈل روم میں گئے تھے تا کہ نکاح پڑھایا جا سکے مولوی صاحب نے چاروں کا باری باری نکاح پڑھایا تھا نکاح کے بعد چاروں حسین کے ساتھ لگ کے رو دی تھیں حسین صاحب کی بھی آنکھیں نم تھیں مگر دل مطمئن تھا تھوڑی دیر بعد حسین صاحب ان کا سر چوم کے باہر چلے گئے تھے میک اپ واٹر پروف ہونے کی وجہ سے زیادہ خراب نہیں ہوا تھا جو ہوا تھا وہ نویرہ لوگوں نے حسین صاحب کے باہر جاتے سیٹ کر دیا تھا
باہر آتے مولوی صاحب نے چاروں دلہوں کا نکاح پڑھوایا اس کے بعد دعا اور پھر ہر طرف مبارک سلامت کا شور اٹھا تھا نکاح کے بعد دلہنوں کو سٹیج پہ لایا گیا تھا
مریم کے اک طرف روش اور دوسری طرف سے اس کی ساس اسے تھامے سٹیج تک لائی تھیں دلہنوں کے آتے ہی وہ سب صوفوں سے اٹھ کے آگے بڑھے تھے اس لیے مریم کے آتے ہی روحان نے اس کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلایا تھا جسے مریم تھام کے سٹیج پہ چڑھی تھی اسے صوفے پہ بیٹھانے کے بعد روحان خود بھی بیٹھا تھا
“نکاح مبارک” روحان نے صوفے پہ بیٹھتے ہی مریم کے کان میں سرگوشی کے نداز میں کہا تھا مریم نے سر ہلا کے ہی مبارکباد وصول کی تھی
“ویسے آج تو سب کی نظریں ہم پہ ہی ٹکی ہیں آج نہیں بھاگیں گی” اس کی شرارت سے بھرپور آواز پہ مریم نے بمشکل اپنا قہقہہ ضبط کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تھا روحان بھی اس کے چمکتے چہرے کو دیکھ کے مسکرا دیا تھا
مائرہ منیہا اور صائمہ بیگم کی معیت میں سٹیج پہ آئی تھی جہاں عادل پہلے سے ہی مسکراتے ہوئے اس کے استقبال میں کھڑا تھا مائرہ نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا اور سٹیج پہ آئی تھی
“میری زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنے کا بہت شکریہ اور نکاح مبارک” عادل نے دھیمی آواز میں کہا تھا
“آپ کو بھی نکاح مبارک” مائرہ نے دھیرے سے کہا تھا اور اس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھی تھی
نروس سی زینیہ کو تھامے چچی اور نویرہ سٹیج پہ لے کے آئی تھیں جہاں رامش دنیا جہان کی محبت آنکھوں میں سموئے اسی کے انتظار میں کھڑا تھا ان کے قریب آتے وہ سٹیج سے نیچے اترا تھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے سٹیج پہ بنے سٹیپس عبور کرواتا اوپر لایا تھا
“نکاح مبارک بیٹر ہاف میری دعاؤں کو قبول کر کے اللّٰہ نے آپ کو مجھے سونپا ہے میں کوشش کروں گا آپ کو ہمیشہ خوش رکھوں” اس کا ہاتھ ہولے سے دباتے رامش بولا تھا زینیہ بولی کچھ نہیں تھی بس اک محبت بھری نگاہ ڈال کے آنکھیں واپس جھکا لی تھیں
ارسل کی امی اور سارہ فاتینا کو لیے سٹیج تک آئی تھیں ہمیشہ بولڈ نظر آنے والی فاتینا آج خود کو اتنی نگاہوں کا مرکز دیکھ کر گھبرا گئی تھی سٹیج کے پاس پہنچتے فاتینا نے ارسل کو دیکھا تھا جو بیک وقت آنکھوں میں شرارت اور محبت لیے اسے دیکھ رہا تھا
فاتینا کے دیکھنے پہ اس نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے اگے پھیلایا تھا فاتینا نے ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا اور سٹیج پہ آئی تھی
“آج نکاح کی خوشی میں کوئی کھری کھری نہیں سنائیں گی” صوفے پہ بیٹھاتے ارسل نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی جس پہ فاتینا نے اپنے بڑے بڑے نیلز اس کے بازو میں کھبوئے تھے وہ بیچارہ سی کر کے رہ گیا تھا
“جنگلی بلی” ارسل نے بازو سہلاتے اسے اک نیا نام دیا تھا فاتینا نے اس کے ایکسپریشنز دیکھ کے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی
“ویسے آج تمہیں دیکھ کے دل کر رہا ہے منگنی کی بجائے ڈائریکٹ نکاح اور رخصتی کرواتا” نویرہ جو سٹیج سے نیچے آ کے اک ٹیبل پہ بیٹھی ان سب کو دیکھ رہی تھی ارسلان کی آواز پہ اس نے چونک کے اسے دیکھا تھا
“اور میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتی کہ دیکھی جاؤ جاگتی آنکھوں سے خواب” نویرہ نے لاپرواہی سے کندھے اچکاتے کہا تھا
“قسم سے بڑی ہی ظالم ہو” ارسلان کے بیچارگی سے کہنے پہ نویرہ کھلکھلا کے ہنس دی تھی ارسلان بھی اک محبت بھری نگاہ اس پہ ڈال کے مسکرا دا تھا
“پیاری لگ رہی ہو” منیہا جو اک کونے میں کھڑی سلفی لینے میں مصروف تھی اپنے برابر سے آتی آواز پہ چونک کے گردن گھمائی تو تابش مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا
“لیکن تم بلکل منحوس لگ رہے ہو” منیہا نے دانت پیستے کہا تھا کیونکہ تصویریں بناتے ہوئے اسے کوئی ڈسٹرب کرے اسے ایسے ہی غصہ آتا تھا
“تم سے بات کرنا ہی فضول ہے” تابش جلتا بھنتا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا مگر پیچھے سے آتی منیہا کے قہقہے کی آواز پہ اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے
وہی تھوڑی دور کھڑے حسین صاحب مسکراتے ہوئے اپنی ساری بیٹیوں کو ہنستے کھلھلاتے دیکھ رہے تھے ان بیٹیوں کی پیدائش پہ لوگوں نے ان سے ترس اور ہمدردی کا اظہار کیا تھا مریم کے کالج چھوڑنے کے بعد اتنے سال گھر بیٹھنے پہ دبے دبے لفظوں میں اس کی عمر نکل جانے کے طعنے دیے تھے
مائرہ کا رشتہ مریم سے پہلے طے ہونے پہ طرح طرح کی باتیں بنائی گئی تھیں مگر آج وہ سرخرو ہوئے تھے ان کی بیٹیوں کی وجہ سے کھبی ان کا سر نہیں جھکا تھا ہر حال میں ان کی بیٹیاں ان کے ساتھ کھڑی رہی تھیں
اور انہوں نے بھی کھبی اپنی بیٹیوں کو بوجھ نہیں سمجھا تھا جس کا صلہ اللّٰہ نے انہیں خوب دیا تھا ان کی سب بیٹیاں خوش و خرم تھیں وہ ابھی یہی سب سوچ رہے تھے کہ اچانک ابا نام کی پکار پہ چونک کے سٹیج کی طرف دیکھا تھا جہاں سب اک سٹیج پہ کھڑے فیملی فوٹو کے لیے انہیں بلا رہے تھے ساری سوچوں کو جھٹکتے حسین صاحب مسکراتے ہوئے سٹیج کی طرف بڑھے تھے
بیٹھی بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ ذمہ داری ہوتی ہیں جو رب کی طرف سے آپ کو سونپی جاتی ہے آپ کا کام ان کی اچھی تعلیم و تربیت کر کے اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہے اور ان کے اچھے نصیب کی دعا کرنا ہے باقی ان کا نصیب رب نے لکھا جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اک ماں اپنے بچے کی زرا سی تکلیف پہ سو دفعہ تڑپتی ہے تو وہ رب تو ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے اس لیے انہیں بوجھ سمجھ کے نہیں ذمہ داری سمجھ کے پالیں اور اس بات کو سمجھیں کہ بیٹیاں بھی بیٹوں سے کم نہیں ہوتیں
ختــــــــم شـــــــــــد