سکندر صاحب کی آوازیں سن کے ثمینہ بیگم اور ایلاف لاؤئج میں آئیں۔آنے والوں کو دیکھ کے ایلاف کو لگا کہ اسکی سانسیں بند ہو جائیں گی۔اسکی ٹانگیں بے جان ہو گئیں تھیں۔حلق تک خوف سے خشک ہو گیا تھا۔وہ منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی سسکیوں کا گلہ دباتے واپس بھاگی تھی۔ثمینہ بیگم بھی اسکی غیر ہوتی حالت دیکھ کے اسکے پیچھے ہو لی تھیں۔
ایلاف کا چچا اور اسکا بیٹا کسی طرح سے ایلاف تک پہنچ چکے تھے۔سکندر صاحب سے وہ دو دن پہلے مل چکے تھے۔انہوں نے انکی بھتیجی کو اغواہ کرنے کا الزام لگایا تھا ۔ان لوگوں سے پیچھا چھڑوانا سکندر صاحب کے لیے کوئی مشکل کام ہرگز نہ تھا ۔وہ انکو نکاح نامہ دیکھا چکے تھے۔اور بھتیجی کے لیے اچانک امڈ آنے والی محبت پہ بھی خوب لعن طعن کیا تھا ۔وہ لوگ اب ایلاف سے ملنے پہ با ضد تھے تا کہ نکاح کی حقیقت جان سکیں ۔ازمیر کو بھی اس سارے واقعہ کا علم آج صبح ہی ہوا تھا۔
“آنٹی وہ لوگ ۔مجھے نہین جانا کہیں بھی ۔پلیز مجھے چھپا لیں۔”وہ بری طرح رو رہی تھی۔
اسے وہ سب یاد آرہا تھا جو اس کے ساتھ بیتا تھا اگر وہ لوگ اسے لے گے تو پھر کیا ہو گا ۔یہ سوچتے ہی اسکی سانس بند ہوتی تھی۔
“آنٹی آپ انکل کو بولیں ۔مجھے کہیں نہیں جانا۔وہ لوگ بلکل اچھے نہیں۔”وہ بری طرح بلک رہی تھی۔
“چپ میرا بچہ میں ہوں ناں ۔کچھ نہیں ہو گا۔ہمت سے کام لوں۔”وہ اسکو ساتھ لگائے اسکو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
“مجھے اپنے پاس رکھیں ۔وعدہ کریں کہ مجھے کہی نہیں بھیجے گی۔”وہ ہچکیوں میں رو رہی تھی۔
دروازہ کھلا تھا اور ازمیر اندر آیا تھا۔
“ایلاف باہر آؤ۔”ازمیر کی آواز پہ اسنے سر اٹھا کے دیکھا۔ناک رونے کی وجہ سے سرخ ہو گیا تھا۔آنکھیں سوجی ہوئی تھی۔ازمیر کے دل کو کچھ ہوا۔
“آنٹی مجھے کہیں نہیں جانا ۔آپ لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی۔”ایلاف اپنے آپ میں نہ تھی اب تو ازمیر بھی اسے کہہ رہا تھا کیا واقعی وہ لوگ اسے لے جائیں گے۔
“ایلاف ۔ہوش میں آؤ۔”ازمیر نے اسکی دونوں کلائیوں سے پکڑ کے جھنجھوڑا۔اژمیرکاتو خود غصے سے برا حال تھا کے ایلاف کے کزن کا منہ توڑ دے ۔جو پہلے ہی پریشان تھی اور بلک اٹھی تھی ۔ثمینہ بیگم کے ڈانٹنے پہ اژمیر کو اپنے رویے کا احساس ہوا وہ بھی کیا کرتا ۔
“ادھر بیٹھو۔پیو یہ ۔”اسے بیڈ پہ بیٹھا کے پانی کا گلاس اسکے منہ کو لگایا ۔وہ با مشکل ایک گھونٹ پی سکی۔
“دیکھو ایلاف ۔اس وقت تمہیں ہمت کے ضرورت ہے۔”وہ اسکا چہرا اوپر کر کے بولا۔
“وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تمہیں یہاں زبردستی رکھا ہوا ہے۔”وہ اسکے چہرے سے اب آنسو چن رہا تھا۔
“اسلئے تمیں یہ باہر جا کے انکے سامنے کہنا ہو گا۔”
وہ اسے سمجھا رہا تھا ۔
“آؤ۔”وہ اسے باہر لے آیا۔وہ مارے باندھے اسکے پیچھے چل دی تھی۔
وہ ازمیر کے پیچھے چھپی لاؤنج میں داخل ہوئی تھی اسے دیکھ کےوہ دونوں باپ بیٹے کھڑے ہوئے اور داؤد(چچا)اسکی جانب آنے کو تھا۔وہ بلکل ازمیر کے پیچھے چھپ گئی تھی اب اور زور سے اسکی شرٹ اپنی مٹھیوں میں دبوچ لی۔جسیے اسکے بچھڑنے کا ڈر ہو۔
“بیٹھو۔ایلاف بیٹا۔”سکندر صاحب بولے۔
وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔
“بابا جو بھی بات کرنی ہے آپ کریں ایسے ہی۔”ازمیر نے خونخوار نظروں سے ایلاف کے کزن کی طرف دیکھتے ہوئے سکندر صاحب کو بولا۔
“ادھر آؤ ایلاف بیٹی میں تمہارا تایا ہوں۔”داؤد صاحب بولے ۔
“نہیں ازمیر مجھے نہیں ملنا کیسی سے۔لے چلے مجھے یہاں سے۔”وہ ازمیر کے ساتھ لگی بولی تھی۔اور ایک آنسو ازمیر کو اپنی پشت پہ گرتا محسوس ہوا تھا۔
“ایلاف ۔بی بریو۔میں ادھر ہی ہو بولو تم ۔”ازمیر نے اسے بازو سے پکڑ کے تھوڑا سا آگے کیا۔وہ آنسو بھری آنکھوں سے اسکی طرف دیکھ کے سامنے بیٹھے انکل کی طرف دیکھا جنہوں نے آنکھوں کے اشارے سے اپنے ساتھ کا یقعین دلایا۔
“آپ لوگوں نےمیرے ساتھ جو کیا ۔میں آپ کو معاف کرتی ہوں ۔پھر سے میرے سامنے مت آئیں گا۔۔۔”وہ ہمت کر کے بولی ۔ازمیر کی شرٹ پہ ہنوز گرفت تھی۔
“کیا تمہاری رضامندی ہے اس نکاح میں ۔”کب سے خاموش بیٹھے اسکے کزن نے اسے گھورتے پوچھا۔
“جی۔مجھ پہ کسی قسم کا دباؤ نہیں بلکہ انکا احسان ہے ۔”وہ اسکے ہی انداز میں بولی۔
“پچھتاؤ گی تم ایک دن سنا تم نے ایلاف۔”وہ چیخا تھا اپنی بے وقعتی پہ۔وہ لرز کےازمیر کے بلکل ساتھ لگ گئی۔
“آواز نیچے کر کے میری بیوی سے بات کرو۔میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتا کوئی میری بیوی سے اس لہجے میں بات کرے۔”ازمیر کے لہجے میں بھی پھنکار تھی۔
اس بات پہ مسز سکندر اور سکندر صاحب دونوں نہال ہو گئے تھے۔اور بہو بیٹے کو محبت پاش نظروں سے دیکھا۔
“میرے خیال میں اتنا کافی ہے آپ کے نام نہاد رشتے کے لیئے ۔”سکندر صاحب کہتے اٹھ گئے۔وہ دونوں باپ بیٹا بھی اٹھے۔
“مجھے معاف کر دینا ایلاف بیٹا میں مجبور تھا ۔”داؤد صاحب دل گرفتہ لہجے میں بولے تھے اور باہر نکلتے چلے گئے۔
انکے جانے کے بعد سکندر صاحب نے پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولے۔
“خوش رہو صدا۔”وہ ویسے ہی چپکی کھڑی تھی وہ دونوں ہنستے وہاں سے چلے گئے۔
“جا چکے ہیں وہ لوگ ۔کیا سارے عمر ایسے ہی کھڑے رہنا کا موڈ ہے۔”وہ شرارت سے بھر پور لہجے میں بولا ۔
وہ جو خوف کےزیر اثر تھی جلدی سے پیچھے ہٹنی لگی۔
“بہت بہانے ڈھونڈتی ہو میری پاس آنے کے۔”اس سے پہلے کہ وہ ہٹتی ازمیر نے اسکے گردحصار قائم کیا تھا۔
“کیا کر رہے ہے ۔چھوڑیں ۔”وہ کسمسائی۔
“ابھی تھوڑی دیر پہلے تو آرام سے کھڑی تھی۔”وہ شرارت سے بولا۔
“ازمیر کوئی آ جائے گا ۔”وہ اپنا آپ چھوڑنے کی کوشش میں تھی ۔
“آنے دوں یہ ہی کہیں گے کہ دونوں میں کتنا پیار ہے۔”وہ ایک آنکھ دبا کے بولا ۔
“آپ بہت فضول گو ہے”۔ایلاف چڑ کے بولی۔
“قدر کر اس فضول گو کی لڑکی۔”وہ اسکے ماتھے پہ ہلکے سے ہاتھ مارتے ہوئے بولا ۔
“ازمیر پھوپھو۔”ایلاف نے سامنے دیکھ کے بولا ۔وہ پیچھے موڑا ۔گرفت ڈھیلی ہوئی اور وہ ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر کمرے کی طرف بھاگی۔
“یو چیٹر۔”ازمیر نے بلند آواز میں کہا ۔
“آپ کی صحبت کا اثر ہے۔”ایلاف کہتے کمرے میں گھس گئی۔
“ایک کسی کو میری رخصتی کا خیال نہیں آتا۔”ازمیر کی بات پہ ولید کا قہقہ پڑا تھا۔
“لگتاہے بھابھی ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں ۔”ولید اسکی طرف دیکھتے بولا۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا ۔شیشے کے پار ایلاف اور احدیہ آتی دکھائی دی۔ولید نے اسکے نظروں کے تعاقب میں دیکھا ۔
“اسکو کہتے ہے دل کو دل سے راہ۔ادھر یاد کیا تھا۔”ولید شوخی سے باز نہ آیا۔
“اسلام علیکم۔”وہ دونوں آگے پیچھے داخل ہوئی تھی۔
“وعلیکم اسلام۔بیٹھو۔”دونوں نے سلام کا جواب دیا ۔
“واہ کیا بات ہے آج تو گھر سے لنچ آیا ہے اور وہ بھی بھابھی خود لے کے آئیں ہیں ۔”ولید نے دونوں کی طرف دیکھا کے کہا ۔
“نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ احدیہ کو کچھ شاپنگ کرنی تھی اور ہم یہاں قریب ہی آ رہے تھے تو آنٹی نے بولا لنچ بھی لے کے جائیں۔”ایلاف نے بتایا ۔
“انتہائی ظالم لڑکی ہو تم۔دو منٹ خوش ہی ہو لینے دیتی۔”ازمیر اسکے طرف دیکھتے بولا تھا۔ولید اور احدیہ مسکرا دئیے۔
“شروع کریں ٹھنڈا ہو جائے گا۔”ایلاف نے اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کو بولا ۔ساتھ ہی ازمیر کو سکندر صاحب نے بلا لیا۔وہ اٹھا کھڑا ہوا۔
“آپ لوگ کرو سٹارٹ میں آتا ہو۔”وہ ایک پر شوق نظر ایلاف پہ ڈالتا باہر نکل آیا۔کچھ ٹائم بعد ایلاف بھی ولید اور احدیہ کو اکیلا چھوڑ باہر نکل آئی۔
ادھر ادھر دیکھتے اسکی نظر میٹنگ روم پہ پڑی تو وہ اندر چلی آئی۔کوئی بھی نہیں تھا یہاں ۔لنچ ٹائم چل رہا تھا۔
“ارے واہ آپ کدھر ایلاف میڈم۔”عقب سے آواز پہ وہ پلٹی۔علیزے کھڑی تھی واہیات حلیے میں ۔
“جی ۔وہ دراصل لنچ لے کے آئے تھے۔آنٹی نے ازمیر کی فیورٹ ڈِش بنائی تھی۔”اسنے اسے بتایا ۔علیزے کو تو آج موقع مل گیا تھا۔
“وجہ پوچھ سکتی ہو ۔ازمیر کا جو تم اتنی خیال رکھتی ہو۔اسکے آگے پیچھے پھرتی رہتی ہو۔”علیزے پھٹی تھی۔ایلاف کے تو ہوش اڑ گئے وہ تو مشکل میں پڑ گئی۔
“آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔”ایلاف نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
“تم دو ٹکے کی لڑکی میرے ازمیر سے دور رہو۔”وہ بولی کم پھنکار زیادہ رہی تھی۔
“اوقات کیا ہے تمہاری آخر۔محلوں کے خواب مت دیکھو ۔”ایلاف کا تو رونے پہ زور تھا اب۔کہہ تو وہ سچ رہی ہے اسکی اوقات کیا ہے ۔اسے ایک دفعہ پھر احساس کمتری کا دورہ پڑا تھا۔
“میں جانتی ہو تم جیسے لڑکیوں کو۔لگتی کیا ہو تم ازمیر کی۔”ساتھ ہی علیزے کا ہاتھ اٹھا تھا ۔
مگر راستہ میں ہی کسی نے روک لیا تھا۔اور جواباً ایک بھاری ہاتھ علیزے کے منہ پہ نشان چھوڑتا چلا گیا تھا۔
ایلاف نے منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنی چیخ روکی تھی۔
“بیوی ہےمیری۔مسزاژمیر سکندر شاہ۔”اژمیر نے ایلاف کو کلائی سے پکڑ کے سامنے کیا تھا وہ تو سکتے میں تھی۔بات ایسے کھلے گی اسکے گمان میں تھا۔علیزے اپنی گال پہ ہاتھ رکھے شاک کی سے کیفیت میں تھی۔
“یہ ثبوت کافی ہی یا کوئی اور بھی چاہیے۔اگلی دفعہ کچھ بھی کہنے سےپہلے اچھی طرح سوچ لینا ۔”ازمیر اسے وارن کرتا ہواکہا ۔اورایلاف کو کھینچتا ہوا باہر لے آیا ۔
ایلاف کو اسکے غصے کا اب اچھے سے اندازہ ہو چکا تھا۔
“کیا ہوا ۔سب ٹھیک ہے۔”ولید اور احدیہ نے ازمیر کو دیکھا جو غصے میں اسے کھینچتا اپنے ٹیبل سے چابی اٹھائے پھر باہر کا رخ کیے ہوئے تھا۔ایلاف سوں سوں کرنے میں مصروف تھی۔
“احدیہ۔”ایلاف کے منہ سے مری سے آواز نکلی تھی۔پیچھے ہی ولید اور احدیہ بھی باہر نکلے تھے ۔ازمیر کسی کی پرواہ نہ کرتے اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا ساتھ لایا اور گاڑی میں تقریباً پٹخا تھا۔
ایلاف کی روح اسکے غصے کا اندازہ کر کے کانپ اٹھی تھی۔
دونوں گاڑیاں ایک ساتھ سکندر ولا پہنچی تھیں ۔ازمیر نکل کے تیر کی تیزی سے اندر چلا گیا ۔احدیہ اتر کے ایلاف کے پاس آئی جو گاڑی کے پاس کھڑی رونے کا شغل فرما رہی تھی۔
“ایلاف بتاؤ تو ہوا کیا ہے۔بھائی کیوں اتنے غصے میں ہیں۔”احدیہ نے اسکا ہاتھ تھپکتے ہوئے پوچھا ۔تو ایلاف نے رام کہانی ولید اور احدیہ کو سنا دی۔
“اب بتاؤ اس سب میں میرا کیا قصور ہے۔”ایلاف ازمیر کے غصے کی وجہ سے پریشان تھی۔
“اچھا اندر تو چلو ۔میں کرتا ہو بات ازمیر سے۔”ولید نے انکو اندر آنے کا کہا ۔وہ لاونج میں بیٹھ گئی ۔پروین سے پتہ چلا ثمینہ بیگم گھر نہیں ہے۔ولید ازمیر سے بات کرنے اسکےکمرے میں چلا گیا ۔
“دیکھا احدیہ وہ کتنے غصے میں ہیں ۔”وہ اندر سے آتی اسکی آواز پہ اچھل کے بولی۔اسکی حرکت پہ مسکرا دی۔
“کھا نہیں جائیں گے تمہیں۔”احدیہ بولی۔
“کوئی بعید نہیں ان سے۔”ایلاف چڑ کے بولی۔احدیہ نے اسکو آنکھیں نکالیں۔
“یار اتنا ہائپر ہونے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں میں۔”ولید نے اسے بولا جو غصے سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔
“وجہ وہ میڈم ہیں جو باہر بیٹیھں ہیں۔”اسنے چبا کے کہا۔
“اچھا وہ کیوں ۔اس میں اسکا کوئی قصور نہیں۔”ولید نے دلچسپی سے پوچھا۔
“اس میں اپنا ڈیفنڈ کرنے کی بھی عقل نہیں ۔احمقوں کی طرح کھڑی باتیں سن رہی تھی اسکی۔اور مجھے یہ بات غصہ دلاتی ہے۔وہ اسے باتیں سنا رہی تھی اور یہ۔”وہ بولا ساتھ ہی کچھ یاد آنے پہ۔
“ایلاف اندر آؤ ۔”ساتھ ہی ایلاف کی کلاس لینے کا تہیہ کرتے اسکو آواز بھی دے ڈالی۔
“مجھے نہیں جانا احدیہ۔”وہ احدیہ کی طرف دیکھتے بولی۔
“اٹھوں ورنہ میرا خونخوار بھائی تمہیں کچا چبا جائے گا۔”احدیہ کی شوخی پہ اسنے اسے گھورا۔مرتا کیا نہ کرتا وہ اٹھی اور احدیہ کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی۔
“ازمیر آرام سے بات کرو۔وہ پہلے ہی پریشان ہے۔”ولید نے ٹوکا ۔
“انکو اور آتا ہی کیا ہے صرف رونا۔”ازمیر نے اسکی سوجی آنکھوں پہ چوٹ کی۔
“ازمیر ۔”ولید نے اسے تنبہیی انداز میں کہا اور احدیہ کے ساتھ باہر نکل گیا ۔
“تم کدھر ۔اس کمرے میں ہی رہوں گی تم اب سمجھی۔”ایلاف کو باہر جاتے دیکھ کے اسکی کلائی پکڑ کے اسنے زور سے روم کا دروازہ بند کیا ۔ایلاف کو اور شدت سے رونا آگیا ۔
“شدت برا لگتا ہے مجھے تمہارا بلا وجہ رونا ۔اب ایک آنسو نہ دیکھو میں ۔”ازمیر نے اسے وارن کیا تو کسی روبوٹ کی طرح آنسوؤں روکے سوں سوں کرنے لگی۔
“یہ زبان صرف میرے ساتھ بحث کرنے کے لئے نہیں ہے صرف ۔بلکہ کہی اور بھی اسکا استعمال آپکو فائدہ دے سکتا ہے۔”ازمیر نے اسکے جھکے سر کو دیکھتے طنز کیا۔
“وجہ پوچھ سکتا ہوں آپ نے اسکو جواب کیوں نہیں دیا جبکہ آپکے پاس ایک مضبوط سہارا ہے۔یاآپکو وہ سہارا ہی ناگوار ہے۔”اب وہ بدگمان ہوا ۔ایلاف نے سر اٹھا کے اسے دیکھا بولی کچھ بھی نہ۔
“کچھ پوچھ رہا ہوں ۔سن نہیں رہا تمہیں ۔”اسے بازو سے پکڑ کے جھنجھوڑا۔شاید اب اعتراف سننے کا تمنائی تھا۔
“میں ڈر گئی تھی میں کیا کہتی۔”وہ ہلکی سی آواز میں بولی۔
“تمہیں کسی سے بھی ڈرنے کے ضرورت نہیں ۔بیوی ہو تم میری ۔اور میں دل سے اس رشتے پہ راضی ہوں۔آخر کب تمہیں اس رشتے کی مضبوطی کا یقعین آئے گا۔آخر کب ۔”وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا۔
“اعتبار کرنا سیکھوایلاف ۔سب کو ایک سا مت سمجھو ۔کیا میں تمہارے اعتبار کے لائق نہیں ابھی بھی۔”ازمیر نے اسکی آنکھوں میں جھانک کے پوچھا۔
“دیکھو مجھے اپنی لائف میں وہ جگہ دو ۔میں کبھی تمہیں تنہا یا پیچھے نہ چھوڑوں گا۔مگر آزمائش شرط ہے۔”وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
“آپ نے اب تک ہر آزمائش پہ بھی میرا ساتھ دیا ہے ازمیر ۔انکل آنٹی آپ سب لوگ اللّٰہ کا میرے لیے زندگی کا بہترین انعام ہے۔”ایلاف دل سے بولی۔
“اور میں اسلئے نئیں بولی کیونکہ آپ کے ہوتے میں کیوں خود کو ڈیفینڈ کروں ۔آپ جو ہیں ۔”وہ بولی ۔
“اچھا اور ۔”ازمیر نے اسے اور بولنے پہ اکسایا ۔
“اور مجھے آپ پہ پورا اعتبار ہے۔”ایلاف نے معصومانہ اعتراف کیا ۔
“اور جو میری شادی کروا رہی تھی اب وہ کینسل سمجھوں ۔یہ تو میں نے اپنا ہی نقصان کروا لیا۔”وہ مصنوعی تاسف سے بولا۔
“وہ میں نے بکواس کی تھی۔خبردار آپ نے جو دوسری شادی کا نام بھی لیا ۔آپ تو تیار بیٹھے تھے۔بات بھی نہیں کی آپ نے مجھے سے پورا ہفتہ۔”اسنے دھونس جما کے کہا ۔ایسے بولتی وہ ازمیر کو دل کے قریب لگی تھی۔
“خدا کا نام لو یار مجھ سے ایک بیوی تو سنبھالی جاتی نہیں ۔دوسری کا کیا کروں گا۔”ازمیر ہنس کے بولا۔
“آپ بہت برے ہیں ۔بہت زیادہ۔”ایک بازو اسکی گرفت میں تھا ۔دوسرے ہاتھ سے ایلاف نے اسکے سینے پہ مکےبرسا دئیے۔
“ہاں ایک میں ہی برا ہوں میڈم ۔اور کوئی الزام ہو تو وہ بھی بتا دیں آج ہی۔”وہ کچھ نرم پڑا ۔
“اچھا وہ آپکے آفس میں کیا کر رہی تھی۔”ایلاف نے اب دونوں ہاتھوں سے اسکے کالر پکڑ کےپوچھا۔ازمیر کو اسکا استحقاق سے مہکتا لہجہ مسرور کر گیا۔
“میں کچھ پوچھ رہی ہوں ۔دانت مت دیکھائیں مجھے۔”ایلاف نے اسکو غصے سے دیکھا۔
“اگر نہ بتاؤں تو۔”ازمیر نے اسکو چھیڑا
“مرضی آپکی ۔زندگی آپکی۔آفس آپکا جو مرضی کریں۔”وہ کہتے ہوئے سائیڈ سے نکلنے لگی ۔
“ارے ارے ۔سوری میں مذاق کر رہا تھا۔”وہ اسے پکڑ کے اسکی سابقہ پوزیشن میں لایا۔
“میں آپکا۔تو میری مالک بھی آپ اور آفس کی بھی آپ ۔اور جہاں تک علیزے کا سوال تو یار بیوی اسکا لاسٹ ویک چل رہا وہ کچھ عرصے کے لیے آئی تھی ۔internship ہی سمجھ لو۔”ازمیر نے اسکا پھولے پھولے گال کو چھوتے ہوئے کہا ۔
“اور یہ انٹرن شپ آپ پہ ہی کر رہی تھی وہ۔”وہ غصے سے بولی۔
“یار بیوی اپنے معصوم شوہر پہ شک تو نہ کروں۔مجھ پہ انٹرن شپ کا رائیٹ میری مسز کے پاس ہےبس۔”وہ اسکے گرد اپنے بازوؤں کا حصار بناتے کہنے لگا ۔
“کیا خیال ہے پھر۔”وہ جذبوں سے بھرپور آواز میں بولا۔
“نہیں مجھے کیا ضرورت ہے میں تو لائف ٹائم کونٹریکٹ سائن کر چکی ہوں۔”وہ بھی اسکے ہی انداز میں بولی۔
ازمیر کھلکھلا کے ہنس پڑا۔
“ایلاف ۔”وہ سرگوشی میں بولا۔
“جی۔”اسنے جواب دیا
“میرے زیست کا حاصل ہو تم۔”ازمیر نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
ایلاف کا دل اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ازمیر اب اسکو اپنے دل کی ساری حکایتیں سنا رہا تھا ۔اور وہ حیران ہوتے سن رہی تھی۔
زندگی میں سب کچھ کھو چکی تھی وہ اکیلی رہ گئی تھی وہ لیکن اللّٰہ نے اسے سب کچھ دے دیا تھا ۔
صحیح کہتے ہیں اگر خدا اپنے بندے سے کچھ چھینتا ہے تو اسے عطا بھی کر دیتا ہے۔اسے تنہا نہیں چھوڑتا یہ بات آج ایلاف کو سمجھ آئی تھی۔
دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی ۔اگر کچھ برا ہو جائے تو زندگی ختم نہ ہو جاتی بلکہ نئے اداوار جنم لیتے ہیں بے شرط یہ کہ انسان اللّٰہ پہ توکل کرے۔کبھی ہار نہ ماننے اس میں زندگی کا حسن ہے۔
Here is the beginning of another beautiful journey …
ختم شد