آج وہ لوگ زلیخا بی کو لے کر ہاسپٹل آئے تھے آپریشن کی ڈیٹ فائنل ہوگئی تھی وہ حاشر کی بہت شکر گزار تھیں جو اتنا کچھ کر رہا تھا ان کے لئے
ہاسپٹل سے وہ خود انہیں چھوڑنے آیا تھا
نور تو بس اپنی اماں سے لپٹے پڑے تھی جیسے دوسرا کوئی کام ہی نا ہو حاشر اسے اس طرح کرتے دیکھ مسکرا دیا زرا بھی بناوٹ نہیں ان دونوں میں ایک جتنی غصے والی تھی دوسری اتنی ہی شانت
اسے پہلی ملاقات کے برعکس کافی اچھی لگی تھی امل حق بات کہنے والی کسی سے نا ڈرنے والی وہ تو بڑا متاثر ہوا تھا ان سب سے
زلیخا بی نے اسے زبردستی کھانے کے لئے روکا تھا اور وہ رک کر پچھتایا نہیں تھا کیونکہ کھانا واقعی بہت لذیذ تھا امل نے بہت زبردست کھانے بنایا تھا وہ تعریف کئے بغیر نا رہ سکا تھا۔۔
اچھا اب میں چلتا ہوں آپ بلکل بھی پریشان مت ہونا اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کردیں گے آپ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گی انہیں تسلی دے کر وہ باہر آیا تھا
اس نے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر نور کھڑی تھی وہ اسے دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔
آج زلیخا بی کی سرجری ہونی تھی وہ پریشان تھی دل بہت عجیب سا ہورہا تھا
وہ لوگ انہیں لے کر ہاسپٹل آئے تھے شبانہ علی شان سب ان کے ساتھ آئے تھے
حاشر کو ضروری کام سے باہر جانا پڑا تھا اس لئے وہ آ نہیں سکا لیکن وہ ابرہیم کو سب سمجھا کر گیا تھا کیونکہ ابھی آپریشن کے پیسے سبمنٹ نہیں کروائے گئے تھے
تبھی اسکا موبائل فون رنگ ہوا تھا ان نان نمبر تھا وہ اٹھانا نہیں چاہتی تھی مگر کچھ سوچ کر اسنے فون اٹھایا تھا حاشر کے آفس سے فون تھا اسے چیک لینے کے لئے بلایا گیا تھا
آپ جلدی سے پیسوں کا ارینج کریں آپریشن لیٹ ہو جائے گا ورنہ
ڈاکٹر کے بولنے پر علی کو لئے ساتھ بڑھی تھی مگر راستے میں ہی علی کو اسے اکیلے بھیجنا پڑا تھا
وہ آفس کے باہر آکر کھڑی ہوگئی دل بہت خراب ہورہا تھا مگر ہمت کر کے اندر بڑھی ریسیپشن کر بات کر کے وہ اندر آفس میں آئی لیکن سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ کر اسے لمحہ لگا تھا
آجائیں وہ اسے پہچان گیا تھا لیکن فلحال ایسی سچیوشن نہیں تھی کہ وہ کوئی طعنہ مارتا
آجائیں بیٹھے۔۔۔ اس نے امل کو بیٹھنے کا کہا اور دراز سے پیسے نکال کر اسے دئیے
یہ لیں۔۔۔
تھینک یو میں جلد اسے لوٹانے کی کوشش کرونگی
ہممم کوئی بات نہیں۔۔ اللّٰہ آپکی امی کو صحت دے آمین۔۔۔
وہ ابھی کچھ بولتا کہ ارحم اندر آیا تھا
آبی یار۔۔۔ اوووو سوری میں نے ڈسٹرب کردیا
ارے نہیں آجا ابرہیم نے اسے آنے کا کہا
میں چلتی ہوں اونس اگین تھینکس۔۔۔ وہ پیسوں کا بیگ تھام کر جلدی سے وہاں سے نکلی تھی
یہ کون تھی؟؟ ارحم نے شرارت سے آنکھ دبائی..
اس کی مدر یہاں جاب کرتی تھیں تو بیمار ہے قرضہ لیا ہے اس نے۔۔
ہممم اس نے پرسوچ انداز میں کہا؟؟
ایک آئیڈیا ہے۔۔
کیا؟؟؟
اور ارحم نے آئیڈیا پر وہ بدکا تھا
پاگل ہوگیا ہے کیا وہ کبھی راضی نہیں ہوگی۔۔
اسے ہونا پڑے گا وہ پراسرار مسکراہٹ سے بولا تھا
چھوڑ یار میں ٹھیک کرونگا سب۔۔
تو پاگل ہے یار یہ غریب لڑکیاں ہے کچھ نہیں بولیں گی وہ اسے ایک نیا ہی رخ دکھا رہا تھا وہ شاید اپنے مفاد میں اتنا اندھا ہوگیا تھا کہ اسے یہ ٹھیک لگ رہا تھا۔۔
اب بس اسے اس پر عمل کرنا تھا۔۔۔
آپریشن اسٹارٹ نہیں ہوا تھا پورا ایک دن انہیں آوبزروشن میں رکھا گیا تھا پیسے وہ سبمنٹ کروا چکی تھی
رات اس نے نور کو شںانہ کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا جبکہ خود وہ شان کے ساتھ ہاسپٹل میں رک گئی تھی
تبھی اچانک نرس بھاگتی ہوئی زلیخا کہ روم میں گئی تھی
یہ ایسے کیوں گئی ہے شان ؟؟؟ اس نے پریشانی سے شان کو دیکھا
کچھ نہیں ہوا تو پریشان نہیں ہو۔۔ اس نے اسکا ہاتھ تھپتھپایا
تبھی ڈاکٹر بھی اندر روم میں گئے تھے یہ سب اس کی برداشت سے باہر ہورہا تھا
دوسری طرف نور پوری رات اپنی ماں کی صحت کے لئے سجدہ ریز تھی
زلیخا بی کا بی پی نارمل نہیں ہورہا تھا پوری رات ان سب کی آنکھوں میں کٹی تھی
صبح گیارہ کے قریب اسکا موبائل پھر سے بجا تھا نمبر وہی کل والا تھا
اس نے فوج اٹھایا تو آج پھر اسے بلایا گیا تھا وہ پریشان تھی کہ اب کیا ہوا شان تھوڑی دیر پہلے ہی سونے گیا تھا اور علی آیا تھا وہ علی کو بول کر وہاں سے نکلی تھی۔۔چادر سر پر ڈالے وہ بس میں سوار ہوئی
آفس کے پاس اتر کر اسنے قدم اندر کی طرف بڑھائے تھے
آج آفس میں سناٹا سا لگا
سارا کام اوپر ورک شاپ میں ہورہا تھا وہ ریسیپشن سے ہوتی آفس میں آئی تو ابرہیم بیٹھا تھا اسے دیکھ کر کھڑا ہواجیسے اسی کا منتظر ہو۔۔۔
آئیں بیٹھیں ۔۔۔
ہممم۔۔۔
مجھے ایک بہت ضروری بات کرنی تھی آپ سے۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے
جی کہو۔۔۔ اسکا لہجہ بلکل سپاٹ تھا
جیسا کہ آپ نے ہماری کمپنی سے اچھا خاصا لون لیا ہے تو اس کو لینے کی کچھ فارمیلیٹیز ہوتی ہیں جو کہ حاشر نے آپ کو نہیں بتائی ہونگی
جی ۔۔۔؟؟ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی
اس لون کی ایک قسط آپ کو پندرہ دن بعد دینی ہوگی۔۔۔
جی۔۔۔ اس نے پریشانی سے اسے دیکھا
حاشر بھائی نے تو کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی۔۔
ہاں جانتا ہوں لیکن یہ رول ہے جسے ہم توڑ نہیں سکتے ۔۔۔
لیکن میں اتنی جلدی کیسے؟؟ دیکھیں کم از کم چند مہینے مجھے دیں میں وعدہ کرتی ہوں میں فوراً سے پہلے آپکی رقم دے دونگی۔۔۔ وہ بے حد پریشان ہوئی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریے
کچھ ٹائم کی تو مہلت دیں پلیز۔۔
دیکھیں مہلت کے ساتھ ایک فیور دے دیتا ہوں چلیں آپ کو۔۔۔
اس نے تھوڑے توقف کے بعد کہا
کیسا فیور اس کے بولنے پر اس نے جلدی سے پوچھا
آپ مجھ سے پیپر میرج کرلیں جیسے ہی قرض ادا ہوگا آپ آزاد ہونگی ۔۔۔
جی۔۔۔۔ اس کا منہ کھلا تھا اسکی بات پر۔۔۔
کہنا کیا چاہتے ہیں آپ کھل کر کہیں۔۔اس نے بہت مشکل سے اپنا غصہ کنٹرول کیا تھا
آپ مجھ سے ایک کنٹریکٹ کریں گی جس کے تحت جب تک آپ قرضہ ادا نہیں کرسکتی تب تک آپ کو میری بیوی بن کر رہنا پڑے گا۔۔
کیا مطلب ہے ہاں آپکا اس بات سے؟؟؟ وہ غرائی تھی
مطلب بہت صاف ہے دیکھیں ہم نے آپ کی مدد کی اب آپ سے بھی مدد چاہتے ہیں۔۔ بولتے ہوئے وہ ہچکچاہٹ کا شکار تھا مگر ابھی یہ کرنا بھی بہت ضروری تھا
مدد نہیں چاہتے بلکہ۔۔۔ وہ کچھ سخت کہنے سے باز آئی تھی
میں آپ کے پیسے بہت جلد آپ کو دے دوں گی اس لئے مجھے آپ کی یہ آفر قبول نہیں ہے۔۔
اس نے دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ سنایا تھا
سامنے بیٹھے شخص نے پہلو بدلہ۔۔
ساری مصیبت اسی کے ساتھ ہونی تھیں وہ چڑ گیا تھا
دیکھوں مجھے ابھی اور اسی وقت پیسے چاہیے آئی سمجھ۔۔۔
اس نے دھونس جمائی اب ایسے تو ایسے ہی سہی ۔۔
اس نے چونک کر اس خود غرض انسان کو دیکھا۔
ہممم سہی لیکن ایک بات بتائیں اس پیپر میرج کا وجود کیا ہے ہمارے معاشرے میں؟؟؟
ایک لڑکی سے وقتی شادی کرو ارے شادی نہیں سوری کاغذ کے ٹکڑوں سے اسکی زندگی خراب کرو پھر جب مطلب پورا ہوجائے تو چھوڑ دو۔۔۔
اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا تھا
وہ لمحے بھر کو شرمندہ ہوا تھا۔۔
امیروں کا تو یہ شیوا ہے کوئی طوائفوں سے دل بہلاتا تو کسی کو۔۔۔
انف۔۔۔۔ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ دھاڑا تھا
بہت بکواس ہوگئی ہے کچھ بول نہیں رہا تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو منہ میں آئے وہ تم بولو گی آئی سمجھ اس نے ٹیبل پر ہاتھ مارا
اسکا دماغ پل میں گھوما تھا سامنے رکھا پیپر ویٹ زور سے زمین پر مارا۔۔
ابرہیم نے اسے دیکھا جو اسکے غصے کے جواب میں اسکی چیز پھینک کر اب پر سکون تھی
اسے اپنی نیا پار لگتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔۔
مجھے ابھی اسی وقت پیسے چاہیے تم اپنا بندوبست کہی اور سے کرو اس نے اپنے تئیں اسے دھمکایا تھا
اس نے ایک افسوس بھری نظر اس پر ڈالی تھی جیسے اسے شرمندہ کروانا چاہتی ہوں۔۔۔
پہلے مجھے لگا تھا ہماری پہلی ملاقات میں جو ہوا اس میں کہی نا کہیں میری بھی غلطی تھی لیکن نہیں تم جیسا انسان ہمیشہ ہی غلط ہوگا
کہاں سے سیکھ لیا ہے ہم نے یہ طریقہ ضرورت کے لئے شادی اور پھر طلاق زرا اپنی بہن پر رکھ کر سوچو اگر اسے کوئی اس طرح وقتی شادی کا کہے ہاں اس انسان کو چھوڑو گے نہیں تم لیکن دوسروں کی بہنوں کے لئے یہ بولتے ہوئے تم زرا شرمندہ نہیں ہوئے
کیا منہ دکھاؤں گے اللّٰہ کو ارے شادی تو پسندیدہ عمل ہے تو کیسے اس کا مذاق بنا لیا ہے تم سب نے زرا بھی شرم نہیں آتی جو طلاق کا نام ایسے لے رہے جیسے کوئی بہت عام بات ہو طلاق کا مطلب پتا ہے؟؟؟ نکاح کا پس منظر پتا ہے؟؟؟؟
ارے تم جیسے پڑھے لکھے امیر سے ہم غریب اچھے ہیں جن از کم اپنی نظر میں اٹھے ہوئے ہیں اور تمہاری طرح گری ہوئی بات نہیں کرتے۔۔۔
میری مجبوری میری ماں ہے لیکن ابھی میں اتنی بھی مجبور نہیں ہوئی کہ اپنے اللّٰہ کے فیصلے کے خلاف جاؤ
تمہیں مبارک ہو یہ جعلی شادی جس کا تصور ہمارے اسلام میں ہے ہی نہیں۔۔
وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا رہی تھی
یہ بگاڑ جو لوگ لارہے ہیں نا ان کا تو اللّٰہ ہی حافظ ہے لیکن تم کیسے عقل کے اندھے اس بگاڑ کو بڑھاوا دینے میں سب سے آگے ہوتے ہو تف ہے تم پر تف۔۔۔
اس نے ایک کہر بار نظر اس پر ڈالی تو دروازے کی طرف قدم بڑھائے مگر اس کی آواز پر رکی تھی۔۔۔