تھوڑی دیر پہلے اُس کی نیند سے آنکھ کھلی تھی وہ اپنی کل رات والی حرکت پر نادم، صوفے پر دونوں ہاتھوں سے سر تھامے بیٹھا تھا۔۔۔ مگر ژالے نے بھی تو اُس کو باتیں سنا کر غُصہ دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی
وہ خواب میں بھی ژالے کے ساتھ ایسی حرکت کرنے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔۔۔ کل غصّے اور شراب کے نشے میں وہ ژالے کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑتا،، مگر آج وہ خود اپنے گھر والوں سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا
تھوڑی دیر پہلے ہی اُس نے گھر کی ملازمہ سے زرین کی طبعیت پوچھی تھی۔۔۔ زرین کو رات میں سردار اسماعیل خان اسپتال لے گیا تھا۔ ۔۔۔ سخت ذہنی تناو کی وجہ سے اس کو آرام کا انجیکشن دیا گیا تھا جس کے باعث وہ ابھی تک گہری نیند میں تھی
تیمور خان اپنی حرکت پر شرمندہ، زرین سے معافی مانگنے کا ارادہ رکھتا تھا اور ژالے سے بھی جس کا دل دکھانے کا وہ سبب بنا تھا۔۔۔۔ تیمور خان صوفے سے اُٹھ کر اپنے کمرے سے باہر نکل گیا
“کیوں آئے ہو میرے کمرے میں، یہ دیکھنے آئے ہو کہ میں زّلت کا بوجھ اُٹھا کر میں اب تک مر چکی ہو یا زندہ ہوں یا کل رات جو کسر رہ گئی تھی وہ پوری کرنے آئے ہو”
ژالے تیمور خان کو اپنے کمرے میں آتا ہوا دیکھ کر ایک دم بیڈ سے اٹھ کر اُس کے سامنے آتی ہوئی بولی
“کل رات جو گناہ مجھ سے سرزد ہونے والا تھا۔۔۔ باخدا میرا ایسا کوئی ارادہ تھا نہیں تھا نہ وہ سب کرنے کی نیت۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہو ژالے، تم سے اپنی کل والی حرکت کی معافی مانگنے آیا ہوں”
تیمور خان اُس کے سامنے کھڑا اپنی نظریں جُھکا کر بولا۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ ژالے کے سامنے اپنی نظریں نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔ وہ واقعی شرمندہ تھا
“تمہیں معاف کرنے سے میری عزت واپس آجائے گی۔۔۔ اپنے سامنے، اپنے گھر والوں کے سامنے بےلباس کر کے رکھ دیا تم نے مجھے۔۔۔ پاک دامن ہو کر بھی میں اپنے آپ کو داغدار محسوس کر رہی ہو میں۔۔۔ تمہاری گھٹیا حرکت کی وجہ سے نظریں نہیں ملا پا رہے ہو۔۔۔۔ کچھ نہ کر بھی برباد کردیا ہے تم نے مجھے خان،، تماشا لگا دیا سب کے سامنے میری ذات کا”
ژالے بلند آواز میں کہتی ہوئی رونے لگی۔۔۔ کسی کے بھی رونے یا تڑپنے پر تیمور خان کا ایسے دل نہیں دکھا تھا جیسے آج اپنے سامنے کھڑی اِس لڑکی کے رونے پر دکھ رہا تھا
“ژالے اس طرح مت رو پلیز، میں واقعی بہت زیادہ شرمندہ ہو مجھے معاف کردو وہ سب کچھ نشے کی وجہ سے”
تیمور خان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اُس کے آنسو صاف کرنے چاہے ویسے ہی ژالے نے اُس کا ہاتھ جھٹکا
“آئندہ مجھے چھونے کی یا ہاتھ لگانے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں تمہاری جان لے لوگی خان”
ژالے اپنی گال سے آنسو صاف کرنے کے بعد اُسے وارن کرتی ہوئی بولی۔۔۔ ژالے کے کمرے کا دروازہ کھلا تو اُن دونوں کی نگاہ دروازے کی طرف گئی
“کیا کر رہے ہو تیمور تم ژالے کے کمرے میں”
کبریٰ خاتون ژالے کے کمرے کے اندر داخل ہوتی ہوئی سخت لہجے میں تیمور خان سے پوچھنے لگیں
“دادی حضور میں اپنے کل والے عمل پر سخت شرمندہ ہوں۔۔۔۔ ژالے سے اور آپ سب سے اپنی غلطی کی معافی چاہتا ہوں”
تیمور خان نادم ہوتا ہوا اب کبریٰ خاتون سے بولنے لگا
“تم نے کل کی اپنی غلط حرکت سے مجھے کافی مایوس کیا ہے تیمور۔۔۔۔ اپنے ہی گھر کی عزت پر بری نگاہ رکھنے والا معافی کا مستحق نہیں ہوتا۔ ۔۔ تمہیں بھی اس کا ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا،،، ژالے سے نکاح کی صورت”
کبریٰ خاتون تیمور خان کو اپنا فیصلہ ساور اس کی سزا سناتی ہوئی بولیں۔۔۔ کبریٰ خاتون کی بات سن کر وہ دونوں ہی حیرت زدہ ہوکر کبریٰ خاتون کو دیکھنے لگے
“معاف کیجئے گا دادی حضور لیکن میں خان سے نکاح نکاح ہرگز نہیں کر سکتی”
جہاں کبریٰ خاتون کی بات سے تیمور خان شاکڈ ہوا تھا وہی ژالے کی بات سن کر وہ مزید شاکڈ کی کیفیت میں ژالے کو دیکھنے لگا
“پوچھ سکتی ہوں لڑکی، میرے فیصلے سے انکار کرنے کی کوئی خاص وجہ”
کبریٰ خاتون ناگواری سے ژالے کو دیکھ کر انکار کی وجہ پوچھنے لگی کیونکہ آج تک ان کے فیصلے سے انکار کسی نے بھی نہیں کیا تھا
“جس کے ساتھ نکاح کا بندھن باندھا جائے۔۔۔ لڑکی کے دل میں اُس کی محبت ہو نہ ہو مگر عزت ضرور ہونی چاہیے۔۔۔ مگر میرے دل میں خان کیلئے نہ محبت پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی عزت”
ژالے کے لفظ تیمور خان کو بری طرح چبھے تھے۔۔۔ ژالے کے آنکھوں میں اپنے لیے غصہ اور نفرت وہ ہرگز برداشت نہیں کر پایا اس لیے کمرے سے باہر نکل گیا
“لڑکی تم شاید بھول رہی ہو میرے حکم کی مخالفت آج تک اس حویلی کے کسی فرد نے نہیں کی، اور شاید تم اپنا آپ بھی بھول رہی ہو کہ تم ہو کیا، تمہیں میرا بیٹا آٹھ سال کی عمر میں اِس حویلی میں تب لے کر آیا تھا۔۔۔ جب تمہارے ماں باپ کے مرنے کے بعد، تمہارے اپنے ہی قریبی رشتے داروں نے تمہیں پالنے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ یہاں تمہیں پڑھایا لکھایا گیا، تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا، پیار دیا گیا، عزت دی گئی، کبھی روشانے اور تم میں فرق نہیں کیا گیا۔۔۔ اور آج تم اِس بات کا صلہ میرے سامنے انکار کر کے دے رہی ہو، تمہیں تو اپنی خوش قسمتی پر ناز کرنا چاہیے، احسان ماننا چاہیے کہ تمہیں اِس حویلی کی بہو بننے کا شرف حاصل ہوا ہے۔۔۔ میرے پوتے سے اگر بھول چوک میں اگر کوئی گستاخی ہو بھی گئی ہے تو وہ تمہیں اپنے نکاح میں لے کر اُس کا حرجانہ پورا کر دے گا۔۔۔ اگے سے اب میں تمہارے منہ سے انکار نہ سنو ورنہ کبریٰ خاتون کو تم بہت اچھی طرح جانتی ہو”
کبریٰ خاتون سن کھڑی ژالے کو نہ صرف اس کو احسانات یاد لا کر بولیں بلکہ اس کو دھمکاتی ہوئی کمرے سے چلی گئں۔ ۔۔۔ جس پر ژالے کو بے تحاشہ رونا آیا وہ اپنے ماں باپ کو یاد کرنے لگی
****
ضیغم کے آفس جانے کے بعد روشانے نے دوبارہ سونا چاہا مگر کوشش کے باوجود اس کو نیند نہیں آ رہی تھی ضیغم کے ہونٹوں کا محبت بھرا لمس اپنے ہونٹوں اور پیشانی پر بار بار یاد کرکے اس کا دل جو زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ جب اُسے نیند نہیں آئی تو لیٹ کر کروٹیں لینا اُسے بیکار لگا اس لئے اٹھ کر وہ پورے فلیٹ کا جائزہ لینے لگی
فلیٹ کے انٹرنینس پر دائیں طرف کمرہ ڈرائنگ روم تھا جہاں صرف صوفے موجود تھے۔۔۔ روشانے کو سامنے خالی دیوار دیکھ کر وہاں پینٹنگ کی کمی محسوس ہوئی جبکہ دوسری طرف اگر ایک بڑا سا واس رکھا جاتا درمیان میں خوبصورت سا رگ اور صفوں کی سیٹنگ مزید ترتیب سے کی جاتی تو کمرا مزید اچھا لگتا
روشانے سوچتی ہوئی ڈرائنگ روم کے سامنے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ یہ کمرہ ڈرائینگ روم کی بانسبت تھوڑا چھوٹا تھا جہاں ٹیبل اور چیئر موجود تھی۔۔ ٹیبل پر ضیغم کا لیپ ٹاپ موجود تھا اور سامنے دیوار پر ساتھ شلیف موجود تھا جس میں مختلف کتابیں رکھی ہوئی تھی۔۔۔ روشانے نے اندازہ لگایا یہاں ضیغم آفس کا ورک کرتا تھا، ،، روشانے کی نظر کمرے میں موجود کھڑکی پر پڑی، تو وہ ٹھٹھک گئی۔۔۔ کھڑکی کافی بڑے سائز کی تھی جس میں سے کوئی بھی اندر آ سکتا تھا کیونکہ اس میں گریل یا جالی موجود نہیں تھی۔۔۔ روشانے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کھڑکی کا سلائیڈنگ ڈور بند کیا،، لازمی کل رات ضیغم اُسی کمرے میں آفس کا کام کر رہا ہوگا وہ کھڑکی بند کے بغیر اٹھ گیا تھا،، روشانے کھڑکی بند کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی
کاریڈور کو عبور کر سامنے ڈائننگ ہال تھا اور ہال کے سامنے ہی بیڈروم اور بیڈروم کے برابر میں ایک چھوٹا سا گیسٹ روم تھا
کچن میں آکر ایک ایک کیبنٹ کھولنے کے بعد اس نے ساری چیزوں کا جائزہ لیا۔۔۔ اور دماغ میں ترتیب دینے لگی کہ کیا کیا چیزیں اُسے منگوانی ہیں۔۔۔ رات کا کھانا تیار کرکے پورے فلیٹ کی صفائی کرنے کے بعد وہ ضیغم کا انتیظار کرنے کے ساتھ زرین کو یاد کرنے لگی ہفتے بھر سے اوپر ہو چکا تھا اُس نے زرین کی ابھی تک آواز نہیں سنی تھی
****
“ایسے کیسے میں ژالے سے نکاح کر سکتا ہوں۔۔۔ جبکہ وہ خود بھی نکاح کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے”
رات میں جب سردار اسماعیل خان تیمور خان کے کمرے میں آیا تب تیمور خان اُسے دیکھ کر بولا
“تمہاری کل والی اُس زلیل حرکت کے بعد میں خود بھی اس حق میں نہیں ہوں کہ ژالے کا نکاح تم جیسے آوارہ انسان سے کیا جائے۔۔۔ یہ صرف اور صرف اماں حضور کا فیصلہ ہے، میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود ژالے تم سے نکاح کے لیے ہامی بھر چکی ہے،، اور مجھے اچھی طرح اندازہ ہے ایسا اُس نے صرف اماں حضور کے حکم کی وجہ سے کیا ہوگا۔ ۔۔۔ لیکن یہ بہت ہی اچھا ہوگا کہ تم اماں حضور کے سامنے جاکر اس نکاح سے انکار کر دو۔۔۔ شاید اماں حضور مان بھی جائیں،۔۔۔ بیٹی سمجھ کر ہی پالا ہے میں نے ژالے کو، میں خود بھی ژالے کی زندگی اندھیر ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا”
سردار اسماعیل خان تیمور خان کو بولتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا
جبکہ تیمور خان لب بھینچتا ہوا کبریٰ خاتون کے کمرے میں جانے لگا تاکہ انہیں اپنی مرضی بتا سکے
****
“ایک بار میں نے انکار کردیا ہے تو آگے سے ضد مت کرو روشی”
ضیغم اب کی بار سختی سے بولا تو روشانے کمرے سے باہر نکل گئی
شام میں جب ضیغم آفس سے گھر آیا تو اس کا موڈ اچھا تھا روشانے نے اس کا موڈ دیکھ کر، ذرین سے موبائل ہر بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ضیغم نے اُسے صاف انکار کردیا۔۔۔ روشانے کو لگا تھا ضیغم اس کی یہ بات بھی مان جائے گا جیسے وہ اس کی پڑھائی کے لئے راضی ہو گیا ہے۔۔۔ اس لیے روشانے دوبارہ اس سے ضد کرنے والے انداز میں فرمائش کرنے لگی جس کے نتیجے میں اُس نے روشانے کو سختی سے جھڑک دیا
روشانے خاموشی سے کچن میں چلی آئی تھی،، رات کا کھانا ان دونوں نے خاموشی سے کھایا۔۔۔ صبح ناشتے کے وقت بھی وہ خاموش تھی مگر صبح کی الگ بات تھی وہ ضیغم کو شرمائی شرمائی لگ رہی تھی، جبکہ اِس وقت وہ ضیغم کو خفا خفا لگ رہی تھی
“بتاؤ اپنی تائی ماں کا نمبر”
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب روشانے برتن دھو رہی تھی تب سے ضیغم کچن میں آیا اور اس سے زرین کا نمبر پوچھنے لگا۔۔۔ جس پر روشانے ضیغم کو حیرت سے دیکھنے لگی
“اب شکل دیکھنے کے لئے نہیں کہا ہے نمبر بولو جلدی”
ضیغم روشانے کا حیرت زدہ چہرہ دیکھ کر بولا تو روشانے کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جسے چھپاتے ہوئے وہ ضیغم کو زرین کا نمبر بتانے لگی۔۔۔ بیل جانے پر ضیغم اپنا موبائل روشانے کو پکڑا کر کچن سے باہر چلا گیا
“ہیلو تائی ماں میں آپ کی روشی”
روشانے کی چہکتی آواز سن کر زرین نے حیرت زدہ ہو کر موبائل کی اسکرین پر نمبر دیکھا
“روشی، بچے یہ کس کا نمبر ہے تم خیریت سے ہو نا”
زرین روشانے سے پوچھتی ہوئی بیڈ سے اٹھ بیٹھی
“سائیں کا نمبر ہے وہ کل مجھے اپنے ساتھ شہر لے کر آ گئے ہیں،، آپ کی روشی بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا سائیں بہت اچھے ہیں تائی ماں”
روشانے خوشی خوشی زرین کو بتانے لگی اُس کی آواز سے چھلکتی خوشی کو دیکھ کر زرین نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا
“اللہ تمہیں ہمیشہ خوش اور آباد رکھے،، اطمینان ہو گیا ہے مجھے تمہاری آواز سن کر”
زرین کا سارا دن بیڈ پر لیٹے ہوئے خاموش گزرا تھا۔ ۔۔ آپ روشانے کی آواز سن کر زرین اس کی طرف سے مطمئن ہو چکی تھی
“آپ کو کیا ہوگیا ہے تائی ماں،، آپکی آواز کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے ناں”
روشانے زرین کی آواز میں اداسی محسوس کرتی ہوئی فکرمندی سے پوچھنے لگی
“ارے کچھ نہیں ہوا مجھے، صبح سے طبیعت اداس تھی اب تمہاری آواز سن لی ہے ناں ٹھیک ہو جاؤ گی ،، یہ بتاؤ تمہارے سائیں کہاں ہیں، اس سے بات کرواؤ میری اگر وہ بات کرنا پسند کرے تو”
زرین روشانے کو تیمور خان کی حرکت کا کیا بتاتی، اس لیے اس کو مطمئن کرتی ہوئی الٹا ضیغم سے بات کرنے کا کہنے لگی
“وہ تو بیڈ روم میں ہیں رکیں کرواتی ہوں بات”
زرین کی بات پر روشانے گڑبڑا گئی تھی معلوم نہیں کہ ضیغم زرین سے بات کرنا پسند کرے کہ نہیں۔۔۔ وہ کچھ سوچ کر ضیغم کے پاس بیڈ روم میں چلی آئی
“یہ لیں تائی ماں آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہیں”
روشانے ضیغم کے آگے موبائل بڑھاتی ہوئی بولی۔ ۔۔۔ وہ جو بیڈ پر نیم دراز لیٹا ہوا اسموکنگ کر رہا تھا روشانے کی بات سن کر آنکھیں دکھاتا ہوں اسے گھورنے لگا۔۔۔ روشانے معصومانہ انداز میں بغیر آواز کے “پلیز” کہتی ہوئی ضیغم کو دیکھنے لگی موبائل ابھی بھی اس نے ضیغم کے اگے کیا ہوا تھا جسے وہ روشانے کو گھورتا ہوا تھامنے لگا اور بیڈ سے اٹھ گیا
“جی فرمائیے”
سلام کرنے کے بعد زرین سے بولا
“بیٹا میں روشی کی سگی ماں نہیں ہو پر اسکی پرورش ماں بن کر ہی کی ہے، تم نے شادی کے بعد روشی کو عزت دی اس کا مان رکھا، میں بہت خوش ہوں۔۔ تم سے میں نے جو اس دن بات کی تھی۔۔۔ روشی اور تیمور خان کی پسندیدگی کے حوالے سے۔ ۔۔ خدا گواہ ہے وہ بات میں نے صرف اسی لئے بولی تھی تاکہ تم روشی سے دوبارہ کبھی نہ ملنے آؤ، ورنہ کوئی بھی روشی کے کردار پر انگلی اٹھا سکتا تھا۔۔۔ کیوکہ تیمور خان سے اُس کا نکاح ہونے والا تھا اس لیے تمہارا روشی سے ملنا مناسب نہیں تھا مگر اب جبکہ حالات مختلف ہیں اور تم روشی شوہر ہو،۔۔۔ میرے دل پر ایک بوجھ سا تھا کہ تمہیں سب کچھ سچ بتا دو۔۔۔ میری روشی بہت معصوم ہے اس کے لئے اپنے دل میں کبھی بھی کوئی برا خیال مت لانا، اس کے دل میں صرف اس کا سائیں بستا ہے”
زرین ضیغم سے اور بھی باتیں بول رہی جنہیں سن کر ضیغم نے فون بند کر دیا اور موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھنے لگا
“کیا کہہ رہی تھی تائی ماں آپ سے” روشانے ضیغم کو دیکھتی ہوئی تجسس بھرے انداز میں پوچھنے لگی تو ضیغم چونک کر روشانے کو دیکھنے لگا پھر چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا
“وہ بول رہی تھیں کہ تمہاری بیوی تھوڑی سی بگڑی ہوئی ہے۔۔۔ بات بات نخرے دکھانے والی اور تنگ کرنے والی۔۔۔ اگر وہ روز روز تمہیں تنگ کیا کرے تو تم اُس کی اچھی طرح کلاس لے لیا کرو”
ضیغم روشانے کو غور سے دیکھتا ہوا بالکل سنجیدگی سے بولا
“میں مان ہی نہیں سکتی کہ تائی ماں میرے لیے ایسا بول رہی ہو”
روشانے انکار کرتی ہوئی بولی ضیغم نے اُس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرکے اُسے اپنے حصار میں لیا
“تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں”
ضیغم روشانے سے پوچھتا ہوا اُس کی کمر سے اپنا ہاتھ بالوں میں لے جاتا ہوا، بالوں سے کلپ نکالنے لگا
“میرا وہ مطلب بھی نہیں تھا۔۔ مجھے صبح کالج جانے کے لیے کپڑے پریس کرنے ہیں”
روشانے ضیغم کی حرکت پر اور اس کی بہکی بہکی نگاہوں سے ایک دم گھبرا گئی تھی تبھی وہ ضیغم کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی
“تو پھر کیا مطلب تھا، واضح کرو، پھر کوئی دوسرا کام کرنا”
وہ روشانے کا دوپٹہ ایک طرف رکھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کو دیکھ کر پوچھنے لگا جو اس کی پیاس بڑھا رہے تھے۔۔۔ ساتھ ہی اس نے باہوں کا حصار روشانے کے گرد مزید تنگ کر دیا۔۔۔ اس لیے روشانے اب خاموشی سے ضیغم کی نظروں کو دیکھنے لگی جو اس کے ہونٹوں پر تھی۔۔۔
ضیغم اُس کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا اپنے ہاتھ روشانے کی کمر سے ہٹا کر اس کا چہرہ تھام چکا تھا۔۔۔ ضیغم کو اپنے ہونٹوں پر جھگتا دیکھ کر روشانے اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی۔ ۔۔ پیاس بجھانے کے چکر میں ضیغم کی طلب مزید بڑھتی چلی گئی
“سائیں پلیز”
روشانے اسکا حصار توڑتی ہوئی بوجھل سانسوں کے ساتھ بولی اور کمرے سے جانے کے لیے مڑنے لگی مگر سامنے دیوار تھی
ضیغم اسکو دونوں کندھوں سے تھام کر اسکے بالوں کو چومنے لگا۔۔ روشانے دیوار پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی اپنی سانس بحال کرنے لگی۔،۔ ضیغم اُس کے بالوں کو کمر سے ہٹا کر دائیں کندھے سے آگے کرتا ہوا اس کے بائیں کندھے پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا، روشانے ایک بار پھر ضیغم کے حصار میں تھی مگر اس کا رخ ابھی بھی دیوار کی طرف تھا۔۔۔ روشانے ضیغم کے انداز پر بے ہوش ہونے کے قریب تھی،، تب اُس نے سے ضیغم کے ہاتھوں کا بندھا ہوا حصار ایک بار پھر توڑنا چاہا
“یہ تو غلط بات ہے اپنی باتیں تو خوب منتیں کر کے منوا لیتی ہو اور اب جب میری باری ہے تو ایسے کررہی ہو”
روشانے کو ہلکی پھلکی مزاحمت کرتے دیکھ کر ضیغم شکایتی انداز میں بولا،
روشانے پلٹ کر ضیغم کو دیکھنے لگی اسے ڈر تھا کہیں ضیغم اس سے خفا نہ ہو جائے اس لیے روشانے خود سے، ضیغم کے سینے میں اپنا چہرہ چھپاتی ہوئی بغیر کچھ بولے اپنی آمادگی کا اظہار کرنے لگی۔۔۔ روشانے کے انداز پر ضیغم اُسے ایک بار پھر اپنے حصار میں لیتا ہوا مسکرایا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...