گلاس ہاتھ میں پکڑے وہ دھیرے دھیرے وسکی کے گھونٹ بھر رہا تھا۔ اطراف میں مرد اور عورتیں رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس ہاتھوں میں گلاس پکڑے ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے، مگر اس کی نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔
” اکیلے کیوں بیٹھے ہو؟ ”
کردم جو اپنی سوچوں میں غرق تھا، آواز سن کر وہ چونکا، چہرہ موڑ کر دیکھ تو آغا حسن اس کے دائیں جانب صوفے پر بیٹھتا پوچھ رہا تھا۔
” کچھ نہیں۔” کردم وسکی کا گھونٹ لیتا ہوا بولا۔
” آج تو پاشا نے حد ہی کر دی۔” آغا حسن پاشا کی بات یاد کرتا ہوا بولا۔
” تم ہی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے، ورنہ میں تو اس کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔۔۔ کوجاکہ اس سے صلح کرتا۔” کردم نے کہہ کر سر جھٹکا۔
” تم ٹھیک کہ رہے ہو، اس پاشا کی خبر دادا کو کرنی پڑے گی، کہیں ایسا نہ ہو یہ ہمیں ہی کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔” آغا حسن پُر سوچ انداز میں بولا۔
” اپنی بات کرو، وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔” کردم کہہ کر بائیں جانب دیکھنے لگا، جہاں سے خاقان ابراہیم اور راشد ملک ان ہی کی طرف آ رہے تھے۔
” کیا ہو رہا؟ ”
خاقان ابراہیم اور راشد ملک نے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ساتھ ہی راشد ملک نے بیچ میں رکھی ٹیبل پر سے وسکی کی بوتل اُٹھا کر گلاس بھرا۔
” کچھ نہیں اور بتاؤ آج کی دعوت کیسی لگی؟ ” آغا نے بات بدلی۔
“ہمیشہ کی طرح زبردست۔” خاقان ابراہیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“جمشید نہیں آیا؟ ” راشد ملک نے اطراف میں نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
“ایسا ہو سکتا ہے بھلا ؟ کہیں دعوت ہو اور وہاں جمشید موجود نہ ہو، وہ رہا وہاں۔”
آغا نے کہتے ہوئے جمشید کو پاس آنے کا اشارہ کیا جو ان سے تھوڑا دور ایک “عافیہ” نام کی لڑکی سے باتوں میں مشغول تھا۔ آغا کے اشارہ کرنے پر وہ عافیہ کے ہمراہ ان کے پاس چلا آیا۔
“ہیلو !! کیسے ہیں آپ سب؟ ” عافیہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ سب نے مسکرا کر اسے جواب دیا سوائے کردم کے، اس کی نظریں بار بار گھڑی پر پڑ رہی تھیں جس کی سوئیاں بارہ کے ہندسے دیکھا رہی تھی۔
“پاشا نہیں آیا ؟”
جمشید راشد ملک کے بغل میں بیٹھتا ہوا بولا۔ جبکہ عافیہ کردم کے بائیں جانب آکر بیٹھ گئی۔
” اُس کا تو نام بھی مت لو میرے سامنے آجائے تو ابھی شوٹ کر دوں۔” خاقان نے رقابت سے کہا۔
” یار !! کیوں اتنا سنجیدہ ہو رہے ہو؟ یہ سب پہلی بار تو نہیں ہے۔ ایسے چھوٹے موٹے اختلافات تو ہوتے رہتے ہیں گینگ کے بندوں کے درمیان۔” جمشید نے سمجھانا چاہا۔
” تم کیوں اس کی اتنی طرفداری کر رہے ہو؟ ” کردم نے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” کیا تم لوگ پھر ان باتوں کو لے کر بیٹھ گئے، ابھی صرف مزے کرو۔” راشد نے بدمزگی پیدا ہونے کے ڈر سے بات بدلی۔
” آپ کیوں بار بار گھڑی کو دیکھ رہے ہیں؟ کہیں جانا ہے کیا؟ ” عافیہ نے نرم مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کردم سے پوچھا۔
“ہاں کچھ ضروری کام ہے۔” کردم نے خوش لہجے میں جواب دیا۔
” اس وقت تمہیں کیا ضروری کام پڑ گیا؟ ” خاقان ابراہیم نے بھنویں اُچکا کر پوچھا۔
“میری کچھ طبیعت خراب ہے بس اس لیے۔” کردم ہاتھ میں پکڑا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا۔
” تو یہ بولو کہ طبیعت ٹھیک نہیں، کام کا بہانہ کیوں بنا رہے ہو؟ ” خاقان اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔
” ارے یار !! تھوڑا سا انتظار کرو پھر دیکھنا تمہاری طبیعت کیسے ٹھیک ہوتی ہے۔ ناچنے والی بس آتی ہی ہونگی۔” آغا حسن نے اس شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ باقی سب بھی مسکرا دیئے۔
“ہم ہیں نہ آپ کی طبیعت ٹھیک کرنے کے لیے۔”
عافیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ کردم کے بازو پر رکھ دیا۔ کردم نے ناگواری سے اس ہاتھ کو دیکھا اور لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
” نہیں میں اب چلتا ہوں۔” کردم کہتا ہوا اُٹھنے لگا جب عافیہ نے ہاتھ میں پکڑا گلاس اس پر اُلٹ دیا۔
” اوہ !! سوری غلطی سے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔” عافیہ کہتے ہوئے اس کا کوٹ صاف کرنے لگی۔
” اس کی ضرورت نہیں۔” کردم نے غصّہ ضبط کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو ہٹایا۔
” ارے !! تمہارا کوٹ تو سارا خراب ہوگیا، جاؤ واش روم میں جا کر صاف کر لو۔” آغا یکدم پریشان ہوا۔
کردم بغیر کچھ کہے اُٹھ کھڑا ہوا اور واش روم کی سمت چل دیا۔
” کردم کچھ کھنچا کھنچا سا نہیں رہنے لگا؟ کچھ دنوں سے میں دیکھ رہا ہوں۔” خاقان جو کب سے کردم پر غور کر رہا تھا اُس کے جاتے ہی گویا ہوا۔
“وہ پہلے کونسا گھل مل کر رہتا تھا۔” آغا نے شانے اچکا کر کہا تو سب مسکرا دیئے۔
” آپ لوگ باتیں کریں میں زرا اپنے دوستوں سے مل لوں۔” عافیہ مسکرا کر کہتی وہاں سے اُٹھ گئی۔
سب اپنے آپ میں مصروف تھے۔ وہ سب کی نظروں سے بچتی بچاتی واش روم کے دروازے کے سامنے آ کھڑی ہوئی جہاں کردم اپنا کوٹ صاف کر رہا تھا۔
کردم کی پُشت دروازے کی طرف تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر مڑکر دیکھا تو یکدم ماتھے پر بل پڑ گئے۔ عافیہ دروازے کو لاک لگاتی، قدم اُٹھائے اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔
” یہاں کیا کر رہی ہو؟ ” کردم غصّے پر قابو پاتے گویا ہوا۔
” اتنا بھی کیا غصّہ؟ ”
“خیر !! میں سوچ رہی تھی کیوں نہ آج کی رات ساتھ گزاریں۔” عافیہ نے کہتے ہوئے کردم کے گلے میں بانہیں ڈالنی چاہیں۔
مگر !! کردم نے بروقت اس کی کلائیوں کو تھام کر روکا اور ایک جھٹکے سے اسے سائڈ پر کرتا بغیر کچھ بولے واش روم کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
عافیہ کی باتوں نے اسے غصّہ دلا دیا تھا۔ حالانکہ یہ سب اس کے لیے نیا نہیں تھا، اور نہ ہی اس نے ایسی دعوتوں کو کبھی رد کیا تھا۔
مگر !! نہ جانے کیوں آج اسے غصّہ آ گیا تھا۔ وہ اپنی اس بدلتی کیفیت پر خود بھی حیران و پریشان تھا۔
کردم واپس ہال میں آیا تو سب باتوں میں مصروف تھے۔ وہ آگے بڑھتا اُن لوگوں کے پاس پہنچ گیا۔
” اب میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے۔” کردم نے ہاتھ پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا۔
“بول تو ایسے رہے ہو جیسے گھر پر تمہارے بیوی بچے رو رہے ہوں۔” آغا نے کہتے ہوئے قہقہہ لگایا جس پر باقی سب نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
کردم نے غصّے سے انھیں گھورا۔ وہ اب انھیں کیا بتاتا کہ اب وہ اکیلا نہیں ہے، کوئی ہے جو اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔ اس کے لیے نہ سہی اس نکاح کے احترام میں سہی۔
” تم لوگ اپنی بکواس اپنے پاس ہی رکھو، میں چلتا ہوں۔” کردم کہہ کر سب سے مصافحہ کرتا باہر نکل گیا۔
۔************۔
گاڑی گھر کے اندار آ کر رکی۔ کردم نے شیشے کے پار اندرونی دروازے کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو توقع کے برعکس آج وہ وہاں نہیں تھی۔
“ہنہہ !! آج اس نکاح کا احترام یاد نہیں آیا۔” کردم نے تلخی سے سوچا پھر گہرا سانس لیتے گاڑی سے نکل کر اندر کی جانب چل دیا۔
لاؤنج خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ کردم سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی طرف آ گیا۔
کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ خواب گاہ میں اندھیرے کا راج تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ جلائی تو خواب گاہ میں روشنی جگمگا اٹھی۔
مگر !! آئینور یہاں نہیں تھی، بیڈ خالی پڑا تھا۔ لب بھینچے وہ تیزی سے اپنی خواب گاہ سے باہر آیا کہ تبھی ساتھ والے کمرے کے دروازے سے باہر آتی باتوں کی آواز پر رک گیا۔ ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا تو اس کمرے کی بھی تمام تر لائٹس بند تھیں۔ ایک کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی سیدھا اُس ایک وجود پر پڑ رہی تھی جو جائے نماز بچھائے اپنے رب کی عبادت میں مشغول تھی۔ چاند کی روشنی میں نظر آتا اس کا پُرنور چہرہ کردم کو کچھ دیر کے لیے ساکت کر گیا۔ وہ دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اسے بھول گیا تھا کہ وہ کہاں ہے، کیا ہے، یاد تھا تو بس سامنے مصلے پر بیٹھا شخص اور اس کا پُرنور چہرہ۔۔۔ کچھ دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد وہ اپنی خواب گاہ میں واپس چلا گیا۔
آئینور نے سلام پھیر کر کسی انجانے احساس کے تحت دروازے کی طرف دیکھا جہاں اب کوئی نہیں تھا۔ وہ دعا مانگ کر جائے نماز رکھتی اس کمرے سے نکل خواب گاہ میں داخل ہوئی۔
ابھی اس نے خواب گاہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ کردم کو صوفے پر بیٹھا دیکھ چونک پڑی۔
“بڑی جلدی واپس آگئے، مجھے تو لگا پوری رات گھر نہیں آئینگے۔” آئینور بیڈ پر بیٹھتی گویا ہوئی۔
کردم جو آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا، آئینور کی آواز پر چونک کر اسے دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
” کہو تو واپس چلا جاتا ہوں۔” اس کی بات پر کردم بدمزہ ہوتے ہوئے بولا۔
” نہیں !! میں کیوں کہوں گی ایسا؟ آپ کا گھر ہے جب دل چاہے آئیں جب چاہے چلے جائیں۔” آئینور نے کندھے اُچکائے۔
کردم بس اسے گھورنے کے رہ گیا۔
“ویسے رقص و سرور کی محفلیں تو اب شروع ہوتی ہیں نا؟ ” آئینور نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے پوچھا۔
” تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ خود اُس دعوت کا حصّہ بنا نہیں چاہتی تھیں، اور اب جب میں بھی واپس آ گیا ہوں تو تمہاری تفتیش شروع ہوگئی۔” کردم سخت لہجے میں بولا۔
“ویسے کافی اچھا وقت گزار کر آئیں ہیں۔” آئینور اس کی بات کو نظر انداز کرتی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی، نظریں کردم کی شرٹ پر جمی تھیں۔
کردم نے اس کی نظروں کی سمت دیکھا۔ جہاں لپ اسٹک کا نشان تھا۔
“یہ نشان۔۔۔ یقیناً آغا کے گھر سے نکلتے وقت جس لڑکی سے ٹکرایا تھا اُسی کے ہونٹوں کا نشان ہوگا۔”
کردم نے سوچتے ہوئے آئینور کی طرف دیکھا جو چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔
“یہ نشان۔۔۔”
“مجھے نیند آرہی ہے۔” آئینور اس کی بات کاٹتی جا کر بیڈ پر لیٹ گئی۔
” کچھ نہ کرکے بھی اس نظروں میں غلط ثابت ہو گیا۔” کردم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔
“ہنہہ !! پہلے کونسا اس کی نظروں میں اچھا تھا۔” اپنی ہی سوچ کی نفی کرتا وہ اُٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔
۔************۔
” اسلم تو پہلے دس ہزار دے تبھی میں تیرے ساتھ اگلی بازی کھیلوں گا۔” وہ سب ٹیبل کے گرد بیٹھے شراب نوشی میں مصروف تھے۔ جب ان میں سے ایک اسلم کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
” اے اسد !! کہاں نہ دے دونگا، تو ابھی کھیل شروع کر۔” اسلم نشیلی آواز میں بولا۔
“دیکھ اگر تو ہار گیا نا اس بار تو دوگنا پیسہ دینا ہوگا۔ وہ بھی سود سمیت۔ سمجھا؟ ” اسد دھمکی آمیز لہجے میں بولا۔
” ہاں ہاں دے دونگا، بہت پیسہ ہے میرے پاس۔” شراب کا گلاس منہ سے لگاتے اسلم نے ایک بار پھر بازی لگائی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس بار “جان” کے علاوہ نہ تو پیسے ہیں نہ بیٹی۔
۔*************۔
آسمان پر پھیلتی سورج کی کرنیں نئے دن کو خوش آمدید کر رہی تھیں۔ جہاں اتنے دنوں سے موسم سرما کی یخ بستہ ٹھنڈی ہوائیں سب کو ٹھڑ نے پر مجبور کر رہی تھیں وہیں آج آسمان کا سینہ چیرتے ہوئے سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ تاہم کردم کے بنگلے میں موجود ایک شخص اس سب سے بےنیاز لان میں لگی گھانس پر لیٹا زور و شور سے گانا گانے میں مشغول تھا۔
“رس کے بھرے تورے نییییین۔”
رحمت جو شدومد سے گانا گانے میں مصروف تھا۔ اس کی چلتی زبان کو رحیم کے تھپڑ نے بریک لگایا۔
“ابے او !! کیا صبح صبح گلا پھاڑ پھاڑ کے نحوست پھیلا رہا ہے۔”
” تو تجھے کیا؟ ویسے بھی “بے نمازی” کے گھر اب ” نمازی” آ تو گئی ہے رحمت پھیلانے۔” رحمت اسے گھورتے ہوئے بولا۔
” کیا مطلب؟ ” رحیم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
” آج فجر کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو بی بی صاحبہ اس کمرے کی کھڑکی سے نماز پڑھتی نظر آئیں۔” رحمت رازداری سے بولا۔
“واقعی !! کیسی دیکھتی ہے؟ ” رحیم نے اشتیاق سے پوچھا۔
“مجھے کیا پتہ، کھڑکی کے پردے پر اُس کی پرچھائی نظر آ رہی تھا۔” رحمت منہ بناتے ہوئے بولا۔
“درفٹے منہ !! بول تو یوں رہا ہے جیسے اُسے دیکھ آیا ہو۔” رحیم کا سارہ اشتیاق ٹھنڈا پڑ گیا۔
“مجھے لگتا ہے کردم دادا اُس کی آنکھوں پہ فدا ہو گیا، تبھی تو اُسے اپنے پاس رکھا ہے۔” رحمت پُر سوچ انداز میں بولا۔
” لگتا تو مجھے بھی یہی ہے کہ دادا اُس پردہ دار خاتون پر دل ہار بیٹھے ہیں، لیکن۔۔۔” رحیم بولتے بولتے خاموش ہوا۔
” کیا لیکن؟ ڈرامے نہ کر جلدی بتا۔” رحمت کو تجسس ہوا۔
“لیکن وہ لڑکی ایسی تو نہیں لگتی جو بغیر نکاح کے کسی غیر مرد کے ساتھ رہے۔” رحیم رحمت کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
” کہہ تو تو ٹھیک رہا ہے لیکن غفار منہ کھولنے کے لیے تیار نہیں اور کردم دادا ایسا بندہ نہیں جو کسی سے نکاح کرے، بھلا اُسے کیا کمی ہے عورتوں کی۔” رحمت نے کہتے ہوئے آنکھ ماری۔
“ہاں یہ بات تو ہے۔” رحیم اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
“چل مجھے فاروق سے کچھ بات کرنی ہے میں چلا۔” رحمت کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور پھر سے اپنا سابقہ کام زور و شور سے شروع کرتا آگے بڑھ گیا۔
“من آنگن پہ عشق ہے طاری۔۔۔”
” گا تو ایسے رہا ہے جیسے کوئی انعام ملنے والا ہو۔” رحیم بڑبڑاتے ہوئے خود بھی اُٹھ گیا۔
۔*************۔
خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی اس نے کھڑکی کے پردوں کو ایک طرف کیا۔ پردے ہٹتے چھن سے آتی سورج کی کرنیں سیدھا کردم کے چہرے پر پڑیں۔ چہرے پر محسوس ہوتی تپش کے باعث کردم نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر سورج کی کرنوں نے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
اس نے چہرہ موڑ کر بائیں جانب دیکھا جہاں آئینور کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
” یہ کیا طریقہ ہے سوتے سے اُٹھانے کا؟ ” کردم نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا۔
” نوکر نہیں ہوں آپ کی۔ جو مجھے یوں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔” آئینور اسے گھورتی ہوئی بولی۔
” اب صبح صبح مت شروع ہو جاؤ دماغ کھانے۔” کردم بیزاری سے بولا، جس پر آئینور کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
“میں !! میں دماغ کھاتی ہوں؟ ”
” کوئی شک ؟” کردم نے بھنویں اُچکائیں۔
” اگر اتنا ہی آپ کا دماغ کھاتی ہوں تو پھر آزاد کیوں نہیں کر دیتے مجھے؟ ” وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
” اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ پہلے اپنے قیمت تو ٹھیک سے وصول کر لوں پھر آزاد بھی کر دوں گا۔” کردم بیڈ پر سے اُٹھتا ہوا بولا۔
” آپ کے لیے یہ قیمت اتنی بڑی بھی نہیں ہے۔ نہ جانے ایسی کتنی ہی نوٹوں کی گڈیاں ایک ہی رات میں کوٹھے کی عورتوں پر نچھاور کی جاتی ہوں۔” اب کی بار آئینور کے لہجے میں طنز شامل تھا۔ کردم غصّے سے اس کی طرف بڑھا، بال ہاتھ سے دبوچتے وہ غرایا۔
“ہزار بار کہہ چکا ہوں اپنی حد میں رہا کرو مگر تمہیں میری بات پلے کیوں نہیں پڑتی؟ ویسے بھی یہ فیصلہ تمہارا تھا۔ میں تو تمہیں ایک رات کے بعد ہی شاید واپس بھیج دیتا مگر۔۔۔ نکاح کے ذریعے ایسی کئی راتوں کا انتخاب تمہارا تھا۔ اس لیے اب بھگتوں۔”
کردم نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔ آئینور توازن برقرار نہ رکھ سکی اور سیدھا فرش پر جا گری۔ سر وہاں موجود ٹیبل کے کونے سے ٹکرایا تھا جس کے باعث ماتھے سے خون بہہ نکلا مگر۔۔۔ وہاں پرواہ کسے تھی۔ کردم نے جھک کر اس کا منہ دبوچ کے اپنے سامنے کیا۔
” ایک بات ذہن نشین کر لو۔ تم اپنے باپ کی وجہ سے اور اپنی مرضی سے یہاں موجود ہو، اس لیے اب یہ زبان میرے سامنے دوبارہ نہ چلے۔” کردم ایک جھٹکے سے اس کا چہرہ اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کرتا کھڑا ہو گیا۔
” اور ہاں !! بے فکر رہو کچھ ہی دنوں میں تم اس گھر سے باہر ہوگی۔” وہ کہہ کر جانے لگا کہ آئینور کی آواز نے اس کے قدم وہیں روک دیئے۔
” آخر کس کو یقین دلا رہے ہیں آپ۔۔۔ مجھے یا خود کو؟ اگر آپ کو نکالنا ہوتا تو اب تک یہ کام سر انجام دے چکے ہوتے، بار بار یہ کہہ کر آپ صرف خود کو دلاسا دے رہے ہیں۔”
آئینور اس کے مقابل کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ ضبط کے باعث آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
کردم خاموش کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا۔ ماتھے سے نکلتا خون رخسار تک آگیا تھا۔ مگر چہرے پر تکلیف کے آثار تک نہ تھے۔ لیکن اس کی گہری بھوری آنکھوں میں برسوں کی تھکن تھی۔ جو کردم کو اپنی سحر میں جکڑ رہی تھی۔
جن آنکھوں میں کرب سب سے مخفی رہا کرتا تھا۔ آج وہ کردم سامنے عیاں ہو رہا تھا۔
وہ ہوش کی دنیا میں تب آیا جب آئینور اپنی بات کہہ کر باہر چلی گئی، اور کردم۔۔۔ لب بھینچ کر رہ گیا۔
۔************۔
” لڑکی یہ سب کیسے ہوا کچھ بتاؤ گی بھی؟ ” سیما خالہ اس کی پٹی کرتیں فکر مند لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔
” کیا سیما خالہ بولا تو ہے گر گئی، اب ایک ہی بات کیوں بار بار پوچھ رہی ہیں۔” آئینور ان کے بار بار پوچھنے پر چڑ کر بولی۔
” ارے !! ایسے کیسے گر گئی، کیا آنکھیں بند کر کے چل رہی تھی؟ ” سیما خالہ نے اسے لتاڑا۔
“افففف !! آپ کے لاڈ صاحب کا کیا دھرا ہے سب، اب خوش؟ ” آئینور نے اب کی بار سچ بتانے میں عافیت جانی۔
“ضرور تم نے ہی کچھ کہا ہو گا جو اس نے تمہارا یہ حال کر دیا۔” سیما خالہ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
“میں نے !! میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ یہ آج آپ لوگوں کو ہو کیا گیا ہے؟ وہ بول رہے ہیں، میں اُن کا دماغ کھاتی ہوں اور آپ بول رہی ہیں میں نے ہی کچھ کیا ہوگا واہ۔۔۔ سب مجھ بیچاری پر ہی الزام لگا دو۔”
آئینور خفگی سے انھیں دیکھتی ہوئی بولی جو پٹی کرنے کے بعد اب اس کے ساتھ ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی تھیں۔
” تو میری بچی کیا میں نہیں جانتی، ایک زبان ہی تو ہے جو اللّٰه نے تمہیں گز بھر کی دی ہے۔”
” کیا !! آپ میرے چھوٹے قد پر چوٹ کر رہی ہیں؟ ” اب کی بار آئینور کی شکل رونے والی ہوئی۔
“میں تو بس تماری زبان کی تعریف کر رہی ہوں۔”
“رہنے دیں بس۔۔۔ آپ کے لاڈ صاحب بھی کچھ کم نہیں ہیں۔” آئینور منہ بنا کر بولی۔
“ویسے بولا کیا تھا جو اس نے تمہیں اس حال میں پہنچا دیا؟ ” سیما خالہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھنے لگیں۔
“میں نے تو بس۔۔۔ ایک دو باتیں بولی تھیں۔” آئینور نے کہتے ہوئے نظریں چرائیں۔
” اور وہ ایک دو باتیں کیا تھیں؟ ” سیما خالہ نے پھر پوچھا تو اب کی بار آئینور نے شرافت کے ساتھ اپنی اور کردم کی ساری باتیں ان کے گوش گزار کر دیں۔
“یااللّٰه لڑکی !! یہاں میں دعا کرتی ہوں کے تم کردم کے دل میں گھر بنا لو وہاں تم اُس کے گھر سے ہی بھاگنے کے منصوبے تیار کرتی رہتی ہو۔ نہ جانے کب عقل آئے گی تمہیں۔” سیما خالہ اسے دیکھتی تاسف سے نفی میں سر ہلانے لگیں۔
” اب اگر تم نے اُس سے جھگڑا کیا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ سمجھی؟” اب کی بار انہوں نے غصّے سے گھورتے ہوئے اسے دھمکایا۔ جس پر آئینور بس منہ بسور کر ہی رہ گئی۔
۔************۔
وہ اس وقت اپنے اڈے پر موجود کرسی پہ بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے سوچوں میں گم تھا۔ گھر سے وہ بغیر ناشتہ کیے ہی یہاں آ گیا تھا۔ آئینور کی باتوں نے اُس کے غصّے کو اور ہوا دی تھی۔ جس کے باعث غصّہ کسی صورت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
“ہنہہ !! سمجھتی کیوں نہیں اگر اسے چھوڑنا ہی ہوتا تو ایک رات میں ہی فارغ کر دیتا مگر۔۔۔ غلطی میری ہی ہے۔ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس سے دل لگا بیٹھا۔ سوچا تھا وقتی کشش ہے۔ کچھ دن ساتھ گزارنے کے بعد سارا خمار اتر جائے گا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسے خود سے دور کرنا مشکل ہو گیا ہے۔” سوچتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا شراب کا گلاس لبوں سے لگایا۔
” ایسا نہیں چل سکتا، کچھ کرنا ہی ہوگا۔ اب یا تو وہ میری زندگی میں ہمیشہ کے لیے آئے گی یا بہت دور چلے جائے گی۔”
کردم خود کلامی کرتا اُٹھ کر باہر کی جانب چل دیا۔ جہاں اور بھی کام اس کے منتظر تھے۔
۔***********۔
” تم سے میں نے کہا تھا کردم دادا سے اپنے تعلقات ٹھیک کرو مگر تم تو سب کو ہی اپنے خلاف کر کے بیٹھ گئے۔” پاشا ساحلی اڈے پر موجود تھا جب جمشید ایک بار پھر اس کے سر جا پہنچا۔
” تم کو میں بیوقوف نظر آتا ہوں۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو مجھے سب کے سامنے صرف کردم دادا سے معافی مانگنی پڑتی جو مجھے ہرگز قبول نہیں تھا۔”
” اس لیے تم نے سب کو اپنے خلاف کر لیا۔” چمشید فوراً پاشا کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
“ہاں اب میں سب سے مشترکہ معزرت کر لوں گا یوں مجھے صرف کردم کے آگے جھکنا نہیں پڑے گا اور نہ ہی اُن باتوں کے لیے معافی مانگنی پڑے گی جو میں نے کردم دادا کے ساتھ کیا تھا۔” پاشا نے کہتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگا دی۔
” کیا بیوقوفی ہے !! اس سے بہتر تھا کہ تم صرف کردم سے معافی مانگ لیتے یوں سب سے معافی نہ مانگتے پھرتے۔” جمشید کا دل اس کی عقل پر ماتم کرنے کو چاہا۔
“جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے اس لیے بس دیکھتے جاؤ میں کرتا کیا ہوں۔” پاشا نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر جمشید بس سر پٹ کر ہی رہ گیا۔
۔***********۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...