“بھائی میں کسی غلط کام میں نہیں پڑوں گا دیکھنا آپ۔۔۔ یونی اور باقی ٹائم حیا کے لیے۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“گڈ۔۔۔ ”
وہ اس کا منہ تھپتھپاتا واپس حویلی کی جانب چلنے لگا۔
~~~~~~~~
“بیٹا حمزہ آیا ہے۔۔۔”
وہ اندر آتی کمرے کی لائٹ آن کرتی ہوئی بولیں۔
“امی اس وقت؟”
وہ آنکھیں مسلتی اٹھ بیٹھی۔
سائیڈ سے دوپٹہ اٹھایا اور گلے میں ڈالنے لگی۔
“تمہاری طبیعت پوچھنے آیا ہے فون پر میرے منہ سے نکل گیا کہ تمہیں بخار ہے۔۔۔ تو چلا آیا۔”
وہ تاسف سے بولتی باہر نکل گئیں۔
وہ دونوں ہاتھوں سے بال سمیٹنے لگی۔
“تم ٹھیک ہو؟ ممانی بتا رہی تھیں بخار ہے تمہیں اور تم نے دوائی بھی نہیں لی؟”
وہ خفگی سے کہتا اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
“نہیں بس ہلکا سا بخار تھا اس لئے سوچا ٹھیک ہو جاےُ گا صبح تک۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
حمزہ ہاتھ کی پشت اس کی پیشانی پر رکھے چیک کرنے لگا۔
“نور یہ ہلکا سا ہے؟”
اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
حمزہ کا اپنے لیے فکرمند ہونا نور کی آنکھوں میں نمی لے آیا۔
“چلو میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔۔۔”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“اس ٹائم تم مجھے کہاں ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ گے؟”
وہ متحیر سی بولی۔
“تمہارے کمرے میں ہوگی میڈیسن مجھے بتاؤ کہاں ہے؟”
وہ اردگرد نگاہ ڈالتا ہوا بولا۔
“میں ٹھیک ہوں امی نے بلاوجہ تمہیں پریشان کر دیا ہے۔۔۔ ”
وہ نادم سی بولی۔
“مجھے وہی نور چائیے جسے میں نے پسند کیا تھا موجودہ حالات دیکھ کر معلوم ہو رہا ہے کہ میرے گھر بیمار اور علیل سی نور آنے والی ہے۔۔۔ ”
وہ خفا انداز میں بولا۔
“اب ایسی بھی بات نہیں۔۔ کہاں سے ویک ہوں میں؟”
وہ خود پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔
“مجھے ایسے تم بلکل بھی اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔ وہ گول مول سی نور زیادہ اچھی تھی۔”
وہ تاسف سے بولا۔
“سب موٹی کہتے تھے مجھے۔۔۔ ”
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
“مجھے تو وہ موٹی ہی پسند ہے۔۔۔”
وہ لب دباےُ مسکرا رہا تھا۔
“جھوٹ مت بولو۔۔۔ ”
وہ اس کے بازو پر مکا مارتی ہوئی بولی۔
“جھوٹ کیوں بولوں گا۔۔۔ میں ماموں سے بات کرتا ہوں رخصتی کی ورنہ تم تو خود کو بدل کر میرے پاس آؤں گی۔۔۔ میں خود خیال رکھ لوں گا اپنی بیوی کا۔”
وہ نرمی سے گویا ہوا۔
نور یک ٹک اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔
وہ مسکرا رہا تھا ہمیشہ کی مانند۔۔
“تھینک یو۔۔۔ ”
وہ کھل کر مسکرائی۔
“کس لیے؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“اتنی رات کو کمپنی دینے کے لئے۔۔۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔”
وہ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔
“تم کہو تو پوری رات کمپنی سے سکتا ہوں۔۔۔ ”
وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔
“نہیں۔۔۔۔ صبح تم نے آفس بھی تو جانا ہے۔ اب ایسا کرو گیسٹ روم میں چلے جاؤ رات کافی ہو گئی ہے۔”
وہ متفکر سی بولی۔
“پہلے میڈیسن اس کے بعد میں چلا جاؤں گا۔”
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“میری الماری کھولو سامنے فسٹ ایڈ باکس پڑا ہے۔۔۔”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
وہ اسے دیکھ کر ہنستا ہوا دوائی نکالنے لگا۔
“صحیح کہتے ہیں ﷲ جو ہمارے لئے کرتا ہے وہ بہتر ہوتا ہے۔۔۔ ہم نہیں جانتے کس چیز یا انسان میں ہمارے لئے بہتری نہیں۔ تم سچ میں ایک بہترین ساتھی ہو۔”
وہ حمزہ کی پشت کو دیکھتی ہوئی سوچ رہی تھی۔
وہ پرسکون سی ہو کر مسکرانے لگا۔
~~~~~~~~
وائز بےچین سا داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ٹہل رہا تھا۔
کوریڈور میں گل ناز بیگم اور اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔
“بیٹا بیٹھ جاؤ۔۔۔ کب تک کھڑے رہو گے؟”
وہ اس کا پریشان چہرہ دیکھ کر اس کے پاس آ گئی۔
“امی اتنی دیر ہو گئی ابھی تک کوئی خبر کیوں نہیں آئی؟”
لہجے میں بےقراری نمایاں تھی۔
“بیٹا صبر سے کام لو۔۔۔ خبر بھی آ جاےُ گی۔”
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
وہ لب کاٹتا آپریشن تھیڑ کے دروازے کو دیکھنے لگا جہاں اس کی دو زندگیاں تھیں۔
اذان کے کلمات کان میں پڑے تو وہ گھڑی دیکھنے لگا۔
“امی میں نماز پڑھ کر آیا۔”
وہ گل ناز بیگم کو دیکھے بنا چلنے لگا۔
“وائز تم نے کسی کو بتایا نہیں؟”
وہ اس کی پشت کو دیکھتی ہوئی بولیں۔
“نہیں امی ابھی نہیں۔۔۔ پھر لوگوں کی نظر ہو جاتی ہے جب میں ان دونوں کو دیکھ لوں گا تب بتاؤں گا سب کو۔”
وہ رک کر بول رہا تھا۔
“اچھا چلو جیسے تمہاری مرضی۔۔۔ ”
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
وہ مزید کچھ کہے بنا چلا گیا۔
“مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔۔۔ ”
نرس باہر نکلتی ہوئی بولی۔
“خیر مبارک۔۔۔ یا ﷲ تیرا شکر!۔۔۔”
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔
“کہاں ہے میرا پوتا؟”
وہ بےتابی سے بولیں۔
“ابھی کمرے میں شفٹ کر دیں تو آپ مل سکیں گیں۔۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی چلی گئی۔
وائز بالوں میں ہاتھ پھیرتا آ رہا تھا۔
“مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔۔۔ ”
گل ناز اس کی جانب بڑھتی ہوئی بولیں۔
“اور زرش؟”
پریشان کن لہجہ۔۔۔
“آؤ کمرے میں چلتے ہیں میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔”
وہ اشارہ کرتی چلنے لگیں۔
زرش آنکھیں موندے لیٹی تھی۔
قریب ہی بےبی کارٹ میں ان کا بیٹا سو رہا تھا۔
وائز زرش کو دیکھتا بےبی کو اٹھانے لگا۔
آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
وہ چند لمحے بنا پلک جھپکے اس ننھی سی جان کو دیکھنے لگا۔جو اس کی بازو میں لیٹا آہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا۔
اس لمحے کا اسے شدت سے انتظار تھا۔
آنسو پلکوں کی باڑ توڑتے رخسار پر آ گرے۔
وائز اس کا بوسہ لیتا گل ناز کی جانب گھوما۔
“امی دیکھیں۔۔۔ کتنا چھوٹا سا ہے۔”
وہ فرط جذبات سے مغلوب ہوکر بولا۔
“خوشی کے موقعے پر آنسو اچھے نہیں لگتے۔۔۔ ”
وہ اس کا چہرہ صاف کرتی ہوئی بولیں۔
“یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔۔۔ ”
وہ بچہ ان کی گود میں دیتا زرش کے پاس آ گیا جو آوازوں کے باعث اٹھ چکی تھی۔
“کیسی ہو تم؟”
وہ اس کے سرہانے کھڑا تھا۔
“بلکل ٹھیک۔۔۔ اس سب کا کریڈٹ تمہیں جاتا ہے جتنا تم نے میرا خیال رکھا اس کے بعد کوئی مسئلہ پیش آ سکتا تھا کیا؟”
وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھی۔
“آج ایسا لگ رہا ہے میری دنیا پوری ہو گئی۔۔۔ تم نے دیکھا میرے شیر کو؟”
وہ پرجوش انداز میں بولا۔
“ڈاکٹر نے دکھایا تھا۔۔۔ ”
وہ گردن ہلاتی ہوئی بولی۔
“میں ذرا فون کر دوں حویلی۔۔۔ ”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا جو گردن پر آ رہے تھے۔ صاف رنگت پر بڑھی ہوئی شیو، مزید برآں سیاہ آنکھوں میں تیرتی نمی غضب ڈھا رہی تھی۔
“جائیں۔۔۔”
وہ مسکرا کر بولی۔
“لاؤ بھئی ہمارا وارث۔۔۔ ”
رضی حیات اندر داخل ہوتے ہوۓ بولے۔
گل ناز بیگم اگلے لمحے ان کے پاس کھڑی تھیں۔
“ماشاءﷲ ماشاءﷲ بہت پیارا بچہ ہے۔۔۔ ”
وہ اس کی پیشانی چومتے ہوۓ بولے۔
“برخوردار نام بھی سوچا ہے؟”
وہ وائز سے مخاطب تھے جو زرش کے سامنے بیٹھا تھا۔
“محمد ولی۔۔۔ ”
وہ گردن گھما کر انہیں دیکھتا ہوا بولا۔
“بلکل اس شہزادے جیسا نام ہے۔۔۔۔ ایک اور شیر آ گیا ہمارے خاندان میں۔”
ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
“بہو ٹھیک ہے؟”
وہ آگے آتے ہوۓ بولے۔
“جی بابا سائیں۔۔۔ ”
زرش مدھم سا مسکرائی۔
“چلو اچھی بات ہے۔۔۔ سب خیر سے ہوگیا۔ یہ لو چاچو کا دیدار کر لو۔”
وہ احسن کی جانب گھومتے ہوۓ بولے۔
“امی وائز جیسا ہے یہ تو۔۔۔ ہیں نہ؟”
وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا۔
تیکھی مغرور ناک، صاف رنگت، گلابی لب، سیاہ بال۔۔۔
وہ وائز سے مشابہت رکھتا تھا۔
“بیٹا کس کا ہے؟”
وائز آبرو اچکا کر بولا۔
“جی جی آپ ہی کا ہے۔۔۔ ”
وہ اس گول مٹول سے ولی کی ناک دباتا ہوا بولا۔
“حیا نہیں آئی؟”
زرش اس کی غیرموجودگی محسوس کر رہی تھی۔
“بھابھی وہ چاچی کے پاس۔۔۔ پھر سب تو نہیں آ سکتے تھے نہ۔ ویسے بھی آپ کو رات میں چھٹی مل جاےُ گی تو حویلی ہی چلیں گے۔۔۔ ”
وہ ولی کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہا تھا۔
“اذان دے دی؟”
وہ وائز کا ہاتھ ہلاتی ہوئی بولی۔
“ہاں۔۔۔ جب تم سو رہی تھی تب دے دی تھی۔”
اس کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔
“بہت خوش ہوں میں۔۔۔ ”
وہ وائز کو دیکھ رہی تھی۔
“میں بھی۔۔۔ اور یہ خوشی تمہارے باعث ملی ہے۔”
وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا۔
“ہاں ہاں مٹھائی بھی بانٹیں گے۔۔۔ تم کہو تو ٹوکری بھیج دیں گے تمہاری طرف۔”
رضی حیات فون کان سے لگاےُ بول رہے تھے۔
~~~~~~~~
زرش وائز کا ہاتھ پکڑے چل رہی تھی۔
ولی وائز کی گود میں تھا۔
دونوں کے چہروں پر ناختم ہونے والی مسکراہٹ تھی۔
“السلام علیکم بھابھی؟ کیسی ہیں؟”
حیا گرمجوشی سے ملتی ہوئی بولی۔
“وعلیکم السلام! بلکل ٹھیک۔۔۔ ”
وہ مسکراتی ہوئی الگ ہوئی۔
“ہمارے چھوٹو کیسے ہیں؟ اور بہت مبارک ہو آپ کو۔۔۔ ”
وہ ولی کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔
“یہ چھوٹو بھی فٹ ہے۔۔۔ ”
وائز فیض حیات کو دیکھتا ہوا بولا جو مسکرا رہے تھے۔
ثوبیہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی جو وائز کو کھٹک رہی تھی۔
“ہاں چاچی پریگنیٹ ہیں۔۔۔ ”
یہ خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس کے دماغ میں کوندا۔
ملنے ملانے کا سلسلہ تمام ہوا تو سب اپنے اپنے کمرے میں چل دئیے۔
“تم ناراض تو نہیں ہو؟”
وہ اس کی پشت کو دیکھتا ہوا بولا۔
حیا جو الماری کھولے کھڑی تھی مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
“ناراض کیوں؟”
وہ لاپرواہی سے بولی۔
“تمہیں ہاسپٹل لے کر نہیں گیا۔۔۔”
وہ اس کے عین عقب میں آ کھڑا ہوا۔
“نہیں سمجھ سکتی ہوں۔۔۔ آپ چاچی کی وجہ سے نہیں لے گئے۔”
وہ کپڑے درست کر رہی تھی۔
“تھینک یو۔۔۔ ”
وہ اس کے شانے پر تھوڑی رکھتا ہوا بولا۔
“آپ اتنے اچھے ہیں کہ مجھے یقین نہیں آتا یہ میری زندگی ہے۔۔۔ پھر میں ناشکری کیسے کر سکتی ہوں؟ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاؤں؟”
وہ اپنا کام کرتی بول رہی تھی۔
آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
“ماضی کو بھول جاؤ۔۔۔ کتنی بار کہا ہے تمہیں۔”
وہ اسے شانوں سے پکڑتا اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔
“آپ نے بھائی کو نوکری دلوائی اور۔۔۔۔ ”
احسن نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ دی۔
وہ نگاہیں اٹھاےُ اسے دیکھنے لگی۔
“میں ناراض ہو جاؤں گا اگر تم پھر سے شروع ہوئی تو۔۔۔ ”
وہ خفا انداز میں بولا۔
“ٹھیک ہے کچھ نہیں بولتی میں۔۔۔ نور کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی رات میں آؤں گی۔”
وہ اس کی کالر درست کرتی ہوئی بولی۔
“آ جاےُ کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ وہ بھی خوش ہے اور میں بھی۔ کچھ رشتوں کا ختم ہونا ہی بہتر ہوتا ہے۔۔۔ ”
وہ اس کے بالوں سے کیچر نکالتا ہوا بولا۔
“احسن میں نے ابھی باندھے تھے اور آپ نے پھر سے کھول دئیے۔۔۔”
سیاہ ریشمی بال کسی آبشار کی مانند اس کی کمر پر جھول گئے۔
وہ خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“جب میں گھر آیا کروں تو تیار رہا کروں۔۔۔ ”
وہ شرارتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
“آپ کا بس چلے تو روز مجھے دلہن بنا دیں۔”
وہ اس کے ہاتھ سے کیچر لینے کی سعی کر رہی تھی۔
“بلکل ایسا ہی دل کرتا ہے۔ تمہارا یہ حسین چہرہ دیکھتا رہوں۔۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
حیا کی کان کی لو تک سرخ ہو گئی۔
وہ مسکراتی ہوئی چہرہ جھکا گئی۔
~~~~~~~~
“وائز بھائی نظر نہیں آ رہے؟”
وہ کمرے میں نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔
“تمہارے آنے سے پہلے بابا سائیں کے دوست آےُ تھے انہی سے ملنے گیا ہے۔۔۔ تم بتاؤ کیسی ہو؟”
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔
“میں بلکل ٹھیک۔۔۔ اس چھوٹے وائز کو تو دکھائیں۔”
وہ ہاتھ پھیلاتی ہوئی بولی۔
“یہ لو بھئی۔۔۔ ”
وہ اس کی گود میں دیتی ہوئی بولی۔
“آپ پر بلکل نہیں گیا۔۔۔ ”
وہ شرارت سے بولی۔
“باپ کو زیادہ انتظار تھا نہ۔۔۔ ”
وہ محظوظ ہوتی ہوئی بولی۔
“جی یہ تو ہے۔۔۔ ”
وہ اس کے نرم روئی جیسے گالوں کو چھوتی ہوئی بولی۔
چھوٹے چھوٹے گلابی ہاتھ، نرم ملائم سے۔۔۔
نور دلچسپی سے اس کا جائزہ لے رہی تھی۔
“تم کب خوشخبری سنانے والی ہو؟”
وہ ملازمہ کو اندر آتے دیکھ کر بولی۔
“جب ﷲ نے چاہا۔۔۔ بس دعا کریں۔”
وہ چہرہ اٹھا کر زرش کو دیکھنے لگی۔
“تم خوش ہو حمزہ کے ساتھ؟”
یکدم وہ سنجیدہ ہو گئی۔
“پہلے مجھے بھی یہی خدشہ تھا کہ میں خوش رہ سکوں گی یا نہیں۔۔۔ لیکن یقین مانیے نکاح میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔۔ اور محبت ہو یا کوئی اور رشتہ صرف حلال میں ہی برکت پڑتی ہے۔ حرام رشتوں اور محبتوں میں برکت نہیں پڑتی۔”
وہ ولی کو دیکھتی بول رہی تھی۔
چہرے پر دلفریب سی مسکراہٹ تھی۔
“بلکل ٹھیک کہا تم نے۔۔۔ نکاح سے خوبصورت کوئی بندھن نہیں۔”
وہ تائیدی انداز میں بولی۔
“حمزہ بہت اچھا ہے اور اتنا خیال رکھتا ہے میرا کہ مجھے ضرورت نہیں پڑتی اپنا خیال رکھنے کی۔۔۔”
وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“ﷲ تمہیں ایسے ہی خوش و خرم رکھے۔۔۔ اور تمہیں اولاد کی نعمت سے نوازے۔۔۔ ”
وہ پرسکون سی بولی۔
“آمین۔۔۔ یہ چھوٹا وائز سوتا ہی رہتا ہے کیا؟”
وہ خفگی سے بولی۔
“تمہیں پتہ تو ہے بچے ساری نیند اسی عمر میں پوری کرتے۔۔۔ وائز گزشتہ ایک گھنٹے سے اسے جگانے کی سعی کر رہا تھا لیکن یہ بھی آخر وائز کا بیٹا ہے کہاں جاگنے والا تھا۔۔۔ ”
وہ ٹرے اس کی جانب کرتی مسکرانے لگی۔
“آپ نے کیوں یہ تکلف کیا میں کھانا کھا کر آئی تھی۔۔۔ ”
وہ منہ بناتی اسے دیکھنے لگی۔
“انسان اپنے نصیب کا کھاتا ہے۔۔۔ اس میں تکلف والی کیا بات؟”
وہ ولی کو گود میں اٹھاتی ہوئی بولی۔
کچھ ہی دیر میں نور کا فون رنگ کرنے لگا تو وہ کھڑی ہو گئی۔
“میں چلتی ہوں اب حمزہ آگیا ہے۔۔۔ ”
وہ زرش سے ملتی ہوئی بولی۔
“اتنی جلدی؟ اندر بلا لو حمزہ کو۔۔۔ ”
وہ حیران تھی۔
“ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔۔ دعا کیجئے گا۔”
وہ مسکرا کر کہتی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
“جی حمزہ آ رہی ہوں میں۔۔۔ ”
وہ فون کان سے لگاےُ بولتی ہوئی چلتی جا رہی تھی۔ جب سامنے سے آتے احسن کو دیکھ کر رک گئی۔
وہ آج بھی ویسا ہی تھا۔
“اتنا ٹائم تو نہیں ہوا۔۔۔ ”
وہ خود کو سرزنش کرتی چلنے لگی۔
“کیسی ہو؟”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“ٹھیک اور تم؟”
وہ جواباً مسکراہٹ اچھالتی ہوئی بولی۔
“گڈ۔۔ حمزہ نہیں آیا؟”
وہ عقب میں دیکھتا ہوا بولا۔
“باہر ہے لینے آیا ہے مجھے۔۔۔ ”
وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا آگے چل دیا۔
“کہاں رہ گئی تھی؟ زرش بھابھی ٹھیک تھیں؟”
وہ اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر بولنے لگا۔
“سوری سوری۔۔۔ احسن مل گیا تو سلام دعا کے لیے رک گئی اور زرش بھابھی بھی ٹھیک ہیں۔”
وہ سیٹ بیلٹ باندھتی تیز تیز بولنے لگی۔
“سانس تو لے لو۔۔۔ ”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“تم بھی تو۔۔۔مجھے بیٹھنے نہیں دیا اور سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔”
وہ خفگی سے گویا ہوئی۔
“تمہاری یاد آ رہی تھی اس لئے دیکھتے ہی شروع ہو گیا۔۔۔”
وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔
“ایک گھنٹہ ہوا ہے ابھی۔۔۔ ”
وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوئی بولی۔
“آج چھٹی ہے اور میرا تمہارے بغیر دل نہیں لگتا تمہیں پتہ تو ہے۔۔۔ ”
وہ سپیڈ بڑھاتا ہوا بولا۔
“میں نے تو کہا تھا آفس بھی مجھے ساتھ لے جایا کرو۔۔۔”
وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔
حمزہ کا زندگی سے بھرپور قہقہہ گاڑی میں گونجا۔
“یہ رہی رپورٹس آپ کی وائف کی۔۔۔ ”
نرس حمزہ کی جانب فائل بڑھاتی ہوئی بولی۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں ڈاکٹر کے کیبن میں بیٹھے تھے۔
“مبارک ہو آپ کی وائف پریگنیٹ ہیں۔۔۔ ”
وہ پیشہ وارانہ مسکراہٹ لئے بولیں۔
“سچ میں؟”
نور بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔
“جی جی۔۔۔ ”
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولیں۔
“مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا۔۔۔ ”
وہ حمزہ کے شانے پر سر رکھتی ہوئی بولی۔
“وقت کے ساتھ ساتھ یقین آ جاےُ گا؟ ویسے میں بہت خوش ہوں کتنا چینج آ جاےُ گا لائف میں۔۔۔ ”
وہ گاڑی سڑک پر اتارتا ہوا بولا۔
“اب کہاں جائیں گے ہم؟”
وہ چہرہ اٹھاتی اسے دیکھنے لگی۔
“جہاں تم کہو گی۔۔۔ ”
اس کی نظریں سڑک پر تھیں۔
“لانگ ڈرائیو پر چلیں۔۔۔ میں کچھ دیر ان لمحوں کو جینا چاہتی ہوں تمہارے ساتھ۔ لیکن امی؟”
وہ اس کے ہاتھ کو دیکھتی بول رہی تھی۔
“کیوں نہیں۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے میں منع کر دوں؟ امی کو میں سمجھا لوں گا ٹینشن مت لو۔۔۔”
وہ خوشدلی سے کہتا سپیڈ بڑھانے لگا۔
~~~~~~~~
“وہ دیکھو آپ کے بابا آ گئے۔۔۔ ”
وہ وائز کو اندر آتے دیکھ کر بولی۔
“کیا ہوگیا ایسے کیوں رو رہا ہے؟”
وہ اس کے پاس آتا ہوا بولا۔
“کہہ رہا تھا اپنے بابا کے پاس جانا ہے۔۔ اور اتنی دیر کیوں لگا دی آپ نے؟”
زرش لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔
ولی اس کی گود میں گلا پھاڑ رہا تھا۔
“آ جاؤ۔۔ میرا بےبی،، بابا کی یاد آ رہی تھی؟ جناب میں نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔۔۔ ”
وہ اسے گود میں اٹھاتا بولنے لگا۔
زرش لب دباےُ اسے دیکھ رہی تھی جو اسے خاموش کروانے میں ہلکان ہو رہا تھا۔
“یار یہ چپ کیوں نہیں ہو رہا؟”
وہ متفکر سا بولا۔
“چپ کروائیں نہ۔۔۔ باتیں تو اتنی کرتے تھے۔”
وہ اس کے شانے پر بازو رکھتا ہوئی بولی۔
“بہت چالاک ہو تم۔۔۔ خود سے سنبھالا نہیں گیا اسی لئے میرے ذمے ڈال دیا؟”
وہ گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔
“آپ کا بھی تو فرض بنتا ہے نہ۔۔”
وہ اس کی ناک دباتی ہوئی بولی۔
چند لمحے گزرنے کے بعد ولی دم بخود خاموش ہو گیا۔
“دیکھو میں نے کروا لیا خاموش۔۔۔ اب میرا بےبی نہیں روےُ گا۔”
وہ اس کے رخسار پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔
“دنیا پر ہماری چھوٹی سی جنت۔۔۔ ”
وہ باری باری زرش اور ولی کو دیکھتا ہوا بولا۔
وہ پرسکون سی ولی کو دیکھنے لگی جو آنکھیں ٹمٹماتا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
“میرا شہزادہ۔۔۔ ”
وہ ولی کا ماتھا چومتی ہوئی بولی۔
“کچھ گناہوں کا اختتام نیکی کی سیڑھی پر ہوتا ہے جہاں سے آپ گناہوں کی دلدل سے نکل کر نیکی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ برا گناہگار نہیں گناہ ہوتا ہے تبھی کہتے ہیں نفرت گناہ سے کرنی چائیے گناہگار سے نہیں۔ کیونکہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی سنوار دیتے ہیں جینے کے تمام اسلوب سیکھا دیتے ہیں۔ ہر چیز کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے خدا چاہے تو کچھ بھی کر سکتا یہ تو پھر مثبت اثرات ہیں۔”
وہ غیر مرئی نقطے کو دیکھتا سوچ رہا تھا۔
ختم شد۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...