“لٹھے دی چادر ۔۔ اتے سلیٹی رنگ ماہیا ۔۔۔ آئو سامنے ۔۔!! ہو آئو سامنے ۔۔!!”
تالیا پیٹتی لڑکیاں بالیاں سر سے سر ملا رہی تھیں ۔۔۔۔
ہر چہرہ بے فکرا تھا ۔۔
فکریں تو سب کی زندگی میں ہوں گی ۔۔۔۔ لیکن اس وقت سب فراموش کیئے بیٹھے تھے ۔۔
سوائے اس کے جس کا چہرہ آنسو روکنے کی کوشش میں سرخ ہو رہا تھا ۔۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اپنی آنکھیں ٹشو سے تھپک تھپک کر کنجوسی سے آنسو نکال لیتی ۔۔۔۔
مگر پھر ایک ایسا منظر نظروں کے عین سامنے آ ٹھہرا کہ وہ خود پر کنٹرول نہیں رکھ سکی تھی اور پہلو میں بیٹھی سب سے زور سے تالیاں پیٹتی سوہا کے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔۔۔۔۔
سب ہی کو بریک لگ گئے تھے ۔۔
حق دق سی سوہا اس کی پشت سہلاتی نا فہم نظروں سے قریب آ کھڑی ہوئی شمائلہ بیگم کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔
اس کے رونے میں کچھ تو ایسا تھا کہ شمائلہ بیگم ٹھٹھک گئی تھیں ۔۔
آگے بڑھتے عتیق نے بھی بے اختیاری کے عالم میں بہت عرصے بعد اسے بغور دیکھا تھا ۔۔۔۔
اور پھر نظریں پھیر گیا تھا ۔۔
“یہ آپ کی کزن ہے نا عتیق ؟”
اس کا بازو تھامے کھڑی لائبہ نے اس سے پوچھا تھا ۔۔۔۔
“جی !”
جواباً وہ اتنا ہی کہ سکا ۔۔
“یہ اس طرح سے کیوں رو رہی ہے ؟”
“یہ تو آپ اسی سے پوچھیں ۔۔!”
نرمی سے اپنا بازو چھڑوا کر وہ مسنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا آگے بڑھ گیا تھا ۔۔
اور لائبہ الجھی ہوئی سی ایک نظر وتیق پر ڈال کر سچ مچ کبیرا سے پوچھنے چل پڑی تھی ۔۔۔
“کیا بات ہے آنٹی ؟”
وہ دوستانہ سے انداز میں شمائلہ بیگم سے مخاطب ہوئی تھی جن کے چہرے پر تشویش کی گہری چھاپ تھی ۔۔۔
“ہاں ؟؟؟ ارے ۔۔ کچھ نہیں بیٹا بس تینوں بہنوں میں محبت بہت ہے ۔۔۔۔
اس لیئے جزباتی ہو رہی ہے ۔۔”
“اوہ !!! ہائو سویٹ ! اچھا ہوا میری کوئی بہن نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ورنہ میں تو اس سے بھی زیادہ روندو ہوں ۔۔۔ چھوٹا موٹا سیلاب تو لے ہی آتی ۔۔”
لائبہ کا انداز ایسا تھا کہ سب سمیت شمائلہ بیگم بھی اپنی مسکراہٹ روک نہیں پائی تھیں ۔۔
اس کے سر پر پیار سے ہاتھ کا ہلکا سا دبائو ڈالتی وہ آنسو پونچھتی کبیرا کی طرف متوجہ ہوئی تھیں ۔۔۔۔
“اسے کمرے میں لے جائو سوہا بیٹا !”
سوہا فوراً اٹھ کھڑی ہوئی تھی مگر وہ جم کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
اور اس کے یہ انداز شمائلہ بیگم کا خون کھولا رہے تھے ۔۔
وہ اسے کھری کھری سنا دینا چاہتی تھیں کہ بہت وقت سے اس کے بدلے بدلے انداز نوٹ کر رہی تھیں مگر اس وقت اس نے حد کر دی تھی ۔۔۔۔
ڈانٹنے کے لیئے انہوں نے لب وا کیئے ہی تھے جب جنت بیگم نے انہیں پکار لیا تھا ۔۔۔۔
ایک تیز نظر اس پر ڈال کر وہ آگے بڑھ گئی تھیں سوہا بھی اس کے لیئے پانی لانے چلی گئی تھی اور لائبہ کچھ دیر تک اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھتی رہی مگر کبیرا کے ڈھٹائی سے نظر انداز کرتے رہنے پر ڈبل ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتی اس کے پہلو میں بیٹھ گئی ۔۔۔
“تم بہت اچھی لگ رہی ہو ۔۔”
اس کا انداز دوستانہ تھا ۔۔
“مجھے پتہ ہے ۔۔۔۔ میرے پاس آنکھیں بھی ہیں اور شیشہ بھی ۔۔!”
کبیرا کا انداز کاٹ کھانے والا تھا ۔۔
لائبہ کچھ چپ سی ہو گئی تھی ۔۔
“تمہیں میں پسند نہیں ؟”
اس کے گم صم سے انداز پر کبیرا شرمندہ ہو گئی تھی ۔۔
“ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ آپ بہت اچھی ہیں ۔۔ بہت زیادہ !”
اس کے انداز کی صاف گوئی نے لائبہ کے چہرے کی رونق بحال کر دی تھی ۔۔۔
“سیریسلی ؟ تھینک یو ۔۔”
“مگر ۔۔۔۔”
“مگر کیا ؟”
“یہ جو آپ کے منگیتر ہیں نہ ! یہ اچھے نہیں ہیں ۔۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر والوں نے بغیر کچھ جانے ان سے آپ کا رشتہ جوڑ دیا ۔۔۔”
کبیرا کا رنگ سفید پڑ رہا تھا ۔۔۔
اس کے اندر اسے کوئی سمجھا رہا تھا کہ وہ جو کر رہی ہے وہ غلط ہے ۔۔۔۔
“کیا مطلب ؟”
لائبہ کے ٹھٹھکنے پر وہ کچھ دیر کے لیئے تذبذب کا شکار ہوئی تھی اور پھر سب بتانے کے لیئے تیار ہو گئی تھی جب پیچھے سے آتی بھاری مردانہ آواز نے اس کا رنگ اڑا دیا تھا ۔۔۔۔
“لائبہ !”
“جی عتیق ؟”
اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے لائبہ نے ایک گہری نظر نظریں چراتی کبیرا پر بھی ڈالی تھی ۔۔۔
“آپ کو میری امی بلوا رہی ہیں ۔۔”
“کہاں ؟”
“وہاں اسٹیج کے قریب ۔۔۔”
“اوکے ۔۔۔۔!”
مدھم سی آواز میں کہتی وہ پھیکی سی ہنسی ہنستی ہوئی اسٹیج کے قریب چلی گئی تھی ۔۔
“اور تم میرے ساتھ آئو !”
لائبہ کے پیچھے ہی بھاگنے کے لیئے اٹھ کھڑی ہوئی کبیرا اس کے آرڈر پر پہلے تو حیران ہوئی تھی ۔۔ کیا واقعی عتیق اسی سے مخاط ہے ۔۔ پھر پریشان سی ہو کر مرے مرے قدموں سے اس کے پیچھے چل پڑی تھی ۔۔۔۔
کئی نظروں میں ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر حیرت ابھری تھی ۔۔
وہ لوگ ایک کونے میں چلے آئے تھے ۔۔
کبیرا بھاگ جانا چاہتی تھی مگر قدم من من بھر کے ہو رہے تھے ۔۔۔
“کیا بتا رہی تھیں لائبہ کو ؟”
ہاتھ پشت پر باندھے وہ جس قدر برفیلے لہجے میں اس سے مخاطب ہوا تھا ۔۔۔ کبیرا کو جھرجھری آ گئی تھی ۔۔
“وہ آپ کی ہونے والی بیوی ہیں ۔۔
انہیں آپ کے بارے میں سب خبر ہونی چاہیے ۔۔۔!”
اپنے پیر کے انگوٹھوں پر نظر جمائے وہ بولی تھی یا صرف لب ہلائے تھے ۔۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کیونکہ اس کے اس کے کانوں میں تو بس سائیں سائیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔
جبڑے کسے عتیق کا دل کیا تھا اسے اٹھا کر پٹخ دے !
“اوہ ۔۔۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔ سوری میں غلط وقت میں بیچ میں آ گیا ۔۔
جائو جا کر اسے بتا دو بلکہ رکو ۔۔
اسٹج پر چلو ۔۔
میں مائک لا دیتا ہوں تمہیں ۔۔۔۔
سب کو ہی بتا دو !”
عتیق کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی ۔۔
جو قریب آتے حمید صاحب ٹھٹھک گئے تھے ۔۔۔۔۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں ؟”
“آئیے ۔۔۔ آپ بھی جائیے ۔۔۔
دونوں تایا بھتیجی مل کر میری غلطی میری توبہ اٹھا کر میرے منہ پر مار دیجیئے ۔۔
تاکہ خودکشی کرنے میں مجھے آسانی ہو جائے ۔۔ سکون سے تو ویسے بھی آپ لوگوں کو مجھے جینے نہیں دینا ۔۔!
تم یہیں کھڑی ہو ابھی تک ؟
جائو جا کر بتائو سب کو ۔۔۔۔
بلکہ رکو ۔۔ میں خود ہی سب کو بتا دیتا ہوں
سب کو بتا چلنا چاہیے کتنا غلیظ ہوں میں !”
دنگ کھڑے حمید صاحب کچھ سمجھی نا سمنھی کی کیفیت میں اسے دیکھتے رہ گئے تھے جبکہ کبیرا نے بڑے بے ساختہ انداز میں اس کا ہاتھ یوں پکڑ لیا تھا جیسے اسے خوف ہو واقعی سب کو سب بتا دے گا ۔۔۔۔
عتیق نے اس سے ہاتھ یوں چھڑوایا تھا جیسے کرنٹ لگا ہو ۔۔
وہ خود بھی اپنی بے ساختگی پر شرمندہ سی نظریں نہیں اٹھا سکی تھی ۔۔
“مجھے بتائو گے کیا ہو رہا ہے ؟”
بھینچی آواز میں حمید صاحب گرجے تھے ۔۔۔
“اپنی بھتیجی سے پوچھیئے ۔۔!”
بہت لمبا عرصہ ہو گیا تھا اس کے بگڑے تیور دیکھے ۔۔۔
تب ہی حمید صاحب کو ہضم نہیں ہو رہے تھے اس کے یہ انداز ۔۔۔!
سوالیا نظروں سے انہوں نے کبیرا کو دیکھا تھا جو جھکی نظروں سے وہاں سے جاتے عتیق کے قدم دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
لائبہ کو بتاتے ہوئے بھی اس کی حالت اتنی خراب نہں ہو رہی تھی جتنی اپنی حالیہ کارستانی حمید صاحب کو سناتے ہوئے ہو رہی تھی ۔۔۔۔
جسے سن کر وہ کتنی ہی دیر تک کچھ بول نہیں پائے تھے ۔۔۔
کبیرا کو جب لگنے لگا اب وہ اس سے کچھ نہیں بولیں گے ، کبھی نہیں بولیں گے تب اس نے ان کی آواز سنی تھی ۔۔
“جب اللہ نے کرم کیا اور تمہیں اور اسے دونوں کو بچا لیا ۔۔۔
تو تم یہ سب کیوں کرنا چاہتی تھیں ؟”
یہ تو سب سے بھاری سوال تھا ۔۔۔۔
جس کا جواب ابھی اس کے پاس بھی نہیں تھا ۔۔ یا شائد تھا !
لیکن وہ دل کے اس جواب پر ایمانداری سے کان نہیں دھر رہی تھی ۔۔۔۔
“مجھ سے کچھ نا پوچھیں تایا ابو ! پلیز”
اس کے گڑگڑاتے انداز پر انہوں نے آہستگی سے اس کا سر تھپتھپایا تھا ۔۔۔
“میری بیٹی ! پہلا خیال ہمیں تمہارا ہی آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
مگر ہم کیا کر سکتے تھے ؟
زبردستی تو نہیں کر سکتے تھے اس پر ؟
وہ اب تمہارے نام سے بھی بھاگتا ہے ”
“اف!!!”
“تو تایا ابو سب جان ہی گئے !”
شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی وہ بے آواز سا “سوری” کرتی وہاں سے بھاگتی چلی گئی تھی ۔۔۔۔
اور حمید صاحب پیشانی مسلتے رہ گئے تھے ۔۔!
***********************
جنت بیگم آتے جاتے سارہ کو خود سے لپٹا کر یوں سسک پڑتیں کہ سوہا کو ہنسی آ جاتی ۔۔۔
“بس کر دیں امی ۔۔۔ آپ تو یوں ری ایکٹ کر رہی ہیں جیسے سارہ اس دنیا کی پہلی لڑکی ہے جو رخصت ہو کر جا رہی ہے ۔۔۔”
“تم بیٹی کی ماں بنو گی تو تمہیں پتہ چلے گا ۔۔۔!”
ان کے ڈپٹ کر کہنے پر وہ شرم سے سرخ چہرہ لیئے کمرے سے بھاگ نکلی تھی ۔۔۔
وہاں بیٹھی خواتین کے قہقے اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔
“ایک تو امی بھی نا !
بچیوں ے کوئی ایسے مزاق کرتے ہیں ۔۔۔؟”
“سترہ سال کی “بچی” ہوتی ہے ؟”
اپنی ایک کزن کی بات پر اس نے تیوری چڑھائی تھی ۔۔۔
“ان کی تو بچی ہی ہوں نا ؟
بھلے سے سو سال کی بھی ہو جائوں ۔۔
اور کبیرا بی بی !
تمہیں کچھ زیادہ ہی غم نہیں لگ رہا سارہ کے جانے کا ؟
ایک وہ میری ماں اور ایک تم
آنکھیں ہی خشک نہیں ہو کر دے رہیں دونوں کی ۔۔۔
دریا کے دریا بہا رہی ہیں آنکھوں سے ”
سوہا کی بات پر شمائلہ بیگم نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی تھی جو زرد چہرہ لیئے اپنے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی ۔۔۔مگر کچھ کہا نہیں تھا ۔۔۔
اسے نا چھیڑنا ہی بہتر تھا ۔۔۔۔۔
وہ سمجھ تو بہت کچھ گئی تھیں کہ ماں تھیں اس کی ۔۔
لیکن حقیقت سننے کی ہمت نہیں تھی ان میں ۔۔۔
وہ حیران تھیں اتنے فاصلوں کے باوجود کب اور کیسے کون سے گھڑی کبیرا کا دل عتیق کے نام پر دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔!
“چلو بھئی بیوٹی پارلر کی تیاری پکڑو ۔۔۔۔۔”
کمرے میں پل بھر کو جھانک کر کہنے والی وہ نا جانے کون تھی ۔۔۔
مگر اس کی بات سب کے کانوں میں پڑ گئی تھی ۔۔
چھوٹے سے کمرے میں ہڑبونگ مچ گئی تھی ۔۔۔۔۔
سوہا سب سے پہلے اس کا ہاتھ کھینچتی کمرے سے نکلی تھی ۔۔
***********************
دلہن کی تمام کزنز اور سہیلیوں نے سنہرے رنگ کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔
وہ سب ہی سنرے لباس زیب تن کیئے پریوں کی طرح ادھر ادھر اڑتی پھر رہی تھیں ۔۔۔
سوہا کا تصویریں کھنچوانے کا جنون نہیں ختم ہو رہا تھا جبکہ کبیرا جنت بیگم کے ساتھ رجسٹر تھامے گھوم رہی تھی ۔۔
“یہ لفافہ بلکل خالی لگ رہا ہے !”
“اس کے کان میں گھس کر جنت بیگم نے جس طرح کہا تھا وہ بالآخر ہنس ہی پڑی تھی ۔۔۔۔!”
“تمہیں کیا روگ لگا ہے ؟”
اس کے مسکراہٹ دیکھ کر انہیں یکدم اندزہ ہوا تھا بہت وقت سے کچھ مسنگ لگ رہا تھا ۔۔۔
اب اندازہ ہوا وہ اس کی مسکراہٹ تھی ۔۔
“روگ لگیں میرے دشمن کو ۔۔۔ بس سارہ کی وجہ سے اداس ہو رہا ہے دل !”
ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں مطمئین کرتی وہ سوچ رہی تھی ابھی تو سارہ کی شادی کا بہانہ بنایا بنایا ملا ہوا ہے ۔۔۔
بعد میں اپنی بسورتی شکل کا کیا جواز پیش کرے گی وہ!
“ایسے موقعوں پر اس طرح بجھی شکل کے ساتھ نہیں گھومتے ۔۔۔۔
رخصتی کے وقت رو لینا ۔۔!
میں بھی تب تک کے لیئے خود کو سنبھال رہی ہوں ۔۔۔۔”
ان کی آنکھیں پھر بھیگنے لگی تھیں جنہیں تھپکتے ہوئے انہوں نے قدم آگے بڑھا دیئے تھے ۔۔۔
سر جھٹک کر وہ بھی مسکراتے لبوں اور نم آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی جب اس کی نظریں عتیق کی نظروں سے جا ملی تھیں ۔۔۔
اور اس وقت اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا جب عتیق نے نظریں ہمیشہ کی طرح فوراً نہیں ہٹا لی تھیں ۔۔ بلکہ بہت اطمینان سے آنکھوں میں نافہم سا جذبہ بھر کے پھیر لی تھیں ۔۔۔۔
بال کان کے پیچھے اڑستی وہ جاتے جاتے ایک بار پھر س کی طرف متوجہ ہوئی تھی مگر اب وہ وہاں سے جا چکا تھا ۔۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر وہ پھر آگے بڑھی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد سوہا اس کے قریب چلی آئی تھی سو اس نے رجسٹر اسے تھما دیا اور خود آخری میز پر جا کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
ہیل بہت اونچی تھی ۔۔ اس کے پیر درد کرنے لگے تھے۔۔
“کبیرا !”
“ج۔۔۔ جی ؟”
سامنے لائبہ کو دیکھ کر وہ نظر چرا گئی تھی ۔۔۔۔
“بیٹھ جائوں یہاں ؟”
“جی ۔۔۔
اور۔۔۔۔۔۔۔
مجھے معاف کر دیں کل کے لیئے !
میں اپنے رویئے پر شرمندہ ہوں ۔۔
جھوٹ نہیں بولوں گی ۔۔۔۔۔
روائتی سا حسد محسوس ہو رہا تھا مجھے آپ سے ۔۔ اس لئے میں آپ کے اور عتیق بھائی کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کے کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جانتی ہوں کہ بہت غلط کر رہی تھی ۔۔ تب ہی شرمندہ ہوں ۔۔ ایک بار پھر سے سوری !”
لائبہ کے کچھ بھی کہنے سے پہلے وہ بہت ہلکے پھلکے انداز میں کہتی آخر میں بہت پیارا سا مسکرا دی تھی ۔۔۔۔
گنگ سی لائبہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر ہنس پڑی ۔۔۔
“تم نے کل میری جان ہی نکال دی تھی ۔۔۔
ولن بننے لگی تھیں تم!
مگر جانتی ہو کیوں نہیں بن پائیں ؟
کیونکہ تم ولن نہیں ہو ۔۔ ولنز اتنے معصوم صورت ہو ہی نہیں سکتے ”
کبیرا اسے دیکھتی رہ گئی تھی ۔۔۔
کتنی اچھی تھی وہ !
اس اچھی سی لڑکی کو ہرٹ کر کے کیا مل جاتا اسے؟
عتیق تو یوں بھی اس سے بھاگتا تھا ۔۔۔۔
“ویسے تمہیں ایک بات بتائوں ؟”
“جی ؟”
“عتیق اور میرا رشتہ پرسوں ہی ختم ہو گیا ہے ۔۔۔!”
“کیا ؟ کیوں ۔۔۔۔ اب تو آپ کو سب معلوم ہو گیا ہے نا ! کوئی غلط فہمی ہے تو دماغ سے جھٹک دیں پلیز عتیق بھائی بہت اچھے انسان ہیں ۔۔۔!”
کبیرا حواس باختہ سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔
نرمی سے مسکراتے ہوئے لائبہ نے کچھ کہنا چاہا تھا جب سوہا بھاگتی ہوئی ان تک پہنچ کر چیخی تھی ۔۔۔۔
“چلو ! سارہ لانے چلو ۔۔۔۔۔”
اس کا ہاتھ کھینچتی لائبہ کو معزراتانہ نظروں سے دیکھتی وہ پھر دوڑتی چلی گئی تھی جبکہ کبیرا بے جان مورت کی طرح سوہا کے ساتھ کھنچتی چلی گئی تھی ۔۔
دل میں خود کو الزام دیتی وہ پھر رو دینے کو ہو گئی تھی ۔۔۔
***********************
اسٹیج پر جبار استقبال کے لیئے کھڑے تھے ۔۔۔۔
آج تو ان کی چھب ہی نرالی تھی ۔۔!
ساری تیاری اپنی جگہ ۔۔ ان کی خوش اخلاقی ، ہنسی ، مزاق ، قہقے جن کی ان جیسے سنجیدہ رنجیدہ شخص سے بلکل امید نہیں کی جا سکتی تھی ۔۔۔ سب ہی جاننے والوں کو حیران کر رہے تھے وہ ۔!
سوائے سارہ کے ۔۔۔۔!!!!
جب ہی ان کے ہاتھ مں ہاتھ تھماتے ہوئے اس نے مسکراہٹ دبا کر ڈیلے گھمائے تھے ۔۔۔۔
جس پر جبار کھل کر ہنسے تھے ۔۔
بہت سے شوخ جملے ۔۔۔ “اوہوو” سنتی سارہ جھینپ رہی تھی ۔۔۔
یہ منظر اتنا دلکش تھا کہ کبیرا بھی ساری الجھنیں بھول بھال کر جگر جگر کرتی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتی ان کی دائمی خوشیوں کی دعائیں کرنے لگی تھی ۔۔
روشنیوں میں جگمگاتا اس کا سنہرا وجود پھر عتیق کو جکڑنے لگا تھا ۔۔۔۔
پیشانی پر چمکتی ننھی ننھی بوندیں اس نے ہتھیلی سے صاف کی تھیں ۔۔
لوگوں کی بھیڑ سے نکلتے ہوئے وہ ہال سے بھی نکل گیا تھا ۔۔
آنکھوں میں دھند تھی جو بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔۔!
ایک گناہ کرنے لگا تھا وہ ۔
جس سے اللہ نے اسے بچا لیا تھا ۔۔
مگر اب وہ اس دنیا داری کا کیا کرتا ؟
اسے لگتا اگر اس نے کبیرا کے نام پر “ہاں” کر دی تو وہ دنیا والوں کی نظر میں اور بھی برا بن جائے گا ۔۔۔۔۔
وہ لوگ اسے اس حوالے سے روز کوڑے ماریں گے ۔۔۔
وہ لوگ ! کون لوگ ؟ اس کے اپنے !
وہ نفرت سہتے سہتے تھک گیا تھا ۔۔۔۔
وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں پھر سے اپنے لیئے وہی محبت دیکھنا چاہتا تھا جو چودہ سال پہلے دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔
دل جب بھی کبھی کبیرا کے لیئے ہمکتا وہ خوف زدہ ہو جاتا ۔۔۔
جائے نماز بچھاتا اور سجدے میں گر جاتا ۔۔۔۔۔
اسے خوف تھا اپنی سوچوں سے ۔۔
اسے لگتا وہ اب بھی اپنی نفس کا غلام ہے ۔۔۔ کبیرا کا نام سننے سے بھی گریز کرتا تھا وہ ۔۔۔۔!
کبھی سن لیتا تو دل کو بے کلی سی ہو جاتی ۔۔
اسے لگ رہا تھا اس کا سر پھٹ جائے گا ۔۔۔ وہ پاگل ہو جائے گا ۔۔
دل کبیرا کے سوا کوئی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔
اور دماغ کے وسوسے ہی ختم نہیں ہوتے تھے ۔۔۔۔
اگر وہ کبیرا کے لیئے ہاں کر دیتا تو !!!
بہنیں اسے کس نظر سے دیکھیں گی ۔۔
ماں باپ کیا سوچیں گے ۔۔ ؟
کہ وہ اب بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
گردن پر ہاتھ ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ہال کے پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
***********************
“یہ کیا طریقہ تھا عتیق ؟
اس طرح باہر گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے ۔۔۔ کھانا بھی نہیں کھایا ۔۔ کوئی بات ہے ۔۔۔۔۔؟”
جواباً وہ ہمیشہ کی طرح چپ ہی رہا تھا ۔۔۔۔ پیروں کو جوتوں کی قید سے آزاد کرتے ہوئے اس نے چونک کر اپنے پہلو میں بیٹھتے باپ کو دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
اسے یاد نہیں پڑا تھا وہ آخری بار کب خود آ کر اس کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔
وہ بھی بغیر چیخے چلائے ۔۔!!
ٹھٹھک تو جہاں آرا بیگم بھی گئی تھیں ۔۔۔
تب ہی حمید صاحب کے جانے کے اشارے پر بھی تذبزب کا شکار ہوئی کھڑی رہی تھیں ۔۔
“جائو جہاں آرا !
اور چائے بنا لائو !”
انہیں اپنی جگہ جما دیکھ کر حمید صاحب کچھ سختی سے گویا ہوئے تھے ۔۔
جہاں آرا بیگم کو ناچار جانا پڑا تھا مگر کچن کی کھڑکی سے وہ بار بار ان دونوں کی طرف دیکھ رہی تھیں جس پر حمید صاحب نے بیچارگی سے سر ہلایا تھا ۔۔۔۔
“آئو ! تھوڑی چہل قدمی کرتے ہیں ۔۔۔”
سر جھکائے جھکائے ہی وہ ان کے ساتھ گھر سے نکلا تھا ۔۔۔۔
چودہ سال پہلے ان کی عادت تھی رات کو چہل قدمی کے لیئے نکلنے کی ۔۔۔ اور وہ اسے ساتھ ضرور لیتے تھے !
کچھ گزرے خوشگوار لمحات یاد آئے تھے جنہوں نے اس کی آنکھیں بھگا دی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر تو درمیان میں خاموشی حائل رہی پھر پارک کے بینچ پر بیٹھ کر حمید صاحب نے اسے بھی بیٹھنے کی پیشکش کی تھی ۔۔
ڈھیلے سے انداز میں وہ ان کے قدموں کے قریب ہی گھاس پر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
“سگرٹ پیو گے ؟”
“ممم۔۔۔ میں بس سارے دن میں ایک ہی پیتا ہوں ۔۔”
“آخری بار “دو” کب پی تھیں ۔۔؟”
“ابھی آپ چاہیں گے تو پی لوں گا !”
اپنے جواب پر وہ خود بھی مسکرایا تھا اور حمید صاحب بھی دھیرے سے ہنس دیئے تھے ۔۔۔۔
سگرٹ کے کش لگاتے ہوئے انہوں نے عتیق کی گھٹی گھٹی سسکیاں سنی تھیں ۔۔
باقی سگرٹ بینچ پر مسلتے ہوئے انہوں نے اس کا سر سینے سے لگا لیا تھا ۔۔
وہ چھوٹے بچوں کی طرح سسکتا ہوا ان کے سینے میں منہ چھپا گیا ۔۔۔۔۔
وہ کتنا بھی بڑا ہو جاتا ۔۔۔
حمید صاحب کتنے بھی بوڑھے ہو جاتے
وہ اس کے باپ ہی رہتے ۔۔
باپ جو زندگی کے پر تپش دپہروں میں گھنا سایہ بن جاتا ہے ۔۔۔
ان کے وجود میں اسے پناہ کا احساس ہوا تھا ۔۔۔۔۔
وہ ان سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا مگر اسے اندازہ ہوا تھا اس کے اس طرح لپٹنے سے انہیں جھکنا پڑ رہا ہے جو یقیناً انہیں تکلیف دے رہا ہوگا ۔۔۔۔
ان سے الگ ہوتے ہوئے اسے اپنا آپ بہت ہلکا پھلکا لگ رہا تھا ۔۔۔
تب ہی وہ کھل کر مسکرایا تھا ۔۔
نکھری نکھری اجلی اجلی مسکراہٹ !
جو حمید صاحب بہت یاد کرتے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
“ابو مجھے معاف کر دیں ۔۔۔!”
جب تک وہ منہ سے نا کہ دیتے “میں نے تمہیں معاف کیا !” تب تک اس کے ذہن سے بوجھ نہیں ہٹنا تھا ۔۔۔۔
“تمہیں تو میں نے کب کا معاف کر دیا میرے بیٹے !
ناراض تو میں خود سے تھا ۔۔
میں نے کیوں تمہاری بے جا خواہشات پوری کر کے تمہیں اس راہ پر جانے سے نا روکا !
بیٹیوں ہی نہیں بیٹوں کے بھی ایک ایک انداز کو نوٹ کرنا چاہیے ۔۔۔
جس طرح بیٹی کو یہ سمجھایا جاتا ہے ۔۔ کہ تم گھر کی عزت ہو ۔۔۔۔۔۔ بیٹوں کو بھی بلکل اسی طرح سختی سے تلقین کرنی چاہیے ۔۔ یہ بات ان کے ذہن میں بٹھا دینی چاہیے کہ تم مرد ہو ۔۔ تم محافظ ہو !
تمہارا کوئی ایک غلط قدم کل کو تمہاری ہی بہن بیٹی کے سامنے آ سکتا ہے اور پھر تم سوائے سر پیٹنے کے اور کچھ نہیں کر پائو گے ۔۔۔۔
بیٹوں کو بھی بلکل اسی طرح ان کے فرائض سمجھانے چاہئیں جس طرح بیٹیوں کو سمجھایا جاتا ہے ۔۔
لوگ کہتے ہیں بیٹیاں جلدی بڑی ہوجاتی ہیں ۔۔۔۔
مگر میرا خیال ہے انہیں جلدی بڑا کر دیا جاتا ہے ۔۔
ہمارے معاشرے میں ۔۔۔۔
ان پر ذمہ داریوں کا پریشر بہت ڈال دیا جاتا ہے ۔۔۔۔ انداز و لباس بدلنے کی تلقین کر دی جاتی ہے ۔۔۔ جو میں نے بھی کی تھی ۔۔۔
اور کچھ غلط نہیں کیا تھا ۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹوں کو بیس بیس سال تک بچہ ہی سمجھا جاتا ہے ۔۔
اور یہ بہت غلط ہے ۔۔!!!
کوئی بات نہیں اگر کھانے میں نخرے کر رہا ہے ۔۔۔۔
کوئی بات نہیں اگر کسی چیز کی ضد کر رہا ہے ۔۔
اور سب سے بری بات جب بیٹا کوئی گرل فرینڈ بناتا ہے تو سب اسے آج کل بہت لائٹ لیتے ہیں ۔۔
بیٹے کو چھیڑتے ہیں ہنسی مزاق کرتے ہیں ۔۔
اور اس کام میں لڑکوں کی مائیں اور بہنیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔۔۔
مجھے یاد ہے جب تم گیارہ سال کے تھے تب ایک دن سب کو بتایا تھا کہ تمہاری گرل فرینڈ ہے ۔۔۔۔
کیا نام تھا بھلا اس کا ؟
چلو نام کو بھول جائو ۔۔۔ مگر گھر میں مجھ سمیت ہم سب نے یوں خوشی منائی تھی جیسے تم کشمیر آزاد کروا لائے ہو ۔۔۔۔
میں اپنے یار دوستوں کے سامنے فخر سے تم سے پوچھتا تھا ہاں بھئی عتیق ! کون ہے تمہاری گرل فرینڈ !!!!”
ان کی آواز شرمندگی سے چور ہو تھی ۔۔۔۔
اور عتیق کے ذہن میں ان لمحات کی فلم چل رہی تھی ۔۔۔۔۔
“مجھے اسی وقت تمہیں روک دینا چاہیے تھا ۔۔۔۔ سمجھا دینا چاہیے تھا ۔۔ مگر وہی نا ! میں نے تمہیں بچہ سمجھا ۔۔۔۔
اور شائد ہمیشہ بچہ ہی سمجھتا رہتا ۔۔۔ اگر تم نے اپنا بڑاپن ظاہر نا کر دیا ہوتا ۔۔۔!!”
عتیق کا سر شرم سے جھک گیا تھا ۔۔۔۔
“اور مجھے یقین ہے اگر تمہاری کوئی بہن گیارہ سال کی عمر میں آ کر مجھ سے کہتی کہ اس کا بوائے فرینڈ ہے !
تو میں اس کا منہ توڑ دیتا ۔۔۔
یہ ہمارا معاشرا ہے ۔۔۔ یہ ہم ہیں !
جنہوں نے بچوں کے ذہن بنا دیئے ہیں ۔۔۔
لڑکیوں پر اتنا بوجھ اتنی پابندیاں جن کا ہمارے دین میں بھی ذکر نہیں ۔۔۔۔
اور لڑکوں کو غلط قسم کی آزادی دے دی جاتی ہے ۔۔!
میں سوچتا ہوں عتیق !
بیٹیوں کی جگہ ہمیں بیٹوں کو پہلے ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے ۔۔۔۔ ان کے فرائض بتانے چاہئیں ۔۔ انہیں بتانا چاہیے کہ وہ ڈھال ہیں اپنی بہنوں کی ۔۔
لڑکیاں تو ہوتی ہی فطرتاً ذمہ دار ہیں ۔۔۔۔۔۔
ہزاروں میں سے بمشکل کوئی ایک لڑکا ہوتا ہے فطرتاً ذمہ دار !
ویسے ہی ہر ہزار میں سے کوئی ایک لڑکی ہوتی بے فطرتاً پروہ
سو اس لیئے ۔۔۔۔۔۔ !!”
بیٹیوں پر کی گئی سختیاں اور بے جا پابندیاں انہیں توڑ رہی تھیں ۔۔۔
“ایک وہ تمہاری ماں ۔۔
جو ہر وقت ستارے والا چینل دیکھتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔
اس کے گمان میں بھی نہیں ہوگا اس کے ساتھ بیٹھ کر ساس بہو کے واہیات ڈرامے دیکھتے ہوئے تمہیں کیا ترغیب ملتی ہوگی ۔۔۔
تمہارے چھوٹے سے ذہن پر کیا اثر پڑتا ہوگا ۔۔
یہی چھوٹی چھوٹی باتیں جنہیں ہم اہمیت نہیں دیتے ۔۔ وہی چھوٹی چھووٹی باتیں بڑے بڑے مسئلے بن جاتی ہیں ۔۔ پھر ہم سوچتے ہیں ایسی بھی کونسی “بڑی خطا” ہو گئی جو ایسی سزا ملی ہمیں ۔۔۔!”
وہ بولتے بولتے تھک گئے تھے ۔۔۔
گہری گہری سانسیں لینے لگے ۔۔
اس واقعے کے بعد ان کی کسی بیٹی نے کبھی نہیں جتایا تھا کہ
“ہمیں تو بھائی سے ہمیشہ کم جانا اور بھائی نے ہی سر شرم سے جھکا دیا ۔۔۔۔”
مگر وہ خود ہی مجرمانہ سے احساس میں گھرے رہتے تھے ۔۔۔
بیٹیوں کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی ۔۔
پڑھایا لکھایا تھا کھانے اوڑھنے کو بہترین دیا تھا کہ یہ ان کا نصیب تھا مگر جو مان ۔۔۔ جو ذات کا غرور انہوں نے عتیق کو دیا تھا وہ انہیں نہیں دے سکے تھے ۔۔۔
اور جب تک اس بات کا احساس انہیں ہوا ، بیٹیاں پرائی ہونے کو تیار تھیں ۔۔۔!
اب جب اعتراف کرنے بیٹھے تھے تو بے اختیاری کے عالم میں بولتے چلے گئے تھے ۔۔
مقصد یہ بھی تھا کہ ان جیسی غلطیاں ان کا بیٹا نا دوہرائے ۔۔
طویل خاموشی کے بعد انہوں نے ایک اور سگرٹ نکالتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
“ہاں تو میاں ! کیا سمجھے ؟؟؟”
سمجھ تو وہ بہت کچھ گیا تھا ۔۔
مگر ماحول کا بوجھل پن کم کرنے کو کچھ توقف سے گویا ہوا تھا ۔۔
“یہی کہ آپ نے جو اتنا عرصہ مجھ سے بات نہیں کی ۔۔۔
اس کی کسر ابھی نکال لی ہے ۔۔”
حمید صاحب نے اسے مسنوعی گھوری سے نوازا تھا ۔۔ پھر سر پر ہاتھ مار کر بولے تھے
“جو اصل بات تھی وہ تو بھول ہی گیا ۔۔۔”
“کیا بات ؟”
“لائبہ واقعی سمجھدار بچی ہے جو بغیر کوئی بدمزگی پیدا کیئے رشتہ خود ہی ختم کر دیا ۔۔۔”
“میں جاننا چاہتا ہوں تمہارے اور اس کے درمیان کیا بات ہوئی تھی ؟”
“کچھ نہیں ۔۔۔۔”
“عتیق !!!”
“ہمم ؟”
“بتائو مجھے ۔۔۔”
“کچھ نہیں بس ! بس ۔۔۔ انہیں لگا کہ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتیں ۔۔۔۔۔۔۔
جس کی آنکھوں میں کسی اور کا عکس واضح نظر آتا ہو ۔۔۔!”
وہ گھاس اکھیڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ پارک میں اب دور دور تک کوئی زی روح نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔۔
جھینگروں کی آوازیں تھیں اور جما دینے والی سردی تھی ۔۔
جس کا احساس ہونے پر اس نے اپنا کوٹ اتار کر حمید صاحب کو پہنایا تھا ۔۔۔
“تم نے انکار کیوں کیا تھا کبیرا کے لیئے ؟”
“مجھے ڈر تھا میں آپ لوگوں کی نظر میں بچی کھچی عزت بھی گنوا نہ دوں ۔۔”
“پاگل ہو تم ؟
بلا وجہ خود کو اذیت دی ۔۔۔
بیٹا محبت آفاقی جذبہ ہے ۔۔
اس پر کوئی زور نہیں ۔۔۔۔ اور جس سے محبت ہو اس سے نکاح بہترین عمل ہے !
کوئی نکاح پر تم سے خفا کیوں ہوتا ؟
اب کچھ دن تک بات کریں گے ہم کبیرا کی ماں سے ۔۔۔۔
سب اندیشے دل سے نکال دو ۔۔۔!”
“سب ٹھیک ہو جائے گا نہ ابو ؟”
وہ سر اٹھائے بچوں کی طرح معصومیت سے ان سے یقین چاہ رہا تھا ۔۔۔
“بلکل !!!!”
“آپ لوگ یہاں ہیں ۔۔”
جہاں آرا بیگم کی آواز پر دونوں ہی اچھلے تھے ۔۔۔
سخت نظروں سے دونوں کو دیکھتی وہ اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔
مجھے اکیلے گھر میں چھوڑ کر چلے آئے دونوں باپ بیٹا سیر کرنے ۔۔۔ میں چائے بنا کر انتظار کر رہی ہوں کسی کو خیال ہی نہیں ۔۔۔
اوپر سے صحن کی لائٹ بھی اچانک خراب ہو گئی ۔۔۔
مجھے لگ رہا ہے جیسے صحن میں کچھ تھا ۔۔!”
“اگر تھا بھی تو وہ تمہیں دیکھ کر ڈر کر بھاگ گیا ہوگا”
حمید صاحب اٹھتے ہوئے بولے تھے ۔۔
عتیق نے بھی مسکراہٹ دبائے ان کی تقلید کی تھی ۔۔۔
“دو ہی تو شوق ہیں ان کے ۔۔۔ ایک غصہ کرنا اور ایک میرا مزاق اڑانا ۔۔”
“اور تمہارا بھی ایک ہی شوق ہے میرا دماغ کھاتے رہنا ۔۔”
“ہوگا تو کھائوں گی نا !”
عتیق نے جہاں آرا بیگم کو بازئوں کے گھیرے میں لے لیا تھا ۔۔۔
جب اس کے کان میں گھس کر وہ بڑبڑائی تھیں ۔۔
عتیق کا قہقہ بیساختہ تھا ۔۔۔۔
***********************
وہ اور سوہا گملوں کی ترتیب بدل رہے تھے جب دستک نے دونوں کو بدمزہ کر دیا تھا ۔۔۔۔
یہ سارہ ہی تھی جو ہمہ وقت کام کے لیئے تیار رہتی تھی ۔۔
وہ دونوں ہی اچھی خاصی کام چور تھیں مگر جب کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتیں تو اس کی بیچ میں انہیں کوئی رکاوٹ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ۔۔۔۔
کمر پر ہاتھ ٹکائے ، تیوری چڑھائے دونوں داخلی دروازے پر نظریں جما کر کھڑی ہو گئی تھیں جو جنت بیگم کھول رہی تھیں ۔۔
سامنے ہی حمید صاحب ، جہاں آرا بیگم ، روبینہ آپا ، شاہانہ آپی ، ہانیہ آپی اور رانیہ آپی ‘ انہیں حیران کرنے کو موجود تھیں ۔۔۔!
اوپر سے سب کے چہروں پر رقص کرتی پر اسرار سی مسکراہٹ !!!
سوہا کے ذہن میں کچھ کلک ہوا تھا جو اس کی سبز آنکھیں چمک اٹھی تھیں ۔۔
گلا کھنکھار کر اس نے منہ کھولے کھڑی کبیرا کو دیکھا تھا پھر اس کے کان میں منہ دے کر شوخی سے گنگنائی تھی ۔۔
“مہندی لگا کے رکھنا ۔۔ ڈولی سجا کے رکھنا ۔۔ لینے تجھے او گوری !
آئے ہیں تیرے سجنا !”
اس سے پہلے کے کبیرا اپنی انظروں سے اسے قتل کر ڈالتی ‘ وہ دروازے کی طرف بھاگ گئی تھی ۔۔
ایک ایک شخص اس سے یوں مل رہا تھا کہ اس کے ایک ایک مسام سے پسینہ پھوٹ نکلا تھا ۔۔۔۔
اور سب سے آخر میں داخل ہوتے عتیق کو دیکھ کر اس کی حالت عجیب ہو گئی تھی ۔۔۔
آج بھی عتیق نے اس سے نظریں ٹکرانے پر نظریں فوراً ہی ہٹا لی تھیں مگر آج اسے “کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا” کا خوف نہیں تھا ۔۔ آج اسے ایسا کرتے ہوئے لطف آیا تھا ۔۔۔۔
ان سب کےلائونج میں جاتے کے ساتھ ہی وہ اپنے اور سوہا کے مشترکہ کمرے میں نا نکلنے کے لیئے گھس گئی تھی ۔۔
***********************
“شرمندہ کروا رہی وہ ہے سب کے سامنے مجھے اور آپ کہ رہی ہیں میں شانت ہو جائوں ۔۔!”
نیچی آواز میں چلاتے ہوئے انہوں نے دانت یوں کچکچائے تھے جیسے دانتوں کے درمیان کبیرا ہو ۔
جنت بیگم کچھ کہتے کہتے رہ گئی تھیں اور نند کو ٹہوکا دیا تھا ۔۔۔
“عتیق ۔۔۔ اندر بیٹھو نا بیٹا میں بس ۔۔۔۔۔۔ ”
“چاچی میں کبیرا سے بات کر سکتا ہوں ۔۔؟”
بہت عرصے بعد کبیرا کا نام لینا اچھا لگا تھا اسے ۔۔ بہت الگ سا ۔۔۔
“وہ دروازہ ہی نہیں کھول رہی ۔۔۔”
“آپ اجازت دیں ‘ میں کھلوا لوں گا ۔۔”
اس کا انداز ایسا تھا کہ انہیں اجازت دیتے ہی بنی ۔۔
***********************
“کبیرا !”
وہ جو دروازے سے کان لگا کر ہی بیٹھی تھی عتیق کی آواز پر اچھل کر دروازے سے دور ہوئی تھی ۔۔
“دروازہ کھولو مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔!”
“میں جانتا ہوں تم مجھے سن رہی ہو ۔۔”
“اگر تم نے دروازہ نہیں کھولا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !”
“تو ؟؟؟؟”
مسکراہٹ دباتے ہوئے اس نے جاننا چاہا تھا ۔۔ کیا کر سکتا تھا وہ ۔۔۔
دوسری طرف اس کی مسکراتی آواز سن کر عتیق خوشگوار حیرت کا شکار ہوا تھا ۔۔۔
“میں سمجھوں گا تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو اور ۔۔۔۔۔۔ اور منگنی نہیں پھر نکاح کی تاریخ لے کر جائوں گا میں !”
سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ کبیرا کو اپنے پیٹ میں تتلیاں اڑتی محسوس ہوئی تھیں ۔۔
“پھر تو میں ہرگز دروازہ نہیں کھولوں گی ۔۔۔!”
کبیرا کی طرف سے بیساختہ سے انداز میں دیئے گئے جواب نے عتیق کو کھل کر ہنسنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔
“آل رائٹ جسٹ ویٹ اینڈ واچ !”
بڑی ترنگ میں کہتا وہ لائونج کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔
اسے کبیرا کا جواب چاہیے تھے ۔۔۔
بغیر کسی دبائو کے ۔۔۔ اور وہ اسے مل گیا تھا ۔۔۔۔
لائونج میں بیٹھے تمام افراد کی منڈیاں اس کی طرف اٹھی تھیں ۔۔
اس سے مشکل ہو رہا تھا اپنے تاثرات نارمل رکھنا ۔۔۔
وہ کوشش تو کر رہا تھا مسکراہٹ پر کنٹرول کرنے کی ۔۔ مگر چہرے کی رونق بہت کچھ کہ رہی تھی جس نے سب ہی کو مطمئین کر دیا تھا ۔۔۔۔!!
************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...