آپی ۔۔۔۔۔۔۔
ہاں کیا ہوا۔
نور کی آواز سن کر نایاب نے چونک کر کہا۔
آپی وہ پھوپھو آ گئ ہیں ۔امی بولا رہی ہیں آپ کو۔
نور بولی۔
اچھا میں آ رہی ہوں اور خالہ چلی گئیں۔
نایاب نے پوچھا۔
ہاں وہ چلی گئ ہیں۔آپ بھی جلدی آ جائیں۔
نور کہہ کر کمرے سے چلی گئی ۔
نایاب نے بھی اٹھ کر اچھے سے حجاب باندھا اور نیچے کی جانب بڑھ گئی۔
********************¬**********
السلام علیکم پھوپھو۔
نایاب نے آ کر سلام کیا۔
وعلیکم السلام۔
احسان جتلانے والے انداز میں کہا گیا۔
السلام علیکم ازلان بھائی۔
ہمت کرکے نایاب نے کہا۔
ازلان جو موبائل میں مصروف تھا اس نے جواب دینا تو دور نظر اٹھا کر بھی نھیں دیکھا۔
نایاب چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گئ اور پھوپھو کو دیکھا جو تمسخر اڑاتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
نایاب بیٹا جاؤ زرا دیکھو راشدہ ابھی تک چائے لے کر کیوں نہیں آئ۔
مائرہ بیگم نے نایاب کو وہاں سے ہٹانا چاہا کیونکہ وہ نگہت بیگم کی عادت سے خوب واقف تھیں ۔
ارے رہنے دو بی بی ہمیں نہیں چاہیئے تمھارا احسان ۔
نایاب اٹھنے لگی تو نگہت بیگم نے نخووت سے کہا۔
کیا ہو گیا ہے باجی۔اس میں احسان کرنے والی کیا بات ہے۔
مائرہ بیگم کو نگہت بیگم کا انداز بالکل اچھا نہیں لگا۔
نا بھئ اللہ بچائے ہمیں اس سے۔یہ تو ویسے ہی اتنی منہوس ہے میرے بھائ بھابھی کو کھا گئ یہ ۔مجھے تو اس کے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے
باجی کیوں آپ ایسی باتیں کر کے بچی کا دل دکھا رہی ہیں ۔
مائرہ بیگم نے کہا۔
اس میں دل دکھانے والی کیا بات ہے جو سچ ہے وہی کہہ رہی ہوں میں
فون آنے پر ازلان اٹھ کر چلا گیا تھا۔
نایاب کی ہمت جواب دے گئی تھی ۔اپنی آنکھوں میں آئ نمی چھپاتی وہ بھی باہر کی جانب بڑھ گئ۔
نور جو ابھی اوپر سے آئ تھی اسنے بھی نگہت بیگم کی باتیں سن لی اس سے پہلے وہ کچھ کہتی نایاب کو باہر جاتا دیکہ وہ بھی اس کے پیچھے چلی گئ۔
********************¬********
آپی ایک بات پوچھوں؟؟
ہاں پوچھو کیا بات ہے۔
چاند سے نظریں ہٹا کر اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
آپ اتنا صبر کہاں سے لاتی ہیں۔
مطلب کہ پھوپھو نے آپ کو اتنا کچھ بولا لیکن آپ پھر بھی چپ رہیں۔
نور نے کہا۔
نور میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔کبھی کبھی حق پہ ہونے کے باوجود خاموش رہنا پڑتا ہے اس لیے نہیں کہ ہم ڈرتے ہیں بلکہ اس لیے کے رشتے بحث سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
اور ایک بار یہ رشتے آپ کی کسی بحث یاکسی اقدام سے دور ہو گئے تو پچھتاوے کے سوا آپ کے پاس کچھ نہیں رہتا۔
نایاب نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
یو نو آپی۔۔۔۔۔آپ بھت اچھی ہیں اور تایا ابو نے آپ کا نام بالکل ٹھیک رکھا ہے آپ واقع نایاب ہیں اپنے نام کی طرح۔
اچھا تم بیٹھو میں نماز پڑھ کر آتی ہوں۔
اپنے ماں باپ کے ذکر پر نایاب کی آنکھوں میں نمی آ گئ تھی جسے چھپاتے ہوئے وہ اندر کی جانب بڑھ گئی۔
اسکی آنکھوں میں نمی کو دیکھ کر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آگئ تھی۔
ڈرامہ کوئین۔۔۔۔۔۔
سر جھٹک کر وہ بھی اندر کی جانب بڑھ گیا۔
********************¬***
آئ نو کہ میں بھت اچھی ہوں۔اچھا اور کیا کر رہے تھے تم۔رکو میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔
نایاب کو آتا دیکھ نور نے فون بند کر دیا تھا۔
کس سے بات کر رہی تھی ؟
نایاب نے پوچھا۔
وہ آپی میں اپنی دوست سے بات کر رہی تھی۔
نور نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔
اچھا اور تمھاری پڑھائ کیسی جا رہی ہے؟
جی آپی اچھی جا رہی ہے۔
نور نے کہا۔
نور اگر کوئ بات ہے تو تم مجھے بتا سکتی ہو۔
نایاب نے نور کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
نھیں آپی کیا بات ہو سکتی ہے۔
نور کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
ہہم نور اگر کبھی کوئ بھی بات ہو تو تم مجھ سے بلا جھجک کہہ سکتی ہو۔
جی آپی۔
نور کی نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں۔
نور مجھے تم پر بہت مان ہے اور مجھے یقین ہے میرا مان کبھی نہیں توڑو گی۔نور چند میٹھے بول بہت اچھے لگ رہے ہوتے ہیں لیکن بعد میں سوائے پچھتاوے کہ کچھ نہیں رہتا۔
نور ہم مسلمان لڑکیاں ہے اور میری بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ ایک مسلم لڑکی کو کبھی اتنا سستانہیں ہونا چاہیئے کہ کوئ بھی اسے خرید سکے۔
نایاب نے تحمل سے کہا۔
آپی آپ یہ سب مجھے کیوں کہہ رہی ہیں۔
نور نے الجھ کر نایاب کو دیکھا۔
بس مجھے لگا کہ تمھیں یہ باتیں کہہ دوں اور مجھے یقین ہے میری نور بہت اچھی ہے وہ کبھی میرا بھروسہ نہیں توڑے گی۔
نایاب کی بات سن کر نور کے دل میں ایک پھانس چبھی ۔
اچھا چلو اٹھو آزان ہو گئ ہے اٹھ کر نماز پڑھ لو۔
اچھا نا آپی اٹھتی ہوں ابھی۔
نور نے سستی سے کہا۔
کوئ بھانا نہیں سنو گی میں چلو شاباش اٹھو۔
نایاب نے نور کا ھاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔
اچھا بھئ آٹھ رہی ہوں۔
نور کو پتا تھا نایاب اسے کسی صورت نہیں چھوڑے گی اسی لیئے اسے اٹھنا پڑا۔
********************¬********
کیا واقع بہت مبارک ہو آپ کو۔چلیں ٹھیک ہے ہم جلدی سے تیار ہوتے ہیں۔
کس کا فون تھا؟
مائرہ بیگم نے پوچھا۔
سب لوگ اس وقت لائونچ میں موجود تھے۔
امی ازلان بھائ کا فون تھا وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا پروموشن ہو گیا ہے اور اسی خوشی میں وہ ہمیں ڈنر کروانے لے جا رہے ہیں۔
نور نے چھک کر کہا۔
ماشاءاللہ ۔چلو تو پھر تم لوگ جلدی سے تیار ہو جاؤ۔
مائرہ بیگم نے کہا۔
آپی آپ ابھی تک یہی بیٹھی ہیں۔
نایاب کو ویسے ہی بیٹھا دیکھ نور نے کہا۔
نور میرا بالکل بھی جانے کا دل نھیں ہے تم اور سعد چلے جاؤ۔
آپی اگر آپ نہیں جاؤ گی تو میں بھی نہیں جاؤ گا۔
سعد نے کہا۔
سعد یہ کیا بات ہوئ سچ میں میرا بالکل دل نہیں چا رہا۔
نایاب بولی۔
چلو نایاب بیٹا جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔میں تمھارا کوئ بھانہ نہیں سنو گی۔
مائرہ بیگم نے کہا۔
لیکن چاچی۔۔۔۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں بس میں نے کہہ دیا نا۔
جی اچھا۔۔۔
مائرہ بیگم کی بات نایاب کبھی نہیں ٹالتی تھی اسی لیئے مجبورا اسے اٹھنا پڑا۔
********************¬**********
آپی میں کیسی لگ رہی ہوں۔
ٹائس کے اوپر گھٹنوں تک آتی پنک کلر کی کرتی پہنے ،بالوں کو پونی میں باندھے نور بہت پیاری لگ رہی تھی۔
اب اچھی لگ رہی ہوں۔
نایاب نے اسے پنک ہی کلر کا ڈوبتا دیتے ہوئے کہا۔
کیا ہے آپی۔آپ کو پتا ہے یہ مجھ سے سنبھالا نہیں جاتا۔
نور نے منہ بنایا۔
نور۔۔۔
نایاب نے اسے گھور کر دیکھا تو نور نے چپ چاپ ڈوبتا مفلر کی طرح لے لیا۔
ویسے آپی آپ بھت زیادہ پیاری لگ رہی ہیں۔
بلیک رنگ کی سیمپل نیٹ کی فراک پہنے اور بلیک ہی حجاب لیئے وہ بھت خوبصورت لگ رہی تھی۔بلیک رنگ میں اس کا دودھ جیسا رنگ اور کھل رہا تھا۔
اچھا زیادہ مکھن مت لگاؤ اور جا کر دیکھو سعد تیار ہوا یا نہیں۔
نایاب نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہاں بھئی ان موصوف نے تو لڑکیوں کو مات دے دی ہے تیار ہونے میں۔
نور کہتی ہوئ کمرے سے چلی گئ۔
********************¬********
نایاب آرام سے سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ آندھی طوفان کی طرح اندر آتے وجود سے تکڑا گئ ۔اس سے پہلے کہ وہ گرتی سامنے والے وجود نے اسے سنبھال لیا۔
********************¬***
گرنے کے خوف کی وجہ سے نایاب سے سختی سے آنکھیں بند کردی تھیں۔
لیکن جب اسے کسی کی پکڑ کا احساس ہوا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سامنے ازلان کو دیکھ کر وہ ایک جھٹکے سے الگ ہوئ۔
اندھوں کی طرح چلتی ہو کیا۔
ازلان نے غصے سے کہا۔
میں دیکھ کر ہی چل رہی تھی البتہ آپ اندھوں کی طرح چل رہے تھے۔
نایاب نے بھی غصے سے کہا۔
یو نو واٹ۔۔۔۔۔۔۔
ازلان بھائ آپ آگئے۔
اس سے پہلے ازلان نایاب کو کچھ کہتا نور نے آ کر کہا۔
ہاں میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں جلدی سے آ جاؤ۔
ازلان ایک گھوری نایاب کو نوازتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
چلیں آپی۔۔۔
نور نے نایاب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
نور میرا جانے کا بالکل موڈ نہیں ہے۔
نایاب نے آخری کوشش کی کیونکہ اسکا واقع جانے کا بالکل دل نہیں تھا ۔
آپی آپ کو پتا ہے نا کہ میں آپ سے ناراض ہو جاؤ گی اگر آپ نہیں چلو گی تو۔
نور نے روٹھتے ہوئے کہا۔
اچھا بھئ ناراض کیوں ہورہی ہو۔
نایاب کو ہار ماننی پڑی۔
اچھا سعد کہا ہے؟
نایاب نے پوچھا۔
وہ صاحب تو پہلے ہی گاڑی میں بیٹھ چکیں ہیں۔
دونوں باتیں کرتی ہوئ گاڑی کے قریب چلی گئیں۔
ارسلان کو دیکھ کر جہاں نور کے چہرے کے زاویئے بگڑے وہی نور کو دیکھ کر ارسلان کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آ گئ۔
ارسلان ،ازلان کے ساتھ آگے بیٹھ گیا جبکہ وہ تینوں پیچھے بیٹھ گئے۔
********************¬¬********
وہ پانچوں اس وقت ریسٹورنٹ میں بیٹھے ڈنر سے لفت اندوز ہو رہے تھے۔
نور کو اپنے اوپر ارسلان کی نظریں محسوس ہو رہی تھیں لیکن جب بھی وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھتی وہ کہیں اور دیکھ رہا ہوتا۔
یار قسم سے بہت بور ہو تم لوگ ۔مجھے ایس الگ رہا ہے جیسے میں عدالت میں بیٹھا ہوں اور جج نے پھانسی کا فیصلہ سنا دیا ہے۔
سعد نے وہاں پر چھائ خاموشی پر چوٹ کی۔
ویسے بھائ ایک بات ہے تم نے قسم کھائی ہوئ ہے کہ جب بھی بولنا ایک دم فضول بولنا ہے۔
نور نے کہا۔
چلو میں بولتا تو ہوں بھلے فضول بولوں ۔تمھاری طرح منہ میں دہی جامع کر تو نہیں بیٹھتا۔
اچھا بس خبر دار اگر کسی نے اب کچھ کہا۔
نور کا منہ کھولتے دیکھ ازلان نے کہا۔
تھوڑی دیر بعد سب جانے کے لیئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
********************¬¬********
ازلان نے گاڑی آئسکریم پالر کے باہر روکی۔
آپی آپ نہیں آ رہیں؟
نایاب کو ویسے ہی بیٹھا دیکھ نور نے پوچھا۔
نہیں نور میرا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔
نایاب نے کہا۔
پلیز آپی چلیں نا۔
نور میں نے کہا نا میرا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔
اچھا پھر آپ بیٹھیں ہم جلدی سے آتے ہیں۔
نور کہہ کر گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب بڑھ گئ تھی۔
نایاب گاڑی میں بیٹھے تھک گئ تھی اس لیئے گاڑی سے اتر گئی ۔
چاند کی چاندنی میں ہر چیز نہائ ہوئ تھی۔
ارے او جان من اکیلی کیوں کھڑی ہو۔
نایاب مہبوت ہو کر چاند کو دیکھ رہی تھی جب اسے کسی کی آواز آئ۔
نایاب نے سامنے دیکھا تو وہاں تین لڑکے کھڑے تھے جو حلیے سے ہی غنڈے لگ رہے تھے۔
نایاب نے انھیں نظر انداز کیا اور واپس گاڑی میں بیٹھنے لگی کیونکہ وہ کوئ تماشہ نھیں چاہتی تھی۔
اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے کی۔۔۔۔
نایاب نے جیسے ہی گاڑی کا دروازہ کھولا ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
نایاب نے قہر برساتی نظروں سے اسے گھورا ۔
کیا ہو رہا ہے یہ ؟
اس سے پہلے نایاب اس لڑکے کو کچھ کہتی پیچھے سے ازلان کی آواز سن کر اس لڑکے نے نایاب کا ہاتھ چھوڑا۔
ازلان جو ایک کال سننے باہر آیا تھا یہ منظر دیکھ کر وہ یہاں آگیا تھا۔
ابے تو اس کا بھائ لگتا ہے جو تجھے اتنی تکلف ہو رہی ہے۔
اس لڑکے نے ازلان کے جانب بڑھتے ہوئے کہا۔
ازلان نے ایک مکہ اس لڑکے کو مارا جس سے وہ دو قدم پیچھے کی جانب گرا۔
ابے تیری اتنی ہمت باقی دو لڑکے بھی ازلان کے جانب بڑھے۔
دو منٹ میں ازلان نے ان کی حالت ایسی کردی تھی کہ وہ معافی مانگتے ہوئے بھاگ گئے تھے۔
شکریہ۔۔۔۔
نایاب نے جھجکتے ہوئے کہا۔وہ دل سے ازلان کی مشکور ہوئ تھی کیونکہ وہ واقع ڈر گئ تھی۔
آئندہ اپنی ان حرکتوں پر قابو رکھنا خاص طور پر جب تم ھمارے ساتھ آئ ہوئ ہو۔
ازلان نے نخووت سے کہا۔
کیا مطلب آپکا؟
نایاب ازلان کی بات پر الجھی تھی۔
مجھے نھیں پتا کیا تم جیسی لڑکیوں کا۔ماں باپ کا سایہ سر پر نھیں ہوتا تو کسی کا خوف ہی نھیں ہوتا۔یقیںن تم نے ہی ان لڑکوں کو اپنی جانب مائل کیا ہوگا۔ نا تم جیسی لڑکیوں کو اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے نا اپنے سے جڑے رشتوں کا۔تم جیسیوں کو بس لڑکے پہنسانہ آتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔
نایاب کے پڑنے والے تھپڑ سے ازلان کے باقی کے الفاظ اس کے منہ میں ھی رہ گئے تھے۔
آئندہ سوچ سمجھ کر ایسی بات کیجیئے گا مسٹر ازلان سکندر۔کیا سمجھا ہوا ہے آپ نے مجھے ۔اللہ کا شکر ہے مجھے اپنی عزت کا بھی خیال ہے اور اپنے سے جڑے ہر رشتے کا بھی۔
ازلان بھائ آج تو مزہ آ گیا قسم سے۔
اس سے پہلے ازلان نایاب کو کچھ کہتا ۔نور سب کے ساتھ وہاں آگئ تھی۔
چلو گھر چلیں۔
ازلان نے سرخ آنکھوں سے نایاب کو گھورا اور سپاٹ لہجے میں کہہ کر گاڑی مں بیٹھ گیا۔
********************¬¬*********
آنسوں اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔
وہ جائے نماز پر بیٹھی اپنے رب کے سامنے اپنا دل ہلکا کر رہی تھی۔
یا اللہ پاک آپ تو جانتے ہیں نا میں ایسی لڑکی نھیں ہوں۔میں تو ھمیشہ بھت سنبھل کر چلی ہو ں کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نھیں ملے پھر اتنا بڑا بڑا الزام کیوں۔
یا اللہ میں نے ہمیشہ پھوپھو سے اپنے منحوس ہونے کا طعنہ سنا ہے لیکن آج ازلان بھائ کی بات نے بھت تکلیف دی ہے ۔انھوں نے میرے کردار کے بارے میں اتنی غلط بات کی یہ برداشت نھیں ہو رہا مجھ سے۔
نھیں ہو میں بری لڑکی نھیں ہو میں۔۔۔۔۔۔
نایاب کے آنسوں اب ہچکیوں میں بدل گئے تھے۔
********************¬¬********
سیگریٹ کی وجہ سے پورا کمرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔
اس کی آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہو رہی تھیں۔
نایاب تم نے مجھے تھپڑ مار کر بالکل اچھا نھیں کیا ۔
قسم کھاتا ہوں میں کہ اگر میں نے تمھاری زندگی جہنم نا بنادی تو میرا نام بھی ازلان سکندر نھیں ۔
ازلان نے سیگریٹ اپنے پیروں تلے کچل دیا۔
********************¬¬********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...