ایک فلا سفر نے کہا تھا ’’میں سوچتا ہوں اس لئیے میرا وجود ہے ‘‘
درخت جاندار ہوتے ہیں مگر کیا وہ سوچ سکتے ہیں ؟؟
وہ ہماری فیملی کا ایک ممبر تھا۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے ہم تو سمجھتے تھے اور ہم ہر خوشی ہر غم اس کے ساتھ بانٹتے بھی تھے۔ اس کا ہر دکھ ہمیں اپنا لگتا تھا۔ چاہے اس کے پتّے گر رہے ہوں یا کوئی شاخ ٹوٹ جائے۔ ۔ ہمیں دکھ ہوتا تھا، ہاں۔ ۔ ۔ وہ ایک برگد کا پیڑ تھا۔
حالانکہ یہ صرف ہماری بات نہیں وہ بھی ہماری خوشیوں پر جھوم جایا کرتا تھا۔ ۔ اور ہر غم پہ اداس ہو جاتا۔ اور یہی وجہ تھی کہ کبھی اس کی لکڑی یا پتّے جلائے نہیں گئے۔ ہم اس برگد کے پیڑ کی بات کر رہے ہیں جو ہمارے گھر کے باہر ایک نگہبان کی طرح ہمارے اوپر سایہ کئیے ہوئے نہ جانے کتنے برس سے کھڑا تھا۔
جب یہ گاؤں آباد ہوا تب سے یہ پیڑ یہاں پر تھا جب دادا نے گھر بنوایا تب بھی یہ ایسے ہی مسکراتا رہا۔ ۔ ۔ ہاں تب یہ جوان تھا۔ اس کا تنا گہرے ہرے رنگ کا تھا پتّے گہرے ہرے رنگوں کے علاوہ بارش میں سنہرے بھی ہو جاتے تھے۔
اس کا ایک اسپیشل پھل بھی ہوا کرتا تھا۔ ۔ جسے لوگ ’’گودا‘‘ کہتے۔ ۔ ۔ پہلے چھوٹی چھوٹی ہرے رنگ کی گولیاں، پھر رفتہ رفتہ ان کا سائیز بڑھ کر چیکو کے برابر ہو جاتا، ان کا رنگ گہرا عنّابی سا ہو جاتا تھا۔ ذائقہ کچھ زیادہ اچھا تو نہیں ہوتا تھا مگر بچپن میں تو ہر چیز اچھی لگتی ہے نا؟؟
بچپن میں ہم اس کے سائے میں کھیلتے تھے اور یہ بارشوں اور دھوپ سے بھیبچا کر رکھتا۔ اس کی موٹی شاخوں میں ہم جھولا ڈلواتے اور پینگوں کا مزا لیتے۔ رات کو گھر کے بڑے بھی جھولے میں آ جاتے۔ ۔ دن کے وقت تو انھیں باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی۔
برگد کے اس پیڑ میں چڑیوں نے بھی بہت سارے نشیمن بنا رکھّے تھے، پیاری پیاری رنگ برنگی چڑیاں اس گھر کے تنے میں گھر بنا کر رہتیں۔ رات کو جب اندھیرا ہو جاتا تو پورے پیڑ میں جگنو چمکنے لگتے۔ ۔ ڈھیر سارے جگنو۔ ۔ ہر طرف ان کی نرم نرم روشنی سی پھیل جاتی۔ بہت ساریگلہریاں بھی اس میں چھپی رہتی تھیں۔ ۔ ان کے ننھے ننھے بچّے شاخوں پر ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ ۔
اسی برگد کے نیچے ہم نے سائیکل چلانا سیکھی۔ ۔ دوپہر میں جب سب لوگ مزے سے نیند لے رہے ہوتے تب ہم برگد کے نیچے سائیکل دوڑاتے پھرتے۔ ۔
وہی ہمارا کھیل کا میدان تھا وہی اسکول، اور وہی تفریح گاہ جہاں آ کر ہم گم ہو جاتے۔ ایک شام تھی غالباً سر دی کا زمانہ۔ ۔ جب ہوائیں چلنے لگیں اور پھر وہی ہوائیں آندھیاں بن گئیں ہم اندھیوں کے خوف سے گھر کے دالان میں خاموش بیٹھے تھے۔ لالٹین بھی بار بار بجھ جاتی تھی۔ ۔
ہمارا برگد جھوم جھوم کر گھر کو آندھیوں سے بچا رہا تھا۔ ۔ ۔ اور پھر ایک دلدوز چیخ سنائی دی۔ ۔ ۔ برگد جڑ سے اکھڑ رہا تھا۔ ۔ گر رہا تھا۔ ۔ ۔ سب کو مدد کے لئیے پکار رہا تھا۔ ۔ مگر اس کی مدد کون کرتا۔ ۔ ۔ ایک شور سا برپا تھا۔
ہزاروں ٹن بھاری۔ ۔ بے پناہ شاخیں۔ تنے کا حجم تقریباً تیس فٹ رہا ہو گا اسے کون تھام لیتا؟؟؟ کون ہاتھ بڑھاتا اس کی طرف؟ وہ جب تک رہا سب کے کام آیا اور اب کوئی نہیں تھا جو اسے بڑھ کر تھام لے۔ ۔ ؟
اور پھر آخری کراہ کے ساتھ وہ دروازے کے سامنے پہلے گھٹنوں کے بل اور پھر سارا کا سارا گر پڑا۔ ۔ گرتے گرتے بھی اسے ہمارا خیال رہا اور وہ دروازہ چھوڑ کر گرا۔ ۔ ۔
آپ۔ ۔ کیا محض اتفاق کہیں گے۔ ۔ ؟
اتنا بھاری بھرکم درخت اگر گھر پر گر جاتا تو گھر تہس نہس ہو جاتا۔ مگر وہ جانتا تھا۔ ۔ ۔ اسے خیال تھا ہمارا۔ ۔ وہ دوسری طرف گرا۔ ۔ اور مر گیا۔
ہاں ہم وہ تو یہی کہتے ہیں کہ وہ مر گیا۔ ۔ چلا گیا ہمیں چھوڑ کر۔ ۔ سائبان نہ رہا۔ لکڑی کٹنا شروع ہوئی تو مہینوں کٹتی رہی بہت ساری چڑیوں کے گھونسلے۔ ۔ ٹوٹے ہوئے انڈے مری ہوئی چڑیاں۔ ۔ اور تو اور کئی سانپ بھی زندہ اور مردہ حالت میں ملے۔ ۔
اس کے پتّے مدّتوں نہیں سوکھے۔ ہم اس کے غم میں کئی بر س بے چین رہے۔ ۔ ہم اپنے گھر کو اس پیڑ کے بغیر سوچ بھی نہیں پاتے ہیں۔ ۔
آج بھی ایک پتّہ۔ ۔ ۔ ایک سرخ سا پتّہ جو میرے دل کے اوپر سلگ رہا ہے شاید اسی برگد کے پیڑ کا ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...