علامہ اقبال ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے اور شخصیت کے اظہار کے لئے انہوں نے ادب کی مختلف اصناف کو اپنایا۔۔۔۔ نثر میں جہاں انہوں نے ایک مستند علمی کتاب (علم الاقتصاد) یادگار چھوڑی ہے، وہیں مختلف النوع مضامین اور خطوط بھی تحریر کئے، مگر ان کے ساتھ وقتاً فوقتاً انہوں نے تقاریظ اور آرا کا بھی اظہار کیا جو دوست و حباب کی کتب، رسائل یا ان کی کسی کاوش کے سلسلے میں رقم کی گئیں۔ ادبی لحاظ سے اور علامہ کی شخصیت کے انعکاس کی ذیل میں ان کی اہمیت ہے یا نہیں، مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ علامہ کے قلم سے نکلی ہیں اور اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ ان کی دیگر نثری تحریریں۔۔۔۔ ان تقاریظ اور آرا سے بھی ویسی ہی بے نیازی برتی گئی جو علامہ کی دیگر نثری تحریروں کے لیے روا رکھی گئی ہے۔ علامہ کی یہ تقاریظ اور آرا یکجا صورت میں دستیاب نہ تھیں، البتہ ادھر ادھر مختلف کتب و رسائل میں بکھری ہوئی تھیں۔ ضرورت ا س امر کی تھی کہ انہیں یکجا صورت میں چھاپا جائے تاکہ ان کی اصل افادیت و اہمیت اجاگر ہو سکے۔۔۔ راقمہ نے ایسی تمام تحریروں کو ’’ نگارشات اقبال‘‘ کے زیر عنوان مرتب کر کے چھاپ دیا ہے۔ ذیل میں مذکورہ کتاب کا تعارف پیش کیا جاتا ہے:
’’ نگارشات اقبال‘‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور سے 1993ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب 120 صفحات پہ محیط ہے۔ ص7 تا10 ترتیب کے لئے مختص ہیں۔۔۔ دیباچہ ص11 اور 12 پر ہے، جو محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے تحریر کیا ہے۔ ’’ پیش گفتار‘‘ ص13 تا15 اور ’’مقدمہ ‘‘ ص19تا31 پر ہے۔ ’’ مقدمے‘‘ میں علامہ کی متفرق تحریروں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور علامہ کی تحریروں میں سے مثالیں دی گئی ہیں۔۔۔۔ نگارشات کا اصل متن ص35سے ص85 تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’ نگارشات اقبال‘‘ کا سنہ وار گوشوارہ ص 89 سے ص99 تک محیط ہے۔ یہ گوشوارہ سات حصوں میں منقسم ہے، جس کی تفصیل اس طرح ہے:
’’ کالم نمبر1 میں تاریخ تحریر ہے، یعنی وہ تاریخ جو اقبال نے رائے تحریر کرنے کے بعد درج کی، صحیح تاریخ کا تعین نہ ہونے کی صورت میں، قریب ترین قیاسی تاریخ تحریر کو قلابین میں درج کیا گیا ہے۔۔۔ کالم نمبر 2میں کتاب یا رسالہ کا نام مع مصنف اور مرتب درج ہے۔ کالم نمبر 3میں ان کی آرا کی نوعیت درج ہے کہ آیا وہ دیباچے ہیں؟ تقاریظ یا اثرات؟ کالم نمبر4 میں دیباچہ یا تقاریظ کی ضخامت کا ذکر ہے۔ کالم نمبر 5 میں آرا کی اشاعت (بالعموم اشاعت اول) کا ذکر ہے۔ کالم نمبر6 میں ان کی مزید اشاعتوں کا ذکر ہے۔ کالم نمبر7 میں دیباچوں اور آرا کی عکسی نقول کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اگر عکس کہیں چھپا ہے تو اس کالم میں عکس لکھ دیا گیا ہے اور عکس دستیاب یا موجود نہ ہونے کی صورت میں کراس (X) لگا دیا گیا ہے۔‘‘ (ص89, 90)
’’ نگارشات اقبال‘‘ میں جن اشخاص کی تحریروں پر علامہ نے اظہار خیال کیا ہے، یا جنہیں علامہ نے خراج تحسین پیش کیا ہے ان کا مختصر سا حال الضبائی ترتیب سے ص103 سے ص109 پر ہے۔ کتب و جرائد کی تفصیل ص113 اور114 پر ہے۔۔۔۔ علامہ اقبال کی تحریروں پر مبنی اشاریہ ص115 سے 120 تک پھیلا ہے۔
’’ نگارشات اقبال‘‘ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اول حصے میں کتب و جرائد پر تقاریظ، دیباچے اور آرا شامل ہیں، جبکہ دوسرے حصے میں متفرق تاثرات اور اسناد شامل ہیں، یوں کل انسٹھ (59) نگارشات ہیں۔ ممکن ہے کچھ اور نگارشات بھی ہوں جن تک راقمہ کی رسائی نہ ہو سکی ہو، تاہم دستیاب ہونے پر انہیں آئندہ ایڈیشن میں شامل کر لیا جائے گا۔۔۔۔
اس کتاب پہ دیباچہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں :
’’ نگارشات اقبال، بنیادی طور پر، مختلف کتابوں پر علامہ کی تقاریظ و آراء کا مجموعہ ہے۔ یہ تحریریں بظاہر اتنی اہم نظر نہیں آتیں، بعض کو علامہ نے متروک قرار دیا تھا، اور بعض رواداری میں اور از راہ وضع داری لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، مگر ان کے عقب میں اقبال کی دلچسپ، دل کش اور وضع دار شخصیت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، اور اسی طرح ہمیں ان کے بعض محسوسات، ذہنی افتاد اور ان کے مخصوص انداز فکر و نظر کا بھی انداز ہوتا ہے۔‘‘ (ص12)
’’ نگارشات اقبال‘‘ صوری حسن سے بھی مزین ہے۔ کتابت خوبصورت اور چھپائی نفیس اور دل کش ہے۔ کتابت کی اغلاط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پروف خوانی خاصی وقت نظری سے کی گئی ہے لیکن چونکہ کوئی بھی کاوش کامل و اکمل نہیں ہوتی لہٰذا زیر تبصرہ کتاب میں بھی ایک آدھ مقامات پہ کچھ اغلاط نظر آتی ہیں، ذیل میں ایسی اغلاط کی نشان دہی کی جا رہی ہے تاکہ مذکورہ کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کی جا سکے:
1۔’’ نگارشات اقبال‘‘ ص:37 ، سطر نمبر5، پر حوالہ کی ذیل میں ص نمبر8 کے بجائے 18 ہونا چاہئے۔
2 ۔ ص نمبر47 ، سطر نمبر10 پر لفظ ’’ جو‘‘ کتابت ہونے سے رہ گیا ہے، علاوہ ازیں اسی صفحے پر سطر نمبر16 پر حوالے کی ذیل میں ’’ اسرار خودی‘‘ طبع دوم 1918ء کا ص نمبر درج نہیں کیا گیا جو کہ ص نمبر 1ہے۔
3 ۔ ص نمبر77، سطر نمبر6پہ لفظ ’’ گفتا‘‘ کے بجائے صحیح لفظ’’ گفتار‘‘ ہے، اسی صفحے کی سطر نمبر12 پر لفظ’’ ارد‘‘ کے بجائے ’’ اردو ‘‘ ہے۔
4۔ ص79، سطر نمبر1پر لفظ’’ تمہید‘‘ کے بجائے ’’ تمہیدی‘‘ ہے۔
5 ۔ ص83، سطر نمبر11 پر لفظ ’’ کتالوں‘‘ کی بجائے ’’ کتابوں‘‘ ہے۔
6۔ ص نمبر89، سطر نمبر5پر لفظ ’’ کرنے‘‘ کی کتابت دو مرتبہ کر دی گئی ہے، جبکہ ایک دفعہ ہونی چاہئے۔
7 ۔ ص نمبر92، سطر نمبر6، لفظ’’ گم گشتہ‘‘ کے بجائے صحیح لفظ’’ گم شدہ‘‘ ہے۔ اسی صفحے پر رام بابو سکسینہ کی کتاب History of Urdu Literature کا نام دو کام میں درج ہونے سے رہ گیا ہے۔
8۔ ص93، سطر نمبر8 ، پر سنہ ’’ 198ئ‘‘ کے بجائے ’’ 1928ئ‘‘ ہے اور اسی صفحے کی سطر نمبر9 پر ’’ تصانیف‘‘ صحیح کتابت ہے بجائے ’’تصنیفات‘‘ کے ۔ اسی صفحے کی سطر نمبر17پر’’ نوعیت‘‘ کے کالم میں ’’تقریظ‘‘ نہیں لکھا گیا۔
9 ۔ ص94، سطر18 اور ص نمبر95، سطر نمبر9 پر لفظ’’ تقریط‘‘ کے بجائے ’’ تقریظ‘‘ ہے۔
10۔ ص نمبر106 پہ ص نمبر درج نہیں کیا گیا۔
11 ۔ ص نمبر108، سطر نمبر11, 12پر لفظ ’’ پرنسپل‘‘ کی کتابت دو مرتبہ کر دی گئی ہے، جبکہ ایک مرتبہ ہونی چاہئے تھی۔
آئندہ ایڈیشن میں ان اغلاط کی تصحیح کر کے ’’ نگارشات اقبال‘‘ کو معیاری بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
مختصر یہ کہ علامہ کی ان متفرق کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ان کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے۔۔۔ مجموعی طور پر جب ہم ’’ نگارشات اقبال‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں علامہ کی شخصیت کے چند نئے گوشے روشن تر ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان تقاریظ میں برصغیر کا عظیم شاعر اور فلسفی ایک عام انسان کی طرح چلتا پھرتا، گفتگو کرتا اور رسوم و رواج کو نبھاتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ علامہ کی نثر میں ان تقاریظ کی معنویت و افادیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی اور علامہ کی مستند سوانح عمری مرتب کرتے ہوئے ان سے بھی بخوبی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
(6)
اقبالؒ کا نثری اسلوب
اسلوب سے مراد وہ طرز یا اسٹائل ہے، جس کے تحت لکھنے والا اپنے افکار، خیالات اور جذبات و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔۔۔۔ اسلوب کے بارے میں اطہر پرویز لکھتے ہیں:
’’ ہر بڑے شاعر اور بڑے ادیب کی اپنی محفل ہوتی ہے، جہاں لفظوں، فقروں، ترکیبیوں اور جملوں کو مہذب کیا جاتا ہے۔ اسی تہذیب اور اس تہذیب کے آداب اور طور و طریق کو اسلوب کہا جاتا ہے۔‘‘ 1؎
اسلوب شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر اسلوب نگار مزاجاً درویش منش ہے تو اسلوب بھی اس رنگ میں رنگا ہوا ملے گا۔ لکھنے والا اگر مبالغے کو پسند کرتا ہے تو اس کی تحریر میں بھی جاوبے جا تعلی کا انداز غالب نظر آئے گا۔۔۔ علامہ اقبال چونکہ فطری طور پر بے نیاز، منکسر المزاج، سادہ لوح اور درویش منش انسان تھے لہٰذا ان کے نثری اسلوب میں بھی ان کے مزاج کے یہ اوصاف بخوبی دکھائی دیتے ہیں۔
علامہ اقبال جامع الحیثیات شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت فلسفی، شاعر، نقاد اور نثر نگار تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہی تھے، مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے مختلف تقاضوں کے تحت نثر کو بھی اظہار خیال کا ذریعہ بنایا، ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:’’ اقبال کی نثر ان کے کلام سے کم اہم نہیں ہے، بلکہ ایک لحاظ سے قدر و قیمت میں نظم سے بھی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر،ا قبال کے فکر و ذہن اور کلام کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہے۔‘‘ 2؎ چنانچہ انہوں نے علمی موضوع پر بھی قلم اٹھایا اور نثر میں معاشیات کے موضوع پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ تصوف سے بھی انہیں گہری وابستگی تھی، شاعری کے علاوہ نثر میں بھی تصوف کے ایک دو ابواب مل جاتے ہیں۔ علامہ نے مختلف ضروریات کے تحت مضامین لکھے، ان مضامین سے بھی ان کے خیالات و افکار کی خاصی حد تک وضاحت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں علامہ نے اپنے دوست احباب کو کئی خطوط تحریر کئے، یہ خطوط بھی کئی اعتبار سے ان کی اردو نثر میں اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔۔ پھر انہوں نے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر یا از خود تقاریظ اور آرا بھی رقم کیں، ان کی اردو نثر میں ان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔ ان تمام نثر پاروں کا جائزہ ہم گذشتہ صفحات میں پیش کر چکے ہیں۔ اس باب میں ہم علامہ کے نثری اسلوب سے بحث کریں گے۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہر لکھنے والے کا، خواہ وہ ادیب ہو یا نہ ہو، اپنا ایک مخصوص اسٹائل اور اسلوب ہوتا ہے بسا اوقات یہ اسلوب انفرادی نوعیت کا ہوتاہے اور کبھی اس میں مشترکہ عناصر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جب ہم علامہ کی نثری تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں، تو اس میں ہمیں انفرادی اسلوب کے علاوہ، معاصرین کے اثرات بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔۔۔ علامہ ایک طرف تو سرسید تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ’’ مخزن‘‘ کی رومانی تحریک سے بھی کسی حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سرسید تحریک سے مقصدیت، منطقیت، استدلال اور ’’ مخزن‘‘ تحریک سے شگفتگی، لطافت اور تشبیہہ و استعارہ جیسی صفات مستعار لی ہیں، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ علامہ کا اپنا کوئی انفرادی اسلوب نہ تھا۔ علامہ نے مقصدیت اور شگفتگی و لطافت کی آمیزش سے ایک ایسا اسلوب وضع کیا، جو زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
’’ اقبال کی ساری تحریریں سرسید احمد خاں اور مولانا حالی سے گہرا معنوی رشتہ رکھتی ہیں، لیکن شاعری کی طرح، اقبال کی نثر کا اسلوب بھی سرسید اور حالی سے بہت الگ ہے۔ اسے الگ ہونا بھی چاہئے کہ اقبال کو مشرق و مغرب کے جن دقیق و پیچیدہ فلسفیانہ مسائل سے واسطہ تھا، ان کے پیش رو اصلاح پسند نثر نگاروں کو نہ تھا۔‘‘ 3؎
اسلوب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لکھنے والے کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے، یعنی لکھنے والے کی شخصیت اس کی تحریر میں لامحالہ در آتی ہے۔ اسلوب کی یہ تعریف علامہ کی نثری تحریروں پہ پوری طرح صادق آتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیںـ:
’’ ان (علامہ اقبال) کا انثری اسلوب بھی اپنی ایک مخصوص انفرادیت رکھتا ہے جو ان کی شخصیت کا آئینہ ہے، ان کے کردار کی صحیح تصویر ہے، ان کے خیالات و نظریات کا عکس ہے، ان کے ذہنی رحجانات کا سایہ ہے اور ان کی شخصیت ہی کی طرح جان دار اور پختہ ہے۔ اس میں وہی رنگ و آہنگ نظر آتا ہے جو ان کے ذہنی اور جذباتی تجربات میں نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں جو لہریں شعور اور تحت شعور میں اٹھتی رہی ہیں، ان کی پرچھائیاں ان کے اسلوب پر بھی پڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کا ہیولہ بے شمار رنگوں سے تیار ہوا ہے اور یہ رنگ اقبال کی پہلو دار، متنوع اور ہمہ گیر شخصیت کے رنگ ہیں۔ اسی کا یہ اثر ہے کہ علامہ کا اسلوب ان بے شمار رنگوں کی ایک قوس قزح کے روپ میں اپنے آپ کو رونما کرتا ہے۔‘‘4؎
ڈاکٹر عبداللہ علامہ اقبال کے اسلوب کی نگارش کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اقبال کا ذہن دو عناصر سے مرکب ہے۔ اول: حقائق حکمیہ سے خاص شغف، دوم: اور شدید جذباتی کیفیتوں سے وابستگی۔ حقائق کے بیان کے سلسلہ میں ان کا مقصد، مطلب کو عقلی انداز میں سمجھانا ہے اور ان کے بعض مضامین میں یہی رحجان کار فرما ہے، لیکن اقبال نے اکثر مضامین (خواہ وہ علمی ہوں یا ادبی) تخیل اور جذبات کی مدد لئے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ ان کاا سلوب ایک حکیم کا اسلوب بھی ہے، مگر ایسے حکیم کا جو حکمت میں شعر کا سارس پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ 5؎
یہ صحیح ہے کہ اقبال اپنے اکثر مضامین میں تخیل اور جذبات کا سہارا لیتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ’’ مخزن‘‘ تحریک سے متاثر تھے، ’’ مخزن‘‘ اردو ادب میں رومانی تحریک کا علمبردار ہے۔ علامہ جہاں ٹھوس علمی موضوعات کو سنجیدہ اسلوب میں پیش کرتے ہیں، وہاں علمی موضوعات میں دل کشی پیدا کرنا بھی جانتے ہیں، یہ ان کے اسلوب کی انفرادی خصوصیت ہے۔ رحیم بخش شاہین لکھتے ہیں:
’’ اقبال کی نثر میں رومانی اثر نظر آتا ہے کیونکہ ایک شاعر جب نظر لکھتا ہے تو اس میں تخیل اور جذبات کی آمیزش نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ البتہ اقبال کے خطوط میں بعض دوستوں کے ساتھ بڑی بے تکلفی اور طرز بیان کی شگفتگی نظر آتی ہے۔ مجموعی طور پر اقبال کی نثر پر فلسفہ و حکمت کی چھاپ ہے۔ اسے ہم مدعا نگاری کہہ سکتے ہیں لیکن اقبال کے بیان میں عالمانہ اسلوب بیان ملتا ہے۔‘‘ 6؎
سب سے پہلے اقبال کے اسلوب کی انفرادیت ہمیں ان کے معاشی اور اقتصادی موضوعات میں نظر آتی ہے۔ اقتصادیات کے موضوع پر اقبال نے 1904ء میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھی، اس وقت ایسے علمی موضوع کو اردو میں پیش کرنے کی روایت نہ تھی، مگر علامہ نے اس موضوع پر لکھتے ہوئے بھی ایک ایسا اسلوب نثر اختیار کیا جو اس موضوع کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ اس اسلوب نثر کے متعلق علامہ اقبال دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ زبان اور طرز عبارت کے متعلق صرف اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ میں اہل زبان نہیں ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا ہے میں نے اقتصادی اصولوں کے حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، جو انگریزی علمی کتابوں میں عام ہے۔ نئی علمی اصطلاحات کے وضع کرنے کی دقت کو ہر بامذاق آدمی جانتا ہے۔ میں نے بعض اصطلاحات خود وضع کی ہیں اور بعض مصر کے عربی اخباروں سے لی ہیں، جو زمانہ حال کی عربی زبان میں آج کل متد اول ہیں۔ جہاں جہاں کسی اردو لفظ کو اپنی طرف سے کوئی نیا مفہوم دیا ہے، ساتھ ہی اس کی تصریح بھی کر دی ہے۔‘‘ 7؎
یہ علامہ کا انکسار تھا کہ وہ اپنے آپ کو اہل زبان نہ سمجھتے تھے، مگر حقیقت ہے کہ وہ زبان و بیان کی باریکیوں اور نزاکتوں سے بخوبی واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ موضوع کی مناسبت سے کس قسم کا اسلوب اختیار کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خیال ہے کہ علامہ نے انگریزی، عربی اور فارسی کے مختلف اسالیب کو سامنے رکھ کر اردو میں علمی نثر لکھنے کی ایک نئی طرح ڈالی ہے اور اس طرح ایک نئے اسلوب نثر کا تجربہ کیا ہے، جو اردو کی نثری روایت میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔8؎
علمی موضوع پر لکھتے ہوئے وہ ٹھوس علمی اصطلاحات کے علاوہ موقع و محل کی مناسب سے محاورہ، روز مرہ، تشبیہہ اور استعارہ سے بھی کام لیتے ہیں۔ اس طرح علمی موضوع میں بھی ادب کی چاشنی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
’’ اقبال نے ہمیں علمی زبان کا ایک ایسا نمونہ دیا ہے، جس میں علمی حقائق کا چہرہ اچھی طرح نظر آتا ہے، اس میں زیبائش اگر کہیں ہے بھی تو اس نے حقائق کے رنگ کو پھیکا نہیں کر دیا۔‘‘ 9؎
اقبال کے اسلوب کی نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مدلل انداز میں حقائق بیان کرتے ہیں۔ وہ کسی جذباتی موضوع پر بھی لکھ رہے ہوں تو استدلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ علامہ سرسید تحریک سے بھی متاثر تھے اور سرسید تحریک کی نمایاں خصوصیت منطقیت اور استدلال ہے، چنانچہ علامہ جب سنجیدہ مسئلے پر بھی قلم اٹھاتے ہیں تو اسلوب سادہ مگر مدلل ہوتا ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ یہ امر بھی ظاہر ہے کہ جوں جوں آبادی بڑھتی ہے ضرورت ان زمینوں کو کاشت میں لانے پر مجبور کرتی ہے جو اس سے پہلے غیر مزروعہ پڑتی تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو زمینیں افزائش آبادی سے پیشتر کاشت کی جاتی تھیں ان کا لگان بڑھ جاتا ہے۔ زمیندار روز بروز دولت مند ہوتے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ مزید دولت جو ان کو ملتی ہے نہ ان کی ذاتی کوششوں اور نہ ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار بڑھنے کا نتیجہ ہوتی ہے، بلکہ صرف آبادی کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کی ذاتی کوششیں اور ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا پھر ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ دولت مند ہوتے جائیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ آبادی کی زیادتی سے قوم کے خاص افراد کو فائدہ پہنچے اور باقی قوم اس سے محروم رہے۔ اگر یہ فائدہ ان کی ذاتی کوششوں یا ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا۔ پھر ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ دولت مند ہوتے جائیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ آبادی کی زیادتی سے قوم کے خاص افراد کو فائدہ پہنچے اور باقی قوم اس سے محروم رہے۔ا گر یہ فائدہ ان کی ذاتی کوششوں یا ان کی زمینوں کے محاصل کے بڑھ جانے کے نتیجہ ہوتا تو ایک بات تھی، لیکن جب ان کی دولت مندی کے یہ اسباب نہیں ہیں، تو صاف ظاہر ہے کہ ان کی امیری صریحاً اصول انصاف کے خلاف ہے۔‘‘ 10؎
غرض یہ کہ علامہ اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھ کر اردو میں علمی نثر لکھنے کا ایک نیا تجربہ کیا اور ایک ایسے اسلوب نثر کی داغ بیل ڈالی، جو انہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ علاوہ ازیں اردو کا دامن علمی موضوعات کے لئے وسیع کر دیا اور اردو کو اس اعتراض سے بری کر دیا کہ یہ زبان دقیق علمی مباحث کو بیان کرنے سے عاجز ہے۔
علامہ نے علمی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں۔ علمی موضوعات میں بھی اسلوب ایسا اختیاط کیا ہے، جو عام فہم اور پرکار ہے۔ ان کے مضمون ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ (مخزن1902) میں بچوں کی نفسیات، ان کی ترغیبات ذہن اور ان کے ماحول کے محرکات وغیرہ کا علمی بیان ہے۔ اس مضمون میں اقبال کا انداز بیان تشریحی نوعیت کا ہے، مثلاً اس مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ بچوں میں بڑی کی نقل کرنے کا مادہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں ہستی ہے تو خود بھی بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اس کی آواز کی نقل اتارے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا بڑا ہوتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے تو اپنے ہمجولیوں کا کہتا ہے آؤ بھئی ہم مولوی بنتے ہیں تم شاگرد بنو۔ کبھی بازار کے دکانداروں کی طرح سودا سلف بیچتا ہے۔ کبھی پھر پھر کر اونچی آواز دیتا ہے کہ چلے آؤ انار سستے لگا دیے۔‘‘ 11؎
اس پیراگراف میں اسلوب سادہ اور آسان ہے، بہ قول: ڈاکٹر سید عبداللہ:’’ فلسفی نثر نگار‘‘ ادیب نثر نگار کے روپ میں جلوہ گر ہے۔۔۔۔ سادگی اور سلاست بھی ہے اور مدرسانہ تشریحی انداز بھی ہے اور ادیبانہ طرز تخاطب بھی ہے۔ 12؎
علامہ کے علمی مضامین میں مشکل الفاظ بھی ہیں۔ علمی مضامین میں ان مشکل الفاظ کا در آنا نا گزیر ہے۔ اسی مضمون میں یعنی ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ جس طرح تصورات کے لئے مقابلہ مدرکات کی تصدیقات کے لئے مقابلہ تصورات کی ضرورت ہے، اسی طرح استدلال کے لئے جو مقابلہ تصدیقات سے پیدا ہوتا ہے یہ ضروری ہے کہ بچے کے علم میں کافی تعداد تصدیقات کی ہو۔ استاد کو خیال رکھنا چاہئے کہ بچے کے مدرکات، تصورات، تصدیقات اور استدلالات اس کے علم کے انداز کے ساتھ ترقی کرتے جائیں۔‘‘ 13؎
علامہ کی علمی نثر خشک اور بے کیف نہیں ہے۔ علمی موضوع کو آسان، سہل اور دلچسپ انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ قاری کی دلچسپی آخر تک قائم رہے، خاصا مشکل کام ہے، مگر علامہاس مشکل پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے سنجیدہ مضامین بھی محض سنجیدہ اور ثقیل نہیں ہیں، وہ فطرتاً ایک شاعر ہونے کے باعث اپنی نظر کو بے کیف نہیں رکھتے۔ ان کی تحریریں’’ بے رنگ‘‘ نہیں ہیں ان میں تخیلا ور جذبہ کی کارفرمائی بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کا دیباچہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
علامہ اپنے علمی اسلوب نظر میں جمالیاتی اقدار کا خاص خیال رکھتے ہیں، چنانچہ کہیں تشبیہات و استعارات سے کام لیتے ہیں، بعض جگہ تصویر کشی کرتے ہیں اور کہیں جزئیات کو جمالیاتی انداز میں پیش کر کے اپنے اسلوب نثر میں دل کشی پیدا کرتے ہیں، مثلاً تشبیہات و استعارات کی چند مثالیں دیکھئے:
1 ’’ برق جس کی مضطربانہ چمک تہذیب کے ابتدائی مراحل میں انسان کے دل میں مذہبی تاثرات کا ایک ہجوم پیدا کر دیا کرتی تھی، اب اس کی پیام رسانی کا کام دیتی ہے۔ نسیم اس کی سواری ہے اور ہوا اس کے پنکھے جھلا کرتی ہے۔‘‘ 14۔ (مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ )
2’’ لڑکا خواہ منگنی سے پہلے اپنے سسرال کے گھر میں جاتا ہی ہو۔ منگنی کے بعد تو اس گھر سے ایسا پرہیز کرنا پڑتا ہے جیسے ایک متقی کو مے خانے سے۔‘‘ 15؎
ان اقتباسات میں جو تشبیہات و استعارات استعمال کئے گئے ہیں، وہ نہ صرف موضوع سے مناسبت رکھتے ہیں بلکہ احساس جمال کو بھی بیدار کرتے ہیں۔ ان سے اسلوب میں ایک دل کشی اور ندرت پیدا ہو گئی ہے۔ رحیم بخش شاہین لکھتے ہیں:
’’ اقبال کی شاعری کی طرح کا جمال و جلال ان کی نثر میں بھی ہے۔ اس نثر کا جمال یہ ہے کہ علامہ کی تحریر اور بیان کا اسلوب نہایت حسین اور دلچسپ رہتا ہے، اور ا س تحریر کا جلال یہ ہے کہ وہ نہایت شان و شوکت والے عربی، فارسی یا ترکی آمیز فارسی کے الفاظ نہایت نفاست سے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ 16؎
علامہ کی علمی نثر کے علاوہ ادبی اور تنقیدی نثر میں بھی عالمانہ اسلوب کے ساتھ ساتھ شگفتگی اور شادابی کی لہر سی دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی علامہ کے ایک انگریزی مضمون The Muslim Community, A Sociological Study جس کا ترجمہ ’’جناب رسالت ماب کا ادبی تبصرہ‘‘ کے عنوان سے چھپا ہے، پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ علامہ کا ایک مختصر سا تنقیدی مضمون ہے، لیکن اس مختصر سے مضمون میں بھی انہوں نے جو کچھ کہا ہے اور جس انداز سے کہا ہے، اس کے ایک ایک لفظ سے شادابی ٹپکتی ہے اور ساتھ ہی زندگی کا احساس بھی ہوتا ہے 17؎ اسی طرح اسی مضمون کا ایک اور طویل اقتباس (ص:240, 241) پر نقل کرتے ہوئے انہوں نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اس میں حیرت و استعجاب کی آواز دلوں میں ولولہ بیدار کرتی ہے اور زندگی کی تصویر جان دار رنگوں میں ملتی ہے لیکن اس تبصرے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ وہ جس بنیاد پر، اس اقتباس کے محاسن گنوا رہے ہیں، وہ تو علامہ کی انگریزی تحریر کا اردو ترجمہ ہے اور تراجم ظاہر ہے کہ علامہ کی اردو تحریروں میں شمار نہیں ہوتے۔۔۔
علامہ کے تنقیدی اسلوب کی ایک مثال ہم ان کے دیباچے ’’ پیام مشرق‘‘ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اس دیباچے میں دیگر تنقیدی تحریروں کے برعکس انداز بیان خشکی، نشتریت اور کاٹ سے پاک ہے۔۔۔ عام طور پر تنقیدی تحریریں کاٹ دار ہوتی ہیں مگر علامہ اقبال تنقید میں بھی نہایت سنبھلا ہوا انداز اختیار کرتے ہیں حتیٰ کہ اعتراضات کا جواب بھی اتنے متوازن، متین اور سلجھے ہوئے اندازمیں دیتے ہیں کہ معترض از خود شرمندہ ہو جاتے ہیں، مثلاً یہ انداز تحریر ہم ان کے مضامین ’’ اردو زبان پنجاب میں‘‘ ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ اور’’ سر اسرار خودی‘‘ میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
علامہ کا اسلوب ان کے موضوعات سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔۔۔ چنانچہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں مدلل اور ٹھوس اور کہیں کہیں تشریحی نوعیت کا انداز غالب نظر آتا ہے۔ مضامین چونکہ مختلف موضوعات پر تحریر کئے گئے ہیں لہٰذا یہاں وہ موقع و محل کی مناسب سے اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ اسلوب کی متنوع اور رنگا رنگ صورتیں ان کے مکاتیب میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:
’’ اقبال کی اردو نثر کے موضوعات مختلف ہیں اس لئے اسلوب کی بھی متنوع صورتیں ان کی تحریروں میں جلوہ گر نظر آئیں گی، جن کے تنوع میں وہ عناصر بھی شامل ہوں گے جو ان کے مزاج کا حصہ تھے۔ اسلوب کی یہ نیرنگی مکاتیب میں تو اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں اسلوب کا لب و لہجہ مکتوبات نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کے علاوہ ان مطالب و موضوعات سے بھی متعین ہو گا جو خط کی تحریر کا باعث ہوئے۔‘‘ 18؎
علامہ نے مختلف ضروریات اور تقاضوں کے تحت کئی خطوط تحریر کئے۔۔۔۔ علامہ کے یہ خطوط مجموعوں کی صورت میں چھپ کر سامنے آ چکے ہیں۔۔۔۔ ان خطوط سے جہاں علامہ کی شخصیت کے مختلف اور ہمہ گیر گوشے عیاں ہوتے ہیں، وہیں ان کا مختلف اور متنوع اسلوب نگارش بھی ابھرتا ہے۔ علامہ نے اگرچہ یہ خطوط چھپوانے کے نقطہ نظر سے تحریر نہیں کئے تھے، اس لئے ان میں بعض خطوط بالکل رسمی سے اور بعض ایک جملے پہ مشتمل ہیں اور ان سے علامہ کی شخصیت یا ان کے اسلوب نگارش پہ واضح روشنی نہیں پڑتی تاہم ایسے مکاتیب کی تعداد خاصی زیادہ ہے، جن سے نہ صرف علامہ کے افکار کی وضاحت ہوتی ہے بلکہ ان میں علامہ نے موضوع کی مناسبت سے جامع اسلوب بھی اختیار کیا ہے مثلاً عطیہ فیضی، سرکشن پرشاد، سید سلیمان ندوی اور مولانا غلام قادر گرامی کو لکھے گئے خطوط میں ایک خاص ادبی اسلوب ابھرتا ہے۔۔۔۔ ادبی حوالے سے وہ دو خطوط بھی کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں جو انہوں نے لندن (1905ئ) سے ایڈیٹر’’ وطن‘‘ کے نام تحریر کیے۔۔۔ ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطوط چھپوانے کی غرض سے تحریر کئے گئے۔ ان دونوں خطوط میں لندن کے سفر کی روا داد بیان کی گئی ہے۔۔۔۔۔ ایک خط میں سمندر کی کیفیت کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں:
’’ راستے میں ایک آدھ بارش بھی ہوئی، جس سے سمندر کا تلاطم نسبتاً بڑھ گیا اور طبیعت اس نظارے کی یکسانیت سے اکتانے لگی۔ سمندر کا پانی بالکل سیاہ معلوم ہوتا ہے اور موجیں جو زور سے اٹھتی ہیں ان کو سفید جھاگ چاندی کی ایک کلغی سے پہنا دیتی ہے اور دور دور تک، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے سطح سمندر پر روئی کے گالے سے بکھیر ڈالے ہیں، یہ نظارہ نہایت دلفریب ہے۔‘‘ 19؎
اس اقتباس میں منظر نگاری نہایت دل کش انداز میں کی گئی ہے۔ علامہ نے مشاہدے اور محسوسات کے امتزاج سے ایک اثر انگیز اسلوب تشکیل دیا ہے۔۔۔۔ ذیل کے اقتباس میں علامہ کے خیالات و نظریات اور جذبات و محسوسات ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں:
’’ یہاں جو پہنچا تو ایک اور نظارہ دیکھنے میں آیا۔ پختہ جہاز پر تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا۔ ان عورتوں میں ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی، نہایت حسین تھی، مجھے دیانت داری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے حسن نے تھوڑی دیر کے لئے مجھ پر سخت اثر کیا، لیکن جب اس نے چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہو گیا، کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس پر استغنا کا غازہ نہ ہو، بد صورتی سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔‘‘ 20؎
ان دونوں خطوط کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
’’ سمندر کا تلاطم، مسافروں کے حلئے، ان کی بو العجبیاں، بحری سفر میں شب و روز مشاغل اور موقع و محل کی نازک باریکیاں۔۔۔ نثر کا ایک ایسا مرقع پیش کرتا ہے، جس سے اقبال کے اندر ایک عظیم نثر نگار کے امکانات کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ نظر نگار ایسا ہے، جو کہیں کہیں اور کبھی کبھی نثری شاعری کی قلمرو میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘ 21؎
علامہ نے گرامی کے نام جو خطوط لکھے ہیں، ان سے ان کے تنقیدی و تخلیقی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ ایک خط جو انہوں نے 12 اکتوبر1918ء کو لکھا خالصتاً فلسفیانہ نوعیت کا ہے۔ اس میں چونکہ فلسفے کے مسائل بیان کر رہے ہیں اس لئے زبان اور اسلوب بھی موضوع کی مناسبت سے اختیار کیا ہے، مثلاً لکھتے ہیں:
’’ گرامی مسلم ہے اور مسلم تو وہ خاک نہیں کہ خاک اسے جذب کر سکے یہ ایک قوت نورانہ ہے کہ جامع ہے جواہر موسویت و ابراہیمیت کی آگ اسے چھو جائے تو برد و سلام بن جائے، پانی اس کی ہیبت سے خشک ہو جائے، آسمان و زمین میں یہ سما نہیں سکتی کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہوئی ہیں۔ پانی آگ کو جذب کر لیتا ہے، عدم بود کو کھا جاتا ہے، پستی بلندی میں سما جاتی ہے مگر جو قوت جامع اضداد ہو اور محلل تمام تناقضات کی ہو اسے کون جذب کرے؟ مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو اپنے اندر جذب کرے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے۔‘‘22؎
گرامی کے نام اقبال کے خطوط کے اسلوب کے بارے میں محمد عبداللہ قریشی کی رائے ہے:
’’ ان میں اکثریت ایسے خطوں کی ہے جو اردو نثر کا نہایت شگفتہ نمونہ ہیں۔ یہ نہ بے رنگ ہیں نہ خشک۔ اقبال کی دیگر علمی تحریروں کی طرح ان کی عبارت میں رعب و دبدبہ بھی ہے اور وزن بھی ۔ فکر کی جولانی بھی ہے اور خیال کی برجستگی بھی۔ بعض جگہ تو شاعری نثر سے ہم آغوش نظر آتی ہے۔‘‘ 23؎
دیگر مکتوبات میں، طرز تخاطب اور اسلوب مکتوب الیہم کے مقام اور مرتبے کے مطابق بدلتا رہتا ہے، اس طرح خطوط کے اسلوب میں یکسانیت کے بجائے رنگا رنگی ملتی ہے، مثلاً سید سلیمان ندوی کے نام10اکتوبر1919ء کو لکھتے ہیں:
’’ شاعری میں لٹریچر بہ حیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا۔ کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں، مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں، اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے، اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لئے ممکن نہیں۔‘‘ 24؎
ایجاز و اختصار علامہ کے اسلوب کا ایک نمایاں وصف ہے، چونکہ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر ہیں لہٰذا مباحث کو کم سے کم الفاظ میں سمیٹنے کے گر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ خطوط میں تو یہ انداز قدم قدم پر اپنی جھلک دکھاتا ہے تاہم علامہ کسی مسئلے کے بیان میں جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے جس سے ان کی تحریروں میں ایک وضاحتی اور تشریحی نوعیت کا اسلوب بھی ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔
علامہ ایک پیامبر شاعر اور نثر نگار تھے اور اپنی تحریروں میں انہوں نے اس بات کا واشگاف الفاظ میں اظہار بھی کیا ہے کہ ان کی تحریروں کا بنیادی اور اولین مقصد قاری تک اپنا پیغام پہنچانا ہے لہٰذا وہ افکار و خیالات کی تفہیم کے لئے سادہ اور عام فہم پیرایہ بیان اختیار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قاری ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے کہیں بھی اسلوب کی بھول بھلیوں میں نہیں الجھتا اور نہ صرف ان کی بات کو جزئیات سمیت سمجھ جاتا ہے بلکہ اس سے اثر پذیر بھی ہوتا ہے۔۔۔ اس ضمن میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا خیال بجا ہے:
’’ اقبال کی ان تحریروں کو پڑھ کر قاری کا ذہن ایک لحظہ کے لئے بھی اسلوب کی بھول بھلیوں میں نہیں الجھتا اور نہ ہی مطالب سے کہیں جدا ہوتا ہے۔ اسلوب بیان اور مدعا نگاری کا یہ حسین امتزاج جس میں ابلاغ کے تقاضوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اقبال کی نثر کا خاص وصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں اپنی معتدل لطافت اور دل کشی سے پڑھنے والوں کو محظوظ بھی کرتی ہیں اور اپنے علمی مطالب سے ذہنوں کو قائل اور دلوں کو متاثر بھی کرتی ہیں۔‘‘ 25؎
صاحب طرز نثر نگار:ـ
اقبال کی اردو نثر کے سلسلے میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہم اقبال کو صاحب طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں؟ اگرچہ علامہ نے اس ذوق و شوق سے نثر نہیں لکھی، جس قلبی وابستگی کے ساتھ شاعری کی ہے اور نہ ہی انہوں نے نثر کو اظہار خیال کا باقاعدہ ذریعہ بنایا۔۔۔۔ انہوں نے زیادہ تر نثری تحریریں دوست احباب کی فرمائشوں یا کسی فوری اظہار کے طور پر لکھیں، چنانچہ ان کا نثری سرمایہ، شاعری کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے لیکن ہم اسے شاعری سے کم تر قرار نہیں دے سکتے۔۔۔۔ باوجودیکہ انہوں نے کسی خاص ضابطے اور قلبی لگاؤ سے نثر نہیں لکھی مگر ان کا جتنا بھی نثری سرمایہ ہے وہ مواد اور طرز بیان ہر دو اعتبار سے اس قابل ہے کہ اسے اردو کی نثری تاریخ میں نمایاں مقام دیا جائے۔ ان تحریروں میں ان کا اپنا ایک اسٹائل ہے جو ان کی شخصیت اور مزاج کا پرتو ہے ۔ انہوں نے کلیتاً کسی کی پیروی نہیں کی، البتہ اپنے دور کے رحجانات اور اسٹائل کو اپنے مزاج میں شامل کر کے ایک خاص انداز کی طرح ڈالی یہ خاص طرز ادا ان کی تحریروں میں رچا بسا ہوا ہے، لہٰذا ہم انہیں صاحب طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں نقادوں کی متضاد آرا ملتی ہیں۔ کچھ حضرات اقبال کی نثر کو خاصی اہمیت دیتے ہوئے انہیں صاحب طرز نثر نگار قرار دیتے ہیں مگر بعض اقبالیین ان کی نثر کو وہ مقام نہیں دیتے جس کی بنا پر علامہ اقبال کو صاحب طرز نثر نگار تسلیم کر لیا جائے۔۔۔۔ ڈاکٹر سید عبداللہ علامہ کو صاحب طرز نثر نگار قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اقبال کا تخلیقی اور فکری جوہر ان کی نثر اور شاعری میں ہم رنگ نہ سہی ہم مزاج ضرور ہے۔ ان کی نثر کے ان نمونوں کے سامنے آ جانے سے ہمیں ان کی شاعری میں اور بھی تیقن ہو گیا ہے اور یہ بھی یقین ہو گیا ہے کہ شاعر اقبال ایک منفرد طرز کا نثرنگار بھی ہے۔‘‘ 26؎
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے نزدیک علامہ ایک صاحب طرز نثر نگار ہیں، وہ لکھتے ہیں:
’’ اقبال ایک صاحب طرز اسلوب نگار ہیں اور اس طرز بیان کا بنیادی وصف حکیمانہ ہے، جسے اتنی خود اعتمادی اور بصیرت کے ساتھ اردو میں کسی نے نہیں برتا تھا۔ اگرچہ یہ بات اقبال نے سید سلیمان ندوی کی نثر کے بارے میں کہی ہے کہ آپ کی نثر معانی سے معمور ہونے کے علاوہ لٹریری خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے، لیکن یہ بات خود ان کی اردو نثر اور اسلوب نگارش پر زیادہ صادق آتی ہے۔‘‘ 27؎
اسی طرح ڈاکٹر وحید قریشی نے بھی علامہ کو صاحب طرز نثر نگار تسلیم کیا ہے، انہوں نے راقمہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو (10دسمبر 1989ئ) میں بتایا:
’’ ہم اقبال کو صاحب طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں۔ان کی نثر کا آہنگ دوسرے لکھنے والوں سے جدا ہے۔ وہ نثر میں تشبیہہ و استعارہ کا سہارا نہیں لیتے نہ اپنے معاصر رومانی نثر نگاروں کی طرح نثر کو غیر حقیقی بناتے ہیں۔ ان کی نثر میں خاص طرح کا سیدھا پن ہے۔ اسے آسان نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو باتیں وہ بیان کرتے ہیں وہ پیچیدہ ہیں اس لئے ان کی نثر عالمانہ لیکن بہت مضبوط ہے۔‘‘
مگر ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اس بات سے متفق ہیں کہ علامہ اقبال صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر اپنے مضمون’’ اقبال کی نثر کا مزاج‘‘ میں لکھتے ہیںـ:
’’ اقبال کی شاعری اور نثر کا بیک وقت مطالعہ کرنے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ دو الگ شخصیتوں کا اظہار ہو۔ مجھے تو نثر نگار اقبال وکیل نظر آتا ہے۔ اس کی نثر میں ادبی حسن کے مقابلے میں لیگل ڈرافٹنگ کا انداز زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اس سے اقبال کی نثر میں استدلال کی قوت جلوہ گر ہوتی ہے۔ قوت کی ایسی زیریں لہر جو ایک انتہا پر اثر آفرینی میں برقی رو کا کام کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، تو دوسری انتہا پر محض سرد منطق بن کر رہ جاتی ہے۔‘‘ 28؎
اسی طرح ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے بھی اپنے انٹرویو (18دسمبر1989ئ) میں بتایا:
’’ ہر شخص خواہ وہ کتنا ہی معمولی لکھنے والا ہو ایک مخصوص طرز تحریر کا مالک ہوتا ہے، لیکن جوں جوں ہم اعلیٰ درجے کے نثر نگاروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں انفرادیت کا احساس زیادہ سے زیادہ ہونے لگتا ہے۔ اقبال کا ایک منفرد طرز تحریر یقینا موجود ہے۔ وہ جس طرح سے عربیت آمیز جملے تخلیق کرتے ہیں، وہ انہی کا حصہ ہیں۔ ایک طرف ابو الکلام جیسی پر شکوہ نثر ان کے ہاں موجود نہیں ہے، تو دوسری طرف ان کے ہاں مولوی عبدالحق جیسی رواں نثر بھی نہیں ہے۔ وہ پر شکوہ اور رواں نثر لکھنے والوں کے بین بین ہیں۔ان کی نثر میں وضاحت ہے لیکن گھلاوٹ نہیں ہے۔ یہ کار آمد نثر ہے مگر اسے دل کش نثر نہیں کہہ سکتے۔ مختصر یہ کہ ان کا ایک اپنا اسلوب تو یقیناً موجود ہے لیکن صاحب طرز نثر نگاروں میں انہیں جگہ دینا مشکل ہے۔‘‘
ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کے خیالات اپنی جگہ درست ہیں، مگر ہم ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اور ڈاکٹر وحید قریشی صاحب سے متفق ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کا اپنا ایک انفرادی طرز ہے، جس میں وہ اپنے خیالات و افکار کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی نثری تحریروں کو تشبیہات و استعارات اور ضرب الامثال سے بوجھل نہیں بناتے، چنانچہ ہم ان کی تحریروں کو پر شکوہ نہیں کہہ سکتے تاہم حسب موقع صنائع بدائع لفظی و معنوی کا التزام کر کے وہ اپنے اسلوب نثر کو دل کش ضرور بناتے ہیں اس لئے ہم انہیں صاحب طرز نثر نگاروں کی ذیل میں رکھ سکتے ہیں۔
بہ حیثیت مجموعہ علامہ کی نثری تحریریں ( علم الاقتصاد، تاریخ تصوف اور مضامین اردو خطوط، دیباچے اور تقاریظ) اردو ادب میں ایک اہم اور نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ بسا اوقات ان کی نثر، ان کی شاعری سے زیادہ وقیع نظر آتی ہے۔ بہت سے اہم اور دقیق مباحث جو شعر کی محدود دنیا میں بیان نہیں کئے جا سکتے، وہ علامہ نے نثر میں بیان کیے ہیں علاوہ ازیں علامہ کے کئی اشعار کا صحیح مفہوم اور پس منظر ان کی نثر کے مطالعے سے ہی متعین ہوتا ہے، اس ضمن میں ہم سید افتخار حسین شاہ سے متفق ہیں:
’’ علامہ کے کلام کو سمجھنے کے لئے ان کی نثر کا مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ بہت سے الجھے ہوئے مسائل جو اشعار میں وضاحت طلب تھے، نثر میں نہایت واضح الفاظ میں پیش کر دئیے گئے ہیں۔‘‘ 29؎
تاہم ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے انٹرویو (10دسمبر1989ئ) میں بتایا:
’’ علامہ اقبال کی نثر و نظم میں تقابل ممکن نہیں۔ شاعر کی حیثیت سے ان کا مرتبہ مسلم ہے، تاہم ان کی اردو نثر بھی کئی اعتبارات سے اہم ہے۔ ایک تو اس لئے کہ ان کی شاعری کی وضاحت ان کی نثر کے ذریعے ممکن ہے اور شعر کی تعبیر و تشریح میں جذباتی لہجے کی وجہ سے انسان اپنے مطالب بھی کلام اقبال میں دیکھنے لگتا ہے لیکن نثر میں اس کی گنجائش نہیں، دوسرے وہ صاحب طرز نثر نگار بھی تھے اس لئے ان کی نثر نگاری کو یقینا پوری توجہ کی ضرورت ہے جو اب تک نہیں ہوئی۔‘‘
ڈاکٹر وحید قریشی علامہ کے نثری سرمائے میں مضامین اور دیباچوں کو زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو (10دسمبر1989ئ) میں بتایا کہ اقبال کی نثر میں نفس مضمون کے اعتبار سے ان کے خطوط کی اہمیت زیادہ ہے لیکن فلسفیانہ نکات کے اعتبار سے ان کے دیباچے اور مضامین زیادہ اہم ہیں۔۔۔۔ انہوں نے اردو نثر کو فلسفیانہ مسائل بیان کرنے کا مخصوص پیرایہ عطا کیا۔ اب اردو نثر میں فلسفیانہ باریکیوں کو بیان کرنے کی پوری صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ تقاریظ ڈاکٹر وحید قریشی کے نزدیک زیادہ اہم نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر فرمائشی ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا نے اپنے انٹرویو (18دسمبر1989ئ) میں علامہ کی نثر و نظم کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا:
’’ میں نے ذاتی طور پر ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اقبال کو شاعر، فطرت نے بنایا تھا لیکن نثر انہوں نے اپنی کوشش سے لکھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ نثر میں اظہار خیال کرتے ہیں تو اس میں کاوش اور آورد کا دخل زیادہ نظر آتا ہے جبکہ ان کی شاعری پر شکوہ اسلوب میں ہونے کے باوجود زیادہ دل کش اور زیادہ فطری چیز معلوم ہوتی ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر اقبال شاعر نہ ہوتے تو وہ اپنی موجودہ نثر کی وجہ سے زندہ ادیب نہ ہوتے، یعنی ان کی نثر کی اہمیت بھی زیادہ تر ان کی شاعری کی وجہ سے ہے۔‘‘
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے نزدیک علامہ کے خطوط کی اہمیت ان کے باقی نثر پاروں کی نسبت زیادہ ہے۔ انہوں نے مذکورہ انٹرویو میں بتایا:
’’ میرے خیال میں ان کی تمام نثر میں خطوط کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ ان کے بیشتر خطوط مختصر ہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ ان کی مدد سے اقبال کا ذہنی پس منظر سمجھنے میں بہت کچھ آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اردو میں ان کی دوسری نثری تحریریں ان کی شخصیت پر اتنی زیادہ روشنی نہیں ڈالتیں جتنی کہ ان کے خطوط‘‘
بہرحال ہمارے خیال میں علامہ کی تمام نثری تحریریں کسی نہ کسی زاویے سے ان کی شخصیت، فن، ذکر و فکر اور خیالات و نظریات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ بعض نثر پاروں کی ادبی دنیا میں خواہ زیادہ اہمیت نہ ہو مگر وہ چونکہ اقبال کے قلم سے نکلے ہیں۔ اس لئے ہمارے لیے تبرک کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی اپنی ایک افادیت و اہمیت ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں ہم بہ قول ڈاکٹر سید عبداللہ یہ کہہ سکتے ہیں:
’’ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہا قبال اگر شاعری نہ کرتے اور نثر ہی لکھتے تو بھی وہ اردو نثر میں مرزا غالب کی مانند ایک خاص دبستان یادگار چھوڑ جاتے۔ وہ اپنی خاص شگفتہ تحریر کے زیادہ سے زیادہ نمونے ہمیں دے جاتے اور ایک ایسا ادبی انداز ایجاد کرتے جس میں زبردست قوت فکریہ کہ ہمراہ ایک قوی قوت متخیلہ دست بدست چل رہی ہوتی ہے، جس میں واقعاتی حس اور تخلیقی حس کا سنجوگ ہوتا ہے، جس میں شاعری نثر سے ہم آغوش نظر آتی ہے۔‘‘ 30؎
٭٭٭
حواشی
1۔ ادب کا مطالعہ، اطہر پرویز، ص:146
2۔ اقبال سب کے لئے، ص:37
3۔ اقبال سب کے لئے، ص:38
4۔ اقبال کی اردو نثر، ص:218
5۔ مقالات اقبال، طبع دوم1988ئ، ص:10
6۔ اقبال کی اردو نثر (بی اے نصاب) ص:31
7۔ علم الاقتصاد، طبع دوم 1977ئ، ص:32, 33
8۔ اقبال کی اردو نثر، ص:225
9 ۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:11
10۔ علم الاقتصاد، طبع اول، ص:152, 153
11۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:38
12۔ ایضاً، ص:12
13۔ ایضاً، ص:41
14۔ ایضاً، ص:75
15 ۔ ایضاً، ص:95
16 ۔ اقبال کی اردو نثری (نصاب بی اے )ص:31
17 ۔ اقبال کی اردو نثر، ص:239, 240
18۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:203, 204
19۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:109, 110
20۔ ایضاً، ص:118
21۔ ایضاً، ص:19
22۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم 1981ء ، ص:147
23۔ ایضاً، ص:85
24 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص:108
25۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:208
26۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:19, 20
27۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:226
28۔ مجلہ سہ ماہی ’’ اقبال‘‘ اپریل تا جولائی 1977ئ، ص:92
29۔ اقبال اور پیروی شبلی، ص:145
30۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:19
٭٭٭