کال کی تیز آواز نے اسکی آنکھ کھولی تھی ۔۔ اس نے نیند سے بھری ہوئی آنکھیں ہلکی سی کھول کر دیکھا ۔۔ محد کی کال تھی ۔۔ اس نے کال ریسیو کر کے کان سے لگائی ۔۔
’’ اتنی صبح صبح کیوں اٹھا دیا ؟ ’’ اسکی آواز سن کر محد سمجھ چکا تھا کہ وہ نیند میں تھی ۔۔
’’ میڈم صبح کےآٹھ بج رہے ہیں اور شاید آپ بھول رہی ہیں کہ آج آپکا پہلا دن ہے آفس میں ’’ محد نے اسے یاد دلایا تھا ۔۔ وہ محد کی بات سن کر فوراً سے اٹھی تھی ۔۔
’’ کیا ؟ آٹھ بج گئے ؟؟ ’’ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جو کہ آٹھ بجا رہی تھی
’’ ہاں جی ۔۔ اب جلدی سے تیار ہوکر نکلو ۔۔ پہلے دن ہی لیٹ مت ہوجانا اور ہاں ناشتہ کر کے جانا ’’
’’ ہاں ٹھیک ہے اب بائے ’’ وہ کال کاٹ کر فوراً سے بیڈ پر سے اچھلی تھی اور الماری سے اپنا ڈریس نکال کر واشروم چلی گئ ۔۔
وہ فکس نو بجے اس بلڈنگ کےسامنے موجود تھی ۔۔۔اندر داخل ہوکر وہ فوراً لفٹ کی جانب گئ تھی ۔۔ اسی لمحے حاشر بھی اسکی لفٹ میں داخل ہوا تھا ۔۔
’’ گڈ مارننگ مس ارسا ’’ اس نے ارسا کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ گڈ مارننگ ۔ کیسے ہیں آپ ؟ ’’ ارسا نے مسکرا کر اس سے کہا تھا
’’ آئی ایم فائن ۔ واٹ اباوٹ یو ؟ ’’
’’ آئی ایم آلسو ’’ اس نے کہتے ہی سامنے دیکھا تھا لفٹ اسکے فلور تک پہنچنے والی تھی ۔۔
’’ آپ تھرڈ فلور پر جارہی ہیں ؟ ’’ حاشر نے لفٹ کے نمبرز کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔
’’ ہاں آئی تھنک مجھے وہی جانا ہے ؟ ’’ ارسا نے اندازہ ہی لگایا تھا ۔۔
’’نہیں مس ارسا آپکو تھرڈ نہیں بلکہ فورتھ فلور پر جانا ہے ۔۔ باس کے آفس میں ’’ حاشر کی بات پر اس نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ باس کے آفس میں ؟؟؟ ’’
’’ جی ہاں ۔۔ آپ انکی پرسنل سیکریٹری ہیں تو آپکو انکی نظروں کے سامنے ہی رہنا ہے نا ’’ حاشر نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔ اسکی مسکراہٹ ارسا کو تھوڑی عجیب لگی تھی ۔۔ وہ دونوں فورتھ فلور پر لفٹ سے نکلے تھے ۔۔ حاشر اسے لے کر باس کے آفس کی جانب آیا تھا ۔۔ باس کی اجازت ملنے پر وہ دونوں آفس کے اندر داخل ہوئے تھے۔۔
’’ باس مس ارسا آگئ ہیں ’’ حاشر نے باس کے سامنے آکر کہا تھا ۔۔
’’ اوک حاشر تم انہیں انکی جگہ بتاؤ اور کام بھی ’’ اس نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا ۔۔ وہ فائیل میں جھکا ہوا بولا تھا ۔۔۔ اس کے بعد حاشر ارسا کو لے کر آفس سے باہر نکلا اور ساتھ کی ایک دروازے کے اندر لے گیا ۔۔ وہ ایک چھوٹا سا آفس تھا جہاں سامنے ایک میز رکھی تھی جس پر ضرورت کے تمام سامان کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ اور ایک موبائیل بھی رکھا تھا ۔۔
’’ یہ آپکا آفس ہے ۔۔ اور یہ لیپ ٹاپ آپکے استعمال میں رہے گا آپ چاہیں تو اسے کام سے گھر بھی لے جاسکتی ہیں اور یہ موبائیل ’’ حاشر نے موبائیل اٹھا کر اسکی طرف بڑھایا تھا ۔۔
’’ میرے پاس موبائیل ہے ’’ ارسا کو یہ سب عجیب لگ رہا تھا۔۔ کوئی ایک عام سی سیکریٹری کو بھلا کب اتنی سہولت دیتا ہے ؟َ
’’ جی مگر یہ کمپنی کی طرف سے ہے ۔۔ باس کو آپ سے کوئی کام پڑھ سکتا ہے اور آپکو بھی تو اس لئے یہ موبائیل آپ استعمال کرینگی اسکا بل کمپنی پے کرے گی ’’ حاشر کی بات پر ارسا نے سر ہلا کر موبائیل اسکے ہاتھ سے لیا تھا ۔۔
’’ یہ کچھ فائیلز ہیں ۔۔ جس میں جیولری کے کچھ نئے ڈیزائنز ہیں ۔۔ آپ انہیں چیک کر لیں اور اگر کہیں کوئی گڑ بڑھ نہ لگے تو انہیں باس کو دکھاکر اوک کروا دیجئے گا ‘’ میز پر رکھی فائیل پر اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔
’’ اوک ’’
’’ چلیں پھر بیسٹ آف لک ’’ وہ اسے کہہ کر آفس سےباہر نکلا تھا ۔۔ارسا آگے بڑھ کر اپنی میز کے پاس رکھی کرسی پر آئی جہاں اس نے بیٹھنا تھا ۔۔ اس نے اپنا بیگ میز کے ایک سائیڈ پر رکھا اور کرسی پر بیٹھ گئ ۔۔ بس بیٹھنے ہی کی دیر تھی کہ ارسا ساجد چونک گئ تھی ۔۔ سامنے ہی شیشے کی وال تھی جس کے سامنے بیٹھے باس آسانی سے نظر آرہے تھے ۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک ہی روم میں بیٹھے ہوں ۔۔
’’ اف اللہ ۔۔ اس طرح باس کی نظروں کے سامنے میں کیسے سکون سے کام کر سکونگی ؟ ’’ اس نے اپنے آپ سے کہا تھا ۔۔ سامنے بیٹھا عفان اب بھی اپنی فائیل کی جانب متوجہ تھا ۔۔ اس نے سر جھٹک کر اپنے سامنے رکھی فائیل کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ چلو ارسا ۔۔ کام پر دھیان دو ’’ خود سے کہہ کر اب وہ اپنی فائیل کی جانب متوجہ ہوچکی تھی ۔۔
وہ کافی دیر سے اس فائیل کو سٹڈی کر رہا تھا ۔۔ فائینلی سارا کام ختم کر کے اس نے جیسے ہی نظر اٹھائی تھی ۔۔ سامنے بیٹھی لڑکی اپنی فائیل کر جھکی نظر آئی تھی ۔۔
ہلکے نیلے رنگ کی ٹاپ اور وائیٹ کلر کے دوپٹے کے ساتھ ، پونی پر قید ہوئے بال ، کان میں سلور رنگ کے ٹاپس ، آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر ہلکی سی لپ سٹک کے ساتھ وہ خود سے بے نیاز اپنے کام میں مشغول تھی ۔۔ تھوڑی دیر بعد کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ پر پکڑی پینسل کو اپنے دانتوں کے بیچ دبایا تھا ۔۔ اسکے اس انداز پر عفان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ شاید یہ اسکی نگاہوں کا احساس تھا کہ اسی لمحےارسا نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تھا اور باس کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر وہ چونک گئ تھی ۔۔ تھوڑا گھبرا کر اس نے دوبارہ خود کو فائیل کی طرف متوجہ کیا تھا ۔۔ اسکی یہ کیفیت عفان کو مزید مسکرانے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔ اس نے اپنا انٹرکام اٹھایا تھا ۔۔ سامنے بیٹھی ارسا کے پاس رکھا ٹیلیفون بجا تھا ۔۔
’’ ہیلو ؟ ’’ اس نے ریسیور اٹھا کر کہا تھا ۔۔
’’ فائیل لے کر آفس میں آئیں مس ارسا ’’ اسکے کہنے پر ارسا نے حیرت سے سر اٹھا کر سامنے بیٹھے باس کی جانب دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔۔
’’ جی اوک ’’ اس نے کہہ کر ریسیور واپس رکھا اور فائیل اٹھا کر کھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ ناجانے مجھے اس انسان کے سامنے جانے سے اتنی گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے ’’ ارسا نے خود سے کہا تھا ۔۔ جانے کیوں مگر اسے باس کے اس طرح دیکھنے سے ڈر لگ رہا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ فائیل لے کر باس کے آفس کے دروازے کے پاس آئی تھی ۔۔ دروازہ ناک کر کے اندر آنے کی اجازت ملنے کے بعد وہ اندر آئی اور باس کے سامنے آکر رکی ۔۔۔
’’ آپنے فائیل منگوائی تھی ؟ ’’ اس نے فائیل باس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ یس ۔۔ آپنے اسے چیک کرلیا ’’ باس نے فائیل اسکے ہاتھ سے لیتے ہوئے پوچھا تھا ۔
’’ جی میں چیک کر چکی ہوں مگر ۔۔ ’’ وہ تھوڑی کنفیوز ہورہی تھی
’’ مگر ؟ ’’ باس نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا تھا ۔۔
’’ سر اگر میں اپنا پرسنل پوائیٹ آف ویو شئیر کروں تو کوئی ایشو تو نہیں ہوگا ؟ ’’ اس نے باس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ بلکل نہیں۔۔ آپ کہیں ’’ باس نے اسے اجازت دیتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگا کر اسے غور سے دیکھتے کہا تھا ۔۔
’’ یہ ڈیزائینز تو بہت اچھے ہیں بٹ اس میں کچھ یونیک نہیں لگ رہا ۔۔ آئی مین کے ہمیں کچھ ایسا کرنا چاہئے جو کہ کسی اور کمپنی کے ڈیزایینز سے مختلف ہو ’’ وہ بھرپور کانفیڈنٹ کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔
’’ اور وہ مختلف چیز کیا ہے ؟ ’’ عفان نےاسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ فیلنگ ’’ ارسا کے جواب پر عفان تھوڑا چونکا تھا ۔۔
’’ فیلنگ ؟ ’’ اس نے حیران ہوکر پوچھا تھا ۔۔
یس فیلنگ ۔۔ ایک ایسا ڈیزائنز جسے دیکھ کر کوئی فیلنگ آپکے اندر پیدا ہو ۔۔جیسے کہ یہ ۔۔’’ ارسا نے اپنے ہاتھ میں پکڑا کاغذ کا ایک ٹکڑا ان کی جانب بڑھایا تھا ۔۔ اس نے کاغذ اس کے ہاتھ سے لے کر دیکھا ۔۔ اس پر ایک ڈیزائن بنا ہوا تھا ۔۔ ایک پتھر جس پر ایسا ڈیزائن بنا تھا۔۔ جیسے اسکے ہاتھ نکل رہےہوں اور اسکے ہاتھوں کے بیچ ہی ایک اور ڈیزائن پر لگا ایک اور چھوٹا سا پتھر ۔۔ دکھنے میں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ دو آنکھیں ہوں ۔۔۔جو ایک دوسرے کو دیکھ رہی ہیں ۔۔
’’ آپکو اس ڈیزائن کو دیکھ کر کیا لگتا ہے سر ؟ ’’ اس نےباس کو مسلسل اس ڈیزائن کو غور سے دیکھتے پاکر پوچھا تھا ۔۔
’’ مجھے مجھے لگتا ہے جیسے یہ دو چمکتے پتھر دو لوگوں کی نظریں ہیں جو ایک دوسرے پر ٹکی ہیں ’’
’’ تو کیا آپ اسے خریدیں گے نہیں ۔۔ اپنے کسی پیارے کے لئے ؟ ’’ ارسا کے سوال پر اس نے چونک کر ارسا کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ میرا مطلب ہے کہ عوام کو فیلنگز ایٹریگٹ کرتی ہیں اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم جیولری میں بھی فیلنگر لائیں ’’ ارسا نے اپنا سوال غیر مناسب سمجھ کر بات بدلی تھی ۔۔
’’ آئی ایم ایمپریسڈ مس ارسا ’’ عفان نے کھڑے ہوتے ہوئے اسکی تعریف کی تھی ۔۔
’’ تھینک یو سر ’’ وہ واقعی خوش تھی کہ باس کو اسکا ڈیزائن پسند آیا تھا ۔۔
’’ آپ کا مائینڈ اچھا ہے مس ارسا ۔۔ آپ جیولری ڈیزائیننگ پر ڈپلومہ کیوں نہیں کرلیتی ؟ ’’ اس کےسامنے کھڑے ہوکر وہ اس سے کہہ رہا تھا۔۔
’’ میں نے آپکو بتایا سر کہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ’’ ارسا نے دوبارہ وہی بات کی تھی ۔۔
’’ تو پھر آپنے یہ ڈیزائن اتنی گہری سوچ کے ساتھ کیسے بنا لیا ؟ ’’ وہ حیران تھا اسکے ڈیزائن پر۔۔
’’ کیونکہ میں اپنا کام اور اپنی ذمہ داری دل سے پوری کرتی ہوں ۔۔ اور دل سے کیا ہر کام اچھا ہی ہوتا ہے نا سر ’’ اس نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔جانے کیا تھا اسکے الفاظوں میں کہ عفان خالد جم ساگیا تھا ۔۔
’’ آپ جاسکتی ہیں ’’ وہ فوراً ہی پلٹ کر بولا تھا اور ارسا اس کے اس بدلتے انداز پر حیران ہوکر باہر نکلی تھی ۔۔ عفان نے مرر وال کے پاس آکر سامنے آسمان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ وہ اچانک کی بہت ڈسٹرب لگ رہا تھا ۔۔جانے کیوں دل میں کچھ تھا جو اسے بے چین کر رہا تھا ۔۔ اس نے پلٹ کر سامنے بیٹھی ارسا کو دیکھا وہ اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ تھی ۔۔
’’ تم ایسی کیوں ہو ارسا ’’ اسے دیکھ کر وہ بنا آواز کر کہہ کے پلٹا تھا ۔۔ اب اسکا رخ دوبارہ شیشے کی جانب تھا ۔۔
’’ تمہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ۔۔ تمہاری یہ سچائی ، یہ معصومیت مجھے تکلیف دے رہی ہے ’’ وہ جیسے واقعی تکلیف میں تھا ۔۔ اچانک ہی اس نے اپنا موبائیل اور کوٹ اٹھایا اور آفس سے نکل گیا ۔۔ باہر آگر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا۔۔ جب حاشر اسکی طرف بھاگتے ہوئے آیا تھا ۔۔
’’ سر آپکی میٹنگ ہے ؟ ’’ وہ اسے بتا رہا تھا اس نے ایک نظر رک کر حاشر کو دیکھا اور حاشر سکتے میں آگیا تھا ۔۔ اسکی آنکھیں لال ہورہی تھیں ۔۔
’’ کینسل کردو مجھے جانا ہے ’’ وہ فوراً گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔۔
’’ سر آپ ٹھیک تو ہیں ؟ ’’ حاشر نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔ جب تک وہ ہے میں ٹھیک نہیں رہ سکتا ’’ وہ کہہ کر گاڑی آگے بڑھا گیا تھا اور حاشر اسکی گاڑی کو دور جاتا دیکھ رہا تھا۔۔
’’ اللہ آپکی مدد کرے باس ۔۔ آپنے بہت زیادتی کردی ہے انکے ساتھ ’’ اس نے اس راستے کی جانب دیکھ کر کہا تھا جہاں سے ابھی عفان گیا تھا ۔۔۔
وہ رات دیر سے گھر آیا تھا ۔ پورا دن اس نے سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے ہوئے گزارا تھا ۔۔ اب وہ سیدھا دادو کے کمرے کی جانب آیا تھا ۔۔۔ دادو نماز سے فارغ ہوکر تسبیح پڑھ رہی تھیں جب وہ جاکر صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔
’’ تھک گئے ہو ؟ ’’ دادو نے اسکے چہرے کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔ وہ آج بہت تھکا ہوا لگا تھا ۔۔
’’ نہیں۔۔۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ تھک جاؤنگا ’’ وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولا تھا ۔۔
’’ کس سے تھک جاؤگے ؟ ’’ دادو جانتی تھی کہ وہ آج کسی گہری سوچ میں گم ہے۔۔
’’ خود سے ۔۔ انسان خود سے بھی تو تھک جاتا ہے نا دادو ؟ ’’ اس نے دادو کے جانب سوالیاں نظروں سے دیکھ کر پوچھا تھا۔
’’ ہاں ۔۔ انسان کبھی کبھی خود سے بھی تھک جاتا ہے ۔۔ اور جانتے ہو ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ’’ دادو نے اس سے سوال کیا تھا ۔۔ اس نے دادو کی جانب دیکھ کر نفی سے سر ہلایا تھا ۔۔ وہ نہیں جانتا تھا ۔۔
’’ کیونکہ انسان خود سے لڑتا ہے ۔۔ وہ، وہ کرنا نہیں چاہتا جو اسکا دل اسے کرنے کو کہتا ہے ۔۔ جب جب وہ اپنے دل سے لڑ کر اسکے خلاف جاتا ہے ۔۔ تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ تھک جاتا ہے۔۔ انسان خود سے لڑتے لڑتے تھک جاتاہے ’’ دادو نے اسکے پاس بیٹھ کر کہا تھا ۔۔
’’ اور اگر انسان کو تھک جانے کا ڈر ہو تو وہ کیا کرے ؟ ’’ اس نے دادو کو دیکھ کر ایک اور سوال کی تھا ۔۔
’’ اپنے دل کی سنے ۔۔ کیونکہ دل کبھی آپکو تھکنے نہیں دیتا ’’ دادو نے مسکراکر کہا تھا ۔۔
’’ اور دل کیا چاہتاہے وہ کیسے معلوم ہو ؟ ’’ وہ بہت کنفیوز تھا ۔۔ عفان خالد ایک کامیاب انسان ہوکر بھی دل کے معاملوں میں ناسمجھ تھا ۔۔۔
’’ دل صرف وہ چاہتا ہے جس میں آپکو کبھی تھکن نہ ہو۔۔ جوکام تھکا نہیں رہا ۔۔ سمجھوں وہی دل چاہتا ہے ’’ دادو کی بات پر اس نے سر ہلاتے ہوئے آنکھیں موندی تھیں ۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکا دل اس سے کیا چاہتا ہے ۔۔ مگر وہ اتنا ضرور جانتا تھا کہ وہ تھکنا نہیں چاہتا۔۔ وہ تھک نہیں سکتا تھا ۔۔ اس نے سوچا اسے دادو کی باتوں پر عمل کرنا چاہتے ۔۔ اسے دل کی سننی چاہئے ۔۔ اور اب سے عفان خالد دل کی سننے والا تھا۔۔
وہ دادو کے کمرے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا تھا۔۔ کھانے کا تو اسکا بلکل دل نہیں چاہ رہا تھا ۔۔۔ شاور لے کر اپنے لئے کافی منگوائی تھی ۔۔ ملازم اسکی کافی روم میں رکھ کر جاچکا تھا۔۔ اس نے کافی کا کپ اٹھایا اور اپنے کمرے کے ٹیرس پر آیا ۔۔ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے ۔۔ ایک چاند بھی تھا جو کہ اسی آسمان پر تھا مگر وہ چاند کو نہیں دیکھ رہا تھا ۔۔ وہ ان چھوٹے چھوٹے تاروں کو دیکھ رہا تھا ۔۔ کافی کا ایل گھونٹ لے کر اس نے اپنا موبائیل اٹھایا اور اس کی گیلری میں موجود ایک تصویر کھولی تھی ۔۔۔ یہ ارسا ساجد کی تصویر تھی۔۔ جہاں وہ محد کے ساتھ ایک ریسٹورانٹ میں بیٹھی تھی ۔۔ مگر اس تصویر میں محد نہیں تھا ۔۔ اس نے محد کو کروپ کر دیا تھا ۔۔ اب اسکی موبائیل سکرین میں صرف ارسا ساجد تھی۔۔۔
وہ اس تصویر کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔ جانے کیوں دل چاہ رہا تھا اسے دیکھنے کا ۔۔
’’ ارسا ۔۔ ناجانے میں نے جو کیا وہ ٹھیک تھا کہ غلط ۔۔ مگر میں خود کو روک نہیں سکا تھا ۔۔ تب بھی ’’ وہ اس تصویر سے کہتے ہوئے رکا تھا ’’ اور اب بھی ’’۔۔ اس نے موبائیل سے تصویر ہٹائی تھی ۔۔اور اب وہ اپنی کانٹیکٹ لسٹ میں آیا تھا ۔۔
اس نے ارسا کا نمبر ڈائیل کیا تھا ۔۔
اسکا دل چاہ رہا تھا ارسا کی آواز سننے کا۔۔ اور عفان خالد اب دل کی سننے والا تھا ۔۔۔
وہ اس وقت گہری نیند میں تھی جب اسکا موبائیل بجا تھا ۔۔ اس نے آنکھ کھول کر دیکھا مگر اسکا موبائیل تو نہیں بج رہا تھا ؟ وہ حیران ہوئی ۔۔ پھر یہ کس کا موبائیل بج رہا ہے ؟ اس نے اٹھ کر آس پاس دیکھا ۔۔آفس کا دیا ہوا موبائیل بج رہا تھا۔۔
’’ اس وقت کون کال کر رہا ہے ؟ ’’ اس نے موبائیل اٹھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔ موبائیل پر جگمگاتے نام کو پڑھ کر وہ چونک گئ تھی ۔۔
’’ یہ اس وقت کیوں کال رہے ہیں ؟ ’’ تھوڑا سا کنفیوز ہوکر اس نے کال اٹھائی تھی مگر کہا کچھ نہیں ۔۔
’’ لگتا ہے موبائیل سکرین پر میرا نام دیکھ کر گونگی ہوگئ ہیں آپ ’’ عفان نے تھوڑی دیر اسکے بولے کا اتنظار کیا تھا۔
’’ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ’’ وہ اسکی بات پر پزل ہوئی تھی ۔۔
’’ تو پھر کیسی بات ہے ؟ ’’ مسکراہٹ کے ساتھ عفان نے پوچھا تھا ۔۔
’’ آپنے اس وقت کال کی ؟ کوئی کام تھا؟ ’’ اسے یہی جواب سوجا تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔ کام تو کوئی نہیں تھا ’’ عفان نے آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ پھر ؟ ’’ وہ اب بھی کنفیوز تھی ۔ سامنے گھڑی رات کے ایک بجا رہی تھی ۔۔
’’ کچھ نہیں ۔۔ چلو تم آرام کرو بائے ’’ اس نے کہتے ساتھ کال کاٹ دی تھی ۔۔ اور دوسری طرف ارسا اپنے موبائیل کو منہ کھولے دیکھ رہی تھی ’’ کتنا عجیب انسان ہے یہ ’’ اپنے آپ سے کہہ کر وہ دوبارہ سونے کے لئے لیٹ گئ تھی ۔۔ مگر اب نیند آنکھوں سے جاچکی تھی ۔۔ وہ اسی شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔جو اسے بہت عجیب لگا تھا ۔۔ ایک ہی لمحے میں وہ آپ سے تم پر آجاتا تھا ۔۔ ۔ ایک پل میں کچھ اور دوسرے پل کچھ ۔۔
اور دوسری طرف عفان کو ارسا سے بات کرنے کے بعد اب سکون کی نیند آئی تھی ۔۔ وہ اب سوچکا تھا ۔۔ ارسا کی نیند خراب کر کے اسے ہمیشہ سکون کی نیند آجاتی تھی ۔۔ جانے کیوں ؟
اگلی صبح سنڈے تھا ۔ یعنی آفس سے آف تھا اس لئے وہ دیر تک سوتی رہی تھی ۔۔ رات بھی اسے بہت دیر سے نیند آئی تھی۔۔ اور اب وہ سکون سے اپنی نیند پوری کرنا چاہتی تھی مگر قسمت میں کہاں ؟ ڈور بیل کی آواز نے اسے نیند سے جگا دیا تھا۔۔
’’ افوہ ! کیا ہے ’’ وہ اکتائی ہوئی اٹھی تھی ۔۔ جانتی تو تھی کہ کون آسکتا ہے ۔۔ اس لئے اب اسے مزید غصہ آیا تھا ۔۔ دروازہ کھول کر اس نے سامنے کھڑے شخص کو گھورا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا ؟ ’’ وہ اسے مسلسل خود کو گھورتا دیکھ کر بولا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا ؟؟ صبح صبح تم یہاں منہ اٹھا کر آجاتے ہو اور میری نیند خراب کردیتے ہو ۔۔ پھر کہتے ہو کہ کیا ہوا ؟ ’’ وہ اس پر شیرنی کی طرح برسی تھی ۔۔
’’ میڈم صبح نہیں دوپہر کے ایک بج رہے ہیں ‘’ اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اسکے سامنے کی تھی ۔۔
’’ جو بھی ہے’’ وہ کہہ کر اندر کی طرف پلٹی تھی۔۔ محد بھی دروازہ بند کر کے اندر آیا تھا ۔۔
’’ چلو جاؤ فریش ہوجاؤ ۔۔۔ میں کھانا لگاتا ہوں ’’ محد نے ہاتھ میں پکڑے شاپر اسے دکھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔ارسا سر ہلا کر اندر چلی گئ تھی ۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔۔
’’ ویسے تو تم اتنی دیر تک سوتی نہیں ہو ۔۔ آج کیسے سوگئ ؟ ’’ محد نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ رات باس کی کال کی وجہ سے نیند خراب ہوگئ میری ۔۔اس لئے بہت لیٹ سوئی تھی ’’ ارسا نے کھانے کا بائیٹ لیتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ باس کی کال ؟ رات کو ؟ ’’ محد چونکا تھا
’’ ہاں ۔۔ مجھے بھی حیرت ہوئی کہ اتنی رات کو انہوں نے مجھے کیوں کال کی تھی؟ ’’ ارسا واقعی اب تک سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’ توپھر کیا کہا اس نے ؟ ’’ محد کو کچھ اچھا نہیں لگا تھا ۔۔
’’ کچھ نہیں عام سی بات کر کے کال کاٹ دی ۔۔ میں نے پوچھا کوئی کام تھا؟ تو کہنے لگے نہیں بائے ’’ ارسا اسے بتا رہی تھی اور محد کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔
’’ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ارسا ۔۔ وہ کہیں تم میں انٹرسٹ تو نہیں لے رہا ؟ ’’ اپنے دل کی بات اس نے کہہ ڈالی تھی۔
’’ کیسی باتیں کر رہے ہو تم ۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔۔جہاں تک میں نے جج کیا ہے وہ تھوڑا عجیب انسان ہے’’ ارسا نے محد کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ عجیب ۔۔مطلب ؟ کیسے ؟ ’’ محد اسکی بات سمجھا نہیں تھا ۔۔
’’ مطلب وہ ایک لمحہ کچھ اور ہوتا ہے ۔۔بلکل نارمل اور پرسکون ۔۔ اور پھر اچانک ہی دیکھتے ہی دیکھتے وہ کچھ اور بن جاتا ہے۔۔ جیسے بلکل سنجیدہ، بے سکون اور پریشان ’’ ارسا اسے سوچتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔ اسے عفان خالد کی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔ وہ عفان خالد کو سمجھنا چاہتی تھی ۔۔
’’ پھر ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی پرسنل لائف کی وجہ سے ڈسٹرب ہو ’’ محد نے یہی اندازہ لگایا تھا ۔۔۔
’’ ہاں ہوسکتا ہے ’’ ارسا نے سوچتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اچھا اب چائے بھی پلا دو ’’ محد نے کھانے سے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا تھا۔
’’ تم تو یہاں آتے ہی اسی لئے ہو ’’ اسے گھورتے ہوئے وہ پلیٹ اٹھا کر بولی تھی ۔۔ جبکہ اسکی بات پر محد ہنس پڑا تھا۔
وہ اس وقت آفس میں کچھ فائیلز لے کر بیٹھی تھی ۔۔ اس نے باقی کے ڈیزائینز دیکھنے تھے ۔۔ ابھی وہ اسی کام میں مگن تھی کہ اسکا ٹیلیفون بجا تھا ۔۔
’’ مس ارسا میرے آفس میں آئیں ’’ باس نے کہہ کر کال کٹ کر دی تھی۔۔ وہ اپنی فائیلز لے کر باس کے آفس آئی تھی ۔۔
’’ آپ نے بلایا سر ؟ ’’ وہ اسکے سامنے کھڑی ہو کر بولی تھی ۔۔
’’ جی آپ بیٹھیں ’’ اس نے اسے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔ ارسا سامنے بیٹھ چکی تھی ۔۔
’’ فائیلز چیک کر لیں آپنے ؟ ’’ عفان نے اسکے ہاتھ میں فائیلز دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ یس سر ’’ اس نے فائیلز عفان کی جانب بڑھائی تھیں۔۔ جس نے انہیں لے کر میز کے ایک جانب رکھ دیا تھا ۔۔
’’ آپ جانتئ ہیں ہماری ایک برانچ دبئی میں بھی اوپن ہونے والی ہے ؟ ’’ اس نے آگے جھکتے ہوئے پروفیشنل انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ جی سر آئی نو ’’ اس نے سامنے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ وہاں کچھ ایشوز ہوگئے ہیں تو مجھے انہیں حل کرنے کے لئے جانا ہوگا ۔۔ اور آپ نے بھی میرے ساتھ جانا ہے مس ارسا’’ وہ اس سے پوچھ نہیں رہا تھا ۔۔ وہ اسےبتا رہا تھا ۔۔
’’ جی ؟؟ میں نے ؟ ’’ وہ حیران ہوئی تھی۔۔
’’ یس ۔۔ آپنے ۔۔ کیوں کوئی ایشو ہے کیا ؟ ’’ عفان نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ نو سر بٹ ۔۔ میری وہاں کیا ضرورت ہے ؟ ’’ اسے عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔باس کے ساتھ ملک سے باہر جانا ؟ عجیب تو لگنا ہی تھا ۔۔
’’ آپ میری سیکریٹری ہیں مس ارسا ۔۔ کیا یہ میں آپکو بتاؤنگا کہ آپکا وہاں کیا کام ہے ؟ ’’ اس نے سخت لہجے میں اسے گھورتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ آخر اسے اس کے ساتھ جانے پر مسئلہ کیوں ہورہا تھا ؟
’’ نہیں سر ۔۔ میرا مطلب ہے میرے امتحان ۔۔ ’’ وہ ابھی کہہ ہی رہی تھی کہ عفان نے اسکی بات کاٹ دی تھی۔۔
’’ ہم آپکے امتحان شروع ہونے سے پہلے آجائینگے ۔۔ آپکو ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ اب آپ جاسکتی ہیں ’’ اپنی بات مکمل کر کے وہ فائیل کھول کر اسکی جانب متوجہ ہوگیا تھا ۔۔ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اب مزید بات نہیں کرنا چاہتا۔۔ اسکے ایک ایٹیٹیوڈ پر ارسا کو شدید غصہ آیا تھا مگر پھر صبر کر کےوہ کھڑی ہوئی اور ایک سرد نگاہ سے اسے گھورتی ہوئی آفس سے باہر نکل گئ تھی ۔۔ اس کے جاتے ہی عفان خالد کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ ارسا ساجد کو اس پر کس قدر غصہ تھا ۔۔
’’ مجھے سمجھ نہیں آتا یہ انسان اپنے آپکو سمجھتا کیا ہے ؟ ’’ ارسا غصے میں کان سے موبائیل لگائے کہہ رہی تھی ۔۔ وہ ابھی ہی آفس سے گھر آئی تھی ۔۔
’’ اب کیا کردیا اس نے ؟ ’’ فون پر دوسری طرف موجود محد نے اس سے کہا تھا ۔۔
’’ دبئی جانا ہے اور کہہ رہا کہ میں بھی ساتھ چلوں ’’
’’ تو تم منع کردو نا ’’ محد کو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔
’’ منع ؟ منع تو تب کرتی جب وہ مجھ سے پوچھتا ۔۔۔ مگر نہیں وہ باس ہیں ۔۔ اور باس تو آرڈر دیتے ہیں اور اس میں منع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ’’ ارسا کو عفان کے انداز پر شدید غصہ آرہا تھا ۔۔
’’ ارے تو تم کیوں پریشان ہورہی ہو ۔۔ ایک دو دن کی تو بات ہے ’’ محد کو اسکے غصے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔
’’ ایک ہفتے کی بھی ہو تو مجھے مسئلہ نہیں ہے مگر مجھے اس انسان کا اس طرح حاکمانہ انداز میں آرڈر دینا بلکل پسند نہیں’’
’’ اسکی تو تم عادت ڈال لو ۔۔ ایک سال برداشت کرنا ہے تم نے اسے ‘’ محد نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ میں ہمیشہ چپ نہیں رہونگی ۔۔ اگلی بار ایسا ہوا تو صاف جواب دیدینا ہے میں نے ’’ ارسا نے فیصلہ کر لیا تھا ۔،۔
’’ وہ بھی گونگا نہیں ہے میذم ’’ محد نے اسے یاد دلایا تھا ۔۔
’’ جانتی ہوں ۔۔ بہت لمبی زبان ہے ۔۔۔’’ موبائیل رنگ ہوا تھا ۔۔ ارسا نے کان سے موبائیل ہٹا کر دیکھا تھا ۔۔ باس کی کال تھی ۔۔ ’’ اور عمر بھی ۔۔شیطان کا نام لیا ۔۔ اور وہ حاضر ‘‘ اس نے محد سے کہا تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ محد نے پوچھا تھا
’’ کال آرہی ہے ۔۔ بعد میں بات کرتی ہوں میں تم سے ’’ اس نے کہہ کر کال کٹ کی تھی ۔۔ اور پھر باس کی کال اٹھائی تھی ۔۔
’’ جی سر کہیں ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ میں آپکے فلیٹ کے نیچے کھڑا ہوں آپ ۵ منٹ میں آجائیں ’’ باس نے کہہ کر کال کٹ کر دی تھی ۔۔ اور ارسا کو کرنٹ لگا تھا ۔۔۔
’’ یہ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ ’’ اس نے اٹھ کر کھڑکی سے نیچے دیکھا تھا ۔۔ جہاں باس کی کار اور اسکے باہر حاشر کھڑا تھا جو اسے نیچے آنے کا اشارہ دےرہا تھا ۔۔ وہ فوراً سے کمرے کی جانب بھاگی تھی ۔۔ کپڑے چینج کر کے اور اپنا حلیہ ٹھیک کرنے کے بعد وہ نیچے آئی تھی ۔۔ حاشر نے اسے آتا دیکھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تھا ۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے مگر اسے سمجھنے کے لئے گاڑی میں بیٹھنا ہی تھا ۔۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی ۔۔۔آگے حاشر کے ساتھ باس بیٹھے تھے ۔
’’ سر ہم کہاں جارہے ہیں ؟ ’’ اس نے باس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ایک کلائینٹ سے ارجنٹ میٹنگ کرنی ہے ہم نے مس ارسا ۔۔ سوری آپکو اس ٹائم ڈسٹرب کیا ’’ باس کے بجائے جواب حاشر کی طرف سے آیا تھا ۔۔ ارسا نے ایک نظر خاموش سامنے بیٹھے عفان پر ڈالی تھی ۔۔وہ تو ایسے انجان بنا تھا جیسے ارسا کی موجودگی سے ہی بے خبر ہو ۔۔ تھوڑی دیر بعد ایک ریسٹورینٹ کے آگے حاشر نے گاڑی روکی تھی ۔۔
’’ یہاں ہے میٹنگ ؟ ’’ ارسا کو حیرت ہوئی تھی ۔۔
’’ جی ڈنر کے بعد ’’ حاشر کہہ کر گاڑی سے اترا تھا اور ارسا کے لئے دروازرہ کھولا۔۔ وہ باہر نکلی تھی اور اس وقت تک عفان تیزی سے نکل کر ریسٹورینٹ کے اندر بھی جاچکا تھا ۔۔
’’ یہ انہیں کیا ہوا ہے ؟ ’’ اسکے اس طرح کے انداز دیکھ کر ارسا نے حاشر سے پوچھا تھا ۔۔
’’ بھاگ رہے ہیں ’’ حاشر نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔
’’ کس سے ؟ ’’ ارسا الجھی ہوئی تھی ۔۔
’’ دل سے ’’ وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا تھا اور ارسا الجھتے ہوئے اسکے پیچھے آنے لگی تھی ۔۔
وہ اندر پہنچے تو عفان ایک میز کے گرد رکھی کرسی پر بیٹھ چکا تھا اور اب وہ ویٹر کو آرڈر دے رہا تھا ۔۔ ارسا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسی طرف قدم بڑھائے تھے ۔۔ جبکہ حاشر وہی سے باہر پلٹ گیا تھا ۔۔ ارسا میز کے پاس جاکر عفان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئ تھی ۔۔ مگر اب وہ چونکی تھی ۔۔
’’ یہ حاشر کہا گئے ؟ ’’ وہ ادھر ادھر دیکھتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔۔ جبکہ ایک مسکراہٹ عفان کے ہونٹوں پر آئی تھی جسے اس نے فوراً ہی چھپا لیا تھا ۔۔
’’ وہ شاید کال کرنے گیا ہوگا۔۔ کلائینٹس کو ’’ اسکی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔
’’ اچھا ویسے کونسی کمپنی کے ہیں ؟ ’’ اب ارسا نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ یہ آپکو جاننے کی ضرورت نہیں ہے ’’ عفان اس بات کو ختم کرنا چاہتا تھا ۔۔
’’ میں یہاں اس میٹنگ کو اٹینڈ کرنے موجود ہوں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ میرے لئے یہ جاننا ضروری ہے’’ ارسا نے اسی کے ایٹیٹیوڈ میں کرسی سے ٹیک لگائے اس نے کہا تھا ۔۔
’’ یہ میں ڈیسائیڈ کرونگا کہ آپکو کیا جاننا ہے اور کیا نہیں ؟ ’’ عفان نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدہ انداز میں کہا تھا۔
’’ اوک ۔۔ پھر مجھے یہاں رہنا ہے یا نہیں یہ بھی میں ڈیسائیڈ کرونگی آپ نہیں ‘’ آگے جھکتے ہوئے ، اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ارسا نے کہا تھا ۔۔ عفان اسکی ہمت پر حیران رہ گیا تھا ۔۔
’’ آپ میری اسسٹنٹ ہیں مس ارسا ۔۔ اور آپنے میرے آرڈر کو ماننا ہے ۔۔ یہاں آپکی مرضی نہیں چلے گی ’’ اسے اسکی ہمت پر غصہ آیا تھا ۔۔
’’ سوری ٹو سے سر ۔۔ بٹ یہ میری جاب ٹائیمنگ نہیں ہے اور اوور ٹائم میری مرضی پر ڈیپینڈ کرتا ہے ’’ ارسا نے ایک دل جلاتی مسکراہٹ کےساتھ کہا تھا اور عفان کا دل جل گیا تھا ۔۔
’’ تم ۔۔ ’’ اس سے پہلے کہ وہ کوئی سخت الفاظ کہتا حاشر نے آکر اسکی بات کاٹی تھی ’’ سر وہ ۔۔ ’’ حاشر کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا ۔۔ ارسا اور عفان اسے دیکھ کر چونک گئے تھے ۔۔
’’ کیا ہوا اب بولو بھی ’’ ارسا کو تو صبر ہی نہیں ہورہا تھا ۔۔
’’ سر وہ گھر سے کال تھی۔۔ دادو کی طبیعت اچانک بہت خراب ہوگئ ہے ۔ ہمیں فوراً چلنا ہوگا ’’حاشر کی بات سن کر عفان فوراً کھڑا ہوکر باہر کی جانب دوڑا تھا ۔۔ ارسا اور حاشر بھی اسکے پیچھے آئے تھے ۔۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک بنگلے کے اندر داخل ہوئی ۔۔ لان پر گاڑی روک کر سب سے پہلے عفان باہر نکلا اور بھاگ کر گھر کے اندر گیا تھا ۔۔ ارسا اور حاشر بھی اسکے پیچھے پیچھے آئے تھے ۔۔ ایک بڑے سے لاؤنچ سے گزر کر سیڑھیاں چڑھ کر وہ لوگ تین کمرے چھوڑ کر چوتھے کمرے کے اندر آئے تھے ۔۔ ارسا نےدیکھا ۔۔سامنے بیڈ پر ایک عمر رسیدہ خاتون جوکہ عفان کی دادو تھیں ۔۔آنکھیں بند کئے لیٹی تھیں عفان نے انکے پاس بیٹھ کر انکا ہاتھ تھاما تھا ۔۔ اس وقت وہ ایک عام انسان لگ رہاتھا ۔۔ پاس کھڑے ڈاکٹر سے اب وہ کچھ کہہ رہا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا انہیں اچانک ؟ ’’ اسکی نظریں دادو کے مرجھائے ہوئے چہرے پر تھیں ۔۔
’’ انکا بی پی بہت لو ہوگیا تھا ۔۔ میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ انکی طبیعت بہت خراب رہتی ہے آپکو انکا بہت خیال رکھنا چاہئے ۔۔ تنہائی کی وجہ سے اب انہیں ڈپریشن بھی ہونے لگا ہے ’’ ڈاکٹر کہہ رہے تھے اور عفان خاموشی سے اسکی بات سن رہا تھا ۔۔
’’ ہمیں انکے لئے کوئی نرس رکھ لینی چاہیئے ؟ ’’ حاشر نے ڈاکٹر سے پوچھا تھا ۔۔
’’ دیکھیں انکا اصل مسئلہ تنہائی ہے ۔۔ میں نے ان سے پہلے بھی کہا تھا کہ انکے ساتھ کچھ وقت گزارا کریں ’’ ڈاکٹر نے عفان کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔ ارسانے دیکھا وہ اب بھی اپنی دادو کا ہاتھ پکڑے بس انہیں دیکھ رہا تھا ۔۔ ایک چھوٹے بچے کی طرح جسے اپنی دادو کے روٹھ جانے کا ڈر ہو ۔۔ جانے کیوں ؟ مگر اس وقت عفان خالد اسے بہت معصوم لگا تھا ۔۔
حاشر ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے گیا تھا ۔۔ جب ارسا دادو کے دوسری طرف آکر بیٹھی تھی ۔۔
’’ آپ اپنی دادو سے بہت پیار کرتے ہیں نا ؟ ’’ اس نے دادو کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ خود سے بھی زیادہ ’’ دھیمی سی آواز پر کہا تھا ۔۔ ارسا ساجد کو اس وقت اپنی ماں یاد آئی تھی ۔۔ اسے یاد آیا تھا کہ جب بھی ماما بیمار ہوتی تھیں وہ اسی طرح انکے پاس بیٹھا کرتی تھی ۔۔ اور پاپا ۔۔؟؟؟ بس یہ ایک سوچ تھی اور ارسا ساجد کے آنکھوں سے دو آنسو نکلے تھے ۔۔
’’ آپ انکا بہت خیال رکھا کریں سر ۔۔ یہ جو ماں باپ ہوتے ہیں نا۔۔ یہ دنیا جہاں کی دولت سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ۔۔ انہیں سنبھال کر رکھنا چاہئے کیونکہ اگر ایک بار خدا انہیں آپ سے دور کرلے تو دوبارہ نہیں ملتے ۔۔ کسی صورت نہیں ، کبھی نہیں ’’ وہ دادو کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔ اور اس پورے وقت میں یہ پہلی بار تھا کہ عفان خالد نے دادو سے نظریں ہٹا کر سامنے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔۔ جس کی آنکھوں سےکچھ آنسو نکل کر اسکے گالوں کو چھو رہے تھے ۔۔ وہ یقیناً اپنے ماں باپ کو یاد کر رہی تھی ۔۔ عفان کے دل کو جیسے ایک دھکا لگا تھا ۔۔ اور بس ایک پل میں اس نے فیصلہ کیا تھا۔
’’ آپ دادو کے پاس رکینگی مس ارسا ؟ ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور وہ جو دادو کو دیکھ رہی تھی چونک کر اسے دیکھنے لگی تھی۔
’’ جی ؟ ’’ اس نے حیرانگی سے پوچھا تھا ۔۔
’’ آپ جانتی ہیں مجھے دبئی جانا ہے۔۔انکے پاس کوئی نہیں ہے ۔۔ ہم دونوں کے علاوہ ہمارا کوئی نہیں ہے ارسا۔۔ پلیز میری آپ سے ریکوسٹ ہے آپ میرے آنے تک انکے پاس رک جائیں ۔۔ میں آپکو اسکی پیمنٹ کرونگا ’’ عفان کہہ رہا تھا اور دروازے پر موجود حاشر بھی ارسا کی طرح چونک گیا تھا ۔۔ عفان خالد ریکوسٹ کر رہا تھا ؟ وہ کسی کو پلیز کہہ رہا تھا ؟ یہ کوئی معجزہ تھا جو آج ہورہا تھا ۔۔ حاشر تو اپنی جگہ رک گیا تھا۔۔ اسے اس کمپنی میں کام کئے چھ سال ہوگئے تھے اور چھ سالوں میں اس نے یہ منظر پہلی مرتبہ دیکھا تھا کہ عفان خالد کسی سے ریکوسٹ کر رہا تھا ۔۔ وہ بھی ارسا سے ؟ آج تو جیسے سارے معجزے ہونے تھے ۔۔ ارسا کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی مگر وہ اس شخص کو منع نہیں کرسکتی تھی ۔
’’ میں انکے ساتھ رکونگی مگر مجھے پیمنٹ نہیں چاہیئے ’’ ارسا نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ عفان بھی جواب میں مسکرایا تھا ۔۔
’’ میں ذرا چینج کرلوں اور آپکے لئے کافی آرہی ہے پی کر جائیے گا ’’ وہ کہہ کر روم سے نکلا تھا ۔۔ حاشر بھی اب اسکے پیچھے بھاگتا آیا تھا ۔۔
’’ باس ؟ یہ کیا تھا ؟ ‘’ وہ اسکے ساتھ چلتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ کیا تھا حاشر ؟ ’’ وہ جانتا تھا کہ حاشر کیا پوچھ رہا ہے مگر شاید وہ اس سوال سے بھاگنا چاہتا تھا ۔۔
’’ آپ نے انہیں گھر بلا لیا وہ بھی دادو کے لئے ؟ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ اور ۔۔۔ اور آپ نے ان سےریکویسٹ کی ؟ ’’ وہ اب بھی عفان کی اس ریکویسٹ پر حیران تھا ۔۔ عفان اپنے کمرے کے پاس پہنچ کر رکا تھا ۔۔ حاشر بھی رک گیا تھا ۔
’’ وہ دادو کو دیکھ کر رورہی تھی ۔۔ جانتے ہو کیوں ؟ ’’ عفان نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ حاشر بھی سمجھ نہیں پایا تھا ۔۔
’’ کیونکہ دادو کو دیکھ کر اسے اپنی ماں یاد آرہی تھی حاشر ’’ عفان کی بات پر حاشر مزید حیران ہوا تھا ۔۔ وہ کب سے ارسا ساجد کو اتنا سمجھنے لگا تھا ؟ وہ کب سے اسکا احساس کرنے لگا تھا ؟ کیا ایسا ہی تھا ؟
’’ اور شاید اپنے پاپا کی بھی ’’ حاشر نے ایک چوٹ کی تھی۔۔ وہ عفان کا درعمل دیکھنا چاہتا تھا۔۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ عفان کے اندر کیا چل رہا تھا ۔۔
’’ مجھے اسکے پاپا کے لئے کوئی افسوس نہیں ہے حاشر ۔۔ مگر ہاں مجھے ارسا سے ہمدردی ہورہی ہے ’’ عفان آج بھی ایسا ہی تھا ۔۔
’’ جب آپکو اسکے پاپا کی موت کا افسوس نہیں ہے باس تو پھر یہ ہمدردی کیسی ؟ ’’ حاشر کو عفان کی بے حسی پر غصہ آرہا تھا ۔۔
’’ یہ جو ضمیر ہوتا ہے نا ۔۔ یہ بہت بڑا دھوکے باز ہوتا ہے ۔۔ جب آپ کسی کو تباہ کرنے کے در پر ہوتے ہیں تو یہ سوجاتا ہے ۔۔ آپکو روکتا نہیں ۔۔مگر جیسے ہی آپ سب کچھ برباد کر دیتے ہیں تو یہ جاگ جاتا ہے ۔۔ جانتے ہو کیوں ؟ ’’ عفان نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا تھا ۔۔
’’کیوں ؟ ’’
’’ کیونکہ جاگا ہوا ضمیر آپکا اپنا سکون برباد کر دیتا ہے ۔۔ ’’ اس نے کہہ کر کمرے کے دروازے کا لاک کھولا اور اندر چلا گیا ۔۔ جبکہ حاشر وہی جم سا گیا تھا ۔۔ تو کیا ضمیر جاگ گیا ؟ تو کیا عفان خالد اب برباد ہونے جارہا تھا ؟
وہ چینج کر کے آیا تو ارسا بھی جانے کے لئے نکل رہی تھی ۔۔
’’ کل صبح حاشر آپکو پک کر لیگا ’’ اس نے ارسا سے کہا تھا ۔۔
’’ اوک ۔۔ آپ کب جارہے ہیں دبئی ؟ ’’ اس نے اب تک یہ تو پوچھا ہی نہیں تھا ۔۔
’’ پرسوں جاؤنگا ۔۔ تین دن لگ جائینگے مجھے ’’ وہ باہر تک اسکے ساتھ آیا تھا ۔
’’ اوک ۔۔ اللہ حافظ ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھی اور اس گاڑی میں بیٹھ گئ جہاں حاشر اسکا انتظار کر رہا تھا ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...