“کیا میں کوئی شوگر کی مریضہ دکھ رہی ہوں تیرے کو جو یہ پھیکی چائے لے کر آئی ہے میرے لیے”
رباب اپنا بیگ سمیت سرداروں کی حویلی میں داخل ہوئی تو اس کے کانوں میں پہلے تھپڑ کی آواز گونجی اور بعد میں نسوانی آواز مگر کرخت لہجے میں جملہ ادا کیا گیا۔۔۔۔ رباب کے قدم وہی تھم گئے سامنے ہال میں بڑے سے جھولے پر ایک ضعیف خاتون اپنی ملازمہ پر غُصّہ اتار رہی تھی
“اے لڑکی وہاں کیوں رک گئی ہے یہاں آ”
کبریٰ خاتون کی نظر رباب پر پڑی تو وہ کرخت لہجے میں اس سے گویا ہوئی،، اُن کو دیکھ کر رباب کی جان خشک ہونے لگی یقیناً وہ خاتون زریاب خان کی اماں حضور تھیں، جن کی طبیعت میں سختی کے بارے میں وہ زریاب خان نے اسے باتوں باتوں میں کئی بار بتایا تھا۔۔۔ رباب چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ہوئی کبریٰ خاتون کے پاس پہنچی
“نام کیا ہے تیرا”
کبریٰ خاتون نے ایک نظر رباب کے جُھکے سر پر ڈالی اور پھر اس کے ہاتھ میں موجود بیگ پر
“رباب”
خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر تر کرتی ہوئی رباب مشکل بول پائی کبریٰ خاتون جھولے سے اُٹھ کر اُس کے سامنے آئی
“تیری وجہ سے میرے ذریاب نے اپنے سینے پر گولی کھائی ہے،، مار ڈالوں گی میں تجھے”
کبریٰ خاتون نے بولنے کے ساتھ ہی زوردار طماچہ رباب کے گال پر مارا جس سے اس کو اپنا دماغ سُن ہوتا ہوا لگا مگر وہ رباب کے منہ پر پڑنے والا ایک طماچہ نہیں تھا کبریٰ خاتون نے رباب کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر پے در پے اس کے منہ پر طمانچے مارنے شروع کر دیے
شور کی آواز سن کر زرین اپنے کمرے سے باہر نکلی سامنے کا منظر دیکھ کر وہ صورتحال فوراً سمجھ چکی تھی۔۔۔ کبریٰ خاتون کا ہاتھ روکنے کی گستاخی وہ ہرگز نہیں کرسکتی تھی اس لیے دوڑتی ہوئی سردار اکبر خان کے کمرے میں جا کر اُسے ساری صورتحال سے آگاہ کرنے لگی
شوہر کی آواز سن کر کبریٰ خاتون کا ہاتھ رکا تو رباب فرش پر بیٹھتی ہوئی رونے لگی۔۔۔۔ اس کے پورے بال بکھر چکے تھے دوپٹہ فرش پر پڑا تھا اور دونوں گال سرخ ہو رہے تھے۔۔۔ زرین اس کی حالت کے پیش نظر پانی کا بھرا گلاس اُس کے پاس لے کر آئی اور فرش پر اس کے پاس بیٹھ کر اُسے پانی پلانے لگی
“میرا زریاب اس لڑکی کی وجہ سے اپنی جان سے گیا ہے میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گی”
کبریٰ خاتون سردار اکبر خان کے سامنے آ کر غُصّے میں بولی
“اِس نے جان نہیں لی تمہارے بیٹے کی نادان عورت، یہ بیوی ہے زریاب خان کی، اس حویلی کی عزت،، اس کے پاس نشانی موجود ہے ہمارے زریاب کی۔۔۔ خبردار جو آج کے بعد کسی نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کے دیکھا ہاتھ لگانا تو دور کی بات۔۔۔ زری بچے اِسے کمرے میں لے جاؤ”
سردار اکبر خان نے اپنی بیوی کو تنبہیہ کرنے کے بعد زرین کو مخاطب کیا۔۔۔ زریاب خان کو دفنانے کے بعد زرین اسماعیل خان کو زریاب خان اور رباب کے تعلق کی حقیقت سے آگاہ کر چکی تھی
****
“کیا کردیا آپ نے بابا سائیں، میرا انتظار تو کیا ہوتا آپ نے۔۔۔ ایسے کیسے رباب کو اُن لوگوں کے کہنے پر اُن کے حوالے کر دیا۔۔۔ نہ جانے وہ کیا سلوک کریں گے اب اس کے ساتھ”
شمروز جتوئی آج ہی حویلی پہنچا تھا اُسے طبیعت خرابی کی وجہ سے رباب کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی اور جب آج اسے حقیقت معلوم ہوئی تو وہ شمشیر جتوئی کے سامنے اعتراض کرتا ہوا بولا
“وہ جو بھی سلوک کریں اس کے ساتھ وہ اسی سلوک کی مستحق ہوگی۔۔۔ تم نے یہ نہیں دیکھا اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔۔۔ کس طرح ہماری عزت مٹی میں ملا دی، پگڑی اچھالنے چلی تھی ہمارے ہی دشمن کے ساتھ بھاگ کر”
فیروز جتوئی کمرے میں داخل ہوکر شمروز جتوئی کو دیکھ کر بولا
“وہ خطاوار تھی میں مانتا ہوں مگر کیا ضروری تھا کہ فوری طور پر اس کو اور خاص کر زریاب خان کو اتنی سخت سزا دی جاتی۔۔۔ آرام سے بیٹھ کر سارے حقائق جاننے کے بعد ٹھنڈے دماغ سے بھی کوئی فیصلہ کیا جا سکتا تھا”
شمروز جتوئی فیروز جتوئی کو سمجھانے کے غرض سے بولا جو مشکل کام تھا۔۔۔ کیوکہ اس کا بھائی انسانی جان لے چکا تھا یقیناً ایسا کرتے وقت اس کے ہاتھ نہیں کانپے ہوگیں
“بد چلنی کے فیصلے ٹھنڈے دماغ سے نہیں کیے جاتے شمروز اور خطاکار سزا کا ہی مستحق ہوتا ہے۔۔۔ تم اپنی سوچ ہم پر مت تھوپو”
اب کی بار شمشیر جتوئی اپنے چھوٹے بیٹے کو دیکھتا ہوا بولا
“بد چلن مت کہیے اسے بابا سائیں نکاح کیا تھا اس نے زریاب خان سے، وہ دونوں اپنے نکاح کا ثبوت نہیں دے پائے بروقت بدقسمتی سے، ویسے بھی میں یہاں کسی پر اپنی سوچ تھوپنے والا کون ہوتا ہوں، ہونا تو وہی ہوگا اس حویلی میں جو آپ چاہتے ہیں۔۔۔ کیا میں جان سکتا ہوں دل آویز اور پلورشہ کی شادیاں اتنی جلدی کیوں کی جارہی ہیں ابھی تو وہ دونوں نویں جماعت کی طلبہ ہیں”
شمروز جتوئی کو کشمالہ سے یہ بات معلوم ہوئی تھی تو اُسے بڑی حیرت ہوئی
“دیکھ تو لیا ایک کو پڑھانے کا انجام مجھ میں اب اور ذلّت سہنے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔ بالغ ہیں دونوں بچیاں اچھا ہے کہ اپنے اپنے گھر کی ہو جائیں۔۔۔ اس طرح ان کی بھی عزتیں محفوظ رہیں گی اور ہماری بھی”
شمشیر جتوئی ایک بار پھر گویا ہوا فیروز جتوئی کے انداز سے لگ رہا تھا وہ باپ کا ہی ہم خیال ہے۔۔ شمروز جتوئی خاموش کر کے شمشیر جتوئی کے کمرے سے نکل کر ضیغم کے کمرے میں چلا آیا رباب کے حویلی سے جانے کے بعد وہ کافی بیمار پڑ چکا تھا
****
“دادی حضور اب میں اسکول نہیں جاونگا۔۔۔ کلاس میں شفیق مجھے تنگ کرتا ہے اور آج اس نے مجھے مارا بھی تھا”
تیمور خان شام میں کبریٰ خاتون کے پاس آیا اور جھولے میں بیٹھی اخبار پڑتی کبریٰ خاتون کو بولنے لگا
“کیا سردار اکبر خان کا پوتا کسی لڑکے کے ڈر سے اسکول نہیں جائے گا۔۔۔ تو سرداروں کی اولاد ہے نڈر بن، یوں بزدلوں کی طرح گھر بیٹھ کر اس لڑکے کی شکایت لگانے کی بجائے کل اسکول جا اور اسکا سر پھاڑ کر آ، کوئی کچھ بھی بولے تو میں تیرے ساتھ چلو گی اسکول”
کبریٰ خاتون اپنے پوتے کو بولتی ہوئی اخباع تہہ کرنے لگی
وہ اکثر تیمور خان کو اِسی طرح نڈر اور طاقت ور بننے کا سبق پڑھاتی جو زرین کو سخت ناگوار گزرتا مگر وہ کبریٰ خاتون کے آگے کچھ بھی بولنے کی گستاخی نہیں کرسکتی تھی
“اے لڑکی کدھر جا رہی ہے یہاں آ”
سات مہینے ہوچکے تھے رباب کو یہاں آئے ہوئے مگر کبریٰ خاتون اُس کو ابھی تک اے لڑکی کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھی
“جی اماں حضور”
رباب کبریٰ خاتون کے پاس آتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ آج صبح سے ہی اُسے اپنی طبیعت میں کچھ خرابی لگ رہی تھی مگر وہ کسی سے کچھ کہے بغیر روزمرہ کے کام انجام دے رہی تھی
“رات کی روٹی بنائی تُو نے”
کبریٰ خاتون اس کی زرد رنگت کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
“وہی بنانے جا رہی تھی”
رباب آہستہ سے انہیں بتانے لگی
“بعد میں بنالے پہلے ذرا تیل کی شیشی لے کر آ، مالش کر میرے سر میں”
کبریٰ خاتون اس پر حکم صادر کرتی ہوئی بولی تو رباب آئستہ قدم اٹھاتی ہوئی تیل کی شیشی لینے چلی گئی
اس دن کے بعد سے کبریٰ خاتون نے رباب پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا تھا مگر اسکی حالت کو نظر انداز کر کے وہ اس سے سخت اور محنت کش کام لیتی، جس پر زیادہ تر نظر بچا کر زرین اس کے حصّے کا کام کر دیتی
کبریٰ خاتون کے برعکس گھر کے دوسرے افراد رباب سے اچھے طریقے سے پیش آتے،، زرین کی رباب سے کافی دوستی ہوچکی تھی، کھبی کھبی وہ دونوں ہی گھنٹوں زریاب خان کی باتیں کیا کرتیں۔ ۔ رباب کو اکثر اپنا بھتیجے ضیغم یاد آتا، وہ تیمور خان میں اُس کو ڈھونڈتی، تیمور خان کو اپنے پاس بلاتی مگر وہ بدتمیزی سے رباب کو جھڑک دیتا شاید اس پر کبریٰ خاتون کی تربیت کا اثر تھا یا وہ بھی کبریٰ خاتون کی طرح اسے سخت ناپسند کرتا تھا
****
آج اتفاق سے سردار اکبر خان اور سردار اسماعیل خان دونوں ہی شہر گئے ہوئے تھے، صبح 6 بجے جب زرین کی آنکھ کھلی تو اُسے رباب کے کمرے سے کرہانے کی آوازیں آنے لگی جب وہ رباب کے کمرے میں گئی تو رباب بیڈ پر لیٹی ہوئی درد سے بری طرح کراہ رہی تھی
“رباب۔۔۔ رباب کیا ہوا”
زرین رباب کے کمرے میں اس کے پاس آتی ہوئی پوچھنے لگی
“بھابی میں نہیں بچو گی مجھے لگ رہا ہے میں مر جاؤں گی”
رباب تکلیف میں روتی ہوئی زرین سے بولی
“پاگل ہو گئی ہو کیا، کچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہو جائے گا میں ابھی اماں حضور کو بتا کر، ڈرائیور سے کہہ کر تمہیں اسپتال لے کر چلتی ہوں”
زرین اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے تسلی دیتی ہوئی کبریٰ خاتون کے کمرے میں جانے لگی
“اماں حضور۔۔۔ اماں حضور رباب کی طبیعت بگڑتی ہوئی محسوس ہورہی ہے میں ڈرائیور کے ساتھ اسے ہسپتال لے جاتی ہو”
زرین گھبراتی ہوئی کبریٰ خاتون کے کمرے میں آکر بولی تو وہ آنکھیں کھول کر نیند سے بیدار ہوئی
“کوئی ضرورت نہیں ہے اسپتال جانے کی، کوئی مرد گھر پر موجود نہیں ہے۔۔۔ مختاراں کو بول دو وہ نوری (دائی) کو بلا لے گی”
کبریٰ خاتون کی بات سن کر زرین حیرت سے انہیں دیکھنے لگی
“اماں حضور رباب کی واقعی حالت بگڑ ہے خدارا اسے ہسپتال لے جانے دیں وقت بہت کم رہ گیا ہے”
زرین کبریٰ خاتون کو دیکھ کر ان کے آگے منت کرتی ہوئی بولی
“زری تُو میری نیند خراب کر چکی ہے، اب میرا دماغ مت خراب کر۔۔۔ وہ کوئی انوکھا بچہ نہیں پیدا کر رہی ہے، جا جا کر مختاراں کو بول وہ نوری کو لے آئے گی”
اب کی بار کبریٰ خاتون سخت لہجے میں بولی تو زرین اس پتھر دل عورت کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گئی
****
“بھابھی ایک آخری بات مانیں گی میری”
آدھے گھنٹے پہلے ہی رباب نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا تھا مگر اس کی حالت سنبلھنے میں نہیں آرہی تھی نوری بھی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا مشورہ دے کر خود جا چکی تھی تبھی رباب زرین سے بولی
“آخری بات کیوں ہزار باتیں مانو گی تم بولو تو سہی”
بچی کی پیدائش کے بعد زرین نے جب کبریٰ خاتون کو دوبارہ اس کی حالت بتائی تو اب کی بار اس نے رباب کو اسپتال لے جانے کی اجازت دے دی تھی مگر اب رباب اسپتال نہیں جانا چاہتی تھی
“ہزار باتوں کے لیے تو لمبی زندگی چاہیے ہوتی ہے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے”
رباب اپنے برابر میں بیڈ پر لیٹی ہوئی ننھی منی سی اپنی بیٹی کو دیکھ کر بولی
“تم فضول باتیں مت کرو، ورنہ مار کھاؤ گے مجھ سے،، میں نے بیگ تیار کرلیا ہے ڈرائیور آنے والا ہوگا ہم دونوں تھوڑی دیر میں اسپتال چلیں گے”
زرین اسے ڈانٹتی ہوئی بولی اور اس کی سرخ وسفید بیٹی جو کہ کمبل میں لپٹی ہوئی کوئی نرم و نازک گڑیا لگ رہی تھی اسے گود میں اُٹھا کر پیار کرنے لگی
“ہسپتال جانے کا وقت نہیں رہا ہے، ذریاب انتظار کر رہے ہیں میرا۔۔۔ مگر میں ان کے پاس جانے سے پہلے ایک بار اپنے بابا سائیں اور فیروز لالا سے ملنا چاہتی ہوں۔ ۔۔غلطی تو کی تھی ناں میں نے ان کا بھروسہ توڑ کر انہیں دیکھ کر ان سے ایک بار معافی مانگ لوں پھر بیشک۔۔۔۔ پلیز میرے گھر فون کرکے بابا سائیں اور لالا کو یہاں بلوا لیں”
بولنے کے ساتھ ہی رباب رونے لگی تو زرین کو بھی رونا آگیا
****
لوگوں کی بے حسی دیکھ کر زرین کو رونا ہی آنے لگا تھا سردار اکبر خان سے اجازت ملنے کے بعد، رباب کے بتائے ہوئے نمبر پر زرین نے کال ملائی تو فون رباب کی بھابھی کشمالا نے اٹھایا اور رباب کی حالت سننے کے باوجود اس نے زرین کو جھڑک کر فون رکھ دیا۔۔۔ رباب کے بارے میں اس نے ایسی زبان استعمال کی کہ زرین رباب کو کچھ بھی بتا کر اس کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی۔۔۔ وہ کافی دیر سے رباب کے کمرے میں نہیں جا رہی تھی کہ رباب کی منتظر نظروں کو دیکھ کر وہ اُسے کیا جواب دیتی
تب اسکول یونیفارم میں مبلوس دس سالہ بچہ حویلی کے اندر داخل ہوا
“بیٹا کون ہو آپ؟ کس سے ملنا ہے”
زرین اس بچے کو دیکھ کر پوچھنے لگی
وہ تیمور خان کا دوست ہرگز نہیں تھا اور تیمور خان تو خود اس وقت اسکول میں موجود تھا
“ضیغم جتوئی نام ہے میرا، کیا میں اپنی اپھو سے مل سکتا ہوں”
وہ بچہ زرین سے پوچھنے لگا تو زرین مسکرا کر ضیغم کو رباب کے کمرے میں لے گئی اور شکر ادا کیا کہ اِس وقت کبریٰ خاتون اپنے کمرے میں سو رہی تھی
****
“مجھے معلوم ہے بابا سائیں یا لالا میں سے کوئی آئے نہ آئے مگر میرا بیٹا میرے پاس ضرور آئے گا اپنی اپھو کے پاس”
رباب ضیغم کا ہاتھ چوم کر مسکراتی ہوئی اُس سے بولی
اسے ہرگز یقین نہیں تھا اس کا بھتیجا اسے ملنے آسکتا ہے وہ خوش تھی
“اپھو آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلیں، غلام (ڈرائیور) باہر ہی کھڑا ہے”
ضیغم رباب کو دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا اس کی اپھو تو بلکل پہلے جیسی نہیں رہی تھی وہ بار بار اس ننھی منی سی گڑیا کو بھی دیکھ رہا تھا جو کمبل میں لپٹی ہوئی سو رہی تھی
“ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت ختم ہوگیا ہے بس میری ایک بات ماننا گھر جاکر بابا سائیں فیروز لالا اور شمروز لالا کو بتانا کے رباب آپ لوگوں کو بہت پیار کرتی ہے اور وہ سب مجھے معاف کر دیں، بتاؤ کہو گے نا”
رباب ضیغم کا ہاتھ پکڑ کر اس سے پوچھنے لگی وہ اپنی اپھو کو یہ نہیں بتا سکا کہ حویلی میں رباب کا نام تک نہیں لیا جاتا بلکہ وہ خود صبح اپنی ماں کو فون پر باتیں سناتا دیکھ کر اسکول جانے سے پہلے ہمت کرتا ہوا دشمنوں کے گھر چلا آیا تھا۔۔۔ اگر یہ بات گھر میں کسی کو معلوم ہو جاتی تو اسے سخت سزا دی جاتی
“اپھو یہ آپ کی گڑیا ہے میں اسے چھو کر دیکھ لو”
ضیغم رباب کی بات کا جواب دیئے بغیر رباب کی توجہ دوسری طرف مندمل کرتا ہوا بولا جس پر رباب نے مسکرا کر سر ہلایا،، ضیغم سرخ سفید گول مٹول سی بچی کو غور سے دیکھنے لگا
“اپھو اُس کا نام کیا ہے”
ضیغم ننھی منھی سی گڑیا کو دیکھ کر رباب سے پوچھنے لگا۔۔۔ تب ہی کمرے میں زرین بھی چلی آئی
“تم بتاؤ کیا رکھو اس کا نام”
رباب بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنے بھتیجے سے پوچھنے لگی جو اسکی ننھی منی بیٹی کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا
“روشانے۔۔۔ آپ اس کا نام روشانے رکھنا اور میں اسے پیار سے روشی کہہ کر بلاؤں گا”
ضیغم کی بات سن کر رباب افسردگی سے مسکرا دی پھر اس نے زرین کو دیکھا جو مسکراتی ہوئی اس کے پاس آئی تھی
“اور روشی آج سے میری بیٹی ہوگی”
زرین ننھی منی روشانے کو گود میں اٹھا کر رباب سے بولی
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...