نیاز فتح پوری اردو کے ایک صاحبِ طرز انشا پرداز، طرح دار ادیب اور جید عالم تھے۔ اردو زبان پر فن کارانہ قدرت رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں عربی، فارسی اور ترکی زبانوں پر بھی کامل عبور حاصل تھا۔ علاوہ ازیں انگریزی زبان سے بھی ان کی واقفیت کچھ کم نہ تھی۔ فارسی کا ذوق انھیں اپنے والد سے ورثے میں ملا تھا جو نہ صرف فارسی کے کلاسیکی ادب کے دلدادہ تھے، بلکہ فارسی میں شعر بھی کہتے تھے۔ فارسی کا ابتدائی درس نیاز فتح پوری نے گھر پر ہی اپنے والد سے لیا تھا۔ (۱) بعد میں انھوں نے مدرسۂ اسلامیہ، فتح پور میں درسِ نظامی کی کتابیں باقاعدہ طور پر پڑھیں اور اس مدرسے کے مدیرِ اعلیٰ مولانا نور محمد سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ (۲) آگے چل کر انھوں نے عربی میں اتنا کمال پیدا کر لیا کہ اپنی پہلی بیوی کے انتقال پر عربی میں مرثیہ لکھا۔ ( ۳) انھوں نے بہت سے افسانے بھی عربی زبان سے اردو میں ترجمہ کیے جو رسالہ نگار میں شائع ہوئے ترکی زبان پر انھیں اتنی قدرت حاصل تھی کہ وہ براہِ راست ترکی سے اردو میں ترجمہ کر سکتے تھے(۴) ترکی ادب کا انھوں نے بہت گہرا مطالعہ کیا تھا، ترکی کی مشہور شاعرہ نگار بنتِ عثمان سے وہ اتنے متاثر تھے کہ فروری ۱۹۲۲ء میں انھوں نے آگرے سے جب اپنا رسالہ جاری کیا تو اس کا نام بھی نگار رکھا۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ترکی سیکھنے کا مجھ پر جنون سوار تھا،”(۵) نیاز نے اپنی ادبی زندگی کی اٹھان میں سجاد حیدر یلدرم سے بہت اثر قبول کیا۔ یلدرم اس زمانے میں تراجم کے ذریعے اردو میں انشائے عالیہ کے نمونے پیش کر رہے تھے۔ عربی فارسی کی طرح نیاز نے انگریزی کی تعلیم بھی ابتدا ہی سے حاصل کی تھی اور اس میں اتنی صلاحیت پیدا کرلی تھی کہ مدرسۂ اسلامیہ، فتح پور کی انگریزی شاخ کے تین مرتبہ ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے بعد میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر انگریزی ادیبوں سے انھوں نے کافی اثر قبول کیا جن میں وکٹر ہیوگو، ہیزلٹ اور اوسکر وائلڈ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ الغرض، نیاز فتح پوری کے لسانی مزاج کی تشکیل و ارتقا میں ان زبانوں کا نہایت اہم رول رہا ہے۔
کسی شخص کے لسانی مزاج کا انحصار اس کی اپنی زبان کی اہلیت یا شعور پر قائم ہوتا ہے جسے لسانیاتی ادب کی اصطلاح میں‘Linguistic Competence’ کہا جاتا ہے۔ مشہور امریکی ماہر لسانیات نوام چامسکی مراد لیتا ہے بعد میں اس نظریے کو ایک دوسرے امریکی ماہر لسانیات ڈیل ہائمز نے چیلنج کیا اور کہا کہ کسی شخص کے لیے محض اپنی زبان کا علم، اہلیت یا شعور ہی کافی نہیں بلکہ مخصوص سماجی سیاق و سباق میں اسے اپنی زبان کو برتنے اور بروئے عمل لانے کا شعور بھی آنا چاہیے کیوں کہ زبان ایک سماجی مظہر(Social Phenomenon) ہے جسے سماجی سیاق و سباق سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ڈیل ہائمز نے اپنے اس نظریے کو‘Communicative Competence’ یعنی ترسیلی شعور یا اہلیت کا نام دیا ہے۔ لسانی مزاج کی تشکیل میں ان دونوں نظریات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
نیاز فتح پوری نے خالص مشرقی ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ ہوش سنبھالا تو مذہبی طرز کی تعلیم پائی جس پر عربی اور درسِ نظامی کی گہری چھاپ موجود تھی۔ والد کی صحبت و تربیت نے ان کے اندر فارسی کا گہرا ذوق پیدا کیا۔ چنانچہ دونوں زبانیں ان کے لسانی مزاج کا اٹوٹ حصّہ بن گئیں۔ آگے چل کر ان کے اندر فارسی کا ذوق اور زیادہ نکھرا۔ ۱۲ -۱۳ برس کی عمر میں شاعری شروع کی۔ (۶) عنفوانِ شباب میں لکھنؤ کا رنگین ماحول ملا جس کے اثرات نہ صرف ان کے ذہن و دماغ اور فکر پر مرتب ہوئے بلکہ ان کے لسانی مزاج کی تشکیل میں بھی ان کا نمایاں حصّہ رہا ہے۔ خود انھیں کی زبانی لکھنؤ کی ایک طوائف کے ”دربار” کا حال سنیے جہاں ان کے والد نے انھیں ”بالکل آزاد” چھوڑ دیا تھا:
”شام کو چودھراین کا مکان بالکل دربار نظر آتا تھا جس میں شہر کے اکثر خوش ذوق لوگ شریک ہوتے تھے۔ اور اس محفل میں چودھراین کی حیثیت ایک معلّم کی سی ہوتی تھی جس کی گفتگو اور اندازِ نشست و برخواست سے لوگ صحیح لکھنؤی تہذیب سیکھتے تھے۔ اس محفل میں شعرا خوانی، داستان گوئی، لطائف و ظرافت، ضلع جگت، رقص و سرود، سبھی کچھ ہوتا تھا اور جب لوگ یہاں سے لوٹتے تھے تو موسیقی کا صحیح ذوق یا زبان کا صحیح استعمال، گفتگو کا خاص انداز، لب و لہجہ کی شیرینی، نشست و برخاست کا انداز اور خدا جانے کن کن باتوں کا درس لے کر لوٹتے تھے”۔ ( ۷)
کسی شخص کا لسانی مزاج نہ تو پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اور نہ خلقی و موروثی، بلکہ یہ کلیۃً اکتسابی اور ماحول کا زائیدہ ہوتا ہے جس کی تحصیل پہلے غیر رسمی پھر رسمی (جب وہ پڑھنا لکھنا سیکھتا ہے) طور پر عمل میں آتی ہے کسی شخص کے لسانی مزاج کی تشکیل میں اس کا عہد، معاشرہ تہذیب، ماحول، علمی و ادبی روایات، تعلیمی پس منظر، گرد و پیش کے افراد نیز ثانوی زبانیں (جو وہ شعوری طور پر سیکھتا ہے) اہم رول ادا کرتی ہیں۔ نیاز فتح پوری کے لسانی مزاج کی تشکیل میں بھی ان تمام عوامل کی کارفرمائی رہی ہے۔ لسانی مزاج کی اصل، عام اور سادہ صورت روزمرّہ کی گفتگو اور عام بول چال میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہر وہ شخص جو اپنی مادری زبان پر قدرت رکھتا ہے۔ ایک مخصوص لسانی مزاج کا بھی حامل ہوتا ہے۔ لیکن صحیح معنوں میں اس کا ارتقا ادبی زبان کی شکل میں ہی ہوتا ہے۔ یہ لسانی مزاج کی تخلیقی اور فن کارانہ صورت ہے۔ یہ وہی لسانی مزاج ہے جو کسی ادیب کا صاحبِ اسلو بناتا ہے، اس کی انفرادیت کا ضامن ہوتا ہے اور اسے دوسرے ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ کسی ادیب یا شعر کے اسلوب کی تشکیل میں اس کے تخلیقی اور فن کارانہ لسانی مزاج کی ہی کارفرمائی ہوتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کسی ادیب کا اسلوب اس کے تخلیقی اور فن کارانہ لسانی مزاج کا ہی دوسرا نام ہے تو بیجا نہ ہو گا۔ جب ہم میر کا اسلوب’ غالبؔ کا اسلوب یا اقبال کا اسلوب کہتے ہیں تو اس سے میر’ غالب یا اقبال کے لسانی مزاج کی تخلیقیت ہی مراد لی جاتی ہے۔ روز مرّہ کی گفتگو یا عام بول چال کی زبان کی ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہAutomatized ہوتی ہے یعنی اس میں ترسیل و ابلاغ کا عمل برجستہ، بہ سرعت اور غیر ارادی طور پر سرانجام پاتا ہے اور زبان تحت الشعور کا حصّہ بن جاتی ہے لیکن ادبی زبان میں اس کے بالکل برعکس عمل ہوتا ہے۔ اسی لیے اسےDe-automatization کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا زبان کے تخلیقی استعمال سے گہرا تعلّق ہے۔ زبان کے تخلیقی استعمال میں ادیب کی شعوری کوششوں کو خاصا دخل ہوتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ زبان کے تخلیقی استعمال سے جو اسلوب تشکیل پاتا ہے وہ اس زبان کے بنیادی اسلوب سے مختلف ہوتا ہے۔ بنیادی اسلوب میں ایک قسم کا لسانی توازن پایا جاتا ہے۔ اور قواعد کے جملہ اصول و ضوابط کی پابندی ملتی ہے۔ بنیادی اسلوب دراصل عام اور مروجہ زبان کا ہی دوسرا نام ہے، جب کہ تخلیقی زبان لسانی توازن کے انحراف کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے، لسانی توازن کو ہم لسانی نارم(Linguistic Norm) سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ادبی زبان میں لسانی نارم سے انحراف(Deviation) پایا جاتا ہے۔ جب کہ بول چال کی زبان بنیادی اسلوب سے قریب تر ہوتی ہے اور اس میں لسانی نارم کی پابندی کی جاتی ہے، لیکن اس میں زبان کے تخلیقی استعمال کے امکانات بہت محدود ہوتے ہیں۔ جہاں تک کہ اردو کے بنیادی اسلوب کا تعلق ہے تو یہ عام خیال یہ ہے کہ ایک ‘مفروضہ’ ہے کیوں کہ اردو کے کسی بھی مصنف کے اسلوب کو اردو کا بنیادی اسلوب نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ہاں اگر کسی مصنف کا اسلوب کسی حد تک عام فہم، سادہ اور سلیں ہے تو اسے بنیادی اسلوب سے قریب تر ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں سر سید، حالی، مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن کے اسالیب کو اردو کے بنیادی اسلوب سے قریب تر کہا جا سکتا ہے۔ ان مصنفین کے علی الرغم اگر ہم مولانا محمد حسین آزاد، مرزا رجب علی بیک سرور مولانا ابوالکلام آزاد اور نیاز فتح پوری کی تحریروں کو دیکھیں تو ہمیں ایک بالکل دوسرا اسلوب نظر آئے گا جسے پیچیدہ، مرصع، رنگین اور آراستہ اسلوب قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ اردو کے بنیادی اسلوب کے برعکس ہے۔ پروفیسر محمد حسن کا یہ خیال تو درست ہے کہ ”سر سیّد نے جس سلیس اور سادہ نثر کو رواج بخشا تھا اسے نیاز نے مرصع اور رنگین بنا دیا،” لیکن ان کی یہ بات محلِ نظر ہے کہ ایسا سر سیّد کے ردِ عمل کے طور پر ہوا۔ ( ۸) نیاز کے اسلوب میں جو صنعت گری اور حسن کاری پیدا ہوئی اس کے دو محرکات ہیں: اوّل کی حسن پرستی اور جمالیاتی احساس، دوم ان کا مخصوص لسانی مزاج جس کی تشکیل ایک خاص ماحول میں ہوئی تھی۔
نیاز فتح پوری کے دلکش، رنگین، مرصع اور آراستہ اسلوب کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھیں ‘اردو نثر کا جوش’ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا، کیوں کہ نیاز کے یہاں الفاظ کی وہی گھن گرج پائی جاتی ہے جو جوش ملیح آبادی کے یہاں ہے۔ دونوں کے یہاں زبان کا تاثراتی اور جمالیاتی استعمال اپنی بلندیوں پرہے۔ دونوں کے یہاں مرعوب کرنے والا انداز ملتا ہے اور دونوں کو الفاظ کے استعمال پر زبردست قدرت حاصل ہے۔ دونوں زبان کی رنگینی اور آراستگی پر زور دیتے ہیں اور دونوں عربی فارسی کے الفاظ و تراکیب کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ نیاز فتح پوری اپنی کتاب مالہٗ و ما علیہ میں جوش کی ایک نظم پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”یہ نظم صرف خوش نما الفاظ و دلکش تراکیب اور خوب صورت تشبیہوں کا مجموعہ ہے جن سے شاعر کے اچھے آرٹسٹ ہونے پر تو حکم لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کی مفکرانہ حیثیت پر اس سے کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ ” جن لوگوں نے نیاز کے افسانوی مجموعوں، انشائیوں، مکاتیب اور دیگر تحریروں کا مطالعہ کیا ہے وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ خود نیاز کے یہاں ”خوش نما الفاظ و دلکش تراکیب اور خوب صورت تشبیہوں کی کمی نہیں۔ باعتبارِ اسلوب نیاز، ابوالکلام آزاد سے بھی بے حد قریب ہیں۔ آزاد کے مجموعۂ مکاتیب غبار خاطر اور مکتوب نیاز میں بے شمار اسلوبیاتی مماثلتیں پائی جاتی ہیں، نیاز فتح پوری نے رنگین ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں، حُسن پرستی ان کا شعار تھا، اور احساسِ جمال ان کی کمزوری۔ پھر بنیادی طور پر وہ افسانہ نگار تھے۔ لہٰذا ان سے سادہ سہل نثر کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ لیکن ابوالکلام آزاد دونوں کی نثر میں آراستگی، صنعت گری، رنگینی اور پیچیدگی ایک عام بات ہے۔ دونوں اپنی نثر میں فارسی الفاظ و تراکیب کی گہری آمیزش سے کام لیتے ہیں اگر چہ فکری اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
نیاز فتح پوری کے اسلوب کی ان کے تمام ہم عصروں نے جی کھول کر داد دی ہے۔ جوش نے اپنی تمام تر مخالفتوں کے با وصف نیاز کو ”خالقِ طرز انشاء پرواز” کہا ہے۔ (۹) فراق گورکھپوری نے انھیں ”بلند پایہ اسٹائلسٹ(Stylist) کے نام سے یاد کیا۔ ( ۱۰) مجنوں گورکھپوری نے ان کے اسلوب کی انفرادیت کو ” تخلیقی اسلوب” کا نام دیا اور یہ کہا کہ ” نیاز فطرتاً ایک صاحبِ اسلوب ہیں۔ ” انھوں نے یہ بھی کہا کہ ” نیاز کا بڑے سے بڑا منکر بھی ان کے اسلوب کی ساحرانہ قوت سے مبہوت ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ۔ ۔ ۔ نئی نسل کو نیاز سے جو ترکہ ملا ہے وہ اسلوب ہے، ایسا اسلوب جو طرح طرح کی توانائیاں اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ ”(۱۱) ۔ ۔ ۔ ۔ احمد اکبر آبادی نے ایک جگہ یہ لکھا کہ ”اس دور میں نیاز صاحب اردو کے مسلمہ ادیب و انشا پرداز اور بلا شبہ اعلیٰ طرز نگارش کے مالک ہیں۔ ”(۱۲) مالک رام نے ان کی نثر کو ”بانکی، البیلی نثر” کہا۔ ( ۱۳) محمد حسن نے نیاز فتح پوری پرا اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ان کی نثر میں جادو تھا۔ ”(۱۴) اس میں کوئی شک نہیں کہ نیاز فتح پوری ایک صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ ان کا اسلوب اپنے اندر ایک انفرادی اور جداگانہ شان رکھتا ہے۔ نیاز کی تحریروں کو پڑھ کر ہم ایک ایسے جمالیات تجربے سے گزرتے ہیں جہاں نغمگی، رنگینی، دلآویزی اور حسن کاری سب کچھ ہے۔
اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ اسلوب کا تعلق ادب میں زبان کے استعمال سے ہے۔ چوں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے۔ لہٰذا اظہار کے نت نئے طریقوں، طرز بیان کی جدتوں نیز نئے لسانی سانچوں کی تشکیل سے ہی اسلوب کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ یہ تمام اسلوبیاتی وسائل زبان کی صوتی، صرفی، لغوی، نحوی اور معنیاتی سطح پر بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ زبان کا ادبی یا اسلوبیاتی استعمال ایک طرف طرز بیان میں اثریت کا موجب بنتا ہے تو دوسری طرف اظہار میں جدت اور معنی میں اضافے کا سبب بھی قرار پاتا ہے۔ نیاز فتح پوری کی تحریریں، جن میں ان کے افسانوی مجموعے، انشائیے، مکاتیب، تنقیدی مقالات، مذاکرات اور ان کی کتاب ما لہٗ و ما علیہ شامل ہے، زبان کے اسلوبیاتی استعمال کے بڑے اچھے اور اچھوتے نمونے پیش کرتی ہیں جن کا تجزیہ ذیل میں محدود طور سے صوتی، نحوی اور معنیاتی سطحوں پر کیا جاتا ہے:
۱۔ صوتی تجزیہ
۱۔ صوتی رمزیت:
صوتی سطح پر نیاز فتح پوری کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت صوتی رمزیت(Sound Symbolism) ہے جس میں الفاظ کی اصوات سے ان کے معانی کا اظہار ہوتا ہے، مثلاً:
“زبیدہ میں ناگن کابل تھا اور لہروں کا لوچ، گلبن کی لچک تھی اور سُنبل کا پیچ و خم۔ ”(۱۵)
(لام کی آواز جو اس جملے میں چھے بار استعمال ہوئی ہے، حرکت کے مفہوم کو بخوبی ادا کرتی ہے، بالخصوص بل، لہروں، لوچ اور لچک جیسے الفاظ میں)
“ساکن سطحِ آب، سنسان صحرا، خاموش شبِ ماہ، برف پوش چوٹیاں۔ ”(۱۶)
(یہاں س (ص) ، ش اور خ کی صیفری(Fricative) آوازوں سے ماحول کے سکوت و سکون کی عکاسی کا کام لیا گیا ہے۔ )
“جس کے ایوان خانے میں کنیزوں کے ریشمی ملبوسات کی سرسراہٹ ہمیشہ محسوس ہوتی رہتی تھی۔ ”(۱۷)
(یہاں ”سرسراہٹ” ایکOnomatopoeic یعنی صوت رمزی لفظ ہے جس میں ”س” کی دونوں اصوات اس آواز کی نقالی کر رہی ہیں جو لباس کے سرکنے، ہلنے یا جسم سے مس ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور قریب الواقع لفظ ”ملبوسات” بھی ہے جو اگرچہ صوت رمزی لفظ نہیں ہے لیکن اس میں پائی جانے والی ”س” کی آواز ”سرسراہٹ” کی ”س” کے ساتھ مل کر صورت رمزی کیفیت کو دو بالا کر رہی ہے۔ انگریزی میں اس کی ایک خوب صورت مثال ٹینی سن کی میر لائن ہے: “And murmuring of innumerable bees
۲۔ تجانسِ صوتی
تجانسِ صوتی(Alliteration) کی مثالیں بھی نیاز کی تحریروں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اس میں کسی جملے یا فقرے کے دویا دو سے زیادہ قریب الواقع الفاظ ایک ہی آواز سے شروع ہوتے ہیں، مثلاً:
“اگر میری زلفوں کی تاب سے وہ بچ گیا تو نگاہوں کے تیر سے کیوں کر جانبر ہو سکے گا۔ ”(۱۸)
“جمنا اپنی نیلگوں چادر میں چاند کا مکھڑا چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اور ناکام ہو کر ساحل پرسر پٹک رہی تھی۔ ”
“اور لانبی گھنی پلکوں کو تو دیکھو جیسے سیاہ ریشم کے باریک و نرم ریشے کسی نے سلیقے سے جما دیے ہوں۔ ”(۱۹)
“چاندنی رات تھی، خانقاہ کے نیچے بہنے والی ندی میں چاند نے چراغاں کر رکھا تھا۔ ”(۲۰)
۳۔ قافیہ بندی
نیاز کے اسلوبِ نثر کی ایک نمایاں خصوصیت جملوں اور فقروں میں قافیوں کا التزام ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں بڑی خوب صورت کے ساتھ مقضی، الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جس سے شعر کی سی دلکش پیدا ہو جاتی ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:
“راجپوتوں کی لڑکیاں ہیں، بلند بالا، صحیح و توانا، تیوریاں چڑھی ہوئی، گردنیں تنی ہوئی، آنکھوں میں تیر، مانگوں میں عبیر، ابروؤں میں خنجر، بالوں میں عنبر، ہاتھوں میں مہندی، ماتھے پر بندی، اب آپ سے کیا کہوں کیا چیز ہیں۔ ”(۲۱)
“وہ جام و مینا کی سرگوشیاں، وہ صحن چمن میں درختوں کی گل پوشیاں، وہل ہلکی ہلکی پھوار، وہ رندانِ بدمست کی ہنگامۂ بادہ بیاز’، آہ کیا پوچھتے ہو!”(۲۲)
“محبت کو تم جنون و دیوانگی سمجھتے ہو، لیکن غزل گوئی کو بڑی فرزانگی! قربان جائیے اس عقل و فراست کے۔ ”(۲۳)
“نسیم! دیکھتے ہو ان چھوٹے چھوٹے بلبلوں کو جو شہابِ ثاقب کی طرح نیچے سے اوپر کی طرف بیتابانہ دوڑ تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک معمولی انسانی زندگی کا بھی یہی فلسفہ ہے۔ ایک بے اختیارانہ صعود، ایک مضطربانہ اقدام، ایک والہانہ استعلاء اور ایک محبوبانہ تگ و دو۔ ”(۲۴)
“تجھے کیا خبر کہ جب تو سو جاتی ہے تو کیا ہو جاتی ہے۔ ”(۲۵)
“اس کی رنگینی طبع اکتسابی نہیں، بلکہ یکسر وہبی ہوتی ہے اور اس لیے وہ کبھی موقع پر چوکتا نہیں اور ہونٹوں پر آئی بات کو روکتا نہیں۔ ”(۲۶)
“‘اے بادلوں کی طرح اپنی خانہ بدوش آوارگیوں میں گم رہنے والے صحرائیوں، کیا مجھے بھی تم اپنے نشۂ وارفتگی میں کبھی شریک کر سکتے ہو جس سے تم نے صحرا کے ذروں کو مخمور اور پہاڑوں کی وادیوں کو معمور کر رکھا ہے۔ ”(۲۷)
(۲) نحوی تجزیہ
۱۔ عکسِ ترتیب یا تقلیب(Inversion) :
ترتیبِ الفاظ اردو کی ایک اہم نحوی خصوصیت ہے۔ اردو میں الفاظ بہ اعتبارِ فاعل/ مفعول/ فعل ترتیب دیے جاتے ہیں۔ مثلاً احمد (فاعل) اخبار (مفعول) پڑھتا ہے (فعل) چامسکی کے نظریۂ نحو کے مطابق کسی جملے کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ فقرۂ اسمیہ(Noun Phrase) اور فقرۂ فعلیہ(Verb Phrase) ، مثلاً احمد (فقرۂ اسمیہ) اخبار پڑھتا ہے (فقرۂ فعلیہ) ۔ ترتیبِ الفاظ کی اس مقررہ صورت سے انحراف کو عکس ترتیب یا تقلیب کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی اسلوبیاتی جدت ہے جو بعض مصنفین کے یہاں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ نیاز فتح پوری کی تحریروں میں بھی اس طرزِ اسلوب کے نمونے اکثر و بیشتر پائے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں عکسِ ترتیب کے زیادہ تر وہ نمونے ملتے ہیں جن میں فقرۂ فعلیہ، فقرۂ اسمیہ سے پہلے آتا ہے، مثلاً:
“ایک کیفیت تھی بدن میں سنسنی کی، دماغ میں نشے کی، خون میں سرعتِ دوران کی، روح میں بالید گی اور احساس میں اس شگفتگی کی جو جسیمِ صبح کے چھو جانے کے بعد کلی میں پیدا ہونے لگتی ہے۔ ” (۲۸)
“زندگی نام ہے صرف ریگ زار کی سی وحشت کا، بے آب و گیاہ سرزمین کی سی خشکی کا۔ ” (۲۹)
“جو کسی زمانے میں مخصوص تھا صرف جمیل مناظرِ قدرت کے مطالعے کے لیے۔ ”(۳۰)
“لیکن مجھ سے پوچھیے تو میں کہوں گا کہ وہ صرف کیفیت ہے روح کی، پیام ہے قلب کا۔ ”
عکسِ ترتیب سے جملے کی معنیاتی ساخت میں اگرچہ کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی تاہم تھوڑا زور اور جذباتی تاثر ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔
۲۔ ساختی متوازیت
ساختی متوازیت(Constructional Parallelism) کے نمونے وہاں پائے جاتے ہیں جب دویا دو سے زیادہ جملے جملے کے قریب الواقع اجزا نحوی ساخت کے اعتبار سے متوازی(Parallel) ہوں یعنی ان میں نحوی مماثلت یا مطابقت پائی جاتی ہو۔ ساختی متوازیت میں بالعموم الفاظ اور حروف (حروفِ عطف، حروفِ ربط وغیرہ) کی تکرار پائی جاتی ہے۔ لیکن خالص ساختی متوازیت کا انحصار ان چیزوں پر نہیں ہوتا بلکہ جملوں یا فقروں کے نحوی سانچوں اور شکلوں کی تکرار پر ہوتا ہے۔ ساختی متوازیت جزوی(Partial) بھی ہو سکتی ہے اور کُلی((Total) بھی۔ جزوی ساختی متوازیت کسی جملے کے دو یادو سے زیادہ متواتر اجزا کی نحوی تکرار سے تشکیل پاتی ہے جب کہ کُلی ساختی متوازیت میں ایک جملہ دوسرے متواتر جملے یا جملوں سے مکمل طور پر نحوی مطابقت رکھتا ہے۔ کلی ساخت متوازیت کو، توازن، (Balance) بھی کہتے ہیں۔
متوازیت نیاز فتح پوری کے نثری اسلوب کی ایک ایسی نمایاں خصوصیت ہے جس سے کوئی بھی قاری صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ ان کی ہر تحریر میں خواہ وہ افسانہ ہو یا انشائیہ تنقید ہویا تبصرہ، مکاتیب ہوں یا ملاحظات ، متوازی ساختوں کے نمونے قدم پر مل جائیں گے۔ وہ اس خوبصورتی کے ساتھ متوازی ساختے(Parallel Constructions) تشکیل دیتے ہیں کہ پڑھنے والا مسحور ہو جانا ہے۔ نیاز کے اسلوبِ نثر کا یہ ایک بہت بڑا امتیاز ہے جس کی طرف ہر قاری کی توجہ فوراً مبذول ہو جاتی ہے۔ نیاز کے متوازی ساختے خواہ جزوی ہوں یا کُلی، اپنے اندر شعر کی سی نغمگی اور دلکشی رکھتے ہیں اور غالباً انھیں کے لیے ”شعر منثور” کی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔
(الف) جزوی ساختی متوازیت:
“وہ گھٹنوں مندر کے اندر تنہا بیٹھا رہتا، کسی فکر میں مستغرق کسی خیال میں منہمک۔ ”(۳۱)
“میرے نزدیک محبت نام ہے ایک بے غرض انہماک کا، ایک خود فراموش محویت کا۔ ”(۳۲)
“کیسی کیسی چاندنی راتیں آئیں اور ختم ہو گئیں، کیسی کیسی متوالی گھٹائیں آئیں اور گزرگئیں، لیکن ایک دن بھی، کھُل کھیلنے کا بہانہ تم نے ہاتھ نہ آنے دیا۔ ”(۳۳)
“عورت۔ ۔ ۔ ۔ ایک روشنی ہے جسے ہم چھو سکتے ہیں، ایک نکہت ہے جس سے ہم گفتگو کر سکتے ہیں، ایک حلاوت ہے جو ہاتھوں سے چکھی جا سکتی ہے، ایک موسیقی ہے جو آنکھوں سے سنی جا سکتی ہے۔ ”(۳۴)
“ساحلِ قلابہ کی تاریکی میں صرف ایک ہی روشنی جگمگا رہی تھی کہاں؟ میرے پہلو میں، میری آغوش میں، میری نگاہ کے سامنے، میرے لبوں سے نزدیک اور میری روح کے اندر۔ ”(۳۵)
“یہ تو نے کیسے جانا کہ میں صرف تیرے جسم کا پرستار ہوں، صرف تیری صورت کا شیدائی ہوں۔ ”(۳۶)
“یہ صبح و شام اپنے صحیح فرائضِ زندگی کو بھول کر گھنٹوں تک سنورنے والیاں، یہ اپنے بیباک تسبموں، اپنی دلبر نگاہوں، اپنی جری و شوخ چتونوں سے دنیا کو مالوف کر دینے کی آرزو رکھتے ہوئے خود کسی سے محبت نہ کر سکنے والیاں۔ ”(۳۷)
“وہ وقت جس کی آرزو میں میری عمر کے سترہ سال ایک ایک دن کر کے گزرگئے تھے، وہ ساعت جس کا تخیل مجھے پہروں کا لج میں مست رکھتا تھا، وہ گھڑی جس کے انتظار میں لاکھوں تمنّائیں دل میں خوابیدہ تھیں، آئی۔ ”(۳۸)
(ب) کُلّی ساختی متوازیت:
“ہوا کا ہر ہر جھونکا خم کے خم لیے پھرتا ہے اور کوئی پینے والا نہیں۔ مینہ کا ہر ہر قطرہ نغمۂ جال سے لبریز ہے اور کوئی اس کا سننے والا نہیں۔ ”(۳۹)
“بجلی چمکی تھی اور تمھارا تبسم نگاہوں میں پھر جاتا تھا۔ سور شمشاد ہوا سے جھومتے تھے اور تمھاری رعنائیاں آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھیں۔ ساغر میں شراب چھلکتی ہوئی دیکھتا تھا اور تمھاری آنکھوں کا تصور ستانے لگتا تھا۔ ”(۴۰)
“ہو آتی ہے اور میری آنکھوں میں اپنی گرمی چھوڑ جاتی ہے۔ نسیم چلتی ہے اور میرے کانوں میں اپنی ٹھنڈی سانسیں بھر جاتی ہے۔ کہ منتشر ہوتا ہے اور اپنے سیاہ کفن سے مجھ ے ڈھک لیتا ہے بادل اٹھتا ہے اور مجھ پر برہم ہو کر برس پڑتا ہے۔ ”(۴۱)
“اس کا صحیح و توانا جسم، جس کے اندر شباب نے اپنا مخصوص رنگ بھر کر یکسر مینائے رنگین بنا دیا تھا۔ اس کی بری بڑی سیاہ آنکھیں، جن سے زہرہ ہر وقت افسوس کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کا سڈول جسم، جس کے ہر ہر عضو سے بہار کا مفہوم پیدا تھا۔ ”(۴۲)
“کیا شبنم سبزۂ پامال سے دریافت کر کے اس کو نہال کرتی ہے۔ کہا آبِ نیساں صدفِ تشنہ کام سے پوچھ کر اس کی پیاس بجھاتا ہے۔ کیا نسیم صبح کلیوں سے امتزاج کر کے ان کو شگفتہ کرتی ہے۔ کیا بارش کا چھینٹا کھیتوں سے اجازت طلب کر کے ان کو سیراب کرتا ہے۔ ”(۴۳)
ساختی متوازیت ایک جذبہ انگریز طرزِ بیان ہے۔ اس کا مقصد جذبے کو ابھارنا ہے۔ متوازی ساختوں کے ذریعے یہ کام کئی طرح سے لیا جاتا ہے۔ کہیں ان چیزوں سے گنتی یا ترتیب کا کام لیا جاتا ہے۔ کہیں یہ مترادفات کا کام انجام دیتے ہیں اور کہیں ان سے بیان میں وضاحت پیدا کی جاتی ہے۔ ان سب سے قطع نظر متوازی ساختے عبارت میں ایک ایسا آہنگ یا پیٹرن پیدا کر دیتے ہیں جو صرف شعر میں پایا جاتا ہے۔ اسی لیے نیاز کی نثر کو ”مترنم نثر” یا ” شعر منثور” بھی کہا گیا ہے۔
۳۔ عکسِ متوازیت:
یہ ساختی متوازیت کا عکس یا تقلیب ہے۔ جب دو متواتر جملے یا ان کے اجزا ایک دوسرے کا معکوس ہوں تو اسے عکسِ متوازیت(Chiasmus) کہتے ہیں۔ اس میں نہ صرف الفاظ و تراکیب کی ترتیب الٹ جاتی ہے، بلکہ اکثر نحوی سانچوں میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ نیاز فتح پوری کے اسلوب نثر کی یہ بھی ایک اہم خصوصیت ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
“تیری آواز صدائے ساز ہے یا صدائے ساز تیری آواز۔ ” (۴۴)
“ایک مرد عورت کو یہی سکھاتا ہے کہ اسے ایک بیوی کیسے بننا چاہیے۔ اور ایک عورت مرد کو یہ سکھاتی ہے کہ اسے ایک اچھا شوہر کیسے بننا چاہیے۔ ”(۴۵)
“جوانی میں بوڑھا ہو جانا اتنا مشکل نہیں جتنا بڑھاپے میں جوان ہونا۔ ”(۴۶)
“کیا عرض کروں وہ کیا بات تھی، بات کیا تھی ایک کیفیت تھی بدن میں سنسنی کی، دماغ میں نشے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”(۴۷)
“بمبئی کا بہترین حُسن کی بہترین خود آرائیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” (۴۸)
عکسِ متوازیت کا استعمال ساختے کے دوسرے حصّے پر جو پہلے حصّے کا معکوس ہوتا ہے، زور پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اس سے نئے معنی بھی پیدا ہوتے ہیں اور معنیاتی تبدیلی بھی واقع ہوتی ہے۔
۴۔ تکرار:
تکرار(Repetition) زبان میں جذباتی طرز پیدا کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے، اس کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب متکل کسی جذباتی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے، تکرار سے متکلم کی ذہنی کیفیت کا بھی پتا چلتا ہے۔ جب متکل کا دل جوش اور جذبے سے معمور ہوتا ہے تو الفاظ کے اتار چڑھاؤ، جملوں اور فقروں کی ترتیب اور ادائگی، نیز گفتگو کے عام انداز اور لب و لہجے میں تو فرق آتا ہی ہے الفاظ، تراکیب اور فقروں کی تکرار بھی واقع ہوتی ہے تکرار کا جذباتی اور تاثراتی زبان سے گہرا تعلق ہے۔ جوش اور جذبے کے اظہار کے علاوہ تکرار سے بیان میں شدّت پیدا کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اس سے غصّہ، عمل کی یکسانیت، تھکن، بیزاری اور مایوسی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ نیاز فتح پوری کی تحریروں بالخصوص ان کے انشائیوں اور افسانوں میں تکرار کے نت نئے پیرائے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
“نہیں، میں نہیں سننا چاہتی، اپنے سوال کا جواب تجھ سے نہیں چاہتی۔ ”(۴۹)
“مردانہ جذبات! میں نہیں سمجھی کس قدر عجیب بات ہے، ایک عورت میں مردانہ جذبات؟ صاف صاف کہہ، یہ مردانہ جذبات کیسے ہوتے ہیں۔ میں سننا چاہتی ہوں کہ وہ کیا کیفیت ہے جو صرف مردوں میں مخصوص سمجھی جاتی ہے، لیکن ہاں تو نے ایک عورت ہو کر یہ کیسے معلوم کیا کہ وہ جذبات مردانہ ہیں؟مردانہ! مردانہ!! اُف کس قدر مکروہ، کیسا قابلِ نفرت لفظ ہے۔ ”(۵۰)
“ہمارے ملک میں عورتیں مردوں ہی کے ساتھ تعلیم پاتی ہیں۔ اس لیے وہ مردوں ہی کی طرح سوچتی ہیں، مردوں ہی کی طرح بولتی ہیں اور مردوں ہی کی طرح اپنی زندگی بسر کرتی ہیں۔ (۵۱)
“میں کانپ رہا تھا، میرے جسم کا ایک ایک ریشہ کانپ رہا تھا۔ ”(۵۲)
“میں تیرے حسن تحائف واپس کرتا ہوں کہ یہ تیرے ہی حسین جسم کے لیے موزوں ہیں۔ ”(۵۳)
“ماضی کی داستان بھی کس قدر پر لطف داستان ہے۔ ”(۵۴)
“ساون کی وہ سیاہ رات، رات کی وہ امنڈ پڑنے والی تاریکی، وہ پہاڑوں اور جنگلوں کو ہلا دینے والی گرج اور پھر اس کے تاریک پردے سے فطرت کا وہ زہرہ گداز تبسم برق، یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب اس رات کی کبھی صبح نہ ہو گی۔ ”(۵۵)
نیاز فتح پوری کے یہاں تکرار کی ایک ترادفی شکل بھی ملتی ہے جس میں مترادف الفاظ و تراکیب اور فقروں کے استعمال سے مفہوم کی تکرار پیدا کی جاتی ہے۔ اسے ترادفی تکرار(Synonymical Repetition) کہہ سکتے ہیں۔ نیاز کے یہاں اس کے بڑے اچھے نمونے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً۔
“میرے دماغ کا وزن کیوں ہلکا ہو رہا ہے، میں اپنے آپ کو کیوں سُبک محسوس کر رہی ہوں۔ ”(۵۶)
“تُف ہے تمھاری جوانی پر اور حیف ہے تمھارے شباب پر۔ ”(۵۷)
“میں تجھے کیسے پوجوں؟ اپنے جذبۂ پرستاری کی آگ کو کیوں کر ٹھنڈا کروں؟”(۵۸)
“وہ اپنی نگاہوں کے افسوں اور باتوں کے جادو سے سب کو مسحور کیا کرتی تھی۔ ”(۵۹)
“میں یہ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں کہ تو دولت مند ہے، میں یہ معلوم کر کے مسرور ہوتا ہوں کہ تو ذہین و قابل ہے۔ ” (۶۰)
“حقیقت یہ ہے کہ اسے اپنے حسن پر بڑا غرور تھا، بڑا پندار تھا۔ ”(۶۱)
۵۔ شماریت:
نیاز فتح پوری کے اسلوب کی ایک خصوصیت شماریت(Enumeration) بھی ہے۔ یہ بیان کا ایک طرز ہے جس میں مختلف اشیاء یا افعال(Actions) کا ایک ایک کر کے نام گنایا جاتا ہے جس سے ایک زنجیرسی بن جاتی ہے۔ اس سے جملے کی نحوی ترتیب میں کوئی فرق نہیں آتا۔ جن اشیاء کا ایک ایک کر کے نام لیا جاتا ہے وہ بالعموم ایک ہی زمرے یا قبیل سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں ایک قسم کا معنیاتی ربط پایا جاتا ہے اور یہ کسی بھی طرح تسلسلِ بیان کو مجروح نہیں ہونے دیتا۔ چند مثالیں:
“یہ شمعدان، یہ گلدان یہ دروازوں کے پردے، یہ دیواروں کے نقش و نگار، الغرض ہر چیز مجھ سے دور ہٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ”(۶۲)
“تمام احاطہ در و دیوار، محراب، زینہ، چھت، ستون، غرض اس عمار کا کوئی حصّہ ایسانہ تھا جہاں پھول ہی پھول نہ نظر آتے ہوں۔ ” (۶۳)
“لکھنؤ کی شاعری میں الفاظ کی طلسم بندی، کنگھی، چوٹی، انگیا، آنچل، آرسی، سرمہ، بے معنی صنائع و بدائع اور اسی قسم کی بہت سی سطحی و غیر سنجیدہ خصوصیات کے پیدا ہونے کا سبب یہی تھا۔ ” (۶۴)
“اسی کے ساتھ چہرہ کا غازہ، رخسار کی گلگونی، لبوں کی سُرخی، آنکھوں کی گہری سرمگینی، بالوں کی تموجی آرائش، یہ بھی کوئی غیر معمولی چیز نہ تھی۔ ۔ ۔ ” (۶۵)
“میں نے دیکھا کہ موجیں ہت گئیں، مچھلیاں چلی گئیں، آفتاب نے کیچڑ کو خشک کر دیا اور ہوا پتیاں اڑا لے گئی۔ ” (۶۶)
۶۔ تضاد(Antithesis) :
نیاز فتح پوری اشیاء یا مظاہر کو ایک خاص انداز سے بیان کرنے کے لیے ان میں اور دوسری اشیاء یا مظاہر میں مماثلت یا تناسب کے علاوہ تضاد بھی تلاش کرتے ہیں۔ تضاد منطقی بھی ہوتا ہے اور اسلوبیاتی بھی منطقی تضاد کسی بھی طرح کے دو لفظوں میں جو ایک دوسرے کی ضد ہوں دیکھا جا سکتا ہے۔ انھیں متضاد الفاظ(Antonyms) کہتے ہیں۔ مثلاً خیر و شر، نیک و بد، لیل و نہار، صبح و شام، زمین و آسمان یا آگے پیچھے، اوپر نیچے، دائیں بائیں وغیرہ۔ اسلوبیاتی تضاد متضاد الفاظ کے خالی خولی استعمال سے نہیں پیدا ہوتا، بلکہ ان کے استعمال میں جدّت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کا تعلق زیادہ تر عبارت کے سیاق و سباق سے ہوتا ہے۔ اسلوبیات تضاد بالعموم متوازی کی ساختوں(Parallel construction) کی طرز پر ڈھالا جاتا ہے، لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں ہے۔ متوازی ساختوں کی وجہ سے عبارت میں ایک مخصوص قسم کا آہنگ یا پیٹرن پیدا ہو جاتا ہے۔ اسلوبیاتی تضاد کا ایک مقصد دو چیزوں میں تقابل بھی ہے جس کی بہترین مثال نیاز فتح پوری کے اس جملے میں پائی جاتی ہے۔ یہ جملہ متوازیت کی بھی ایک اچھی مثال پیش کرتا ہے:
“اُدھر سورج ڈوب رہا تھا اور اِدھر ایک بدرِ کامل طلوع ہو رہا تھا۔ ” (۶۷)
اس جملے کے نہ صرف دونوں متوازی ساختے ایک دوسرے کی ضد ہیں بلکہ ان کے ہر ہر لفظ میں تضاد پایا جاتا ہے۔ (بہ استثناء ”ایک”)
اُدھر اِدھر
سورج بدرِ کامل
ڈوب رہا تھا طلوع ہو رہا تھا
اُدھر سورج ڈوب رہا تھا اِدھر (ایک) بدرِ کامل طلوع ہو رہا تھا
تضاد کی ایک عمدہ مثال ذیل کی عبارت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ پوری عبارت کلی ساختی متوازیت کا بھی ایک بہترین نمونہ ہے جس کا ہر متوازی ساختہ ایک دوسرے کی ضد ہے اور جسے حرفِ عطف ”اور” سے جوڑا گیا ہے۔
“گویا ایک زرّیں شعاع تھی جو دفعتہً نمودار ہوئی اور پھر چھپ گئی۔ ایک ابتسامِ لطف تھا جس نے طلوع کیا اور پھر فوراً ہی تاریکیوں میں پوشیدہ ہو گیا۔ ایک نورِ فکر تھا جو ایک لمحہ کے لیے چمکا اور بحرِ عدم میں ڈوب گیا۔ ایک معطر پھول تھا جو تھوڑی دیر اپنی نکہت سے سُکر پیدا کر کے مرجھا گیا۔ ایک نغمۂ محبت تھا جو ایک ساعت کے لیے تموج میں آیا اور پھر ہاویۂ سکون میں غائب ہو گیا۔ ” (۶۸)
(ج) معنیاتی تجزیہ
جب ہم کلام کرنے کے لیے لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں تو انھیں آپس میں جوڑنا اور ترکیب دینا پڑتا ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں، کیوں کہ ایک لفظ کو دورے لفظ کے ساتھ ترکیب دیتے وقت ہم پر بہت سی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں، مثلاً ہمارا لسانی شعور یہ کہتا ہے کہ ‘لبی رسی’ اور ‘اونچا درخت’ کی ترکیبیں بالکل درست ہیں۔ اس کے برعکس اگر ‘اونچی رسی’ اور لمبا درخت، کہیں تو یہ معنیاتی اعتبار سے بے میل اور بے قاعدہ سمجھا جائے گا کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ جسامت کے اعتبار سے جو چیز عمودی یعنی’کھری ہوتی’ ہے اس میں اونچائی ہوتی ہے اور جو یہ چیز فقی یا، پڑتی، ہوتی ہے اس میں لمبائی پائی جاتی ہے۔ اس رو سے لمبی رسّی، لمبی پنسل یا لمبا راستہ کہنا درست ہو گا اور اونچا راستہ اونچی پنسل یا اونچی رسّی کہنا ناردست۔ انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں عائد اس پابندی کو انتخابی پابندی(Selectional Restrictions) کہیں گے۔ اگر کوئی شخص ان پابندیوں یا ضابطوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ لسانی نارم(Norm) سے انحراف کا مرتکب ہوتا ہے۔ انتخابی پابندیاں ہمیں معنیاتی اعتبار سے دو بے میل(Incompatible) الفاظ یا کلموں کو باہم ترکیب دینے سے روکتی ہیں۔ اسے ایک اور مثال بھی واضح کیا جا سکتا ہے: ہنسنا ایک انسانی عمل یا عادت ہے، مثلاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بچّہ ہنس دیا، لڑکے ہنسنے لگے یا مجھے ہنسی آ گئی۔ لیکن بے جان چیزوں کے لیے لفظ ‘ہنسنا’ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کرسی ہنسنے لگی، یا کمرے کو ہنسی آ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابی پابندیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کرسی، کمرہ اور اسی قبیل کے اور بہت سے اسماء کے ساتھ لفظ ‘ہنسنا’ اور اس کے تصریفی شکلوں کو ترکیب نہیں دے سکتے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ انتخابی پابندیوں یا ضابطوں سے انحراف تصوّر کیا جائے گا، اور زبان میں بے قاعد گی(Anomaly) کا موجب قرار پائے گا۔ لیکن ادب بالخصوص شاعری میں اس قسم کے انحرافات کو پسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور انھیں اظہار کی جدّت ، انوکھے پیرایۂ بیان، الفاظ کے نئے تلازمات اور نئے لسانی سانچوں کی تشکیل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (۶۹) اور یہ چیزیں کسی مصنف یا شاعر کے اسلوب کی انفرادیت کی ضامن قرار پاتی ہے۔ مثلاً پرکاش فکری کا یہ مصرعہ دیکھیے:
میرے کمرے کو ہنسی آئے گی تھوڑی دیر میں
یہاں شاعر نے کمرہ (بے جان اسم) کو فعل ہنسی (انسانی عمل یا عادت) کے ساتھ ترتیب دیا ہے، جو انتخابی پابندی کی مبیّنہ خلاف ورزی ہے۔ ‘کمرے’ اور’ ہنسی’ کی ترکیب معنیاتی عدم مطابقت کی وجہ سے بے میل ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں زبان میں انحراف پیدا ہو گیا ہے لیکن مذکورہ مصرعہ میں یہ چیز اظہار کی جدّت اور انوکھے پیرایۂ بیان کی حامل ہے۔ اُردو میں انتخابی پابندیوں سے انحراف کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں:
ہنستی ہوئی گئی ہے صبح، پیار سے آ رہی ہے شام
(جمیل الدین عالیؔ)
اداس شام دریچوں میں مسکراتی ہے
(پروین شاکر)
حدِّ افق پہ شام تھی خیموں میں منظر
(وزیر آغا)
یادیں رہ جاتی ہیں ڈسنے کے لیے
(شہریار)
تمام رات بُنے خواب اس کی یادوں کے
(انور سدید)
پتیوں کے لحافوں میں دبکی ہوئی سو رہی تھی ہوا
(راہی معصوم رضا)
مذکورہ نمونے شاعری سے پیش کیے گئے ہیں جہاں انتخابی پابندیوں سے انحراف ایک عام بات ہے، بلکہ شعری زبان کا ایک وصف ہے۔
نیاز فتح پوری نے نثر میں انتخابی ضابطوں سے انحراف کر کے شعر جیسی دلکشی پیدا کر دی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں جو زیادہ تر ان کے افسانوں اور انشائیوں سے لی گئی ہیں:
“میری آنکھیں نازک حنائی انگلیوں کو چوم رہی تھیں۔ ” (۷۰)
“ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمندر بیدار ہو کر آہستہ آہستہ آنکھیں کھول رہا ہے۔ ” (۷۱)
“پھول کنارِ راہ میں مسرور نظر آتے تھے۔ ” (۷۲)
“چاند چادر سیمیں پھیلا کر اس پر اترنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ”
“جمنا اپنی نیلگوں چادر میں چاند کا مکھڑا چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ”
“جب رات زیادہ بلوان ہو چکی۔ ” (۷۳)
“چاندنی رات تھی، خانقاہ کے نیچے بہنے والی ندی میں چاند نے چراغاں کر رکھا تھا۔ ” (۷۴)
“شہزادی ریحانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساحلِ بحر پر کھڑی دیکھ رہی تھی کہ جب آفتاب سمندر کے اندر سے تازہ تازہ نہا کر باہر نکلتا ہے تو کائنات کی ہر چیز اس کی پذیرائی کس طرح کرتی ہے۔ ” (۷۵)
“سمندر ہنس کر لہریں لیتا ہے اور ساحل پر اپنی زرد شعاعیں پھیلاتا ہے۔ لہریں بے معنی نظمیں بچوں کو سنا یا کرتی ہیں، جیسے ماں پالنا ہلاتے وقت۔ سمندر بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ ” (۷۶)
“ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میری آنکھوں سے اس وقت موسیقی نکل نکل کر تمام وادی میں گونج رہی ہے۔ ” (۷۷)
حواشی و حوالے:
۱۔ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں: ”میرے والد فارسی کے بڑے مشہور شاعر و انشا پرواز تھے۔ غزل سے انھیں بہت کم دلچسپی تھی۔ صرف قصائد لکھتے تھے، اور وہ بھی نعت و منقبت میں۔ صہبائی کے شاگرد تھے اور غالب کی فارسیت کے شیدائی۔ اس وقت فارسی تعلیم کا رواج کافی تھا اور صبح کو میرا مکان ایک اچھا خاصا درس گاہ ہو جاتا تھا جہاں زیادہ تر پختہ عمر کے لوگ میرے والد سے فارسی پڑھنے آ جاتے تھے۔ ” (دیکھیے نیاز فتح پوری، والدِ مرحوم، میں اور نگار” مشمولہ نگارِ پاکستان (نیاز نمبر) ، حصّہ اول، سالنامہ ۱۹۶۳ء، ص ۳۱)
۲۔ نیار نے عربی اپنے وطن (فتح پور) کے مدرسۂ اسلامیہ میں مولانا نور محمد صاحب سے پڑھی جو عربی کے عالم تھے اور صرف و نحو، فقہ و حدیث اور منطق وغیرہ میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ” میں مدرسۂ اسلامیہ میں عربی کا درسِ نظامی حاصل کر رہا تھا اور گھر پر والد سے فارسی پڑھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عربی میں درسِ نظامی کا بڑا حصہ ختم کر کے اس حد تک پہنچ گیا تھا جب صرف و نحو اور منطق کی ضرورت تعلیم کے بعد اونچی تعلیم شروع ہوتی ہے۔ ” (دیکھۓ ایضاً ، ص ۳۱)
۳۔ بہ حوالہ امیر عارفی ، نیاز فتح پوری (نئی دہلی: انجمن ترقیِ اردو (ہند) ، ۱۹۷۷ء) ، ص ۵۱
۴۔ محمد اسحاق صدیقی نے امیر عارفی کو ایک انٹر و یو دیتے ہوئے یہ کہا کہ ”میں نے ترکی زبان کے کچھ سبق نیاز صاحب سے پڑھتے تھے۔ نیاز صاحب کو ترکی زبان پر خاص عبور تھا (دیکھۓ امیر عارفی ، محولہ کتاب ، ص ۱۰۶)
۵۔ نیاز فتح پوری ، “والدِ مرحوم، میں اور نگار” مشمولہ نگارِ پاکستان (نیاز نمبر) ، حصّہ اول، سالنامہ ۱۹۶۳ء ، ص ۳۹۔
۶۔ نیاز جس زمانے میں مدرسۂ اسلامیہ، فتح پور میں زیر تعلیم تھے تو اس وقت ان کی عمر ۱۲، ۱۳سال کی تھی۔ اس زمانے میں انھیں شعر کہنے کا بھی شوق پیدا ہو گیا تھا۔ وہ ”فارسی میں کبھی کبھی اور اردو میں اکثر ” شعر کہا کرتے تھے۔
۷۔ نیاز فتح پوری ، ”والدِ مرحوم ، میں اور نگار ” مشمولہ نگارِ پاکستان (نیاز نمبر) ، حصّہ اول ، سالنامہ ۱۹۶۳ء، ص ۳۶۔
۸۔ دیکھۓ محمد حسن کا مضمون ” نیاز فتح پوری ” مشمولہ شناسا چہرے (محمد حسن) ، کراچی :غضنفر اکیڈمی پاکستان ، ۱۹۷۸۔ ص ۹تا ۲۰۔
۹۔ جوش ملیح آبادی ، ”حضرتِ نیاز فتح پوری ” مشمولہ نگارِ پاکستان (نیاز نمبر) حصہ اول ، ص۴۲۔
۱۰۔ فراق گورکھپوری ، ”آشفتہ بیانی میری” ، مشمولہ نگارِ پاکستان (نیاز نمبر) حصّہ اول، ص ۴۵
۱۱۔ مجنوں گورکھ پوری ، ”جدید اردو نثر ، نیاز فتح پوری اور نئی نسل” مشمولہ نگارِ پاکستان (نیاز نمبر) ، حصّہ اوّل ،ص ۱۰۱۔ ۱۰۴۔
۱۲۔ ل۔ احمد اکبرآبادی ، ”نیاز فتح پوری کی ادبیت ” ، مشمولہ ایضاً ، ص ۹۵۔
۱۳۔ مالک رام ” نیاز اور نیازمند ” مشمولہ ایضاً ، ص ۵۸۔
۱۴۔ محمد حسن ، محولہ مضمون ، ص ۹
۱۵۔ نیاز فتح پوری ، ”یکے از غوازی مصر”، مشمولہ مذاکراتِ نیاز یا مقالات (لکھنؤ : نگار بک ایجنسی ، ۱۹۴۲ء) ، ص ۱۳
۱۶۔ نیاز فتح پوری ، ”از ماہ تابہ ماہی ” مشمولہ مذاکراتِ نیاز یا مقالات ، ص ۴۴۔
۱۷۔ نیاز فتح پوری ،”شبنستان کا قطرۂ گوہریں” مشمولہشبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے(کراچی : ادارہ ادب العالیہ ، ۱۹۶۰ء) ص ۳۔
۱۸۔ نیاز فتح پوری ، ”قربان گاہِ حسن ” مشمولہ ایضاً ، ص ۸۷۔
۱۹۔ نیاز فتح پوری ، شبنمستان کا قطرۂ گوہریں” مشمولہ ایضاً ص ۱۳۔
۲۰۔ نیاز فتح پوری ”درسِ محبت” مشمولہ ایضاً ، ص ۴۶۔
۲۱۔ نیاز فتح پوری ، “مکتوباتِ نیاز ” حصّہ اوّل (لکھنؤ : نگار بُک ایجنسی ، ۱۹۴۴) ، بارِ دوم ، ص ۱۲۳۔
۲۲۔ ایضاً ، ص ۱۷۸
۲۳۔ ایضاً ، ص ۱۹۔
۲۴۔ نیاز فتح پوری ، (تاملاتِ نیاز) ، ص ۱۰۔
۲۵۔ نیاز فتح پوری ”ایک شب کی قیمت” ، مشمولہ نگارستان (۱۹۳۹ء) ص ۷۶
۲۶۔ نیاز فتح پوری انتقادیات ، حصّہ اول (حیدرآباد دکن : عبد الحق اکیڈمی ، ۱۹۴۴ء) ص ۲۵۸۔
۲۷۔ نیاز فتح پوری ” برسات ” ، مشمولہ نگارستان (۱۹۳۹ء) ص ۸۵۔
۲۸۔ نیاز فتح پوری ”شبنمستان کا قطرۂ گوہریں ” مشمولہ شبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے، ص ۲۷۔
۲۹۔ ایضاً ص۱۹۔
ـ۳۰۔ نیاز فتح پوری ، ”درسِ محبت ” مشمولہ ایضاً ، ص ۴۴۔
۳۱۔ ایضاً ، ص ۶۷۔
۳۲۔ نیاز فتح پوری ، شہاب کی سرگزشت (لکھنؤ : نگار مشین پریس) ، ص ۱۳۔
۳۳۔ نیاز فتح پوری ، مکتوباتِ نیاز (حصّہ اوّل ) ، ص ۱۵۹۔
۳۴۔ نیاز فتح پوری ”عورت” ، مشمولہ نگارستان(۱۹۳۹ء) ، ص ۸۲۔
۳۵۔ نیاز فتح پوری ”ازماہ تابہ ماہی” ، مشمولہ مذاکراتِ نیاز یا مقالات ، ص ۲۶۔
۳۶۔ نیاز فتح پوری ”درسِ محبت” ، مشمولہ شبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے ص ۴۸۔
۳۷۔ نیاز فتح پوری ، شہاب کی سرگذشت، ص ۲۶۔
۳۸۔ نیاز فتح پوری ، ایک شاعر کا انجام (لکھنؤ : نگار مشین پریس) ، ص ۳۔ ۴
۳۹۔ نیاز فتح پوری مکتوباتِ نیاز (حصّہ اوّل ) ، ص ۱۱۱۔
۴۰۔ ایضاً ، ص ۱۷۸۔
۴۱۔ نیاز فتح پوری ، تاملاتِ نیاز، ص ۱۸۔ ۸۲
۴۲۔ نیاز فتح پوری ، ”درسِ محبت” مشمولہ شبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے ص ۶۸۔
۴۳۔ نیاز فتح پوری ، مکتوباتِ نیاز (حصّہ اوّل ) ، ص ۱۰۱۔
۴۴۔ نیاز فتح پوری ، ”ایک رقاصہ سے” ، مشمولہ نگارستان، ص ۷۲۔
۴۵۔ نیاز فتح پوری تاملاتِ نیاز ، ص ۲۴۔
۴۶۔ نیاز فتح پوری ، مکتوباتِ نیاز (حصّہ اوّل ) ، ص ۱۳۲
۴۷۔ نیاز فتح پوری ، شبنمستان کا قطرۂ گوہریں” ، مشمولہ شبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے، ص ۲۷۔
۴۸۔ نیاز فتح پوری ،شہاب کی سر گذشت ، ص ۱۲۶۔
۴۹۔ نیاز فتح پوری ، ”شبنمستان کا قطرۂ گوہریں،” مشمولہ شبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے ، ص ۲۴۔
۵۰۔ ایضاً ، ص ۲۴
۵۱۔ ایضاً ، ص ۱۴
۵۲۔ نیاز فتح پوری ، ”یکے از غوازی مصر” ، مشمولہ مذاکراتِ نیاز یا مقالات ، ص ۱۵۔
۵۳۔ نیاز فتح پوری ،”قربان گاہِ حسن” مشمولہ شبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے ، ص ۹۰۔
۵۴۔ نیاز فتح پوری ،چاند کا سفر” مشمولہ نگارستان، ص ۶۹۔
۵۵۔ نیاز فتح پوری ،”برسات” مشمولہ نگارستان، ص ۸۵
۵۶۔ نیاز فتح پوری ،شبنمستان کا قطرۂ گوہریں” مشمولہ شبنمستان کا قطرۂ گوہریں اور دوسرے افسانے ، ص ۱۰۔
۵۷۔ نیاز فتح پوری ،،مکتوباتِ نیاز (حصّہ اوّل ، ص ۱۴۴۔ )
۵۸۔ نیاز فتح پوری ،”درسِ محبت” شبنمستان کا قطرہ گوہریں اور دوسرے افسانے، ص۶۸
۵۹۔ نیاز فتح پوری ،”قربانِ حسن ” ، مشمولہ ایضاً ، ص ۸۶۔
۶۰۔ ایضاً، ص ۶۹۔ ۹۰
۶۱۔ ایضاً، ص ۶۲۔
۶۲۔ نیاز فتح پوری ، “شبنمستان کا قطرۂ گوہریں” مشمولہ ایضاً، ص۱۱
۶۳۔ نیاز فتح پوری ،”از ماہِ تابہ ماہی”مشمولہ مذاکراتِ نیاز یامقالات ، ص ۴۰۔
۶۴۔ نیاز فتح پوری ،”لکھنؤ و لکھنویات” ، مشمولہ ایضاً ، ص ۱۳۴