عمر اور صائم آدھا گھنٹہ پہلے ہی گھر پہنچے تھے اور تب سے دونوں نے پورے گھر کو سر پہ اٹھا رکھا تھا۔ مریم چپ چاپ بیٹھی دونوں کو بھنگڑا ڈالتے دیکھ رہی تھی۔ فاطمہ محلے میں کسی کے گھر گئی ہوئی تھی۔
“تم جیتو یا ہارو سنو ہمیں تم سے پیار ہے!!”۔ عمر صائم کو آنکھ مار کر بولا۔
“سیم ٹو یو “۔ صائم بھی گنگنایا۔
تب سے چپ بیٹھی مریم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
“تم دونوں اپنی بکواس بند کر کے مجھے بتاؤ گے کہ یہ پاگل پن کس وجہ سے ہو رہا ہے ؟؟؟ “۔ وہ دانت پیس کر بولی۔
“مبارک تو دیں ہمیں “۔ عمر بولا۔
“کس بات کی مبارک ؟؟ جب سے آئے ہو یہی کچھ کیے جا رہے۔۔۔ کچھ بتا تو رہے نہیں ہو “۔ مریم جھنجھلا کر بولی۔
“ہونا کیا تھا ہماری ٹیم پورے ایک رن سے ہار گئی”۔
“تم لوگ زندہ کیسے آ گئے وہاں سے ۔۔۔۔ گئے تو ایسے تھے جیسے چیمپین ٹرافی جیت کے آؤ گے ۔۔۔۔ نالائقو!! ناک ہی کٹوا دی ۔۔۔ اور ایک خبر سنو تمہارے بھائی صاحب کو پتا چل گیا ہے کہ تم دونوں سیالکوٹ گئے ہو “۔
“کیا؟؟؟ “۔ وہ دونوں چیخ کر بولے۔
“کیسے پتا چل گیا یار اب بھائی نے بہت کرنی ہے ہماری ۔۔۔۔ اف آپی ایک راز تک نہیں سنبھال سکی آپ “۔
مریم نے اسے گھور کر دیکھا۔
“میں کیوں بتاؤ گی اسے ؟؟ بھیجا بھی تو میں نے ہی تھا تم لوگوں کو پتا نہیں کس نے بتایا ۔۔۔۔ پر کوئی بات نہیں دیکھ لیں گے کیا کرتا ہے تمہارا بھائی ۔۔۔۔”۔
“یہ چھوٹی حرکت ظہیر بھائی کی ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں “۔ صائم پر یقین آواز میں بولا۔ ظہیر ان لوگوں کا کوچ تھا اور زائر کا دوست بھی تھا۔
عمر نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔
“بلکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم !!”۔
“امی مبارک ہو آپ کے دونوں سپوت ایک رن سے میچ ہار گئے ہیں “۔ اندر آتی فاطمہ کے گلے لگ کر عمر ہنستے ہوئے بولا۔
فاطمہ بھی ہنس پڑی اور ایک تھپڑ اس کے کندھے پر مارا۔
※••••••※
ایک مہینے بعد وہ تینوں دبئی سے واپس آ گئے تھے۔ احمد کو گھر چھوڑ کر زائر اور مرسلین آفس چلے گئے۔
اسلام علیکم !! آفس میں داخل ہونے کے بعد مرسلین بلند آواز میں بولا۔
وعلیکم اسلام !! فیصل اٹھ کر گرم جوشی سے ان کے گلے لگا۔ فیصل چینل کا ہیڈ تھا۔
“یہ لیجئے جناب سارے documents آج رات کے پروگرام میں سب documents دیکھا دیں گے پھر دیکھیں گے کیا ہوتا ہے”۔ زائر ایک فائل فیصل کے آگے رکھتے ہوئے بولا۔
“آصف اور ملیحہ نے بہت ہیلپ کی تھی میری تھینکس ٹو یو کہ آپ نے مجھے اتنا سپورٹ کیا “۔ آصف اور ملیحہ غیر ملکی صحافی تھے وہ ایک ایک نجی چینل سے منسلک تھے۔
“بھئی ہم تو بیٹھے ہی یہاں اس لیے ہیں کہ ہر اچھے ادارے سے کالی بھیڑیں نکالے ۔ ہمارے چینل کا اوالین مقصد یہی ہے۔ تم نے بہت اچھا کیا جو اس ٹاپک کو ہائی لائٹ کیا ۔اور جہاں رہی ہیلپ کی بات تو تم ہر جگہ ہر کام میں مجھے اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گے ۔۔۔”۔ وہ گرم جوشی سے بولے۔
زائر کو کسی نے اطلاع دی تھی اس شہر کے سب کے بڑے این جی او آڑ میں کچھ غیر قانونی کام ہو رہا تھا۔ وہ شخص خود بھی اس این جی او سے منسلک تھا۔ اس کے ثبوت دیکھانے پر زائر اور اس کی ٹیم نے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے کا سوچا تھا۔ جو ثبوت ان کے پاس تھے وہ ناکافی تھے ۔ اس لیے وہ اس پر اور کام کر رہے تھے۔ دبئی میں اس شخص کی رہاش تھی جو این جی او کا ہیڈ تھا۔ ہر سال اس این جی او کو ایک بھاری رقم امداد کی صورت میں ملتی تھی جس میں سے کچھ درگز میں استعمال ہوتا تھا اور باقی کی رقم آپس میں بانٹ لی جاتی تھی۔
این جی او کے پیچھے اور بھی طاقت ور لوگ تھے۔ یہ این جی او دس سال پرانی تھی اور ملک کے بڑے بڑے لوگ بھی اس سے منسلک تھے ۔ اس وجہ سے پہلے اگر کسی نے ان کے خلاف کاراوائی کا سوچا بھی تھا تو یا تو کیس ختم ہو جاتا تھا یا پھر اس انسان کو ہی خاموش کر دیا جاتا تھا۔ مرسلین بھی اس کیس کی ساری ہسٹری جانتا تھا۔ اس نے پہلے زائر کو اس کیس پر کام کرنے سے روکا تھا۔
“تم کیوں اس کام میں ٹانگ اڑا رہے ہو جن لوگوں کا کام ہے انہیں کرنے دو ۔۔۔ وہ بہتر طور پر ڈیل کر سکتے ہیں ایسے لوگوں کو۔۔۔”۔
“کون لوگ ؟؟؟ “۔
“پولیس اور بھی بہت سارے ڈیپارٹمینٹ ہیں جو ان کے خلاف کاروائی کر سکتے ہیں “۔
“اچھا !! نئی اطلاع ہے میرے لیے ۔۔۔۔ اگر ان لوگوں نے کچھ کرنا ہوتا نا تو اب تک کر چکے ہوتے ۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں کم از کم آرام سے نہیں بیٹھ سکتا جب تک ان لوگوں ان کے انجام تک نہیں پہنچا دیتا۔۔۔۔ اور مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی مجھے سپورٹ کرنے کی بجائے تم مجھے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے ہو “۔
“زائر میں تمہیں پیچھے ہٹنے کا نہیں کہہ رہا تم کرو جو بھی کرنا ہے مگر کسی ایک کو اعتماد میں لے کر ساری بات بتاؤ ان سے ہیلپ کا کہو تم پیچھے رہ کر بھی کام کر سکتے ہو “۔ اس کا اشارہ پولیس کی جانب تھا۔
“مجھے کسی پر بھی اعتماد نہیں ہے اگر کسی کو بھی پتا چلا کہ ہم اس کیس پر کام کر رہے ہیں تو کوئی ہمیں کام نہیں کرنے دے گا اسی لیے یہ بات صرف ہم میں رہے گی۔۔۔۔ سمجھے”۔
“ٹھیک ہے !!”۔ یہ بات زائر کی ٹیم کے پانچ لوگ ، فیصل ، مرسلین اور احمد جانتے تھے۔ مرسلین اور احمد اسی وجہ سے دبئی گئے تھے اور سائےکی طرح اس کے ساتھ رہے تھے۔
“آج کرو گے پروگرام یا کل ؟؟”۔
“نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے آج کرتے ہیں پروگرام اور جن لوگوں کی لسٹ آپ کو دی تھی انہیں انوائٹ کرنا ہے “۔
“ہاں ان کو انفارم کر دیا ہے ۔۔۔ بیسٹ آف لک !!”۔
“تھینک یو “۔ وہ دونوں آفس سے باہر آ گئے۔
“گھر بھی چکر لگا آؤ تب تک ابھی کافی ٹائم ہے تمہارے ٹاک شو میں ۔۔۔”۔ مرسلین اس سے بولا۔
“نہیں یار کام ختم کر کے جاؤ گا تم جاؤ اور گاڑی میں سامان پڑا ہے وہ گھر دیتے ہوئے جانا”۔
“دونوں اکٹھے ہی جائیں گے تم تیاری کرو تب تک میں سب کا حال چال پوچھ لوں۔۔۔”۔ زائر نے اسے کالر سے پکڑ کر روکا۔
“شرافت سے گھر جاؤ میں ننھا بچہ نہیں ہوں جو اکیلے نہیں جا سکتا ۔۔۔۔ اگر ایک گھنٹہ بھی اور گھر سے باہر رہے نا تم تو تمہارے تایا نے گھر سے نکال دینا ہے تمہیں دھکے دے کر اور ہاں گھر بدر ہو کر میرے پاس مت آنا میرے گھر میں جگہ نہیں ہے “۔ زائر اپنے آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔
“بےمروت ، بےحس ، بےشرم انسان ۔۔۔ جا رہا ہوں میں گھر اور آئندہ مجھ سے بات مت کرنا”۔
“اوکے “۔ زائر سکون سے بولا۔
مرسلین اسے گھور کر چلا گیا۔
※••••••※
اسلام علیکم گھر والو !! مرسلین گھر میں داخل ہو کر بلند آواز میں بولا۔
“وعلیکم اسلام میرا بچہ”۔ زارا نے سب سے پہلے اسے گلے لگا کر کہا۔ سارا سے ملنے کے بعد وہ ، مومل ، فضا کی طرف متوجہ ہوا ۔
“کیسی ہو تم دونوں اور فہد کہاں ہے ؟؟”۔ ان دونوں سے ملنے کے بعد اس نے فہد کا پوچھا۔
“اپنے کمرے میں ہے وہ میں بلاتی ہوں اسے”۔ فضا کہہ کر اوپر کی طرف بھاگی۔
“امی !! ابو اور تایا آفس گئے ہیں ؟؟”۔ اس نے کچن سے آتی سارا سے پوچھا۔
“ہاں بیٹا کہہ رہے تھے آج میٹنگ ہے اس لیے جلدی نکل گئے تھے تم چینج کر لو میں کھانا لاتی ہوں تمہارے لیے۔” مرسلین اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
اس کا کمرہ اوپر تھا اس کے ساتھ فہد کا کمرہ اور سامنے ہادیہ اور کا کمرہ تھا۔
مرسلین نے دروازہ کھٹکھٹا کر اندر جھانکا ۔
ہادیہ کپڑے تہہ کرنے میں مگن تھی ۔
“کیا حال ہے دشمنوں ؟؟”۔مرسلین کے اچانک بولنے پر ہادیہ نے چیخ ماری ۔
“اللّٰہ کی بندی کیوں سارے گھر والوں کو اکٹھا کرنا ہے میں نے کون سا پٹاخہ چھوڑا ہے حال ہی پوچھا تھا بس”۔ مرسلین نے بوکھلا کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔
“بدتمیز انسان ایسے پوچھتے ہیں حال ڈرا کے رکھ دیا مجھے “۔ ہاتھ میں پکڑے کپڑے اس کے منہ پر مارتے ہوئے بولی۔
“اور کیسے پوچھتے ہیں حال تم ہی بتا دو “۔ مرسلین چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ ہادیہ نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔
“پوچھ لیا نا حال اب جاؤ “۔
“ابھی کہاں ابھی تو میں آیا ہوں ۔۔۔ باتیں کرو مجھ سے اچھا بتاؤ کہ ایک ہفتہ میرے بغیر کیسے گزرا ؟؟”۔ مرسلین صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
“بہت اچھا، پرسکون ، ایسے لگ رہا تھا جیسے میں جنت میں ہوں !!”۔ ہادیہ کے پرسکون انداز پر وہ اچھلا۔
میرے ہوتے ہوئے تمہیں کون سی بےسکونی تھی اور کونسی جہنم میں رہ رہی تھی تم؟؟؟”۔ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔
“مجھے بتانے کی کیا ضرورت ہے ابھی دیکھ لو “۔
“ہاں تو کیا ہوا میں آئندہ بھی ایسے ہی کروں گا”۔
ہادیہ نے افسوس سے اسے دیکھا۔
“میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں میرے لیے کافی لے کر آؤ دس منٹ میں “۔ وہ اسے حکم دے کر کمرے سے نکل گیا۔
“ہنہ !! حکم تو ایسے دے رہا ہے جیسے میں اس کی نوکرانی ہوں “۔ ہادیہ بول کر پھر سارا کچھ وہی پھینکا اور جھنجھلاتے ہوئے نیچے چلی گئی۔
※••••••※
“یار بھائی پتا نہیں کتنا ناراض ہیں جو گھر ہی نہیں آئے اپنا بیگ بھی مرسلین بھائی کے ہاتھ بیجھوا دیا ہے”۔ عمر سنجیدگی سے بولا۔
“تمہارا بھائی گھر چھوڑ تو نہیں چلا گیا “۔ مریم ہنستے ہوئے بولی۔
“میرا بھائی آپ کا بھی کچھ لگتا ہے “۔
“ہاں ہاں زائر عباس صاحب “۔ عمر کے کہنے پر وہ دانت پیس کر بولی۔
“مریم بیٹا فون کر کے پوچھو زائر سے اب تک کیوں نہیں آیا ۔ مجھے پریشانی ہو رہی ہے “۔
“خالہ اسے کام ہو گا اسی لیے نہیں آیا آپ ٹینشن نا لیں میں کرتی ہوں فون “۔ انہیں تسلی دے کر وہ کمرے میں چلی آئی۔
ہیلو!!
“زائر خالہ پوچھ رہی ہیں آپ ابھی تک گھر کیوں نہیں آئے ؟؟”۔ اس کے ہیلو کہنے پر وہ جلدی سے بولی مبادا وہ فون ہی نا بند کر دے۔ اس دن کے بعد سے دونوں کے درمیان بات نہیں ہوئی تھی۔
“میرا شو ہے آج اسی لیے نہیں آیا شو ختم ہوتے ہی آ جاؤ گا امی سے کہو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ تم میری بات کروا دو ان سے ۔۔۔”۔
جی ٹھیک ہے !!
“خالہ زائر سے بات کریں “۔
فاطمہ نے بات کرنے کے بعد فون اسے پکڑا دیا۔
“کہہ رہا ہے گیارہ بارہ بجے گھر آ جائے گا تم یہ سامان اوپر لے جاؤ اور اس کے کپڑے وغیرہ الماری میں رکھ دو ۔۔۔ “۔
“جی اچھا “۔
آج پہلی مرتبہ اس نے زائر کی الماری کھولی تھی اس نے ہر چیز بہت ترتیب سے رکھی ہوئی تھی۔ مریم نے الماری کا لاکر کھولنے کی کوشش مگر وہ لاک تھا ادھر ادھر ہاتھ مار کر چابیاں بھی ڈھونڈھی مگر بے سود ۔۔ وہ برا سا منہ کر اس کے کپڑے ہینگ کرنے لگی۔
دوسرے بیگ میں سب کے لیے گفٹس تھے وہ بھی اس نے ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔
※••••••※
زائر عباس کا شو آن ائیر ہونے کے بعد پورے ملک میں ہلچل مچ گئی تھی اور خصوصاً حکومت کے ایک طبقے میں جن لوگوں نے اس این جی او کی پشت پناہی کی تھی۔ شو میں آئے ایک دوسرے این جی او کے ہیڈ نے بھی کافی لعن طعن کی تھی اور پھر اپنا سارا ریکاڈ دیکھانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ لوگوں کو حقوق دلانے کے وعدے کرنے والے بھی خاموش تھے۔ زائر کے لائے گئے سارے documents اتنے valid ضرور تھے کہ اس این جی او اور اس کے ساتھ منسلک لوگوں کی نیندیں حرام ہو گئی تھی۔
زائر اور اس کی ٹیم پانچ مہینوں سے اس پر کام کر رہے تھے پچھلے دس سال کا ریکاڈ اس وقت اس کے ٹیبل پر پڑا ہوا تھا ۔ کتنا فنڈ آیا ، کتنے پیسے خرچ ہوئے اور کتنے غیر قانونی کام ہوئے ، سب کی تفصیل وہ بتا رہا تھا۔
اصغر خان اس این جی او کے ڈائریکٹر تھے جو اس وقت لندن میں موجود تھے۔
ایک گھنٹے کے شو میں اصغر خان کا سارا کٹھہ چھٹہ کھول کر رکھ دیا تھا۔ اور اس کے شو کو پزیرائی اس کی سوچ سے بھی زیادہ ملی تھی۔ شو ختم ہونے کے بعد سب نے ہی اسے مبارک باد دی تھی ۔
تین صحافیوں کے قتل کے بعد کسی نے بھی دوبارہ اس پر موضوع پر کوئی شو نہیں کیا تھا۔
اور اب اتنے سالوں پر زائر نے اس پر شو کیا تھا۔
بارہ بجے کے قریب وہ آفس سے نکلا تھا ۔ فیصل کے بہت اسرار پر بھی اس نے گارڈز کو ساتھ نہیں لیا تھا۔
“میں مانتا ہوں تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے مگر حالات کا تقاضا یہی ہے تم گارڈز کو ساتھ لے کر جاؤ ۔ تم سب کی سیکورٹی میری زمہ داری ہے “۔
“فیصل بھائی پلیز میں نہیں ساتھ رکھ سکتا ان لوگوں کو ۔۔۔ اگر میری موت لکھی ہے تو ان گارڈز کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی آ جائے گی اور اگر میری زندگی باقی ہے تو ان کے بغیر بھی مجھے کچھ نہیں ہو گا۔”
“ٹھیک کہا تم نے مگر میں تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گا اب تک اسے اس بات کی خبر بھی مل چکی ہو گی اور یہاں جن جن لوگوں کے نام آئیں ہیں سکون سے وہ بھی نہیں بیٹھے گے اس لیے ان دونوں کو ساتھ لے جاؤ ۔۔۔۔ پانچ سے کم تو کبھی نہیں بھیجتا میں اب صرف تمہارے لیے دو بھیج رہا ہوں اوکے “۔
“اوکے “۔ وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے بولا۔
فیصل کے جانے کے بعد وہ ان دونوں کے ساتھ گاڑی میں آ گیا۔
※••••••※
گاڑی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی گھر کی طرف جا رہی تھی ۔ ڈرائیور کو یہ ہدایت فیصل کی طرف سے تھی ۔ زائر بمشکل ضبط کیے بیٹھا تھا۔
وہ باہر کے مناظر میں گم تھا جب اس کا موبائل بجا ۔ احمد کا فون تھا۔
“یار کیا زبردست شو کیا ہے مزا آ گیا پاپا بھی بہت تعریف کر رہے تھے پورا شو دیکھا انہوں نے “۔
“بہت شکریہ تمہارا ۔۔۔ بہت ہیلپ کی ہے تم نے بھی میری “۔ اس نے مسکرا کر کہا۔
“بکواس مت کرو !! اور اب دھیان سے رہنا اُن لوگوں کی دم پر پاؤں رکھا ہے تم نے ۔۔۔ جوابی وار تو ضرور کریں گے۔ سوشل میڈیا پر بھی کافی وائرل ہوا ہے یہ ایشو۔ بہت سپورٹ ملے گی تمہیں اس سے بھی!!”۔
“مجھے سپورٹ نہیں چاہیئے یار بس ان لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچانا ہے اور انشااللّٰہ ایسا ہو گا بھی۔۔۔”۔
“انشااللّٰہ !! بریکنگ نیوز : اس کا بیٹا بھی لندن چلا گیا ہے ایک گھنٹہ پہلے !!”۔ احمد کے کہنے پر زائر چونکا۔
“اچھا واقعی؟؟ سچی خبر ہے نا؟؟”۔
“ہاں نا میں کوئی جھوٹ بول رہا ہوں “۔ وہ برا مان گیا ۔
(ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ ہے میرے پاس )۔ زائر نے دانت پیستے ہوئے سوچا۔
“اچھا میں نے ویسے ہی کہا تھا”۔
“پھر ٹھیک ہے گھر نہیں پہنچے ابھی ؟؟”
“میں گھر پہنچنے والا ہوں ۔ آج میرے گھر کا رستہ بھی اتنا لمبا ہو گیا ہے “۔ اس کے جھنجھلا کر کہنے پر احمد نے قہقہہ لگایا۔
“بیٹا بھگتو اب خود ہی سانپ کی پٹاری میں ہاتھ ڈالا ہے تم نے “۔
“دیکھ لیں گے اس سانپ کو “۔ وہ مسکرا کر بولا۔
اور پھر کچھ دیر بعد فون بند کر دیا۔
گھر آنے پہ اس نے شکر ادا کیا تھا۔
“اسلام علیکم امی !!”۔ لاؤنچ اس وقت سب بیٹھے تھے وہ بلند آواز میں کہتا فاطمہ کے گلے لگ گیا۔
“وعلیکم اسلام !! اتنے دن لگا دئیے تم نے بیٹا اور بارہ بجے کا کہہ کر ایک بجے آ رہے ہو “۔
“کام بہت تھا امی “۔ باقی بات وہ گول کر گیا۔
مریم اس کے سلام کا آہستگی سے جواب دے کر لاؤنچ سے نکل گئی ۔ زائر نے سلگتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
عمر اور صائم سے ملنے کے بعد وہ وہی فاطمہ کے پاس بیٹھ گیا۔ فاطمہ اس سے اس کے کام کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ جب مریم نے پانی کا گلاس اور کافی کا کپ اس کے سامنے رکھا۔ زائر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
اسے اس تبدیلی کی واقعی سمجھ نہیں آئی تھی اور اب وہ جاننا بھی نہیں چاہتا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...