(Last Updated On: )
سلیمان جاذب(دبئی)
نگاہِ یار میں تلخی بہت تھی
سو اپنی آنکھ بھی چھلکی بہت تھی
مجھے بھی حالِ دل کہنا تھا اس سے
اُسے بھی جانے کی جلدی بہت تھی
بھلاؤں کس طرح ساون کی بارش
جواں تھے جسم اور گرمی بہت تھی
خوشی نے یوں کیا گلنار چہرہ
نمیدہ آنکھ کجلائی بہت تھی
اچانک آ گیا تھا یاد جاذبؔ
گھٹا جب رات بھر برسی بہت تھی