“اب ہم کیا کرے گے چاچا جان؟۔۔۔۔ بھابھی اورر بچے اس شخص کی تحویل میں ہیں، اس نے ہماری کمزوری پر وار کیا ہے۔۔۔۔۔ ہمیں جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا!” جازل غصے سے بولا تھا جبکہ شبیر زبیری کسی گہری سوچ میں گم تھے۔
“چاچا جان؟” جازل کے بلانے پر وہ ہوش میں آئے تھے۔
“اب ہم کیا کرے گے؟ بھابھی اور بچے ان کے پاس ہیں!” اس نے دوبارہ اپنی بات دوہرائی۔
“فکر مت کرو جازل جلد ہی وہ ہمارے پاس ہوگے۔۔۔۔۔ ہمارا خون بہت جلد ہمارے پاس ہوگا!” تصور میں عبداللہ کو سوچتے وہ بولے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شٹ بارش شروع ہوگئی!” بارش کو دیکھ اس کا منہ بنا تھا۔
“تمہیں بارش پسند نہیں؟” ڈرائیونگ کرتے وائے۔زی نے مسکرا کر سوال کیا تھا۔
“اتنی کوئی خاص پسند نہیں!” زویا نے کندھے اچکائے تھے۔
“یار مگر لڑکیاں تو بارش کی دیوانی ہوتی ہیں۔” وائے۔زی ہنس کر بولا تھا۔
“آپ کا بہت ایکسپیرئینس ہے لڑکیوں کی پسند نا پسند کا؟” ایک ابرو اچکائے اس نے سوال کیا۔
“بس اب کیا کیا جاسکتا ہے۔” وائے۔زی نے بھی مزے سے کندھے اچکائے تھے۔
گھر پہنچنے تک بارش زور پکڑ چکی تھی۔
“تم دونوں جاؤ میں گاڑی پارک کردوں!” وائے۔زی کی بات پر وہ دونوں بہن بھائی سر ہلائے بارش سے بچتے اندر کو بھاگے تھے۔
گاڑی پارک کیے وہ گھر میں داخل ہوا تھا جب اچانک تمام لائٹس آف ہوگئیں تھی۔
خراب موسم کی وجہ سے شہر کے بیشتر حصوں میں لائٹ آف ہوگئی تھی۔۔۔
جنریٹر اون کرنے کا سوچتا واپس مڑنے ہی والا تھا جب کوئی زور سے اسے آ ٹکڑایا تھا
“شزا!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھیل کنارے درخت سے ٹیک لگائے ٹانگیں پسارے وہ مزے سے کتاب کا مطالعہ کرنے میں مگن تھی جبکہ اس سے تھوڑی ہی دوری پر بیٹھا حماد پھولوں سے نجانے کیا چھیڑ خانی کرنے میں مگن تھا مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اسے بھی دیکھے جارہا تھا۔۔۔۔۔ شزا اس کی نظریں خود پر اچھے سے محسوس کررہی تھی۔۔۔ ہونٹوں سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
چند منٹ بعد اسے سر پر کچھ محسوس ہوا تھا۔۔۔ وہ پھولوں کا تاج تھا جو حماد نے اسے کے لیے بنایا تھا اور اب اسے پہنا رہا تھا۔
سر اوپر کو اٹھائے اس نے حماد کو دیکھا جو تاج کو پن کی مدد سے سیٹ کرتا مسکرایا تھا۔
“پرفیکٹ!” مسکرا کر اس نے شزا کے ماتھے پر لب رکھے تھے جس پر مسکراتی وہ آنکھیں موند گئی تھی۔
“حماد!” اس نے حماد کو پکارا تھا جو اب اس کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا اور شزا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔
“ہوں؟”
“ہم ہمیشہ یونہی رہے گے نا حماد؟” اس نے نظریں جھکائے اس سے سوال کیا جو پلکیں اٹھائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
“امم۔۔۔سوچنے دو؟۔۔۔۔۔ نہیں، ہم ہمیشہ ایسے نہیں رہے گے” اس کے جواب پر شزا کا چہرہ بجھ سا گیا تھا۔
“ہم ہمیشہ ایسے نہیں رہے گے کیونکہ ہم بوڑھے ہوجائے گے مگر ہماری محبت۔۔۔۔۔ ہماری محبت ہمیشہ ایسی رہے گی۔” اس کے ہاتھ کی انگلیاں اپنے ہاتھ میں الجھائیں وہ ان پر اپنے ہونٹ رکھتا بولا تھا جس پر شزا مسکرا دی تھی۔
بند آنکھوں سے مسکرائے اس نے اس لمس کو محسوس کیا تھا جب یکدم منظر بدلا۔۔۔۔ اب حماد اس سے ہاتھ چھڑوائے اس سے دور جارہا تھا۔۔۔۔ جبکہ وہ دیوانہ وار اس کے پیچھے بھاگتی اسے پکار رہی تھی۔
“حماد۔۔۔۔” روتے ہوئے وہ اسے پکار رہی تھی۔
“حماد نہیں جاؤ” وہ چلائی تھی
پھولی سانسوں سمیت اس نے حماد کی جانب دیکھا تھا جس کی سفید قمیض اب مکمل طور پر لال ہوگئی تھی۔
“نہیں!” اس نے سر نفی میں ہلایا جبکہ نم آنکھوں سے مسکراتے حماد نے ہاتھ ہلائے رخ موڑ لیا تھا۔
“حماد!!” چیختی وہ اپنی نیند سے اٹھتی باہر کو بھاگی تھی وہ حماد کو نہیں جانے دے سکتی تھی۔۔۔۔۔ وہ اسے روک لے گی۔۔۔۔۔ ہاں کہی نہیں جانے دے گی اپنے حماد کو۔
حماد کو پکارتی وہ باہر کو بھاگی جب سامنے سے آتے وجود سے بری طرح ٹکڑائی تھی۔
“شزا!” وائے۔زی اسے دیکھ کر چونکا تھا۔
“حماد۔۔۔۔ حماد۔۔۔۔۔ حماد!” وہ بس حماد کو پکارتی اس کی گرفت میں مچل رہی تھی۔
“ہوش میں آؤ شزا۔۔۔۔ کہاں جارہی ہو؟” وائے۔زی نے اسے جھٹکا دیا تھا۔
“وہ حماد۔۔۔۔ میرا حماد۔۔۔۔ حماد۔۔۔۔۔۔۔وہ، وہ اس کے پاس جان۔۔۔۔” اس سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔
وائے۔زی جو جنریٹر اون کرنے جارہا تھا اس وقت سب کچھ بھول بھال اسکی حالت کو دیکھ رہا تھا۔
“ہوش کرو شزا۔۔۔۔ کون حماد؟ کہاں ہے حماد؟ مرچکا ہے حماد؟ کس کے پاس جارہی ہو؟” وائے۔زی نے اسے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔
اس کے الفاظ سمجھ میں آتے ہی اس نے سرخ گریہ آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔
“تم نے، تم نے مار دیا۔۔۔۔۔۔۔ تم نے مار دیا میرے حماد کو۔۔۔۔۔ تم سب قاتل ہو اس کے۔۔۔۔۔۔۔ چھین لیا اسے مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔ کوئی خوش نہیں رہے گا تم میں سے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بد دعا ہے تم لوگو کے لیے، بلکل ویسے ہی تڑپو گے جیسے میں تڑپ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ کبھی خوش نہیں رہو گے۔۔۔۔۔۔۔ ” اس کی شرٹ کا کالر دبوچے وہ اسے بددعائیں دے رہی تھی۔
زویا جو لائٹ آف ہونے کی وجہ سے کمرے سے باہر نکلی تھی شزا کی حالت دیکھ وہ راستے میں رک گئی تھی۔۔۔۔۔ آنکھوں میں آنسوؤں در آئے تھے۔۔۔۔۔ ارحام شاہ اور سنان بھی چیخ و پکار پر کمرے سے باہر نکلے تھے۔۔۔۔۔۔ شزا کی حالت انہیں اذیت میں مبتلا کررہی تھی۔۔۔۔ سب سے زیادہ اس شخص کو جو فل وقت اسے تھامے ہوئے تھا۔
“شزا۔۔۔۔۔”
“حماد۔۔۔ حماد پاس جانا۔۔۔۔۔ حماد۔۔۔۔۔۔۔” بڑبڑاتی وہ اس کی باہوں میں جھول گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دیکھیے انہوں نے کسی بات کا بہت سٹریس لیا ہے۔۔۔۔۔ یہ سٹریس ان کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتا ہے کوشش کیجیے کہ انہیں خوش رکھا جائے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔” کریم کو کال کرکے سنان نے اسے اپنے ساتھ ڈاکٹر کو لانے کو کہاں تھا۔
شزا کا چیک اپ کیے ڈاکٹر نے ان سب کو سمجھایا تھا۔
“آپ سب آرام کیجیے میں آپی کے پاس رک جاتی ہوں!” زویا نے ڈاکٹر کے جانے کے بعد انہیں کہاں تھا جس پر سب سر ہلاتے وہاں سے جاچکے تھے۔
“اس کا خیال رکھنا!” ارحام شاہ کی ہدایت پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
باقی کی رات زویا کی سوتی جاگتی کیفیت میں گزری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنے والی نئی صبح ماورا کے لیے نہایت خوش گوار ثابت ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک بھرپور انگڑائی لیے اس نے نئی صبح کا آغاز کیا تھا۔
تائی امی جو اس کو جگانے آئی تھی اس کو جاگتا دیکھ وہ مسکرا دی تھی جب کے صبح ہی صبح اسے یوں مسکراتے دیکھ انہیں خوشگوار سی حیرت بھی ہوئی تھی ورنہ ماورا کی صبح ہمیشہ بوجھل اور منفی ہوتی تھی۔
“جاگ گئی میری جان!۔۔۔۔ ایسا کرو منہ ہاتھ دھو لو۔۔۔۔۔ پھر ناشتہ کرکے پہلے اپنا مہندی کا جوڑا دیکھ لینا بعد میں گھر کے لیے نکلے گے اور بعد میں تقی چھوڑ آئے گا پارلر تمہیں۔۔۔ ٹھیک!” ان کی بات پر اس نے مسکرا کر سر ہلایا تھا۔
“تائی امی۔۔۔۔” انہیں اٹھتے دیکھ اس نے پکارا
“جی؟”
”تھینکیو!۔۔۔۔۔ تھینکیو سو مچ۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھانے کے لیے، کسی بھی قسم کا سخت فیصلہ لینے سے روکنے کے لیے!” ان کے گلے لگے وہ مسکرا کر بولی تھی جس پر تائی امی مسکرا دی تھی۔
وہ معتصیم نہیں تھا جس کی بات مان کر اس نے رشتے کو ہاں کی تھی وہ تائی امی تھی جن کے سمجھانے پر اس نے اس رشتے کو ایک آخری موقع دینے کے بارے میں سوچا تھا اور اب اسے ان کا فیصلہ بلکل ٹھیک لگ رہا تھا۔
“اچھا جلدی کرو۔۔۔۔۔۔ آج کل تو وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا!” اسے کی مدد کرتی وہ اسے واشروم میں لےکر گئی تھی۔
فریش ہونے کے بعد اس نے سب کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا تھا چچیوں اور پھوپھو کا منہ بنے دیکھ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں تقی سے سوال کیا جس نے لاتعلقی سے کندھے اچکا دیے تھے۔۔۔۔۔ ماورا بھی ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔
معتصیم پہلے ہی تایا ابو کے ساتھ ناشتہ کرکے آفس کے ایک دو کام نبٹانے کے لیے جاچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سے وہ کمرے میں بند تھی نہ خود باہر نکلی تھی اور نہ ہی انعم کو بچوں کو لیجانے دیا تھا۔
اب عصر کا وقت ہوگیا تھا مگر وہ باہر نہیں نکلی تھی۔
“مجھے ڈر لگ رہا ہے بھائی، آپی نے صبح سے خود کو بند کررکھا ہے کہی۔۔۔۔۔۔” اس سے آگے وہ کچھ نہ بولی۔
“بھئی تم لوگ ابھی تک ایسے ہی بیٹھے ہو؟ شادی پر جانا ہے تم لوگو کو۔۔۔۔۔ چلو شاباش اٹھو تیاری وغیرہ کرو!” ارحام شاہ انہیں یونہی بیٹھے دیکھ بولے تھے۔
“چاچو وہ آپی۔۔۔۔۔”
“تمہاری آپی بلکل ٹھیک ہے زویا اس کی فکر مت کرو میں ہوں نا یہاں۔۔۔۔ تم لوگ تیار ہوجاؤ اور شادی کی شرکت کرو۔۔۔۔۔ تم لوگ نہیں جاؤ گے تو اچھا نہیں لگے گا!” ارحام شاہ کی بات پر اس نے سنان کی جانب دیکھا جس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
زویا بھی سر ہلاتی اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی۔
“میری بہن کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے!” شزا کی جانب سے انہیں وارننگ دیتا وہ سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے کی جانب جاچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کا انتظام بھی معتصیم کے گھر کے لان میں کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ آج لان کی تھیم مایوں سے مکمل طور پر مختلف تھی۔۔۔۔ اورنج، گرین اور پرپل رنگ کے مہندی کے جوڑے میں ملبوس وہ بالوں کی سائڈ چٹیاں بنائے انگلیاں چٹخاتی بار بار کمرے کی کھڑکی سے لان کی سجاوٹ اور وہاں موجود لوگوں کے قہقہوں کو دیکھ رہی تھی۔
کل تو معتصیم نے اس کی خامی پر پردہ ڈال دیا تھا مگر آج!۔۔۔۔۔۔۔ آج کیا ہوتا؟ آج سب کو اس کی سچائی پتہ چل جاتی اور لوگ پھر اسے ترحم بھری نگاہوں سے دیکھتے۔
تھوڑی ہی دیر میں تائی امی اسے باہر لیجانے کو لینے آئی تھی گہری سانس خارج کیے اس نے خود کو پرسکون کیا تھا۔
لوگوں کی باتوں کو وہ خود پر حاوی نہیں ہونے دے گی اس نے فیصلہ کرلیا تھا۔
اینٹرینس کی جانب جاتے اس نے بار بار پلکیں جھپکائے خود کو پرسکون کیا تھا جب راہ میں موجود پالکی کو دیکھ اسکی آنکھیں پھیلی تھی۔۔۔۔ اور پالکی کے پاس کھڑا معتصیم کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہورہا تھا اسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زویا جلدی کرو!”
“بس ایک منٹ!”
یہ پانچویں بار تھا جب وائے۔زی نے اسے آواز لگائی تھی اور پانچویں بار بھی یہی جواب آیا تھا۔
“افف!” وائے۔زی جھنجھلا اٹھا تھا۔
سنان اور کریم اس کی اس حالت پر ہنسی ضبط کرکے رہ گئے تھے۔
وہ تینوں ایک دوسرے سے چھیڑ خانی میں مگن تھے جبکہ کمرے میں موجود شزا کے کانوں میں ان کے قہقے کسی کوڑے کی مانند برس رہے تھے۔
جی چاہ رہا تھا وہ چیخے چلائے۔۔۔۔۔۔ انہیں بھی ویسی ہی تکلیف دے جس میں وہ خود مبتلا ہے، ویسے ہی رولائے جیسے وہ خود رو رہی تھی۔
“زویا!!!” اب کی بار وائے۔زی زور سے چلایا تھا۔
“آگئی!!” اس نے بھی ویسے ہی چلا کر آواز دی تھی۔
اس کے کمرے کا شاور کام نہیں کررہا تھا جب وہ سیکنڈ فلور پر موجود ایک گیسٹ روم میں تیار ہورہی تھی۔
“زویا قسم سے یہ آخری بار ہے” اب کی بار وائے۔زی کا لہجہ وارننگ لیے ہوئے تھا۔
“افف۔۔۔اففف۔۔۔۔آگئی!” سینڈل کی اسٹریپ بند کیے وہ تیزی سے سڑھیاں اترتی نیچے آرہی تھی۔
کریم نے نگاہیں اٹھائے اسے دیکھا تھا، ایک غیر ارادی نگاہ جو وہی جم سی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ہلکے میک اپ میں بالوں کی سائڈ چوٹی بنائے گھیردار لہنگا پہنے وہ مسکراتی نیچے اترتی اسے ایک شہزادی معلوم ہورہی تھی۔
وائے۔زی کے سامنے رکے اس نے دونوں ہاتھ اٹھائے اسے کچھ کہا تھا جس پر وائے۔زی نے نجانے کیا جواب دیا کہ اس نے وائے۔زی کو زبان نکالی اور پھر ہنس دی تھی۔۔۔۔۔ اس کی ہنسی پر کریم کی مسکراہٹ بھی گہری ہوئی تھی۔
“اچھا بس!۔۔۔۔بند کرو یہ بچوں والی لڑائی لیٹ ہورہے ہیں۔۔۔۔ چلو چلے!” سنان کے ٹوکنے پر وہ ہوش میں آیا تھا۔
“ہاں تو چلے میں تو کب سے کہہ رہی ہوں یہ بس زی بھائی کو ہی لڑنے کا شوق ہے۔” سارا الزام اس پر ڈال کر وہ باہر کی جانب بڑھی تھی۔
“اللہ!۔۔۔۔۔ جھوٹی، منہ پر جھوٹ!” اس کے بال کھینچتا وہ بولا تھا۔
“اچھا بس!” زویا کو منہ کھولتے دیکھ سنان نے مزید بولنے سے روکا تھا۔
وائے۔زی کو زبان چڑھاتی وہ باہر کو بھاگی تھی۔
فرنٹ پر کریم اور سنان جبکہ پیچھے وائے۔زی اورزویا موجود تھے۔۔۔۔ اور اس وقت وہ دونوں اس وقت ایک دوسرے کو مکمل طور پر تنگ کررہے تھے۔۔۔۔ سنان نے انہیں یوں لڑتے دیکھ سر افسوس سے نفی میں ہلایا تھا جبکہ کریم ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے ان کی تکرار کو انجوائے کررہا تھا۔
کچھ ہی ٹائم میں وہ لوگ معتصیم کے گھر پہنچ چکے تھے۔
زویا تو آتے ہی مہمانوں کی میزبانی کرنے کو تائی امی کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ وہ تینوں معتصیم کی جانب بڑھے جو اس وقت تقی کے کان میں کچھ بول رہا تھا جس پر تقی سمجھتےہوئے سر اثبات میں ہلائے جارہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں تائی امی ماورا کو لیے ان کی جانب آئی تھی۔۔۔۔۔ پالکی کو دیکھ ماورا کی پھیلتی آنکھیں!۔۔۔۔۔ معتصیم کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
اس کی جانب بڑھے اسے باہوں میں اٹھائے معتصیم نے احتیاط سے اسے پالکی میں بٹھایا تھا۔
“میں کبھی بھی اپنی محبت کا تماشہ نہیں بننے دوں گا۔۔۔۔ نہ لوگوں کو اس پر ہنسنے کا موقع دوں گا۔۔۔۔۔۔ یہ وعدہ ہے میرا!” اس کے ہتھیلی پر لب رکھے اس نے وعدہ کیا تھا۔ پردہ برابر کیے وائے۔زی اور کریم کے سنگ پہلے ہی اسٹیج کی جانب بڑھا تھا جہاں مہندی کا تمام سامان رکھتی زویا اسے دیکھ مسکرائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معتصیم کی یقین دہانی پر اس نے بند آنکھوں سے مسکرائے گہری سانس بھری تھی جب اسے اچانک پالکی اٹھتی محسوس ہوئی ایک پل کو تو وہ خوفزدہ ہوئی مگر اگلے ہی لمحے وہ سنبھل چکی تھی۔
سنان، کریم، وائے۔زی اور تقی وہ چاروں پالکی کو چاروں جانب سے تھامے بڑھتی ہوئی ہوٹنگ کے درمیان اسے اسٹیج تک لیکر آئے تھے۔
معتصیم کی بلکل سامنے پالکی رکھے انہوں نے اس کی جانب مسکراہٹ اچھالی تھی۔
آگے بڑھ کر اس نے ایک بار پھر ماورا کو باہوں میں اٹھائے مہندی کے جھولے پر بٹھایا تھا جس پر وہ مکمل طور پر سرخ ہوگئی تھی۔
معتصیم اور ماورا کی اس ویڈیو کو “نیو ویڈنگ ٹرینڈ” کا کیپشن ڈال کر انٹرنیٹ پر شئیر کردیا گیا تھا جہاں انہیں کچھ منفی اور کچھ مثبت کمنٹس بھی ملے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا بات ہے بھئی میری بیٹی کھانے پر نہیں آئی؟” انعم نے اسے کھانے پر بلایا تھا جس پر اس نے انعم کو اچھی خاصی سنا ڈالی تھی اور اب ارحام شاہ خود اسے کھانے کی دعوت دینے آئے تھے۔
“بھوک نہیں مجھے!” وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
“ارے ایسے کیسے نہیں بھوک میری بیٹی کو؟۔۔۔۔۔ تم نہیں کھاؤ گی تو میں بھی بھوکا رہوں گا!” ارحام شاہ خفگی سے بولے تھے۔
“میری بلا سے تم جیسا شخص جیے یا مرے۔۔۔ مجھے پرواہ نہیں!” بےانتہا نفرت آنکھوں میں سموئے وہ پھنکاری تھی۔
“شزا!۔۔۔۔۔۔ میرا جان، میری بیٹی ہو تم۔۔۔۔۔ تمہاری یہ حالت دیکھ مجھے فکر ہورہی ہے تمہاری!” ارحام شاہ گہری سانس خارج کیے بولے تھے۔
“نہیں ہوں میں آپ کی بیٹی سنا تم نے!۔۔۔۔۔۔ کوئی تعلق نہیں ہے میرا تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔تم قاتل ہو میرے ماں باپ کے میرے شوہر کے، میری محبت، میری خوشیوں کے قاتل ہو تم!۔۔۔۔ اور یہ جو اچھا ہونے کا ڈرامہ ہے نا سب سمجھ رہی ہوں میں!۔۔۔۔۔ میرے ذریعے شبیر انکل کو ڈرانا چاہتے ہو نا؟۔۔۔۔۔۔ انہیں مارنا چاہتے ہو نا۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم تینوں ان کی کمزوری ہیں!۔۔۔۔۔۔ مگر یاد رکھنا وہ مجھے یہاں سے بچالے جائے گے اور تم کچھ بھی کر نہیں پاؤ گے!” وہ چلائی تھی۔
”بلکل ٹھیک کہاں تم نے میں شبیر زبیری کو ڈرانا چاہتا ہوں!۔۔۔۔۔ اسے دردناک موت دینا چاہتا ہوں!۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ میں نے تمہارے بچوں کو استعمال کیا مگر یہ بلکل غلط ہے کہ تم اس شخص کے لیے اہم ہو یا اس کی کمزوری ہو۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے بیٹے کی جان لے سکتا ہے وہ کسی کا سگا نہیں!۔۔۔۔۔ اور ہاں اگر آج ہم نہ ہوتے تو تم اور تمہاری بیٹی دونوں کب کی اس دنیا سے اٹھوا لی جاتیں۔”
“مجھے آپ کی اس تقریر میں کوئی دلچسپی نہیں آپ پلیز جائیے یہاں سے!” اس نے رخ موڑا تھا۔
“میڈ کے ہاتھوں کھانا بھیجوا رہا ہوں کھالینا!۔۔” اسے ہدایت کرتے وہ دونوں بچوں کو پیار دیے وہاں سے جاچکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری رات اس کی ارحام شاہ کی باتوں کو سوچتے گزری تھی۔۔۔۔ کیا واقعی وہ ارحام شاہ کی اولاد تھی۔۔۔۔۔ کیا واقعی حماد کو مارنے والا خود اس کا باپ تھا؟
“مجھے جاننا ہی ہوگا کہ آخر میں یہاں کیوں ہوں!۔۔۔۔” خود سے عہد کیے اس نے آنکھیں موندی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایوں کی طرح مہندی کا فنکشن بھی دیر رات تک چلا تھا اور آج رات بھی بارش کے امکانات تھے۔
معتصیم ایک بار پھر ان سب کو اپنے گھر روکنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ اب لاؤنج میں بیٹھے سب لوگ ڈھولکی کی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ اور دوسری جانب ماورا معتصیم کی ایک میڈ سے مہندی لگوارہی تھی۔
“بھابھی نام لکھوں بھائی کا؟” اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
“نہیں بلکل نہیں!” ماورا کے منع کرنے پر اس کا منہ بن گیا۔
“کس خوشی میں نہیں؟۔۔۔۔ تم لکھو میرا نام۔۔ بلکہ ایسا کرو جو دوسری ہتھیلی ہے نا اس پر صرف میرا نام ہی لکھنا۔۔۔۔۔” معتصیم اس کے پاس نیم دراز ہوئے بولا تھا۔
ماورا نے بھوکلا کر نظریں اٹھائیں تھی، چچیوں اور پھوپھو کا منہ بن گیا تھا۔
“معتصیم دیکھو وہ لوگ کسے دیکھ رہے ہیں، اٹھو یہاں سے!” ماورا نے دھیمی آواز میں اسے گھرکا۔
“اچھا ہے دیکھنے دو، بلکہ میں تو کہتا ہوں بہت ہی اچھا ہے جو وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں اور جل جل کر کوئلہ ہورہے ہیں، اسی بہانے ان پر تمہاری اہمیت بھی آشکار ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ ماورا جیسے ہیرے کی پہچان صرف معتصیم جیسا جوہری بھی کرسکتا ہے!” آخری بات وہ کان میں بولا تھا جس پر ماورا نے مسکرا کر اس کے پیٹ میں کہنی ماری تھی۔
“اففف ظالم مار ڈالا!”
“بھابھی مہندی لگ گئی۔”
“یہ کیا کیا؟” ماورا نے اپنے الٹے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھا جس پر بڑے بڑے لفظوں میں معتصیم کا نام لکھا تھا۔
“کیا بات ہے چھوٹی تم نے تو کمال کردیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ رہا تمہارا انعام!” جیب سے پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ نکالے اس نے ملازمہ کی جانب بڑھائے تو خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی۔
ماورا نے غصے سے معتصیم کو گھورا جو سب کے سامنے مزے سے اس کا ڈوپٹا آنکھوں پر رکھے آنکھیں موند گیا تھا۔
“معتصیم کیا کررہے ہو تایا ابو بھی یہی ہے!” ماورا نے کہنی کے ذریعے اسے ہلایا تھا۔
“اوہ تو تم چاہتی ہو میں یہ کمرے میں کروں؟ ویری گڈ میں بھی ایسا ہی چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ چلو چلے!” وہ پرجوش سا اچانک اٹھ بیٹھا تھا۔
“معتصیم بہت برا پٹو گے تم مجھ سے!” ماورا نے ایک بار پھر اسے آنکھیں دکھائی تھی جنہیں اگنور کرتا وہ دوبارہ اس کے پاس نیم دراز ہوتا ڈوپٹا آنکھوں پر رکھ چکا تھا۔
ماورا کو اس قدر بےشرمی اور ڈھیٹائی کی امید تو معتصیم سے ہرگز نہ تھی۔
صبح فجر تک فنکنش گیا تھا۔۔۔۔۔۔ فجر ادا کرتے ہی وہ چاروں گھر کو نکل چکے تھے جب کے تائی امی تھکی ہاری ماورا کو اس کے کمرے میں چھوڑ گئی تھی جس کے سر شدید درد اٹھ رہا تھا۔
مہندی دھونے کے بعد وہ چینج کیے مزے سے بیڈ پر نیم دراز ہوئی تھی کہ اپنے پاس کسی وجود کی موجودگی کو محسوس کرتے پٹ اس کی آنکھیں کھلی تھی۔
نگاہیں اپنے پاس لیٹے مسکراتی آنکھوں سے اسے تکتے معتصیم سے جاٹکڑائی تھی۔
“معتصیم!” گہری سانس خارج کیے اس نے نام ادا کیا۔
“ہم؟” وہ مسکرایا
“آج کون سی رسم رہ گئی تھی جسے پورا کرنے آئے ہو؟” اس کے میٹھے طنزیہ لہجے سے پوچھنے پر معتصیم ہلکا سا ہنسا تھا۔
“تمہارے ہاتھ کی مہندی دیکھنے آیا ہوں کہ رنگ کتنا گہرہ آیا!”
“بہت پھیکا!” اپنے ہاتھ چھپائے اس نے جواب دیا تھا۔
“اچھا؟” ابرو اچکائے معتصیم نے سوال کرتے ہی ایک جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچا تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ معتصیم کے سینے پر آ ٹھہرے تھے۔
دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیے معتصیم نے مہندی کو دیکھا جس کا رنگ بہت گہرہ اور بہت کھلا تھا۔
“دیکھ رہی ہو کتنی محبت کرنے والا شوہر ملا ہے تمہیں!۔۔۔۔۔۔ رشک کرو اپنی قسمت پر لڑکی۔”
“بس رہنے ہی دو یہ کونسا مہندی کا اصلی رنگ، ویسے بھی آج کل مہندی کا کلر تیز کرنے کے لیے اس میں خود سے بھی کلرز ڈالے جاتے ہیں!” ماورا اپنے ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرواتے بولی تھی۔
“لیکن سزا تو تمہیں ملے گی!”
“کس بات کی سزا؟” آنکھیں سکیڑے اس نے سوال کیا۔
“مجھ سے جھوٹ بولنے کی۔” اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کرتا وہ بولا جس پر ماورا نے اپنا چہرہ پیچھے کو کیا تھا۔
“معتصیم تم۔۔۔۔۔۔ ہاہاہا!” اس سے پہلے وہ کچھ بول پاتی اس کے گدگدانے پر وہ بری طرح سے ہنستی اس کی گرفت میں مچلی تھی۔
“معتصیم!” اس کی ہنسی کی گونج اونچی ہوئی تو معتصیم بھی ہنس دیا تھا۔
اسے خود سے دور کرنے کو ماورا نے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ پیروں کو بھی ہلانے کی کوشش کی تھی جس اس کے پیر ہلکے سے ہلے تھے۔
اس کے پیروں کی موومنٹ کو محسوس کرتے وہ دونوں اپنی اپنی جگہ رک سے گئے۔
“معتصیم!” اس کی آواز میں حیرت شامل تھی اس نے پلکیں اٹھائے معتصیم کو پکارا جس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔
“تم کرسکتی ہو ماورا۔۔۔۔۔۔ دیکھنا ایک دن تم ضرور اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہوجاؤ گی!” اس کے ماتھے پر لب رکھے، اس کا سر اپنے سینے پر رکھتا وہ آنکھیں موند گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپاٹ چہرہ لیے وہ سنان کے ساتھ ہسپتال کی جانب روانہ تھی۔۔۔۔۔۔ آج صبح ہی اس نے ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کروانے کا اعلان کیا تھا جس پران سب نےبنا کسی شش و پنج کے اقرار کردیا تھا۔
“بس یہاں روک دو!” راستے میں ایک ہسپتال کو دیکھ وہ بولی تھی۔
“یہاں کیوں؟” سنان اس سرکاری ہسپتال کو دیکھ کر حیران ہوا تھا
“کیونکہ مجھے تم پر یا تمہارے بتائے گئے ڈاکٹرز میں سے کسی پر بھی یقین نہیں!” سپاٹ چہرے میں الفاظ ادا کرتی وہ اس کے ساتھ باہر نکلی تھی۔
سنان اس کی بات پر گہری سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کے لیے اس کا بلڈ سیمپل اور ارحام شاہ کا بلڈ سیمپل لیا گیا تھا جو انہوں نے شزا کے سامنے ہی انگلی کو ہلکا سا کٹ لگا کر ٹیشو پر لگا کر شزا کے حوالے کردیا تھا۔
ویسے تو رپورٹس میں آنے میں ٹائم لگنا تھا مگر شزا بضد تھی کہ وہ رپورٹس لیکر جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ پیسے دیے سنان نے انہیں ان کی رپورٹس پہلے تیار کرنے کے لیے منالیا تھا۔
اس تمام عرصے میں وہ سنان کے ساتھ سائے کی طرح رہی تھی وہ کسی بھی صورت سنان کو موقع نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ ڈاکٹر کو خرید کر رپورٹس نہ بدلوا لے۔
آخر کار کئی گھنٹوں کے قاتل انتظار کے بعد رپورٹس اس وقت ڈاکٹر کے سامنے موجود تھی۔
“کیا ہوا رپورٹس میں کیا آیا؟ ڈی۔این۔اے میچ نہیں کیا نا؟” شزا نے فاتح مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا تھا۔
“ڈی۔این۔اے میچ کرگیا ہے مس شزا۔۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ آپ ہی ارحام سلطان شاہ کی بیٹی ہے!” ڈاکٹر کے الفاظ پر گویا ساتوں آسمان اس کے سر پر آ ٹوٹے تھے۔
سنان نے ایک نگاہ اس پر ڈالی جو اپنی جگہ جم سی گئی تھی۔۔۔۔ افسوس سے اس نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“چلو شزا گھر چلے!” رپورٹس اٹھائے وہ باہر کو بڑھا جبکہ اس کے ساتھ ہی مردہ قدم اٹھاتی وہ بھی ڈاکٹر کے کیبن سے نکل گئی تھی۔
زبان کو تو جیسے تالے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔ پورا راستہ خاموشی میں کٹا تھا۔
اللہ جانے اب یہ خاموشی کون سا نیا طوفان لانے والی تھی۔
سنان بس سوچ ہی سکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...