امریکہ سے آنے والا ایک بحری جہاز 1785 کے موسمِ سرما میں لیورپول کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا۔ ہزاروں جہاز آتے رہے تھے۔ چاول، تمباکو، لکڑی، فر، انڈگو وغیرہ امریکہ سے درآمد ہوتے رہے تھے۔ لیکن اس بحری جہاز میں کچھ مختلف تھا۔ اس میں دوسرے سامان کے ساتھ کپاس کے تھیلے پڑے تھے۔ لیورپول کسٹم اہلکاروں نے ان کو ضبط کر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کو غیرقانونی طور پر غرب الہند سے سمگل کیا جا رہا ہے۔ جب اس کا درآمد کروانے والے تاجروں نے لندن میں بورڈ آف ٹریڈ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تو انہیں بتایا گیا کہ “اس کو امریکہ سے درآمد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کپاس امریکہ میں پیدا نہیں ہوتی۔
کسٹم اہلکار بہت غلط تھے۔ امریکہ کے جنوب میں موسم اور مٹی کپاس کی پیداوار کے لئے انتہائی موزوں تھے اور جلد ہی یہ علاقہ عثمانیوں، غرب الہند اور برازیل کے مقابلے میں کپاس کی پیداوار پر غلبہ بنانے لگا تھا۔
لیورپول کی بندرگاہ پر اس کے درآمدکنندگان نے انیسویں صدی کے مستقبل کا بالکل ٹھیک اندازہ لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سترہویں صدی کے آبادکار قبرص اور ازمیر سے بنولہ (کپاس کا بیج) لے کر امریکہ آئے تھے اور جیمزٹاون میں یہ پودا اگایا گیا تھا۔ اٹھارہویں صدی میں ویسٹ انڈیز سے زراعت کی تکینیک یہاں پہنچتی رہی۔ اس کی کاشت مقامی ضروریات کے لئے کی جاتی تھی۔
جب ہیٹی میں غلاموں نے بغاوت کر کے آزادی حاصل کی تو یہاں کے جاگیردار کیوبا یا امریکہ چلے گئے۔ ہیٹی سے نہ صرف کپاس کی برآمد ختم ہوئی بلکہ مہارت بھی امریکہ پہنچ گئی۔ ہیٹی سے جین مونٹالے نے جنوبی کیرولینا میں دھان کے کھیتوں کو کپاس کے کھیتوں میں تبدیل کیا۔
امریکی ساحل سے دور جو کپاس کا پودا اگتا تھا وہ چھوٹے ریشے والا تھا اور اس سے بیج الگ کرنا مشکل تھا۔ اوتنے کا عمل دشوار تھا۔ اس کے لئے چرخے بنائے گئے اور غلام لگائے گئے لیکن پیداوار زیادہ نہیں تھی۔ اور یہاں پر 1793 میں ایلی وہٹنی نے کپاس اوتنے کی مشین ایجاد کی جس نے راتوں رات یہ مسئلہ حل کر دیا۔ اوتنے کی رفتار میں اس مشین نے پچاس گنا اضافہ کر دیا۔ اور یہ ایک واٹر فریم اور جینی کی طرح اس عمل میں ہونے والی انتہائی اہم ایجاد تھی۔ اور یہاں سے کپاس کی پیداوار کا ٹیک آف ہوا۔
اب کپاس امریکہ کے اندرونی حصوں میں اگائی جا سکتی تھی۔ کیرولینا اور جارجیا میں یہ کاشت تیزی سے پھیلنے لگی۔ اور جس رفتار سے کپاس کی پیداوار بڑھی، اسی رفتار سے غلاموں کی تعداد بھی۔ امریکہ میں 1861 میں برپا ہونے والی خانہ جنگی تک امریکہ اور برطانیہ کپاس کی سلطنت کے جڑواں ہب تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلا بڑا مسئلہ زمین کا تھا۔ کپاس کی فصل مسلسل چند سال سے زیادہ ایک قطعے پر نہیں اگ سکتے تھی۔ یہاں پر درمیان میں دال کے ساتھ فصل کو روٹیشن دینی پڑتی تھی یا پھر مہنگا گوانو (پرندوں کے فضلے کی کھاد) کا استعمال درکار تھا۔ جو طریقہ استعمال کیا گیا، وہ کچھ اور تھا۔ ایک قطعے پر کاشت اس وقت تک کی جائے جب تک وہ مفید رہتا ہے۔ ایک ہزار پاونڈ فی ایکڑ والی زمین سے پیداوار جب چار سو پاونڈ تک گر جاتی تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور مزید مغرب اور جنوب میں زمین پر کاشت کی جاتی۔ نئی ٹیکنالوجی اور غلاموں کی وجہ سے یہ حرکت کرنے رہنا آسان تھا۔ 1815 میں کپاس کے زمیندار جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے بالائی حصے تک پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد جس طرح کپاس کی قیمت کی حرکت ہوتی رہی، یہ سفر الباما، لوزیانا، اور پھر مسیسپی، آرکنساس اور ٹیکساس تک جاری رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیداوار میں امریکہ کی آمد اتنی دھماکہ دار تھی کہ اس نے کپاس کا نقشہ بدل دیا۔ وہٹنی کی ایجاد سے پہلے 1790 میں پیداوار پندرہ لاکھ پاونڈ تھی۔ 1800 میں تین کروڑ پینسٹھ لاکھ پاونڈ اور 1820 میں پونے سترہ کروڑ پاونڈ۔ 1857 تک امریکہ اتنی کپاس پیدا کر رہا تھا جتنی چین۔
اوتنے کی مشین ریشے کو نقصان پہنچاتی تھی لیکن یہ کاٹن سستے کپڑے کے لئے موزوں تھی اور یورپ اور دوسرے علاقوں میں مڈل کلاس اور غریب لوگوں میں مقبول تھی۔
اس کے لئے مقامی امریکی آبادی سے زمینیں خونی طریقے سے حاصل کی گئی تھیں اور افریقہ سے مشقت کرنے کے لئے غلام لائے گئے تھے۔
اور اس نے دنیا کے غریبوں کو لباس پہنا دئے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...