علی اور عاصم پوری فیملی کو ساتھ لے کے آج گلگت کی لمبی سیر کرنے نکل گئے تھے راکا پوشی کو دیکھنے کا ان کا خاص پلان تھا اتنے مشکل اور دشوار راستے میں سے گزرتے ہوئے ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ انھیں وقت لگ رہا تھا
راستے میں وہ جگہ جگہ رک کے حسین قدرتی نظاروں کی فوٹو گرافی بھی کرتے اور مقامی لوگوں سے بھی ملتے یہاں کے لوگ بے حد مہمان نواز ہوتے ہیں چاہے آپ انھیں جانتے ہیں یا نہیں لیکن آپ کی اپنوں سے بڑھ کے خدمت کرتے ہیں لمبی سیر کے بعد سب گھر والے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھ کے شام کے چار بجے چائے کے ساتھ پکوڑوں سے لطف اٹھا رہے تھے جب ملک سخاوت نے چوہدری راشد کو فون کیا
“کب تک واپس آ جاؤ گے تم سب ”
ملک سخاوت نے سوال کیا ______________
“بس دو تین گھنٹوں میں پہنچ جائیں گے ”
چوہدری راشد نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا__________
” اچھا کوشش کرنا جلدی پہنچنے کی میری پوتی مونا کا رات کو نکاح ہے میرے ہوتے احسان کے ساتھ اس لیے میری خواہش ہے کہ ہماری اس چھوٹی سی خاندانی تقریب میں تم سب بھی شامل ہو سکو ”
ملک سخاوت نے اطلاع دیتے ہوئے کہا_______
“ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت بہت مبارک ہو ہم ابھی نکلتے ہیں اور جلد ہی گھر پہنچ جائیں گے کوئی ہمارے لائق خدمت ہو تو ضرور بتانا ”
چوہدری راشد نے خوش ہو کر کہا ______
“نہیں بس آپ سب کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے
اچھا میں سب کو بتاتا ہوں اللّٰہ حافظ”
چوہدری راشد نے کال بند کی _____
“بھئی بچو جلدی کرو آج رات کو ملک صاحب اپنی پوتی کی نکاح کی رسم ادا کرنے والے ہیں اور ہم سب کو بطور خاص بلایا ہے جلدی یہ چائے ختم کرو اب اور کہیں نہیں جانا باقی کی سیر کل سہی گھر واپس جانے کی تیاری کرو ”
چوہدری راشد نے سب کو حکم دیا اور اٹھ کے باہر چل دئیے
علی اور سوہا کے حلق میں چائے کے گھونٹ اٹک کے رہ گئے
ان کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ مونا اتنی جلدی یہ سب کچھ کر لے گی
علی کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جھکڑ لیا
اس نے کوئی پچاس بار مونا کا نمبر ڈائل کیا تھا مگر وہ کال پک ہی نہیں کر رہی تھی ________
“علی بات ہوئی مونا سے کچھ؟”
راستے میں سوہا نے پریشانی کے عالم میں پوچھا
“نہیں بھابھی وہ کال پک نہیں کر رہی ”
“میں بھی کتنی دیر سے لگی ہوئی ہوں میری بھی کال ریسیو نہیں کر رہی”
سوہا نے بھی اداس لہجے میں کہا______
” پتہ نہیں کیا چل رہا ہے اس لڑکی کے دماغ میں
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی! رات ذرا سی بات پہ میرے ساتھ جنگ کی____ خود ہی لڑی اور ناراض ہو کے بیٹھ گئی !
اور اب یہ نیا ڈرامہ لگا کے بیٹھ گئی ہے ______
اور اوپر سے موبائل سائلنٹ پہ لگا رکھا ہے ______
کم سے کم بندہ کسی کو ایک بار صفائی کا موقع تو دے ایک بار کسی کی بات سننے سے پہلے ہی اسے سزائے موت تو نہیں سنا دیتے؟”
علی کے حلق سے شدید درد کی وجہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی_____________”
“تم بابا جانی سے بات کرو ایک بار!”
سوہا نے مشورہ دیا________
“اب کیا فائدہ جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہو چکا ہے اب وہاں جا کے ہی کچھ پتہ چلے گا کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے ”
علی نے مایوسی سے کہا ________
سوہا خاموش ہو گئی_____
تین گھنٹوں کا سفر علی کو تین صدیوں کے برابر بھاری لگ رہا تھا اس کا بس چلتا تو وہ اڑ کے پہنچ جاتا دل کو کسی پل چین نہیں آ رہا تھا______
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وقفے وقفے سے مونا کا نمبر ڈائل کیے جا رہا تھا اس امید پہ کہ وہ شاید اس سے بات کر لے
مگر ایک گھنٹہ گزر گیا تھا دوستی طرف مسلسل خاموشی تھی _________
مونا کمرے میں اندھیرا کیے کب سے نکاح کا سرخ جوڑا ہاتھ میں لیے رو رہی تھی مجھے نہیں کرنی یہ شادی میں ابھی دادا جی سے بات کرتی ہوں مونا نے سوچا
پر دادا جی پوچھیں گے کہ کس سے شادی کرنی ہے تو میں صاف صاف کہہ دوں گی علی سے
اور اگر دادا نے علی سے پوچھا تو وہ مان جائے گا علی نے اپنے دماغ پہ زور دیا
کبھی نہیں جس نے مجھے ابھی تک ایک کال تک نہیں کی وہ شادی کرے گا میں ہی پاگل ہوں جو اس کے لیے مری جا رہی ہوں اور وہ اس اپنی کزن عالیہ کے ساتھ مزے کرتا پھر رہا ہو گا کیسے ہر وقت اس کے ساتھ چپکی رہتی ہے
مونا کو اچانک عالیہ یاد آ گئی
لیکن جو بھی ہے مجھے ایک بار علی سے بات کر لینی چاہیے مونا نے کچھ سوچ کر موبائل کی طرف ہاتھ بڑھایا
پانچ سو مس کالز علی کے نام سے اور ابھی بھی سکرین پہ اس کا نمبر چمک رہا تھا
ہہہ ہیلو کیا مسئلہ ہے تمھیں؟
مونا نے کال کٹ کر کے میسیج سینڈ کیا
کیونکہ اس نے بڑی مشکل سے اپنا رونا کنٹرول کیا ہوا تھا علی کی آواز سنتے ہی اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اس لیے اس کی آواز نہ سننے میں ہی بھلائی تھی
“تم شام کو نکاح کر رہو ہی اور مجھے ایک بار بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا ؟”
علی نے رپلائی کیا________
“تو تمھیں کیا ہے ؟میں نکاح کروں’ شادی کروں جیوں مروں تم اپنی اس عالیہ کے ساتھ یہاں موجیں کرو !”
مونا کا رپلائی آیا _______
پاگل لڑکی اگر تم نے کسی اور سے نکاح کیا تو میں اسے بھی جان سے مار دوں گا ساتھ میں تمھیں بھی جسے کبھی میری محبت کی سمجھ ہی نہیں آئی
علی نے غصے سے رپلائی کیا______
“کروں گی ایک بار چھوڑ کے ہزار بار نکاح کروں گی کر لو جو کرنا ہے ”
مونا نے ٹیکسٹ سینڈ کر کے موبائل بیڈ پہ پھینک دیا اور پھر سے آنسو بہانے لگی _______
تھوڑی دیر بعد سکرین پہ سوہا کا نمبر جگمگانے لگا
مونا نے روتے روتے کال اٹینڈ کی
” ہیلو !”
اوہ مائی گاڈ تم رو رہی ہو ؟
اچانک اسے علی کی آواز سنائی دی کیونکہ علی سوہا کے نمبر سے کال کر رہا تھا ______
علی کی آواز سن کے مونا کے حلق سے آواز نہیں نکل پا رہی تھی وہ کچھ کہے بغیر سسکیاں لیے جا رہی تھی
“مونا کیا ہوا ہے؟ کچھ بولو تو صیح مونا میری جان کیوں رو رہی ہو آر یو اوکے کچھ تو بتاؤ مجھے ؟”
علی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ________
“علی مجھے یہ شادی نہیں کرنی مجھے تمھارے ساتھ رہنا ہے مجھے لے جاؤ یہاں سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ”
مونا نے بڑی مشکل سے ہمت کر کے کہا اور پھر سے رونے بیٹھ گئی _________
”
مونا ہیلو بات سنو !”
مونا کو کتنی دیر تک قریب رکھے موبائل سے علی کی ہیلو ہیلو کی آوازیں آتی رہیں اس کے بعد کال کٹ گئی
اور کمرے کے اندھیرے میں کچھ اور اضافہ ہو گیا
“کیا ہوا کیا کہہ رہی تھی ؟”
سوہا نے علی کو پریشان دیکھ کے پوچھا _____
“روئے جا رہی ہے پاگلوں کی طرح کوئی بات تو کر ہی نہیں رہی ٹھیک طرح سے ”
علی نے سوہا کو موبائل پکڑتے ہوئے کہا______
اچانک سے گاڑی چلتے چلتے رک گئی
” اوہ مائی گاڈ لگتا ہے خراب ہو گئی ہے ”
علی نے بے چینی سے سیٹ پہ مکا مارتے ہوئے کہا_____
اور باہر نکل کے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی دیکھنے لگا
“مونا بیٹا ابھی تک تیار نہیں ہوئی ؟
میری جان شام ہو رہی ہے اور تم ویسے ہی خود کو کمرے میں بند کر کے بیٹھی ہو ؟”
شاہدہ بیگم نے مونا کے کمرے کی لائٹ آن کر کے پوچھا ___
“ارے یہ کیا بیٹا تم رو رہی ہے آج تو اتنی بڑی خوشی کا موقع ہے پتہ ہے مونا شادی کے بعد میں اور تمھارے پاپا اسی گھر میں اپنا ہنی مون منانے آئے تھے ”
شاہدہ بیگم نے مونا کو گلے لگاتے ہوئے کہا_____
“مما پاپا کی بہت یاد آ رہی ہے ”
مونا نے بچوں کی طرح ان کے گلے لگ کے روتے ہوئے کہا ___
“اچھا چپ! میری جان آج تمھارے پاپا کی روح بہت خوش ہو گی کہ اس کی بیٹی دلہن بن رہی ہے ”
شاہدہ بیگم نے پیار سے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا_____
“یہ پولیس کی گاڑی اندر کیوں آ رہی ہے ؟”
اچانک سے شاہدہ بیگم کی نظر کمرے کی کھڑکی سے باہر گیٹ سے اندر داخل ہوتی ہوئی پولیس کی گاڑی دکھائی دی
مونا بھی اسے دیکھ کے پریشان ہو گئی
“رکو میں دیکھتی ہوں”
شاہدہ پریشانی سے سر پہ دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے آگے بڑھی
“انسپکٹر صاحب یہ ہیں میرے ہزبینڈ احسان دلاور اور یہ ہیں ان کے ظالم خاندان والے جو ان کی آج زبردستی شادی کروا رہے ہیں وہ بھی میری اجازت کے بغیر ”
اچانک ریٹا نے سامنے کھڑے ملک سخاوت کے گھر والوں کو دیکھ کر کہا_________
سب حیران ہو کے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے ___
“دیکھیں ملک صاحب جو بھی ہے قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے آپ کے ہوتے احسان کی اس لڑکی سے باقاعدہ قانونی طور پر شادی ہو چکی ہے اور اس نکاح نامے میں لکھی شرائط کے مطابق یہ اب ریٹا کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کر سکتا_______
یہ ایک جرم ہے اور اگر آپ سب ملکر اسے یہ کرنے پہ مجبور کر رہے ہیں تو پھر آپ سب بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور میں آپ سب کو اس جرم میں گرفتار بھی کر سکتا ہوں لیکن بہتر ہے کہ آپ سب اس میڈیم ریٹا سے بیٹھ کے صلح صفائی سے بات چیت کر کے خود ہی معاملہ سیٹ کر لیں کیونکہ ہمیں بہت اوپر سے آرڈر آیا ہے ورنہ دوسری صورت میں ہم آپ سب کو جیل لے جانے کے لیے مجبور ہو جائیں گے !”
انسپکٹر نے روایتی انداز میں دھمکی دیتے ہوئے کہا_____
ملک سخاوت کا یہ سارا تماشہ دیکھ کے رنگ اڑ گیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ علی بھی اپنی فیملی سمیت پہنچ گیا
سامنے پولیس کھڑی دیکھ کے سب ہی پریشان ہو گئے
علی نے انسپکٹر سے ساری بات پوچھنی اور اسے مطمئن کر کے واپس بھیج دیا کہ یہ ان کا خاندانی معاملہ ہے اور وہ خود باہمی گفت و شنید سے اسے حل کر لیں گے
”
“دیکھیں میں ایک بات آپ سب کو بتا دوں احسان میرے شوہر ہیں اور میں انھیں یہاں سے اپنے ساتھ لے کے جاؤں گی سن لیں سب کان کھول کے جس نے مجھے روکنے کی کوشش کی اس کے حق میں بہتر نہیں ہو گا ورنہ کل میں ساری میڈیا اکھٹی کر کے بتاؤں گی کہ کیسے آپ سب نے دھوکے سے میرے شوہر کو مجھ سے چھینا ہے”
ریٹا نے چلا کے کہا ____________
“ہاں بس اب یہی کمی رہ گئی تھی باقی کہ ایک اس قسم کی بے حیا عورت ہمارے گھر میں کھڑی ہو کے ہمیں ہی دھمکیاں لگائے
اور ہم سب مجبوروں اور لاچاروں کی طرح کھڑے ہو کے اس کی بکواس سنیں ”
ملک سخاوت نے ناگواری سے اس لڑکی کی طرف دیکھ کے کہا _________
”
دادا جان یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے مم میں۔ نے اس سے کوئی شادی نہیں کی یہ مجھے ناحق پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے ”
احسان نے ہکلاتے ہوئے کہا__________
چپ کر بغیرت !
“اس کے پاس تیرے ہر کارنامے کا ثبوت موجود ہے وہ کوئی گاؤں کی جاہل گنوار لڑکی نہیں ہے جو سارے خاندان کے سامنے بغیر کسی ثبوت کے اپنا حق مانگنے چلی آئی ہے
ہر کام پورا کر کے آئی ہے تجھے یہ کام کرتے ہوئے اس وقت تو شرم نہ آئی اب تجھ میں بڑی غیرت جاگ رہی ہے”
ملک سخاوت نے گرج کر کہا ____________
اے ہے کیا غلط کیا ہے میرے بیٹے نے جو آپ اس کے پیچھے یوں ہاتھ دھو کے پڑ گئے ہیں ایک چھوٹی سی شادی ہی تو کی ہے نہ تو کس شے کی کمی ہے ہمارے پاس اللّٰہ کا دیا سب کچھ ہے ایک چھوڑ چار چار بیویاں رکھ سکتا ہے میرا بیٹا ”
ثمینہ بیگم نے اترا کے کہا_______
“بہو بیگم بات شادی کی نہیں ہے اعتماد اور بھروسے کی ہے اگر اس نے یوں چھپ کے شادی کی تھی تو مونا کو بتایا کیوں نہیں؟ ہم سب سے یہ بات خفیہ رکھ کے احسان دھوکے باز اور فراڈ ثابت ہو چکا ہے
اس لیے میری پوتی کے ساتھ شادی کرنے کا تو یہ اب کبھی خیال بھی دماغ میں نہ لائے”
ملک سخاوت نے دو ٹوک فیصلہ سنایا_____
“اگر میں چپ ہوں تو مجھے چپ ہی رہنے دیں میری زبان مت کھلوائیں یہ مونا بھی کوئی دودھ سے دھلی نہیں ہے
میرے بیٹے نے تو شادی کی ہے یہ تو بغیر شادی کے ہے اپنے یاروں کے ساتھ آٹھ دن رنگ رلیاں مناتی رہی
اور پھر اس کے وہ یار اسے کچرے کے ڈبے میں پھینک کے گئے
ایسی لڑکی جو شادی سے پہلی ہی اپنی عزت گنوا چکی ہو اس کے ساتھ ہم نے اپنے بیٹے کی شادی کا اعلان کر کے ان لوگوں پہ احسان کیا اور بجائے آپ ہماری نیکی کا اعتراف کرنے کے ہمیں ہی الزام دے رہے ہیں
میں دیکھتی ہوں کس مائی کے لعل میں اتنی ہمت ہے کہ مونا کے بارے میں یہ سب جان کے اس اپنے گھر کی عزت بنائے
یونہی گھر میں بیکار چیزوں کی طرح کسی کونے میں پڑی سڑتی رہے گی کوئی منہ نہیں لگائے گا ان ماں بیٹی کو
کہہ رہی ہوں میں لکھ کے رکھ لو میری بات ”
ثمینہ بیگم نے سب کے سامنے کھلے عام مونا کی عزت کے پرخچے اڑاتے ہوئے کہا _______
بہو بیگم چپ کر جاؤ زبان کو لگام دو ورنہ میں یہ بھول جاؤں گا کہ تم سب میری اولاد ہو ______
ملک سخاوت کے چہرے کا رنگ یہ سب الفاظ اپنے گھر کی بیٹی کے بارے میں سن کے متغیر ہو گیا
شرم کے مارے زمین میں دھنسے جا رہا تھا
ملک سخاوت ادھر دیکھ میری طرف
چوہدری راشد نے اپنے دوست کا ہاتھ تھام کے کہا
میں چوہدری راشد ابھی یہ سب کے سامنے یہ ملک سخاوت کی پوتی کو اپنے خاندان کی عزت اور اپنے بیٹے علی سے اسی وقت نکاح کا اعلان کرتا ہوں
اور اپنے دوست سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس رشتے کو آخری سانس تک نبھاؤ ں گا
چوہدری راشد نے ملک سخاوت کا جھکا ہوا سر اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے کہا _______
وہاں کھڑے ہر شخص کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں
ارے چھوٹی بہو بیٹی کو اندر لے جاؤ کچھ دیر میں مولوی صاحب نکاح کے لیے پہنچ جائیں گے جا کے تیار کرو اسے
ملک سخاوت نے شاہدہ بیگم کو حکم دیا _____
جو اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مونا کا ہاتھ پکڑ کے کمرے کی طرف لے گئی
“دیور جی میرا خیال ہے آپ کا بھی نکاح مونا کے ساتھ ساتھ چلو نہانے کا تو ٹائم نہیں ملے گا چل کے منہ ہاتھ دھو لیں ورنہ دلہن یہ گرد سے اٹا چہرہ دیکھ کے ڈر نہ جائے ”
سوہا نے پاس کھڑے علی کو کہنے مارتے ہوئے کہا_______
گھر میں ہر کوئی خاموش تھا رشتوں میں آئی اس اچانک تبدیلی پہ ہر کوئی چکرا کے رہ گیا تھا مگر بڑوں کے فیصلے کے آگے سوال کرنے کی ہمت کسی میں بھی نہیں تھی
دس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ مولوی صاحب نکاح پڑھانے کے لیے وقت پہ پہنچ گئے
مونا دختر مدثر حسین کا نکاح علی حسن عثمانی کے ساتھ پچاس لاکھ حق مہر کے عوض پڑھا جا چکا تھا
سوہا اس خوشی میں اب مہمانوں میں مٹھائی تقسیم کر کے منہ میٹھا کروا رہی تھی
جہاں ہر شخص خوش تھا وہاں کچھ لوگ اس نکاح پہ ناراض بھی تھے جن میں سر فہرست مونا کی تائی ثمینہ بیگم اور علی کی کزن عالیہ تھیں جن کے مستقبل کے سارے شاندار منصوبے اس نکاح کی نظر ہو گئے تھے
عالیہ تو کمرے سے باہر ہی نہ آئی اور ثمینہ بیگم کھڑکی کی اوٹ سے سارا منظر دیکھ کے جل رہی تھی
عالیہ نے تو علی سے شادی کے لیے برائڈل ڈریس کا رنگ بھی سلیکیٹ کر لیا تھا
بس اب واپس جا کے ایک بار عالیہ کی ماں نے ممانی جان سے ان کی شادی کی بات کرنی تھی اور انھوں نے مان جانا تھا
کہ اچانک یہ مونا بیچ میں پتہ نہیں کہاں سے آ گئی جس نے اس کی اب تک کی ساری محنت پہ پانی پھیرتے ہوئے بڑے آرام سے علی کو حاصل کر لیا
اور وہ دوڑ کھڑی تماشہ دیکھتی رہی
“مونا اتنی آسانی سے تو میں ہار نہیں مانوں گی میں بھی عالیہ ہوں دیکھتی ہوں تم علی کو مجھ سے کیسے چھنیتی ہو”
عالیہ نے کمرے کی بند کھڑکی کھولتے ہوئے کہا
اور کوئی اچھا سا منصوبہ سوچنے لگی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...