آبیان رات میں عنایہ کو کھانا اور دوائی میں نیند کی گولی دے کر آیا تھا تا کہ وہ سکون سے سوجائے
آبیان رات میں دوبارہ بےچینی میں اٹھ کر اسکے کمرے میں آیا تو عنایہ سو رہی تھی عنایہ کو سوتا پا کر اس سے سکون ملا وہ بغیر اسکی نیند میں خلل پیدا کیے روم سے باہر چلا گیا
آبیان کی جلدی اٹھنے کی عادت تھی وہ صبح اٹھ کر جاگنگ پر جاتا تھا پھر آکر اپنے دو تین کام نپٹاتا تھا پھر قریباً بارہ بجے وہ آکر ناشتہ کرتا تھا
آج جب وہ کام نپٹا کر آیا تو سب سے پہلا خیال عنایہ کا آیا آبیان جو ناشتے کی کرسی پر بیٹھنے والا تھا ایک دم سے اٹھا اور عنایہ کے کمرے کی طرف گیا
“عنایہ اٹھو”
آبیان روم میں آیا تو عنایہ سو رہی تھی آبیان اسے جگانے کے گرز سے آواز دینے لگا
“عنایہ اٹھو کتنا سونے کا ارادہ ہے جاناں”
جب عنایہ نہیں اٹھی تو آبیان اسکا کندھا ہلانے لگا
آبیان نے جیسے ہی عنایہ کا ہاتھ اٹھایا تو وہ بے جان مجسمے کی طرح بیڈ پر گڑ گیا
“تمہیں تو بہت تیز بخار ہے”
عنایہ کا ہاتھ گڑنے پر آبیان پریشان ہوگیا اور جب عنایہ کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ بہت تپ رہا تھا اور عنایا بیڈ پر بے جان پڑی تھی آبیان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے وہ بار بار اسکے ہاتھ پاؤں سہ لا رہا تھا
“میں اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتا مجھے کچھ کرنا ہوگا”
آبیان کو گھبراہٹ میں کچھ سمجھ نہیں آراہا تھا
“میں اسے ہسپتال لے کر جاتا ہوں”
جب آبیان نے آگے پیچھے دیکھ رہا تھا کہ عنایہ کے لیے کوئی شال مل جائے اسے اوڑھانے کے لیے تو اسے بیڈ کے سائیڈ پر بوتل دیکھی آبیان بوتل کو دیکھ کر بے حد غصہ آیا لیکن اسکی حالت دیکھ کر خود پر ضبط کرتا ہوا کبرڈ سے شال نکال کر اڑھا کر اسے گود میں اٹھاتے جلدی جلدی سیڑیاں اترنے لگا
“تمہیں کچھ نہیں ہوگا میری جان میں تمھیں کچھ نہیں ہونے دونگا”
آبیان اسکے بے جان وجود کو گود میں اٹھاۓ دیوانوں کی طرح تڑپ رہا تھا اسے خود اپنے ہاتھ پاؤں بےجان ہوتے محسوس ہوئے
“گاڑی نکالو جلدی”
آبیان ڈرائیور کو دیکھ کر چیخا اسکی دماغ کی نس پھٹ رہی تھی اسکا دل چاہ رہا تھا پوری دنیا کو آگ لگا دے جس کی وجہ سے عنایہ یہاں سی بھاگنا چاہتی تھی وہ کار میں اسکے بےجان وجود کو لیے ڈرائیور کی جان ہلکان کر رہا تھا ڈرائیور خوفزدہ سا اسکے حکم کی تعمیل کر رہا تھا
آبیان ایمرجنسی وارڈ کے باہر کھڑا تھا اسکا وجود پسینے سی شرابو تھا
“کیا ہوا ڈاکٹر”
ڈاکٹر روم سے باہر آیا تو آبیان بےچینی سی انکی طرف بڑھا
پیشنٹ کو کسی چیز کا ڈر یا اسٹریس تھا اسنے زیادہ گولیاں کھا لیں ہیں جس کی وجہ سے اسکا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے ابھی ہم نے انھیں انڈر آبزرویشن رکھا ہے لیکن آپ خیال رکھیں اسے اب کوئی سٹریس نا ہو”
ڈاکٹر اسے ہدایت دیتی ہوئی بولی
“جی ڈاکٹر”
آبیان کہ کر وہاں رکھی کرسی پر بیٹھ گیا اور ڈاکٹر کہ کر چلی گئی
“اگر اسے کچھ ہو جاتا تو؟؟ ” سوچ کر ہی وہ کانپ اٹھا
“میں نے اس لیے سزا نہیں دی تھی کہ وہ مجھ سے دور چلی جائے بلکہ میں تو اُسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا مجھے لگا وہ ڈر کر میرے پاس ہمیشہ رہ لے گی اور پھر میں اپنے پیار میں اسے بگھو کر سب بھولا دونگا وہ صرف میری بن کے رہے گی صرف مجھ سی محبت کریگی صرف میری پناہوں میں رہے گی میں اسے کھبی جانے نہیں دونگا میں تو صرف اس ڈر سے اسکے ساتھ ایسا سلوک کیا کے کہیں وہ بھی میرے ماں باپ کی طرح مجھے چھوڑ کے نا چلی جائے”
آبیان خود کی سوچو میں گھوم تھا کہ نرس نے آکر کہا “پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے آپ دیکھ لیجیے”
آبیان تیزی سی اٹھ کر کمرے میں گیا تو عنایہ آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی
دروازے کے بند ہونے کی آواز سے اسنے آنکھیں کھولی تو خوف پھر تاری ہونے لگا وہ آبیان کو دیکھ کر خوف سے تھر تھر کانپنے لگی
“پلیز مجھے معاف کردو میں آئیندہ کہیں نہیں جاؤنگی”
عنایہ آبیان کو دیکھ کر خوف سے کہنے لگی اسے دیکھ کر اسے دوبارہ کل والا واقعہ یاد آیا
“عنایہ کول میں کچھ بھی نہیں کر رہا تمہارے ساتھ پلیز تم لیٹ جاؤ تمہاری طبیعت خراب ہوجاےگی”
آبیان اسے کول ڈاؤن کرنے کی کوشش کرنے لگا اسکا دل کٹ گیا عنایہ کی یہ حالت دیکھ کر اب اسے احساس ہو رہا تھا وہ عنایہ کے ساتھ اپنے ساتھ بھی غلط کر چکا ہے
“دیکھو میرے پاس مت آنا”
عنایہ اسے قریب آتا دیکھ فوراً بولی
“اچھا ٹھیک ہے نہیں آرہا بس یہی کھڑا ہوں”
آبیان اسکی بگڑتی حالت دیکھ کر بولا کتنی تکلیف تھی آبیان کی آنکھوں میں کوئی دیکھتا تو حیران رہ جاتا دوسروں کو تکلیف دینے والا خود تڑپ رہا تھا اسے سمجھ ہی نا آیا کہ اسکے ساتھ ایسا کچھ بھی ہو سکتا ہے جب اسنے ڈراز سے اسے نیند کی دوائی نکال کے دی تبھی اسنے دیکھ لیا تھا اور اس کے جاتے ہی عنایہ نے تین چار گولیاں نکال کر کھا لی
عنایہ یہی سوچ رہی تھی کہ اتنی گولیاں کھانے کے بعد بچ کیسے گئی کیوں کے اسکے ساتھ گزارہ بہت مشکل تھا
عنایہ دو دن بعد ڈسچارج ہوئی عنایہ گھر آئی تو ملازمہ نے اسے اسکے کمرے تک پہنچایا آبیان اسکے پاس دوبارہ نہیں گیا اسکے ڈرنے کی وجہ سے آبیان چاہتا تھا کہ وہ ٹھیک ہوجاے پھر وہ اس سے بات کرے گا کہ اس سے غلطی ہوگئی اسے اتنی بڑی سزا نہیں دینی چاہیے تھی
آبیان کمرے کھانے کی ٹرے لے کر آیا
عنایہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے آنکھیں موندیں بیٹھی تھی
“جانم کھانا کھالو”
آبیان بہت پیار سے اسے مخاطب ہوا دو دن بعد اسے قریب دیکھ کر وہ آنکھوں کے ذریعے اپنی پیاس بھجا رہا تھا
عنایہ اسکی آواز سن کر دوبارہ خوف سے چیخنے لگی
“جاؤ یہاں سے پلیز مجھے دوبارہ بند نہیں کرنا پلیز چلے جاؤ”
عنایہ خوف سے اپنے پاؤں سمیٹ کر بیٹھتی ہوئی رندھی ہوئی آواز میں بولی
“عنایا میں کچھ بھی نہیں کر رہا میں تمھیں کہی بند نہیں کر رہا پلیز تم سہی ہوجاؤ میں تمہارے ساتھ ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا”
عنایہ کی حرکت پر وہ اور شرم سے جھک گیا
“پلیز مجھ سے دور رہو میں اب کچھ بھی نہیں کرونگی”
عنایہ روتے ہوئے بولی
عنایہ کو جب جب اس رات کا منظر یاد آتا تب تب اسے لگتا کہ اسکے جسم پر وہی کیڑے رینگ رہے ہیں
“تم کچھ کرو یا نہیں میں تمہارے ساتھ دوبارہ کبھی ایسا نہیں کرونگا میں چاہتا تھا تم میرے پاس ہمیشہ رہو مجھے کہیں بھی چھوڑ کر مت جاؤ جیسے میرے ماں باپ نے کیا جب تم چلی گئی تھی میں کتنا خوف زدہ ہوگیا تھا تم جانتی نہیں ہو ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے جسم کا ایک مضبوط حصہ مجھ سے چھین لیا گیا ہو تم جانتی ہو میں نے تمہارے اوپر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا ہے میں ان مردوں میں سے نہیں ہو جو اپنی مردانگی دیکھاے مجھے اپنا ڈر قابو کرنا آتا ہے پر پتا نہیں میں کیسے تمہارے ساتھ اتنا غلط کر گیا مجھ سے تمہاری حالت برداشت نہیں ہو رہی ہے میں نے کسی سے آج تک معافی نہیں مانگی ہے اور لوگوں کے ساتھ اس سے زیادہ برا سلوک کیا ہے لیکن تمہارے ساتھ کرکے مجھے خود تکلیف ہو رہی ہے”
آبیان آہستہ آہستہ اسکے قریب کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگا
عنایہ اسے دیکھ ہی رہی تھی جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو یہ وہی کل والا ہے جس کا جلال اتنا برا تھا جیسے دماغ نفی کر رہا ہو کہ نہیں یہ شخص وہ نہیں ہے
*****
“کیسے ہیں آپ سب”
آبش کی امی (آمنہ ) حسن کی امی سے پوچھنے لگیں
حسن اور اسکی امی تھوڑی دیر پہلے ہی آبش کے گھر پہنچے تھے دونوں ڈراانگ روم میں بیٹھے تھے
“ہم ٹھیک ہیں اللّه کا شکر آپ لوگ کیسے ہیں؟؟”
حسن کی امی آمنہ سے پوچھنے لگیں
“اللّه کا کرم اور بیٹا آپ کی جاب کیسی جا رہی ہے”
آمنہ حسن سے پوچھنے لگیں۔ اتنے میں آبش کھانے سے بھری لوازمات ٹرے میں سجا کر لے آئ۔ آبش ٹرے ٹیبل پر سجانے لگی
“اسکی کیا ضرورت تھی ہم اس لیے نہیں آئے تھے”
حسن کی امی کھانے کی چیزیں دیکھتی ہوئی بولیں
“بلکہ ہم تو آپ سے بہت قیمتی چیز مانگنے آئے ہیں”
حسن کی امی آبش کے ابو جو کب سے خاموش بیٹھے تھے ان سے مخاطب ہوئے جبکے آمنہ اور اسکے شوہر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جیسے سمجھ رہے ہوں کیا قیمتی چیز ماگنے آئے ہیں
“مجھے آپ کی بیٹی آبش اپنے بیٹے حسن کے لیے چاہیے میں بھی بہت اکیلی ہوگئی ہوں مجھے بھی ایک بیٹی کی ضرورت ہے”
حسن کی امی انھیں اپنے آنے کی اصل وجہ بتانے لگی
“اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے دوست کے بیٹے میں کوئی خرابی ہوگی مجھے بہت خوشی ہوئی جس کو میں اتنے ٹائم سے جانتا تھا اسی کا بیٹا میری بیٹی کا ہاتھ ماگنے آیا ہے آپ ہمیں تھوڑا ٹائم دیں ہم خود بھی مشورہ کرلیں اور اپنی بیٹی سے بھی پوچھ لیں مشورے میں تو اللّه نے خیر ہی رکھی ہے”
آبش کے ابو سچ میں بہت خوش تھے لیکن وہ اپنی بیٹی سے بغیر پوچھے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے
“جی جی بےشک آپ سوچ لیں پھر جواب دے دیجےگا ہمیں کوئی مسلا نہیں ہے”
حسن کی امی نے بہت اطمینان سے جواب دیا
“چلے اب ہم چلتے ہیں اور آپ کے جواب کا انتظار رہے گا”
تھوڑی بہت باتوں کے بعد حسن کی امی نے کھڑے ہوتے ہویے اجازت لی
“تھوڑی دیر بیٹھ جاتے ہمیں اچھا لگتا”
آمنہ بھی اٹھتی ہوئی بولیں
“نہیں بس اب چلتی ہوں اہم کام کرنے آئ تھی وہ تو ہوگیا اللّه چاہے گا تو آگے بھی اچھا ہوگا چلیں بہن اللّه حافظ”
وہ گیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے بولیں
“چلیں سہی ہے اللّه بہتر کریگا اللّه حافظ”
آمنہ ان سے گلے مل کر دروازے تک چھوڑنے آئ
حسن بھی آبش کے ابو سے مل کر دروازے کی جانب بڑھا
______________
جب حسن کی امی نے رشتے کی بات کی تو آبش چائے رکھ کے اپنے کمرے میں چلی گئی آبش کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسکے ماں باپ کیا جواب دینگے ابھی تو میری پڑھائی بھی باقی ہے لڑکے نے پہلی بار کیا دیکھا رشتہ ہی بیجھ دیا؟؟
آبش اپنی ہی سوچوں میں گھوم تھی کہ آبش کی امی نے اسے کھانے کے لیے آواز لگائی کھانا کھا کر آبش روم بند کرکے بیڈ پر لیٹنے کے گرز سے آئ تو روم کا دروازہ کھلا
آواز سن کر بر وقت آبش نے پیچھے دیکھا تو آبش کے ماں باپ کھڑے تھے
“بیٹا ہمیں تم سے کچھ بات کرنی ہے”
آبش کے ابو آبش کو بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے بولا
“جی بابا”
آبش نظریں جھکاے کہنے لگی
“بیٹا حسن کی امی تمہارا ہاتھ ماگنے آئ تھیں”
آبش کے ابو آبش کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولے
“آبش لڑکا بہت اچھا ہے تمیز دار بہت ادب سے ملا اور سب سے بڑی بات لڑکا پی۔اے۔ایف میں بہت اچھی پوسٹ پر ہے اسکی امی بھی بہت اخلاق والی ہیں تم بہت خوش رہو گی”
آبش کی امی اسے سب بتا رہی تھیں
جب کہ آبش کی سوئی ٹو پی۔اے۔ایف پر ہی اٹک گئی تھی آبش اپنے ماں باپ کو حیران کن آنکھوں سے دیکھ رہی تھی
“آپ ہمیں مت دیکھو زندگی آپ نے گزارنی ہے ہم نے۔ نہیں آپ سوچ لیں آپ کو کیا فیصلہ کرنا ہے ہم آپ کے فیصلے پر پورا اکتفہ کریں گے۔ چاہے وہ نا میں بھی کیوں نا ہو ہمیں آپ کی خوشی زیادہ عزیز ہے”
آبش کہ ابو اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے
اور آبش یہی سوچ رہی تھی خواب ایسے بھی پورے ہوتے ہیں
“نہیں بابا مجھے یہ رشتہ منظور ہے”
آبش دھیمے لہجے میں بولی
“مجھے پتا تھا میری بیٹی بہت سمجھدار ہے”
آبش کی امی اسے گلے لگاتے ہوے بولیں
“تم دل سے راضی ہو نا”
آبش کے ابو اس سے دوبارہ پوچھنے لگے
“جی بابا میں دل سے راضی ہوں آپ فکر نا کرے اپنے چنا ہے تو بہترین ہی ہوگا”
آبش انکو تسلی دلانے لگی
“ٹھیک ہے بیٹا آپ خوش ہیں تو پھر ہمیں کیا چاہیے”
وہ آبش کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے بولے اور روم سے دونوں چلے گئے
“تم تھوڑے عجیب ہو لیکن گزارا ہو جائے گا تمہاری وردی دیکھ کر مجھے تمہاری وردی سے عشق ہے اس کے لیے تو کچھ بھی”
آبش بیڈ پر لیٹے خود پر کمبل ڈالے سوچ رہی تھی اور پھر آنکھیں موندلی۔
****
آج سارہ اور آبش دونوں یونی کے گارڈن میں بیٹھی تھیں
آبش سارہ کو اپنے رشتے کے بارے میں بتا رہی تھی جس سے وہ بہت خوش تھی
“یار عنایہ کا کچھ پتا چلا”
آبش نے سارہ سے پوچا
“نہیں یار کل میں اس کے گھر بھی گئی تھی پورا گھر جیسے اجڑ گیا ہے سب بہت دھکی تھے کہ عنایہ کہاں جاسکتی ہے بھاگنے والوں میں سے نہیں تھی وہ اور نا بھاگی ہوگی عنایہ کے بھائی باپ نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا لیکن وہ پتا نہیں کہا چلی گئی ہے”
سارہ افسردہ لہجے میں بولی
*****
“تو ایک بار پرپوز تو کر دیکھتے ہیں وہ کیا کہتی ہے”
سلمان کا ایک دوست ہاتھوں میں روس تھما کر اسے سارہ کو پرپوز کرنے کا مشورہ دے رہا تھا
“یار تھپڑ مار دیا تو… ہے بھی ایسی اُس کا کچھ بھروسہ نہیں ہے ”
سلمان اپنا خدشہ بتا رہا تھا
“فٹو ڈرے گا تو آگے کیسے بڑھے گا ڈر کے آگے جیت ہے جا میرا شیر جنگ جیت کر آ یہ لے پھول جا”
اسکا دوست اسکو ہمت دے رہا تھا جس میں وہ بلکل نا کام ہو رہا تھا
“کوشش کرتا ہوں”
سلمان پھول پکڑتے ہوئے کہنے لگا اور ڈرتے ڈرتے اسکے پاس گیا
جب سلمان اسکے پاس گیا تو سارہ اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھنے کی کوشش کر رہی ہو کہ کیا کام ہے؟؟
“مجھے لمبے لمبے ڈائلوگ نہیں آتے نا میں یہ کہونگا کہ میں تمہارے لیے چاند تارے توڑ کر لاؤں گا اسکا وعدہ ضرور کرتا ہو کہ تمہیں عزت والی زندگی دونگا ہر غم تمہارا میں سہ لونگا اتنا کہونگا تمہاری زندگی خوشیوں سے بڑھنے کی پوری کوشش کرونگا یو نو واٹ یہ دل اب میرے قبضے میں نہیں ہے یہ صرف تمہاری چاہ کرتا ہے تمہیں دیکھ کے دوڑا دوڑا تمہاری طرف آتا ہے۔ ویل یو مییری می تم میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں بنا پسند کروگی؟؟”
سلمان اسکے بلکل قریب پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھا اس سے کہنے لگا اور آخر میں وہ شوخیا ہوا
یونی کے سب لوگ ہوٹنگ کر رہے تھے اور حیرت زدہ تھے وہ خود بھی حیرت میں تھی جو لڑکا کسی لڑکی کے پاس نہیں جاتا کسی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا وہ آج ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہے سب لوگ اکھٹا ہو رہے تھے
سارہ نے پھول لے کر دهور پھیکا اور بینا کچھ بولے جانے لگی
اسے محبت سے زیادہ اپنی عزت پیاری تھی
” رکو تم جو کہوگی میں کرنے کے لیے تیار ہوں تم میری محبت کا امتحان لے سکتی ہو جیسا تم چاہو”
سارہ کو مڑتا دیکھ سلمان نے آخری بار کوشش کی
یہ سن کر سارہ کے دماغ میں آئیڈیا آیا اور چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگی
“کچھ بھی کرو گے ”
سارہ سلمان کی طرف مڑتے ہوئے بولی
“ہاں جو تم بولو”
سلمان اسکی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولا
“ٹھیک ہے پھر بائیک ریسنگ میں تو ہر لڑکا ہی شیر ہوتا ہے کیوں نا ہارس رایڈنگ ہو جائے”
سارہ دونوں ہاتھ ملاتے ہوئے بولی
“ٹھیک اگر میں جیتا تو سیدھا تمہارے گھر رشتہ آئے گا ڈیل ڈن ہے تو بولو”
سلمان محفوظ کن ہوتے ہوئے بولا
اسے پتا نہیں تھا کہ سلمان کو بائیک سے زیادہ گھوڑا پسند ہے اور اسکا ایک فارم بھی ہے
“ٹھیک ہے ڈن”
سارہ کو لگا وہ ہار جائے گا اس لیے اسنے یہ شرط رکھی
اور پھر تھوڑی دیر بعد ایک بہترین ہارس رائیڈنگ والے کو بلایا گیا اور ایک سن سان علاقے میں انکی ریس رکھی گئی
سارے یونی کے سٹوڈنٹ تجسس میں وہیں آگئے تھے کہ اب ہو گا کیا
“ون ٹو تھری گو”
یونی کے ایک بندے نے ریس سٹارٹ کرتے ہوئے اعلان کیا
دو بندے تیز رفتار سے اپنے گھوڑے پر روانہ ہوئے اور آخری مرحلے پر سلمان نے اپنی جیت کا جھنڈا لہرایہ
سارہ ہونکوں کی طرح اسے دیکھے جارہی تھی جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہی ہو کہ یہ کیسے ہوگیا میں اپنی شرط کیسے ہار گئی اب کیا کرونگی میں
“کیا خیال ہے اب آپکا میڈم”
سارہ انہی سوچوں میں تھی کہ سلمان مجمعے سے نکل کر اسکے چہرے کی طرف چٹکی بجاتے ہوئے شوخیہ بولا
“اب تو میں حق کے ساتھ تمہارے گھر رشتہ لے کر آونگا انویٹیشن تم نے خود دیا ہے اب اور اب مجھے انکار نہیں چاہیے میں تمہاری مان سکتا ہوں تو تمہیں اٹھا بھی سکتا ہو”
سارہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا بولے تو سلمان اسکے کان میں سر گوشی کرتے ہوئے بولا آنکھوں میں واضح شرارت نظر آرہی تھی
سارہ اس کی آنکھوں سے زیادہ باتوں پر توجہ دے رہی تھی اگر آنکھیں پڑھتی تو ضرور پہچان جاتی
“تیار رہنا دلہن بن نے کے لیے کیوں کے تم پر اب صرف میرا حق ہے اور جنگ کا اعلان تم نے کیا تھا اب سزا کے لیے تیار رہو ساری زندگی مجھ معصوم سے محبت کی شدتیں برداشت کرنا”
سلمان اسکا مرکز اپنی باتوں پر دیکھ کر بولا اور بھرے مجمعے سے نکلتا ہوا چلا گیا
سارہ اسےجاتے ہوئے دیکھتی ہی رہ گئی اسکی سرگوشی سے سارا کی کان کی لوئیں تک سرخ پڑ گئیں
_________
“آپ ان سے کہ دیں کہ ہمیں رشتہ منظور ہے”
آبش کے ابو نے دو دن میں حسن کے بارے میں معلومات نکالی انکو یقین تو تھا کہ حسن بہت اچھا اور سمجھدار بچہ ہے لیکن بات اپنی بیٹی کی تھی وہ کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتے تھے انہوں نے جہاں سے بھی پوچھا ہر جگہ سے بہت اچھے جواب آئے جس سے وہ کافی مطمئن ہوگئے اس لیے انہوں نے اپنی بیوی سے کہا
“جی میں کل ہی فون کرکے کہ دونگی”
آمنہ اس رشتے سے بہت خوش تھیں اس لیے خوش دلی سے کہا
آبش جو دروازے پر کھڑی سب سن رہی تھی بھاگ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گئی
“اللّه میری خوائش تو پوری ہو گئی کہ مجھے ایک افسر ملا میں بہت شکر گزار ہو آپ کی لیکن خوف بھی ہے اللّه کیسے رہونگی وہ مجھے سمجھ بھی سکے گا یا نہیں یا میں اسے جان پاؤنگی”
آبش بیڈ پر بیٹھے بڑ بڑا رہی تھی
“اللّه سے امید رکھو ہر خوف چلا جائیگا اللّه نے جب تمہاری خوائش پوری کی ہے تو اس کے آگے جھک کر شکرانے کے نفل پڑھو نہ کہ دوسری پریشانیاں لے کر بیٹھو اللّه نے اتنا کرم کرکیا ہے تو آگے بھی کردینگے بھروسہ رکھو اس پاک ذات پر”
آمنہ جو اسکی بڑبڑاہٹ سن رہی تھیں کمرے میں جا کر اسے سمجھانے لگی
“جی امی ابھی پڑھتی ہو”
آبش اپنی ماں کی بات سن سکون میں آگئی اور اٹھ کر نفل پڑھنے چلی گئی
******