نیند ہمیں جو کچھ بھی دیتی ہے، یہ صرف بحالی کے لئے آرام تک محدود نہیں۔ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا سے ناطہ توڑ دینے کی خواہش کرتے ہیں۔ اور اس دوران خطرات سے دفاع بھی نہیں کر پاتے۔ اور جتنا کچھ ہمیں معلوم ہے، نیند میں کچھ بھی ایسا نہیں ہوتا جو سے جاگتی حالت میں آرام کرتے وقت نہ ہو سکتا۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اس کا بھی اندازہ نہیں کہ رات کو سوتے وقت ہم سراب کی کیفیت میں کیوں چلے جاتے ہیں۔ کسی سے بچ کر بھاگنا، خود کو شرمندگی کی کیفیت میں پانا، خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا، کچھ ایسا دیکھنا جس کا کسی کو بتایا بھی نہیں جا سکتا۔۔۔ رات کی تاریکی کے بحالی کے گھنٹوں کی وقت گزاری کیلئے کا قدرت کا یہ کچھ عجب ہی طریقہ ہے۔
اور پھر بھی، یہ بات ہر کوئی مانتا ہے کہ نیند کی کوئی گہری ضرورت ہے۔ ابھی کیلئے ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ نیند ہمیں جاگتے وقت میں فِٹ رکھتی ہے۔
تمام جانور سوتے ہیں۔ سادہ ترین مخلوقات جیسا کہ فروٹ فلائی یا nematode بھی۔ نیند کی مقدار یکساں نہیں۔ ہاتھی یا گھوڑے صرف دو سے تین گھنٹے سوتے ہیں۔ یہ اتنا کم کیوں؟ اس کی وجہ بھی نامعلوم ہے۔ نیند کا چیمپن کئی بار تین انگلیوں والے sloth کو سمجھا جاتا ہے جو دن میں بیس گھنٹے سوتا ہے لیکن یہ وہ والے ہیں جنہیں قید کر کے رکھا گیا ہوتا ہے اور ان کو شکار ہونے کا خطرہ نہیں۔ جنگلی sloth دس گھنٹے سوتے ہیں۔
غیرمعمولی طور پر کئی جانور، خاص طور پر پرندے اور آبی جانور آدھے دماغ کی نیند کرتے ہیں۔ ایک وقت میں نصف دماغ سو جاتا ہے جبکہ دوسرا نصف بیدار رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
ایک نارمل رات کی نیند میں کئی مراحل ہوتے ہیں۔ پہلے، شعور کو بجھنا ہوتا ہے۔ اس کو مکمل ہوتے پانچ سے پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے بیس منٹ کچی نیند ہے۔ ان دو مراحل میں کئی بار کیفیت سوتے اور جاگتے کے بیچ کی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اگلا گھنٹہ زیادہ گہری نیند کا ہے۔ اور پھر REM فیز آتا ہے جس میں سونے والا حرکت تو نہیں کرتا لیکن بند پپوٹوں کے نیچے آنکھیں ادھر سے ادھر ہوتی رہتی ہیں۔ اس وقت دماغ میں ہونے والی سرگرمی جاگتے وقت جتنی ہی ہوتی ہے (بلکہ کچھ حصوں میں اس سے بھی زیادہ) اور ہمارے زیادہ خواب اسی وقت میں آتے ہیں۔
اس وقت میں آنکھوں کی حرکت کیوں؟ اس کا ٹھیک معلوم نہیں۔ اس وقت ہمارا دل اور پھیپھڑے تو نارمل فنکشن کرتے ہیں، آنکھیں حرکت میں ہوتی ہیں لیکن جسم کے باقی عضلات کی حرکت بند ہو جاتی ہے۔ اور اس وجہ سے جب خواب میں ہم دوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ بستر سے اٹھ کر دوڑنے کی صورت میں نہیں نکلتا۔
یہ مرحلہ رات کی نیند کے دو گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ رات گزرنے کے ساتھ اس کے سائیکل طویل ہوتے ہیں اور چار سے پانچ سائیکل چلتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی نیند کا پچاس فیصد حصہ REM نیند پر مشتمل ہے۔ ایک وقت میں خیال تھا کہ تمام خواب اس وقت آتے ہیں لیکن نان ریم نیند میں بھی خواب آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کو ہم اس سے زیادہ بے چین رہتے ہیں جتنا ہمارا خیال ہے۔ اوسط شخص رات میں تیس سے چالیس مرتبہ اپنی پوزیشن یا کروٹ بدلتا ہے۔ اور اس سے زیادہ مرتبہ جاگتا ہے جتنا اسے یاد رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سوئے ہوئے شخص اور باہر کی دنیا کا تعلق بھی کچھ عجیب ہے۔ ہم میں سے اکثر نے ایسے احساس کا تجربہ کیا ہو گا جیسے اچانک گر جانے کا احساس ہو۔ یہ hypnic jerk کہلاتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ایک تھیوری ہے کہ اس کا تعلق ان دنوں سے ہے جب ہم درختوں پر سویا کرتے تھے اور اس کی کوشش کرنا پڑتی تھی کہ نیچے نہ گریں۔ ایسے خیالات کو تو ہم نرم الفاظ میں دور کی کوڑی لانا کہہ سکتے ہیں۔
اگر آپ سوچیں تو سوتے وقت ایک عجیب بات ضرور ہے۔ آپ جتنی ہی گہری نیند میں کیوں نہ ہوں اور اس دوران جتنی بھی کروٹیں کیوں نہ بدلیں، آپ عام طور پر بستر سے نیچے نہیں گرتے۔ خواہ یہ کسی نئی جگہ پر کسی ہوٹل کا کمرہ ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم خواہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر پڑے ہوں لیکن ہمارے اندر سنتری یہ حساب رکھ رہا ہے کہ بستر کا کنارہ کہاں ہے اور اس سے آگے نہیں جانے دیتا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک سٹڈی نے دکھایا کہ سوتے وقت اگر آپ کا نام لیا جائے تو ای ای جی ریڈنگ میں حرکت ہوتی ہے، جبکہ یہ حرکت اس وقت نہیں ہوتی جب کسی اور کا نام لیا جائے۔ اور یہ تو شاید آپ خود بھی کر چکے ہوں کہ اگر ارادہ باندھ لیں کہ صبح فلاں وقت اٹھنا ہے تو کسی الارم کلاک کے بغیر بھی اٹھ سکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسا کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سویا ہوا ذہن کھوپڑی سے باہر اصل دنیا کا حساب کتاب رکھتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...