(Last Updated On: )
یہ کم کم رنگ، یہ برسے ہوئے بادل کے ٹکڑے سے
مری آنکھوں کے خالی آسماں پر
کتنے برسوں سے معلق ہیں
یہ کیسی خوشبوئیں ہیں جو کہ جینے کی گلابی
چسکیوں میں مجھ کو رک رک کے پلاتی ہیں
یہ رشتے کیا ہیں
کیوں پتا شج سے ٹوٹ جاتا ہے
یہ چاہت کی ہوس جہد بقا کے سیپ میں پلتی ہے
یا کہ سچ کا موتی ہے
مری آنکھیں کھلی ہیں لیکن اتنی کیوں نہیں کھلیں
کہ ظرف لفظ میں جھانکوں
خداوند! یہ کوتاہ دستیاں تیری
مجھے جینے نہیں دیتیں مجھے مرنے نہیں دیتیں
٭٭٭