یہ بھید مجھ پر پورے چالیس برس بعد کھلا جب میں نے اپنے بیٹے کی خواہش پر اُسے سائیکل دلوائی۔ ولید کی خواہش تھی کہ میں اِسے سرخ رنگ کی دوٹائروں والی سائیکل خرید دوں لیکن میں نے اُس کی خواہش کا احترام کرنا ضروری نہیں سمجھا اوراِس کی تمنا پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچپن کی ادھوری خواہش پورا کرنے کی بھی کوشش کی اور سرخ کے بجائے نیلے رنگ کی سائیکل خرید دی ۔ اس خواہش کی تکمیل میں گو مجھے پورے چالیس برس لگے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ مجھ پر ایک ایسا بھید بھی آشکار ہوگیا جو اگرولیدسائیکل کی خواہش کا اظہار نہ کرتا تو مجھے اس کے بارے میں ہرگزمعلوم نہ ہوپاتا جس کا سامنا میں نے چالیس برس قبل کیا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے پہلی کھلونا گاڑی خریدی۔ یہ سفید رنگ کی پیجارو گاڑی تھی جس کے چاروں دروازے کھلتے تھے ۔ اس گاڑی کو پیچھے کی جانب دبا کر دھکیلنے کے بعد جب چھوڑاجاتا تو یہ شوں کرتی ہوئی تیزی کے ساتھ چلتی ۔ اِسے میں نے والدہ کے ساتھ بازار سے خریدا تھا جہاں وہ اپنی خریداری کے لیے مجھے ساتھ لے گئی تھیں۔ تب شاید میری عمر چاربرس کے لگ بھگ تھی اور کھلونوں کی ایک دکان پر میں نے ضد باندھ لی تھی کہ مجھے یہ گاڑی خریدنا ہے۔ والدہ کی کوشش تھی میں پلاسٹک کا کوئی کھلونا خرید لوں لیکن میرا دل اس سفید گاڑی پر آگیا تھا اور میں اِسے خریدے بغیر کسی صورت ٹلنے پر تیار نہ تھا چناں چہ والدہ نے میرے اصرار کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے مجھے یہ گاڑی دلوادی۔ مجھے معلوم تھا میرے کتنے اصرار اور ضد کے بعد والدہ نے یہ گاڑی دلوائی ہے ا س لیے اِسے محفوظ رکھنا اور خراب ہونے سے بچانا میری اولین ترجیح تھی۔ میں دوسرے بچوں کواِسے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا کہ مباداکوئی خراب کردے۔ خود کھیلنے کے بعد اِسے پانی والے ایئرکولر میں چھپادیا کرتا تھا جو اُن دنوں سردیاں ہونے کے باعث قابل استعمال نہیں تھا اور صحن کے ایک کونے میں پڑارہتا تھا۔ اس ایئرکولر کے اندرونی حصے میں چند غیراستعمال شدہ چیزوں کا کباڑ جمع تھا جس کی وجہ سے مجھے اپنا ننھاسا کھلونا اِس میں چھپانے میں بڑی سہولت تھی۔ مجھ سے چھوٹی ایک بہن تھی لیکن وہ اتنا چھوٹی تھی کہ کولر کے اندر ہاتھ ڈال کر گاڑی کو نکال نہیں سکتی تھی اس لیے میں اُس کی طرف سے بالکل بے فکر تھا۔ البتہ مجھے پڑوس کے بچوں کی فکر ہمہ وقت دامن گیر رہتی تھی ۔ وہ والدہ سے سیپارہ پڑھنے کے لیے ہمارے گھر آیا کرتے تھے اور میں ڈرتاتھا کہ میری عدم موجودگی میں کوئی بچہ روم ایئرکولر سے گاڑی چرالے۔ جب تک بچے سیپارہ پڑھتے رہتے میں اردگرد ٹہلتا رہتا اور اگر کوئی بچہ کولر سے کچھ فاصلے پر نصب نل پر پانی پینے کے لیے جاتا تو میں اُس پر گہری نظررکھتا ۔ اگرچہ تب میں صرف چار برس کا تھا لیکن مجھ میں اپنی چیزوں اور خاص طور پر کھلونوں کو دوسرے بچوں کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھنے کا احساس بخوبی موجود تھا۔ میں کنجوس یا بخیل ہرگز نہ تھا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے اپنے کسی قیمتی کھلونے کو یوں سنبھال کر رکھنے کا جنون تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ تب ایسے قیمتی کھلونے شاذ ہی بچوں کو نصیب ہوتے تھے اور پھر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میں چونکہ ایک دفعہ روروکر ہلکان ہوتے ہوئے والدہ کو یہ قیمتی کھلونا دلانے پر راضی کرچکا ہوں اس لیے وہ آئندہ مجھے کبھی اپنے ساتھ بازار لے کر نہیں جائیں گی جو ہمارے گھر سے خاصا دور تھا۔ گلی کے باہر سڑک پر اکادکا دکانیں تھیں جن میں زیادہ تر کھانے پینے کی چیزیں فروخت ہوتی تھیں ۔ میں اِن دکانوں سے ٹافیاں اور چیونگم خرید کر خود بھی کھاتا اور اپنے ہم جولیوں کو بھی دیا کرتالیکن انھیں اپنی گاڑی سے ہمیشہ دور رکھتا۔ اسی لیے میں نے کہا ہے کہ میں کنجوس اور بخیل نہ تھا ۔ ایسا ہوتا تو میں ہم جولیوں کو اپنی کھانے پینے کی چیزوں سے بھی دور رکھتا۔
کچھ بڑاہونے پر ، جب میں پانچ برس کا ہوگیا تو والد صاحب نے مجھے سکول میں داخل کروادیا۔ یہ قاعدہ جماعت تھی جسے میں نے چند روز ہی میں پڑھ لیا اور اس لائق ہوگیا کہ اول جماعت میں بیٹھ سکوں۔ سمن آباد میں الممتاز سینما سے متصل گلی میں تنویر پرائمری سکول تھاجہاں ہم ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتے اور ہماری استانیاں لکڑی اور بید کی بنی کرسیوں پر براجمان ہمیں پڑھانے سے زیادہ اپنی باتوں میں مشغول رہتیں۔ اِن میں ایک صورت مجھے اب بھی یاد ہے۔ یہ ایک فربہی مائل استانی تھیں جن کا قد درمیانا اور چہرہ موٹا تھا۔ ناک کے پھندنے پر ایک عینک ہر وقت سجی رہتی۔ ایک بیگ بھی ان کے کاندھوں پر ہمیشہ دھرا رہتا اور جب کبھی وہ کرسی پر بیٹھتیں تو بیگ کو اپنی گود میں رکھ لیتیں۔ یہ چھوٹا سا سکول تھا جس میں ہم لڑکے اور لڑکیاںایک ساتھ پڑھتے تھے ۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اول جماعت پاس کی تھی یا نہیں کہ والد صاحب نے مجھے وہاں سے اٹھاکر قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے سمن آباد سے متصل اتحاد کالونی کے ایک مدرسہ میں داخل کروادیا۔ میں قرآن پاک ناظرہ پڑھ لیتا تھا اورآخری پارے کی چند چھوٹی سورتیں بھی یاد کرچکا تھا۔ مدرسہ میں میرے جیسے کئی بچے زیرتعلیم تھے جن کی اکثریت یا شاید سب کے سب مدرسہ ہی میں رہائش پذیر تھے ۔ میں دوپہر کو گھر چلا آیاکرتا تھا۔ چند دن مدرسہ میں اچھے گزرے لیکن پھر میرا دل اوبھ گیا ۔ قاری صاحب کی شفقت ، محبت اور پھر مار بھی مجھے راہ راست پر نہ لاسکی اور میں دوران سبق چھپ کر نکل جایا کرتا۔ کلاس میںجہاںمیںبیٹھتا تھا وہ جگہ دروازے کے بالکل سامنے تھی چناں چہ میں باہر سے گزرنے والے لوگوں کو دیکھا کرتا اور ان کی آزاد زندگی پر رشک کرتا۔ ایک دن میں مدرسہ سے بھاگا تو سیدھا گھر جانے کے بجائے اِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتا رہا۔ والد صاحب کو میری ان حرکتوں کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے جوں ہی گھر پہنچا، میری خوب ٹھکائی ہوئی۔ اب میں نے تہیہ کرلیا کہ کسی صورت مدرسہ نہیں جائوں گا جہاں سارا دن قید میں رہنا پڑتاہے۔ دراصل میں سکول کے ماحول کا خوگر ہوگیا تھا جہاں ہم لڑکے اور لڑکیاں سارا دن پڑھائی سے زیادہ اوٹ پٹانگ حرکتوں میں گزار دیتے۔ نیکر اور سفید شرٹ پہنے ہم آدھی چھٹی کے وقت سکول میں سے غائب ہوجاتے اور گھوم پھر کر پوری چھٹی کے وقت سکول میں واپس آتے تاکہ گھر جانے کے لیے اپنے اپنے بستے اٹھالیں۔
اگلی صبح والد صاحب کا موڈ بہتر ہوگیا ۔ انہوںنے پیار سے مجھے اپنے پاس بلایا ۔ وہ بازوئوں والی لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے جس کی بنائی بید سے کی گئی تھی۔ اس جیسی چار کرسیاں آج بھی میرے گھر میں موجود ہیں۔ والد نے میری کلائیوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما اور مجھے جھولا جھولاتے ہوئے پوچھنے لگے کہ مجھے مدرسہ میں پڑھنا ہے یا واپس سکول میں داخل ہوناہے۔ میں نے سکول کانام لیا تو والد نے وعدہ لیا کہ میں وہاں مدرسہ والی حرکتیں نہیں کروں گاا ور دل لگا کر پڑھوں گا۔ چناں چہ اگلے روز مجھے دوبارہ پہلے والے سکول میں ہی داخل کرادیا گیا جہاں آنے کے بعد میں مدرسہ کواور والد صاحب سے کیا ہوا وعدہ بھول گیا اور حسبِ سابق اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا جو میرے ہم جولیوں اور ہم جماعت لڑکے اور لڑکیوں کا وتیرہ تھیں۔
کچھ دن بعد والد صاحب کو اطلاع ملی کہ میں پڑھائی پر دھیان نہیں دیتا اور سارا وقت شرارتیں کرنے میں گزار دیتاہوں۔ والد صاحب سخت مزاج اور غصیلا ہونے کے باوجود مجھ پر نہیں برسے بلکہ انھوںنے مجھے چند کھلونے لادیے ۔ سکول سے واپسی پر میں کھلونوں کے ساتھ کھیلنے میں منہمک ہوجاتا اور اس طرح گھر سے باہر جانے کا میرا راستہ مسدودکردیاگیا۔ وہ ہر کچھ دنوں کے بعد کوئی نیا کھلونا لے آتے ۔ یہ کھلونے مہنگے اور پیچیدہ قسم کے نہیں ہواکرتے تھے اس لیے مجھے ان کے ساتھ کھیلنے میں اگرچہ کوئی زیادہ لطف محسوس نہ ہوتا لیکن اس کے باوجود شام تک میرا وقت اچھا گزرجاتا۔
دوسری جماعت میں تھا تو میرے ایک ہم جولی کے والد نے اُسے سائیکل خرید دی۔ یہ نیلے رنگ کی ایک خوبصورت سائیکل تھی جس کے پچھلے پہیے کے اطراف میں دوچھوٹے چھوٹے پہیے بھی نصب تھے جو درحقیقت سہارے کا کام کرتے تھے تاکہ ان چھوٹے پہیوں کی مدد سے سائیکل چلانا سیکھ لی جائے۔ میرا یہ دوست جب بھی میری گلی میں سائیکل لے کر آتا تو میں اِسے ضرور چلاتا۔
دھیرے دھیرے میں سائیکل چلانے میں ماہر ہوگیا اور ایک دن موقع پا کر میں نے سائیکل کے اطراف میں نصب دونوں چھوٹے پہیے اتار کر چھپادیے تاکہ میں آسانی کے ساتھ دوپہیوں پر سائیکل چلاسکوں ۔ میرا ہم جولی میری اس حرکت سے بے خبر رہا لیکن اب وہ بھی اس قدر سیکھ چکا تھا کہ اُسے بھی ان حفاظتی پہیوں کی کوئی ضرورت نہ رہی تھی۔ روزانہ ایک ادھ گھنٹہ تک سائیکل چلانے کی مشق کرنے کے نتیجے میں میں اس میں خوب ماہر ہوگیا اور بڑی جماعتوں کے لڑکوں کی سائیکلیں بھی چلانے لگا ۔ میرے اس شوق نے مجھ میں خواہش بیدار کی کہ میری اپنی سائیکل ہونی چاہیے جس پر میں سکول آجاسکوں ۔ میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار ایک دن والد صاحب سے کیا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرا مطالبہ سنتے ہی ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ وہ کچھ دیر تک تو گم سم رہے اور کچھ نہ بولے لیکن میرا مطالبہ کئی مرتبہ دہرائے جانے کے بعد انھوں نے فقط اتنا ہی کہا کہ اچھا خرید دوں گا۔ میں خوش ہوگیا اور اِس امید پر دن گزارنے لگا کہ کچھ ہی روزمیں والد صاحب مجھے نئی سائیکل خرید دیں گے۔ اب میں زیادہ بے فکری کے ساتھ ہم جولیوں کی سائیکل چلاتا اور انھیں بتاتا کہ چند روز میں میری اپنی سائیکل آجائے گی۔ میں نے جس سائیکل پر سب سے پہلے قدم جمائے وہ نیلے رنگ کی تھی اس لیے میں نے والد صاحب سے فرمائش کی تھی کہ میری سائیکل بھی نیلے ہی رنگ کی ہونی چاہیے۔
ایک مہینہ گزرگیا لیکن والد صاحب کی طرف سے سائیکل کی خریداری میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہ آئی تو میں نے انھیں یاددھانی کروائی۔ اِس بار بھی اگرچہ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور وہ حیران وپریشان نظروں سے میری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے مجھے مطمئن کرنے کے لیے کوئی جواب سوچ رہے ہیں۔ کچھ دن بعد جب میرے امتحانا ت قریب آئے تو والد صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر میں نے کلاس میں پوزیشن لی تو وہ مجھے ضرور نیلے رنگ کی سائیکل خرید دیں گے۔ اب میں زیادہ شوق کے ساتھ سکول کے سبق پر دھیان دینے لگا اور جب میرا نتیجہ آیا تو میں نے جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ میں فطری طور پر ذہین تھا اور کلاس میں زیادہ توجہ نہ دینے کے باوجود امتحان میں نہایت شاندار مظاہرہ کرتا۔ نتیجے والے دن اگرچہ صبح سے دوپہر تک میری پریشانی انتہا پررہی لیکن جب دوسری جماعت کا نتیجہ بولتے ہوئے میرا نام پکارا گیا تو میری خوشی دیدنی تھی۔ یہ خوشی اس لیے نہیں تھی کہ میں اول آیا ہوں بلکہ مجھے یقین تھا کہ والد صاحب میری فرمائش پوری کرتے ہوئے مجھے سائیکل خریددیں گے۔ میںخوشی خوشی رزلٹ کارڈ تھامے گھر میں داخل ہوا اور بے چینی کے ساتھ والد صاحب کے آنے کاانتظا ر کرنے لگا۔ ظہر کی نما زکے بعد وہ تشریف لائے تو دوڑتا ہوا ان کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ کر انھیں اپنے اول آنے کی اطلاع دی لیکن حیرت انگیز طور پر والد صاحب میری اس اطلاع پر زیادہ خوش نہیں ہوئے ۔ انھوںنے پیار سے میرے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور پھر میرے ایک ہاتھ کو پکڑے اِ س کرسی پر براجمان ہوگئے جس پر وہ ہمیشہ بیٹھا کرتے تھے۔
والد صاحب کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ رقصاں تھی جس میں کسی قدر پریشانی کا ہلکا ساعنصر بھی شامل تھاجسے میں سمجھ نہیں پایا۔ انھوںنے مجھے جھولاجھولاتے ہوئے پوچھا ’’ اچھا تو میرابیٹا سائیکل لے گا؟‘‘
’’ جی جی۔۔۔ابو جی مجھے سائیکل چاہیے۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں جماعت میں اول آیا تو آپ مجھے سائیکل خرید دیں گے۔اب لے دیں نا نیلے رنگ کی پیاری سی سائیکل !!‘‘ میں نے خوشی سے کانپتی آواز میں کہا۔
تب والد صاحب کچھ سوچنے لگے اور پھر ہامی بھر لی کہ وہ مجھے چند دن بعد سائیکل خرید دیں گے۔
میں مطمئن ہوکر اپنے کھیل کود میں مشغول ہوگیا۔ اگلے روز والد صاحب میرے لیے چابی سے چلنے والا ایک پیاراساکھلونا لے آئے جسے پاکر میں بے حدخوش ہوااورسائیکل کا پوچھنے کے بجائے اِس کھلونے کے ساتھ کھیلنے لگا۔ چند دن اسی طرح گزرگئے۔ پھر میں نے والدصاحب سے سائیکل کی بابت دریافت کیا تو وہ اقرارمیں سرہلاتے ہوئے باہرچلے گئے اور جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں پلاسٹک کے چندایسے کھلونے تھے جن کے الگ الگ حصے تھے اورانہیں آپس میں جوڑ کر مختلف اشیاء بنائی جاتی تھیں جیسے ہوائی جہاز، گھر وغیرہ۔ یہ کھلونے مجھے بے حداچھے لگے اور تب میں وقتی طور پر سائیکل کو بھول گیا۔ اسی طرح کافی دن بیت گئے۔ میںاپنے ہم جولیوں کی سائیکل چلاکر اپنا شوق پوراکرلیاکرتا اور سوچتا کہ ایک دن والد صاحب مجھے بھی نیلے رنگ کی پیاری سی سائیکل دلادیں گے جس کا انھوںنے وعدہ کررکھاہے۔ آخرمیرے سالانہ امتحانات قریب آن پہنچے اور میں نے والدصاحب سے صاف کہہ دیا کہ اگر مجھے سائیکل نہ دلائی گئی تو میں اچھی طرح امتحان کی تیاری نہیں کروں گا۔ میری دھمکی پر والد صاحب ہنسنے لگے اور پھر مجھے گود میں بٹھاتے ہوئے سمجھانے لگے کہ تم اچھی طرح امتحان کی تیاری کرو اور پہلی جماعت کی طرح دوسری جماعت میں بھی اول پوزیشن لینا، میرا وعدہ ہے کہ میں تمھیں ضرور نیلی سائیکل خرید دوں گا۔ میں نے والدصاحب کے وعدے پر ایک بارپھر اعتبار کرلیا اور دن رات پڑھائی میں مصروف ہوگیا تاکہ اول پوزیشن لے سکوں۔ شومئی قسمت دوسری جماعت میں بھی میری اول پوزیشن رہی جس کی مجھے اور والدہ کو بے حد خوشی ہوئی۔ والدصاحب بھی اگرچہ مسرور ہوئے لیکن جب میںنے انھیں اپنا وعدہ یاددلایا تو انھوںنے اگرچہ تب اِس کے لیے فوری ہامی نہیں بھری لیکن انکار بھی نہیں کیا۔ وہ اِسی وقت باہر چلے گئے اور جب پلٹے تو ان کے ہاتھوں میں ڈھیر سارے کھلونے تھے جن میں نیلے رنگ کی ایک کار بھی تھی جو بیٹری سے چلتی تھی۔ اس کے نچلے حصے میں ایک بٹن نصب تھا جسے آن کرنے پر کار موسیقی کی آوازوں میں دھیرے دھیرے رینگنے لگتی اور پھر دائروں میں چلتے ہوئے دلچسپ نظارہ پیش کرتی۔
میری الماری کھلونوں سے بھرگئی لیکن میری سائیکل نہ آئی۔ جب میں تیسری جماعت میں تھا تو والدصاحب مجھے سائیکل کے نقصانات کی بابت آگاہ کیاکرتے لیکن میں ان کی نصیحتیں ان سنی کردیتا اور سائیکل کے لیے رونے لگ پڑتا۔ تیسری جماعت میں اگرچہ میں نے زیادہ دلچسپی سے نہیں پڑھا لیکن اس کے باوجود میری دوسری پوزیشن آگئی۔ اب مجھے یقین ہوچلا تھا کہ والدصاحب مجھے ہرگز سائیکل خرید کر نہ دیں گے اس لیے میں نے اس کا مطالبہ کرنا بھی چھوڑدیاتاہم سائیکل کی تمنا اور خواہش میرے دل میں بدستور موجود رہی۔ اب میں نے تہیہ کرلیا کہ پیسے جوڑ کر خودہی سائیکل لے لوں گا۔ وقتی طور پر میں اپنے شوق کی تسکین کے لیے ہم جولیوں کی مددحاصل کرتا یا پھر کرائے پر سائیکل لے لیتا۔ ایک دن کرائے پر لی گئی سائیکل کی بریک ٹوٹ گئی تو میں سیدھا بجلی کے کھمبے میں جالگا ۔ خوش قسمتی سے میرے کوئی چوٹ نہ آئی لیکن جب میں سائیکل کو سیدھا کرکے چلانے لگا تو پتا چلا اِس کا ایک پیڈل ٹوٹ گیاہے۔ میں گھبراگیا لیکن تب ایک نیک دل شخص نے میری مدد کی اور کالے دھاگے سے اِس کے ٹوٹے ہوئے پیڈل کو باندھ دیا اور ہدایت کی کہ میں اندھیرا چھانے کے بعد دکان پر سائیکل واپس کرنے جائوں تاکہ دکاندار کی نظراِس کے ٹوٹے ہوئے پیڈل پر نہ پڑسکے۔ اُس دن اگرچہ میں نے ڈرتے ڈرتے سائیکل دکان پر پہنچادی لیکن بعد میں کرائے پر لینے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی۔ میری ان ساری حرکتوں سے والدصاحب مکمل طور پر بے خبر تھے۔
مجھے والدصاحب سے ایک طرح کی نفرت ہوگئی۔ میں اکثرسوچتا رہتا کہ آخر وہ مجھے سستے داموں کوئی سائیکل خرید کیوںنہیں دیتے۔ کیا اُن کی نظر میں میری کوئی حیثیت یا وقعت نہیں۔ اب کبھی کبھی میں اپنی والدہ سے بھی اپنے اس رویے کا اظہار کردیتا جسے سن کر وہ مسکرادیتیں ۔ میں نے اُن سے صاف کہہ رکھا تھا کہ جب میں بڑاہوجائوں گا تو ڈھیر تو ڈھیر سارے پیسے کماکروالدصاحب کو دوں گا تاکہ وہ مجھے آزاد کردیں۔ اس مقصد کے لیے میں نے والدہ سے پوچھا کہ ہرمہینے میرے کھانے پینے ، کپڑوں، سکول کی فیس اور دیگر مدوں میںکتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ والدہ نے حساب کرکے مجھے خرچ کا بتایا۔ تب میںنے سفید قلعی سے مزین کچن کی دیوار پر حساب لگاکرکچی پنسل سے لکھ دیا کہ تعلیم مکمل ہونے اور نوکری کے حصول تک مجھے کتنے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ میری اس سوچ کا والدصاحب کو بھی علم ہوگیا اور وہ اکثر مجھ سے مذاق کرتے ہوئے پوچھتے ’’ کیوں میاں صاحبزادے! تم آزادی لینے کے لیے کتنے پیسے اداکروگے؟‘‘ اور میں سپاٹ لہجے میں انھیں حساب لگا کر بتاتا کہ اتنے پیسے تب وہ اور زیادہ زور سے ہنسنے لگتے اور والدہ سے کہتے کہ دیکھو! صحیح حساب لگانے میں تم بھی اس کی مدد کرنا تاکہ کوئی غلطی نہ رہے، میں پورے پیسے لوں گا ایک روپیہ بھی کم نہیں۔ ‘‘ ہرکچھ عرصے کے بعد میرے لگائے ہوئے تخمینے میں اور اضافہ ہوجاتا اور ایک روز تنگ آکر میںنے حساب لگانا ہی چھوڑ دیا۔
میں پانچویں جماعت میںزیرتعلیم تھا کہ داداابو بیمار ہوگئے جو ریٹائرمنٹ کے بعد گائوں میں جابسے تھے ۔ والد صاحب ہمیں گائوں میں ان کے پاس چھوڑآئے۔ گائوں آکر میں نے نئے سکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں کے ماحول میں اگرچہ سائیکل خریدنے کی میری خواہش وقتی طور پر دب گئی لیکن اس کے باوجودکبھی کبھی یہ خواہش دبی چنگاری کی طرح دھیرے دھیرے سلگنے لگتی اور میں سوچنے لگتا کہ داداابو کے ٹھیک ہوتے ہی جب ہم واپس شہر جائیں گئے تومیں دوبارہ ڈھیر سارے پیسے جمع کرکے سائیکل خرید لوں گا۔
وقت کی اڑان اتنی سبک تھی کہ جب میں واپس شہر آیا تو میٹرک کاامتحان پاس کرچکا تھا اور اب میراداخلہ کالج میں ہونا تھا ۔ میں ویگن پر کالج جایاکرتا اور طالب علموں کو حاصل رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جیب خرچ کے لیے ملے پیسے جمع کرلیتا تاکہ ایک اچھی سی سائیکل خرید کر ویگن پر سفر کے جھنجھٹ سے خلاصی پاسکوں۔ گھرسے ویگن کاسٹاپ خاصا دور تھا اور اگر میرے پاس سائیکل ہوتی تو میں سٹاپ تک جانے کے وقت میں کالج کے آدھے راستے تک پہنچ جاتا۔ میں نے اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہوکر پہلے ہی تہیہ کرلیا تھا کہ اب والدصاحب سے کبھی کوئی چیز نہ مانگوں گا۔ میں ایسے ارادے کے ذریعے ان سے اپنے بچپن کی خواہش پوری نہ کرنے کا بدلہ لینا چاہتاتھا۔
کالج کے پہلے دوسال میں میں باوجودکوشش کے اس قدر پیسے جمع نہ کرپایا کہ نئے ماڈل کی اچھی سائیکل خرید سکوں۔ تیسرے سال میں ایک دن عجیب بات ہوئی۔ گھر میں ہم بہن بھائی بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ والدصاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہوگئے ۔ کچھ دیر بعد انھوںنے ہنستے ہنستے مجھے مخاطب کیا اور بولے ’’ میں نے مکینک منظور سے بات کرلی ہے، کل تم اُس کے ساتھ مارکیٹ چلے جانا اور سیکنڈ ہینڈ اچھی سی موٹرسائیکل خرید لانا۔‘‘ میں فوری طور پر کوئی جواب نے دے سکا۔ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ والدصاحب مجھے سائیکل خرید کردینے کے روادار نہ ہورہے تھے تو اب بھلا وہ موٹرسائیکل کیونکر دلائیں گے۔ چھوٹے بہن بھائی موٹرسائیکل کی آمد کا سن کر خوشی سے ناچنے لگے ۔ میں والدصاحب کی بات کی حقیقت جاننے کے لیے سیدھا مستری منظور کی دکان پر پہنچاجو گلی کے نکڑپر موٹرسائیکل ٹھیک کرنے کا کام کیا کرتا تھا۔ میں نے اس سے تصدیق کروائی اور تب میں زندگی میں پہلی بار حقیقی مسرت سے آشنا ہوا اور مجھے معلوم ہوا کہ خوشی کس طرح دل کے اندر سے پھوٹتی ہے اور جسم کے باقی اعضا اور آنکھوں سے اس کا اظہار کس طرح ہوتاہے۔ ممکن ہے سکول کی ابتدائی جماعتوں میں مجھے ایسی خوشی سے آشنا ہونے کا موقع میسرآیا ہولیکن تب میں بہت چھوٹاتھا اور مجھے اصل خوشی کا کوئی ادراک نہ تھا ۔ تب تو میں ننھے منے کھلونے اور گولیاں ٹافیاں ملنے پر بھی بے حدخوش ہوجایاکرتاتھا۔
اگلے دن میں لاہورہوٹل کے نیچے واقع مارکیٹ میں سے ایک سیکنڈ ہینڈ موٹرسائیکل خرید لایا۔ مجھے چونکہ سائیکل چلانے کی مہارت تھی اس لیے میں ایک دودن میں ہی موٹرسائیکل چلانا بھی سیکھ گیا۔ لیکن اس کے باوجود میرے دل میں سائیکل کی کسک موجود رہی جو اگرچہ موٹرسائیکل آنے کے بعد تحت الشعور کے کسی کونے میں جادبکی لیکن پھر بھی جب کبھی میں کسی بچے کے پاس سائیکل دیکھتا تو یہ احساس فوراً میرے تحت الشعورسے پھدک کر میرے شعور میں پہنچ جاتا اور مجھے سوچنے پر مجبور کردیتا کہ یہ بچہ کتنا خوش قسمت ہے جس کے پاس سائیکل ہے۔ ایک میں بھی تھا جو سائیکل کی تمنا میں ہربرس خوب دل لگاکر پڑھتاتاکہ کلاس میں اول آئے اور جب اول آتا تو اِسے اگلے سال پر ٹرخادیاجاتا۔ ولید کو سائیکل خرید کر دینے میں بھی اگرچہ والد صاحب نے مخالفت کی لیکن میں نے ٹھان لیا تھا کہ ولید کی ننھی ننھی خواہشیں پوری کرکے اپنی تشنہ خواہشوں کی تسکین کا سامان کیا کروں گاچناں چہ جب اُس نے سائیکل لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں فوری طور پر اُس کے لیے نیلے رنگ کی ایک سائیکل لے آیا جسے وہ گرتاپڑتا چلاتا اور اُس کے روپ میں میں خود کو اِس ننھی سی سائیکل پر بیٹھا دیکھ کر خوب خوش ہوتا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اپنے بیٹے ولید سے زیادہ میں خوش ہوں۔
ایک دن ولید نے سائیکل ٹھیک طرح چلانا سیکھ لی اور تب وہ اِسے باہر سڑک پر لے گیا اور پھر چلاتے ہوئے ناجانے کہاں نکل گیا۔ کافی دیر بعد جب وہ گھر نہ لوٹا تو سب کو بے حد فکر ہوئی۔ والد صاحب گھر پر ہی تھے۔ وہ ولید کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور جب ان سے کچھ نہ بن پڑا تو مجھے فون کیا۔ میں پریشانی کی حالت میں گھر پہنچا اور اہل خانہ کے ساتھ مل کر محلے کی گلیوں وغیرہ میں ولید کو تلاش کرنے لگا۔ پھر ہم بیرونی سڑکوں پر گھومنے لگے کہ شاید ولید کہیں دکھائی دے جائے۔ رفتہ رفتہ ہماری پریشانی بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ رات ہوگئی لیکن ولید کا کہیں کچھ پتا نہ چلا۔ میری والدہ اور میری اہلیہ نے رورو کر برا حال کرلیا۔ میں نے تھانے کا رخ کیا تاکہ ولید کی گمشدگی کی بابت رپورٹ کرواسکوں۔ یہاں سے فراغت کے بعد میں ایک بار پھر اپنے موٹرسائیکل پر سڑکوں کی خاک چھاننے لگا۔ عزیز واقارب بھی گھر پر جمع ہوچکے تھے جن میں سے کئی ایک میرے ساتھ ولید کی تلاش میں مگن تھے۔ نصف رات کو میں مایوس ہوکر تھکاہارا گھر لوٹ آیا۔ مجھ میں ہمت نہ تھی کہ میں اندرجاتا اس لیے گھر کے باہر ہی تھڑے پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
میں غنودگی میں تھا جب کسی نے مجھے آواز دی۔ میں ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا ۔ دیکھا تو سامنے ایک صاحب کھڑے تھے جن کے ہمراہ ولید اپنی سائیکل کے ساتھ موجود تھا۔ جلدی سے دوڑکر ولید کو اٹھایااور اپنے سینے کے ساتھ بھینچ کر بڑی بے قراری کے ساتھ اس کی بلائیں لینے لگا۔ جو آدمی ولید کواپنے ہمراہ لایا تھا اس نے بتایا کہ وہ کافی دور سے آیاہے جہاں ولید ایک پارک کے گیٹ پر بیٹھا رو رہا تھا۔ میں نے اس کا شکریہ اداکیا اور ولید کو لیے گھر میں آگیا۔ سارے گھر میں خوشی وشادمانی کی لہریں امڈ پڑیں۔ پل بھر قبل جہاں نوحہ گری ہورہی تھی وہاں قہقہے گونجنے لگے۔ تب میں اٹھا تاکہ کمرہ میں جاکر آرام کرسکوں تو میری نظرصحن میں رکھی ولید کی سائیکل پر پڑی۔ میں جلدی سے وہاں پہنچا اور سائیکل کو توڑ پھوڑ کر کباڑ میں تبدیل کردیا ۔ اِ س سائیکل پر مجھے بے حد غصہ تھا جس کی وجہ سے ہم سب کو سخت پریشانی اور کوفت کاسامنا کرنا پڑاتھا۔ وہ تو اُس نیک دل انسان کی مہربانی کانتیجہ تھا جس کے باعث ولید واپس گھر آگیااور جب مجھے خیال گزرتاکہ اگر اُس کی جگہ کوئی خراب نیت آدمی ہوتا تو پھر!! اور یہ سوچتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور میری سانسیں اوپر نیچے ہونے لگتیں۔
پیاری سی سائیکل، جسے میں نے ولید کے لیے بڑی چاہ اور محبت سے خریدا تھا، ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد جب میںپلٹا تو دیکھا کہ والد صاحب میرے پیچھے کھڑے ہیں۔ میں انھیں دیکھنے کے بعد جوں ہی آگے بڑھا ، انہوںنے میرا ہاتھ پکڑلیا اور پھر اپنے سینے کے ساتھ بھینچتے ہوئے کہنے لگے:۔
’’بیٹا! میں نے تمھیں اسی وجہ سے سائیکل نہیں دلوائی ،ایک دن میں بھی گم ہوگیا تھا۔‘‘