(Last Updated On: )
اسے اٹھائے جوں جوں وہ زینے چڑھ رہا تھا۔ درد کی شدت میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ درد کو برداشت کرتی مزید اس کے قریب تر ہونے لگی۔قربت کا یہ احساس اس کا کام مشکل بنانے لگا سنہری کھلے بال نیلی آنکھوں کے تر گوشے بار بار اسے اپنی طرف کھینچ رہے تھےوہ چاہ کر بھی فاصلہ برقرار نہیں رکھ پا رہا تھا۔ دل نہ جانے کیوں کافر ہو بیٹھا تھا کہ کچھ بھی ماننے سے انکاری تھا۔ اچانک درد شدت اختیار کر گیا اور حور نے اپنا سر اس کے سینے پر رکھ دیا۔وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے جدا نہ ہو پا رہی تھی۔
دروازے کا لوک کھول کر وہ لاونج میں داخل ہوا اور چلتے ہوئے اسکے روم تک آیا او ر اسے بیڈ پر بٹھا دیا۔ “کچھ لو گے کوفی یا چائے” اس نے پوچھا “جی آپ تو جیسے بنانے چلی جائیں گی میں خودی زہمت کر لیتا ہوں پھر ان زخموں کا کچھ کرتے ہیں ” اس نے سنجیدگی سے کہا “میرے زخم تو بہت سے ہیں کس کس پر مرحم لگا پاو گے” اس نے ڈوبتی ابھرتی آواز میں کہا لیکن وہ بھی اس تک پہنچ چکی تھی
۔وہ بیڈ سے اٹھا اور کچھ تلاشنے لگا”کیا ڈھونڈ رہے ہو؟” اس نے پوچھا” تمہارے زخموں کی دوا فرسٹ ایڈ باکس” عرشمان
نے جواب دیا تو وہ زیر لب مسکرا دی۔ اب وہ اس کے زخموں پر مرہم لگانے لگا۔”کیا بہت درد ہو رہا ہے؟” اس نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ وہ اسے دیکھنے لگی اور نفی میں سر ہلایا۔ “اب چلتا ہوں رات بہت بیت گئ ہے ٹیک کئیر “
وہ نرمی سے کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔”اور ہاں کل یونی میں نظر مت آنا” وہ تنبیہی نظروں سے کہتا ہوا پلٹ گیا “لیکن کل تو۔۔۔” وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ اس نے حور کو چپ کروا دیا”کچھ نہیں یہ۔۔وہ۔۔میں نے ورنہ میں عائشہ کو بتا دوں گا اور پھر وہ تمہیں دیکھ لے گی۔
اس نے چہرے کا رخ موڑ لیا مطلب کہ وہ نہیں آئے گی۔ وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے راہداری عبور کرنے لگا۔کار سٹارٹ کرکے وہ گھر پہنچا۔ سونے کے لیے اس نے آنکھیں بند کی کہ نگاہوں کے سامنے دو نیلی جھلملاتی آنکھیں آگئ لیکن اک الجھن بھی تھی آخر یہ ایکسیڈنٹ ہوا کیسے انہی سوچوں میں گم نیند نے کب اسے آ گھیرا اسے معلوم نہ ہوا۔۔۔
صبح پانچ بجے الارم بجا تو وہ اٹھا اور وضو کرکے فجر کی نماز ادا کی۔اس کے بعد جوگنگ کے لیے باہر نکل گیا۔ اسے بار بار ہور کا خیال آرہا تھا۔سو اس نے جاگنگ کے بعد حور کے اپارٹمنٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ رات کو اپارٹمنٹ کی کیز اسی کے پاس رہ گئ تھی سو اس کے آرام کا خیال کرتے ہوئے وہ بنا چاپ پیدا کیے لاونج میں داخل ہوا۔
اسے بیڈروم میں سوتا پاکر وہ کچن کی طرف بڑھ گیا۔آدھ گھنٹے کی مشقت کے بعد اس نے کچھ سینڈوچز تیار کیے اور جوس گلاس میں انڈیل کر اس کے بیڈروم میں لے آیا اور ناشتہ سائیڈ کارنر پر رکھ دیا۔ قریب پرے نوڈ پیڈ سے اک چٹ پر کچھ لکھ کر اسے بھی سائیڈ کارنر پر رکھ دیا۔ آخری نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے مسکراتے ہوئے راہداری عبور کرنے لگا اور ڈور کلوز کرکے زینے اترتا گیا۔
عائشہ اور سمن کچھ دیر بےچینی سے اس کا انتظار کرتی رہیں”یہ ہووری آج آئ کیوں نہیں رات شاپنگ پر تو ٹھیک تھی اب صبح کیا ہوگیا۔عائشہ نے سمن سے کہا۔ اور پھر وہ دونوں کلاس میں اینٹر ہوگئ۔
***********************
استنبول میں رات صبح سے زیادہ روشن اور پر رونق نظر آتی۔ رنگینیوں کے اس شہر میں اداسی کا شیبہ تک نہ ہوتا مارکیٹس کلبز ریسٹورینٹ سب ہجوم سے بھرے ہوتے۔ جدیسیوں کو لائٹننگ اور دیگر آرائشوں سے جگمگایا ہوتا۔وہ باہر ٹہلتی ہوئ اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی آج وہ انس کے کہنے پر اسکے ساتھ سٹریٹ پر واک اوٹ کے لیے نکلی تھی ہر جگہ برقی قمقموں سے روشن اک اجب سماں پیش کر رہی تھی۔ کچھ آگے ایک گروپ کسی چیز کا جشن مناتے ائیر بیلونز ہوا میں چھوڑ رہے تھے۔
اور انجوائے کر رہے تھے وہ اتنی مہو تھی کہ پیچھے کھڑے انس کے پکارنے پر وہ ڈر گئ۔ “کہاں گم تھی؟”اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا “no where just the view was masmerizing me” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”استنبول میں ایسے جشن کافی عام ہیں لائک ایوری ویک اینڈ گروپس ہینگ اوٹ کے لیے باہر آتے ہیں تو کبھی کسی کی برتھ ڈے منانے یا پاس آوٹ ہونے پر” وہ اب چلتے ہوئے آگے نکل آئے”اس شہر میں کرنے اور سیکھنے کو بہت کچھ ہے” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔”well what have you learnt from Istanbul” اس نے پوچھا۔ وہ جوابا مسکرا دیا اور “many things but they are just not for telling they are just to show” اس نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔ “and what you learnt..” اس نے پوچھا “فلوقت تو کچھ نہیں مگر بہت جلد بہت کچھ سیکھ جاوں گی۔”
سامنے دو گروپ کے کچھ لڑکے سٹریٹ ڈانس کر رہے تھے اور
پاس کھڑے لوگ ان میں سے بہترین ڈانس کرنے والے کو سراہتے۔وہ اسے اپنے ساتھ بھگاتا ہوا ان کی طرف لے گیا اور قریب پہنچتے ہی اسکا ہاتھ چھوڑ دیا اور آنکھ دباتے ہوئے بولا”that’s what I wanna show just have a glance on it” اور آگے بڑھتا ہوا دونوں گروپس کے لڑکوں کو چیلنج کیا کہ اگر وہ اسے بیٹ کر سکے تو وہ اگلے ایک ہفتے تک یہاں فٹ پاتھ پر بیٹھے گا۔ کریسٹی حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی ۔ اس نے اتنا زبردست ڈانس کیا کہ وہ پروفیشنلز اس کے آگے کھڑے نہ رہ سکے۔ دائرہ بنائے کھڑے تمام لوگوں نے اسے خوب سراہا۔اور وہ کالرز جھارتا داد وسوول کرتا باہر نکل کر اس تک آیا
“Well it was impressive” کریسٹی نے اس سے کہا
“اگر ایسا ہے تو آئے وانٹ آ ٹریٹ ” اس نے آبرو اٹھاتے ہوئے کہا “ڈن نیکسٹ ویک میری برتھڈے ہے سو وائے ڈونٹ یو کم ٹو مائے ہوم ” اس نے اسے پیشکش کی “ہاں بٹ مجھے تمھارا ایڈریس نہیں پتا” “اس میں کیا مسئلہ ہے میں سمجھا دیتی ہوںاس کے بعد وہ دونوں اپنی راہ چل دیے۔
مگر کس کی منزل کہاں تھی یہ خدا سے بہتر کوئ نہیں جانتا۔ انسان کی قسمت اسے کس دوراہے پر لے آتی ہے وہاں جہاں کبھی کبار ہر راہ فرار ختم ہو جاتا ہے۔۔۔ ۔۔
صبح نو بجے اسکی آنکھ کھلی تو کمرے میں روشنی پھیلی تھی۔وہ اب تک تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی سر میں بھی کچھ درد باقی تھا۔رات سے اب تک اس نے صرف فروٹ سیلڈ کھا رکھی تھی اور اب بھوک زوروں کی لگ رہی تھی اس نے بیڈ سے اٹھنا چاہا مگر یہ کوشش بےسود رہی۔ اس نے اردگرد نگاہ دوڑائ تو سائیڈ کارنر پر پڑے سینڈوچز اور جوس کے گلاس پر پڑی۔وہ حیرانگی سے سوچتے ہوئے پلیٹ اٹھانے لگی
کہ یہ کس نے بنایا ہے۔
اسے یاد آیا صبح نیند میں اسے کچن سے چیزوں کو اٹھا کر رکھنے کی آوازیں آرہی تھی اگرچہ اس کی نیند کچی تھی۔ مگر رات کے حادثے نے اس تر سستی تاری کر دی تھی۔ یہ یقینی تور پر عرشمان کا ہی کام ہوگا اور اس بات کی تصدیق اسے کارنر پر موجود چٹ سے ہو گئ تھی”میڈیسن ٹائم پر لے لینا اور چلنے پھرنے کی بلکل ضرورت نہیں اٹھ کر مجھے کال کر لینا”۔ اسے اب عائشہ اور سمن پر غصہ آنے لگا کہ مجال ہے جو انہوں نے اسے کال تک کی ہو اور اک یہ انسان جس سے کوئ تعلق تک نہیں اتنا کچھ کر رہا تھا۔
اسنے چٹ پر لکھا نمبر ڈائل کیا اور کال ملانے لگی کچھ دیر میں ہی کال ریسیو کر لی گئ”گڈ مورننگ!! اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟”اس نے نرمی سے پوچھا”مچ بیٹر” حور نے جواب دیا “ڈیٹس گڈ” عرشمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔”لیکن کسی کی رہائش گاہ میں بغیر اجازت چلے آنا انتہائ غیر اخلاقی حرکت ہے مجھے میرے اپارٹمنٹ کی کیز بھی واپس چاہئیں ” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔”آئے نو اٹس مائے فالٹ لیکن کنڈیشن کچھ ایسی تھی کہ آنا پرا ویسے بجائے کریڈڑ دینے کے آپ تو میری ہی کلاس لینے لگی اٹس ناٹ فئیر “اس نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔ “بلکل کریڈڑ تو جاتا ہے” حور نے کہا “گڈ میں کیمپس سے آف پر تمہاری طرف آتا ہوں لنچ آرڈر کردوں گا” باقی سب تو ٹھیک ہے مگر ہم میں دوستی کب ہوئ؟” “کل رات کو ” عرشمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ دوسری طرف سے کوئ جواب نہ آیا تو وہ محظوظ ہوا “اوکے بائے”
“بائے اور ہاں میری کیز بھی واپس۔۔۔”اس سے پہلے وہ بات ختم کرتی دوسری طرف سے ناگواریت سے کال کاٹ دی گئ۔
وہ سیل کو دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔
*******************
کوٹیج کے اندرونی حصے سے آج بیٹرز اور گرائنڈنگ مشینز کے چلنے کی آوازیں آرہی تھی۔کچن کی شیلف کے قریب کھڑے ایک ہاتھ سے باول میں موجود انٹوں اور میدے کو بیٹر سے پھینٹتے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے آگے کو گرتی بالوں کی لٹ کو پیچھے کرتے اور پوری دلجمعی سے ویفر کوکیز بنانے میں مگن تھی آج وہ مومی کے ساتھ گھر میں کوکیز بیک کرنا چاہتی تھی۔ اوون کا ٹمپریچر سیٹ کرتے ہوئے وہ اسکی باتوں کا جواب بھی دے رہی تھی۔
پندرہ منٹ مسلسل بیٹ کرنے کے بعد اس نے بھیچ میں آئسنگ شوگر ایڈ کی اور پھر ویفرز ڈالنے کے بعد پھر سے بیٹ کرنے لگی۔ “لاو کریسٹی میں کرتی ہوں تم اتنی دیر میں میس اپ کلئیر کرلو۔وہ سب شیلز اور پیسٹ صاف کرنے لگی۔اپنے میں وہ سب مکسچر تیار کرکے اسے ٹرے میں سیٹ کرنے لگیں۔اور ٹرے اوون میں بیک کرنے کے لیے رکھ دی۔ اور دونوں اب شیلف کے قریب پری کرسیوں پر آ بیٹھی۔
“سو آپ نے میرے برتھڈے گفٹ کے تور پر کیا لیا ہے ناو ٹیل می you know I am so curious about it” اسنے انگلیوں کی پوروں پر لگا باقی کا مکسچر ان کے گال پر لگا دیا۔”I am not going to tell you so easily” انھوں نے اسے چراتے ہوئے کہا وہ جانتی تھی اسے بچپن سے سرپرائزز کو ڈسکلوز کرنے کا شوک رہا تھا وہ سسپینس زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ “no you have to tell me now plaese momy its just so irritating ” اس نے اتاولا ہوتے ہوئے کہا “”not now just wait for few days”
وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں “you have to otherwise I’m gonna mess up everything” اسنے ایک آنکھ دباتے ہوئے شرارت سے کہا۔ وہ جانتی تھی کہ اسکا اشارہ ان کی کیبینیٹ کی طرف ہے جہاں انھوں نے کل ہی سب کچھ ارینج کیا تھا پورا دن لگا کر”no way kristie” انھوں نے اسے وارن کیا۔
لیکن اب دیر ہو چکی تھی وہ ان کے روم کی طرف بھاگی۔ “کرسٹی سٹوپ آئے سیڈ سٹاپ” انھوں نے اسے پکارا “کیچ می اف یوں کین “اور اب وہ اسکے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھیاور وہ ان سے آگے۔ لاونج میں بھاگتے ہوئے اچانک دونوں کو کسی چیز کے جلنے کی smell آئ اور ان کے بھاگتے قدموں کو بریک لگی اور پھر تیزی سے کچن کی طرف بڑھ گئیں۔اوون کا ڈور کھولتے ہی انہوں نے گلوز کی مدد سے ٹرے باہر نکالی کوکیز اب جل کر سیاہ رنگت اختیار کر گئیں۔ دونوں نے مایوسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر باول میں بچے تھوڑے سے مکسچر کو دیکھا اور اسے انگلیوں سے ایک دوسرے کو لگایا اور مسکرانے لگیں۔
کوٹیج کی چمنی سے نکلنے والا دھواں باہر کی یخ بستہ فضا کو گرمانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
*****************
“سمن تم بھی چلو گی میرے ساتھ حور کی طرف مجھے بہت فکر ہو رہی ہے اسکی” اپنی کار کے قریب پہنچ کر عائشہ نے سمن سے پوچھا۔”میں تو نہیں جا پاوں گی آج بہت مصروف ہوں”سمن نے کہا۔ “چلو میں خود ہی پتا کرتی ہوں اس محترمہ کا کال تک ریسیو نہیں کر رہی چلو بائے” کہتے ہوئے اس نے کار سٹارٹ
اپارٹمنٹ کا لوک کھول کر وہ چلتا ہوا اس کے روم تک آیا جہاں وہ بیڈ پر بیٹھی مووی دیکھ رہی تھی۔سیاہ جینز کے ساتھ براون چیک شرٹ جس کی آستینیں فولڈ کر رکھی تھیں بال چہرے پر بکھرے ہوئے وہ کل کی نسبت آج کافی فریش لگ رہا تھا۔اس نے سر سے پیر تک اسکا جائزہ لیا۔”کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے؟” اسنے دوستانہ انداز میں کہا “خیر اب دوسروں کے گھر بغیر اجازت گھسنے والے چوروں کو کہا نظر لگتی ہے بھلا”اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ خفا ہوتا کچن کی طرف بڑھ گیا اور لنچ کے لیے پلیٹس ارینج کرنے لگا۔ “رکو میں کچھ ہیلپ کر دیتی ہوں” اس نے اٹھتے ہوے کہا “نہیں بلکل نہیں میں کر لوں گا” اس نے تنبیہی انداز میں کہا”ویٹ میں کرلوں گی” وہ چلتے ہوئے باہر آئ ہی تھی کہ اس کے چہرے پر نگاہ اٹھی۔وہ بھنویں تن کیے سنجیدہ نقوش لیے اسے یوں دیکھا کہ حور کو معلوم ہوگیا اگر وہ مزید ایک قدم بھی آگے بڑھی تو وہ اسے ان نگاہوں سے ہی مار ڈالے گا۔ وہ جہاں تھی وہیں تھم گئ اور واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے۔ “اچھا جا رہی ہوں واپس ” وہ خفا ہوتی ہوئ بولی۔”گڈ”
بیڈ پر سب کچھ ارینج کرکے دونوں نے کھانا کھایا۔ ابھی وہ کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ باہر ڈور بیل بجی۔”میں دیکھتا ہوں”وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔دروازہ کھولا تو باہر عائشہ تھی۔ وہ پہلے تو کچھ حیران ہوئ پھر پریشان ہوگئ”مان بھائ آپ یہاں۔۔۔۔حور کہاں ہے؟؟” “اندر چلو بتاتا ہوں سب” وہ دونوں چلتے ہوئے اسکے روم تک آئے” حور۔۔۔یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اور یہ سر اور ٹانگوں پر پٹی کیوں بندھی ہے ” وہ متفکر سی اسے دیکھنے لگی۔
“ریلیکس عائشہ کچھ نہیں ہوا مجھے چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا بس سر اور ٹانگوں پر کچھ زخم ہیں” حور نے کہا”تمہیں تو اتنی توفیق نہیں کہ اپنا سیل چیک کر لو صبح سے کال کر رہی ہوں تمہیں “وہ بولتے ہوئے اب عرشمان کی طرف متوجہ ہوئ” خیر آپ کی تو میں بعد میں خبر لیتی ہوں نہ پہلے تم بتاو ہور آخر ماجرا کیا ہے”
اسنے تنبیہی نگاہوں سے حور کی طرف دیکھا تو اس نے رات کا تمام واقعہ اسے سنا دیا۔ عائشہ دونوں کو کچھ دیر گھورتی رہی پھر بولی ” یہ تو مجھے کسی انڈین مووی کا سکرپٹ لگتا ہے جہاں ہیرہ وقت پر پہنچ کر ہیوروئن کو بچا لیتا ہے کیوں مان بھائ “اس نے عرشمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔وہ کندھے اچکاتے ہوئے باہر کو نکل گیا ۔حور نے قریب پرا کشن اٹھا کر عائشہ کے منہ پر دے مارا”بہت بےشرم ہوتی جا رہی ہو تم وہ کیا سمجھے گا ” حور نے خفا ہوتے ہوئے کہا”وہ جو بھی سمجھے گے نا اسکی مجھے اچھے سے سمجھ آچکی ہے چلو میں تو تمہیں دیکھنے ائ تھی اب چلتی ہوں اور تمہارے رومیو سے بھی پوچھ لیتی ہوں کہ وہ میرے ساتھ چلیں گے یہ بعد میں ” اس نے چراتے ہوئے کہا”کچھ شرم کرو عائشہ اسکے جانے کے بعد وہ بولا”میں بھی چلتا ہوں اب اور ہاں چلنا تو۔۔۔۔” “اب تو رٹ چکی ساری ہدایات اب جان بخشو میری اور جائیں” وہ مسکفاتے ہوئے اتھ کھڑا ہوا اور باہر کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔
شام کو وہ اور حسن سمن کی برتھڈے کی شاپنگ کرکے واپس لوٹے تو عرشمان کے سر میں کافی درد تھا۔اس نے عائشہ کو چائے بنانے کا کہہ کر خود فریش ہونے چلا گیا۔اسے عائشہ سے کچھ امپورٹنٹ نوٹس ڈسکس کرنے تھے جسکی اسے کل پریزنٹیشن دینی تھی سو اس نے عائشہ کو اپنی بکس اس کے روم میں لانے کو کہا۔
عائشہ نے اپنی فائل اور دیگر نوٹس اور موبائل اٹھائے اور اس کے کمرے کی طرف چل دی۔دروازے پر دستک دے کر اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ریحان جو کچھ دیر پہلے اس سے اپنی کار کی کیز لینے آیا تھا اس کے کمرے میں آتے ہی عرشمان سے ہاتھ ملاتا ایک نظر عائشہ پر ڈالتے ہوئے اس کے پاس سے گزر کر باہر کو چل دیا۔عائشہ اک لمحے کو رکی پھر اپنی فائلز لیتی میز تک آگئ۔”تو آپ کو کس ٹوپک میں پروبلم پیش آ رہی ہے؟”اس نے پوچھا
تقریبن ایک گھنٹہ اس ٹوپک کو دونوں نے اچھے سے ڈسکس کیا اور اسکے ہر پوائنٹ کو زیر بحث لائے “تھینک یو سو مچ عائشہ “اس نے کہا “نیور مائینڈ مان بھائ اب آپ سو جائیں رات کافی بیت چکی ہے صبح سمن کی برتھڈے بھی ہے “فائل اٹھاتے ہوئے عائشہ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔اور عرشمان بکھرے کاغذوں کو سمیٹنے لگا انہی میں عائشہ کا موبائل بھی تھا۔”عائشہ اسے یہیں بھول چلو صبح اسے دے دوں گا۔موبائل سائیڈ کارنر پر رکھ کر اس نے ٹی وی ان کر لیا۔
***********************
نوڈلز باول میں انڈیل وہ روم میں آئ اور کاوچ پر بیٹھ کر کھانے لگی۔میں نے اب تک سمن کی پارٹی کے لیے کوئ ڈریس سلیکٹ نہیں کیا اس نے سوچا۔وہ اٹھی اور الماری سے کپڑے نکالنے لگی۔پھر کہیں جا کر ایک سیاہ رنگ کا فراک پسند آیا جس پر آف وائٹ ایمبروئڈری تھی۔ اسنے وہ پہن کر دیکھا “عائشہ تو جاگ ہی رہی ہوگی اس سے پوچھتی ہوں یہ ڈریس ٹھیک رہے گا یہ کچھ اور سلیکٹ کروں ۔ اس نے ایک سنیپ لی اور عائشہ کو سینڈ کی۔
سائیڈ لیمپ آف کرتے وقت اس نے عائشہ کے سیل کی میسج ٹون کو بجتے سنا۔اسنے سیل اٹھایا واٹس ایپ پر حور کا میسج جگمگا رہا تھا۔اس نے میسج کھولا “مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کل کیا پہنوں یہ ڈریس کیسا لگ رہا ہے؟”اس نے ایک نظر تصویر پر ڈالی اور پھر اسکی انگلیاں موبائل پر چلنے لگیں”یہ بلکل بھی سووٹ نہیں کر رہا”اسنے مسکراتے ہوئے میسج لکھا۔۔حور کو مسیج پڑھ کر ذرا حیرانی ہوئ آج سے پہلے ایسے کبھی نہ ہوا تھا کہ عائشہ کو اسکی سلیکٹ کی ہوئ کوئ بھی چیز پسند نہ آئ ہو ان فیکٹ انکا ٹیسٹ کافی حد تک سیم تھا۔
اس نے ایک سفید رنگ کی نیٹ کی آدھی آستین والی قمیض نکالی جو کافی شمری تھی۔ حور نے اس میں بھی ایک تصویر لی اور عائشہ کو سینڈ کی”اب یہ کیسا لگ رہا ہے؟”عرشمان نے میسج کھولتے ہوئے پڑھا۔”سمن کی برتھڈے پارٹی پر جانا ہے اس کے سوئم پر نہیں کوئ ڈھنک کے کپڑے کیا نہیں ہیں تمھارے پاس؟”اس نے میسج سینڈ کیا اور تصویر عائشہ کے موبائل سے اپنے سیل میں محفوظ کر لی اسے اپنے عمل پر خود حیرت ہوئ تھی۔اسنے میسج کھول کر پرا اب اسے واقع کچھ کھٹکا تھا۔
اسنے ایک ہلکے جامنی اور گلابی رنگ کی میکسی نکالی جس کی آستینوں پر ہلکا گلیٹری کام ہوا تھا۔ اس نے وہ پہن کر عائشہ کو تصویر سینڈ کی۔عرشمان نے میسج کھولا وہ بصورت میکسی اس پر بہت پیارا لگ رہا تھا۔ “واو یہ بہت اچھا لگ رہا ہے کل یہی پہننا رات بہت ہو چکی اب سونا چہئیے گڈ نائٹ” اسنے کہتے ہوئے موبائل سائیڈ پر رکھا “گڈ نائٹ مسٹر عرشمان مصطفئ” حور نے مسکراتے ہوئے ٹائپ کیا۔اس نے موبائل سائیڈ سے اٹھایا میسج پڑھ کر اسے حیرت ہوئ اسے کیسے پتا کہ عائشہ کی جگہ میں رپلائے کر رہا ہوں “تم۔۔۔تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟؟” اسنے پوچھا”ویل میں اتنی بےوقوف بھی نہیں ہوں “اسنے مسکراتے ہوئے ٹائپ کیا “لیکن تمہیں معلوم کیسے ہوا”عرشمان نے پھر پوچھا” میں نے سحرش آپی سے عائشہ کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ تم دونوں سٹڈی کر رہے تھے اور وہ کچھ دیر قبل ہی سوئ ہے۔
“یہ سحرش آپی بھی نہ انہیں تو بعد میں پوچھوں گا تم سوئ نہیں اب تک طبیعت کیسی ہے؟”اسنے اب اپنے سیل سے میسجر کیا”اب کافی بہتر ہے تمہیں میری اتنی فکر کرنے کی ضرورت نہیں”اسے اب جانے کیوں اس کے پرواہ کرنے سے کوفت ہوئ”ok”اسنے خفا ہوتے ہوئے ٹائپ کیا۔وہ ایسا کیوں کرتی تھی ہر ایک کو خود سے دور کیوں کرتی تھی آخر؟؟عرشمان کا موڈ بری طرح سے خراب ہو چکا تھا۔انہی الجھنوں میں وہ کب سویا اسے پتہ نہ چلا۔
****************