انارکلی نیلے گنبد سے اندر رہائشی آبادی میں پہلی سڑک سے نکلتی گلیوں میں دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں’ جو بند بھی ہے اور تنگ بھی اور جس میں صرف دو ہی گھر ہیں’ جس میں سے ایک گھر میں وہ رہتی ہے افق…….. کشمیری حسن والی’ خشک میوے کے ڈھیر پر’ سرخ کشمیری سیب سی’ وہ اس وقت فرما بنا رہی تھی… صبح گجر دم اٹھ کر گھر کے کام سے فارغ ہو کر وہ لکڑی کے چوڑے تختے نما چوکی کے سامنے چوکڑی جما کر بیٹھ جاتی ہے… دوپہر تک چوکڑی ایسے ہی جمی رہی… پانی کا جگ بھر کر وہ اپنے پاس ہی رکھ لیتی… تاکہ دوپہر سے پہلے اٹھنا نہ پڑے… گھٹنوں سے پیوست چوکڑی لمحے بھر کے لیے کھلتی تو درد کی لہریں نکلتیں’ پھر دوبارہ بیٹھنے میں درد ہوتا… وہ ٹھیک دو بجے اٹھ جاتی… روٹی پکاتی’ سالن پکاتی…
اب سب آتے جائیں گے… کھانا کھاتے جائیں گے… پہلے اسد اور جمال آئیں گے… کھانا کھائیں گے اور پڑھنے بیٹھ جائیں گے… ان سب کے پاس ایک ہی چیز کی کمی تھی وقت کی’ ورنہ فارغ وقت میں وہ پہاڑ بھی کھودنے بیٹھ جاتے… سارے وقت میں وہ بس کام ہی کرتے رہتے… روٹی پکانے اور کھانے میں صرف ہونے والا یہ آدھ گھنٹہ بھی افق پر بڑا بھاری گزرتا… جی چاہتا کہ فرما بس جلدی جلدی بن جائے… اسے ڈر رہتا تھا کہ اگر اس نے وقت پر فرما بنا کر نہ دیا تو اسے مزید کام نہیں ملے گا اور اگر کام نہیں ملے گا… تو پیسے کہاں سے آئیں گے… یہ ڈر اسے ہر روز لاحق ہو جاتا… چھوٹی سی تھی تو چھوٹے چھوٹے ڈر رکھتی تھی… ہر وقت ڈری ہی رہتی…
تین بجے اماں آئیں’ بنا کھانا کھائے ہی لیٹ گئیں… فرما بناتے وہ اٹھی… “کیا ہوا’ تھک گئیں؟”
وہ مسکرائیں… “میں کھانا کھا لوں گی’ تم اپنا کام کرو…”
“اچھا جی!”
“کھانا کھایا تم نے؟”
“جی!” کام کرتے ہوئے کہا گیا…
“کچھ دیر آرام کر لو…”
“نہیں جی!” وہ تیزی سے ہاتھ چلانے لگی…
دونوں اسی طرح اپنے فرائض پورے کر دیتیں…
افق تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھی… ہزار کا فرما تھا… ایک ایک کاغذ کو نمبر دیکھ کر فولڈ کرنا ہوتا ہے… اس کی تہہ بٹھانی ہوتی ہے… شام چھ’ سات بجے دکان سے لڑکا آتا ہے تیار شدہ فرما لے جاتا اور مزید تیار کرنے کے لیے دے جاتا… ہفتہ وار اجرت مل جاتی…
“افق! چائے لے لو… ٹھنڈی ہو رہی ہے…”
اس نے جھک کر کاغذ کی تعداد دیکھی اور تیزی سے ہاتھ چلانے لگی… چھ سے ساڑھے چھ ہو گئے… فرما بن گیا… اس نے ٹھنڈی چائے پی لی’ لڑکا آیا’ فرما اٹھا کر لے گیا… نئے بنانے کے لیے رکھ گیا… اب یہ والے فرمے وہ رات کو شروع کرے گی…
تھوڑی دیر لیٹ کر وہ کتابیں لے کر بیٹھ گئی… اماں کھانا بنانے لگیں… چند گھنٹے پڑھنے کے بعد اسے پھر سے کام سے لگ جانا تھا… اس گھر میں رہنے والے چاروں افراد کو زندگی گزارنے کے لیے بہت سخت محنت کرنی پڑتی تھی… افق گھر میں کرتی تھی… اماں اسکول کی کینٹین میں’ دونوں بھائی پریس میں’ بہت سالوں سے ان کی زندگی ہر روز ایسے ہی شروع ہو گئی تھی…
اماں آٹھ پاس بھی نہیں تھیں… اسکول کی پرنسپل اچھی تھیں… انہیں کینٹین کے لیے رکھ لیا تھا… دو بجے تک وہ چھوٹی سی دکان نما کینٹین میں کاپی پنسل’ جوس’ برگر بیچتی تھیں…
شروع میں پندرہ سو ماہوار پر رکھا گیا… سال گزرنے پر ان کی تنخواہ میں چند سو بڑھ جاتے… اب انہیں ڈھائی ہزار ملتے تھے…
جمال اور اسد سرکاری اسکول کے فنڈ سے پڑھتے تھے… بیماری کی صورت میں وہ فنڈ سے پیسے لے سکتے تھے جو انہوں نے کبھی نہیں لیے تھے… انہیں صرف کتابیں ہی چاہیے تھیں… جمال کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی اپنا نام فنڈ کی فہرست سے خارج کروا دے گا… وہ اپنی فیس خود دینا چاہتا تھا… وہ دونوں آدھے گھنٹے کی مسافت طے کر کے پیدل اسکول آتے جاتے تھے انہوں نے اس بات پہ کبھی آنسو نہیں بہائے کہ شام کو کھیلنے کے بجائے انہیں پریس کیوں جانا پڑتا ہے…
انسان کا پیٹ کتنا اچھا ہے… کتنا بھلا مانس’ شریف’ چپ’ سن لینے والا’ ایسے ہی افق نے کیا’ افق نے آٹھویں تک اسکول سے پڑھا تھا… میٹرک پرائیویٹ کیا… آج کل ایف اے کی تیاری کر رہی تھی… وہ بڑی معصوم سی’ گم صم سی لڑکی تھی… اتنا کام کرتی’ اتنا کہ اماں اسے دیکھ دیکھ رونے کے قریب ہو جاتیں… انہیں ڈر لگتا کہ تختے پر جھکے جھکے وہ بڈھی ہو جائے گی… جھکی کمر اس کا کب نکال کر ہی چھوڑے گی…
“افق بس کرو…” رات گئے ان کی آنکھ کھلی تو حسب معمول کہا…
“جی اچھا! ابھی کر دیتی ہوں…” وہ اکلوتے کمرے کے آگے بنے برآمدے میں بیٹھی تھی… اماں کمرے میں سو رہی تھیں…
اماں کے سامنے وہ کمر سیدھی کر کے آہ بھی نہ کرتی… ورنہ اماں دو وقت کی روٹی پر سب کو لے آتیں…
ایک کمرے’ برآمدے اور چھوٹے سے صحن پر مشتمل گھر تھا… آہستہ آہستہ پیسے جما کر کے اماں نے فرش اور دیواروں کی مرمت کروا لی تھی… اماں ہر سال سفیدی کرواتی تھیں…
اکلوتے کمرے میں لنڈے کا قالین بچھا تھا… کمرے کا یہی واحد سامان تھا… اسی پر وہ سب تکیے رکھ کر سو جاتے تھے… تکیے اٹھا کر بیٹھ جاتے تھے… دیوار پر سامنے ایک گھڑی’ ایک طرف کیلنڈر اور دوسری سامنے دیوار پر افق کے مرحوم والد کی ایک تصویر ٹنگی تھی… برآمدے میں دو موڑھے’ ایک میز اور ایک لوہے کی الماری رکھی تھی… موڑھوں کو اٹھا کر افق اپنا چوکی نما تخت بچھا کے فرما’ خاکی لفافے بناتی’ چھوٹے سے صحن میں چند گملے رکھے تھے… بس یہی سب کچھ تھا انارکلی کے اس گھر میں…
وہ سب خوش اور مطمئن تھے اپنی زندگی سے وہ دولت کے بارے میں صرف اتنا ہی سوچتے تھے جتنی ان کی ضرورت تھی…
افق کے والد ایک فیکٹری میں ٹرک ڈرائیور تھے… دوسرے شہروں میں مال سپلائی کرتے تھے… لوڈنگ کے دوران وزنی سامان ان پر آ گرا…چند دن اسپتال میں رہ کر وہ خالق حقیقی سے جا ملے… فیکٹری مالکان نے چند لاکھ دیے… جس سے اماں نے یہ بوسیدہ گھر خرید لیا…
آہستہ آہستہ جب ہر رشتےدار کی اصل شکل سامنے آنے لگی تو وہ زندگی کے سامنے ڈٹ گئیں… اپنے بچوں کی طرف دیکھتیں اور مضبوط ہوتی چلی جاتیں…
جو سبق انہوں نے خود کو پڑھایا’ وہی اپنے بچوں کو ازبر کروا دیا کہ وہ یتیم ہوئے ہیں’ لاچار نہیں… زندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں… آنسو پونچھ لیں کہ انہیں صاف کرنے والا ہاتھ گیا اور حالات کو ہرا دیں اور انہوں نے واقی رونا چھوڑ دیا… بنیاد میں سیسہ بھرا جائے تو دیوار کی جگہ پہاڑ کھڑا کیا جا سکتا ہے… ان کی ماں ان کی بنیاد تھی… انہیں تو پہاڑ بننا ہی تھا…
آہستہ آہستہ ان کے گھر کی صاف ستھری حالت کو دیکھ کر اکا دکا آنے والے رشتےدار سمجھنے لگے کہ وہ خوش حال ہو رہے ہیں… اگر وہ رات کو دو’ دو بجے تک پریس میں کام کرنے والے جمال اور اسد کو دیکھ لیتے تو شاید حیران نہ ہوتے… پانچویں اور ساتویں جماعت کے بچے بستر پر سونے کے بجائے پریس میں مشینوں پر کھڑے کام کر رہے ہوتے… اگر وہ افق کو کئی کئی گھنٹے فرما بناتے دیکھ لیتے تو اس کے ہاتھ چوم لیتے…
اماں چھٹی کے دن افق کو گھر کا کوئی کام نہ کرنے دیتیں… اس دن وہ انہیں پلاؤ یا آلو گوشت کھلاتیں… جمال اور اسد کو کھیلنے کے لیے بھیجتیں اور افق کو ساتھ لے کر انارکلی چلی جاتیں… اسے آئس کریم کھلا کر لاتیں… وقت اور حالات کے ہاتھوں ترتیب دی گئی ان کی زندگی ٹھیک ٹھاک ہی تھی… اس ٹھیک ٹھاک زندگی میں ایک گھنٹی بجی…
افق کے پاس آج کوئی کام نہیں تھا کرنے کے لیے… نہ فرما’ نہ خاکی لفافے’ دکان والے نے کہا کہ دس’ پندرہ دن کے لیے کام نہیں آئے گا’ آرڈرز نہیں آ رہے… وہ اپنی کتابیں کھولے پڑھ رہی تھی… اس کی انگریزی زیادہ خراب تھی بار بار گرامر کی مشق کر رہی تھی… اس کے پاس جو فون تھا… اس پر کم ہی کسی کی کال آتی تھی… کبھی کبھار ماموں کی یا فیصل آباد والے چچا کی…
زیادہ تر اماں ہی اسکول کے آفس سے فون کرتی تھیں…
فون اس کے پاس ہی رکھا تھا… بجا تو اس نے اٹھایا’ کان سے لگایا…
“میری عرشیہ سے بات کروا دیں؟”
“عرشیہ تو نہیں ہے جی؟” وہ اجنبی مردانہ آواز سن کر گھبرا گئی…
“فضا ہو گی؟”
“جی وہ بھی نہیں…” وہ اور گھبرا گئی’ اپنے ماموں اور چچا کے علاوہ اس نے کبھی کسی سے بات نہیں کی تھی…
“عرشیہ بھی نہیں ہے’ فضا بھی نہیں ہے’ تو شانزہ تو ضرور ہی ہو گی…” ذرا ہنس کر کہا گیا…
افق نے فون بند بھی نہ کیا’ رانگ نمبر بھی نہ کہا…
“کیسی لڑکی ہو تم’ کچھ ہے ہی نہیں تمہارے پاس’ اچھا چلو عائزہ بھی نہیں تو حریم’ تحریم’ زریم’ کوئی ایک تو ہو گی’ دیکھو اب نہ مت کہنا’ ٹھیک نہیں ہو گا’ میں نے بتا دیا ہے پہلے ہی…” دبی دبی ہنسی…
“نہیں’ کوئی بھی نہیں ہے…” اس نے ذرا سی بےچارگی اور افسوس لیے کہا’ جیسے خود سے ہی کوئی گناہ ہو گیا ہو…
“کوئی نہیں’ ہاہاہا…” ایک طویل قہقہہ لگایا گیا… فون کرنے والا جی بھر کر لطف اندوز ہوا…
“یار! کیا نام ہے تمہارا’ کب سے ہو اس دنیا میں’ تمہارے اس انداز پر جی چاہتا ہے کہ تمہارے قدموں میں بچھ جاؤں اور اپنی جان دے دوں… تم کہاں آ گئیں ہم سے بدمعاشوں
میں…….. جواب دو جلدی سے…”
“مجھے آپ کو اپنا نام نہیں بتانا…” اس کے ہنسنے پر اسے غصہ بھی آیا اور عقل بھی کہ کوئی تنگ کر رہا ہے… اس نے فون بند کر دیا… پھر بجا اور بجتا ہی رہا… اس نے نہیں اٹھایا’ پھر میسج آنے لگے… ہر میسج میں ایک نیا نام تھا…
“اسما ہو؟ شایان ہو؟ نمرہ ہو؟ جویریہ ہو؟ ہادیہ ہو؟ نادیہ ہو؟ سلویٰ ہو؟ حیا ہو؟”
اتنے نام’ اتنے میسجز’ اس کا ان باکس بھر گیا… پھر فون بجنے لگا… اماں آئیں تو اس نے فون بند کر کے ایک طرف رکھ دیا… اگلے کئی دن ایسے ہی کالز اور میسجز آتے رہے… افق کا سارا دھیان بٹ گیا… فون اٹھاتی نہیں تھی… لیکن فوم بجتے ہی فون کی طرف دیکھنے لگتی… اب نہیں بھی بجتا تھا تب بھی دیکھتی تھی کہ بج کیوں نہیں رہا… میسج آتے تو پڑھتی… نہ آتے تو پہلے والے پڑھتی…
چند دنوں میں ہی ایسا ہوا’ لیکن ہو گیا… بیرونی دنیا سے زیادہ واسطہ نہیں تھا اس کا… جتنا بھی واسطہ تھا’ اس میں ایسی شرارتی باتیں کرنے والے’ خوب صورت آواز والے شامل نہیں تھے… اب وہ زریم’ تحریم’ شایان’ سوچے جاتی’ سوچے جاتی’ مسکرانے لگتی… اس کا جی چاہا کہ اماں کو یہ لطیفہ سنائے’ پھر سنا نہیں سکی…
“چھوٹی ہو’ بڑی ہو’ موٹی ہو’ لمبی ہو’ پیاری ہو’ پری ہو’ کون ہو؟”
روزانہ نئے سرے سے اس کا ان باکس بھرنے لگتا…
“گونگی ہو’ بول نہیں سکتیں’ اپنی مترنم آواز میں گانا تو سناؤ’ گالیاں ہی سنا دو یا اپنا کوئی سبق ہی… آج کیا کھاؤ گی’ کہاں بیٹھی ہو’ کیا کر رہی ہو’ کچھ بولو’ کچھ سنو’ کچھ پوچھو’ چلو کچھ کریں’ چلو آؤ کھیلیں…”
سچی بات تھی یہ دو’ دو حرفی میسجز پڑھتے پڑھتے افق ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی’ اماں نے سبزی بناتے بناتے اسے دیکھا… موبائل اس نے کتاب میں رکھا تھا… قریب ہی ایک پرانا رسالہ رکھا تھا…
“کیا ہوا افق؟ ایسے کیوں ہنس رہی ہو؟”
“کچھ نہیں جی…” ہنسی چھپا کر کہا…
افق کا جی چاہا… اپنی کسی سہیلی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے کان میں ایک ایک بات بتائے… سہیلی اس کی کوئی تھی نہیں… کالج وہ جاتی نہیں تھی… چچا زاد’ خالہ زاد’ ماموں زاد کوئی ان کے گھر آتا نہیں تھا… وہ اپنی دنیا میں اکیلے تھے تو تجربات میں بھی اکیلے تھے اور افق کی تجرباتی زندگی کا تو ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا… کہاں کا مشاہدہ اور کہاں کی عقل….
افق دل کھول کر ان میسجز پر ہنستی رہی… کئی دن ایسے ہی چلتا رہا… ایک دن ایک انجانے نمبر سے فون آیا… اس نے اٹھا لیا’ لیکن چپ رہی…
“رکو’ رکو…….. تمہیں قسم ہے اپنی آواز کی’ جلدی بتاؤ اپنی آواز کی سرجری کہاں سے کروائی ہے؟”
اسی لڑکے کی آواز سن کر وہ پہلے سے زیادہ بوکھلا گئی…
“جی….” اتنا ہی کہا… اسے کیا پتا تھا کہ آواز کی سرجری بھی ہوتی ہے…
اور قہقہہ اتنا بلند ہوا کہ وہ دیر تک ہنستی رہی… فون بند نہ کیا’ کہا بھی نہ گیا…
“مجھ سے دوستی کرو گی؟” جھٹ سے پوچھا…
“جی؟” اس کے منہ سے پھر بے ساختہ نکلا…
“جی……. چلو ڈن ہوا……. میرا نام امان ہے… ابھی پڑھ رہا ہوں… پھر جاب کروں گا… پھر شادی’ صرف دو بچے کروں گا’ لڑکے کا نام بازل رکھوں گا… لڑکی کا نام ردا…”
افق نے گھبرا کر فون بند کر دیا… اس کی ہتھیلیاں بھیگ گئی تھیں…
میسج آیا “فون بند کر دیا… کوئی آ گیا تھا کیا تو میں کہہ رہا تھا کہ ردا رکھوں گا… ردا انجینئر بنے گی اور بازل فٹ بالر بنے گا’ پیسہ کمائے گا’ اس پیسے کو میں جما کرتا جاؤں گا… جب بہت زیادہ ہو جائے گا تو ہوائی میں جزیرے پر دو گھر لوں گا… ایک بازل کے لیے’ ایک اپنی گرل فرینڈ کے
لیے…… گرل فرینڈ کو بیوی سے چھپا کر وہاں رکھوں گا’ شش….. بتانا نہ کسی کو’ اور…… کیا…”
“اف…… توبہ…… اللہ جی…” افق کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا…
“کیا تم میری بیوی بنو گی؟”
ایک ذرا لمبے وقفے کے بعد یہ میسج آیا… فون اس کے ہاتھ سے گر گیا… ایک کرنٹ اس کے اندر سے ہو کر گزرا… انجان نمبر تھا… انجان شخص تھا… غلط انداز تھا’ غلط ہی زمانہ تھا… اتنا وہ جانتی تھی’ پھر بھی اس نے رات تک کئی بار اس فقرے کو پڑھا…
“میری بیوی بنو گی؟”
ہر بار کرنٹ ہی کرنٹ سا لگتا… وہ ڈر جاتی… کانپ جاتی… پھر بھی بار بار پڑھتی…
ساری رات اس فقرے کے آگے پیچھے بھاگتی رہی…
اماں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا… منہ اندھیرے اٹھنے والی بےسدھ پڑی تھی… اماں نے اسکول سے چھٹی کر لی… اسے تیز بخار تھا… دونوں بھائی پریشان صورت لیے اسکول
گئے… افق بیمار ہو گئی…
اماں اس کی بیماری سے بہت پریشان ہو جاتیں… انہیں شرمندگی ہوتی… انہیں لگتا سب انہی کی وجہ سے ہے… اتنا کام کرتی ہے وہ… کتنے سالوں سے کر رہی ہے… کالج بھی نہیں جا سکی…
انہوں نے سوچا… اسے ماموں کے یہاں بھیج دیں… ان کے بچوں سے دوستی نہیں تو سلام دعا ہی سہی… ایک دو مہنگے سوٹ لے دوں گی… ماحول بدل جائے گا… چار دن تو ماموں مہمان بنا ہی لیں گے…
شام تک اس کا بخار اتر گیا… فون کے ساتھ الٹ پلٹ لگی رہی… اماں نے اس کی تیاری کی… کپڑوں کے لیے اسے ساتھ لے جانا چاہا… پر وہ نہیں مانی’ ماموں کے بچے کالج یونیورسٹی جاتے تھے… اس کت ساتھ سلام دعا ہی رکھتے تھے بس… مامی جی اسے کاموں میں لگائے رکھتیں… آتے ہوئے سیما باجی’ زونیرہ باجی کے استعمال شدہ کپڑوں’ جوتوں کی گٹھڑی باندھ کر پکڑا دیتیں… اسد دہی بھلے لے آیا…
“افق باجی! ٹھیک ہو نا؟” وہ بےچارہ بہت فکرمند ہو جاتا تھا…
“ہاں! میں ٹھیک ہوں…”
“افق باجی! بیمار نہ ہوا کرو…” وہ اور بےچارہ نظر آنے لگا… “مجھے بڑا رونا آتا ہے کسی کو بھی بیمار دیکھ کر…”
“میں نہیں ہوتی اب بیمار…” وہ مسکرائی…
“میرے پاس کچھ اور پیسے بھی ہیں… میں چوک سے ملک شیک لا دوں…” وہ پھر مسکرا دی…
اماں اسے لے کر سڑک پار پارک چلی گئیں… سبزے پر وہ دیر تک ٹہلتی رہیں… جنگلے سے سڑل دیکھتی رہیں…
“میری بیوی بنو گی…” وہی آواز سبزے پر بچھ گئی… درختوں پر لہرا گئی… درختوں پر چڑھے پرندے ایک ساتھ خوب آسمان رنگا گیا…
سبزے پر چاندنی بھی پھیل گئی اور قوس قزح بھی……. پھول’ پودے لہرا لہرا کر جھومنے لگے… یہ منظر اس کے اندر کا تھا… وہ آپ ہی آپ مسکرانے لگی… بخار اتر گیا… اماں خوش ہو گئیں… پارک سے اسے آئس کریم کھلانے لے گئیں… فون کو ہاتھ میں لیے لیے ہی وہ سو گئی… پھر کوئی میسج نہیں آیا تھا…
“میری بیوی’ میری بیوی…” اس نے رات کے نہ جانے کس پہر اور کا اوٹ میں چھپ کر کہا…
ننھی سی’ پیاری سی لڑکی بولی “ہاں” خود سے بھی چھپ کر’ ڈر کر’ کانپ کر’ رات کے اندھیرے میں…
کئی دنوں بعد فون آیا… بجتے بجتے بند ہو گیا… لیکن اس کا دل دھڑکتا رہا… پھر میسج آنے لگے’ وہی الٹے سیدھے…
“کوئی ہے؟ کوئی چڑیا’ کوا’ شیر’ ہاتھی’ چلو گھوڑا ہی
سہی……. گائے’ بھینس بھی چلے گی…”
“خاموشی اتنی حسین ہے تو کلام کتنا غضب ڈھائے گا…”
اماں نے پوچھا… “افق! آٹا گوندھ لیا؟”
“جی شیر….” ہڑبڑا گئی…
“شیر……” اماں حیران پریشان…
ڈر کے مارے اس نے رات تک فون کو ہاتھ نہ لگایا… جب سب سو گئے تو باورچی خانے میں جا کر چپکے سے کتاب کھول کر اس میں فون رکھا اور پڑھنے لگی… ایک بار’ دو بار’ نہ جانے کتنی ہی بار….. اس کی تسلی نہیں ہو رہی تھی یا دل نہیں بھر رہا تھا پتا نہیں……
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...