یہ وسط بہار کا کوئی دن تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں جامن کے سوکھے درخت کی ٹہنیوں کو چھُو کر کھلے صحن کے دل سے گزرتے ہوئے کچے راستے کے اطراف پودوں کی روش کو چومتی جا رہی تھیں۔ مالی ان پودوں کی نلائی کرتا جاتا اور ساتھ ہی گرے ہوئے پتوں کو اٹھا کر ہتھ ریڑھی میں ڈالتا جاتا۔ کوٹھی کے چاروں اور مخملی گھاس یوں دِکھ رہی تھی جیسے زمین پر زمرد جڑے ہوئے ہوں۔ ابھی پھولوں کے نئے پودے پوری طرح مٹی سے مانوس نہیں ہوئے تھے اور ان میں سے بعض مرجھا رہے تھے۔ بانو خاتون ادبی رسالے کا نیا شمارہ گود میں رکھے مطالعہ میں یوں گم تھیں جیسے بہ جز اس کے دنیا میں کوئی کام ہی نہ ہو۔ ایک ایک حرف یوں پڑھتیں گویا یاد کرنا چاہتی ہوں۔ ایک ہی نشست میں سارے افسانے اور منظومات پڑھ گئیں۔ رسالہ ایک طرف رکھتے ہوئے انھوں نے ماحول کا جائزہ لیا۔ دائیں ہاتھ میں بندھی ہوئی گھڑی پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ زمردیں فرش پر بے تابی سے گھومتے ہوئے ان کی نگاہ بار بار آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی۔ دفعتاً وہ رُکیں اور مالی کو آواز دی
’’ریاض۔ ۔ ۔ اِدھر تو آنا‘‘
’’جی بیگم صاحبہ‘‘
کہہ کر بوڑھا مالی اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا چلا آیا
’’ریاض! تمھیں کتنے مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی؟ ‘‘
ریاض نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جلدی سے جواب دیا
’’میری کوئی تنخواہ باقی نہیں ہے ، بیگم صاحبہ‘‘
’’تو پھر یہ پودے کیوں سوکھ رہے ہیں ؟ کیوں تم بروقت نلائی نہیں کر تے اور پورا پانی نہیں دیتے ہو ؟ ‘‘
’’بیگم صاحبہ! خدا جانتا ہے ان پودوں سے اپنے بچوں کی طرح محبت کرتا ہوں اور اپنی طاقت سے زیادہ محنت کرتا ہوں۔ ۔ ۔ نہ معلوم پھر بھی کچھ پودے اجنبیت کیوں برت رہے ہیں۔ ‘‘
’’سب سمجھتی ہوں ، محبت اور محنت۔ ۔ ۔ ہونہہ۔ ۔ ۔ ‘‘
بوڑھا ریاض کسی بت کی مانند زمین میں گڑ چکا تھا اور بانو خاتون کی بے کلی اور بڑھ گئی۔
’’محبت۔ ۔ ۔ محنت، محبت۔ ۔ ۔ محنت، محبت۔ ۔ ۔ محنت ‘‘
ان دو لفظوں کی تکر ار اس قدر بڑھی کہ بانو خاتون کو اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔ وہیں زمین پر بیٹھ رہیں۔ ۔ ۔ جب ہوش آیا تو آغا خان اسپتال میں ڈاکٹروں کی نگاہ داشت میں تھیں۔ ذہن پر دباؤ ڈالتے ہوئے انھوں نے سوچا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ کون سا ایسا درد اُٹھا تھا، جس نے ہوش ہی نہ رہنے دیا۔ ۔ ۔ اور جب وہی دو لفظ دوبارہ یاد آئے تو دماغ کے خوابیدہ خلیوں نے رینگنا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ تاریک ہوتی ہوئی آنکھوں سے دو نمکین قطرے نکل کر چہرے کی جھریوں میں راہ بناتے ہوئے کانوں تک چلے گئے۔
’’اُف خدایا! کس قدر بھاری ہیں یہ دو لفظ‘‘
بانو خاتون نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، تو کمرے میں موجود ماسی اچانک ان کے چہرے پر جھک کر
’’بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ ‘‘
پکارنے لگی۔
’’کون لایا تھا یہاں مجھے ؟ ‘‘
ساری قوتیں جمع کر کے بانو خاتون نے پوچھا۔ ماسی نے اپنی اوڑھنی سے ان کی آنکھیں صاف کر تے ہوئے کہا
’’ریاض اور میں جی‘‘
’’احسان اور بہو کو اطلاع دی تھی‘‘
’’جی بیگم صاحبہ‘‘
بانو خاتون کے دماغ پر وہ دو لفظ پھر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ کراہتے ہوئے انھوں نے پہلو بدل کر اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا۔ ۔ ۔ ماسی پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی۔
٭٭٭
ہوا میں بکھرتے ہوئے خزاں رسیدہ پتوں کی مانند سوچیں بے نشاں و بے سمت بھٹکنے لگیں۔ جوں جوں ماضی کی کتاب کے اور اق کھلتے جاتے تھے ، توں توں بانو خاتون کا حلق آنسوؤں کی گرمی سے کڑوا ہوتا جاتا اور اس کڑواہٹ کو وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں تھوک سکتی تھیں۔
پندرہ دن بعد جب ان کی پڑوسن بیگم ضرار آئیں تو ان کے دکھ کو مزید سوا کر گئیں۔
’’بیگم صاحبہ! مجھے بتا دیا ہوتا میں تصدق کو یہاں بھیج دیتی۔ ہم غیر تو نہیں ہیں ، آخر کو ہم سایے ہیں اور ہم سایے تو ماں جائے ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے ہوش کہاں تھا‘‘
تھڑ دلی سے بانو خاتون اتنا ہی کہہ پائی تھیں ، کہ بیگم ضرار نے جلتا ہوا انگارہ ان کے دماغ پر رکھ دیا
’’احسان میاں تو اپنی بیوی کے ساتھ کل ساحلِ سمندر کلفٹن میں گھڑ سواری میں مشغول تھے ، کیا عیادت کے لیے نہیں آئے ؟ ، اَجی میں تو کہتی ہوں کیا فائدہ ایسی اولاد کا جو بڑھاپے میں تنہا چھوڑ جائے ، ایسوں کا تو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دینا چاہیے۔ ‘‘
بانو خاتون ساکت و جامد خلاؤں میں گھورتی رہیں اور بیگم ضرار جلتی پر تیل ڈال کر نکل گئیں۔
٭٭٭
دن گزرتے رہے اور خیالات مسلسل غزل کی ردیف کی طرح ایک تو اتر سے وارد ہوتے گئے۔ اباّجی کی حویلی یاد آئی تو لسوڑوں کی چپچپاہٹ سے دماغ کے خلیے باہم اُلجھنے لگے۔ حویلی کے دالان میں ایستادہ لسوڑے کا درخت ان کا ہم جولی و ہم راز تھا۔ جس کی شاخیں ان کی سانسوں کی مہک اور جسم کے لمس کی امین تھیں۔ پہروں اس کے تنے کو اپنی نوجواں بانہوں میں سمیٹ کر اپنی آنکھوں کے موتی اس میں اتارتی رہتی تھیں۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے اندر ان کو سمیٹتا رہتا تھا۔ اور اس سے پہلے جب وہ صرف دس برس کی تھیں تب بھی ان کے لیے حویلی میں جائے اماں صرف یہی تو ایک درخت تھا۔ وہ اپنی گڑیا لے کر اپنے ساتھ ہی کھیلتی رہتیں۔ اپنی گڈی کی شادی، اپنے ہی گڈے سے کرتیں ، خود ہی بارات کے ساتھ ہوتیں اور خود ہی رخصتی کا اہتمام کرتیں۔ ڈھول بجانا ، گیت گانا، تالی بجانا حویلی میں ممکن نہ تھا۔ ۔ ۔ کھلکھلا کر ہنسنے اور قہقہے لگانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ۔ ۔ زیادہ سے زیادہ مسکراہٹ کی ایک لکیر ہونٹوں پر پھیل جاتی یا پھر دبی آواز میں کچھ لفظ ادا ہو جاتے۔ ۔ ۔ ایسے میں بھی اگر کہیں پھوپھو کی نظر پڑ جاتی تو وہ بانو خاتون کی ساری خوشیوں کو اٹھا کر تندور میں ڈال دیتیں۔ ۔ ۔ اس ظلم اور جبر پر رونے کا بھی اختیار نہیں تھا۔ جس ماں نے جنا تھا وہ تو دیکھ بھی نہ پائیں تھی انھیں۔ ۔ ۔ رشتے کی خالہ نے دودھ پلایا اور دو سال تک اپنے پاس رکھا۔ اباّجی ان کی جھولی میں ڈال کر خود سبک دوش ہو گئے تھے۔ تب ایک جھگڑے میں پھوپھو کے خاوند مارے گئے تو اباّجی کی اکلوتی بہن اپنے دو بچوں سمیت حویلی اُٹھ آئیں۔ ۔ ۔ اور یوں بانو خاتون بھی اپنے گھر لوٹ آئیں۔
٭٭٭
بہروز اور نو روز دونوں ان سے بڑے تھے اور ہمہ وقت اپنی ماں سے ناز اٹھواتے رہتے۔ جو چاہا کھایا، جو چاہا پیا۔ جب چاہا اُٹھ بیٹھے ، جب چاہا سو لیے۔ جو چاہا پہن لیا، جو چاہا اتار دیا۔ پابندیاں تھیں تو فقط ان کے لیے۔ ادھر پو پھٹی اور انھیں جگا دیا گیا۔ گھر بھر کا کام کروایا اور دونوں بھائیوں کے بچے ہوئے لقمے ان کے آگے ڈال دیے۔ ۔ ۔ اور پھر سرکاری اسکول کی طرف ہانک دیا۔ اسکول سے لوٹتیں تو پھر گھر داری میں مصروف ہو جاتیں۔
بے لحاظ پھوپھو کی جلی کٹی اور ظلم تو بہ ہر حال سہے جاتی رہیں۔ ۔ ۔ مگر ایک دوپہر تو اندھیروں میں بدل گئی۔ وہ کھانے کے برتن دھوکر خشک کر نے کے لیے ٹوکری میں رکھ آئی تھیں۔ پھوپھو کے گھڑے میں تازہ پانی بھی ڈال دیا تھا۔ بہروز اور نوروز کے نہانے کے لیے الگ سے دو بالٹیاں بھی بھر کر غسل خانہ میں رکھ دی تھیں۔ اباّجی کے کمرے کے فرش کو ٹھنڈا کر نے کے لیے بھی کئی بالٹیاں ڈال آئی تھیں اور اب لسوڑے کے تنے سے لپٹ کر سسکیوں کی زبانی اسے اپنی بپتا سنا رہی تھیں۔ ۔ ۔ دفعتاً ان کے جسم میں بجلی کوند گئی۔ ۔ ۔ نوروز نے پیچھے سے آ کر انھیں اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اپنے ہاتھ مضبوطی سے ان کے سینے کے ابھاروں پر رکھ دیے۔ ایک چیخ ان کے حلق میں قتل ہو گئی۔ نوروز بھائی کے سامنے ہاتھ جوڑے ، خدا کے واسطے دیے ، گڑگڑائیں ، روئیں۔ ۔ ۔ مگر اس نے اپنی گرفت ڈھیلی نہ کی۔
نہ جانے پھوپھو کس وقت سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ ۔ ۔ اور پھر بڑے بڑے ڈگ بھرتے ہوئے حویلی کے دالان میں آ گئیں۔
’’حرام زادی! یہ لچھن ہیں تیرے ، میں بھی کہوں تو دو پہروں کو سوتی کیوں نہیں۔ آ لینے دے اپنے باپ کو۔ منحوس تمھیں دیوار میں چنوا کر دم لوں گی۔ کتیا تو نے رشتوں کا بھی خیال نہ رکھا۔ ۔ ۔ اپنی آگ کہیں اور ٹھنڈی کیوں نہ کی تو نے۔ ۔ ۔ ؟ ۔ کیوں میرے معصوم بیٹے کو تباہ کر رہی ہے۔ ‘‘
پھوپھو کے منہ میں جو آیا بکے گئیں اور بانو خاتون کی آنکھوں کی ندیاں سوکھنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ دوپہر، سہ پہر میں ڈھلی اور سہ پہر شام میں۔ ۔ ۔ مگر بانو خاتون کے لیے وقت رُک گیا تھا۔ ۔ ۔ یوں جیسے بھاری سلوں تلے آ گیا ہو۔ ۔ ۔ ایک ایک پل صدی کو محیط ہو گیا۔ رو رو کر اپنا برا حال کر لیا اور اب ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے آنکھوں سے پانی کی بجائے لہو ٹپک رہا ہو۔ پھوپھو نے ان کے کمرے کی باہر سے چٹکی لگا دی تھی۔ بانو خاتون نے سوچا آج اباّ جی کو پھوپھو کے تمام ظلموں کے بارے میں بتائیں گی۔ ۔ ۔ بتائیں گی کہ وہ انھیں کیسی کیسی ننگی گالیاں دیتی ہیں۔ ۔ ۔ اور آج جس شیطنت کا مظاہرہ نوروز نے کیا ہے وہ بھی صاف صاف بتا دیں گی۔ دل سے بہہ جانے والے لہو کو قطرہ قطرہ کر کے سمیٹا اور تہیہ کیا کہ اب مزید ظلم نہیں سہیں گی اور ان ماں بیٹوں کو حویلی سے نکلوا کر رہیں گی۔
٭٭٭
اباّجی کے کمرے سے مسلسل آوازیں آتی رہیں اور شام رات میں مدغم ہوتی رہی۔ بھوک اور پیاس سے بانو خاتون کا برا حال ہو گیا تھا۔ غم اور غصہ کی شدت نے مزید نڈھال کر رکھا تھا اور اب اتنا وقت گزر گیا تھا۔ ۔ ۔ مگر کوئی انھیں قید سے رہائی دلانے نہیں آیا تھا۔ ۔ ۔ تب انھوں نے بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔
بھاری قدموں کی آہٹ جوں جوں بڑھتی گئی ان کے دل کی دھڑکنیں بھی بے ترتیب ہونے لگیں۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور اباّجی نے انھیں چوٹی سے پکڑ کر ننگے فرش پر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ بغیر کچھ کہے سنے ان کے وجود پر لا تو ں اور مکوں کی بارش کر دی۔ پیڑو اور پسلیوں میں درد کی ایسی لہر اُٹھی کہ اس نے دہرا کر دیا۔ جب جب یہ درد سے دہری ہوتیں اباّجی انھیں بالوں سے پکڑ کر سیدھا کر تے۔ ۔ ۔ اور پھر پیٹنا شروع کر دیتے۔ چہرہ چھلنی ہو گیا تھا، ہونٹوں سے خون کے فوارے پھوٹ بہے تھے ، نس نس میں گویا درد کی لکیریں بن گئی تھیں۔ اور جب اباّجی مار مار کر تھک گئے تو انھیں دھکا دے کر زمین پر ڈال دیا۔ ۔ ۔
’’اباّجی! میری بھی تو سنتے ‘‘
جب انھوں نے اپنی چیخیں ضبط کر تے ہوئے کہا تو اباّ جی نے سیدھے پاؤں سے زور دار ٹھوکر ان کے ماتھے پر لگائی اور وہ درد سے بلک اُٹھیں۔ اس لیے نہیں کہ چوٹ بہت گہری تھی، اس لیے کہ اباّجی نے بھی انھیں بد ذات، حرام کار اور رنڈی کہا تھا۔ پھوپھو، بہروز اور نوروز یہ منظر دیکھتے رہے ، مگر کسی نے مداخلت نہ کی۔ ۔ ۔ اور کر تے بھی کیسے کہ وہی تو ان کی جان کے دشمن تھے۔
٭٭٭
بانو خاتون کو جب ہوش آیا تو وہ اپنے کمرے کی چارپائی سے بندھی ہوئی تھیں اور ان کے جسم پر لباس کے نام پر دھجیاں تھیں۔ انگ انگ سے خون رس رہا تھا اور رُواں رُواں درد سے پھٹ رہا تھا۔ انھیں اپنے جسم پر لگنے والے گھاؤ سے زیادہ روح پر آنے والے زخموں سے تکلیف ہوئی تھی۔ ان کے ذہن میں لسوڑے کے درخت تلے پیش آنے والا منظر پوری طرح جاگ چکا تھا۔ ۔ ۔ اور پھوپھو کی زبان سے نکلے ہوئے غلیظ لفظ پہلے سے زیادہ کر یہہ معلوم ہو رہے تھے۔ وہ نوروز جسے وہ ہمیشہ اپنا سگا بھائی سمجھتی آئی تھیں مجسم شیطان نظر آ رہا تھا۔ ۔ ۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ انھوں نے اباّجی کے سامنے کیا کہانی گھڑی تھی، مگر وہ ان دونوں ماں بیٹوں کا خون پینا چاہتی تھیں۔
’’مجھے حرام زادی کہتی ہیں اور خود وارث ماموں کو دن بھر اپنے کمرے میں بند رکھتی ہیں ‘‘
بانو خاتون نے نفرت سے سوچا۔
’’حرافہ تو خود ہیں ، اباّجی کے گھر سے نکلتے ہی حویلی کے دروازے سے لگ جاتی ہیں اور ہر آتے جاتے مرد کا وجود ماپتی ہیں ، گلی میں بیٹھے ہوؤں کو تاکتی ہیں۔ ‘‘
سوچیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے دماغ میں زہر بھی بڑھتا جا رہا تھا۔
٭٭٭
گھڑیاں ، گھنٹوں ، دنوں ، ہفتوں اور مہینوں میں بدل گئیں۔ ۔ ۔ مگر قید ختم نہ ہوئی۔ پھوپھو ان کے سامنے کھانا ایسے رکھ کر جاتیں جیسے کسی کوڑھی اور جذامی کے آگے ڈال رہی ہوں۔ اُن کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ پھوپھو کو دبوچ کر ان کی گردن سے لہو پی جاتیں۔ اس سارے عرصہ میں ایک بار بھی اباّجی اس طرف نہیں آئے تھے۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے نا کر دہ گنا ہوں کی سزا کاٹتی رہیں۔ پھر ایک دن اباّجی آئے اور درشت لہجہ میں کہا
’’بانو! تمھیں کمرے سے رہائی مل رہی ہے۔ ۔ ۔ اور جان لو ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھانا کہ میں تمھیں قتل کر نے پر مجبور ہو جاؤں۔ ۔ ۔ اور ہاں ڈھنگ کے کپڑے پہن لینا، کچھ لوگ تمھیں دیکھنے آ رہے ہیں۔ ‘‘
بانو خاتون نے منت کے سے انداز میں پکارا
’’اباّجی۔ ۔ ۔ ! ‘‘
’’مت کہو مجھے اباّجی‘‘
اور پھر اباجی نفرت سے منہ پھیر کر چلے گئے
بانو خاتون کے وجود میں جیسے شعلے سے لپک گئے ہوں۔ انھوں نے دکھ اور گھبراہٹ کی حالت میں سوچا
’’کیا میں واقعی بد ذات اور حرام کی جنی ہوں ، جو ابّا جی مجھ سے اس قدر نفرت کر تے ہیں ‘‘ گولی کی سی سرعت کی طرح ایک اور حقیقت ان پر واضح ہوئی کہ اباّجی نے تو کبھی ان سے محبت کی ہی نہیں تھی۔ ۔ ۔ وہ تو اپنے کاروبار اور جاگیر میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ۔ ۔ اور یہ پھوپھو کی لعن طعن اور باسی ٹکڑوں پر پلتی رہیں۔ اب ان کے دل میں اباّجی کے لیے بھی نفرت بڑھ رہی تھی۔
٭٭٭
یوں ہی ایک شام انھیں سلیم کے کھونٹے پر باندھ دیا گیا۔ ۔ ۔ وہ سلیم جس کا نہ پہلے نام سنا تھا، نہ دیکھا تھا۔ خود میں چھپی ہوئی یہ ایک پلنگ میں دبکی بیٹھی رہیں۔ ۔ ۔ سلیم آتا ہے ، حکم جاری کرتا ہے۔ ۔ ۔ ایسے جیسے کسبیوں اور زر خریدوں کو جاری کیا جاتا ہے اور پھر رات بھر کتا گوشت کے لوتھڑے کو بھنبھوڑتا رہا۔ آنے والے کئی دن بھی اسی طرح گزر گئے۔ ۔ ۔ دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔ ۔ ۔ سُور پلتا رہا، کھیت اجڑتا رہا۔ تین ماہ گزر گئے پھر ایک صبح سلیم نے تین لفظ کہہ کر انھیں رونے کے لیے چھوڑ دیا اور کہہ گیا
’’میں لوٹوں تو تمھاری شکل نہ دیکھوں ‘‘
خدائے زندہ کے سامنے دو زانو ہو کر وہ اپنے نا کر دہ گنا ہوں کی معافی مانگتی رہیں۔ جب درد چیخوں ، آہوں اور سسکیوں میں بدل گیا تو پڑوسن چلی آئی
’’اری کیوں جی ہلکان کرتی ہے کم بخت! نہ رو۔ تم سے پہلے چار جیون اجاڑ چکا ہے موا۔ ارے لعنت ہو ایسے والدین پر جوبن دیکھے ایسوں سے باندھ دیتے ہیں۔ ‘‘
پڑوسن اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہتی رہی۔ ۔ ۔ اور یہ تو جیسے ہوش ہی کھو بیٹھی تھیں۔ جائیں تو جائیں کہاں ؟ اباّجی نے تو گھر سے نکالنے کے بعد پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ ۔ ۔ پھوپھو اور نوروز کا خیال آیا تو روح کو آگ لگ گئی۔ پورے وجود میں جیسے چنگاریاں رینگنے لگی ہوں۔ ۔ ۔ روم روم سلگتا رہا، درد بڑھتا رہا، خون گھٹتا رہا ، وقت گزرتا رہا، دم نکلتا رہا۔ بہت سوچنے کے بعد وارث ماموں کا خیال آیا تو اس کے ساتھ ہی یہ منظر بھی ذہن میں جاگ بیٹھا کہ وہ تو خود اپنی بیوی سے چھپ چھپ کر پھوپھو کی آگ بجھاتے ہیں۔ ۔ ۔ تب انھوں نے اپنے ٹوٹے ہوئے وجود کی کرچیوں کو سمیٹنا شروع کیا۔ ایک ایک کر کے انھیں زمین سے اُٹھایا اور صاف کر کے اپنے پوٹلی میں باندھ لیا۔ اب منزل کوئی نہیں تھی، صرف راستہ تھا۔ ۔ ۔ پُر خار ، پُر پیچ، پُر درد۔ ۔ ۔ دکھوں ، تکلیفوں ، آہوں ، سسکیوں ، یادوں اور نفرتوں سے پُر۔ ۔ ۔ ایک لمبا نہ ختم ہونے والا بے انت راستہ
جتنی دُور چلوں میں پیارے
عمر کا رستہ بڑھتا جائے
امرت دھارا کیسے پاؤں
وہ چلتی رہیں ، جلتی رہیں۔ ۔ ۔ اور اس چلنے اور جلنے میں انھیں ایک کرن دکھائی دے گئی۔ سلیم کے ساتھ گزرا ہواوقت یاد کرنا ان کے لیے سوہان روح تھا، مگر اس نوزائدہ کاکیادوش جس نے ابھی دنیا میں سانس لیا تھا۔ ۔ ۔ احسان۔ ۔ ۔ نہ جانے کیا سوچ کر انھوں نے اس پھوٹنے والی روشنی کو احسان کا نام دیا تھا۔
٭٭٭
اب بانوخاتون تھیں ، احسان تھا اور کوچنگ سینٹر۔ دن کے پہلے پہروہ ایک پبلک اسکول میں پڑھاتیں اور پچھلے پہراپنے کوچنگ سینٹر میں۔ دونوں ماں بیٹا عموماً ساتھ ہوتے یا یوں کہیے ماں نے کوکھ سے جنم دینے کے بعد بھی بیٹے کو خود سے جدانہیں کیا تھا۔ ۔ ۔ اور خود چند لمحوں کے لیے بھی ماں کی شفقت نہ پا سکی تھیں۔ اِدھر یہ پیدا ہوئیں ، اُدھر ماں ساتھ چھوڑ گئی۔ نہ بہن ، نہ بھائی، نہ گھر، نہ در۔ ۔ ۔ اباّجی۔ ۔ ۔ ؟ انھوں نے تو جیسے زہر میں بجھا ہوا تیر ان کے سینے میں چبھو چھوڑا تھا۔ کوچنگ سینٹر، اسکول میں بدل گیا۔ محنت رنگ لائی اور احسان سے محبت بھی۔ ۔ ۔ معیشت بھی جواں ہوئی اور اولاد بھی۔ اب شاید ان کے زخموں کے بھرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ ۔ ۔ یقیناً وہ ماضی کو بھولنا چاہتی تھیں۔ ۔ ۔ اور ماضی سے وابستہ سب لوگوں کو بھی، مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔ وہ جب کبھی پرنسپل روم میں کسی بچے کے ساتھ اس کے والد کو دیکھتیں تو بے اختیار انھیں احسان پر ترس آنے لگتا اور ان کی آنکھوں سے سیلابِ بلا خیز رواں ہو جاتا۔ ۔ ۔ اپنے اباّجی یاد آ جاتے ، جن کے سایے میں نہ سہی قربت میں تو انھوں نے زندگی کے بیس برس گزارے تھے۔
’’پھوپھو۔ ۔ ۔ کیوں کیا میرے ساتھ اس طرح آپ نے ؟ ‘‘
وہ سوچتیں اور پھر بند آنکھوں آنسو اپنے حلق سے سینہ میں اُتارنے لگتیں۔ اور وہ دن کتنا بھاری تھا جب احسان نے پوچھا تھا
’’اماں ! بابا اور آپ کا کوئی رشتہ دار اس دنیا میں زندہ نہیں ہے ؟ ‘‘
’’نہیں بیٹے ! ‘‘
اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ ۔ ۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ اپنے اباّجی کی طرف سے دی گئی گا لیوں پر روئی تھیں۔ ۔ ۔ تب احسان نے بڑھ کر ماں کا ہاتھ تھاما اور پھر اپنی آنکھوں سے لگا لیا
٭٭٭
یہ احسان کی شادی سے چند برس اُدھر کی بات ہے۔ ایک روز وہ عوامی مرکز سے خریداری کر رہی تھیں ، اچانک ان کی نگاہ ایک شخص پر پڑی اور پھر ان کے وجود پر لرزہ طاری ہو گیا۔ جو کچھ منتخب کیا تھا، اسے وہیں چھوڑا اور لجاجت سے کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کو کچھ کہا اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ ۔ ۔ گاڑی کے پہیے اور ہینڈل گھومتے رہے اور ان کا دماغ بھی۔
’’سلیم کے ساتھ نوجوان لڑکی کون ہو سکتی ہے ؟ اس کی نو عمر بیوی ؟ نہیں۔ ۔ ۔ نہیں ، پھر بیٹی ہو گی۔ ‘‘
انھوں نے سوچا۔ ۔ ۔
کئی دن تک وہ اس وجہ سے بیمار رہیں۔ ماضی کی یادیں ان کے ساتھ سایوں کی طرح چمٹ چکی تھیں۔ ۔ ۔ پھر ایک ایک رات کا اُجاڑ پن ان کی روح اور دل کو زخمی کر نے لگا۔ نفرت اور کر اہت سے وہ وقت کاٹتی رہیں۔ ۔ ۔ اور اباّجی، پھوپھو، بہروز، نوروز، وارث ماموں اور سلیم کا نام لے لے کر تھوکتی رہیں
’’تف ایسے رشتوں پر۔ ۔ ۔ حیف میرا اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزرا‘‘
انھوں نے سوچا، مگر
ہونی ، ہوکے رہتی ہے
فرق کچھ نہیں پڑتا
آنسوؤں کے بونے سے
٭٭٭
ایم بی اے کے بعد احسان فارغ تھا۔ جاب کے لیے چند جگہوں پر کوشش کی ، مگر وہ ایسی کوشش نہیں تھی کہ بار آور ثابت ہوتی۔ ۔ ۔ ویسے بھی اسکول کی آمدن اس قدر تھی کہ دونوں ماں بیٹا وقار سے وقت گزار سکتے تھے۔ تب احسان، بانو خاتون کے اسکول میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا اور یہیں اس کی ملاقات عفت سے ہوئی۔ عفت سائنس کی ٹیچر تھی۔ ۔ ۔ اپنے مضمون کے ساتھ پورا انصاف کرتی تھی، اسی سبب سے بانو خاتون بھی اسے پسند کرتی تھیں۔ پھر ایک دن احسان نے ماں کے سامنے اپنے دل کی بات رکھ دی۔ ماں کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اِکو اِک بیٹا اور وہ بھی نازوں پلا۔ ۔ ۔ اور پھر عفت میں بھی کچھ کمی نہیں تھی۔
بانو خاتون کو یاد آیا عفت کی ماں نے دوسری شادی رچا لی تھی اور یہ بے چاری اپنی بیوہ نانی کے پاس رہتی تھی۔ انھیں نے پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا۔ شادی طے ہو گئی۔ نیشنل کر کٹ اسٹیڈیم کے کھلے میدان میں ولیمہ کی دعوت رکھی گئی۔ بانو خاتون کا کون تھا جسے بلاتیں۔ لے دے کے اسکول اسٹاف۔ ۔ ۔ چند سہیلیاں اور احسان کے کچھ دوست۔ عفت کی طرف سے بہت لوگ تھے۔ بانو خاتون کو بتایا گیا کہ عفت کی ماں بھی اپنے شوہر سمیت شادی میں شریک ہو رہی ہیں۔ اِنہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا بھلا۔
نیشنل اسٹڈیم کے صدر دروازے پرب اور دی گارڈ مہمانوں کا استقبال کر تے رہے۔ ان سے چند گز کے فاصلہ پر احسان کے دوست آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے تھے۔ صدر دروازہ اور اس سے نکلنے والی شاہراہ کی دونوں اطراف میں روشنی کے قمقموں نے ایسا سماں باندھا تھا، جیسے ستارے زمین پر اُتر آئے ہوں۔ زرق برق لباس پہنے بوڑھی عورتیں اور جوان لڑکیاں اپنے ہونے کی گواہی دے رہی تھیں۔ طرح طرح کے ذائقوں کی خوشبو نے ماحول پر وجد کی سی کیفیت طاری کر رکھی تھی۔ ۔ ۔ مہمان آتے جاتے اور مخملیں نشستوں پر بیٹھتے جاتے۔ اسٹیج پر دولہا اور دلہن اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ موجود تھے۔ رسمیں شروع ہوئیں ، سلامی دی جانے لگی۔ ۔ ۔ تب ایک شعلہ لپکا اور بانو خاتون کے جسم کو بھسم کر گیا۔
ہاتھوں میں پھول لیے سلیم ان کے سامنے تھا۔ وہ سلیم جس نے ان کی زندگی کانٹوں سے بھر دی تھی اور۔ ۔ ۔ اور اب اس کے ہاتھوں میں پھول تھے۔ عفت کی نانی نے تعارف کراتے ہوئے بتایا
’’یہ سلیم ہیں ، عفت کے سوتیلے باپ‘‘
بانو خاتون کے اندر تباہی آمیز جھکڑ چلنے لگے ، اعتماد کی دیواریں یکایک زمین بوس ہونے لگیں ، یوں لگتا جیسے ان کی دنیا اندھیر ہو جائے گی۔ ۔ ۔ شادی کے سارے منظر ماضی کے زہر میں بجھ گئے۔ چیخیں حلق کے اندر دم توڑنے لگیں۔ ۔ ۔ ایک ایک کر کے اُن ساری را تو ں کا دُکھ ان کی آنکھوں میں اُتر آیا جو انھوں سلیم کے ساتھ کاٹی تھیں۔ اور اُدھرسلیم کے ہاتھ سے گل دستہ گر کر دونوں کے پاؤں چوم رہا تھا
’’بانو خاتون۔ ۔ ۔ تم! ‘‘
سلیم نے کہا تو اسٹیج پر موجود سبھی لوگ چونک کر ان کی جانب دیکھنے لگے۔ عفت کی ماں نے احسان کی اماں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا
’’آپ انھیں جانتی ہیں ؟ ‘‘
تب تک بانو خاتون خود کو سنبھال چکی تھیں۔ انھوں نے وقار اور طمانیت سے کہا
’’جی۔ ۔ ۔ لیکن تفصیلات بعد میں بتاؤں گی‘‘
’’قاضی جی نکاح پڑھوایئے ‘‘
احسان کی اماں نے خوش دلی سے کہا، جیسے کوئی اَن ہونی ہوئی ہی نہیں۔ حالانکہ ان کے دل و دماغ سمیت روح پربھی ایک قیامت گزر چکی تھی۔ جسم کے سمندر میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کو اس انداز سے سہا، جیسے بڑی تباہی کے آنے سے پہلے خود سمندر سہتا ہے۔ ۔ ۔ وہ چاہتیں تو اس شادی کو رکوا سکتی تھیں۔ ۔ ۔ مگر انھوں نے اپنے دکھوں پر بیٹے کی خوشیوں کو قربان نہیں کیا۔
شادی کے ہنگامے ختم ہوئے۔ عفت، بانو خاتون کے نازوں پلے بیٹے کی بیوی بن کر ان کی کوٹھی میں آ چکی تھی۔ شادی کا تیسرا دن تھا۔ ۔ ۔ احسان کے سسرالیوں نے آنا تھا اور اِدھر بانو خاتون کے دماغ کی رگیں چٹخ رہی تھیں۔
’’یقیناً سلیم بھی ان کے ساتھ ہو گا‘‘
انھوں نے نفرت سے سوچا اور پھر ایک طرف تھوک دیا۔ ۔ ۔ مگر اب پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا۔ گئی بات کو تو گھوڑا نہیں پہنچ سکتا، زمانہ کی ستم رسیدہ بانو خاتون کیا کر سکتی تھیں۔ انھوں نے اپنے وجود کو سمیٹا بالکل اُسی طرح جیسے پچیس سال پہلے سلیم کے گھر سے نکلتے ہوئے پوٹلی میں اپنے وجود کی کرچیوں کو باندھا تھا۔ ۔ ۔ ایک وقار سے مہمانوں کا استقبال کر نے لگیں۔ سلیم سر جھکائے، ندامت و پشیمانی کا پہاڑ سر پر اُٹھائے عفت کی ماں کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا۔ کھانے کے دوران سلیم اور بانو خاتون ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے۔ کھانا ختم ہوا تو اچانک عفت کی ماں نے احسان کو مخاطب کر تے ہوئے کہا
’’بیٹا! ہم پرانے رشتہ دار ہیں ‘‘
بانو خاتون نے چونک کر اپنے بیٹے کی ساس اور اپنے سابقہ خاوند کی منکوحہ کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھتی تھیں سلیم ایسی کوئی حرکت نہیں کر ے گا، جس سے بچوں کی زندگی متاثر ہو۔ ۔ ۔ مگر ازل کے خود غرض شخص نے وہی کیا جو اس کی سرشت میں شامل تھا۔
’’امی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ ‘‘
عفت نے اپنی ماں سے پوچھا
’’ٹھیک کہہ رہی ہوں بیٹی، بانو خاتون ، سلیم کے عقد میں رہ چکی ہیں اور احسان ان کا بیٹا ہے۔ ‘‘
بانو خاتون نے چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر اس بات سے انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ احسان اس سانپ کا بیٹا نہیں ہے ، مگر وہ ایسا نہ کر پائیں۔ ۔ ۔ نہ جانے کیوں ؟
تب احسان کی سوالیہ نظریں اپنی ماں کی جانب اٹھیں تو انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا
’’لیکن اماں آپ نے مجھ سے کیوں کہا تھا کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا؟ ‘‘
’’تو پھر کیا بتاتی تمھیں ؟ ‘‘
یہ لفظ اماں کی زبان سے نکلے ہی تھے کہ ان کے چہرے پر موجود کچھ شکنیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس چہرے پر جو وقت سے پہلے بڑھاپے کی چادر اوڑھ چکا تھا۔
’’مگر اماں اتنی بڑی بات آپ نے مجھ سے آج تک چھپائے رکھی‘‘
احسان نے قریباً روتے ہوئے کہا۔
’’کیسے بتاتی کہ تمھارے باپ نے مجھے کبھی بیوی سمجھا ہی نہیں تھا، کیسے بتاتی کہ میں تین ماہ نُچتی رہی اور پھر نوچنے والے نے مجھے گھر سے نکال کر گلی میں پھینک دیا۔ ‘‘
انھوں نے سوچا
ندامت اور تاسف سے ہاتھ ملتے ہوئے سلیم کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور وہ صرف اتنا کہہ پایا
’’بانو خاتون مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔ احسان میں تمھارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں ‘‘
بانو خاتون نے نفرت سے زمین پر تھوکا اور وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئیں۔ ۔ ۔ انھیں ایک ایک رات اور اُن سے وابستہ دکھ یاد آتے رہے۔ دل کے سمندر میں اُٹھنے والی خاموش موجوں نے طوفان کھڑا کر دیا۔ وہ روتی رہیں ، دل کا لہو جلاتی رہیں۔ انھیں دیکھنے کوئی نہ آیا۔ صبح جب وہ اُٹھیں تو ان کی طبیعت بوجھل تھی۔ ۔ ۔ مگر پھر بھی ناشتے کی میز تک آ گئیں
’’ماسی کیا بہو نہیں اُٹھیں ؟ ‘‘
’’بیگم صاحبہ چھوٹی بیگم اور صاحب تو رات کوہی مہمانوں کے ساتھ چلے گئے تھے ‘‘
دکھ کا ایک پہاڑ آسمان سے گرا جس کے بوجھ تلے بانو خاتون دب گئیں۔ ۔ ۔
’’واہ احسان وا! خوب میری محنتوں اور محبتوں کا صلہ دیا تو نے ‘‘
انھوں نے سوچا اور ماسی سے کہا
’’میں کمرے میں جا رہی ہوں ، میرے لیے کچھ مت لانا‘‘
اور پھر اپنے کمرے میں چلی آئیں۔
’’سانپ کا بیٹا سانپ ہی ہوتا ہے ‘‘وہ بڑبڑائیں۔ ۔ ۔ ’’محنت اور محبت‘‘
یہ دو لفظ ان کے لبوں سے پھسلے۔ ۔ ۔
’’بیگم صاحبہ جی! کچھ کھا پی لیں ، آپ رات کو بھی ایسے ہی سو گئی تھیں ‘‘
ماسی نے کہا تو بانو خاتون نے چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر اس عورت کو بتائیں وہ رات کو سوئی کہاں تھیں ، وہ تو شب بھر پل صراط سے گزرتی رہیں۔ پھر انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’اچھا چلو! جوس کا گلاس یہاں رکھ دو، میں پی لوں گی‘‘
ماسی نے بیڈ کے ساتھ داہنی طرف پڑی ہوئی میز پر گلاس رکھا اور باہر چلی گئی۔
’’ماسی پھر اچھی ہے ، اسے میرا خیال تو ہے۔ احسان جس پر میں نے زندگی لٹا دی یوں پل بھر میں سارے رشتے توڑ کر چلا گیا۔ ۔ ۔ اور اباّجی جن کی محبتوں کے لیے ہمیشہ ترستی رہی۔ ۔ ۔ اور پھوپھو جن کے لیے میں نے اپنے معصوم ہاتھ جلا کر روٹیاں پکائیں۔ ۔ ۔ اور بہروز بھائی جن کے نہانے تک کا پانی میں نے بھرا۔ ۔ ۔ اور نوروز۔ ۔ ۔ (گھن آتی ہے اسے بھائی کہتے ہوئے) اس کے لیے کوئلے دہکا دہکا کر کپڑے استری کیے۔ ۔ ۔ اور سلیم۔ ۔ ۔ جو تین ماہ صرف اپنی ہوس مٹاتا رہا۔
اوہ۔ ۔ ۔ خدایا! میں کس عذاب سے گزر رہی ہوں۔ اب تو ان دکھوں کی اخیر کر دے۔ ‘‘
انھوں نے خود کلامی کی۔ ۔ ۔
پھر انھوں نے اپنے محنت آشنا ہاتھوں کو پیالہ بنا کر آنکھ سے نکلنے والے موتیوں کو ان میں بھر لیا۔ ماسی دوبارہ آئی تو جوس کا گلاس وہیں رکھا تھا۔ ۔ ۔ اور بانو خاتون کا چہرہ ہتھیلیوں کے پردے میں تھا۔
ان کے لیے وقت ایک بار پھر تھم چکا تھا۔ ۔ ۔ یا پھر ماضی کی طرح پتھروں کی چٹان تلے آ چکا تھا۔ وہ ان واقعات کو بھولنا چاہتی تھیں ، مگر یہ ممکن نہ تھا
دوست ، کہاں ہیں دوست
نیلے خون کی خوشبو نے
راز اُگل ڈالے
لوگوں نے تو سنا تھا۔ ۔ ۔ مگر بانو خاتون مارِ آستین سے ڈسی گئیں ، ڈسی جاتی رہیں۔
اب احسان اپنے باپ کے ساتھ رہ رہا ہے۔ اماں نے حصہ میں اسے اسکول لکھ دیا ہے۔ کبھی کبھار وہ اپنی بیوی اور بچوں رامش اور دانش کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے یہاں چلا آتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن اب کی بار تو نہیں آئے وہ لوگ۔ ۔ ۔ اماں کی بیماری پربھی نہیں۔ ماسی نے تو یہی بتایا تھا کہ احسان اور بہو کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ ۔ ۔ اور بیگم ضرار بتا رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’اُف اللہ۔ ۔ ۔ یہ میرے ساتھ کیا ہوا؟ ‘‘
بانو خاتون نے سوچا۔
٭٭٭
ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوتا ہے
’’بیگم صاحبہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ ‘‘
’’بہتر ہوں ، ڈاکٹر صاحب‘‘
بانو خاتون کی آواز دُور کسی وادی سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
٭٭٭
وہ بوڑھے مالی اور ماسی کے ساتھ گھر لوٹ چکی ہیں۔ کوٹھی کے چاروں اور پھیلے ہوئے سبزے سے ہوا اٹھکھیلیاں کر رہی ہے۔ ریاض پودوں کو پانی دے رہا ہے اور پودوں سے جدا ہو جانے والے پتوں کو اُٹھا کر ہتھ ریڑھی میں ڈال رہا ہے۔ بانو خاتون ادبی رسالے کا نیا شمارہ جھولی میں رکھے مطالعہ کر رہی ہیں۔ دفعتاً اُٹھتی ہیں اور بے چینی سے زمرد سار گھاس کے فرش پر ننگے پاؤں چلتی ہیں اور بے تابی کے ساتھ ریاض کو پکارتی ہیں
’’ریاض۔ ۔ ۔ اِدھر تو آنا‘‘
’’جی بیگم صاحبہ‘‘
کہہ کر بوڑھا مالی اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا چلا آتا ہے
’’ریاض! تمھیں کتنے مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی؟ ‘‘
٭٭٭