نیلا آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ۔تیز ہوا سے اونچے’لمبے’گھنے درختوں کی ڈالیاں سرشاری سے جھومتی تھیں۔اندھیرا آہستہ’آہستہ پھیلنے لگا تھا۔ایک بےنام سی خاموشی جس میں دور سے آتی کہیں چیل کی آواز خلل ڈالتی تھی’چھائی ہوئی تھی۔
یونیورسٹی کی بل کھاتی سیاہ سڑک اس وقت سنسان پڑی تھی اور اسی سڑک کے کونے پہ برگد کا بوڑھا ‘گھنا سا پیڑ تھا،جس کا سایہ سڑک پہ چھایا ہوا محسوس ہوتا تھا۔گھنی شاخوں کے درمیان روشنی کا کوئی راستہ نہیں دکھتا تھا پھر بھی ایک عجیب سی ویرانی بوڑھے برگد پہ چھائی رہتی تھی۔بوڑھے برگد کے توانا تنے پہ کہیں’کہیں سیاہ اور سرخ باریک دھاگے بندھے ہوئے تھے جو قریب جانے پہ ہی دکھائی دیتے تھے۔اسی پیڑ کے سائے میں اس وقت دو لڑکیاں کھڑی تھیں۔
“اُف! بس اب مجھ سے اور نہیں چلا جارہا۔”پنک اسکارف والی نزاکت سے بولی۔
وہ دونوں کافی دیر سے پیدل چلتی ہوئی آرہی تھیں۔
“تھوڑی ہی دور ہے آرٹس لابی۔تھوڑا سا اور روشنی۔”دوسری لڑکی نے اصرار کیا۔
“نو وے! تم جاؤ نادیہ ،میں یہیں ہوں۔”روشنی نے صاف انکار کیا۔
“اچھا! پھر یہیں کھڑی رہنا میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔”نادیہ اسے تاکید کرتی ہوئی چلی گئی۔
روشنی نے درخت کے سائے میں بیٹھ کے پرس سے مرر نکال کے خود کو دیکھا۔مٹتے ہوئے کاجل کو ڈارک کیا اور لائنر کو تیز،اسکارف کی پنز کو دوبارہ سے فکس کیا آخر میں فراخ دلی سے خود پہ پرفیوم کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے وہ نادیہ کا انتظار کرنے لگی۔
اور!
اوپر کہیں شاخوں کے درمیان حرکت ہوئی،شاخیں کچھ خوفزدگی سے سمٹی تھیں اس حرکت پہ۔
“اُف! کب آؤگی؟”روشنی نے آسمان کو دیکھتے ہوئے سوچا اور وقت گزاری کیلئے نظریں یونہی برگد کے پیڑ پہ ٹکائی تھیں۔
ایک پل کیلئے روشنی کو بڑا عجیب سا لگا جیسے اس نے چمکتی ہوئی آنکھوں کو دیکھا ہو۔
وہ اپنا وہم خیال کرتے ہوئے سر جھٹک کے رہ گئی۔
لیکن!
دوسرا لمحہ ‘پہلے سے زیادہ بھاری ثابت ہوا تھا۔
ایک چمکتا ہوا سرخ گلاب برگد کے پیڑ سے سیدھا اسکی گود میں گرا تھا۔
روشی بدحواسی سے کھڑی ہوئی تھی۔
“یہ!”اسکے حلق سے ایک گھٹی’گھٹی چیخ نکلی۔
اسی پل تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور گلاب کے پھول سے پھوٹتی مسحور کن مہک روشنی کی سانسیں معطر کرگئی اور پھول ہاتھ میں تھما گئی۔
“کک! کون ہے وہاں؟”روشنی نے ہمت کرکے پوچھا لیکن جواب میں صرف ایک شاخ زور سے ہلی۔
روشی کے ہاتھ سے پھول چھوٹ کے نیچے جاگرا۔
پیچھے سے جیسے کسی نے ایک دم روشنی کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ زور سے چلائی تھی۔
سناٹے میں اسکی چیخ دور تک گونجی۔
نادیہ دوڑتی ہوئی اس تک آئی تھی۔
“روشنی کیا ہوا؟”
“یہ!”روشنی کی نگاہیں زمین پہ گڑی تھیں۔
نادیہ نےاسکی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔
سیاہ سڑک پہ چمکتا لال گلاب!
“کس نے دیا ہے تمہیں ؟”نادیہ نے حیرت سے پوچھا۔
روشنی پھٹی پھٹی نگاہوں سے درخت کو دیکھے گئی۔
“تم سے پوچھ رہی ہوں روشنی۔”نادیہ نے دوبارہ پوچھا۔
“یہ وہاں سے آیا ہے۔”روشنی نے بمشکل ہمت کی بتانے کی۔
“تم مجھ سے مذاق کررہی ہو۔”نادیہ کو یہی لگا۔
“سچ میں یہ اوپر سے آیا ہے’پتا نہیں کیسے؟میں تو یہاں بیٹھی تھی۔”روشنی کانپتی ہوئے لہجے میں بولی۔
“کسی نے شرارت کی ہوگی۔چلو چلیں اندھیرا ہورہا ہے ویسے بھی۔”نادیہ نے بہادری دکھاتے ہوئے کہا حالانکہ اندر سے وہ خود بھی ڈر گئی تھی۔
“یہاں کوئی نہیں تھا۔”روشنی نے”کسی”کے وجود کو ماننے سے انکار کیا۔
“اچھا! چلو تو سہی۔”نادیہ اسے لے کے آگے بڑھ گئی۔
سرخ گلاب وہیں رہ گیا تھا۔اوپر شاخوں میں ایک بار پھر ہلچل ہوئی تھی۔
اندھیرا مزید بڑھنے لگا تھا۔
روشنی کو یوں لگ رہا تھا جیسے دائیں جانب اسکے ساتھ کوئی چل رہا ہو۔
وہ دھیان بٹانے کو نادیہ سے آج کا پیپر ڈسکس کرنے لگی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
“روشنی! کھانا کھا لو بیٹا۔”مما نے ٹیبل پہ کھانا رکھتے ہوئے کہا۔
“بھوک نہیں ہے مما۔”وہ کھڑکی کے پاس کھڑی بےتوجہی سے بولی۔نظریں سامنے نیم کے پیڑ پہ جمی تھیں۔
“کیوں؟پیپر تو ٹھیک ہوا نا۔”مما نے فکر مندی سے پوچھا۔
روشنی فائنل ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی اور آج کل اسکے تھرڈ سیمسٹر کے ایگزامز ہورہے تھے جو رول کے حساب سے دوپہر کی شفٹ میں ہوتے تھے۔
“جی! اچھا ہوا۔”روشنی نے مختصر جواب دیا تھا۔
گھر آتے ‘آتے مغرب کا وقت ہو ہی جاتا تھا سو روشی کھانا دادی کے ساتھ ہی کھاتی تھی۔
“چلو! پھر کھانا کھاؤ ،دادو انتظار کررہی ہوں گی۔”مما نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے میز کی جانب لے جانا چاہا۔
“سُنا نہیں بڑھیا! وہ نہیں جانا چاہتی۔”کوئی تیز’باریک آواز روشنی کے پاس سے ابھری لیکن مما کو روشنی کے ہلتے لب نہیں دکھائی دئیے تھے۔
وہ ویسے ہی ساکت کھڑی تھی۔
“روشی!”انہوں نے تھوک نگلتے ہوئے اسے پکارا۔
روشنی کی پشت پہ کھڑکی کا پٹ زور دار آواز کے ساتھ بند ہوا تھا۔بلی “میاؤں”کی تیز آواز نکالتی ہوئی باہر بھاگی تھی۔
“سلطانہ! روشنی کہاں ہے؟”دادی خود ہی چل کے آگئی تھیں۔
“میں یہاں ہوں دادی۔”روشنی معمول کی طرح کہتی ہوئی انکی جانب بڑھی۔
پیچھے سلطانہ بیگم حیران’پریشان سی کھڑی رہ گئی تھیں۔
وہ آواز انکے ذہن میں اٹک گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
رات دو بجے کا عمل تھا۔حبس کی وجہ سے سانس لینا بھی محال ہوتا تھا،آسمان پہ پھیکا’پھیکا سا پیلا چاند تھا اور تارے بےرونق سے دکھائی دیتے تھے۔
مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا اور اس سناٹے میں کبھی کبھی کہیں دور سے کتوں کے رونے کی آواز آتی تھی اور بلی بےچین سی ہو کے نیم کے پیڑ کو گھورتے ہوئے “میاؤں!”کئے جاتی تھی۔
روشنی نے نیند میں کروٹ لی تو آنکھیں کسی نامانوس احساس کے زیر اثر کھلی تھیں۔
روشنی کو یوں لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔وہ اٹھ کے بیٹھ گئی۔
بہت عجیب سا کوئی احساس تھا جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکی۔جیسے سامنے بیٹھا کوئی گھور رہا ہو’یہ احساس اتنا طاقتور تھا کہ روشنی کو ان نگاہوں کی تپش سے وجود جھلسا ہوا محسوس ہوا۔
بیڈ کے سامنے کی دیوار کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی جب کہ روشنی کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ کھڑکی بند کرکے سوئی ہے۔
“یہ کیا ہورہا ہے؟شاید میں ٹینشن زیادہ لے رہی ہوں،اس لئے بھول رہی ہوں۔”اسے یہی لگا تھا۔
پیشانی کو بائیں ہاتھ سے دباتے ہوئے وہ بیڈ سے اتری تو نگاہیں سائیڈ ٹیبل پہ جا ٹکی تھیں۔
نیم اندھیرے میں چمکتا سرخ گلاب واضح تھا اور اسکی خوشبو پورے کمرے میں چکراتی پھرتی تھی۔
کھڑکی کا پردہ ہوا کے زور سے لہرایا’یوں جیسے کوئی پردہ اٹھاتے ہوئے باہر نکلا تھا۔
“امی!”روشنی چیختے ہوئے کمرے سے باہر نکلی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں گھر کے تمام افراد روشنی کے گرد جمع تھے۔
٭٭٭٭٭٭
“روشی! کیا ہوا ہے بیٹی؟”دادی پوچھ رہی تھیں۔
“وہ پھول۔۔۔”روشنی نے اپنے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“پھول! کیسا پھول بیٹا؟”ابا نے حیرت سے پوچھا۔
“وہ وہاں میرے کمرے میں،وہ یونی میں بھی تھا ابا۔”روشنی کے منہ سے بےترتیب جملے نکل رہے تھے۔
“پھول! کیا ہوگیا ہے روشنی؟”بڑے بھیا کچھ جھنجھلا کے بولے۔
“صارم جاؤ جا کے دیکھو وہاں کیا ہے۔”دادی نے ہدایت کی۔
بھیا سر ہلاتے ہوئے اسکے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
جبکہ دادی روشنی کو اپنے پاس بٹھا کے کچھ پڑھنے لگیں۔
“کچھ نہیں دادو وہاں۔پڑھ’پڑھ کے اسکا دماغ زیادہ چل گیا ہے۔”صارم بھائی تھوڑی ہی دیر میں واپس لوٹے تھے۔
“وہ! بیڈ کے پاس۔”روشنی نےتھوک نگلتے ہوئے کہا۔
“کچھ نہیں ہے بھئی۔”صارم بھائی نے زور دار نفی کی۔
روشنی لب کاٹ کے رہ گئی۔
“روشی! تم میرے کمرے میں چل کے سوجاؤ۔صبح بات کریں گے۔”دادو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
سلطانہ بیگم نے انہیں وہ آواز والا قصہ بتانا چاہا ہی تھا کہ انکی کانوں میں ایک بار پھر وہی باریک’چبھتی ہوئی آواز گونجی۔
“خبردار! جو منہ کھولا ۔نہیں تو ساری زندگی کیلئے گونگی۔”
سلطانہ بیگم کو لگا کہ انکی زبان تالو سے ہی چپک کے رہ گئی ہے۔
وہ بےبسی سے روشی کو دادی کے ساتھ جاتا دیکھتی رہیں۔
٭٭٭٭٭٭
اگلے دن روشنی کی آنکھ دادو کے جگانے سے ہی کھلی تھی۔
“روشی! اٹھو بیٹا نماز کا وقت نکلا جارہا ہے۔”
“جی!”روشنی نے جھٹ آنکھیں کھولتے ہوئے انہیں دیکھا۔
دادو اسکی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کے عجیب سے احساس کا شکار ہوئی تھیں۔
“جاؤ بیٹا! وضو کرلو۔”انہوں نے سنبھلتے ہوئے کہا تو روشنی سر ہلاتے ہوئے چلی گئی۔
پیچھے دادو کچھ سوچ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭
وہ سنک کے آگے کھڑی وضو کررہی تھی۔منہ دھونے کے بعد اس نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو کسی اور ہی روشنی سے ملاقات ہوئی تھی۔
زرد رنگت اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے!
ایک ہی رات میں اسکی دنیا بدل گئی تھی۔
روشنی نے سوچتے ہوئے بازو کے اوپر سے آستین ہٹائی اور اسکے لبوں سے ایک دبی دبی چیخ نکلی تھی۔
بازو پہ جگہ’جگہ نیلے نشان تھے۔
روشنی نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے آئینے میں خود کو ایک بار پھر دیکھا اور اس بار روشنی کو اپنی آواز پہ قابو نہ رہا تھا۔
اسکے بالوں میں دائیں کان کے پاس چمکتا ہوا سرخ گلاب آئینے میں دکھائی دے رہا تھا۔
“روشی! دروازہ کھولو بیٹا۔”
دادو باہر سے کہہ رہی تھیں۔
روشنی نے آگے بڑھ کے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی لیکن کسی نے جیسے قدموں میں زنجیر ڈال دی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...