’’چھن چھن۔‘‘
آواز نے کانوں کو چور چور کر دیا جیسے اس کے سامنے اس کی نازو نے سرخ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دونوں ہاتھ دہلیز پر پٹخ دیے ہوں۔ دونوں سفید تندرست کلائیاں خون کی چھوٹی چھوٹی مہین لکیروں سے لالوں لال ہو گئیں۔ کتنی شدت سے جی چاہا تھا کہ اس جیتے جاگتے خون پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ آج پھر اس کی زبان نمکین ہو گئی۔ آنکھیں چیخ پڑیں۔ دونوں زخمی کلائیاں دو بچوں کی لاشوں کی طرح اس کے پہلو میں جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے۔ دھاروں دھار ہونٹ کانپ رہے تھے۔ عذابوں کی بد دعائیں دے رہے تھے۔ اسے یقین نہ آ رہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے، اس کی وہی بیوی ہے جس کی بے مزہ قربت کی چکی میں سیکڑوں راتیں پس کر نابود ہو گئیں۔ طلاق کی چلمن کے پیچھے سے وہ کتنی پراسرار اور زرنگار لگ رہی تھی۔
ٹریکٹر پھر چلنے لگا۔ تھوڑا سا کھیت باقی رہ گیا تھا۔ گیہوں کی پوری فصل کٹی پڑی تھی۔ کہیں کہیں بڑے انبار لگے تھے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ جیسے بیتے ہوئے سال اور مہینے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو اپنی چھڑی سے الٹ دیا، سنہرے تنکوں اور ڈنٹھلوں کے ہجوم سے کچھ دانے نکل آئے، زندہ چمک دار جیسے گزرے دنوں کے ان گنت لمحوں کے بھوسے میں کچھ یادیں چمک رہی ہوں۔۔۔ یادیں ہماری بوئی ہوئی فصلوں کے دانے۔ ابھی نہ دھوپ تیز ہوئی تھی اور نہ ہوا گرم۔ لیکن وہ اپنے ادھیڑ جسم کے ساتھ ٹیوب ویل کے پانی سے لبریز پختہ نالی کے کنارے کنارے چلتا ہوا ڈامر کی سڑک پر آ گیا۔
اب انجمنوں کی آوازیں دور اور دلکش ہونے لگی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف اسکولوں کی زرد عمارتوں میں امتحانوں کے پڑاؤ پڑے تھے اور شرارتوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں کھو گئی تھیں۔ بلاک کے دفتر پر بھیڑ لگی تھی۔ تقاوی اور بیسارے کے کاغذات بن رہے تھے۔ اب وہ بھیڑ سے ڈرنے لگا تھا۔ ان کی بے ادب نظروں سے کچلے جانے کے خوف نے اسے ایک گلی میں موڑ دیا، جو کھری اور شاداب آوازوں سے چھلک رہی تھی۔ شور مچاتے زیوروں اور بھڑکدار کپڑوں سے چمک رہی تھی اور ان سب میں شرابور ہوتا اپنے مکان تک گیا جو اس کے آبائی مکان کا حصہ تھا۔ دوسرے حصوں میں ہسپتال، ڈاک خانہ اور گورنمنٹ اسٹور تھا۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ ہسپتال میں انتظار کرتے مریضوں میں سے کوئی جان پہچان والا وقت گزارنے اس کے پاس نہ آ جائے۔
پورا گھر جیسے بھونسلے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ اس نے لانبے پتلے کمرے میں داخل ہو کر پنکھے کا سوئچ آن کیا جو وہاں اجنبی لگ رہا تھا۔ دروازے پر کسی نے آواز دی، ’’مہردین۔‘‘
اور جب نازو طلاق کے کفن میں لپٹی ہوئی زخمی کلائیوں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے رخصت ہونے کے ادھے میں سوار ہوئی تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے اس کے قریب گیا، ’’میں تمہارا تمہارے بھائی کو ادا کر دوں گا۔‘‘ جواب ملا، ’’وہ اپنی ہونے والی کو میری طرف سے منہ دکھائی میں دے دیجیے گا۔‘‘ ایک سناٹا سا چھا گیا۔ وجود کے اندر سے باہر تک سب کچھ سنسان ہو گیا۔ نئی دلہن کے خواب میں بال تو اسی وقت پڑ گیا تھا جب اس نے نازو کو آنسوؤں میں نہاتے ہوئے دیکھا تھا، اس جملے سے چٹخ گیا تھا اور جب اس کی اچانک موت کی اطلاع آئی تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
آج پھر دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا لیا۔ نازو کے جہیز کی اونچی مسہری کے تکیے کا سہارا لے کر بیٹھ گیا کہ کہیں گر نہ پڑوں اور جب ہاتھ ہٹایا تو بائیں کان کا در دامن میں پڑا تھا۔ سونے کے در میں بیضاوی موتی دمک رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہا اور داہنا ہاتھ ہمیشہ کی طرح داہنے کان پر لرزتا رہا۔ اس لو میں بھی سوراخ تھا اور اس میں بھی بائیں کان کی طرح در چمکا کرتا تھا۔ جس رات وہ کھو گیا تھا۔ کان کی لو کا سوراخ دل میں منتقل ہو گیا۔ ماں نے منت کے ذر اس لیے پہنائے تھے کہ بیٹے نہ جیتے تھے۔ بچپن لڑکیوں کی طرح برتا گیا۔ دوپٹے اوڑھائے گئے۔ گھروندے بنائے گئے۔ ہنڈ کلیاں بنائی گئیں۔ گڑیوں کی شادی رچائی گئیں۔ اور سب کچھ تو بھول گیا، چھوٹ گیا، لیکن کانوں کے در شخصیت کا حصہ بن گئے۔ خدوخال کی طرح وجود میں شامل ہو گئے۔ وہ نوجوانی میں بھی شوق سے پہنتا رہا۔ پھر دروازے پر شور سا مچ گیا۔ باورچی خانے سے بوڑھی عورت نے کوے کی طرح کون کون کی رٹ لگا دی۔۔۔ وہ اطمینان سے سوچنے کے لیے خود باہر نکلا۔ دروازے پر مندر کھڑی تھی۔ ادھیڑ عمر کی گوری چٹی مندر! جس کی جوان رانوں میں انہوں نے اپنے بوسوں کے چراغ جلائے تھے۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’میاں! آج برات آئے رہی ہے آپ کی بیٹوا کی۔‘‘
’’ہاں ہاں پھر۔‘‘
’’سب انتجام آپ کے ری دعا سے پکا ہے۔۔۔ مل مسند نائن مل رہی ہے۔‘‘
’’مسند ہے تو۔۔۔ لیکن معلوم نہیں کہاں ہے۔ جب وہ گئیں نہ ضرورت پڑی نہ تلاش کی گئی۔ تم باہر سے کسی کو بھیجو میں ڈھونڈوا دوں۔‘‘ مندر کے جانے کے بعد اس کے تصور نے فراغت کا سانس لیا۔
برنا پور کی شادی تھی اور اس کی نوجوانی۔ باپ کی موت کے بعد پہلی بار کسی تقریب میں شرکت کو نکلا تھا۔ آدھی رات کو کھانا ہوا۔ اور پچھیارے سے دولہا اندر آیا۔ تلچوری چلی اور ہنگامہ ہوا۔ بوڑھی بوڑھی کٹکھنی عورتیں جو بولتے جلووں پر بھی کاڑھے بیٹھی تھیں ایک ہی ریلے میں بہہ گئیں۔ روشنیاں جو دن رہے سے جل رہی تھیں اب سونے لگی تھیں۔ یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی عمارت کے کئی حصے تاریک ہو چکے تھے۔ وہ کوئی چیز لینے اپنے کمرے میں آیا جو اندرونی اور بیرونی عمارتوں کے درمیان دوہرے دالانوں میں چھپا کھڑا تھا۔ وہ دیا سلائی کی روشنی میں لیمپ ڈھونڈ رہا تھا کہ اندرونی عمارت کی صحنچی میں ایک چہرہ چمک اٹھا اور اس طرح کہ دیا سلائی نے اسے جلا دیا۔ وہ اتنا روشن تھا کہ اگر تھوڑا سا اور قریب آ جاتا تو اس کے اپنے کمرے میں روشنی کی ضرورت نہ رہتی۔ وہ اسی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ جیسے جادو کے زور سے کھنچا ہوا چلا گیا۔ گھاس کے تختوں پر ڈھیر سامان سے بچتا ہوا صحنچی کے سامنے دالان کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔
’’میاں سامنے والی کوٹھری میں تو مسند ہے نہیں۔ کاجی جی صاحب کا بڑا بکس کھولیں؟‘‘
’’ہاں‘‘
صحنچی اس کے نور سے سنگ مرمر کی بن گئی تھی۔۔۔ سانس پھولنے لگا تھا۔ پہلوؤں میں درد کے نشتر اتر گئے۔ اریبی پائجامے کی چوڑیاں پسینے سے بھر گئیں کہ ایک آواز طلوع ہوئی۔
’’آپ؟‘‘
اور جیسے ہی وہ آگے بڑھا۔ روشنی، نور اور رنگ کا ایک پیکر، ایک ہیولیٰ اس سے ٹکرا گیا، اس پر بکھر گیا۔ داہنے کان پر کنول کا تازہ پھول لرز گیا اور اس کا کان اس کے سینے کی طرح خالی ہو گیا اور وہ ایک چھلاوے کی طرح اس کی بانہوں سے نکل گئی اور جب وہ جاگتی آنکھوں کے خواب سے بیدار ہوا تو کمرے میں سپاہی لیمپ جلا رہا تھا۔
’’میاں آپ کے داہنے کان کا در۔‘‘
پھر بہت سی روشنیاں صحنچی دالان اور صحن میں در ڈھونڈتی پھریں اور بہت دنوں بعد کسی بنت عم نے اس کے حال پر ترس کھا کر بتلا دیا کہ دیبی پور کی بٹیا نازو سے بیاہ کر لیا۔ لیکن دیبی پور کی بٹیا نازو نے دلہن بن کر ساری ساری تفتیش کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ میں نے تو وہ صحنچی دیکھی بھی نہیں اور اسی گھڑی نازو اس کی نگاہ سے گر گئی۔ خواب جتنا سنگین ہوتا گیا، زندہ موجود اور معصوم نازو کی حقیقت اتنی ہی پگھلتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ آسودگی اور فراغت سے خواب دیکھنے کی آرزو اور تعبیر کو دوبارہ پا لینے کی جستجو میں نازو کو طلاق دے دی گئی۔
’’میاں! بکس کھل گیا۔‘‘ میاں چونک کر اٹھے اور خواب میں چلنے لگے۔ لکڑی کا بڑا سا مٹیالا بکس کھلا پڑا تھا، ’’اسے کیوں کھول دیا کمبختوں؟‘‘
’’جی؟‘‘
’’اب کھول ڈالا ہے تو ڈھونڈو۔‘‘
جازم، پردے، توشک، لحاف، رضائیاں اور دوشالے نکل نکل کر پھیل گئے، مگر مسند نہ ملی۔ پھر ایک چھوٹا سا صندوقچہ نکلا جس میں بڑا سا تالا پڑا تھا۔ سامان رکھوا کر وہ اپنے کمرے میں آ گئے۔ صندوقچہ کھولا تو چاندی کے چھوٹے چھوٹے زیور کنمنا کر جاگ اٹھے۔ گڑیوں کے ننھے منے کپڑے جگر جگر کرنے لگے۔ سونے کی ٹوٹی ہوئی بالیاں ملیں، جن میں ایک سیس پھول پھنسا ہوا تھا۔ معلوم نہیں کتنے دنوں بعد وہ پہلی بار تنہائی میں مسکرایا۔ نازو اور حسین اور قاتل ہو گئی۔ پھر چور خانے سے سونے کا ایک در برآمد ہوا۔ جس میں بیضوی موتی پڑا تھا۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا۔ وہ اگر کھڑے ہوتے تو گر پڑتے۔ سنبھل کر بیٹھے تو ہاتھ نے کان سے در کھینچ لیا اور اس طرح کہ سارے میں ننھے ننھے خون کے نگینے جڑ گئے۔ وہ دونوں کو ایک ہتھیلی پر رکھے دیکھتے رہے، دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ سن ہو گئے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...