(Last Updated On: )
پونے کا نام آتے ہی دو لفظ ذہن میں ابھرتے ہیں۔ایک اردو ’’ماہنامہ اسباق‘‘اور دوسرا اس کے مدیر اعلی جناب نذیر فتح پوری۔نذیر فتح پوری صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔وہ بیک وقت کئی خصوصیات کے حامل ہیں۔صحافی،ڈرامہ نگار،افسانہ نگار، اور شاعر ہوتے ہوئے وہ ایک دوست نواز ،ادب نواز اور دل نواز شخصیت کے مالک ہیں۔’’لمحوں کا سفر ‘‘اس پر عزم اور منحصّص شخصیت کا مجموعہ کلام ہے۔کسی شاعر کا اصلی تعارف اس کی شاعری ہوتی ہے ۔جو در حقیقت خود شاعر کی باطنی کیفیات کا آئینہ ہوتی ہے۔جس میں شاعر کے تمام خد و خال صاف طو ر پر نمایاں ہوتے ہیں۔خود نذیر صاحب نے فرمایا ہے ؎
پونے کا نام آتے ہی دو لفظ ذہن میں ابھرتے ہیں۔ایک اردو ’’ماہنامہ اسباق‘‘اور دوسرا اس کے مدیر اعلی جناب نذیر فتح پوری۔نذیر فتح پوری صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔وہ بیک وقت کئی خصوصیات کے حامل ہیں۔صحافی،ڈرامہ نگار،افسانہ نگار، اور شاعر ہوتے ہوئے وہ ایک دوست نواز ،ادب نواز اور دل نواز شخصیت کے مالک ہیں۔’’لمحوں کا سفر ‘‘اس پر عزم اور منحصّص شخصیت کا مجموعہ کلام ہے۔کسی شاعر کا اصلی تعارف اس کی شاعری ہوتی ہے ۔جو در حقیقت خود شاعر کی باطنی کیفیات کا آئینہ ہوتی ہے۔جس میں شاعر کے تمام خد و خال صاف طو ر پر نمایاں ہوتے ہیں۔خود نذیر صاحب نے فرمایا ہے ؎
لوگ توجیہ بھی کرتے ہیں تو کہتا ہے نذیرؔ
ہیں میرے شعر مری ذات کے مظہر یارو
نذیر ؔصاحب بنیادی طور پر غزل گو ہیں۔ان کے اشعار بلندی خیال،شکوہ الفاظ،جوش بیان اور ندرت ادا کا ایک خوبصورت مرقع ہیں۔ان کی شاعری ایک حساس شاعر کے دل کی صدائے بازگشت ہے۔ان کے اشعار اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ انہیں زبان و بیان پر کتنی قدرت حاصل ہے۔طرز تحریر میں شگفتگی اور سلاست ہے۔جذبات کی عکاسی،اسلوب کی دلکشی،زندگی کی بدلتی ہوئی کیفیات کی ترجمانی،تراکیب کی ندرت،تجربے کی گہرائی اور ہلکے پھلکے مانوس الفاظ نے ان کے اشعار میں ایک ایسی عجیب دلکشی پیدا کر دی ہے کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ملاحظہ فرمائیے ؎
بجھ گیا دن تو چراغ مہہ و اختر جاگے
رات آئی تو اجالوں کے پیمبر جاگے
خود کو پتھر بنا لیا ہم نے
تیرے دل کا جواب ہیں ہم لوگ
سنا گئے ہیں اشاروں میں داستانِ حیات
جو بے زباں تھے وہ اہل زبان کتنے تھے
میں کٹ چکا ہوں ترے ہاتھ کی لکیروں سے
میرے عزیز!مکرر مجھے تلاش نہ کر
نقش یادوں کا تیری اتنا ہے گہرا اب تک
دل کے شیشے میں کوئی عکس نہ ٹھہرا اب تک
حروف اور معانی پر حرف آتا ہے
یہ کہہ کے اس نے ورق سے مٹا دیا مجھ کو
مجھ کو نہ پڑھ کتاب کے مانند اے نذیرؔ
میں حرف حرف تیری سمجھ میں نہ آؤں گا
ڈھونڈا کرے گا مجھ کو میرے بعد ہر کوئی
آئندہ نسل کو یہ سزا دے کے جاؤں گا
اُس طرف سے پھول برسے تھے مگر
اس طرف آئے تو پتھر ہوگئے
رہاوہ دور تو موجِ سراب جیسا تھا
نظر سے چھو، کے جو دیکھا تو آب جیسا تھا
(واہ)
زمین میری تھی اور آسمان میرا تھا
یہ کل کی بات ہے سارا جہان میرا تھا
(سبحان اللہ)
جناب نذیر فتح پوری کے ان اشعار سے ان کے کلام کی معنوی لطافت ریزیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ان کے اشعار پر ان کے حسن تخیل اور حسن تخلیق کی گہری چھاپ ہے۔ان کے کلام سے ان کی شاعرانہ بصیرت اور طرز نگارش سے ان کے وسیع و بسیط مطالعہ کا پتہ چلتا ہے ۔عامیانہ ابتذال اور منافقانہ تصنع کا شائبہ تک نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایک اچھے شاعر کے لیے ایک اچھا انسان ہونا بہت ضروری ہے ۔جناب نذیرؔ صاحب ایک اچھے شاعر بھی ہیں اور ایک اچھے انسان بھی ۔اور اس دور میں ایسے انسان بہت مشکل ہیں۔۔۔۔اللہ تعالیٰ انہیں عمر خضر عطا فرمائے۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔