میں نازیہ رافع ہوں۔ پہلے نازیہ سہیل شیخ تھی کیونکہ والد کا نام محمد سہیل شیخ ہے۔ میں نے جب سے شعور میں قدم رکھا ہمیشہ گھر میں جھگڑے دیکھے۔ امی اور بابا یعنی میرے والد کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ ہم دو ہی بہن بھائی ہیں۔ بھائی بڑا تھا اور اس نے بہت جلد گھر کے باہر کے ماحول میں پناہ لے لی۔ اور میں گھر کے اندر امی اور بابا کی توجہ کے لیئے ترستی رہی۔ مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا کہ امی غلط ہیں یا بابا۔ دونوں کا جب جھگڑا ہوتا تو ساری اخلاقیات طاق پہ رکھ کر دونوں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ایک دوسرے کہ کردار پہ کیچڑ اچھالتے دونوں کے خیال میں اولاد دوسرے کی ذمہ داری ہے اسکول میں کبھی کوئی پوچھنے نہیں گیا کہ ہم کیسا پڑھ رہے ہیں یا ہم اسکول آتے بھی ہیں یا نہیں۔ بھائی تو ساتویں کے بعد سے دو دن اسکول جاتا تین دن چھٹی نتیجہ یہ نکلا کہ میں جو ان سے تین سال چھوٹی تھی میں بھی ساتویں میں آگئی مگر وہ ساتویں میں ہی رہا۔ پڑھائی میں اچھی تھی اس لیئے ٹیچرز کو لگتا تھا کہ میں بھائی کے مقابلے میں سمجھ دار ہوں۔میں شاید تیسری کلاس میں تھی جب پہلی بار مجھے بھائی کی شکایت کے لیئے پرنسپل کے آفس بلایا گیا اور اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔ تب تک میں پڑھائی میں بس ٹھیک تھی مگر اس دن مجھے احساس ہوا کہ میری اچھی کارکردگی نے مجھے کچھ اہمیت دلوائی۔ میں نے پڑھائی پہ اور توجہ دینے شروع کر دی۔ میں توجہ کے لیئے اتنی ترسی ہوئی تھی کہ تھوڑی سی بھی توجہ کے لیئے کچھ بھی کرنے کے لیئے تیار ہوجاتی تھی۔ میرے پیسے عموما دوسرے کلاس فیلوز پہ خرچ ہوتے مجھے اچھا لگتا تھا ان کا اپنے اردگرد رہنا مجھ سے بات کرنا بہت بچپن ہی سے میں ہر نئے بندے سے بہت جلدی قریب ہوجاتی تھی۔ محلے کی کوئی نئی آنٹی ہوں بھائی کے دوستوں کی فیملی ہو کوئی ٹیچر ہو یا کلاس فیلو۔ محلے کی کئی خواتین کو ہمارے گھر کا حال پتا تھا جب تک میں چھوٹی تھی وہ ترس کھا کر مجھے اپنے گھر آنے دیتی تھیں۔کچھ کو میرے گھر کی چٹپٹی خبروں سے دلچسپی تھی۔ میں ان کے پیچھے پیچھے گھومتی رہتی گھر کی ساری باتیں باتیں بتاتی صرف اس لیئے تاکہ ان کی توجہ مجھ پہ رہے کبھی کبھی امی اور بابا میں کوئی خاص لڑائی نہیں بھی ہوتی تھی۔ پھر میں کوئی جھوٹا سچا قصہ بنا کے انہیں سنا دیتی۔ پھر میں نے یہی سب کے گھروں کے لیئے کرنا شروع کر دیا۔ ایک گھر کی بات دوسرے گھر میں بتاتی دوسرے کی تیسرے گھر میں بلکہ کبھی کبھی تو امی بھی میری بات بہت دلچسپی سے سنتی تھیں جب میں کسی کے گھر کی راز کی بات انہیں بتاتی۔مجھے احساس ہوا کہ یہ بہت کار آمد نسخہ ہے توجہ حاصل کرنے کا۔ ایک دم میری پذیرائی بڑھ گئی۔ اور میں اسی طرح نئی نئی کہانیاں گڑ کے ادھر ادھر گھروں میں سناتی رہتی۔ کچھ گھر ایسے بھی تھے جہاں کا ماحول بہت اچھا اور پرسکون تھا۔ شروع شروع میں مجھے وہی گھر سب سے پسند تھے۔ مگر اپنے بچپنے میں میں بہت خطرناک حرکتیں کر گئی۔ میں نے دوسرے گھروں میں توجہ حاصل کرنے کے لیئے ان پرسکون گھروں میں ایک دوسرے کے متعلق بے بنیاد باتیں بتانی شروع کردیں۔ ان کو رسول اللہ کا اور دوسری مقدس شخصیات کے واسطے دیتی کہ میرا نام لیئے بغیر بات کیجیئے گا۔ کافی عرصے تک ان لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ گھر میں ایک دم شروع ہونے والے جھگڑوں کی وجہ میں ہوں۔ مگر باشعور شخص کبھی نا کبھی سمجھ ہی جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ وہ جو مجھے چٹپٹی خبروں کے شوق میں یا توجہ کے لیئے ترسی ہوئی بچی سمجھ کر گھر میں آنے دیتے تھے یہی ان کا گھر خراب کرنے کی وجہ تھی۔ عموما خواتین نے مجھ سے کترانا شروع کردیا۔ امی کو کہلوادیا کہ آپ کی بیٹی اب بڑی ہوتی جارہی ہے اسے اس طرح دوسرے گھروں میں نا بھیجیں۔ میں اس وقت کوئی 12 سال کی تھی۔ ایک ساتھ ہی دو باتیں ہوئیں خواتین مجھ سے کترانے لگیں مگر کچھ گھروں کے مرد اور جوان لڑکوں نے میری طرف توجہ دینی شروع کردی۔ کیونکہ محلے کے ہی لوگ تھے تو شروعات تو بہت تمیز کے دائرے میں ہوئی اور ایک حد تک ہی پیش قدمی ہوئی شاید اسی لیئے میں سمجھ بھی نہیں پائی کہ میرا استعمال ہورہا ہے۔ گھر کی خواتین نے پابندی لگائی تو مردوں نے مجھے ان سے چھپ کر بلانا شروع کردیا۔ مجھے توجہ چاہیئے تھی کوئی بھی ہو۔ آنٹیاں نا صحیح انکل اور بھائی صحیح۔ کچھ صرف مجھ سے باتیں کرتے کچھ گود میں بٹھا لیتے کچھ بہانے بہانے سے چھوتے۔ ایجڈ انکل ٹائپ زیادہ دیدہ دلیری دکھاتے تھے۔ ساتھ ہی وہ اپنی بیویوں سے چھپ کر تحفے بھی دیتے۔ مجھے ان کے پاس الجھن ہوتی مگر تحفے بھی توجہ کا ہی نعم البدل لگتے۔ مگر مجھے نوجوان لڑکوں کی توجہ زیادہ پسند تھی۔ وہ بہت کم ہاتھ لگاتے تھے بس باتوں سے ہی دل بہلاتے تھے۔انہی مردوں کا کہنا ہوتا تھا کہ وہ تو مجھے اپنی بیٹی بہن وغیرہ سمجھتے ہیں۔ میں نے تب ہی سیکھا کہ جس سے چھپ کے ملنا ہو تو ان رشتوں کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ ان کی ہی توجہ دیکھتے ہوئے میں نے کپڑوں کا انتخاب بھی بدل لیا۔ مجھے یہ تو پتا چل ہی گیا تھا کہ جب میرے کپڑے زیادہ فٹنگ والے ہوتے یا گلا زیادہ بڑا ہوتا تو ان کی توجہ بھی زیادہ ہوتی اور تعریفیں بھی زیادہ ملتیں۔ ہاں یہ ہوا کہ ایک دو انکلوں نے زیادہ پیش قدمی کی تو میں در کے بھاگ آئی اور پھر پلٹ کے ان کے گھر نہیں گئی۔ عمر بڑھتی گئی تو اندازہ ہو ہی گیا کہ معاشرے میں اس قسم کے میل جول کو بہت غلط نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ میں کسی ایک سے ہی محبت کروں اسی کی محبت اور توجہ کافی ہو میرے لیئے۔ میں نے محلے کے گھروں میں آنا جانا کم کردیا یہ سمجھ لیں کہ یہ کوئی دو سال کا عرصہ تھا یعنی بارہ سال کی عمر سے پندرہ سال کی عمر کا آغاز تک۔ میں میٹرک میں آئی تھی۔ تب ہی محلے میں ایک نئی فیملی آئی ان کے گھر میں میاں بیوی اور دو لڑکے تھے۔ مجھے بڑا لڑکا ظہیر اچھا لگا وہ بھی آتے جاتے مجھے مسکرا مسکرا کر دیکھتا تھا۔ میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ اس سے محبت کروں گی کچھ بھی کرنا پڑے اور اس کے ساتھ ایک پرسکون زندگی گزاروں گی۔ جہاں وہ ہوگا اس کی توجہ ہوگی۔ میں نے پکا فیصلہ کیا تھا کہ میں کبھی اپنے بچوں کو نظر انداز نہیں کروں گی۔ بہت بہت بہت ساری توجہ پیار اور شفقت دوں گی۔ میری راتیں ایک عام سی لڑکی کی طرح اس کے تصور میں گزرنے لگیں۔ بالکل بسمہ کی طرح۔ مگر میں اس معاملے میں بسمہ سے کم شرمیلی تھی اسی لیئے بہت جلد ہی ظہیر کو ہمت ہوگئی کہ وہ مجھ سے بات شروع کرے سادی بات چیت سے عشق و محبت تک کی باتوں کا فاصلہ جلد ہی طے ہوگیا۔ تقریبا ایک سال تک سب کچھ بہت اچھا تھا۔ میں بہت خوش تھی۔ مجھے خود اپنے رویئے میں بہت اچھی تبدیلی محسوس ہوتی تھی۔ مجھے کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لیئے جھوٹی باتیں ادھر ادھر نہیں کہنی پڑتی تھیں۔ میرا دن یا تو ظہیر سے باتیں کرنے میں یا پھر اس کے بارے میں سوچنے اور مستقبل کے خواب بننے میں گزرتا۔ پھر ظہیر کی طرف سے رابطہ کم ہونے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اس سے اتنی توجہ مانگتی ہوں جتنی دینا اس کے بس میں نہیں۔ وہ ہروقت مجھ سے بات نہیں کرسکتا۔ جبکہ میرا دل چاہتا تھا کہ میرا ذہن ہر وقت اس کی طرف رہے تاکہ گھر کے ماحول کی طرف میری توجہ نا جائے۔ 16 سال کی عمر میں ہی میں نے اس سے شادی کا تقاضہ شروع کردیا میں چاہتی تھی کہ کسی طرح میں اس ماحول سے نکل جاوں۔ ایک پرسکون گھر بناوں جہاں سب ایک دوسرے کی فکر کرتے ہوں۔ بہت جلد۔ مجھ سے انتظار نہیں ہورہا تھا۔ مگر ظہیر کا کہنا تھا کہ وہ اتنی جلدی شادی نہیں کرسکتا وہ خود گریجویشن کے دوسرے سال میں تھا۔ میرا تقاضہ بڑھتا گیا اور اس کا اجتناب آخر ایک دن اس نے کہہ دیا
“دیکھو نازیہ تم کوئی ایسی حور پری نہیں ہو کہ میں تم سے شادی کرنے کے لیئے اپنے گھر والوں سے لڑ جاوں۔ شادی کے لیئے میرا آئیڈیل ایک بہت خوبصورت اور باحیا لڑکی ہے تمہاری طرح لڑکوں سے دوستیاں کرنے والی لڑکی نہیں، شکل وکل تمہاری کوئی خاص نہیں گندے گندے کپڑے پہن کر تم لڑکوں کو متوجہ کرتی ہو،تمہیں کیا لگا کہ میں محلے میں نیا ہوں تو مجھے تمہاری حرکتیں پتا نہیں چلیں گی۔ تم سے بات ہی اسی لیئے شروع کی تھی کیونکہ تم سے رابطہ سب سے آسان تھا۔”
اس نے تو سچ بول دیا مگر یہ سچ میرے لیئے بہت تکلیف دہ تھا۔ میں اس رات سوئی ہی نہیں صرف روتی رہی۔ مجھے اس بات پہ بالکل افسوس نہیں تھا کہ اس نے میری کردار کشی کی۔ کیونکہ مجھے محلے کی کہنے کو باحیا لڑکیوں کی حرکتیں بھی پتا تھیں۔ مجھے پتا تھا کہ ان میں سے پارسا شاید کوئی دو تین ہی تھیں۔ مگر وہ خود کو پارسا ثابت کرنے کے لیئے عموما پردے کا سہارا لیتی تھیں۔ بلکہ ان میں ایک دو تو باقاعدہ اپنے اپنے فرقے کی تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ تھیں۔ میں نے سیکھ لیا کہ معاشرے میں پارسائی کا امیج بنانے کے لیئے پارسا بننا ضروری نہیں بلکہ دکھنا کافی ہے۔ میں نے اپنی اسی ڈریسنگ کے اوپر بڑی سی چادر اوڑھنی شروع کردی۔ مگر میں اپنی اس پرسکون گھر کی خواہش کو کیا کرتی۔ جو کسی طرح ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔ حالانکہ ظہیر کے احساس دلانے سے پہلی بار مجھے یہ تو پتا چل گیا کہ میں ایک عام سی شکل و صورت والی لڑکی ہوں۔ ظہیر کی طرف سے چوٹ کھانے کے بعد میں نے دو تین دفعہ اور سچے دل سے کوشش کی کہ کوئی پرخلوص لڑکا مل جائے۔ مگر یا تو لڑکا صرف وقت گزاری کر رہا ہوتا یا پھر اس کے گھر والوں کو میری جیسی بہو نہیں چاہیئے ہوتی تھی۔ حالانکہ وہ مجھ سے ملے بھی نہیں ہوتے تھے مگر خود ہی سمجھ لیتے تھے کہ اگر میں نے ان کے بیٹے سے دوستی کی ہے تو میں بدکردار ہی ہوں گی۔
میری ہر دفعہ سدھرنے کی کوشش ضائع گئی اور پھر میں نے سدھرنے کی کوشش ہی ترک کردی۔ میں
بیک وقت کئی لڑکوں سے دوستی کرتی اور معاشرے میں عزت بنائے رکھنے کے لیئے اور اپنی تسلی کے لیئے مذہب اور پردے کا سہارا لیتی۔ مگر اس کے باوجود میرا ان سے تعلق ایک حد سے نہیں بڑھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر بچے وچے کا چکر ہوگیا تو میں کہاں جاوں گی۔ مجھے واقعی سیدھی سادھی لڑکیوں سے چڑ ہونے لگی وہ جو واقعی پردہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیئے کرتی تھیں جو مذہب کو اپنی ڈھال کے لیئے استعمال نہیں کرتی تھیں۔ میں محفل میں بیٹھ کر ان پہ اعتراض کرتی ان کو مذہب سے دور ثابت کرنے کی کوشش کرتی ان کے پردے کو تنقید کا نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی کہ یہ تھوڑا بہت بھی خود کو دکھا رہی ہیں تو مردوں کی توجہ لینے کے لیئے۔ کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ ایسی لڑکیوں کی وجہ سے میری اہمیت کم ہورہی ہے۔ میں نے اپنی ہر صلاحیت زبانی کلامی حد تک محدود کرلی۔ اور یہ فارمولا کامیاب بھی رہا عموما لوگ میری باتوں پہ یقین کر لیتے۔ میری عادتیں پختہ ہوتی چلی گئیں۔ میری عمر تقریبا 23 سال ہوچکی تھی۔ عمومی والدین کے برعکس ابھی تک مجھے اپنے والدین کی طرف سے ایسے کسی ارادے کا اظہار ہوتا نظر نہیں آیا تھا کہ لگے کہ وہ کچھ عرصے میں میری شادی کروائیں گے۔ میں بلا وجہ گھر میں جھگڑے کرنے لگی۔ عموما کہتی کہ میری شادی کردیں تو میری اس جہنم سے جان چھوٹے۔ شاید میری عمر کی وجہ سے یا میرے تقاضوں کی وجہ سے امی نے رشتے والی ایک خاتون کو میرے لیئے بھی رشتہ دیکھنے کے لیئے کہہ دیا۔ لڑکے والے آتے اور میرا پوسٹ مارٹم کر کے چلے جاتے۔ عموما کا اعتراض ہوتا لڑکی کی عمر زیادہ ہے، کچھ کا کہنا ہوتا کہ ناک نقشہ مناسب نہیں ہمیں پیاری سی معصوم سی لڑکی چاہیئے۔ کچھ کو میرے کارنامے پہلے سے پتا ہوتے۔ مزے کی بات یہ کہ پہلے سے پتا ہونے کے باوجود دعوت ٹھونسنے سب پہنچ جاتے تھے۔ پھر ایک دن رشتہ کرانے والی خاتون آئیں تو امی کو اشارہ کیا کہ مجھے دوسرے کمرے میں بھیج دیں۔ امی نے بہانے سے مجھے اٹھا دیا۔ میں نے بھی وہاں سے ہٹ جانا مناسب سمجھا کیونکہ میں جب تک رہتی وہ خاتون مطلب کی بات پہ نہیں آتیں۔ میں کمرے سے نکل کر دروازے کے ساتھ ہی کھڑی ہوگئی۔ امی والا کمرہ چھوٹا سا ہی تھا باہر صاف آواز آتی تھی۔
“ہاں بتاو شہناز”
“زبیدہ باجی ایک رشتہ آیا ہے رشتہ ہوجانے کی امید زیادہ ہے مگر ایک مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ سے میں کافی جگہوں سے بےعزتی بھی کروا چکی ہوں۔ مگر آپ کا بھی مسئلہ ہے۔ آپ کی لڑکی کے کارنامے اتنے مشہور ہیں کہ اب لوگ یہاں آتے ہوئے کتراتے ہیں۔”
” یہی تو مسئلہ ہے۔ ویسے بھی میری کوئی خاص اونچی اونچی فرمائشیں نہیں ہیں۔ باپ تو پیدا کر کے سمجھتا ہے ہر ذمہ داری سے الگ ہوگیا اب میں اکیلی تو سب نہیں کرسکتی نا۔ بس جیسے تیسے کوئی رشتہ آئے تو میرے سر سے یہ بوجھ ہٹے اس لڑکی نے میرا جینا بھی حرام کیا ہوا ہے۔”
پہلے سے سمجھنا کہ والدین کو آپ کی پروا نہیں الگ بات ہوتی ہے مگر اتنے کھلے الفاظ میں کسی دوسرے کے سامنے بے زاری کا اظہار مجھے بہت تکلیف دے تھا۔ مجھے اپنا حلق آنسوؤں سے کٹتا محسوس ہونے لگا۔
“اصل میں سننے میں آیا ہے کہ لڑکے میں کوئی مسئلہ ہے۔ ہے تو پیارا سا مگر شادی کے قابل نہیں ہے۔”
“آئے ہئے ہیجڑا ہے کیا”
“نہیں نہیں بولتا چالتا ٹھیک ہے بالکل مگر لڑکیوں میں دلچسپی نہیں۔”
“ارے تو شریف سیدھا ہوگا”
“نہیں زبیدہ باجی شریف اور سیدھے کا مسئلہ نہیں سننے میں آیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔” شہناز آپا کی پہلے سے دھیمی آواز اور پھس پھسا گئی “اپنی جیسوں میں دلچسپی ہے”
“اے لو پھر گھر والے کیوں شادی پہ تلے بیٹھے ہیں۔”
” مجھ سے جو بات ہوئی تو اس کی ماں حاجرہ نے سختی سے تردید کردی ایسی کسی بھی افواہ کی۔ بلکہ وہ تو غصے میں مجھ سے لڑنے کو تیار تھی کہ کہ اس کی خوبصورت گبرو بیٹے کے لیئے میں نے ایسا کہا کیسے۔”
“ہمم۔ ہوسکتا ہے کہ ماں ٹھیک ہی کہہ رہی ہو۔ شہناز تم لے ہی آو ان لوگوں کو۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے میں تو سچی بےزار آگئی ہوں اس لڑکی کے لچھنوں سے، باپ پہ گئی ہے پوری۔”
مجھے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔ ایسے بھی مرد ہوتے ہیں۔ اور اتنے لاکھوں کروڑوں صحیح مردوں میں سے میری قسمت میں یہ لکھا جارہا تھا؟ پھر میں نے بھی سوچا کیا پتا واقعی افواہ ہو۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی مرد ہو اور اسے عورت میں دلچسپی نا ہو۔ پھر مجھے خود پہ بھی اعتماد تھا کہ میں کسی بھی طرح اسے اپنی طرف متوجہ کر ہی لوں گی۔ میں پھر سے ایک پرسکون گھر کے لیئے پر امید ہوگئی۔ رافع کے گھر والے آئے اور جیسے سب کچھ آنا فانا ہوگیا۔ رافع مجھے پہلی دفع میں ہی اچھے لگے تھے ان کا رنگ اپنے باقی دونوں بھائیوں کی نسبت زیادہ صاف تھا چہرے پہ معصومیت محسوس ہوتی تھی۔ ان سے چھوٹا بھائی تو عموما گھورتا تھا مگر جتنی دفع رافع سے سامنا ہوا وہ شرمائے شرمائے سے لگتے تھے۔ مجھ سے عمر میں پانچ سال بڑے تھے یعنی میں 24 کی ہوگئی تھی اور وہ 29 سال کے۔ واحد بھائی ان سے دوسال بڑے تھے پھر رافع اور پھر ان کے بعد زیبا باجی تھیں پھر باسط اور پھر سنیہ۔ باسط مجھ سے عمر میں ایک سال بڑا تھا۔ اور سنیہ چھ سال چھوٹی۔
رشتہ پکا ہوا تو میں نے بھی تہیہ کرلیا کہ اپنی سب بری عادتیں چھوڑ دوں گی۔ مگر مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ ان میں سے بہت سی بری عادتیں میری فطرت ثانیہ بن چکی ہیں اور اب مجھے بری لگتی ہی نہیں ہیں۔ ہاں اتنا اندازہ تھا کہ اب مجھے شوہر کا وفادار رہنا ہے۔ شکر بھی کیا کہ دوسروں کی نظر میں میں جیسی بھی سہی مگر میں نے خود کو اپنے شوہر کے لیئے تو محفوظ ہی رکھا۔
شادی کی رات میں بہت خوش تھی۔ دل قابو میں ہی نہیں آرہا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا میں زیادہ نہیں شرماوں گی وہ بھی شرمیلے میں بھی شرماتی تو تو بس ۔۔۔۔۔
رافع کمرے میں آئے تو میں نے مسکرا کے ان کو دیکھا۔ وہ بھی مسکرائے مگر بہت کنفیوز مسکراہٹ تھی ان کی۔ مجھے صحیح طریقے سے گڑبڑ کا احساس ہوا کہ سب اچھا نہیں ہے۔
“آپ تھک گئی ہونگی سو جائیں۔”
میں نے خود کو سنبھالا اور غلط فہمی دور کرنے کا سوچا۔ یہ بھی تو ہوسکتا تھا نا کہ مجھے غلط محسوس ہوا ہو وہ واقعی صرف شرما رہے ہوں۔
“شادی کی رات اتنی جلدی نیند کہاں آتی ہے۔” میں نے کوشش کی کہ لہجہ شرمیلا بھی رہے اور رومینٹک بھی۔
“جی مگر مجھے اندازہ ہے دلہن بیچاری بہت تھکی ہوئی ہوتی ہے۔”
“تھکن اتارنے کے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں نا۔” میں نے مزید معنی خیز لہجہ بنایا
رافع کی گھبراہٹ مزید واضح ہوگئی۔
“نازیہ میرا خیال ہے فی الحال ہم سوجاتے ہیں۔ ایک دو دن یہ شادی کا ہنگامہ کم ہو تو اس حوالے سے تفصیل سے بات کرتے ہیں۔”
انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کے تھپتھپایا۔ پہلی بار کسی مرد کا ہاتھ سرد نا ہونے کے باوجود اتنا سرد لگا تھا۔ بہت غیر جذباتی ٹچ تھا۔
“ارے ہاں سوری یہ آپ کی منہ دکھائی۔”
انہوں نے جیب سے انگوٹھی نکال کے پہنا دی۔
اگلے دو تین دن عجیب ہی گزرے۔ خاندان کی لڑکیاں بلکہ سب ہی عورتیں مجھ سے معنی خیز مذاق کر رہی تھیں اور میں ان سے کترا رہی تھی۔ حالانکہ شادی سے پہلے تک اس قسم کے مذاق میں نے بہت انجوائے بھی کیئے اور بہت کھل کے جواب بھی دیئے۔ مگر اب ایسی مذاق پہ اندر گہرا سناٹا اتر رہا تھا۔ پتا نہیں کسی نے یہ محسوس کیا یا نہیں مگر میرے سامنے یہی اظہار کیا کہ انہیں میرا ردعمل فطری شرم لگ رہا ہے۔ کچھ خواتین کے سوالات کافی واضح رافع کی مردانگی کے حوالے سے ہی تھے۔ دل تو چاہا اپنی فطرت کے مطابق ٹھیک ٹھاک کرارا جواب دوں کہ خود آزما لیں۔ مگر سختی سے اپنی زبان روکی کہ سسرال کا معاملہ ہے اور میں نبھانے کا ارادہ کرکے آئی ہوں۔ اللہ اللہ کرکے یہ چند دن گزرے تو میں نے سکون کا سانس لیا۔
سب مہمانوں کے جانے کے بعد صبح پہلا ناشتہ تھا جب صرف گھر والے ہی تھے۔ زیبا باجی بھی گھر چلی گئی تھیں۔ رافیعہ بھابھی کے دونوں بچے سو رہے تھے تو ٹیبل پہ صرف گھر کے بڑے ہی بیٹھے تھے۔ سنیہ کافی دن بعد کالج جا رہی تھی جلدی جلدی دو تین نوالے منہ میں رکھ کر باہر نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی رافع کے ابو نے رافع کو مخاطب کیا۔
“برخوردار دوا کھا رہے ہو نا حکیم صاحب کی؟”
“جی ابو؟” رافع کی چہرے سے اندازہ ہوا کہ یہ سوال ان کے لیئے بالکل غیر متوقع تھا۔ پھر شاید سمجھ آیا
“جی ابو۔” انہوں نے آہستہ سے کہہ کر سر ہلا دیا۔
“بھئی بہو ہمارے یہ برخوردار کچھ بیمار ہیں ان کی دوا کا خیال اب تمہیں رکھنا ہے۔”
“ابو میں بالکل ٹھیک ہوں۔” رافع کا لہجہ دھیما مگرمضبوط تھا۔
“آپ کچھ دیر چونچ بند کر کے بیٹھ سکتے ہیں برخوردار؟ آپ کی یہ بات مان لی ہوتی تو آج آپ کا گھر بسا نا ہوتا۔ دوا کا فائدہ ہوا ہے تبھی یہ سب ممکن ہوا۔” مجھے اب جاکے اندازہ ہوا کہ وہ کس دوا کی بات کر رہے ہیں۔ مگر شاید انہیں کوئی غلط فہمی تھی جو رافع ہی دور کر سکتے تھے مگر شاید ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ناشتے کے بعد ہم کمرے میں آئے تو میں نے سوچا اب بات صاف ہوجائے تو ہی بہتر ہے۔
“رافع ابو کس دوا کی بات کر رہے ہیں؟”
“کچھ نہیں بس کچھ عرصہ پہلے بخار کی وجہ سے ویک نیس ہوگئی تھی تو ابو نے حکیم سے خمیرہ ٹائپ کوئی دوا لا کر دی تھی۔”
“مگر اس کا شادی سے کیا تعلق۔ دیکھیں رافع پلیز آپ بہتر ہے مجھے ٹھیک سے بتا دیں۔ شادی سے پہلے بھی مجھے کچھ الٹی سیدھی باتیں سننے کو ملیں تھیں بہتر ہے آپ ہی سب بتا دیں کہ یہ سب مسئلہ ہے کیا؟”
“مجھے بتانے میں مسئلہ نہیں مگر تم سمجھ نہیں پاو گی اس لیئے بتانے کا فائدہ نہیں۔”
“کیوں کیا کیمسٹری کا فارمولا ہے یا میتھ کی ایکویشن جو اتنی مشکل بات ہے کہ مجھےسمجھ نہیں آئے گی۔ ویسے بھی آپ کی بیوی ہونے کے ناطے میرا یہ حق بنتا ہے کہ مجھے پتا ہو کہ آپ میرا حق زوجیت ادا کرسکتے ہیں یا نہیں۔”
رافع کچھ دیر خاموشی سے ہونٹ کاٹتے رہے پھر ایک گہرا سانس لے کے بولے
” نازیہ تم نے کیا سنا ہے وہ مجھے نہیں پتا مگر عموما لوگوں کو لگتا ہے کہ میں شاید مرد نہیں ہوں مگر یہ ان کی غلط فہمی ہے بس مجھے مخالف صنف میں کشش محسوس نہیں ہوتی۔”
“ایسا کیسے ہوسکتا ہے” یہ بات میرے لیئے بالکل انوکھی تھی تبھی جب شہناز آپا نے کہا تھا مجھے تب بھی یقین نہیں آیا تھا۔
“اسی لیئے کہا تھا کہ تم نہیں سمجھ پاو گی۔ عموما افراد کے لیئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے میرے جیسے افراد بہت کم ہوتے ہیں مگر ہوتے ہیں۔ اسی لیئے میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتا تھا میں نے کئی بار بہت واضح انداز میں منع بھی کیا ابو سے پٹا بھی ہوں عاق کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں”
“پھر میری زندگی برباد کیوں کی” میری آواز کانپ گئی
“نازیہ میں بہت شرمندہ ہوں میں مجبور کردیا گیا تھا۔ امی نے ابو کے دباؤ میں آکر مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے شادی نا کی تو وہ کچھ کھا کے مر جائیں گی۔ مجھے پتا تھا کہ یہ صرف دھمکی ہے مگر مجھ سے زبردستی منوانے کے لیئے وہ چوہے مار زہر کی گولی ہاتھ میں نکال کے لے آئی تھیں کہ یا تو میں ہاں کروں یا پھر وہ یہ گولی نگل لیں گی۔ بعد میں امی نے رو کر مجھے منایا بھی اور یہ بھی بتا دیا کہ ابو نے انہیں دھمکی دی تھی کہ کسی طرح مجھے منائیں ورنہ ابو انہیں طلاق دے کر میرے ساتھ گھر سے نکال دیں گے۔” رافع کے چہرے پہ واضح شرمندگی تھی۔
“آپ نے علاج کی کوشش نہیں کی؟”
“بہت دفعہ کی۔ شروع میں، میں خود بھی اسے بیماری سمجھتا تھا، حکیموں کے پاس گیا، جنسی بیماریوں کے ڈاکٹر کے پاس گیا، پیر فقیروں سے تعویز لیئے اس سے پہلے کہ گھر والوں کو پتا چلے میں اپنے طور پہ مسئلہ حل کر لینا چاہتا تھا۔ کئی ہزار برباد بھی کیئے۔ مگر فائدہ رتی برابر نہیں ہوا۔ جتنی دفعہ اچھے ڈاکٹرز کے پاس گیا ان سب نے مجھے یہی بتایا کہ یہ کوئی بیماری نہیں اور اگر میں نے حکیموں اور ان جعلی سرٹیفکیٹ والے ڈاکٹروں کی دوائیں مزید کھائیں تو میرا ہی نقصان ہوگا۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے پوری تفصیل سے سائنسی حوالے سے سمجھایا تو مجھے اپنا مسئلہ سمجھ آیا تب سے میں نے اس مسئلے کے لیئےکسی بھی قسم کی دوا کھانی چھوڑ دی۔”
میں بے یقینی کی کیفیت میں رافع کو دیکھ رہی تھی۔ مجھے بالکل یقین نہیں آیا جو انہوں نے مجھے بتایا تھا۔ میں نے سوچا شاید ان کا کبھی کسی لڑکی سے اتنا قریبی تعلق نا رہا ہو کہ انہیں اندازہ ہوتا۔ میں نے اپنے طور پہ کوشش کرنے کا سوچا۔ مجھے یقین تھا کہ میں کامیاب ہوجاوں گی۔ میں نے اپنے پرانے حربے آزمانے کا ارادہ کیا۔ اپنی اداؤں اور ہوش ربا لباس کو ہتھیار بنانے کا ٹھان لیا۔ مجھے شروع شروع میں تھوڑی جھجھک ہوئی کیونکہ رافع تو کیا توجہ دیتے مگر سسر صاحب اور باسط کی نظریں میرے ساتھ ساتھ گردش کرنے لگیں۔ مگر مردوں کو ان کی حد میں کیسے رکھنا ہے مجھے یہ بھی آتا تھا۔ اگر میں رافع کی توجہ پانے میں کامیاب ہوجاتی تو باقی سب ثانوی تھا۔ مگر دن مہینوں میں بدلتے رہے اور رافع کی طرف سے کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آئی۔ عورت ہونے کے باوجود میں نے انتہائی حد تک کوشش کی مگر ان کی توجہ پانے میں ناکام رہی۔ کبھی کبھی خیال آتا کہ شاید وہ کسی اور کو پسند کرتے ہوں اسی لیئے مجھے اس اذیت میں رکھا ہوا ہے کہ میں خود ہی ان کا پیچھا چھوڑ دوں مگر ان کا سرد لمس اس بات کی تردید کردیتا تھا۔
میری اذیت بڑھتی جارہی تھی۔ ساس کیا اب سب ہی رشتہ دار خواتین بار بارخوش خبری کا پوچھنے لگی تھیں۔ کبھی کبھی جھنجھلا کر خود کو کوستی کہ اس سے تو اچھا تھا کہ پہلے ہی۔۔۔۔۔۔۔ پھر خود ہی اس سوچ پہ خود کو لعنت کرتی۔
ایک دن دوپہر سے ہی بجلی بند تھی کافی دیر تک تو کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوا سب سمجھتے رہے کہ روٹین کی لوڈشیڈنگ ہے مگر جب کئی گھنٹے گزر گئے تو پریشانی شروع ہوئی، چاروں مرد ہی اپنی اپنی جابز پہ تھے کہ پتا کرکے آتے کہ مسئلہ کیا ہے۔ شام ڈھلے ان کے آنے کے بعد بھی کچھ دیر تو ان لوگوں کے کپڑے وغیرہ تبدیل کرنے میں لگ گئے پھر اندھیرا بڑھا اور برابر کے گھروں میں روشنی دیکھی تو پتا چلا صرف ہمارے گھر میں فالٹ ہے میں اوپر کمرے میں تھی جب رافع نے بتایا کہ گھر کی لائن خراب ہے وہ اور واحد بھائی بجلی والوں کو بلانے جارہے ہیں۔ میں نے دروازہ بھیڑ دیا اور لیٹ گئی۔ کمرے کا گیس لیمپ کئی دن سے خراب تھا کئی دفع رافع اور باسط کو کہہ چکی تھی کہ جسے بھی ٹائم ملے وہ ٹھیک کردے مگر کسی نا کسی وجہ سے اس کا ٹھیک ہونا رہ ہی جاتا تھا۔ اب کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ بس دروازے اور کھڑکیوں کے کناروں سے دوسرے گھروں کی ہلکی ہلکی روشنی نظر آرہی تھی مگر کمرے کے اندھیرے پہ ان سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ میری شاید لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی کہ ایک دم دروازہ بند ہونے کی آواز پہ میری آنکھ کھل گئی۔ شاید رافع واپس آئے تھے۔ مجھے آواز سے اندازہ ہوا کہ انہوں نے کنڈی بھی لگا دی ہے۔
“رافع کیا ہوا لائٹ ٹھیک نہیں ہوئی” میں نے پوچھا۔
“موم بتی لے آتے نا اب ساری رات اندھیرے میں رہنا پڑے گا”
انہوں نے ششش کہتے ہوئے میرے ہونٹوں پہ انگلی رکھی۔ان کی توجہ کی ترسی ہوئی اس پیش قدمی پہ میں کچھ سوچ ہی نہیں پائی۔ میں بہت خوش تھی کہ آخر میں کامیاب ہوگئی۔
میں دل ہی دل میں اپنی کامیابی کا جشن منا رہی تھی کہ لائٹ آگئی اور مجھے ایسا لگا کہ مجھے کسی نے آسمان سے اٹھا کر پاتال میں پھینک دیا ہو۔ جسے میں اتنی دیر سے رافع سمجھ رہی تھی وہ باسط تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکلنے ہی والی تھی کہ اس نے سختی سے میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔
“خبردار کسی کو کچھ بتایا تو۔تیرا شوہر تو کچھ کر نہیں سکتا مجھ پہ الزام لگایا تو میں صاف مکر جاوں گا۔ لچھن تیرے ایسے ہیں کہ سب ہی میری بات پہ یقین کریں گے تجھ پہ کوئی یقین نہیں کرے گا” اس کی آنکھوں میں مجھے درندے کی سی سفاکیت جھلکتی ہوئی لگ رہی تھی۔
وہ تو چلا گیا میں چپکے چپکے سسکتی رہی۔ رافع تقریبا آدھا گھنٹے بعد آئے۔ آتے ہی والٹ وغیرہ نکال کے رکھنے لگے ساتھ تفصیل بتانے لگے کہ دیر کیوں لگ گئی۔ میری طرف ان کی توجہ تب گئی جب کافی دیر تک میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
“کیا ہوا چپ کیوں ہو؟” انہوں نے اتنی دیر بعد پہلی دفعہ میری طرف دیکھا
“تم رو رہی تھیں۔ کیا ہوا اندھیرے میں ڈر گئیں؟” وہ پاس آگئے۔ پہلے میں نے سوچا کہ چپ رہوں مگر چپ رہتی تو یہی سب کچھ دوبارہ بھی ہوسکتا تھا۔
“رافع آپ کے بھائی نے مجھے تباہ کردیا”
“کیا مطلب کیا ڈراموں جیسا ڈائیلاگ ہے یار، کتنا غلط مطلب نکلتا ہے اس کا اندازہ ہے تمہیں۔”
“اس کا جو مطلب نکلتا ہے میرا وہی مطلب ہے۔ اس نے۔۔۔۔۔۔ میری۔۔۔۔۔ عزت” میں اتنا کہہ کر دوبارہ رونے لگی۔
“کس کی بات کر رہی ہو؟ واحد بھائی یا باسط؟”
“باسط، اور مجھے دھمکی بھی دے کر گیا ہے کہ اگر میں نے کسی کو کچھ بتایا تو وہ مجھ پہ الزام لگائے گا کہ میرے کسی اور سے تعلقات ہیں۔ رافع اتنا تو آپ مجھے جان گئے ہونگے۔ میں اتنا نہیں گر سکتی، میں مانتی ہوں کہ میری دوستیاں تھیں مگر وہ کبھی بھی ایک حد سے آگے نہیں گئیں اور شادی کے بعد میں نے خود کو آپ کے لیئے محدود کرلیا ہے۔”
“نازیہ مجھے تم پہ شک نہیں تم بے فکر رہو۔ باسط میرا بھائی ہے میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ مگر یہ بات باہر بھی نہیں بتائی جاسکتی۔”
“تو؟” مجھے حیرت ہوئی کہ جب انہیں مجھ پہ یقین ہے تو پھر کیا مسئلہ ہے۔
“نازیہ ابھی تک گھر والے سمجھ رہے ہیں کہ تمہارے اور میرے بیچ سب صحیح چل رہا ہے۔ یہ مسئلہ کھولیں گے تو باسط تم پہ الزام لگانے کے لیئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں اسی لیئے تم کسی اور مرد۔۔۔۔۔ ” اتنا کہہ کر رافع شاید اپنی ہی بات پہ شرمندہ ہو کر چپ ہوگئے۔
“نازیہ مجھے بہت عرصے بعد گھر میں عزت ملنی شروع ہوئی ہے۔ پلیز یار میری عزت رکھ لو۔ اگر اس کے نتیجے میں کوئی اولاد ہوئی تو میں اسے اپنا نام دوں گا پلیز نازیہ”
رافع نے ایکدم میرے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔ میں سکتے کی کیفیت میں تھی مجھے یقین ہوگیا کہ رافع مرد ہو ہی نہیں سکتا جو اپنی بیوی کی عزت لٹنے پہ غیرت دکھانے کی بجائے ہاتھ جوڑ رہا ہے۔ مجھے اس لمحے اس سے شدید نفرت ہوئی۔ میں اس کی بات ماننے پہ مجبور تھی۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ میرے والدین کبھی بھی مجھے سپورٹ نہیں کریں گے۔ اس کے بعد مجھے اپنی ذات سمیت اس گھر کے ہر فرد سے نفرت ہوگئی۔ میں نے خود کو حالات کے سپرد کردیا۔ میں وہی نازیہ بن گئی جیسی شادی سے پہلے تھی۔ ہر ایک کو تکلیف دے کر خوش ہونے والی۔ جھوٹی توجہ کے لیئے کچھ بھی کردینے والی۔ وقت گزرتا رہا ساس کے لیئے خوش خبریاں بھی آگئیں اور میری لیئے میری بد بختی کے ثبوت۔ مجھے ان دونوں بچوں سے شدیدنفرت ہے۔ میرا بس چلے تو میں باسط اور رافع سمیت ان دونوں بچوں کو مار دوں مگر بس ہی تو نہیں چلتا۔ میرا بس چلتا ہوتا تو سب سے پہلے میں اپنے والدین کو ہی کچھ توجہ دینے پہ مجبور کر لیتی۔ میں نے باسط اور اپنے تعلق کو چھپانا چھوڑ دیا۔ ہاں زبانی کلامی کہہ لیتی کہ یہ میرے بھائی جیسا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سب گھر والے بھی آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے بنے ہوئے تھے۔
آخر کچھ سال بعد باسط کی بھی شادی کروا دی گئی۔ بسمہ میری توقع سے کہیں زیادہ اچھی لڑکی تھی۔ اور یہی مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ شادی کے پہلے دن بسمہ کے چہرے پہ وہ خوشی تھی جو مجھے کبھی نہیں ملی۔ شوہر کی توجہ اور پیار ملنے کی خوشی۔ میری ذات جیسے چاروں طرف سے شدید تکلیف کی آگ میں جھلس رہی تھی۔ دوسروں کو لگے گا کہ یہ حسد تھا مگر سچ یہ ہے کہ یہ ان تمام تکلیفوں کا ردعمل تھا جو میں نے سہیں۔ جن میں میرا قصور نہیں تھا مگر ہمیشہ مجھے قصوروار ٹہرایا گیا۔ اب جب برائی کا لیبل لگ ہی گیا تو اسے پورا ہی کر کے کیوں نا دکھایا جائے۔ میں نے بسمہ کو باسط اور باقی گھر والوں کی نظروں سے گرانے کے لیئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئی۔ میری ہر چال میری توقع سے زیادہ کامیاب جاتی۔ میں بڑھ بڑھ کے چالیں چلنے لگی یا تو میرے اوور کانفیڈنس کا نتیجہ یا بسمہ کی آہ لگی کہ میں جو اسلم والے معاملے پہ بسمہ کو گھر سے نکلوانے پہ تلی تھی دیکھتے ہی دیکھتے بازی ہی پلٹ گئی اور میں خود خالی ہاتھ گھر سے باہر کر دی گئی۔ میں نے وہ کرنے کا سوچا جو مجھے بہت پہلے کر لینا چاہیئے تھا۔ میں وہاں سے سیدھی پولیس اسٹیشن گئی۔ سدا کے ٹھرکی پولیس والوں کو تھوڑی ادائیں دکھانی پڑیں مگر کام ہوگیا۔ اور شام تک باسط اور رافع تھانے میں بند تھے اور بچے میرے پاس۔ میں جو والدین کے گھر جانے سے کتراتی تھی ڈھیٹ بن کر وہاں پہنچ گئی۔ بھائی بہت پہلے ہی انہیں چھوڑ کے اپنی دنیا الگ بسا چکا ہے شاید اسی لیئے وہ مجھے رکھنے پہ راضی ہو ہی گئے ۔ امی اب بھی طعنے دیتی ہیں مگر ان کا ردعمل اتنا شدید نہیں جتنا میں سمجھ رہی تھی۔ مجھے امی بابا کے گھر آئے دوسرا ہفتہ شروع ہوا تھا کہ میرے نام دو خط آئے۔ ایک تو لفافے سے کوئی قانونی ٹائپ ڈاکیومنٹ لگ رہا تھا دوسرا سادہ خط والا لفافہ تھا اس پہ رائٹنگ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ رافع نے بھیجا ہے۔ پہلے تو سوچا نا پڑھوں پھر کھول ہی لیا۔ لکھا تھا
“نازیہ میں تم سے بہت شرمندہ ہوں اور اس سے بھی زیادہ خود سے۔ کاش میں نے جو فیصلہ اب کیا وہ پہلے کیا ہوتا تو نا میری زندگی اذیت میں کٹتی نا تمہاری۔ مجھے خود سے شرمندگی اس لیئے بھی ہے کہ میں کبھی کسی کو سمجھا ہی نہیں سکا کہ میں بھی ایک انسان ہوں میرے بھی جذبات ہیں۔ بچپن میں مجھے اس لیئے حقارت سہنی پڑتی تھی کیونکہ میں رانا صاحب کا بیٹا تھا۔ لڑکپن شروع ہوا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ میرے جذبات باقی لڑکوں جیسے نہیں۔ مجھے نہیں پتا کیسے مگر اسکول میں ساتھی لڑکوں کو اس کا اندازہ ہوگیا انہوں نے نا صرف مجھے استعمال کرنا شروع کردیا بلکہ کھلم کھلا میرا مذاق بھی اڑاتے۔ میری اتنی تشہیر کی گئی کہ یہ بات گھر تک پہنچ گئی۔ میں روز ابو سے اس بات پہ پٹتا جس میں میرا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔ اسکول میں ٹیچرز اسٹوڈنٹس مجھ سے ایسے کتراتے جیسے مجھے کوئی چھوت کی بیماری ہے۔ میری ہر رات روتے ہوئے گزرتی تھی۔ میں بلک بلک کر خدا سے دعا مانگتا کہ یا تو مجھے ایسا پیدا ہی نا کرتا یا اب مجھے مار دے۔ میرے مسئلے کا کوئی حل ہی نہیں تھا۔ کم از کم ہیجڑا ہی ہوتا تو انہی کے ساتھ زندگی گزار لیتا۔ مجھے پتا تھا کہ کوئی فائدہ نہیں مگر پھر بھی جو کوئی بھی کسی علاج کا مشورہ دیتا وہ میں نے کروایا۔ نازیہ تمہیں شاید اندازہ نا ہو ایسی زندگی کا جس پہ آپ کا اختیار ہی نا ہو۔ جہاں آپ کے جذبات ذہنی بیماری سمجھے جاتے ہوں۔ میں تمہیں ازدواجی خوشی نہیں دے پایا مگر پھر بھی ہر طرح سے تمہیں سپورٹ کیا تاکہ اس کا مداوا کرسکوں۔ مگر تم میری سپورٹ کو حق سمجھ کے وصول کرتی رہیں۔ تم کھانا نہیں بناتی تھیں میں خاموشی سے لے آتا تھا۔ اپنے کپڑے خود ہی دھو لیتا تھا۔ بچوں کی ضروریات کا بھی خیال کرلیتا تھا۔ بیماری میں کبھی تم نے زحمت نہیں کی کہ یہ دیکھ لو کہ میں نے دوا کھائی یا نہیں۔ مگر مجھے پتا تھا کہ تم میری وجہ سے وہ سب جھیل رہی ہو جس کی تم بالکل حقدار نہیں۔ اس دن جس طرح میں نے تمہیں گھر سے نکالا اس پہ میں بہت شرمندہ ہوں میں ایک دم بہت زیادہ ڈر گیا تھا مجھے لگا دوبارہ بچپن کی طرح سب میری تذلیل کریں گے میرا مذاق اڑائیں گے۔ مجھے ہر طرف سے تحقیر بھرے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ اور اس شور نے میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم کردی تھی۔ تم نے جو کیا ٹھیک کیا۔ مجھے اور باسط کو ہماری غلطی کی سزا ملنی چاہیئے۔ اور یہ سزا بہت پہلے مل جانی چاہیے تھی۔ میری کچھ لمحوں کی کمزوری نے کئی سال تمہیں اذیت میں مبتلا رکھا۔ نازیہ میں اگر زندہ رہا تو یہ سب اذیتیں مجھے پاگل کر دیں گی۔ ہوسکے تو مجھے معاف کردو۔ تمہیں طلاق نہیں دے سکتا ورنہ میری کسی چیز پہ تمہارا حق نہیں رہے گا۔ لیکن میری منکوحہ ہونے کی صورت میں میرے مرنے کے بعد تم میری پینشن اور باقی اثاثوں کی قانونی ملکیت حاصل کرسکو گی۔ جب تک تمہیں یہ خط ملے گا میں مر چکا ہونگا۔ خودکشی کے علاوہ میرے پاس اب اس اذیت کا کوئی حل نہیں۔ یہ خط میں اپنے اس دوست کو دے کے جاوں گا جس کے ساتھ رہ رہا ہوں اسے کہہ دوں گا کہ مجھے کچھ ہوجائے تو تمہیں یہ خط پوسٹ کردے اور مجھ سے متعلق کسی بھی قسم کے کاغذات بھی تمہیں ہی بھیجے۔ اگر تمہیں ڈیتھ سرٹیفکیٹ نا ملے تو خط میں سب سے نیچے لکھے نمبر پہ رابطہ کرلینا۔ اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا۔ ”
میں نے خط پڑھ کے فورا دوسرا لفافہ کھولا اور توقع کے مطابق وہ رافع کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہی تھا۔ وجہ فوڈ پوائزنگ سے ڈیتھ لکھی تھی۔
میں پہلی بار اتنا بلک کے روئی جیسے کبھی نہیں روئی تھی۔ مجھے لگا جیسے میں نے رافع کو مارا ہے۔ اس نے مجھے کتنی تفصیل سے اپنا مسئلہ بتایا اور ہربار میں نے اسے جھوٹا سمجھا۔ باسط کی غلطی میں رافع کا بھی ہاتھ تھا مگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کیا وہ اس کے علاوہ کچھ اور کرسکتا تھا؟ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہمارے کردار اور جذبات سے زیادہ اہم معاشرے کے معیار ہیں ایسے معاشروں میں ہر رافع کی زندگی جہنم ہے اور ہر نازیہ کے پاس سوائے خود کو نمائش کی چیز بنانے کے کوئی راستہ نہیں۔
احساس شرمندگی اتنی زیادہ تھی کہ شاید میں بھی خودکشی کرلیتی مگر ان دو معصوموں کے لیئے جنہیں رافع نے اپنا نام دیا اورباسط کو سزا دلانے کے لیئےمیں نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ باسط کو سزا دلانا اس لیئے ضروری ہے تاکہ کوئی دوسرا باسط کسی دوسری نازیہ کی مجبوری کا فائدہ نا اٹھا سکے۔
آپ سے بس اتنی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اتنا نظر انداز نا کریں کہ انہیں توجہ کے لیئے نازیہ بننا پڑے۔
**************⛤⛤⛤⛤⛤⛤⛤⛤⛤⛤***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...