اردواداب میں تیس پینتیس برس پہلے جدیدیت کی لہر آئی تھی۔نئے لب و لہجے اور نئے انداز کے ساتھ مختلف اصنافِ ادب میں تجربے کئے جانے لگے۔اس تجرباتی دور میں جدیدیت کی انتہا پسندانہ صورت لا ینیعت کے سیلاب کی طرح آئی۔افسانہ غزل اور نظم خاص طور پر اس انتہا پسندی کا شکار ہوئے۔بے معنویت کا یہ سیلاب اس حد تک ٹھیک تھاکہ کلیشے کی صورت اختیار کر جانے والی پرانی معنویت کو بہا لے جا ئے ا ور ادب میں پھر تازگی کے ساتھ نئی معنویت سامنے آئے۔اس سیلابی کیفیت سے نجات کے بعد بیشتر ادبا ءجدیدیت کی اس متوازن سطح پر آ گئے جہاں فکر و احساس میں تازگی کے ساتھ لفظ و معنی تہہ داری کے ساتھ ہم رشتہ تھے لیکن انتہا پسند جدیدیوں نے جدیدیت کی متوازن سطح پر آنے کے بجائے لفظ و معنی کی تہہ داری کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لا ینعیت کی روش اپنائے رکھی۔تا حال ان لوگوں کی لا ینعیت جاری ہے۔
نذیر فتح پوری ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے پرانی ادبی روایت اور ترقی پسند تحریک کے چکا چوند کر دینے والے دور کو دیکھ کر بھی نئے لب و لہجے کو اپنایا اور جدید غزل میں اپنا اظہار کیا۔اس اظہار میں وہ تجرباتی سطح پر انتہا پسندی کا شکار بھی ہوئے لیکن پھر شائد انہیں اس کا احساس ہو گیا۔چنا نچہ انہوں نے خود کو اس متوازن سطح پر لا نے کی سعی کی جو جدید غزل کی پہچان ہے۔ان کے اس نو عیت کے چند اشعار دیکھیں۔
ہمارے درد کی قندیل کیا بجھا ئے گی ہوا بھی اپناسا منہ لے کے لوٹ جائے گی
دن کی پیشانی پہ لکھ کر سر کشی رات کے ماتھے پہ سجدہ لکھ دیا
کتنا دَم تھا خیمے کی بنیا دوں میں زور ہوا کا ٹوٹے گا تو دیکھیں گے
ٹھہر سکے نہ کسی اک مقام پر اب تک نذیر اپنا مقدر بھی آب جیسا تھا
میں بد نصیب زمیں پر اتر سکا نہ کبھی مرے نصیب میں لکھے تھے آسماں بہت
میںاپنی پیاس کا دیتا ہوں واسطہ تجھ کو سراب ایسے سمندر مجھے تلاش نہ کر
مجھ کو چکرائے لئے پھرتا ہے ہر سمت نذیر میرے اپنے ہی بھنور کا لہرا اب تک
ان چند اشعار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نذیر فتح پوری جدیدیت کے انتہا پسند انہ حصار سے نکل رہے ہیں۔با معنی اور تغزل سے معمورجدید غزل کی طرف ان کی پیش قدمی جاری ہے۔دراصل نئی غزل نے پرانا سب کچھ مسترد نہیں کیا۔پرانی روایت کا تغزل اور نغمگی۔ترقی پسند تحریک کے مثبت اثرات اور جدیدیت کی متوازن صورت۔ان سب سے مل کر جدید غزل ابھری ہے۔خوشی کی بات ہے کہ نذیر فتح پوری کے ہاں یہ سارے اجزاءزیادہ تر ایک ساتھ اور گندھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔جب وہ جدیدیت کے انتہا پسندانہ اثر سے پوری طرح باہر آ جائیں گے تب ان کا یہ انداز مزید نکھر سنور کر نمایاں ہوگا۔ان کے ایسے امکانات کی جھلک ان اشعار میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
وصل کے خواب لرزتے رہے پلکوں پہ نذیر دوریاں راہ میں حائل رہیں میلوں جیسی
میں بھی کبھی نہ بیٹھ سکوں چین سے نذیر وہ بھی کبھی سکون نہ پائے خدا کرے
ہر تشنہ لب ہے کر بلا میں گھرا ہوا پہرہ ےزیدیوں کا ہے جھیلوں کے سامنے
جتنے بھی تھے خلاف سبھی زر خرید تھے ہم کیا بیان دیتے وکیلوں کے سامنے
رشتوں کی الجھنوں کے بھنور سے نکل گیا وہ شخض آج اپنے ہی گھر سے نکل گیا
جو موت کے جواب میں رہتا تھا پیش پیش وہ زندگی کے چند سوالوں سے ڈر گیا
زمیں کے دکھ سے بھرا ہے صحیفہءہستی حکایتیں نہ سنا مجھ کو آسمانوں کی
نذیر فتح پوری کا پہلا مجموعہ کلام “لمحوں کا سفر” دیکھا تو وہ مجھے تو وہ مجھے ایک شریف اور بھلا مانس قسم کا انسان لگا۔
نذیر چہرے بدلنا نہیں مری فطرت میں ایک دل کا ہوں میرا ہے ایک ہی چہرہ
یک رخی شخصیت اپنی تمام تر شرافت اور بھل منسی کے باوجود شاعری میں یک رخا منظر دکھانے سے آگے نہیں جا سکتی۔چنا نچہ جب اسی مجموعے میں نذیر فتح پوری نے اپنے تعارف میںیہ دعویٰ بھی کر دیا۔
اچھوں میں یوں اچھا ہوں سچائی پر مرتا ہوں
تب میں نے سوچا اس شریف آدمی کو اس کی شرافت کی داد اور جنت کی دعا دے کر بات ختم کرتا ہوں۔لیکن جب اسی تعارف میں یہ شعر آیا۔
دیپک جیسی فطرت ہے جلتا بجھتا رہتا ہوں
تو مجھے روشنی کی ہلکی سی لکیر دکھائی دی اور پھر یہی لکیر ایک منور ہالے کی صورت اختیار کرتی گئی۔
تم جسے ٹھوس حقائق کی کڑی کہتے ہو لوگ دہرائیں گے کل اس کو فسانوں کی طرح
ایک مرکز پہ کسی چےز کا ٹھہراﺅ نہیں دل کے حالات بدلتے ہیں زمانوں کی طرح
پھردوسرے مجموعہ” سفر تا سفر” میں تعارف میں ہی روشنی سی پھیل گئی۔
پل میں بینا پل میں نا بینا ہوں میں روپ کتنے دھارتا رہتا ہوں میں
سوچئے تو وقت ہے میرا غلام دیکھیے تو وقت کا مارا ہوا ہوں میں
جس سے قائم ہے ہوا ﺅں کا بھرم تیری راہوں کاوہ ایک تنکا ہوں میں
اب بھی ہے لا سمتیت میرا نصیب ایسا اک بھٹکا ہوا جذبہ ہوں میں
ادب میں پارٹی لائن کی فرماں برداری کر کے ادب لکھنے والوں کا حشر سامنے آیا تو پارٹی لائن کا تصور تو از خود منہدم ہونے لگا لیکن دوسری طرف بعض ناقدین نے ادب میں سمت کے تعین کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔شائد جدیدیت کی انتہا پسند روش کے باعث ایسا مطالبہ کیا گیا۔یہ انتہا پسند روش بے شک محض تجرباتی حد تک ٹھیک تھی۔تخلیقی سطح پر اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں بنی۔تا ہم تخلیقی ادب میں سمت کا تعین بھی پارٹی لائن سے ملتی جلتی بات ہے۔سچا تخلیقی ادب تو ان دیکھے دیاروں کا سفر ہوتا ہے۔اگر سمت کا تعین کر لیا جائے تب بھی نئی دنیا ئیں تو اصل سمت سے بھٹکنے کے بعد ہی دریافت ہوتی ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ نذیر فتح پوری اب “بے سمتی کا راہی” ہے۔
نذیر فتح پوری کی ایک غزل پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ غزل تو میں نے کہنی تھی لیکن مجھ سے پہلے نذیر فتح پوری نے یہ غزل کہہ دی۔
جشنِ نمرود مناتے ہیں ترے شہر کے لوگ مجھ کو شعلوں میں جلا تے ہیں ترے شہر کے لوگ
اتنے فرعون صفت ہو ں گے یہ معلوم نہ تھا مجھ کو سولی پہ چڑھاتے ہیں ترے شہر کے لوگ
جب بھی آتا ہوں میں پیغامِ محبت لے کر راہ میں کا نٹے بچھاتے ہیںترے شہر کے لوگ
تشنہ کامی کو مری اور بڑھانے کے لئے پہرے پانی پہ بٹھاتے ہیں ترے شہر کے لوگ
اب بھی راون کی صفت رکھتے ہیں رکھنے والے اب بھی سیتا کو چراتے ہیں ترے شہر کے لوگ
بانسری جب بھی بجاتا ہوں میں جمنا ٹٹ پر تہمتیں مجھ پہ لگاتے ہیں ترے شہر کے لوگ
مجھ کو اس دور کا سقراط سمجھ کر ہی نذیر زہر کا جام پلاتے ہیں ترے شہر کے لوگ
نذیر فتح پوری کی غزل میں بے ساختگی کی کئی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔چند اشعار۔
میں بنیے کا قرض نہیں
بانٹ نہ مجھ کو قسطوں میں
نیکیاں بوئیں اور بدی پائی
ہم نے یہ کونسی صدی پائی
میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ نذیر
مرے احباب مٹا دیں گے مجھے
زندگی موت کی امانت ہے
زندگی کو سنبھال کر رکھیئے
یہ شو خیاں کوئی دیکھے مرے مقدر کی
نذیر نام رکھا اور ڈرا دیا مجھ کو
غزل کی پرانی روایت سے آگاہی۔ترقی پسند روایت سے واقیت اور انتہا پسند جدیدیت کے دیار کی سیاحت کے بعد اب نذیر فتح پوری جدید غزل میں اپنامقام بنا رہے ہیں۔ان کے تجربات اور امکانات کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ جدید غزل میں اپنا مقام بنانے اور اسے مستحکم کرنے میں کامیاب رہیں گے۔میں ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔اپنی دعا کے ساتھ نذیر فتح پوری کو انھیں کے ایک شعر کے ذریعے کہنا چاہتا ہوں۔
جو دل کی کیفیت ہے اسے آنکتے رہو
کاغذ کی ٹہنیوں پہ غزل ٹانکتے رہو
(مطبوعہ ماہنامہ تجدیدِ نو اسلام آباد،لاہور شمارہ : اپریل ۱۹۹۵ء)