جب دل کا ورق لکھو
بات ہو سادہ سی
کچھ بھی نہ ادق لکھو
لکھی تو بہت’’یاری‘‘
سمجھا نہیں اب تک
لفظوں کی ریاکاری
بے خوابی کی نظمیں ہیں
چین اُڑا دیں گی
یہ ایسی ہی چیزیں ہیں
لب ہیں ،نہ دعائیں ہیں
کیسی ہے مجبوری
آہیں نہ صدائیں ہیں
ہر لفظ ہے بازی گر
سینے پہ کاغذ کے
دکھلائے عجب منظر
پھولوں کو ہنسا دینا
طرفہ تماشہ ہے
کلیوں کو رُلا دینا
تفریق بڑھاتے ہیں
دودھ کے آنگن میں
دیوار اُٹھاتے ہیں
آسیب کا سایا ہے
اپنا جو رستہ تھا
وہ آج پرایا ہے
اندھیارے مٹا دینا
دل کی منڈیروں پر
اک دیپ جلا دینا
ساون ہے تو سر گم ہے
کیسے یہ رشتے ہیں
تتلی ہے تو شبنم ہے
مت کوئی وظیفہ پڑھ
خود کے سمجھنے کو
بس دل کا صحیفہ پڑھ
ماضی سے چھڑا مجھ کو
آج کا انساں ہوں
قصے نہ سنا مجھ کو
بے رنگ ادا پہنے
آگیا پھر ساون
زخموں کی قبا پہنے
اتنی سی تیاری رکھ
سانپوں کی بستی میں
چندن سے نہ یاری رکھ
ہم کاہے سے ڈرتے ہیں
خود سے نہیں ڈرتے
ہمسائے سے ڈرتے ہیں
منظر ہیں عذابوں کے
’’ریت سمندر‘‘میں
نقشے ہیں سرابوں کے
بیداری سے کیا لینا
رات کی پلکوں سے
کچھ اشک اُٹھا لینا
ہر راز بیاں کردے
اپنی حقیقت کو
تو سب پہ عیاں کر دے