بھار ت کے شاعروں میںنذیر فتح پوری اور رشید اعجاز نے ایک ساتھ اور باقی سارے ماہیے نگاروں سے پہلے درست وزن میں ماہیا نگاری کی۔ رشید اعجاز مرحوم کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ تھوڑے سے ماہیے اردو ماہیے کو عطا کر سکے ۔نذیر فتح پوری نے ماہیے کہنے میںفعالیت کا مظاہرہ کیا جو ان کی ماہیے سے محبت کا نتیجہ ہے۔ انہوںنے حمدیہ، نعتیہ ماہیے لکھے، بزرگان دین سے اپنی عقیدت کا اظہار ماہیے میں کیا ۔ساون، تتلی، وہ اور کتاب کے عناوین کے تحت انہوںنے یک موضوعی ماہیے بھی لکھے ۔ان کی ماہیا نگاری ایسے انداز کے ماہیوں میں اپنا حسن دکھاتی ہے۔
موجوں میں بھی بکھریں گے
پار سمندر بھی
ہم لوگ ہی اتریں گے
امواج کے دھاروں تک
اپنی کہانی ہے
طوفاں سے کناروں تک
سینے سے امڈتے ہیں
درد کے یہ بادل
آنکھوں سے برستے ہیں
قطرے سے بھنور تک ہے
رنگ محبت کا
ذرے سے گہرتک ہے
خوابوں کا جہاں رکھ لے
آگے اندھیرا ہے
کچھ کا ہکشاںرکھ لے
سیراب نہیں کرتا
تشنہ لبوںکو وہ
تشنہ بھی نہیں رکھتا
گُل کا ہے، نہ گِل کا ہے
تم کو سنائیں کیا
یہ ماجرا دل کا ہے
یہ کرب بھی سہتے ہیں
اہل سمندر اب
تالاب میں رہتے ہیں
لمبائی سے مت ڈرنا
دل کے فسانے کی
تلخیص نہیں کرنا
گفتار زمانے کی
دل پہ گری جیسے
تلوار زمانے کی
یادوں کے چراغوں کو
تیز نہیں کرنا
جلتے ہوئے داغوں کو
کچھ پیڑبھی اونچے تھے
یار تھے کم ہمت
انگور بھی کھٹے تھے
آنکھوں کی چمک جاگی
لمس تراپا کر
سانسوں کی مہک جاگی
رخ دیکھ ہواﺅں کا
دیپ جلانا پھر
رستے پہ دعاﺅں کا
نذیر فتح پوری کے ایسے ماہیوں میں پنجابی ماہیوں کے رس کی ہلکی سی پھوار ہوتی محسوس ہوتی ہے جس سے تروتازگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح کے ماہیے اپنی مختلف کیفیتوں کے ساتھ دل پر براہ راست اثر کرتے ہیں۔ ان ماہیوں کے موضوعات محض پنجاب سے مخصوص نہیں ہیں اس کے باوجود ان میں ماہیے والی مٹھاس موجود ہے۔ شاید ایسا اس لیے ہے کہ یہ ماہیے بے ساختگی سے ہوتے گئے ہیں۔ ان کے برعکس نذیر فتح پوری نے جہاں شعوری طور پر پنجاب کا کوئی حوالہ لانے کی کاوش کی ہے وہیں ان کے ماہیے رس اور مٹھاس سے تہی ہوتے نظر آتے ہیں اور آمد کی بجائے آورد کی صورت ابھرآتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ دو ماہیے دیکھیں:
کچا ہے گھڑا س کا
راہ میں دریاہے
کیا ہوگا خدا ! اس کا
الزام کڑا لے کر
یار سے ملنے کو
نکلی ہے گھڑا لے کر
دراصل نذیر فتح پوری راجستھانی شاعر ہیں۔ا ن کے ہاں پنجاب کے دریائی اور میدانی مزاج کی بجائے صحرائی مزاج ملتا ہے۔ ماہیے کے مزاج میں صحرائی اثرات کی مکمل نفی تو نہیں کی جا سکتی لیکن اس میں کوئی شک نہیںکہ ماہیے کے مزاج کا غالب عنصر میدانی اور پنج دریائی ہے۔
ہم مختلف قصوں، کہانیوں کی تلمیحات کو ماہیے میں بیان کر سکتے ہیں۔ نئے موضوعات بھی ماہیے کے لیے شجر ممنوعہ نہیں ہیں لیکن ان کا ماہیے کے مزاج سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ میرا خیال ہے کہ خود نذیر فتح پوری کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کیونکہ انہوںنے شعوری طور پر پنجابی ثقافت کے حوالے پیش کرنے سے زیادہ اپنے راجستھانی ماحول کو اپنا موضوع بنانا شروع کر دیاہے۔ان کا یہ تجربہ بھی بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم اگر پنجابی مزاج کے ماہیے میں راجستھانی ثقافت کی ادبی پیوند کاری کا یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو اردو ماہیا ایک نئے ذائقے سے آشنا ہو گا۔ راجستھانی ماحول کے بعض ماہیے یہ احساس دلاتے ہیں کہ نذیر فتح پوری کا یہ تجربہ ابھی کچا پکا ہے۔ مثلاً
چاندی ہوں نہ سونا ہوں
توڑ دے ٹھوکر سے
میں ریت کھلونا ہوں
آندھی میں بھی لہرے گی
ریت کی رسی ہے
مٹھی میں نہ ٹھہرے گی
اک جاٹ کابیٹا ہے
بوند بھروسے پر
ہل جوتنے نکلا ہے
مرتوں کو جلا سجنی
گرمی کا موسم ہے
پنکھا تو جھلا سجنی
یہ گاﺅں کی حالت ہے
ریت گھروندوں پر
آندھی کی حکومت ہے
بنجاروں کی ہے ٹولی
مہماںدو دن کے
پھر دوست نہ ہم جولی
اس طرز کے ماہیوں کے برعکس ایسے ماہیے ان امکانات کی طرف روشن اشارہ کرتے ہیں جو پنجاب کے ماہیے میں راجستھانی ثقافت کی آمیزش سے ماہیے کے حسن میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں:
کچھ سپنے سلونے تھے
جھولی میں بچپن کی
کچھ ریت کھلونے تھے
صحرا میں صدادینا
ایسے لگا جیسے
بہرے کو دعا دینا
بے گھر ہیں یہ بے چارے
ان کا مقدر کیا
بنجارے ہیں بنجارے
کیوں روٹھ گیا پانی
ابر نہیں برسے
سب سوکھ گیا پانی
راجستھانی ماحول سے ہٹ کر ، نذیر فتح پوری نے ماہیے کے مخصوص موضوعات سے آگے بڑھ کر بعض اہم موضوعات کو اپنے ماہیوں میں چھوا ہے۔
بارود پہ بیٹھی ہے
میرے زمانے کی
یہ فاختہ کیسی ہے
کیا فتویٰ تمہارا ہے
بزم اناا لحق پہ
اب راج ہمارا ہے
کل رات جو بھڑکی تھی
اپنی ہواﺅں سے
تھی خاک قلندر کی
تسلیم نہیں کرنا
اہل رعونت کی
تعظیم نہیں کرنا
تاریخ نویسی کے نام پہ ہمارے ہاں ہی نہیں ساری دنیا میں جھوٹ کی فیکٹریاں لگی رہی ہیں۔ تنخواہ دار تاریخ نویسوں نے تو خیر تاریخ لکھتے وقت صرف اور صرف اپنے آقاﺅں کا حق نمک ہی ادا کرنا ہوتا ہے، بظاہر غیر جانبدار مورخین نے بھی اپنے تعصبات سے تاریخی حقائق کو مسخ کیاہے۔ اس سلسلے میں نذیر فتح پوری نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے:
تم ایک مورخ ہو
فرض تمہارا ہے
جو سچ ہے وہی لکھو
اس قسم کے موضوعات کو ماہیا اپنے اندر جذب کرتا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ تاہم نذیر فتح پوری کی جرات کی داد ضرور دینی چاہیے کہ انہوںنے ماہیے سے محبت کے باعث ماہیا نگاری میں نئے موضوعات کولا کر ماہیے کے دامن کو وسیع کرنے کی کاوش کی ہے۔ یہ کاوش آگے چل کر نا کام ہو جائے تب بھی ماہیے سے نذیر فتح پوری کی محبت کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
میں امید کرتا ہوں کہ نذیر فتح پوری ماہیے میں راجستھانی ثقافت کے اثرات خوبصورت اور دل آویز انداز سے پیش کر کے ماہیے کو راجستھان کا بھی عوامی گیت بنا دیں گے اور نئے موضوعات کو ایسے انداز سے پیش کریں گے کہ ماہیا انہیں اپنے اندر جذب کر لے گا اور اس انجذاب کے ساتھ اس کا دامن مزید وسیع ہو جائے گا۔ ویسے اردو ماہیے کی تاریخ میںزندہ رہنے کے لیے نذیر فتح پوری کا یہ اعزاز بھی معمولی نہیںکہ ماہیا نگاری کے اس فعال دور میں وہ بھارت سے اردو کے سب سے پہلے ماہیا نگار ہیں لیکن اردو ماہیے کے لیے ان کی خدمات اولیت کے اس اعزاز تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اردو ماہیے کو ابھی ان سے بڑی توقعات ہیں۔
٭٭٭٭