کال۔ملاٶ ناں۔۔۔ رک کیوں گٸے۔۔۔؟؟
دلاور شاہ نے کبیر شاہ کو گڑبڑاتے دیکھا تو سرد لہجے میں کہتے آگے بڑھے۔
بھاٸی۔۔۔ صاحب۔۔ وہ میں۔۔۔؟؟
کبیر شاہ گڑبڑاٸے۔
کیاہوا۔۔؟ کوٸی بات نہیں بن پارہی۔۔۔؟؟
کبیر شاہ۔۔۔ آپ۔۔ہمارے کچھ نہیں تھے۔۔۔ لیکن۔۔۔ آپ کو ہم نے اپنا بھاٸی مانا۔۔۔ اپنا سب کچھ۔۔۔۔!! لیکن۔۔ آپ۔۔۔ اتنا گر جاٸیں گے۔۔۔ یقین نہیں آتا۔۔۔
دلاور شاہ کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
کیا۔۔۔۔ کیا ۔۔۔مطلب۔۔۔ آپ کی بات کا۔۔۔؟؟
کبیر شاہ حیران ہوتا بولا۔
کسی بھول میں مت رہیے گا۔۔۔ کبیر شاہ۔۔۔ !! ہم سب جان گٸے۔۔۔ آپ کی نیت کو بھی اور آپ کی پلاننگ کو بھی۔۔۔۔!!
دلاور شاہ سخت غصیلے لہجے میں بولے۔
کبیر شاہ کو پسینے آنے لگے۔
ککککیسی۔۔۔۔۔ پلاننگ۔۔۔۔؟؟
وہ ابھی بھی لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے۔
تھوڑا انتظار کریں۔۔۔۔ ابھی سب پتہ چل جاٸے گا۔۔
دلاور شاہ کے کہنےپے کبیر شاہ کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
بہت بچنے کے بعد بھی ارباز پکڑا جا چکا تھا۔
لیکن اس کے اس انکشاف پے کہ اس نے فارس کی گاڑی کے بریکس فیل کیے ہیں۔
زیان ٹینشن میں آگیا۔
اس نے فارس کو کال ملاٸی۔
جبکہ ارباز کی اچھی خاصی دھلاٸی کر چکا تھا۔
اور وہ ادھ موا ہو کے پڑا تھا۔ ارسم بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس کے ساتھ ہی کی وجہ سے وہ سیکریٹلی یہ کام کر پاٸے تھے۔
ورنہ ا کے لیے بہت مشکل ہو جانا تھا۔
کالجا رہی تھی لیکن فارس کالپک نہیں کر رہا تھا۔
اب تک سب پلان کے مطابق ہو رہا تھا۔
یہ کیسے ۔۔۔ ہوگیا۔۔؟؟ یان کو فارس اور عین کی فکر ہوٸی۔
پلیز ۔۔بھاٸی کال اٹھاٸیں۔
گاڑی کو اور راستے پے ڈالتے فارس پرسکون تھا۔
زیان کی آتی کال دیکھ وہ مسکراتا رہ گیا۔
وہ جانتا تھا وہ کیوں کال کر رہا ہے۔۔
لیکن فارس نے کال پک نہ کی۔
آپپپ کی کال آرہی ہے۔۔۔!!
عین نے لب بھینچتے کہا۔
جبکہ ذہن ابھی بھی ارباز کی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔
فارس نے ایک معنی خیز نظر عین پے ڈالی۔اور کال پک کر لی۔
بھاٸی۔۔۔۔۔!! آپ۔۔ ٹھیک ہیں۔۔ ناں۔۔۔؟؟
چھوٹتے ہی پوچھا۔
کام ہوگیا۔۔۔؟؟ فارس نے اسکی بات کاٹ کے پوچھا۔
وہ پکڑا گیا ہے بھاٸی۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اس نے۔۔ آپ کی گاڑی۔۔۔ کے۔۔۔۔؟؟ زیان سے بات نہ ہو پارہی تھی۔
لہجہ نم ہو رہا تھا۔ وہ اب اینڈ پے آکے ہار نہیں سکتا تھا۔
جانتا ہوں۔۔۔!! فارس نے پرسکون انداز میں کہا۔
واٹ۔۔۔؟؟ بھاٸی۔۔۔ آپ پھر۔۔ کیوں۔۔۔ بیٹھے۔۔۔ اس گاڑی میں۔۔؟؟
زیان کو فارس نے حیرت میں ڈال دیا۔
کبھی کبھی اپنی آزماٸش بھی تو کرلینی چاہیے ناں۔۔۔!!
فارس کی سپاٹ لہجے میں کہی بات زیان کی سمجھ میں نہ آٸی۔
بھاٸی۔۔۔۔؟؟ آپ نے اپنی اور بھابھی دونوں کی جان۔۔۔؟؟
بھروسہ رکھو۔مجھ پے۔۔۔ پلان کے مطابق چلو۔۔۔!!
کہتےہی فارس نے کال۔کاٹ دی۔
زیان موباٸیل کوہی گھورتا رہ گیا۔
ارسم کی طرف مڑا ۔ اس کے لیپ ٹاپ پے انکی لوکیشن چیک کرتا وہ ایک اور گاڑی کابندوبست کرتا ان کے پیچھے بھیجنے کے آرڈرز دے چکا تھا۔اور اب۔۔
پلان کے مطابق ارباز کو اسے حویلی لےکے جانا تھا. اور فارس نے اسے وہیں ملنا تھا۔
ارباز کو کھینچ کے اٹھایا۔ اور اسے گریبان سے پکڑا
چل بچے۔۔۔۔!! بہت ہوگیا۔۔ یہ hide and seek کا کھیل۔۔۔ اب سارا کھیل تماشا دی اینڈ۔۔۔۔!!
زیان نے دانت چباتےکہا۔ اور اسے لیے گاڑی کی جانب بڑھا۔
اسے دو گولیاں لگیں تھیں۔
ایک بازو پے لگی گولی تو اسے چھو کے گذری تھی۔
لیکن ہاتھ پے لگی گولی۔اندر پیوست ہو کے رہ گٸی تھی۔ اور اسکا درد ارباز کو اب برداشت سے باہرہو رہا تھا۔ وہ چاہ کے بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔
یہ۔۔۔ ہم۔۔کہاں۔۔۔ جا۔۔رہے ہیں۔۔۔؟؟
اچانک عین کو احساس ہوا کہ یہ راستہ تو گھر کی طرف جاتا ہی نہیں۔
موت۔۔ کی طرف۔۔۔!!
بنا اس کی طرف دیکھے سپاٹ لہجے میں کہا۔
عین نے لرزیدہ نظروں سے فارس کو دیکھا۔
کیا ابھی بھی اور امتحان باقی ہیں۔۔۔؟؟
عین سوچ کے رہ گٸ۔
کیا خیال ہے۔۔۔۔؟؟ ایک آخری آزماٸش۔۔۔؟؟
فارس نے گاڑی کا اسٹیرنگ موڑتے عین کی آنکھوں میں دیکھتے بے تاثر انداز میں کہا۔
عین نے ہونٹوں پے زبان پھیر کے انہیں تر کیا۔
اور سامنے دیکھنے لگی۔
گاڑی روکیں۔۔۔۔۔!! عین کو اسکی باتوں پے دکھ ہوا۔
اسے اب بھی عین پے یقین نہ تھا۔ اس بے یقینی نے عین کو اندر سے توڑ ڈالا۔
فارس سامنے دیکھتا ہنسا۔
گاڑی۔۔۔ نہیں رک سکتی۔۔۔ اب نورِ جان۔۔۔۔!!
ایک جذب کے عالم۔میں کہتا وہ نورکا دھڑکاگیا۔
نور نےآنکھیں پھیلا کے اس سر پھرے کو دیکھا۔
کیاااا۔کیااا۔۔مطلب۔۔۔؟؟
گاڑی کے بریکس فیل ہو گٸےہیں۔
ایک طرف پہاڑ ہیں۔۔۔ اور دوسری طرف کھاٸی۔۔
اب فیصلہ تمہارا ہے۔۔۔!!
پہاڑوں کے بیچ گاڑی ماروں یا۔۔ کھاٸی میں گر کے مرنا پسند کرو گی۔۔۔؟؟
فارس نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیۓ۔
عین کو وہ کہیں سے بھی مذاق کرتا نہیں لگا تھا۔
آپپپ۔۔۔۔۔ کیا۔۔کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟ آپ۔۔۔ مذاق۔۔ کر۔۔۔۔!!
نورِ جان۔۔۔!! فارس شاہ مذاق نہیں کیاکرتا۔۔۔!!
عین نے لب بھینچے۔
آنکھیں بند کیں۔
ٹھیک ہے۔۔۔!! اگر مرنا ہی ہے ۔۔ تو ۔۔۔ جیسے مرضی آپ کی۔۔۔۔!!
عین کے کہنے پے۔۔۔ فارس نے زوردار قہقہہ لگایا۔
عین کو اسکی دماغی حالت پے شک ہوا۔
گاڑی میں پٹرول ختم ہو رہا تھا۔
اور یہی تو فارس چاہتا تھا۔
کیاہوا۔۔۔؟؟ ڈر نہیں لگ رہا۔۔۔؟؟ ہم۔موت کے منہ میں ہیں۔۔۔!! فارس گاڑی کو اپنے قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ ہینڈ بریک کا استمال کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن صحیح جگہ کے انتظار میں تھا۔
جہاں اسے گاڑی کی سپیڈ سلو کرنے میں مدد مل سکے۔
آپ۔۔۔ کے ساتھ رہ کر ساری زندگی۔۔ شک کی سولی پے لٹکے رہنے سے بہتر ہے۔۔ہم مر ہی جاٸیں۔۔۔
عین نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتے سامنے ونڈ اسکیرین کے پار دیکھا۔
سوچ لو۔۔۔ موت۔۔۔میری بانہوں میں آٸے گی۔۔۔!! فارس شاہ کی۔۔۔!!جس سے۔۔ تم پیار نہیں کرتی۔۔۔۔!!
ایک بار وہ پھر اسکی ہی آزماٸش کر بیٹھا۔
عین نے ایک گہری نظر اس پے ڈالی۔
یہ۔۔ تو آپ۔۔ کو زیادہ پتہ ہے ناں۔۔۔!! کہ ہمارے دل میں کون ہے۔۔۔۔؟
عین نے گاڑی کو ان بیلنس ہوتے دیکھا تو گاڑی کو مضبوطی سے پکڑا۔
یہی تو۔۔۔ دکھ رہے گا۔۔۔ کہ ۔۔۔ تمہارے۔۔۔ اس دل۔۔میں۔میں۔۔۔ کبھی تھا ہی نہیں۔۔۔۔!!
فارس نے گاڑی کو ساتھ دیوار کے ساتھ جوڑا۔ گاڑی رگڑ کھانے لگی۔
دونوں ہی گاڑی کے ساتھ ڈولے لگے۔
عین کو موت بہت قریب نظر آنے لگی۔
سختی سے آنکھیں بند کرلیں۔
فارس نے مسکرا کے اسے دیکھا۔
اگر دل کی دھڑکنوں کودل سے سنتے تو پتہ چلتا۔۔۔ کہ ان دھڑکنوں میں کون رہتا ہے۔۔۔۔!!
دھیرے سے کہے الفاظ فارس کو ایک انجانی خوشی دے گٸے۔ جسے وہ خود بھی نہیں سمجھ پایا۔
گاڑی کو ایک ہاتھ سے تھامے اس نے دوسرے ہاتھ سے عین کو کھینچ کے اپنی طرف کیا۔ اور اسکی ساٸیڈ کا دروازہ کھول دیا۔گاڑی کی سپیڈ دیوار کے ساتھ رگڑ کھانے سے سلو ہوگٸی تھی۔
Jump….!!
فارس کےکہنے پے عین نے اسے بے یقینی سے دیکھا۔
noor e jaan… jump…
فارس نے اسکے کان میں گھمبیر آواز میں کہا تو وہ اسے دھڑکتے دل سے دیکھنے لگی۔ اور نفی میں گردن ہلاٸی۔
فارس زیرِلب مسکایا۔
چلو۔۔۔ پھر ایک ساتھ کودتے ہیں۔۔۔!!فارس کہتے ساتھ اسکی طرف مڑا۔
اور اسے لیے بنا ایک لمحے کی دیری کیے وہ گاڑی سے کودا۔ گاڑی سیدھی لڑھکتی جا رہی تھی۔ اسکا رخ پہاڑی کی طرف تھا۔
فارس عین کو خود سے لگاٸے ایک ساٸیڈ پے گرا تھا۔
وہ دونوں ہی لڑکتے ہوٸے ایک درخت کے پاس پہنچے۔ فارس نے ہاتھ بڑھا کے درخت کی ایک ٹال کو پکڑا۔ اور نیچے کھاٸی میں گرنے بچ گیا۔ اور اسی کے سہارے وہ عین کو لیے اوپر کو آیا۔
عین نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔
فارس اسے مکمل اپنی آغوش میں لیے ہوٸے تھا۔
اسے چند ایک چوٹیں آٸیں تھیں لیکن عین کواس نےایک چوٹ بھی نہ لگنے دی۔
سر اٹھاتا اسے دیکھنے لگا۔ جس کی آنکھیں ابھی بھی بند تھیں۔
نورِشاہ۔۔۔۔!! بہت گھمبیر آواز کانوں سے ٹکراٸی۔
عین کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا۔
دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔
فارس کو اپنے اوپر جھکا پایا۔ تو دل کی دھڑکنوں کا شور مزید بڑھ گیا۔
تم ۔۔۔جانتی ہو۔۔۔میں جب بھی تمہارے قریب آتا ہوں۔۔مجھے تمہاری دھڑکنوں کا شور سناٸی دیتا ہے۔۔۔
اسکے کانوں میں سرگوشی کرتے وہ اسے سمٹنے پے مجبور کر رہا تھا۔
لیکن فارس ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوا۔
بلکہ مزید اس کے اور اپنے بیچ کے خلا کو بھی پر کرتے وہ اس پے مکمل قابض ہوا۔
اور میں فارس شاہ۔۔۔ ان دھڑکنوں کا محافظ ہوں۔۔۔!
کہتے ہوٸے وہ ایک پیا بھرا لمس اسکے ماتھے پے چھوڑ گیا۔
عین کی پلکیں لرزیں۔
فارس اس کے چہرے پے قوس و قزاح کے بکھرے رنگ دیکھ سکتا تھا۔
اور ان لمحوں کو وہ دل سے محسوس کر رہا تھا۔
اسکا من چاہا۔ وقت یہیں تھم جاٸٕے۔ اور وہ یونہی اس کی بانہوں میں رہے۔
نورِ شاہ۔۔۔! کیا۔۔۔ یہیں رہنے کا ارادہ ہے۔۔۔؟
کان کی لو کو چھوتاوہ عین کی دھڑکنوں میں مزید ہلچل مچا گیا۔
آپپپ ہٹیں۔۔تومیں۔۔۔۔؟عین نے بمشکل پلکیں اٹھاتے گراتے کہا۔
فارس مسکراتا ہوا اٹھا۔ اور ہاتھ بڑھا کے عین کو بھی کھڑاکر دیا۔
گاڑی۔۔۔۔گاڑی کہاں گٸ۔۔۔؟؟
ادھر ادھر دیکھتے حیرت سے پوچھا
فارس نے ماتھے پے ہاتھ مارا۔
وہ معصوم تو تھی۔ لیکن بے وقوف بھی ہوگی۔ یہ پتہ نہ تھا۔
کیا ہوا۔۔۔؟ آپ کو سر پے چوٹ لگی ہے۔۔۔؟
عین کااس کے ماتھے پے ہاتھ مارنے کی یہی سمجھ آٸی۔
نہیں۔۔۔۔سر پےنہیں ۔۔۔ یہاں لگی۔۔۔ ہے۔۔۔!فارس نے اسکا ہاتھ اپنے دل کے مقام پے رکھا۔ تو اسکی زبانکو بریک لگ گٸ۔
فارس کے ہاتھ میں تھاما ہاتھ لرزا۔
فارس نے اسے کھینچ کے خود سے قریب کیا۔
یہ درد اسا درد ہے جسکی کوٸی دوا نہیں۔۔۔!!
کانوں میں سرگوشی کرتا وہ عین کے حواسوں پے پھر سے حاوی ہونے لگا۔
ہہہمممم گھر۔۔کیسے جاٸیں گے۔۔۔؟
عین کے غیر متوقع سوال پے فارس نے لب بھینچ کے اسے دیکھا۔
اور اسکا ہاتھ تھامےاوپر سڑک کی طرف بڑھا۔
تھوڑا سا راستہ طے کرتے نور تھک سی گٸ۔
وہ سڑک پے آ چکے تھے۔
دونوں اطراف میں دیکھا۔ کوٸی بھی کہیں بھی دور دور تک دکھاٸی نی دیا۔ شام کے ساۓ بھی گہرے ہونے لگے تھے۔
اللہ جی۔۔۔۔!! تو ہی مدد کر۔۔۔!!
زیرِ لب دعا مانگی۔
فارس اس چھوٸی موٸی کو دیکھے جارہا تھا جس نے ان چند دنوں میں ہی فارس شاہ کے ساتھ کے بدلے کتنی مشکلیں جھیل لیں تھیں۔
عین اس کے پلان کا حصہ نہ تھی۔
وہ تو نکاح کے بعد ہی اسے۔۔۔۔
آ پ کیا سوچنے لگے۔۔۔؟ پلیز کال کریں ناں کسی کو۔۔۔۔!!
وہ ارباز۔۔۔پھر سے نہ آجاۓ۔۔۔۔!!
کہتےہوۓ لہجے میں ڈر فارس نے صاف محسوس کیا۔ جواسے ناگوار گزرا۔
پہلی بات۔۔۔۔میرے پاس موباٸل نہیں۔۔۔ وہ گاڑی میں ہی تھا۔
دوسری بات۔۔۔ فارس شاہ کی بیوی ہوتے تم۔۔کسی سے بھی ڈرو۔۔۔مجھے قطعی منظور نہیں۔۔۔
فارس شاہ کے لہجے کی سختی عین نے اپنے دل ہے محسوس کی۔
ہم۔۔۔گھرکیسے جاٸیں گے۔۔۔؟ دور دور تک کوٸی گاڑی نہیں ہے۔۔۔ ؟
اگلا سوال سنبھل کے پوچھا۔ وہ اس شخص کو ابھی بھی نہ سمجھ پاٸی تھی۔
ایک پہیلی ہی تھا یہ شخص۔
آج رات یہیں۔۔۔ گذرے گی۔۔۔۔!!
فارس نے پر سکون ہوتے کہا۔
عین نے پلٹ کر حیران نظروں سے دیکھا۔
تیرے سامنے آجانے سے
یہ دل۔میرا دھڑکا ہے۔۔
غلطی نہیں ہے میری
قصور نظر کا ہے۔۔۔
جس بات کا تجھ کو ڈر ہے
وہ کر کے دیکھا دوں گا۔۔۔
ایسے نہ مجھے تم دیکھو۔۔۔
ایسے سے لگا لوں گا۔۔۔
تم کو میں چرالوں گا تم سے دل میں چھپا لوں گا۔۔
فارس کی نظروں میں چھپی داستاں کو پڑھتے عین نے فوراً دھڑکتے دل سے رخ پھیرا۔
دھیرے دھیرے چلتا اس کے پاس آیا۔
اور اس کا ہاتھ تھاما۔
اسے اپنی طرف موڑا۔
اسکی نظریں جھکی اور دل کی رفتار بڑھی ہوٸی تھی۔
کبھی بھی وہ اپنی زندگی میں عفان کے قریب نہیں ہوٸی تھی۔
عفان کی دوستی ہی اس کے لیے سب کچھ تھا۔
وہ ہمیشہ اسکی کٸیر کیا کرتا تھا۔
اسکی کٸیر کب محبت میں بدلی خود عفان بھیبنہیں جانتا تھا۔
ہاں۔۔ شاید ۔۔۔ عین کی بھی بدل جاتی۔۔ اگر۔۔ دل میں فارس نہ ہوتا۔۔ جس سے وہ خو بھی انجان تھی۔
اور آج تک چھپاتی آٸی تھی۔
جو راز وہ خود سے بھی چھپاتی آٸی تھی۔ وہ راز فارس نے پا لیا تھا۔
یہاں دیکھو۔۔۔ میری طرف۔۔۔!!
گفارس کی گھمبیر آواز عین کے کانوں سے ٹکراٸی تو اسکو دل کو سنبھالنا مشکل لگنےلگا۔
آگ برسانے والا ایک دم سے محبت برسانے لگے تو کتنا عجیب سا لگتا ہے۔۔۔ کوٸی عین سے پوچھتا۔
نورِشاہ۔۔۔!! بہت قریب ہوتے اس نے پکارا۔ تو عین نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ کہاں اتنی قربت برداشت کر سکتی تھی۔
اب تو لرزنے کی کیفیت طاری ہوگٸ تھی۔
وہ فارس تھا۔ اور عین فارس سے کچھ بھی ایکسیپٹ کر سکتی تھی۔
فارس زیرِ لب مسکرایا۔ ایک گاڑی ان کے پاس آکے رکی۔
اور ڈراٸیورنگ سیٹ پے بیٹھا شخص فورا باہر آیا۔
سر۔۔ چلیں۔۔۔!! وہ چاق و چوبند کھڑا کہہ رہا تھا۔ فارس نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ جانتا تھا زیان نے ہی اسے بھیجا ہے۔ اسے اپنے بھاٸی پے بے حد پیار آیا۔ اور کن اکھیوں سے گاڑی کو دیکھتی شکر کا کلمہ پڑھتی عین کو ساتھ لیے وہ گاڑی کی بیک سیٹس پے جا بیٹھا اور گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
زیان نے انسانیت کے ناطے ہاسپٹل سے ارباز کی مرہم پٹی کروا دی۔ لیکن اسکو ایک لمحے کےلیےبھی بھاگنے کا موقع نہ دیا۔ اور اسے لیے بڑی حویلی آیا۔
وہ قانون کا بھی مجرم تھا۔
اور ارسم نے اس وعدے پے اسے ساتھ لےجانے دیا۔ کہ وہ اسے قانون کے حوالے کرے گا۔
اور فوجی۔۔ اپنا وعدہ کب توڑتا ہے۔۔۔؟؟
ہاں وہ فوجی ہی تو تھا۔۔۔
اپنے ملک کے غداروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا۔
وہیں جہاں وہ آٸی ایس آٸی ایجینٹ تھا۔
وہیں فارس کی زات ایک راز تھی۔
کوٸی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے۔۔۔؟؟
جو بظاہر۔۔ ملک سے تو باہر تھا لیکن وہ دو سال سے ملک کے اندر ہی تھا۔ یہ بات سواٸے زیان اور عفان کے کوٸی نہ جانتا تھا۔
کہ فارس شاہ کی حقیقت کیا ہے۔۔۔!!
پوری حویلی میں اس وقت سبھی جاگ رہے تھے۔
ان دو دنوں میں جو کھ ہو چکا تھا۔
کسی کونادازہ نہیں تھا۔ کہ یکے بعد دیگرے مشکلات کا سامان کرنا پڑے گا۔
اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔
اب فیصلے کا وقت تھا۔
زفارس عین کو لیے حویلیکے داخلی راستے سے اندر داخل ہوا۔
عین کو دیکھتے سب کی جان میں جان آٸی۔
ماں سے لگی وہ آنسو بہانے لگی۔ فارس نے نفی میں سر ہلایا۔
کوٸی موقع نہیں جانے دیتی تھی یہ لڑکی۔
فارس۔۔۔ !! زیان کہاں ہے۔۔۔؟؟
دلاور شاہ کی آواز پے فارس انکی طرف متوجہ ہوا۔
کیا مطلب۔۔۔؟؟ وہ ابھی تک نہیں آیا۔۔۔؟؟
فارس کو حیرت ہوٸی۔
گاڑی بھی اسے چھوڑ کے جا چکی تھی۔
اور موباٸیل فون بھی اسکا اسکے پاس نہ تھا۔ کہ ہ زیان کو کال کرتا۔
اسی اثنا میں سب کی نظریں حویلی سے اندر آتے دو لوگوں پے اٹھیں۔
کچھ کی نظروں میں بے یقینی تھی۔
کچھ کی نظروں میں غصہ۔
اور کچھ کی نظروں میں ڈر۔۔